You are currently viewing منور راناؔ کی غزلیہ شاعری صنعتی تہذیب کا تخلیقی اظہار

منور راناؔ کی غزلیہ شاعری صنعتی تہذیب کا تخلیقی اظہار

گلزار احمد سوہل

ریسرچ اسکالر شعبہ اُردو جموں یونیورسٹی،جموں و کشمیر

منور راناؔ کی غزلیہ شاعری صنعتی تہذیب کا تخلیقی اظہار

تلخیص:

         عصر حاضر کے شعری منظر نامے میں جن معتبر قلمکاروں نے اپنے منفرد فکر و اسلوب سے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ہے اُ ن میں منور رانا ؔکانام خاص طو ر پر قابل ذکر ہیں ۔ انہوں نے اپنی غزلوں کا خمیر اپنی سرزمین کے مختلف مسائل سے تیار کیا ہے ۔جدید شاعری یوں تو صنعتی تہذیب کی حشر سامانیوں کے تخلیقی اظہار سے عبارت ہیںلیکن منور رانا کا یہ امتیاز ہے کہ اُن کی شاعری میںجدید صنعتی تہذیب کے مسائل اپناایک خاص ارضی پس منظر رکھتے ہیںاورجس میںمادی تہذیب کے زائیدہ متنوع مسائل جن میںطبقاتی نظام،ترک ِسکونت،انسانی رشتوں کی پامالی،شہری زندگی کے مسائل،گاؤں کی اعلیٰ انسانی اور اخلاقی اقدار کی پاسدار زندگی وغیرہ کی بہترین عکاسی کی ہے۔ غرض منورؔ رانا کی غزلوں کے پس پردہ جدید دور کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور تہذیبی مسائل کارفرمہ نظر آتے ہیں۔ان کی غزلوں میں کہیں بھی مایوسی کا شائبہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر حال میں ان پیچیدہ مسائل کے حل کی ترغیب دیتے ہیں ۔مختصر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری میں جدید شہری زندگی پر ایک دانشورانہ طنز دیکھنے کو ملتاہے جس کے پس پردہ ایک تعمیری سوچ کارفرمہ نظر آتی ہے۔

         کلیدی الفاظ:                صنعتی تہذیب،ترک سکونت،،طبقاتی نظام،شہری زندگی ،دیہاتی زندگی

         اکیسویں صدی کے صارفانہ ماحول میں جن قلمکاروں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی زائیدہ تہذیب کے تغیرات کو اپنے تخلیقی شعور کا حصہ بنا کر غزل کے پیرائے میں منفرد اسلوب کے ساتھ بیان کیااُن میں منور رانا ؔکا نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔اُنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے جدید دور کی صنعتی اور مادی تہذیب کے نشیب و فراز کوجس فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ منور رانا ؔکی شاعری اپنا ایک ارضی تشخص رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ علاقائیت کے ساتھ ہی ساتھ بین الاقوامی مسائل تک کا احاطہ کرتی ہیں۔وہ اپنا ایک سیاسی ،سماجی اور اقتصادی پس منظر رکھتی ہے۔ ان کی شاعری عصر حاضر کے مسائل کے ساتھ ہی ساتھ اپنے ماضی سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے ۔منور راناؔ کی غزلیہ شاعری کے استعارات ،تشبیہات، ، تلمیحات اور اصطلاحات میں عصری تہذیب کے شب و روزمنعکس نظر آتے ہیں۔ اظہار کے یہ پیرائے غزل گو کی دوررس نظر ،عمیق مطالعہ اور پختہ تخلیقی صلاحیتوں کی غمازی کرتے ہیں ۔ان کی شاعر ی میں ہندوستان کی سرزمین کی زندگی کاایک ایک پل چلتا ہوا دکھائی دیتاہے ۔عہد حاضرمیں صنعتی تہذیب نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے ۔صارفانہ ماحول کی ز ائیدہ تہذیب نے اعلیٰ انسانی اقدار پر ضرب لگائی ۔منور راناؔ کی شاعری دراصل اس سائنسی اور مادی تہذیب کے منفی اثرات کے رد عمل کی شاعری معلوم ہوتی ہیں جس کے حوالے سے حق القاسمی کچھ یوں رقمطراز ہیں۔

         ’’ منور ر انا کی شاعری میں انسانی اقدار اور اخلاقیات پر ٹیکنالوجی کے پڑ نے والے منفی اثرات کے خلاف سخت تخلیقی ردعمل کا اظہار ملتا ہے۔ یہ مکمل طور پر انسانی احساس و اظہار کی شاعری ہیں۔urbanization اورindustrilization کی تمام جہتوں کو سمجھے بغیر منور رانا کی معنویت روشن نہیں ہوسکتی۔‘‘1

         یہ الفاظ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ جدید شہری اور صنعتی تہذیب کی پروردہ زندگی کے نشیب و فراز کے ادراک سے ہی منور رانا ؔکی شاعری کی صحیح تفہیم و تنقید ممکن ہے۔زیر بحث مضمون میںان کی غزلوںکو عصر ی زندگی کے تناظر میںپیش کیا گیا جہاں اعلی ٰانسانی او را خلاقی اقدار زوال کی طرف گامزن نظر آتے ہیں۔شاعرنے اپنی غزلوں کے ذریعے سائنس اور ٹکنالوجی کی زائیدہ زندگی اور تہذیب کو فنی انداز میں کچھ اس طرح پیش کیا ہے ۔

                  میں کھل کے ہنس تو رہا ہوں فقیر ہوتے ہوئے

                  وہ مسکرا بھی نہ پایا امیرہوتے ہوئے

                  گفتگو فون پہ ہوجاتی ہیںرانا صاحب

                  اب کسی چھت پہ کبوتر نہیں پھینکاجاتا

                  دنیا مجھے ساحل سے کھڑا دیکھ رہی ہیں

                  میں ایک جزیرے کی طرح ڈوب رہا ہوں

                  نئے کمروں میںاب چیزیں پرانی کو ن رکھتا ہے

                  پرندوں کے لیے صحرا میں پانی کون رکھتا ہے

         مندرجہ بالا اشعار میں منور رانا نے آج کی مادی تہذیب کو نہات ہی فنی انداز میں پیش کیا ہے ۔یہاں فقیر ہوتے ہوئے ہنسنا اور امیر ہونے کے باوجو دمسکرانے سے قاصر رہنے میں بلا کی معنویت پوشیدہ ہے جوانسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے جہاںایک طرف سماج کے صاحب ثروت لوگوںکو مادی آسائشیںمیسر توہیں لیکن اس کے باوجود اُنہیںوہ ذہنی سکون میسر نہیں تو دوسری طرف ایک غریب مفلس کی زندگی ہیں جسے وہ وسائل میسر نہیںجن سے وہ زندگی کی ضروریات کو پورا کر سکیںلیکن پھر بھی اُسے چین و سکون حاصل ہے۔درحقیقت یہی جدید مادی اور صنعتی تہذیب کا سب سے بڑا المیہ ہے۔آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں موبائل فون جیسی جدید ایجاد نے اطلاعات اورترسیل کے شعبے میں انقلاب برپا کیاجہاں ایک طرف اس ایجادنے زمینی فاصلوں کو ختم کیاوہیں دوسری طرف اس سے انسانی رشتے بھی کافی متاثر ہوئے ۔شاعر نے یہاں اُس تہذیب اور روایت کی طرف اشارہ کیاہے جہاں کبوتر کوپیغام کے لئے استعمال کیا جاتا تھالیکن غزل گواس بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ آج کے مشینی دور میں انسان اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ اسے ماضی کی اس خوبصورت روایت کے خاتمے سے کوئی مایوسی نہیں۔عصری ماحول میں انسان کو مشینوں نے اتنا متاثر کیا ہے کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کی بربادی کوایک تماشاہی کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن اُنہیں بچا نہیں سکتاجس کاذکر شاعر نے فنی اور استعاراتی انداز میں کیا ہے کہ وہ ایک جزیرے کی مانند پانی میں ڈوب رہا ہے لیکن ساحل پر کھڑے لوگوں کو اس کے زوال کی فکر دامن گیر نہیں کیونکہ وہ صنعتی تہذیب کے حصار میں گرفتارہے ۔علاوہ ازیں شاعر جواُن پرانی قدروں کا محافظ ہے جن میں انسان کی حقیقی کامیابی کا راز مضمر ہے ۔اسی لئے وہ آج کے صارفیت کے دور میں بھی ان کے تحفظ کے لئے کوشاںہے۔وہ استعاراتی انداز میں کہتے ہیں کہ جدید مادی دورمیں ہر چیز کو مادی سود و زیاں کے زاویے سے دیکھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے آج کا انسان اپنے خوبصورت ماضی سے دور ہوتا جارہا ہے ۔

         ترک سکونت جدید شاعری کا اہم موضوع رہا ہے ۔اکیسویں صدی کے انسان کو جدیدمشینی تہذیب نے نقل مکانی کی جس جہت سے آشناکیا وہ گاؤں کی سادہ اور پرُخلوص زندگی سے شہر کی ظاری چمک دھمک والی زندگی کی طرف ہے جس کا فنی اظہار منور رانا کی غزل میں دیکھا جاسکتا ہے اس حوالے سے عرفان صدیقی جامع انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:

         ’’رانا کی شاعری میں ترک سکونت (میں اسے ہجرت نہیں کہوں گا) کا تصور اس سماجی اور معاشی تبدیلی کا عطیہ ہے جس کے نتیجے میں چھوٹے چھوٹے سادہ اور خوبصورت گاؤںاور بستیاں اُجڑ جاتی ہیںاور شہر بڑے سفاک تر اور گنجان ہوتے جا رہے ہیں۔مشینی زندگی کے عفریت نے معصومیت اور سادگی کونگل لیا ہے اور قدروں کے ایسے نظام کا آغاز کیا ہے جس سے مٹی اوررشتوں کی خوشبوکا شیدائی مانوس نہیں لیکن اسے قبول کرنے پر مجبور ہے ‘‘2

         منور رانا نے اپنے غزلیہ اشعار میں شہر کی ہنگامہ خیز زندگی کے بجائے گاؤں کی سادہ اور پر خلوص زندگی کو ہی خوبصورت اور پر سکون زندگی قرار دیا ہے ۔وہ شہراور دیہات کی زندگی کے نشیب و فراز کو معاشی ،سماجی اور تہذیبی سیاق میں کچھ ا س طرح پیش کرتے ہیں۔

                           نگل لیتی ہیںلڑکوں کوبڑے شہروں کی رنگینی

                           نہ جانے کس تمنا میںیہ بڑھیا گھر بناتی ہیں

                           ہمارا گاؤں سے رشتہ ابھی نہیں ٹوٹا

                           ابھی بزرگوں کی خوشبو وطن سے آتی ہیں

                           تمہارے شہر کی رونقیں اچھی نہیںلگتیں

                           ہمیں جب گاؤں کے کچے گھروں کی یاد آتی ہے

                           تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے

                           ہمارے گاؤں میںچھپر بھی سب مل کر اُٹھاتے ہیں۔

         ان اشعار کے پس پردہ جدید دور کی شہری اور دیہاتی زندگی کے خدو خال نظر آتے ہیں۔ان اشعار میںاس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آج کے نوجوان لڑکوں کوبڑے شہروں کی پرُفریب زندگی اپنی طرف کھینچتی ہیں اور وہ اپنی ماں کے سجائے ہوئے گھر کوچھوڑ کر شہر کی مصنوعی زندگی کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ منور راناکی غزلوں کا متکلم شہر کی زندگی تو جی رہا ہے لیکن وہ اپنے گاؤں کے ماضی کو کسی بھی سطح پر فراموش نہیں کرتاکیونکہ منور رانا کی غزلوںمیں گاؤں کی جو تصویر اُبھرتی ہے وہ مسحور کُن اوراعلیٰ اخلاقی اقدار کی ضامن ہے۔اسی لئے اُسے شہر میں آکر بھی اپنے گاؤں کے بزرگوں کی یاد آتی ہیں جس سے اُسے ذہنی سکون ملتا ہے۔وہ یہاں شہر کی مصنوعی اور پرُفریب زندگی کو نا پسند کرتے ہیں کیونکہ گاؤں کے کچے مکانوں میں خلوص اور ؎ معصومیت ہوتی ہیںاسی لئے وہ اپنے گاؤں کی سادہ زندگی کی آغوش میں پناہ لیتا ہے ۔ جدید دور کے انسان کاسب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ شہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے اُکتاہٹ محسوس کرنے کے بعد گاؤں کی سادہ اور پرسکون فضاؤں میںہی سکون تلاش کرتا ہے ۔منور رانا انسانی قدروں کو کچلنے والی شہر ی زندگی پر گہرا طنز کرتے ہیں کہ شہر میںمیت کو بھی چار لوگ نصیب نہیں ہوتے یعنی مصیبت کے وقت بھی ایک دوسرے کی مدد نہیں کی جاتی لیکن اس کے باوجود گاؤں میںچھپرجیسی معمولی چیز بھی سب مل کر اُٹھاتے ہیں جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کا بین ثبوت ہیں۔مختصر یہ کہ ان غزلیہ اشعارمیں منور رانا نے شہر اور دیہات کی زندگیوں کو اپنی تمام تر باریکیوں کے ساتھ پیش کر کے شہری زندگی پر دانشورانہ طنز کیا ہے جس کا مقصد تخریب نہیں بلکہ تعمیر ہے۔

         منور رانا کی غزلیں کسی بھی مکتب فکر کے حصار میں محصور نہیں بلکہ ان کی شاعری میں مختلف نظریات و رجحانات کے متنوع پہلوؤں کا پرتو دیکھا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں صنعتی تہذیب سے پیدا ہونے والے طبقاتی نظام کو بھی فنی انداز میں پیش کیاہے۔ سائنسی سماج کی ز ائیدہ تہذیب کو پیش کرنے کے ساتھ ہی ساتھ غریب اور مفلس لوگوںکی زندگیوں کو پیش کر کے سماجی تناظر میں حل کرنے کی ترغیب بھی دیںہیں ۔ اُنہوں نے ہندوستا ن کے طبقاتی نظام اوراقتصادی مسائل کو سماجی اور تہذیبی تناظر میںکچھ اس طرح پیش کیا ہے؎ ۔

                  ممکن ہیں ہمیںگاؤں بھی پہچان نہ پائے

                   بچپن میں ہی ہم گھر سے کمانے نکل آئے

                  مفلسی گھر میں ٹھہرنے نہیں دیتی مجھ کو

                  اور پردیس میں بیٹا نہیں رہنے دیتا

                  کہیں کوئی کلائی ایک چوڑی کو ترستی ہے

                  کہیں کنگن کے جھٹکے سے کلائی ٹوٹ جاتی ہے۔

                  یہ بچی چاہتی ہے اور کچھ دن ماں کو خوش رکھنا

                  یہ کپڑوں کی مدد سے اپنی لمبائی چھپاتی ہے

         منور رانا ان غزلیہ اشعار میںاپنی آپ بیتی بیان نہیں کرتے بلکہ ان اشعارکے پس پردہ ہندوستان کے غریب اور مفلس لوگوں کی زندگیاں اپنی تمام باریکیوں کے ساتھ فنی سطح پر نمایا ں ہیں۔ ان کی غزلوں کا متکلم اپنے آپ سے مخاطب ہے کہ ممکن ہیں ہمارا گاؤں بھی ہمیں پہچاننے سے انکار کریں کیونکہ مفلسی نے زندگی کے ابتدائی سفر میں یہ گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا تو دوسری طرف شاعر نے جس انداز میں غریب اور مفلس لوگوں کی درد مند کہانی بیان کی کہ ایک طرف مفلسی گھر میں مستقل رہنے نہیں دیتی تو دوسری طر ف بیٹاگھر سے باہر نہیں رہنے دیتا ۔ایک مفلس کی زندگی انہی دو کناروںکے درمیان گردش میں رہتی ہے ۔غرض یہاں شاعر مفکرانہ انداز میںسماج کے اعلیٰ عہداداران کی توجہ گاؤں کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ ہندوستان میںابھی گاؤں میں ایسے وسائل میسرنہیں ہیں جن سے یہ گاؤں بااختیار اورخود کفیل بن کر اپنے لوگوں کی ضروریات پوری کرسکیں ۔ منور رانا نے صرف گاؤں کی زندگی کو ہی اپنی غزلوں کا موضوع نہیں بنایا بلکہ ان کی شاعری میںصنعتی تہذیب سے پیدا ہونے والے غیر منصفانہ طبقاتی نظام پر بھی طنز کیاگیاہے کہ ایک طرف مفلسی کی وجہ سے کسی کی کلائی ایک چوڑی کی خواہش میں ترستی ہیںتو دوسری طرف سماج کے سرمایہ دار اور صاحب ثروت لوگوں کی لڑکیوںکے پاس زیوارت کی فراوانی کی وجہ سے کلائی ٹوٹنے کا خطرہ رہتا ہے ۔یہاں غزل گو نے سماج کے ایک حساس مسلئے کی طرف جس منفرد انداز میں توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے وہ قابل غور ہے کہ جدید صنعتی تہذیب نے سماج میں جو ایک خلیج پیدا کی ہے اُ س کے تدارک کے لئے حکومتی اداروں کو سوچنا چاہئے پھر جا کر ایک قوم کی مجموعی صورتحال بہتر بن سکتی ہے۔آگے چل کروہ غریب لڑ کیوں کو فصلوں سے تشبیہ دیتے ہیں جن کا ماتھاسندور اور ہاتھ مہندی کے لئے مفلسی کی وجہ سے ترستے ہیں اور وہ گھر میں ہی اپنی اذیتناک زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ یہ لڑکی سن بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھنے کے باوجود لمبے کپڑوں کی مدد سے اپنی جوانی کوظاہرنہیں ہونے دیتی تاکہ اس کے والدین غریبی کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔ان اشعار میںایک درد بھی ہے اورہندوستانیت بھی جسے کسی بھی سطح پر فراموش نہیں کیا جاسکتا،کہیں کہیں گر چہ منور رانامارکسزم کے نذدیک نظر آتے ہیں لیکن و ہ اس نظریے کے اسیر نہیں ہوتے نہ ہی ان اشعار میںکسی قسم کی نعرہ بازی کا شائبہ ہوتا بس ایک پیغام ہے جو انسانی ذہن کی تاروں کو چھیڑتاہے اور عمل کی طرف اُکساتا ہے۔سماج کے یہ سب مسائل مادی اور صنعتی تہذیب کے عطیات ہے۔

         آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں کچھ مادیت پرست افراد شہروں میں بھی اپنے مادی حصول کی خاطر وہاں کی فضاؤں کو آلودہ کرنے کے در پہ رہتے ہیںلیکن منور راناکبھی بھی مایوس نظر نہیں آتے بلکہ وہ صحرا میں بھی کنول کھلانے کے متمنی ہے جس کا ذکر وہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں۔

                  تمہارا کام ہے شہروں کو صحرا میں بدل دینا

                  ہمیں بنجر زمینوں کوحسیں کرنے کی عادت ہے

         وہ اُن لوگوں کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں جوہمیشہ امن و سکون کے ماحول کو اپنی منفی سوچ سے بگاڑنا چاہتے ہیں۔یہ اشعار موجودہ سماج پر ایک طنز بھی ہے اور خاموش احتجاج بھی لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اُمید اور حوصلہ بھی ان کے پس پردہ نظر آتا ہے۔ان کی غزلوں کا متکلم ہر حال میں ظلم کی طاقتوں کے خلاف صف آرا رہتاہے چاہے اُسے کسی بھی قسم کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔

           مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ منور رانا ؔکا تخلیقی اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کو کسی خاص نظریے کا پابند نہیں بنایابلکہ اپنے منفر اسلوب میں جدید مشینی دور کی زندگی کو تخلیقی سطح پر پیش کیاہے۔ ان کی شاعری ایک سماجی سیاق رکھتی ہیں جو ایک طرف اپنی سرزمین کے لوگوں سے گہرا تعلق رکھتی ہے جس میں ہندوستانی سرزمین کی بو باس نظر آتی ہے اور اگر دوسری طرف دیکھا جائے توصنعتی اور مشینی دور کی زندگی کے تما م نشیب و فراز کو غزل کا پیکر عطا کر کے فنی انداز میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوںمیں اقتصادی بدحالی کے منفی اثرات کو ایک تعمیری سوچ کے ساتھ پیش کیا جو سماج کی مجموعی ترقی کے لئے ناگزیرہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیںکہ آج کے سرکاری اِداروں کوسماج کے ان حساس مسائل کے تدارک کے لئے کو ئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔انہوں نے شہری اور دیہاتی زندگی کے اسرار و رموز کو بھی خاص توجہ کا مرکز بنایا ہے ۔ان کی غزلوں کا متکلم دو کشتیوں پہ سوار ہے یا یہ کہئے کہ شہراور دیہات کی زندگی کے دوپہیوں کے بیچ ہیں۔انہوں نے جہاں ایک طرف آج کے صنعتی دورمیں اعلیٰ انسانی اقدار کے زوال کی طرف اشارہ کیا تو دوسری طرف حکومتی اداروں کو اس بات سے آگاہ کیا کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں گاؤں کو بااختیاراور خود کفیل بنانا ہی اس قوم کی مجموعی تر قی کے لئے ناگزیر ہے۔

         حوالہ جات

1۔حقانی القاسمی’’تمہارے شہر کی رونقیں‘‘ماہنامہ چہار سُو،راولپنڈی پاکستان جلد۔۳۵،۲۱۰۶ء ص۔۳۸

2۔عرفان صدیقی’’خلوص کی رسمیں‘‘‘ماہنامہ چہار سُو،راولپنڈی پاکستان جلد۔۳۵،۲۱۰۶ء ص۔۲۹

                                                                                 Gulzar Ahmed Sohil

Research Scholar Department of urdu faculty of arts/Oriental languages university of jammu.180006,

Ph,No-9149802118-

Email-Gulzarsohil0419@gmail.com

***

Leave a Reply