اسمٰعیل وفاؔ، مالیگاؤں
مولانا ابوالکلام آزادؔ
“وہ اگر عربی شاعری کی طرف متوجہ ہوتے تو متنبی و بدیع الزماں ہوتے، اگر وہ محض دینی و مذہبی اصلاح کو اپنا شعار بنالیتے تو اس عہد کے ابن تیمیہ ہوتے۔ اگر علومِ حکیمیہ کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیتے تو ابن رشد اور ابن طفیل سے کم درجہ متکلم فیلسوف نہ ہوتے اگر وہ فارسی شعر و ادب کی طرف مائل ہوتے تو غزالیؔ اور رومیؔ سے کم نہ ہوتے اور مسلک اعتزال کرتے تو دوسرے واصل بن عطار ہوتے۔”
علامہ نیاز فتح پوری
مولانا ابوالکلام آزادؔ ہمہ گیر شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت فلسفی و مفکر، جید عالمِ دین، جدت پسند صحافی، بیباک مجاہدِ آزادی، دور اندیش مدبر، باوقار اور اصول پرست انسان تھے۔ ان کے اجداد کا شمار اپنے وقت کے مشاہیر اور اہلِ سلوک میں ہوتا تھا۔ ان کے والد خیر الدین بھی ایک بلند پایہ عالم تھے۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد ان کے اجداد نے مکہ معظمہ میں رہائش اختیار کی تھی۔ بلدالامین مکہ معظمہ میں ۱۱؍نومبر ۱۸۸۸ء کو مولانا ابوالکلام کی ولادت ہوئی۔ نام محی الدین احمد رکھا گیا۔ گھر میں علمی ماحول کی بدولت انہوں نے جلد ہی دینوی علوم کی تکمیل کے ساتھ دیگر زبانوں پر بھی عبور حاصل کرلیا۔ عربی مادری زبان تھی۔ ذاتی مطالعے، ذہانت وذکاوت اور اکتساب کی بدولت فرانسیسی اور انگریزی بھی سیکھ لی۔
مولانا آزادؔ دس/گیارہ برس کے رہے ہوں گے کہ والدِ محترم خاندان سمیت کلکتہ منتقل ہوگئے۔ اس زمانے میں کلکتہ شہر ہی برطانوی ہندوستان کی راجدھانی تھا۔ اس مناسبت سے یہ شہر علم و ادب، تہذیب و ثقافت، سائنس و ٹکنالوجی وغیرہ مختلف شعبہ ہائے حیات کے صاحبِ کمال افراد کا مرکز تھا۔ اسی شہر سے مولانا آزادؔ نے ‘نیرنگِ خیال’ نامی رسالہ جاری کرکے میدانِ صحافت میں قدم رکھا۔ اس کے بعد کئی اخبارات و رسائل کی ذمہ داریاں سنبھالیں لیکن ۱۹۰۳ء میں ماہنامہ ‘لسان الصّدق’ میں خیالات و نظریات کی پختگی اور جامع اسلوب نے اہلِ علم و فضل کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ رسالہ کے اجراء کے چند ماہ بعد انجمن حمایت اسلام کے ایک جلسے میں مولانا آزادؔ کی ملاقات مولانا الطاف حسین حالیؔ سے ہوئی تو حالیؔ کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ نوجوان لسان الصّدق کا مدیر ہے۔
۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش کی راجدھانی) میں مسلم ایجوکیشن کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اسی اجلاس میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ مولانا اس تاریخی کانفرنس میں شریک رہے لیکن لیگ کی انگریز دوستی کی پالیسی کا مشاہدہ کیا تو لیگ سے متنفر ہوگئے۔ اس دور میں کسی عالم دین کا عربی و فارسی کے ساتھ مغربی زبانوں پر دسترس حاصل کرنا اور ان کے ادبیات سے واقف ہونا، اپنے آپ میں عجیب واقعہ تھا۔ مولانا ابوالکلام نے اپنی علمیت اور ادارت کے ذریعے وہ شہرت حاصل کی کہ جب ۱۹۱۱ء میں شہنشاہ انگلستان جارج پنجم کی آمد کے موقع پر دلی دربار منعقد ہوا اور علماء اور سادھوؤں کو ہاتھیوں پر بٹھا کر بادشاہ کے دربار میں لے جایا گیا تو ان علماء میں مولانا ابوالکلام بھی شامل تھے۔ ان کے ہمعصر ملا واحدی نے لکھا ہے،
‘مولانا اس کم عمری میں شہرت حاصل کرچکے تھے۔ ان کے علم اور ان کی ذہانت اور طباعی کی دھوم تھی۔ اپنے سے دگنی تگنی عمر کے علماء کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ میں سن کر متاثر تھا، دیکھ کر مرعوب ہوگیا۔ مولانا رعب نہیں بٹھاتے تھے لیکن رکھ رکھاؤ اس قدر پختہ اور غیر مصنوعی تھا کہ رعب خود بہ خود پڑتا تھا۔ مولانا مجھ سے چند مہینے چھوٹے تھے لیکن کوئی چیز تھی جو انہیں بڑا سمجھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ابوالکلام سے زیادہ رعب دار بوڑھے میری نظروں سے گزرے ہیں لیکن ابوالکلام سے زیادہ رعب دار نوجوان میری نظر سے نہیں گزرا۔ امام الہند بننے والا نوجوان’۔(۱)
اس زمانے میں امیر طبقے نے مسلم لیگ کی انگریز دوستی میں عافیت جانی، وہ لوگ مذہب سے بیگانہ تھے۔ ان کے نزدیک مذہب، عقل اور سائنس کے خلاف تھا۔ دوسری جانب غیر تعلیم یافتہ طبقہ دولت سے عاری اور نماز، روزہ اور وظائف کی حد تک دین سے وابستہ تھا۔ دوسرے الفاظ میں مدارس اور کالج سے وابستہ مسلمان طبقہ ایک دوسرے کے خلاف تھا۔ مولانا آزادؔ نے بھارتی مسلمانوں بشمول عوام و خواص کو اسلام کی صحیح تفہیم کرانے اور انگریزوں کے خلاف جذبۂ غیرت و حرّیت ابھارنے کی غرض سے ۱۹۱۲ء میں ‘الہلال’ جاری کیا۔ انگریز حکومت مخالف ہونے کی پاداش میں ‘الہلال’ کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ مولانا نے ۵؍نومبر ۱۹۱۵ء کو ‘البلاغ’ جاری کیا لیکن مشکل سے چار ماہ جاری رہا۔ ۲۸؍مارچ ۱۹۱۶ء کو حکومت نے مولانا کو حدودِ صوبۂ بنگال سے نکل جانے کا حکم دیا۔
حدودِ بنگال سے نکل کر مولانا آزادؔ رانچی آگئے۔ جہاں ساڑھے تین سال سے زائد عرصے تک نظر بند رہے۔ جنوری ۱۹۲۰ء میں نظر بندی سے رہائی ہوئی۔ نظر بندی کے خاتمے کے بعد آپ آل انڈیا خلافت کمیٹی کے ۱۹۲۰ء کے کلکتہ اجلاس میں صدر منتخب ہوئے۔ اسی زمانے میں آپ نے کانگریس میں شرکت کی۔ مولانا آزادؔ ہی ایسے فرد ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ پہلے ہی دن انہیں صفِ اول کے لیڈروں میں جگہ دی گئی۔
‘مولانا آزادؔ کے سوا اتنی عمر کا کوئی شخص کانگریس کے صفِ اول میں پہلے دن نہیں پہنچا، حتیٰ کہ پنڈت نہرو کو پہلے دن صفِ اول میں جگہ نہیں ملی تھی اور خود گاندھی جی نے بہ تدریج صفِ اول میں جگہ پائی تھی’۔(۲)
محض ۳۵؍برس کی عمر میں انہیں انڈین نیشنل کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔
مولانا ابوالکلام آزادؔ کی سیاسی بصیرت، بے خوفی اور معاملہ فہمی کے سبھی قائل تھے۔ ۱۹۲۴ء میں انہیں اتحاد کانفرنس کا صدر بنایا گیا۔ ۱۹۲۸ء میں نیشنلسٹ مسلم کانفرنس کی صدارت بھی انہی کو سونپی گئی۔ ۱۹۳۷ء میں صوبائی وزارتوں کی رہنمائی کے لیے کانگریس ذیلی کمیٹی کے بھی رکن بنائے گئے۔ ۱۹۴۰ء میں آپ کو آل انڈیا نیشنل کانگریس کا صدر بنایا گیا۔ آپ کی کانگریس کی صدارت سے متعلق ان کے ہمعصر مولانا عبدالمجید سالکؔ رقمطراز ہیں،
‘نیشنلسٹ اور کانگریسی مسلمانوں نے اپنے آبا و اجداد کے وضع لباس کو چھوڑ کر کھدر کی گاندھی ٹوپیاں اور دھوتیاں اور چادریں اوڑھنا اختیار کرلیا لیکن مولانا آزادؔ کا لباس وہی رہا جو روزِ اول سے چلا آرہا ہے۔ پوست قراقلی کی اونچی دیوار والی ٹوپی، اچکن اور قمیص پاجامہ، علی برادران نے بھی کانگریسی وضع اختیار نہیں کی لیکن آخر میں لمبے چغے اور تھیلے نما سماد و عقال سے عرب وضع میں ڈھلنے کی کوشش ضرور کی۔ مولانا آزادؔ نے اپنی وضع کو اب تک قائم رکھا’۔(۳)
۱۹۴۲ء کی بھارت چھوڑو تحریک مولانا ابوالکلام آزادؔ ہی کی صدارت میں شروع کی گئی تھی۔ تحریک ہی کے نتیجے میں آپ کو قلعۂ احمد نگر کی جیل میں قید کیا گیا۔ اسی قید خانے میں دورانِ اسیری انہیں اہلیہ کے مرض الموت بعد ازاں انتقال کی خبر
ملی۔ پیکرِ صبر و تحمل نے دل پر پتھر رکھ کر چپ چاپ شریکِ حیات کا داغِ مفارقت برداشت کیا۔ آپ نے لکھا
‘اس طرح ہماری ۳۶؍برس کی ازدواجی زندگی ختم ہوئی اور موت کی دیوار ہم دونوں میں حائل ہوگئی۔ ہم اب بھی ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں، مگر اسی دیوار کی اوٹ سے۔۔۔۔۔ مجھے ان چند دنوں کے اندر برسوں کی راہ چلنی پڑی ہے۔ میرے عزم نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے پاؤں شل ہوچکے ہیں’۔(۴)
(ص: ۲۴۱، غبارِ خاطر، مولانا آزادؔ (۲۰۰۵ء)، ساہتیہ اکیڈمی
مولانا آزادؔ کے زرخیز قلم سے نہ صرف صحافت میں جدت آئی بلکہ اردو ادب کو تین بے مثال علمی و ادبی شاہکار ملے، ‘تذکرہ’، ‘غبارِ خاطر’ اور ‘ترجمان القرآن’۔ تذکرہ، سوانح ہے جو اِن کے خاندان اور اجداد سے متعلق تذکرہ ہے، ‘غبارِ خاطر’ خطوط کا مجموعہ ہے جنہیں احمد نگر کے قلعہ سے نواب صد یار جنگ حبیب الرحمٰن شیروانی کو مخاطب کرکے لکھا گیا ہے۔ ‘ترجمان القرآن’، قرآن مجید کی تفسیر، مولانا آزادؔ کی شاہکار تحریر کہلائی جاسکتی ہے۔ تفسیر کے صفحات سے مصنف کا عمیق مطالعہ، وسعتِ خیال اور دانشوری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مولانا آزادؔ نے اپنے سب سے عظیم کارنامے کو اپنے خاندان کے کسی فرد کی طرف منسوب کرنے کی بجائے درج ذیل الفاظ میں اس کا انتساب لکھا ہے۔
‘غالباً دسمبر ۱۹۱۸ء کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آرہا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑا تھا۔
‘‘آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟’’
‘‘ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں۔’’
‘‘کہاں سے؟’’
‘‘سرحد پار سے۔’’
‘‘یہاں کب پہنچے؟’’
‘‘آج شام کو پہنچا، میں بہت غریب آدمی ہوں۔ قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا۔ وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے۔ انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرہ سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔’’
‘‘افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟’’
‘‘اس لئے کہ آپ سے قرآن مجید کے بعض مقامات سمجھ لوں، میں نے ‘الہلال ’ اور ‘البلاغ’ کا ایک ایک حرف پڑھا ہے۔’’
یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے چلتے اس لئے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا میں اسے واپسی کے مصارف کے لئے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔ اس نے یقینا واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔
مجھے اس کا نام یاد نہیں، مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا نہیں لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا’۔
۱۲؍دسمبر ۱۹۳۱ء کلکتہ، ابوالکلام
۱۹۴۰ء کے دہے میں مولانا ابواکلام آزادؔ کانگریس پارٹی کے ہر ایک فیصلہ کن قدم اور پالیسی میں شریک رہے۔ وہ ترازو کے جس پلڑے میں اپنی رائے کا وزن رکھتے، وہی پلڑا بھاری ہوجاتا۔ صرف ایک بار ایسا ہوا کہ انہوں نے اپنا پورا وزن تقسیمِ ہند کے خلاف رکھا اور وہ بے وزن نکلے۔ اس صورتِ حال کے ذمہ دار جہاں کانگریس کے مختلف سیاست داں تھے وہیں ان کی قوم کے افراد نے بھی ان پر کم ظلم نہیں کئے۔ انہیں کانگریس کا زر خرید غلام، نمائشی پٹھو اور شو بوائے کہا گیا۔ اس سلسلے میں مسلم لیگوں نے ساری حدیں پار کر دیں۔ ان ہی مظالم کے تناظر میں شاہ عبدالقادر رائے پوری نے کہا تھا، ‘مسلمانوں نے حسین احمد (مدنی) اور ابوالکلام (آزادؔ) سے سبّ و شتم کا جو برتاؤ کیا ہے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں حسین احمد کا تقویٰ اور ابوالکلام کا صبر انہیں لے نہ ڈوبے’۔
مولانا آزادؔ نے دوقومی نظریے اور تقسیمِ ہند کی مخالفت کی اور کبھی اسے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے نہ صرف ذاتی طور پر مخالفت کی بلکہ جامع مسجد کی سیڑھیوں سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند کو ہجرت کرنے سے روکا۔ انہوں نے تقریر
کے دوران کہا تھا،
‘یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے اس پر غور کرو۔ اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے فیصلے کتنے عاجلانہ تھے۔ آخر کہاں جا رہے ہو؟ اور کیوں جارہے ہو؟ یہ دیکھو مسجد کے بلند مینار تم سے اُچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلے نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔۔۔۔’
مسلمانانِ ہند کے جن گروہوں نے مولانا آزادؔ کی اپیل پر رک کر سوچا وہ رک گئے اور جن قافلوں نے ‘امام الہند’ کی پکار سنی ان سنی کردی آج بھی دیارِ غیر میں ‘مہاجر’ ہی کہلائے جاتے ہیں۔ یہ مولانا کی دور اندیشی ہی تھی کہ انہوں نے قیامِ پاکستان کے وقت ہی بنگلہ دیش کے قیام کی بھی پیش گوئی کر دی تھی۔
آزادی کے بعد وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے مولانا ابوالکلام آزادؔ کو تعلیم کا قلمدان دیا۔ مولانا نے نہ صرف سائنسی تحقیقی اداروں کی شروعات کی بلکہ تہذیب و تمدن کے فروغ کے نئے نئے ادارے شروع کئے۔ انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشن، سپرو اکیڈمی، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، ساہتیہ اکیڈمی، سنگیت ناٹک اکیڈمی، للت کلا اکیڈمی، انڈین کونسل فار سوشل سائنس، انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز جواہر لال نہرو یونیورسٹی، کونسل آف سائنٹنفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ وغیرہ ادارے ان کی ہی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔
۱۹۵۲ء کے اولین پارلیمانی چناؤ میں مولانا، رام پور ڈسٹرکٹ کم بریلی ڈسٹرکٹ (ویسٹ) حلقہ سے کانگریسی امیدوار تھے۔ مولانا کو 59.57 فیصد ووٹ (۱؍لاکھ ۸؍ہزار ۱۸۰؍ ووٹ ملے جبکہ ان کے مدِّمقابل ہندو مہاسبھا کے امیدوار کو 40.43 فیصد (۷۳؍ ہزار ۴۷۲؍ووٹیں ملیں۔ دوسرے عام چناؤ ۱۹۵۷ء میں وہ پنجاب کے گڑگاؤں حلقہ سے کانگریس امیدوار رہے۔ اس مرتبہ انہوں نے 66.67 فیصد (۱؍لاکھ ۹۱؍ہزار ۲۲۱) ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی جبکہ مقابل بھارتیہ جن سنگھ کے امیدوار مول چند کو 33.32 فیصد (۹۵؍ہزار ۵۵۳) ووٹ ہی مل سکے۔
نابغۂ روزگار ہستی مولانا ابوالکلام آزادؔ تنہائی پسند تھے اور جلوت کے مقابلے خلوت پسند کرتے تھے۔ معمولاتِ زندگی کے بے حد پابند تھے۔ وہ تحریر کے ساتھ ہی تقریر میں بھی عامیانہ الفاظ کی بجائے عربی اور فارسی آمیز اردو استعمال کرتے تھے۔ اعلیٰ میعار کی چائے، اپنے ہی معیار کے مطابق بنی ہوئی پسند کرتے تھے۔
۱۹؍فروری ۱۹۵۸ء کو صبح میں مولانا آزادؔ پر فالج کا حملہ ہوا۔ طبی امداد پہنچائی گئی مگر مولانا بیہوش رہے۔ ایک دوبار ہوش آیا لیکن مرض میں افاقہ نہ ہوا۔ ۲۲؍فروری صبح ۲؍بج کر ۱۰؍منٹ پر انہوں نے رحلت فرمائی۔ ۲۲؍فروری کو ہی سہ پہر تین بجے مولانا سعید احمد ملیح آبادی نے دہلی کے پریڈ گراؤنڈ میں نمازِ جنازہ پڑھائی اور اسی گراؤنڈ میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان جسے اب ‘اردو پارک’ کہا جاتا ہے، اس گنجینۂ علوم کو سپردِ خاک کیا گیا۔
مولانا آزادؔ کی آخری تصنیف ‘انڈیا وِنس فریڈم’ میں ان کی سیاسی زندگی اور اس وقت کے بھارت کے سیاسی حالات پیش کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کے ۳۰؍صفحات ان کی وفات کے ۳۰؍برس بعد کھولے جانے تھے مگر ۲۲؍فروری ۱۹۸۸ء گزر جانے کے باوجود اسے شائع نہیں کیا گیا تھا اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا تھا۔ بالآخر عدالت نے ۳۰؍ستمبر ۱۹۸۸ء کو انہیں کھلواکر کتاب کو ناشر اورینٹ لانگ مین کے سپرد کردیا۔
۱۹۵۴ء میں ‘بھارت رتن’ کے لیے ان کا نام دیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انتخابی کمیٹی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ خود انعام رکھ لے۔ ان کے انتقال کے برسوں بعد، بعد از مرگ بھارت رتن کا اعلان ۲۲؍جنوری ۱۹۹۲ء کو کیا گیا اور خاموشی سے بذریعۂ پوسٹ ان کے عزیز نورالدین احمد کو جون کے مہینے میں روانہ کیا گیا۔
مولانا ابوالکلام آزادؔ نے جدید بھارت کی تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر تقسیم کی حمایت نہ کرکے، مسلمانانِ ہند کے مستقبل کا خیال کرتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ یقینا تقسیم کے سانحے کی وجہ سے مسلمانانِ ہند اپنے آپ میں بے حیثیت ہوگئے۔ برصغیر ہی نہیں اس وقت دنیا میں سب سے بڑی مسلم آبادی رکھنے والے بھارت میں مذہبی بنیاد پر ہونے والی غیر قدرتی تقسیم خود مسلمانوں کے حق میں سمِ قاتل ثابت ہوئی۔
آزادی کے امرت مہوتسو کے اس موقع پر مولانا آزادؔ کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ضروری اس لئے ہے کہ انہوں نے
متحدہ قومیت پر اس وقت بھروسہ کیا جبکہ مذہب و سیاست سے وابستہ ہر شخص پاکستان کو کلمۂ حق کے ذریعے ثابت کرنے پر تُلا ہوا
تھا۔ وقت نے ثابت کردیا کہ ان کا نعرہ غلط تھا اور مولانا آزادؔ کا استدلال درست۔ خواہ سو برس گزر جائیں یا دو سو برس، غلط تقسیم کو صحیح ثابت نہیں کرسکتے۔
٭٭٭