پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
مولانا آزاد اقبال اور نئی نسل
مولانا ابوالکلام آزاد اور اقبال کےحوالے سے دنیا بھر میں جشن کا اہتمام ہوتا ہے۔ مولانا آزاد وکو یوم تعلیم اور اقبال کو اردو ڈے کے نام سے یاد کیا جا تا ہے۔پہلے مولانا ابوالکلام آزاد پر بات کرتے ہیں ۔ یوں تو آزاد پر بات کرنے کے بہت سے زاویے اور aspects ہیں مگر آج ان کی معنویت کیا ہے ۔ ریلیوینس کیا ہے اس پر ہم نئی نسل کے طالب علموں سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں ۔
ان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب اس ملک کو نفرت انگریزوں کے ذریعے نفرت میں جھونکنے کی کوشش کی جارہی تھی تو آزاد نے اپنے تمام کوششیں ملک میں بھائی چارے اور محبت کو بڑھانے میں لگا دی ۔۔۔۔مولانا ابو الکلام آزاد ملک کے سچے وفادار ، ملک کی آزادی کے طلب گار تھے ۔ انھو ں نے اس وادیٴ پُر خاور میں بچپن سے قدم رکھا تھا ، ساری جوانی اس میں صرف کردی اور جب آزادی کی منزل قریب آئی تو یہ دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے کہ ہندستانی قوم انگریزوں کے ذریعے پھیلائے گئےفرقہ پرستی کےلپٹ میں آگئی ۔اسی لیے انھوں نے اپنی تحریر ، تقریر اور عمل سے جہاں جہاں موقع ملا قومی ہم آہنگی کے لیے کوششیں کیں ۔
قومی یک جہتی کے سلسلہ میں مولانا آزاد کا یہ مضبوط اور توانا نظریہ ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے دہلی کے ایک اجلاس میں دسمبر ۱۹۳۲ءمیں پیش کیا تھا:
”اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہوکر اعلان کر دے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے، بشرطیکہ ہندوستان، ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے۔ تو میں سوراج سے دست بردار ہوجاﺅں گا۔ کیونکہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔ لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہے۔“ (کمال ابوالکلام آزاد،علی جواد زیدی ص:48)
مولانا آزاد تکثیری ہم آہنگی کے بڑے علمبردار تھے ۔ہندستانیوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے لیے انھو ں نے جابجا تقریریں بھی کیں۔ اتحاد و اتفاق پر ان کی تحریریں بہت دلآویز اور پُر اثر ہیں ۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں :رام گڑھ میں تقریر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں : ’’اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی بلکہ اس میں میری رہنمائی کرتی ہے۔میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی اور ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے۔“( خطبات آزاد، مرتبہ مالک رام ، رام گڑھ، مارچ 1940، ص 297)مولانا ابوالکلام آزاد نے ان باتوں کو اتنی بار دہرایا اور الگ الگ طریقے سے کہیں لیکن ان کو اس کا بھی إحساس تھا کہ اُن کی باتیں اب بھی بہت دور تک نہیں پہنچ رہی ہیں اس لیے اسی کلکتے کی سر زمین پر ایک خطبے میں انھوں نے کہا تھا ۔ تکثیری ہم آہنگی کے لیے ان کی جذباتیت ملاحظہ کریں:’’بیسویں صدی کی حیرت انگیز ایجادات میں ریڈیو بھی ہے جس کی مدد سے میں اپنی آواز اس بڑی جماعت کے ہر فرد کے کانوں تک پہنچا سکتا ہوں لیکن افسوس کہ ابھی تک کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جس کی مدد سے آ پ کے قلوب تک آواز پہنچا سکوں۔اور ’’البلاغ ‘‘میں لکھتے ہیں :’’میں وہ صدا کہاں سے لاؤں جس کی آواز چالیس کروڑ دلوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کردے۔ میں اپنے ہاتھوں سے وہ قوت کیسے پیدا کروں کہ ان کی سینہ کوبی کے شور سے سرگشتگانِ خواب موت سے ہوشیار ہوجائیں ۔ دشمن شہر کے دروازے توڑ رہے ہیں ۔ اہلِ شہر رونے میں مصروف ہیں۔ ڈاکوؤں نے قفل توڑ دیے ہیں اور گھر والے سوئے ہوئے ہیں۔ لیکن اے رونے کو ہمت اور مایوسی کو زندگی سمجھنے والو!یہ کیا ہے کہ تمھارے گھر میں آگ لگ چکی ہے، ہوا تیز ہے اور شعلوں کی بھڑک سخت ہے، مگر تم میں سے کوئی نہیں جس کے ہاتھ میں پانی ہو ۔ ‘‘’’غبار خاطر‘‘ ان کی مشہور تصنیف ہے ۔یہ ادب عالیہ کا شاہکار ہے ۔ اس میں انھوں نے ایک خط میں قلعہ احمد نگر میں اپنی گرفتاری کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ بجائے مایوسی اور افسردگی کے ان کے جملے بیداریٴ قوم کے لیے اشاریہ بن جاتے ہیں ۔ اقتباس دیکھیں : ’’بعض احباب جو مجھ سے پہلے پہنچائے جا چکے تھے ان کے چہروں پر بے خوابی اور نا وقت کی بیداری بول رہی تھی ۔ کوئی کہتا تھا رات دو بجے سویا اور چار بجے اٹھا دیا گیا ، کوئی کہتا تھا بہ مشکل ایک گھنٹہ نیند کا ملاہوگا ۔ میں نے کہا ، معلوم نہیں ، سوئی ہوئی قسمت کا کیا حال ہے َ اسے بھی کوئی جگانے کے لیے پہنچا یا نہیں ؟ ( الہلال۔ص51)
اب اقبال کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔
اقبال کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اکثر انھیں محدود کر کے دیکھتے ہیں ، کبھی ان کو شاعر ملت ، حکیم امت اور کبھی قومی شاعر کے نام سے مخاطب کر کے در اصل ان کو محدود کرنا ہی ہے۔
کسی بھی شخصیت کو سمجھنے کے کئی زاویے ہیں ۔ ایک تو عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جائے ۔اورصرف ان کی عظمت کا اعتراف کیاجائے اور دوسرا زاویہ یہ ہے کہ عقیدت کے ساتھ ان کے پیغامات کو عام کیا جائے ۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی شخصیت کو ماننے کا یہ طریقہ سب سے اہم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی بات کا آغاز اقبال کے اس شعر سے کرنا چاہتاہوں :
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
عزیز طالب علمو! یہ شعر آپ نے بھی پڑھا ہوگا اور شاید یاد بھی ہو؟ کیا مطلب ہے اس شعر کا؟ اور کیا پیغام ہے اس شعر میں ؟
اس شعر میں عام فہم الفاظ میں بہت ہی اعلیٰ فکر موجود ہے ۔ یہاں جو ہم سب موجود ہیں ۔ اپنی ذات او ر اپنے وجود کے اعتبار سے فرد ہیں اور ایک مقصد کے لیے جویہاں موجود ہیں ، اسے اجتماع کہیں گے ۔کسی بھی معاشرہ ، قوم اور سماج کا بنیادی عنصر فرد ہی ہوتا ہے ۔فرد سے خاندان ، خاندان سے سماج اور سماج سے معاشرہ اور ملک و قو م کی تشکیل ہوتی ہے ۔ لیکن کیسے ؟ ۔۔ جب افراد کسی ایک فکر، کسی ایک مقصد ، کسی ایک نہج اور منزل کے حصول کے لیے اتحاد و اشتراک کے ساتھ مجتمع ہوتے ہیں۔ اور اگر اجتماع بہت بڑا ہوا تو دنیا کے نقشے پر اسے ایک ملک کے نام سے جانتے ہیں اور اس ملک کے اندر بھی کئی اشتراک اور اتحاد ہوتے ہیں جسے ہم سماج اور معاشرہ کے نام سے جانتے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ہندستان ، امریکہ ، یوروپ ، چین ۔ کیا ہیں یہ؟ یہ صرف ممالک کے نام نہیں ہیں بلکہ اس میں افراد کا مضبوط اشتراک و اتحاد ہے ۔کیسا اشتراک و اتحاد ؟
اہل علم کا ، اہل فن کا ، صنعت و حرفت کا ، سائنس اور ٹکنالوجی کا ، سیاست اور اقتدار کا یہ سب ملک کر کسی بھی قوم او ر ملک کو مضبوط بناتے ہیں ۔۔۔۔۔اس لیے کسی بھی ملک یا قوم کو دیکھیں تواس میں افراد کی حصہ داری برابر ہوتی ہے۔۔۔۔یہ حصہ داری نیک نامی
اور بدنامی کا سبب بھی بنتی ہے ۔۔۔کیسے ؟ سامنے کی مثال سے سمجھیں ۔
اگر اس انسٹی ٹیوٹ کا کوئی طالب علم ایساکارنامہ انجام دے جو مثالی ہو مثلاًکسی امتحان میں پور ے ہندستان میں نمبر ون پر آئے ۔ کوئی ایسی ٹکنالوجی ایجاد کرے یا کوئی ۔۔۔۔ تو کیا کہا جاتا ہے اس بچے یا بچی نے پورے شہر کا نام روشن کیا ، پوری قوم کا سر فخر سے بلندکیا ۔۔۔غور کرو بچو کہ نام روشن کرنے والا یا والی ایک طالب علم ہے مگر فخر پوری قوم کا ہوا۔۔۔۔
اچھا اب اگر اس کے بر عکس سوچو کہ اگر کسی نے کوئی انتہائی برا کام کیا تو کیا کہا جائے گا اس نے پورے سماج اور قوم کو ذلیل و خوار کیا۔۔۔۔۔ بولو یہ کہاجاتا ہے یا نہیں ؟؟؟؟
کیوں ایسا کہا جاتا ہے ؟ اس کا مطلب تو یہی ہوانا کہ اگر چہ ہم اپنی ذات اور وجود کے اعتبار سے ایک فرد کی حیثیت رکھتے ہیں مگر ہم اس قوم اور سماج کا حصہ ہیں ۔جس میں تین نسلوں کابیک وقت اجتماع ہوتا ہے ۔بچے ، نوجوان ، اور بزرگ اور تینوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔
اب اقبال کا یہ شعر دوبارہ پڑھیں :
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
یعنی ہم سب جو یہاں موجود ہیں بقول اقبال اقوام کی تقدیر ہم سب پر ہی منحصر ہے ۔ آپ جیسا چاہیں قوم و ملت کی تقدیر کو سنواریں ۔۔۔۔ قوم و ملک کی ترقی کا ضامن ہر فرد کی اپنی ذمہ داری نبھانے پر موقوف ہے ۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ کیا اور کونسی ذمہ داری؟؟؟
عزیز طالب علمو!میں آپ سے کوئی بڑی ذمہ داری نبھانے کی بات نہیں کررہاہوں۔ آپ کی صرف ایک ذمہ داری ہے کہ بہ حیثیت ایک طالب علم کے خود کو نکھاور، علم کے میدان میں اتنا آگے بڑھو کہ کہ تمہاری کامیابی قوم و ملک کی کامیابی بن جائے ۔اور ہاں کبھی صرف خود کے لیے مت سوچنا کیونکہ کسی میں ملک اور قوم میں کسی فرد کی کوئی حیثیت نہیں ۔۔۔ اقبال کی زبان میں ہی سن لیں :
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
تشریح۔۔۔۔۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّآدم ہے، ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی
اقبال کی شاعری
اقبال کی شاعری نہ صرف اپنے عہد کی شاعری تھی بلکہ آج کی بھی شاعری ہے اور آنے والے دور کی بھی شاعری ہے۔اقبال کی شاعری محض شاعری نہیں ۔ اگر صرف شاعری ہوتی تو اقبال کو ہم کب کا بھلا چکے ہوتے ۔
اقبال کی شاعری ساحری ہے ۔ایسی ساحری یعنی ایسی جادو گری ہے جو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتی رہے گی۔
لیکن یہ کون سا سحر ہے ؟ کون سا کرشمہ ہے ؟ یہ غور کرنے کی بات ہے ۔
کرشمہ یہ ہے کہ انھوں نے شاعری محض شاعری کے لیے نہیں کی بلکہ شاعری کو وسیلہٴ اظہار بنایا اُس پیغام کے لیے جو عالمی اخوت کا پیغام ہے ،
شاعری کو وسیلہٴ اظہار بنایا انسانی ذہن و ضمیر کو جنجھوڑنے کے لیے ،
شاعری کوترانہ بنایا انسانی عظمت کا ، شاعری کو وسیلہ بنایا انسان کو انسان بنا نے کا ،
اقبال فکر وخیال کو شاعری کے ایسے خوبصورت پیکر میں پیش کرتے ہیں کہ کبھی تو قاری ان کی شعری جمالیات او ر شاعرانہ حسن میں کھو جاتا ہے تو کبھی فکر کی تفہیم میں اس طرح محو ہوجاتا ہے کہ اقبال کی شاعری سےصرف تفہیم کے دروازے ہی نہیں کھلتے بلکہ اقبال کی شاعری ادارک کی منزلوں کی سیر کراتی ہے ۔
اور بڑی شاعری یہ ہے کہ وہ صرف آپ کے ذوق جمال کی تسکین نہ کرے بلکہ ذوق جمال کے ساتھ ساتھ عقل ودانش کی اُس منزل تک لے جائے جہاں حقائق کی تمام جہات بے نقاب ہوتی نظر آئیں ۔ اس لیے اکثر أوقات یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ
اقبال شاعر بڑے تھے ؟ یا مفکر یا فلسفی ؟
ہمارے آپ کے ذہن میں ایسا سوال پیدا ہونا ہی در اصل اقبال کی شاعری کی عظمت ہے ۔ اور ایسی عظمت کہ جس کی تفہیم کے لیے آئے دن بھی مذاکرے ہوں تو شاید تفہیم و ادراک کا یہ سلسلہ بند نہ ہو۔
آج اکیسویں صدی کے تناظر میں اقبال کو کسی اور طرح سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔اقبال پر کچھ گفتگو کرنے سے قبل میں اکیسویں صدی کے کیا مسائل ہیں ؟ کیا چیلنجز ہیں؟ اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں تاکہ بات اور واضح ہوسکے۔ ۔۔ بلکہ میں جعفر زٹلی کے چند اشعار کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں :
گیا اخلاص عالم سے، عجب یہ دور آیا ہے
ڈرے سب خلق ظالم سے، عجب یہ دور آیا ہے
نہ یاروں میں رہی یاری، نہ بھائیوں میں وفاداری
محبت اٹھ گئی ساری ،عجب یہ دور آیا ہے
نہ بولے راستی کوئی ، عمر سب جھوٹ میں کھوئی
اتاری شرم کی لوئی، عجب یہ دور آیا ہے
میرا خیال ہے ان اشعار سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس صدی کے مسائل کیا ہیں ؟
جی ہاں آج کی صدی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں سب کچھ ہے ۔ بلکہ یوں کہیں کہ ہمارے اور آپ کے وہم و گمان سے بھی زیادہ وسائل موجود ہیں ۔ ۔۔ لیکن ایک چیز غائب ہے ۔ بتا سکتے ہیں کیا غائب ہے ؟
جی ہاں اس بھری پڑی دنیا میں سب کچھ ہے مگر انسان غائب ہے ۔ اور جب انسان غائب ہوگا تو انسانیت کو کہاں ڈھونڈیں گے ۔ ۔۔۔لیکن میرے عزیز طالب علمو آپ پریشان نہ ہوں اس مسئلے کا حل موجود ہے ۔ آپ کو تلاش و جستجو کے لیے خلاؤں پر جانے کی ضرورت نہیں ۔
بس کلام اقبال کو سمجھ کر پڑھنا شروع کردیں ۔ یہاں انسان بھی ملیں گے اور انسانیت کی عظمت کے ترانے بھی ملیں گے ،۔۔اور
انسان بننے کے طریقے بھی لیکن اقبال آپ کو نصیحت کرتے نہیں ملیں گے بلکہ آپ کے قلب و نظر کو گرماتے ہوئے ملیں گے اور کبھی آپ کےذہن و فکر کو مہمیز کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔
ذرا غور کریں کہ اکیسویں صدی جس کو ہم ترقیات کی صدی کہتے ہیں ۔ ایسی ترقیات کہ جس نے ہواؤں کی رفتار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ ایسے دور میں ، ایسی صدی میں بھی انسان اگر خود کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ تواس سے حیرت کی بات اور کیا ہوگی ؟؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
طلسم و حیرت کی اس صدی میں مشین نما انسان ۔۔۔ افسوس اسے یہ پتہ ہی نہیں کہ اسے کیوں پیدا کیا گیا ؟اسکا منصب کیا ہے؟ اس کاکردار کیسا ہونا چاہئے؟
جی اور یقین مانیں جسے یہ پتہ نہ ہو وہ اپنے خد ا کو بھی نہیں پہچان سکتا کیونکہ جو خود کو پہچانتا ہے وہی خدا کو پہچان سکتا ہے ۔
اب میں اپنے عزیز طالب علموں سے مخاطب ہوں ۔ مجھے معلوم ہے وہ بہت انہماک سے سن رہے ہیں ۔ جی
یہ تو ایک پہلو ہے اس صدی کے کرب کا ۔ اور اس کرب کاسب سے بڑا پہلو نئی نسل ہے ۔
اس کے سامنے مسائل کے انبار ہیں ۔ وہ کیا کریں ؟اور کیا نہ کریں ؟ کرنے کو بہت کچھ ہے مگر منزل مقصود کا علم نہیں ۔۔۔ تو آئیے اقبال سے ہی سنیں :
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اْن کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
تو پیارے بچو ایسا نہ ہو کہ جلسہ ختم ہوتے ہی ہمالیہ کی پہاڑیوں کی طرف چلے جاؤ اور کسی چٹان پر اپنا نشمین بنا لو ۔
نہیں نہیں ایسا نہیں کہا اقبال نے ۔ جہاں ہو وہیں رہو، جو پڑھ رہے ہو وہی پڑھو مگر اس میں ایسی تب و تاب ہو کہ شاہین کے پرواز کو
بھی رشک آجائے۔
آپ نے مولانا روم کا نام تو سنا ہوگا ۔ اقبال جسے پیر رومی کہتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ :
“اگر میر اعلم انسانوں سے محبت کرنا نہ سکھا سکے تو ہزاروں جاہلوں سے بھی وہ علم بد تر ہے ۔”
اس لیے علم کو ذریعہ بنانا ہے محبت کا، امن کا ، انسانیت کا۔
اچھا طالب علمو ۔ میں آپ کو اسکول کے زمانے میں لے کر چلتا ہوں ۔ یاد ہیں آپ کو اسکول کے وہ سنہرے دن ؟؟؟؟
آپ نے ہر صبح اقبال کی نظم ” بچے کی دعا” اسکول کے اسمبلی میں پڑھی ہوگی اور خوب جھوم جھوم کر پڑھی ہوگی ۔ لیکن مجھے معلوم ہے ۔ اس وقت آپ نے اس نظم کے لحن اور اس نظم کے آہنگ سے لطف اٹھایا ہوگا ۔ سمجھ میں شاید اب آئے ۔ تو چلیں چند شعر مجھ سے سنیں :
لب پہ آتی ہے دْعا بن کہ تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اْجالا ہوجائے
اقبال آپ سے یہی چاہتے ہیں کہ آپ کے علم کی روشنی سے دنیا منور ہو ۔
کوئی بھی علم حاصل کرو اسے فلاح انسانیت کے لیے استعمال کرو۔ اگر ایسا ہوا تو اکیسویں صدی کا یہ مسئلہ جہاں سر اٹھائے کھڑا ہے کہ انسان کہاں گیا ؟
تو آپ کا علم جو فلاح انسانیت کے لیے ہو، وہ انسان کو ڈھونڈ لائے گا۔
اقبال نےصالح انسان کی زندگی کے لیے جس بات کو ضروری قرار دیا ہے وہ تو ایک انسان خود اپنی خودی اور دوسروں کی خودی کا احترام کرے۔
آج کل کی دنیا حسد،تنگ نظری،فریب،ذات پات،نسلی تشدد،دہشت گردی،قوم پرستی،مذہب پرستی،فرقہ پرستی نجانے کیسی
کیسی بلاؤں میں گرفتار ہے ۔ اس کو دور کرنا ہے تواقبال کے یہ اشعار جسے آپ نے پڑھا بھی ہے اور سنا بھی ہے ، ان اشعار کو سمجھ کر پڑھنا ہوگا۔
بات یہ ہے کہ ہم سب نے اقبال کا احترام بہت کیا ہے ، لیکن اقبال کو سمجھا بہت کم ہے اس لیے اکیسویں صدی کی اس کربناکی کو دور کرنا ہے تو اقبال کو ماننے سے زیادہ ان کو سمجھنا اور سمجھانا ، پڑھنا اور پڑھانا زیادہ ضروری ہے ۔
جواب شکوہ کا یہ شعر سنیں:
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
جی ہاں تمام حدود اور سرحدوں کو توڑنا ہوگا اور اس کے لیے اقبال کا انسان بننا ہوگا۔
اقبا ل نے اپنی شاعری کے لیے نوجوان اور نئی نسل کو محور بنایا ہے ۔ نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہی مستقبل کی باگ ڈور ہے ، اگر اسے صحیح معنی میں مہذب، باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور روشن خیال بنا دیا جائے تو ہی آنے والا کل تابناک ہو گا ورنہ اس قوم کو اندھیروں میں بھٹکنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ان کے دل ودماغ میں نوجوانوں کیلئے فکر تھی وہ ا س کا اظہار بارہا کرتے تھے، ساتھ ہی چاہتے تھے کہ ان کے اند ر بھی قوم کا درد اور احساس پیدا ہو ، جس کا اظہار انہوں نے یوں کیا:
ؔجوانوں کو سوز ِ جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے
اور جس طرح اقبال نے انسانی عظمت کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے وہ کسی اور شاعر نے نہیں دی۔ اقبال نے انسان کے اندر۔ کچھ کرنے کا حوصلہ دیا ہے اور نئے نئے طریقے سے دیا ہے ۔ اقبال کہتے ہیں :
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو، فرشتوں کی ادائیں
آئینہٴ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ !
سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے !
دیکھیں گے تجھے دور سے ،گردوں کے ستارے !
ناپید تیرے بحرِ تخیل کے کنارے !
پہنچیں گے فلک تک ،تیری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر ، اثرِ آہِ رسا دیکھ !
اقبال دوراندیش شاعر تھے اسی لیے انھوں نے زمانے کے تیزی سے بدلتے حالات کو دیکھ رہے تھے اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے :
غور کریں کہ دنیا کہ تبدیلی ۔۔۔
اقبالؔ کے یہاں وطن سے محبت کی شاعری بھی ہے اور انسانی عظمت کے نغمے بھی ہیں۔ ان کے یہاں عالمی برادری(Universal Brother Hood) کے گیت بھی ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ بھی ا ن کی شاعری میں موجود ہے۔
مذہبی تنظیموں نے جس طرح انھیں سختی سے اپنانے کی کوشش کی اور خوبصورت گُل بوٹوں سے سجاتے ہوئے ان کی شاعری کو چھاپا اس سے اقبال کو نقصان بھی ہوا۔انھوں نے اپنے طور پر اقبال کو سمجھنے کی کوشش کی اور شاعرِ ملت کے لقب سے نوازا لیکن دوسری طرف مارکسی نظریے کے حامل اقبال کے اس شعر کو پڑھ کر نہ صرف سر دھنتے ہیں بلکہ لوگوں کا لہو بھی اقبال کی زبان میں گرماتے ہیں:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امرا کے درو دیوار ہلادو
گرماؤ غریبوں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشک فرومایہ کوشاہیں سے لڑادو
سلطانی ٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہرخوشۂ گندم کو جلادو
اور وطن پرستی کا گیت گاتے ہوئے فخر سے سر اونچا کرکے یوں کہتے ہیں :
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیںاس کی یہ گلستاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
اقبال اپنی نظم ہمالہ میںاس پربت سے یوں مخاطب ہوتے ہیں ؎
اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
اے ہمالہ داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پرغازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا
یعنی جب انسان کے چہروں پر طرح طرح کے مکھوٹے نہیں تھے جس زمانے میں لوگ انسانیت کے پجاری تھے اس زمانے کی خواہش اقبال یوں بیان کرتے ہیں :
ہاں دکھادے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
یہی اقبال جب ننھے منے بچوں کے ہونٹوں پر نغمے بکھیرتے ہیں تو امن و سکون کی خواہش اور وطن کی خدمت کے جذبے کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہوجائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
ہندستانی تہذیب کی بات کرتے ہوئے رام جی کی مداحی اس طرح کرتے ہیں :
لبریز ہے شرابِ حقیقت سے جامِ ہند
سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رامِ ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ِ ہند
اور گرونانک کے بارے میں کہتے ہیں:
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو ایک مرد ِ کامل نے جگایا خواب سے
ہندستانی تہذیب کی رنگا رنگی کے قائل اقبال اپنے وطن ہندستان کی آزادی کے متوالے بھی نظر آتے ہیں اور فرنگیوں کی سازشوں سے ہندستان اور ہندستانی تہذیب کے بکھرتے شیرازے سے فکر مند ہو کر اہلِ وطن کو عمل پر اس طرح اُکساتے بھی ہیں:
رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کرناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ہندستان کی قومی یکجہتی کی بات کرتے ہوئے’’نیا شوالہ‘‘ بنانے کی بات کرتے ہیں جس میں ذات پات اور مذہب کو بھلا کر ایسے نغمے گائے جائیں جو دلوں کو جوڑتے ہوں وہ ہندو مسلم دونوں سے کہتے ہیں ؎
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دلی کی بستی
آ، اک نیا شوالہ اس دیس میں بنادیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلس ملادیں
ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پجاریوں کو مئے پیت کی پلادیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
یہ اور اس طرح کے بہت سے اشعار اور نظمیں اقبال کی شاعری میں موجود ہیں جس میں عظیم ہندستان کی تعریف کی گئی ہے اور اس کو عظیم تر بنانے کے خواب دیکھے گئے ہیں ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
***