You are currently viewing معروف  مہجری ادیب : ڈاکٹر  عبد اللہ  کی ادبی و تہذیبی خدمات

معروف  مہجری ادیب : ڈاکٹر  عبد اللہ  کی ادبی و تہذیبی خدمات

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

ادرایہ

جلد پنجم ۔ شمارہ چہارم  ، اپریل ۲۰۲۵

معروف  مہجری ادیب : ڈاکٹر  عبد اللہ  کی ادبی و تہذیبی خدمات

 مہجری ادیب  کی اہمیت کے پیش نظر اس اداریے میں ایک  مہجری ادیب کا تعارف  پیش ہے ۔ ڈاکٹر عبد للہ واشگنٹن میں مقیم ہندی الاصل امریکی  شہری    ہیں جو امریکہ میں   اردو زبان و تہذیب کے حوالے سے  جانے جاتے ہیں اور ادبی اورتہذیبی حلقوں میں بڑے احترام سے ان کا نام لیا جاتا ہے ۔ اعظم گڑھ  ان کی جائے پیدائش ہے اور اب امریکہ میں مستقل سکونت پذیر ہیں ۔یوں تو  وہ بنیادی طور پر سائنسداں ہیں ۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1967میں ایم ایس سی کیا۔انھیں امریکہ سے اسکالر شپ ملااور جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ ناسا  جیسے ادارے سے  برسوں تک جڑے رہے ۔ورلڈ بینک میں کنسلٹینٹ کے طور پر خدمات انجام دیں ۔اس کے علاوہ  کئی بڑی تنظیموں سے وابستہ رہے جیسے ۔ بانی و صدر انڈین  اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن  آف   SUNY بیفلو ۔ کئی اہم اداروں کے رکن ہیں   بھی ہیں جیسے انڈین کلچرل کوآرڈینیشن کمیٹی  ،امریکن فیڈریشن آف انڈین مسلم ،مسلم کمیونٹی سینٹر، میری لینڈ   اینڈ  سلور اسپرنگ ،ریجنل وائس پریسیڈنٹ  آف  امریکن فیڈریشن  آف مسلمس آف انڈین اوریجن۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ

            امریکہ جانے سے قبل اپنے مادر علمی    عبد للہ گرلس کالج  علی گڑھ   میں لیکچرر بھی رہے ۔یہ اس عہد کی بات ہے جب ہندستان    کو آزاد ہوئے دو  دہائیاں  بھی نہیں گزری تھیں ۔ انھوں نے علی  گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم  حاصل کر کے  پی ایچ ڈی کے لیے امریکہ کا رخ کیا۔ اس وقت تعلیم کے لیے   امریکہ جانے والوں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔امریکہ  میں ناسا سے منسلک ہونے اور امریکی شہر ی بننے  تک  کا سفر بہت طویل ہے ۔ یہ نصف صدی   کا  قصہ ہے۔اس نصف صدی میں وہ کبھی بھی اردو اور  مشرقی تہذیب سے بیگانہ  نہیں  رہے ۔ مادر علمی  علی گڑھ سے بھی والہانہ محبت رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے امریکہ میں  اردو زبان و  تہذیب کی سرگرمیوں کے لیے کامیا ب کوششیں کیں ۔ڈاکٹر عبد اللہ امریکہ میں  اردو مشاعروں کے بانی کہے جاتے ہیں ۔اُنھوں نے 1975ء میں امریکہ میں ’علی گڑھ المنائی ایسو سی ایشن‘ تشکیل دی اردو  زبان تہذیب کو فروغ  دینے کے لیے مشاعرے کی داغ بیل ڈالی۔شمالی  امریکہ میں اردو کے حوالے سے یہ پہلی کوشش تھی ۔اس  زمانے میں چند احباب کے ساتھ مل کر جو  ادب کا بیج بویا تھا  وہ اب ایک چھتناور درخت بن چکا ہے ۔

            دیار غیر میں جہاں اردو بولنے اور سننے   والے خال خال رہے ہوں گے، وہاں اردو بولنے والوں کو ڈھونڈ نکالنا  اور انھیں ادبی محفل کے بینرتلے جمع کرنا یقیناً تاریخ ساز کام تھا ۔ڈاکٹر عبد اللہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب انھوں نے اس کی ابتدا کی تو چند احباب  ہی تھے۔ مگر اب الحمد للہ  امریکہ کے ہر خطے میں اردو کی انجمنیں اور ادارے موجود ہیں ۔

          ڈاکٹر عبداللہ ایک  کہنہ مشق شاعر  ہیں ۔ ان کے دو شعری مجموعہ’’ریت کی لہریں‘‘ اور ’’اَن کہی باتیں‘‘اور ایک مضامین پرمشتمل کتاب” ستیہ پال آنند کی نظم نگاری”اس کے علاوہ کئی تنقیدی مضامین برصغیر کے میگزین میں شائع ہوچکے ہیں ۔وہ غزل اور نظم  کے شاعر ہیں ا ن  چند اشعار دیکھیں جس سے ان کے تخلیقی رویے کا اندازہ ہوگا ۔

جو کہنے میں ان کو زمانے لگے ہیں

وہی سن کے ہم مسکرانے لگے ہیں

یہ آنکھیں یہ عارض یہ لب اور گیسو

انہیں کے سبب ہم ٹھکانے لگے ہیں

زخم گہرے ہیں ،مگر اف بھی نہیں کر سکتا

اچھی لگتی نہیں، اپنوں کی برائی مجھ کو

اندر کا شور اچھا ہے ، تھوڑا دبا رہے

بہتر یہی ہے ، آدمی کچھ بولتا رہے

   نظم کے اشعار

بڑی بڑی عمارتیں
وزارتیں ،سفارتیں
بڑی بڑی سفارتوں کے سامنے
پرانے ٹھونٹھ سے شجر
عمارتوں کے بوجھ سے دبے ہوئے
جھگی کمر
نمک حلال نوکروں کی طرح ہاتھ جوڑ کر
مودبانہ اس لئے کھڑے ہوئے ہیں منتظر

 کہ اک نگاہِ التفات ادھر بھی ہو۔۔

تو کہہ سکیں جناب سام خوش ہوئے …

***

Leave a Reply