ڈاکٹر غزالہ پروین
لیکچرار ڈاکٹر رفیق زکریا کالج ، اورنگ آباد
’’معتوب مسیحا ‘‘
عربی شاعر جمیل صدقی زھاوی
ہمارے بے شمار قارئین اس مضمون کے عنوان کو پڑ ھ کر یا تو اچھنبے میں پڑ جائیں گے یا پھر اُنہیں تجسّس ہوگا کہ ہم نے جمیل صدقی جیسے اہم شاعر کے لیے معتوب مسیحا کی اصطلاح کیوں استعمال کی قوم و ملّت او رمعاشرہ کے دکھ درد کو انگیز کرنا اپنے آپ میں ایک اہم درد مندانہ عمل ہے۔ لیکن معاشرے کی بنیادی خرابیوں کا عادلانہ تجزیہ کرنا اور پھر جرأت ِ بے باک کے ساتھ اس کا شعر و نثر میں اظہار سر فروشی کے مترادف ہوتا ہے۔جمیل صدقی کی نظموں او ر اشعار میں سر فروشی کا یہی جذبہ ٹھاٹھیں مارتا ہے ۔ لہذا اس طرح کی کاوشیںانعام و اکرام سے نوازی نہیں جاتیںبلکہ معتوب ٹھہرائی جاتی ہیں۔ جمیل صدقی ملک و ملّت کے لیے یقینا مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیںلیکن اپنے پیش رو مسیحائوں کی طرح وہ بھی اپنے دور میں معتوب ہی رہے ہیں۔ آزادیٔ نسواں کی حمایت ‘عدل و مساوات اور فرسودہ رسوم و روائج پر بے دریغ لکھنے والا شاعر جمیل صدقی اپنے زمانے کا ایک قابلِ رشک فن کا ر ہے ۔
جدید عربی ادب کی تاریخ مصر پر نیپولین بونا پارٹ کے حملے سے شروع ہوتی ہے ۔ دراصل انیسویں صدی کی ابتداء کی کئی اہم سماجی ‘ معاشرتی او رتاریخی تبدیلیوں کی غمّاز ہے۔جدید سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ محض رہن سہن اور آدابِ زندگی میں غیر معمولی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔جدید سے مراد یہ ہے کہ طرزِ فکر او رجہانِ علم میں اہم ترین اور قابلِ قدر تغیّر پیدا ہونے لگا ۔قدیم عربی ادب کے مقابلے جدید عربی ادب کی کئی نمایا ںخصوصیات ہیں۔ مثال کے طور پر ادبی تفکّرات و نظریات کی سطح پر عالم عِزلی کا انسلاک و ارتباط مغرب سے قائم ہوا ۔ اجتماعیت ‘قومیت ‘ وطنیت کے تصورات و خیالات کا عربی ادب میں نفاذہوا۔حالانکہ نیپولین کی آمد کی معیاد ۱۷۹۸ء سے ۱۸۰۱ء تک تقریباً تین سالوں پر مشتمل رہی لیکن ان تین سالوں میں عالم عربی پر بہت سے مثبت اثرات مرتّب ہوئے ۔ جیسے مصر میں تعلیمی اداروں کا قیام ‘سائنسی او رسماجی علوم میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے سرکاری خرچ پر و فود کو یورپ کے ممالک خصوصاً فرانس بھیجنا وغیرہ ۔اس طرح پریس کا قیام عمل میں آیا ۔ بہت سے صحائف و جرائد کی اشاعت ہونے لگی۔الغرض فرانسیسیوں کی آمد نے اس فرسودہ و پسماندہ ماحول کو جلا بخشی ۔
فرانسیسوں کی آمد سے پہلے مصر میں جہالت و جمود کی فضا طاری تھی۔ان کی آمد سے یہ آہستہ آہستہ دور ہونے لگی ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جدید عربی ادب کو مغربی ادب خاص طور پر فرانسیسی ادب و اسالیب سے استفادہ کا موقع نصیب ہوا ۔ بہت سے مغربی کتابوں کے عربی زبان میں تراجم کیے گئے ۔ نشر و اشاعت میں تیزی آنے لگی ۔عربی ادباء و شعراء مغربی افکار و نظریات کو سمجھنے لگے ۔ کلاسیکی عربی ادب جس کا محور قصّے کہانیاں ‘ مقامات ‘ خطابت ‘ مرثیہ ‘ مداحیہ قصائد او رہجو نگاری پر قائم و دائم تھا ۔ان فرسودہ و مقبّدا اسالیب سے پرے عربی ادباء و شعراء نے ان مغربی ممالک کے روابط و اختلاط سے جدید علوم کی اہمیت کو پر کھا ۔ انہیں یہ محسوس ہوا کہ ان کے افکار و نظریات کس قدر جمود و خمول کا شکار ہیں۔لہذا ان مغربی نظریات کو جاننے کے بعد ان کی کتابوں کا براہِ راست مطالعہ کرنے کے بعد انہیں اپنے ادبی سرمائے اور اپنی کم مائیگی کا شدید احساس ہوا ۔ انیسویںصدی کے اس علوم و معارف کے دو رمیں انہیں اپنا کم مائیگی کا شدید احساس ہوا ۔ مغربی ادبیات جو اجتماعی ‘قومی ‘ وطنی افکار سے معمور تھے اس کے بر عکس ان کا اپنا ادبی سرمایہ صرف ذاتی رجحانات ‘ذاتی رنج و غم ‘بادشاہوں کی مدحت دشمنوں کی ہجو گوئی او ر وفات پر مرثیہ خوانی پر مشتمل تھا ۔ الغرض کلاسیکی عربی ادب میں انہیں جمود و فرسودہ روایتی انداز نظر آیا۔یہی و ہ انقلابات تھے جو فرانسیسیوں کی آمد سے مصر اور دنیائے عرب میں وقوع پذیر ہوئے۔
فرانسیسیوں کے خروج کے بعد انگریزوں کی آمد او ران کا مصر پر نظامِ حکومت یہی وہ عوامل تھے جو یکے بعد دیگرے مصر او ر عالم ِ عرب کو جمود و تعطّل کے ماحول سے نکالنے میں کار گر ثابت ہوئے ۔مغربی حکمرانوں کی آمد کے سیاسی اثرات خواہ منفی ہوں لیکن ان کے اختلال سے بہت سے مثبت اثرات بھی مرتّب ہوئے ۔ تمام عرب ممالک میں جدید افکار پنپنے لگے ۔ عراق ‘شام ‘ لبنان جیسے ممالک خاص طور پر ان جدید نظریات سے بہت جلد اور قابل ِ لحاظ حد تک متاثّر ہوئے ۔یوں تو جدید عربی شعراء و ادباء کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے جدید افکار سے اثر پذیر ہو کر عربی ادب میں نئے گوشوں کی ابتداء کی ۔ انہوں نے مغربی ادباء و شعراء کے فکر و نظر کی تقلید کی ۔ عربی ادب کو نئے زمانے کے ساتھ چلنے کا اہل بنایا اور اپنے افکار سے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مغربی اقوام کی ترقّی او ر تہذیب و تمدّن کا راز نئے ادبی رجحانات میں پنہاں ہے۔ لہذا ایسے بہت سے عربی ادباء و شعراء جو کلاسیکی ادب کے فرسودہ اسالیب و مناھج سے نالاں تھے وہ بھی مغربی اقوام سے اختلاط کے باعث عرب قوم کو ان فرسودہ روایتی اندازِ فکر سے باہر لانے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ان جدید عربی ادباء و شعرا میں ایک اہم نام عراقی شاعر جمیل صدقی زہاوی کا ہے ۔
جدید افکار و نظریات کے حامل اس عراقی شاعر کی پیدائش۱۸۶۳ء میں بغداد میں ہوئی ۔ جمیل صدقی کی تعلیم مروّجہ طریقے پر ہوئی کیوں کہ گھر کا ماحول دینی تھا ۔ والد بغداد میں افتاء و قضا ء کے عہدے پر فائز تھے ۔قدیم علوم حاصل کرنے کے بعد آپ نے علوم ِ جدیدہ میں بھی مہارت حاصل کرلی۔ جمیل صدقی کو علومِ قدیمہ کے مقابلے علوم ِ جدیدہ سے بے حد شغف تھا ۔ اسی طرح فارسی و ترکی زبانوں میں آپ نے مہارت حاصل کر لی۔ یو ں دیکھا جائے تو جمیل صدقی کسی بھی مغربی زبان سے نا بلد تھے۔ انہوں نے تمام مغربی علوم و معارف کو ان کتابوں سے حاصل کیا جو مغربی زبانوں سے ترکی زبان میں ترجمہ کی گئی تھیں۔لہذا ترکی زبان میں مہارت سے آپ کو جدید مغربی افکار کو سمجھنے میں بہت مدد ملی اور اسی کے سہارے ان کی ذہنی و شعری صلاحیتوں کا ارتقاء ہوا ۔ جمیل صدقی اپنے ذوق و ذہانت کی وجہ سے بہت سے عہدوں و مراتب پر بھی فائز ہوتے رہے۔ تیس سال کی عمر میں پارلیمنٹ کے ممبر منتخب کیے گئے ۔ایّامِ شباب ہی میں انہیں بغداد کی تعلیمی کونسل کا ممبر او رپھر پریس کا مینیجر بنا دیا گیا ۔ سر کاری رسالہ ’’ الزّوراء ‘‘ کے ایڈیٹر مقرر کیے گئے ۔ ساتھ ہی اپیل کورٹ کا ممبر بنادیا گیا۔ استنبول میں انہیں فقہ ٔ اسلامی کا استاد مقرر کیا گیا۔ کچھ سالوں تک بغداد کے لاء کالج میں بحیثیت لیکچرار بھی جمیل صدقی نے اپنی خدمات انجام دیں۔پھر بغدا دسے انہیں ترکی پارلمینٹ کا ممبر منتخب کیا گیا۔
جمیل صدقی کا قلم رواں تھا ۔ انہوں نے مقالات و تصنیفات کی ایک بڑی تعداد چھوڑی ہے جن میں ان کے متعدد دیوان بھی شامل ہیں۔ تقریباً ۶ شعری مجموعے جو ۱۹۰۸ء سے ۱۹۳۹ء کے درمیان قاہرہ ‘بغداداور لبنان سے شائع ہوئے جو درج ذیل ہیں۔
۱) ۱۹۰۸ء اَلکَلَمہ المنظوم
۲) ۱۹۲۴ء رباعیات ِ الزّھاوی
۳) ۱۹۲۴ء دیوان ُ الزّھاوی
۴) ۱۹۲۸ء لُباب
۵) ۱۹۲۸ء الوشال
۶) ۱۹۳۹ ثمالۃ
ادبی تنقید کا ایک اہم ترین منصب یہ بھی ہے کہ ناقد تاریخی اور معاشرتی حوالوں کو دھیان میں رکھے جمیل صدقی کا شعری مجموعہ ’’ الکلمہ المنظوم‘‘ ۱۹۰۸ء میں شائع ہوتا ہے ۔ یہی وہ زمانہ ہے جب یورپ میں مارکس ‘ فرائڈ‘ ہیگل وغیرہ جیسے قدر آور دانشور تاریخ و تہذیب کا ازسر ِ نو تجزیہ کر رہے تھے۔تحلیل ِ نفسی او رمادّی جَدلّیات کی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ مذہب ‘ تاریخ او رحاکمانہ تہذیب کے بیانیہ کی تحریرِ نو کا عمل شروع ہو چکا تھا ۔ لہذا جدید عربی فارسی او راُردو کے شعراء کا ( چونکہ ان ہی زبانوں کی ادبی روایات میں ایک زیریں سطح کا رابطہ قائم ہے )اس جدید دانشورانہ ماحول (Ethos) سے متاثر ہونا نا گریز تھا ۔ لہذا جمیل صدقی بھی ان دانشوارانہ تبدیلیوں سے شعوری یا لا شعوری سطح پر یقینامتا ثر ہوئے ہونگے ۔ جس زمانے میں جمیل صدقی نے لکھنا شروع کیا جنگِ عظیم اوّل کے آغاز نمودار ہو رہے تھے۔او ران کا انتقال ہوا ۔ ا س زمانے میں دوسری جنگِ عظیم کا ماحول بن چکا تھا ۔ اس ہنگامہ گیر عہدے کے ذہنی ‘اخلاقی او ر معاشرتی خلفشار کو اگر یورپ بھگت رہا تھا تو دنیائے عرب بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکی۔
جمیل صدقی نے بچپن ہی سے عربی و فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کا آغاز کیا ۔ ایّامِ شباب تک آپ کی شاعری میں مہارت و کمال پیدا ہوگیا تھا۔استنبول سے اپنے وطن بغداد واپس آنے کے بعد جمیل صدقی کچھ مہینوں تک مصر سے اشاعت پذیر پر چے ’’الْمُقْتَطِف ‘‘ ’’ الْمُقْطِمْ‘‘ اور ’’اَلْمُوید‘‘ میں قلمی نام سے مضامین لکھتے رہے ۔ جمیل صدقی کی شاعری مختلف و متنّوع موضوعات پر مشتمل ہے ۔ سیاسی ‘ سماجی‘ و معاشرتی موضوعات کو آپ نے اپنی شاعری میں ترجیح دی ۔ جمیل صدقی کی شاعری غزل یا نسیب سے خالی تھی۔آپ کا رنگِ شاعری سائنسی علوم او رفلسفیانہ افکار سے معمور نظر آتا ہے ۔ معاشرتی مسائل اور سائنسی علوم مثلاً کیمیاء ‘ فلکیات ‘ حیاتیات وغیرہ جیسے موضوعات سے آپ کی شاعری لبریز ہے ۔
جمیل صدقی روایتی اسالیب کو اپنانے کی بجائے معروضی انداز اختیار کرتے ہیں۔ وہ جومحسوس کرتے ہیں اسے ہو بہو بیان کر دیتے ہیں۔وہ موضوعات سیاسی ‘ سماجی ‘ یا معاشرتی ہوں ان کی نظمیں ‘قصائدو رباعیات انہیں رجحانات کی ترجمانی و نمائندگی کرتی ہیں۔ جس سے ان کا تفکّر و استدلال صاف نمایاں ہوتا ہے ۔ انکا بنیادی تصوّر یہ بھی ہے کہ شاعری کسی مقصد کے تحت ہونی چاہیے۔ انہوں نے اجتماعی مسائل او رجگ بیتی کو موضوع بنایا ۔ وہ چاہتے تھے کہ شاعر صرف انسانی جذبات و افکار کی ترجمانی نہ کرے بلکہ رہنمائی بھی کرے ۔ لہذا ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اجتماعی مسائل پر مبنی ہے ۔ انہوں نے ایسے موضوعات کو اپنی شاعری میں سمویا ہے جو سیاسی ظلم واستبداد پر دلالت کرتے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کی مشکلات کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی ۔ اس زمانے کے پسماندہ عراقی سماج میں یہ پہلے شاعر ہیں جن کا زندگی سے تعلق نظر آتا ہے وہ لوگوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہیں ۔ غریب و پسماندہ عوام کو انصاف و حقوق دلانے کے لیے وہ حکومت ِ وقت کو للکارتے ہیں ۔ انہوں نے کبھی اپنے ذاتی نفع و نقصان کو قابلِ اعتناء نہ سمجھا بلکہ تمرّد و بے باکی کے لیے انہیں بے شمارذاتی نقصانات اٹھانے پڑے ۔ کبھی عہدے سے معزول کر دئیے گئے کبھی معاشی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے عوام کے دکھ کو اپنا سمجھتے ہوئے ان کی جہالت و پسماندگی پر آنسو بہائے۔
سماجی ‘تعلیمی ‘ معاشی پسماندگی کو دور کرنے او ران کا حل تلاش کرنے کے لئے جمیل صدقی نے انتھک کوشش کی ۔ فرسودہ رسم و رواج میں محصور معاشرے کو بیداری او ر ترقی کی جانب راغب کیا ۔ جمیل صدقی کے چند اشعار جو حکومتِ وقت کے خلاف تمرّد پر مبنی ہے
سلسلہ نمبر
اشعار
ترجمہ
۱
تَأنِ فِی اْلّظُلمِ تخفیفاً و تہْوِ یناً
فَلّظُلم یَقْتُلُنا وَالْعَدلْ یَحیّنا
ائے ظالم حکمرانوں! ظلم و جبر میں نرمی اور کمی کرو
کیو ں کہ ظلم ہمیں قتل کر تا ہے اور عدل و انصاف سے ہمیں زندگی ملتی ہے
۲
یَا مَالِک اَمْرِ ھٰذی النّاس فیِ یَدِہِ
عَامِلْ بِرَفْقٍ رِعایاکَ الْمَسَاکیناَ
ائے حکمراں و مالک ! جس کے ہاتھ میں تمام لوگوں کے معاملات ہیں
اپنی مسکین و پسماندہ عوام کے ساتھ نرمی و رحم کا معاملہ کرو
۳
لَھَوتَ عَنّاَ بِمَا اُوتیتََ مِن دَعْۃِ
فَاْ بیَضّ لَیْلَکَ وَ اسْوَدَتْ لَیاَ لیْنَا
کشادگی او رجاہ و مرتبہ کو پاکر تم ہم سے غافل ہو گئے ہو
تمہاری رات روشن و تابناک ہے او رہماری رات تاریک ہے
اسی طرح ایک جگہ جمیل صدقی سر کش و ظالم حکمرانوں کو للکارتے ہیں۔
سلسلہ نمبر
اشعار
ترجمہ
۱
قومُ‘ جُفَاۃ مَا لَھُمْ مِنْ رَحْمَۃً
لَولَانَ صَخر’‘ جَامِد’‘ مَا لَا نوُا
یہ ظالم او ربے رحم انسان ہیں پتھر پگھل سکتا ہے
لیکن ان ظالم حکمرانوں کے دل نہیں پگھل سکتے
۲
سَلَبُوا الْقَبَا ئل ما لَھْا بِوَسائلِ
لَا یَسْتَطْیع کخَلْقَھا الشّیطان
ان ظالموں نے عوام سے ان کے ترقی کے وسائل چھین لئے ہیں
ان کی اِن حرکتوں کی وجہ سے شیطان بھی شرمندہ ہے
جمیل صدقی سماجی برائیوں پر کس طرح خاموش رہ سکتے تھے ۔ انہوں نے مظلو م کسانوں او رمسکین عوام کے لیے اپنی نظم ’’ نکْبَۃُ الْفَلَّاح ‘‘ میں ان مسائل کا تذکرہ کیا ہے۔
سلسلہ نمبر
اشعار
ترجمہ
۱
اِنَّ مَنْ کدّواَیَزْرَعُونَ اِتْبَا عاً
اِشْبَعُوا غَیْرھُم وَیَاتُوْ ا جِیَاعاً
یہ بے چارے مزدور کسان کھیت جوت کر دوسروں کا پیٹ بھرتے ہیںاور اپنی جھونپڑی میں خود خالی پیٹ سو جاتے ہیں
۲
رَبّحَ اَلْما لِکُونَ اَلاْرضَ غَصَباً
وَ مَضَّ کدَّ الزّارعینْ ضِیَا عاً
زمین پر غاصِبانہ قبضہ کرنے والے مالک ِ زمین ان کی محنت سے
فائدہ اٹھاتے ہیں اور محنت کرنے والوں کی محنت ضائع ہو جاتی ہے
ایک دوسری نظم میں ان کے درد کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی و سماجی طور پر بگڑا ہوا عراقی معاشرہ جو معاشی و تعلیمی پسماندگی کا شکار تھا ۔ تو ہم پرستی او رجاہلانہ عقیدوں کی بھر مار بے جا مذہبی پابندیاں ان سب سے دل برداشتہ جمیل صدقی کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
نمبر
اشعار
ترجمہ
۱
وَ قَدْ طال لِلْغَرب فَوقَ الا َرْض سلطان
وطَالَ فیِ الثّرقِ اقرار اذْ عان
زمین پر مغربی ممالک کے اقتدار و تمدّن کی عمر طویل تر ہور ہی ہے یعنی وہ مسلسل ترقّی کر رہا ہے اور مشرق میں فرسودہ عقائد و روایات پروان چڑھ رہے ہیں
۲
اَلْغَربُ فیہ نشاط’‘ خلف حَا جَتِہِ
یسعیٰ لَیَلْفَھَا و الشَّرقُ کَسْلان
مغرب اپنے مثبت عوام او رمقاصد کے حصول میں مصروفِ عمل ہے
او رمشرق اپنے فرسودہ روایات او ر سستی و کاہلی میں مبتلا ہے
جمیل صدقی بنیادی طور پر ایک آزاد خیال با شعور اور ترقی پسند شاعر تھے۔ انہوں نے عراقی عوام کی پسماندگی کی وجہ تعلیمی کمی او ربے جا رسومات و مذہبی عقائد میں محصور ہونے کو بتایا ۔ ان کا خیال تھا کہ عراق میں جو جمود و خمول کی فضا قائم ہے وہ صرف او رصرف تعلیم کی کمی ہے۔ حد سے زیادہ مذہبی رسوم کی پاسداری اورغلط رسم و رواج کی ترویج ہے ۔ انہوں نے اپنے کلام کے ذریعے بارہا عربوں اور عراقیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ تعلیم کی کمی اور اندھی عقیدت بے جا مذہبی رسومات ‘ جامد خیالات یہ ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے عراقی معاشرہ کبھی ترقّی کے مدارج طئے نہیں کرسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح انہوں نے سیاسی امور و مسائل پر دل کھول کر لکھا ہے ۔ اسی طرح معاشرتی مسائل پر بھی آپ کا قلم رواں او رسخت ہے ۔
جمیل صدقی سماجی پس ماندگی کی ایک اہم وجہ عورتوں کو تعلیم سے دور رکھنا بھی قرار دیتے ہیں۔ایک نظم میں لکھتے ہیں کہ اگر ترقی کی راہ میں مذہبی عقائدآڑے آئیں تو ان کو بھی نظر انداز کر کے ہمیں آگے بڑھنا چاہیئے ‘ کیوں کہ یقین کی بنیاد ہمیشہ شہادت یا مشاہدے پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ روایت پر ایسی بے شمار باتیں عام ہیں جو صرف روایتاً ہیں نہ کہ شھادتاً ۔ مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے ۔
نمبر
اشعار
۱
لَا تَقْبَلوُا فیِ الدّینِ ما یَردونَہُ
اَلَا اِذا صَحّ فیِ الا نظار
۲
اِنّ الْیَقِنَ لَفیِْ الشُّھُودِ جَمیعَہ
الشّک کُلّ الشّکِ فِیْ اَلاْخبارِ
عربی معاشرہ بنیادی طور پر پدرانہ قومیت (Patrarchial)کے اصولوں پر کار بند رہا ہے ۔ انیسویں صدی میں آزادیٔ نسواں جیسے حسّاس موضوع پر لکھنا بہت مشکل کام تھا’کارے دارد‘ لیکن جمیل صدقی نے نہ صرف آزادیٔ نسوا ں پر قلم اٹھایا بلکہ اس معاشرہ پر بھی سخت چوٹ کی جو خواتین کی تعلیم و تربیت او ر تہذیبی امور میں ان کی شرکت کو قابلِ اعتراض سمجھتا تھا ۔ عورتوں کی تعلیم کے بارے میں جمیل صدقی نے بارہا اپنے کلام میں زور دیا ہے ان کا نظریہ تھا کہ پسماندہ سماج کی بنیادی وجہ عورتوں کو نا بلد رکھنا بھی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے حجاب و پردے کے آپ سخت مخالف تھے۔ ان کی عاقلانہ و عالمانہ نظریں اس وقت کے جامد سماج کا حصار کیے ہوئے تھیں۔مذہب کے نام پر عورتوںکے ساتھ جو ظالمانہ بر تائو کیا جاتا تھا ۔ جمیل صدقی ایسے برتائو سے بہت زیادہ افسردہ و غمگین تھے ۔ بنظریۂ جمیل صدقی عورتوں کو پردے میں رکھ کر یہ ظالم ان پر ظلم کرتے ہیں۔ یہ دراصل اس مردانہ سماج کی کمزوری او رنفسیاتی مرض ہے۔
دراصل جمیل صدقی کے سامنے مغربی ممالک کا معیار تھا ۔ وہ کہتے تھے جس طرح مغرب میں عورتوں کو زندگی کے تما م شعبہ جات میں حصہ دار بنا دیا گیا ‘مغربی خواتین مردو ں کے شانہ بہ شانہ تمام کام انجا م دے سکتی ہیںاور ان ممالک کی ترقی و تمدّن کا دارو مدار اسی مساوات و آزادی پر قائم ہے ۔ در ج ذیل اشعا ر میں اپنے جذبات کا اظہار بہت دل سوزی سے کرتے ہیں ۔ کبھی کبھی لہجہ میں تمرّد و سرکشی کی آواز بہت تیز ہوجاتی ہے ۔ انہوں نے جس طرح عراقی پس ماندہ سماج کے بہت سے فرسودہ و اہانت آمیز عوامل کو موضوع بحث بنایا ۔ان میں عورتوں سے مخاطبت او رانہیں بیداری کی جانب راغب کرنا بھی ہے ۔
جمیل صدقی کہتے ہیں :
ائے عراق کی بیٹی ! اس پردہ یا حجاب کو پھاڑ کر جلا دے یہ دراصل تمہارا جھوٹا محافظ ہے ۔
ہر چیز تجدید کی جانب رواں دواں ہے ۔ پھر یہ جمود و تعطّل او راندھی عقیدت کب تک ؟
ملاحظہ کیجئے ‘ درج ذیل اشعار میں جمیل صدقی عورتوں کی حمایت میں سر گرم نظر آتے ہیں۔
نمبر
اشعار
ترجمہ
۱
کان الحِجاب یسومُھا
خسفا وَ یْر ھقُھا عذابا
پردہ دراصل عورت کو رسوا و ذلیل کرتا ہے اور اُسے تکلیف پہونچاتا ہے
۲
اِنّ الالی قَدْ اَذْنبوُا
ھُمہ صِیْرُہُ لَھَا عِقاباً
مجرموں ہی نے پردے (حجاب) کو عورت کے لیے سزا بنا دیا ہے
۳
وَ سَیَطْلُبُ التّاریخ من
النّاس لھا ظَلَموُ ا الحِسَابا
عنقریب تاریخ عورتوں پر ظلم کرنے والوں سے حساب طلب کرے گی
جمیل صدقی ایک جگہ او ر رقم طرا ز ہیں :
سلسلہ نمبر
اشعار
ترجمہ
۱
مُزقّی یا اِبْنَۃُ العراق الحِجَابا
وَاْسفری فا الحَیَا ۃ تَبْغِیْ انقلابا
ائے عراق کی بیٹی ! تیر ے اس پردے کو پھاڑ دے اور بے پردہ ہوجا
کیوں کہ زندگی انقلاب تجدید چاہتی ہے
۲
مُزقّیہِ وَ احَر قیہِ بِلَا رِ یْثاً
فَقَدْ کاَنَ حارساً کذّاباً
ائے بیٹی ! تو پردے کو پھاڑ کر اسے بِلاَ تامّل جَلا دے
کیوں کہ یہ پردہ تیرا جھوٹا محافظ و نگراں ہے۔
حقوقِ نسواں ان کی آزادی ‘ بیداری او رمساوات کے حامل کچھ اشعار درج ذیل ہیں۔
نمبر
اشعار
ترجمہ
۱
اِسْفَرِیْ فَا لْحِجاب یَا اِبْنَۃُ فَھَرْ
ھُوَ داء’‘فِی الا جتماعِ وَ وخِیَمْ
ائے بنتِ فَھَر !حجاب و پردہ کو اتار پھینک دو کیوں کہ یہ ہمارے سماج کی سب سے اہم بیماری ہے
۲
کُلُّ الشّیئِ اِلیٰ التّجدیدِ ماضٍ
فَلِماَذا یَقِرُّ ھٰذا القَدِیم
دنیا میں ہر چیز تجدید و انقلاب کی طرف مائل ہے
تو پھر یہ کیوں کہ باقی رہے گا
اسی طرح جمیل صدقی دیگر کئی اہم سماجی و معاشرتی امور زیر ِ بحث لاتے ہیں۔ مثلاً تعدادِ ازدواج او رحقِ طلاق وغیرہ ۔ ان تمام معاملات میں جمیل صدقی خواتین کے لیے مساوات او ر حقوق کی بات کر تے رہے ۔ جمیل صدقی کے شاعرانہ افکار کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ دردمندانہ شاعر صحیح معنی میں زندگی سے تعلق وہ انسلاک کو شعری سانچوں میں ڈھال دیتا ہے او رسماج کی پسماندگی پر آنسو بہاتا ہے ۔ ان کے دکھ در د کو محسوس کرتا ہے ۔ ان کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں سر گرداں و سر گرم نظر آتا ہے ۔ دراصل جمیل صدقی نے انسانوں سے غمخواری و ہمدردی کو اپنا مقصدِ حیات بنایا تھا ۔
جمیل صدقی سماج کے وہ ہمدرد مسیحا تھے جنہو ںنے اپنی منفعت و مراتب کا خیال نہ کرتے ہوئے حکمرانوں سے ٹکّر لی اور اپنی زندگی کا بہت سا حصہ ان ہی مسائل کو حل کرنے میں گذار دیا لیکن عراقی و عربی سماج میں جمیل صدقی ہمیشہ حکمرانوں او ر عوام کی اکثریت کے عتاب و تعصّب کے شکار ہیں۔ جس قدر و منزلت کے وہ حقدار تھے اس سے وہ ہمیشہ محروم رہے ۔ جمیل صدقی اپنے جدید افکار و نظریات کی وجہ سے اس پسماندہ سماج میں ہمیشہ معتوب رہے ۔ لیکن ہم اس غیر معمولی او ر عبقری شخصیت کو عراقی شعراء کی صف میں امیر الشّعراء کے لقب سے نوازیں تو غلط نہ ہوگا ۔شاعری کا معیار صرف اسالیب و مناھج کی کسوٹی پر ہی پرکھا نہیں جا سکتا بلکہ مضامین و مقاصدسب سے اہم ہوتے ہیں جن کے محرکات اس قسم کی تجدّد پسند شاعری ہوتی ہے۔ عوام کا یہ رحمدل شاعر عوام کا دکھ درد لیے ۱۹۳۶ء میں بغداد میں وفات پا گیا ۔
مراجع و مصادر
- جدید عربی ادب اور ادبی تحریکات۔ڈاکٹر ابو عبید۔ الکتاب انٹرنیشنل , دہلی۔۲۰۱۱
- جدید عربی شاعری۔ڈاکٹر فوزان احمد۔سلیقہ آفسیٹ , وارانسی۲۰۰۸
- تاریخ ِ ادب عربی ۔ڈاکٹر سید طفیل مدنی۔ایوان کمیٹی ,الہٰ آباد۔۱۹۸۵
- تاریخ ِ ادب عربی۔استاد احمد حسن زیات۔مہکاف پرنٹرس, دہلی۔۱۹۸۵
***