You are currently viewing مولانا ابو الکلام آزادؒ کے سماجی و سیاسی تصورات

مولانا ابو الکلام آزادؒ کے سماجی و سیاسی تصورات

محمد شفاء اللہ صدیقی

صدر شعبہ اردو ،عربی و مطالعہ اسلامیات

گرین ویلی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ ،سری نگر ۔جموں وکشمیر

مولانا ابو الکلام آزادؒ کے سماجی و سیاسی تصورات

          مولانا ابو الکلام آزاد تحریک آزادی ہند کے ہمت و ر مجاہد ، دانش ور قائد، دوراندیش رہبر قوم و ملت، میدان سیاست کے نا قابل تسخیر شہسوار ،زبردست ادیب اور عمدہ صحافی ،مسحور کن مقر ر اورہر دلعزیز مصنف ، ایک فقید المثال عالم اور دیدہ ور مفسر قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی مفکر اور سیاسی مدبر بھی تھے۔ آپ کی تصنیفات اور آپ کے خطبات کو سن کر آپ کی فکری گہرائی اور سیاسی دوراندیشی سمجھی جاسکتی ہے۔ حکیم اجمل خان نے غبار خاطر کے دیباچہ میں مولانا کی اسی پہلودار شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے کہ ’’مولانا کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میںبٹی ہوئی ہے ۔وہ ایک ہی زندگی اورایک ہی وقت میںمصنف بھی ہیں،مقرربھی ہیں ،مفکر بھی ہیں،فلسفی بھی ہیں،ادیب بھی ہیں،مدبر بھی ہیںاور ساتھ ہی ساتھ سیاسی جدو جہد کے میدان کے سپہ سالار بھی ہیں،،۔

                  ہندوستان کی یہ مایہ ناز ہمہ جہت ہستی اور آزاد ہندوستان کے پہلے اور اب تک کے سب سے کامیاب وزیر تعلیم اور مقبول خاص وعام قومی سیاسی رہنما محی الدین احمد فیروز بخت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ۱۱؍نومبر ۱۸۸۸؁ ء کو مکہ معظمہ کی مقدس دھرتی پر پیدا ہوئے ۔ بچپن حجاز میں گزرا ،ابتدائی تعلیم وتربیت اسی مقدس اور پاک سرزمین پر ان کے والد محترم کے ہاتھوں ہوئی ۔جب کہ لڑ کپن کی عمر کو پہونچتے ہی اپنے والد محترم کے ساتھ ملک ہندوستان تشریف لائے اور یہیں تعلیم وتربیت پانے لگے ،بڑی محنت و جانفشانی کے ساتھ تعلیم کی تحصیل میں مگن رہے اور اچھے طالب علموں میں شمار ہونے لگے ۔ اردو اور  فارسی کی باقاعدہ تعلیم اپنے والد محترم سے ہی حاصل کی جو فارسی اور اردو کے اچھے اور ماہر جانکار تصور کیے جاتے تھے۔ اسی علمی گھرانہ کا فیض تھا کہ چودہ سال کی مختصر سی عمر میں انہوںنے علوم شرقیہ کی تکمیل کرکے دیگر علوم وفنون کی تحصیل میں منہمک ہوگئے۔

          خدا نے غیر معمولی حافظہ کی دولت اور حیران کن ذہانت کی نعمت سے سرفراز کیا تھا ، زیر کی اور دوراندیشی کا بیش بہا اور انمول خزانہ بھی انہیں بارگاہ الٰہی سے عطا ہوا تھا ، بلند پر وازی  بھی نصیب تھی ،عالی ہمتی بھی تھے ،ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق ہونے کے باعث ، محض بارہ سال کی عمر میں عربی زبان و ادب کی مباد یات سے نہ صرف یہ کہ  اچھی واقفیت حاصل کر لی تھی بلکہ اس کے رموز وعلائم سے بھی اچھی طرح باخبر ہوگئے تھے ۔ چنانچہ پندرہویں بر س کے ہوئے تو  طلباء کی ایک بڑی تعداد ان سے کسب  فیض کرنے لگی۔یعنی صرف پندرہ سال کی عمر میں مدرسی کا فریضہ انجام دینے لگے۔جبکہ اسی چھوٹی سی (پندرہ سال کی) عمر میں جریدہ ’’ لسان الصدق‘‘ جاری کرکے نہ صرف یہ کہ اپنی صحافتی صلاحیت کی واضح دلیل پیش کردی بلکہ اپنے سیاسی اور سماجی خیالات کی مؤثر ترسیل وترجمانی کے لیے طاقتور ذریعہ بھی تلاش کرلیا ۔ آ پکی مادری زبان چونکہ عربی تھی اس لیے وہ زبان جس کا چٹخارہ آپ کی اردو تحریروں میں نظرآتا ہے وہ عربی ہے اور آخری عمر تک آپ کی محبوب ترین زبان عربی رہی ہے ،غبار خاطر جو آپ کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جنہیں آپ نے گوالیار میں اپنی محبوسیت و محصوریت کے زمانے میں قلبی بھڑاس نکالنے کے لیے اپنے دیرینہ اور مخلص دوست حبیب الرحمان خان شیروانی ؒ کو لکھے تھے ،میں بطور حوالہ شامل عربی کے منتخب اور عدیم المثال اشعار و محاورات و امثال در اصل مولانا ؒ کے ذوق عربی زبان وادب کے واضح دلائل ہیں اور یہی وہ دلکش اور حسین طرز تحریر ہے جس سے متاثر ہوکر مسیحائے غزل حضرت فضل الحسن حسرت ؔ موہانی نے بالکل بجا طور پر کہا تھا :

                                                      جب سے دیکھی ابو الکلام کی نثر

                                                       نظم حسرت میں کچھ  مزا نہ رہا

         غرض یہ کہ آپ کی تحریر دلبرانہ وتقریر دلنشیں ، آپ کے مقالات علمی وفنی و خطبات معنی خیز وپرمغز،مؤثرانداز اور سنجیدہ فکر و خیالات کے باعث جب لوگ اپنے شوق دید کی تکمیل کی غرض سے آپ کا دیدار کرتے توآپ کی کم عمری کو پیش نظر رکھ کر حیرا ن و پریشان اور انگشت بدنداں رہ جاتے تھے ۔

         ۱۱؍فروری ۱۹۵۸؁ء کو یہ دیو قامت شخصیت مہلک مرض’’ فالج‘‘ کا شکار ہوگئی۔ فالج کے باعث جسم کے دائیں حصے سے مکمل طور پر مفلوج وبے کار ہوگئے۔علاج و معالجہ میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ ہونے کے باوجود  ۶۹؍سال کی عمر میں دینی ،علمی ، سیاسی اور سماجی ہمہ جہت خدمات انجام دے کر ۲۲؍فروری ۱۹۵۸؁ء کو بروز سنیچر ۲؍ بج کر ۱۵؍منٹ پر انتقال کرگئے۔جامع مسجد دہلی کے سامنے ان کی تدفین عمل میں آئی ۔

          زیر نظر مضمون چونکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے سماجی اور سیاسی تصورات سے متعلق ہے اس لیے ان کی پوری انہتر سالہ زندگی کا مطالعہ ان دونوں حوالوں سے کرنا ناگزیر ہے ۔ مولانا کی جملہ نگارشات اور تمام تصنیفات کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ جس طرح ابتدا سے ہی جدید صحافت کے بانی اور لہجہ تراش صحافی کے بطور منصہ شہود پر آفروکش ہوئے اسی طرح میدان سماجیات میں بھی وہ منفرد نظریات وتصورات کے حامل رہے ہیں ۔جب کہ مجال سیاست میں ان کے جیسا کوئی قدآور سیاسی لیڈر ملک ہندوستان کی تاریخ میں نہیں گزرا ۔انہوںنے سماجیات و سیاسیات کے باب میں جو لیڈرانہ کارنامہ انجام دیا ہے اسے تاریخ کے اوراق کبھی فراموش نہ کرسکیں گے ۔بحیثیت سیاسی لیڈر دیدہ ور سیاست داںتھے اور انہوں نے اپنی ذمہ داری بڑی بے باکی اور بردباری سے نبھائی۔نیز وہ نہایت بے باکی اور جرأت مندی سے اپنے مشن میں بھی بھرپور طریقے پر کامیاب رہے۔متعد د لغات میں مہارت کے باعث ان کی تحریر وں میں نفاست کے ساتھ ساتھ وسعت و گہرائی اور زبان کی لطافت و پرکاری بھرپور طریقے پر پائی جاتی ہے ۔

             مولانا ابوالکلام آزادؒ کی ایک تقریر سے ماخوذ اس جملہ ’’ میں مسلمان ہوں اور مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے ! میں ہندوستان کے ناقابل تسخیر اتحاد کا حصہ ہوں ‘‘ سے ان کے دونوں ہی قسموں کے تصورات پرروشنی پڑتی ہے اور ان کے سیاسی اور سماجی دونوں ہی تصورات کو سمجھنے میں سہولت فراہم ہوتی ہے۔ ویسے بھی مولانا کے سماجی اور سیاسی تصورات دونوں منفرد نوعیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے اور دونوں ہی ان کے اپنے تخلیق کردہ تھے ۔ وہ ترقی پسند سیاسی خیالات اور معقول مذہبی سماجی تصورات کے نمائندہ علمی شخصیت تھے ۔وہ کسی نظریہ کو اس وقت تک اختیار نہ کرتے تھے جب تک کہ خود انھیں پرکھ نہ لیں ۔انہوں نے اپنی اس فطرت کا تذکرہ اپنی خود نوشت سوانح عمری ’’ تذکرہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ میرے لیے ناممکن ہے کہ میں کسی بات پر یقین لے آؤں جب تک میں اسے اپنی عقل کی کسوٹی پر نئے سرے سے نہ پرکھ لوں‘‘۔ایک اور موقع پر مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے کہا تھا کہ ’’ انسان کی دماغی ترقی کی راہ میں بڑی روک اس کے تقلیدی عقائد ہیں ‘‘۔(روزنامہ انقلاب ؍ادب وثقافت ؍شمارہ ۲۳؍فروری ۲۰۲۰؁ء)اسی وجہ سے مصلح قوم سرسید احمد خان کے بہت مخلص دوست نواب محسن الملک انھیں ہمیشہ ’’ خورد سال مگر پختہ کار ‘‘ کے الفاظ میں مخاطب کرتے تھے۔

         مولانا کے سماجی تصورات:۔

         جہاں تک ان کے سماجی تصورات کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ان کے نظریات و خیالات قرآنی اور حد یثی ہیں ۔وہ فطری طور پر اجتماعیت پسند ہیں ،انسانی معاشرہ میں بغیرکسی امتیاز و تفریق کے خوش گوار  باہمی ربط و تعلق کے قائل ہیں ۔ان کی جملہ متعلقہ تحریریں اور تمام ترسماجی خطبات سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ وہ ایک ماہر سماجیات کے بطور خارجی اور داخلی ہر دو طرح کے فوائد کو پیش نظر رکھ کر متحد اور متفق معاشرتی زندگی کے حق میں تھے ۔

         سماج کے تعلق سے مولانا کا تصور دراصل قرآنی سماجیاتی تصورات کا عکاس ہے ۔وہ باہم میل جول کی زندگی کو سب سے بہتر زندگی تصور کرتے تھے ۔ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں ایسے معاشرے کی ضـرورت پر وہ زور دیتے تھے جس میں  انسانوں کے آپسی اتحاد واتفاق اور ان کی معاشرتی اجتماعیت کو زیادہ سے زیادہ استحکام حاصل ہو، صالح بنیادوں کے فروغ اور اجتماعیت کو تقویت بخشنے والے عناصر کی افزائش پر ان کی خصوصی توجہ تھی ۔چنانچہ انہوں نے اپنے سماجی تصورات کے آئینے میں ایسی سماجی زندگی کے وکیل اور ا س کے مبلغ تھے جس میں درج ذیل خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہوں:

                  ۱۔ وحدت نسل انسانی اور فرقہ وارانہ اتحاد و یگانگت ہو ، رنگ ونسل ،وطن و علاقہ ، زمان و مکان اور دیگر کسی بنیاد (خواہ تعصب یا علاقہ پرستی ) پر انسانوں کے مابین کسی طرح کی تفریق بہرحال نہ ہو، کیوں کہ سبھی انسانوں کی پیدائش ایک مرد اور ایک عورت سے عمل میں آئی ہے ۔جب کہ تمام انسانوں کی تخلیق مٹی سے ہوئی  ہے ۔ اس لیے کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فوقیت ہے ۔

               ۲۔ خیر کی بالادستی اور شرکی پسپائی او رنیستی ہو۔ سماج کے تمام افراد باہمی محبت ،اخوت ، مودت ، معاونت اور ایک دوسرے کے تئیں حسن ظن کی نعمت سے لیس اور باہم بدگمانی ، تجسس، بغض و حسداور غیبت و بہتان تراشی کی لعنتوں سے محفوظ ہوں، نیز وہ آپس میں خوش دلی سے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہوں۔

         ۳۔جس کا ہر فرد بشر دوسرے فرد بشر کے لیے مثل آئینہ ہو  اور اس کی پاکیزگی کو تروتازہ رکھنے کے لیے اس میں کچھ افراد ہوں جو دوسروں کو اچھائی کا حکم کریں اور برائیوں سے روکیں ،تاکہ عذاب سے محفوظ اور دعا کی قبولیت کی نعمت سے اس کا ہر فرد سرفراز ہوسکے ۔

         ۴۔ حقیقی سماجی زندگی کا تحقق اس صفت انسانی پر منحصر ہے کہ اس کے تمام افراد باہم شیرو شکر اور مخلص و بے غرض ہو ں۔ہمدرد  وغم خوار ہوں ۔زبان وہاتھ کے شرکے حوالے سے سب ایک دوسرے سے محفوظ و مامون ہوں ۔جو اپنے لیے پسند کرتے ہوں وہی دوسرے بھائی کے لیے پسند کرتے ہوں۔منافقت و دوغلاپن کا اس میں دور دور تک گزر نہ ہو۔بیوہ اور مسکین کی ہمہ جہت ضروریات کا بے لوث انتظام ہو۔

         ۵۔ پڑوسی کے حقوق کا بہرحال لحاظ رکھا جاتا ہو، مسلک و منہج ، دین ودھرم  اور نظریہ و رجحان کی تمیزکے بغیر ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے حقوق کو اکمل طریقے پر ادا کرتے ہوں اور سارے انسان آپس میں بھائی بھائی کی تصویر بن کر رہ رہے ہوں۔

         مولانا کے سیاسی تصورات:۔

         مولانا کی سیاسی زندگی کی شروعات باضابطہ طور پر ۱۹۱۲؁ء میں ان کے جاری کردہ اخبار’’ الہلال‘‘ کے ذریعہ اس وقت ہوا جب انھوں نے اپنے سلجھے ہوئے خیالات کو نہایت موثر اور رائے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے پیش کر ناشروع کیا ۔مولانا کے اس میں شائع شدہ سیاسی مضامین نے نہ صرف یہ کہ سیاسی فکر نو کی تشکیل کی بلکہ اپنے وقت کے تعلیم یافتہ اور فرسودہ عقائد پرستی سے تنگ آچکے مسلمانوں کو نئے ولولہ ٔ مذہبی سے سرشار کیا۔مولانا کے سیاسی خیالات اتنے طاقتور اور جمہوری نقطہ نظر سے اتنے ٹھوس تھے کہ حکومت وقت کی نیندیں بار بار حرام ہوئیں ۔جن کے نتائج الہلال اور البلاغ کی اشاعتوں پر پابندیوں کی شکل میں ظاہر ہوئے ۔مولانا گرفتار بھی ہوئے تاہم ۱۹۲۰؁ء میں رہائی کے بعد ان کی علمی اور فنی بصیر ت کے اعتراف میں انھیں یہ اعزاز بجا بھی دیا گیا کہ پورے ملک ہندوستان کے جملہ مقتدر علمائے دین وشریعت نے متفقہ طور پرآخر کار یہ طے کرہی لیا کہ دینی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی امور میں مولانا سے زیادہ صاف اور سلجھی ہوئی سوجھ بوجھ کا حامل کوئی اور شحص نہیں ہے ۔یہ الگ بات کے وقفے وقفے سے مولانا کو سخت کچوکے بھی لگائے گئے اور انھیں چوٹیں بھی کھانی پڑیں۔

         اپنے عہد کی سیاست پر ان کی گہری نظر اور میدان سیاست کے نشیب وفراز سے وہ پوری طرح واقف تھے۔بنابریں نہایت مناسب موقع پر مطلق العنان برطانوی حکومت کو بدل کر سلف گورنمنٹ کے قیام کی فکر مولانا نے دی  ۔کانگریس میں شمولیت ان کی سیاسی آرا کے مضبوط تر ہونے کا ایک ذریعہ ثابت ہوئی ۔ اپنی سیاسی صلاحیت و لیاقت کے باعث وہ نہ صرف یہ کہ انڈین نیشنل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے لیڈر رہے بلکہ پارٹی کے قومی صدر بھی رہے ۔سیاست میں ان کی شرکت ایک معتدل اور باہم معاون حکومت کے قیام کے لیے کی جانے والی ممکنہ کوششوں کی اساس پر قائم تھی ۔بنابریں مشہور سیاست داں اور نبض شناس مقبول قومی رہنما کے بطور ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے۔

         مولانا کے سیاسی تصورات کے باب میں ان کی سیاسی دوراندیشی کے حامل ان جملوں – جو انہوں نے دلی کی جامع مسجد سے قیام پاکستان کے تناظر میں اپنے دردمندانہ خیالات کے اظہار کے لیے بولے تھے -کو سوفیصد درست ثابت ہوجانے پر کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔چنانچہ انہوں نے پورے برصغیری مسلمانوں پرمرتب ہونے والے تقسیم ہند کے نہایت تکلیف دہ نقصانات کا تذکرہ ہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ تقسیم ہند کی بنیاد ہندو اور مسلمان کی عداوت پر رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ ایک آئینی شکل اختیار کرگئی ہے اور اس کا حل اب اور زیادہ مشکل ہوگیا ہے ۔اس طرح یہ دونوں ملک خوف وہراس کے تحت اپنے اپنے ملک کے فوجی اخراجات بڑھانے پر مجبور رہیں گے اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے ‘‘۔یہ جملے ابھی بھی اسی طرح تازہ اور عملی شکل میں پوری طرح ہرے بھرے ہیں جس طرح اس وقت لوگوں کو محسوس ہوئے ہوں گے ۔ہندوستان و پاکستان کے عوام اور خاص طور سے دونوں ملکوں کی سرحدوں پر مقیم لوگ ہی ان جملوں کے مفاہیم و معانی کو آزادی ؒ لہجے میں بیان کرسکیں گے ۔

         گاندھی جی نے مولانا کی سیاسی بصیرت کے اعتراف میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ مولانا انڈین نیشنل کانگریس کے اعلیٰ ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے ‘‘۔(محمد عبدالحمید خان ؍ مضمون ’’ مولانا ابوالکلام آزاد کی ناقابل فراموش خدمات‘‘ )

         غرض یہ کہ مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی ان کے سماجی اور سیاسی مضبوط نظریہ ساز تصورات و خیالات کے باعث ایک خاص شناخت آج بھی قائم اور اپنی جگہ بر قرار ہے ۔ا نکی پرکشش شخصیت کی ہمہ گیری اور ان کی خطابت کی ہردل عزیزی کی کرشمہ سازی ہے کہ ان کی سماجی و سیاسی ہر دو طرح کی خدمات تاریخ کے صفحوں پر ہمیشہ چمکتی رہیں گی اور آنے والی نسلیں ان سے فیض یاب ہوتی رہیں گی ۔ان کی مقبولیت کے بے پنا ہ اسبا ب اور بے شمار پہلو ہیں جن کو بہت اختصار کے ساتھ عرش ملسیانی نے اپنی ایک تصنیف ’’جدید ہندوستان کے معمار مولانا ابوالکلام آزادؒ ‘‘ میں بیان کردیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں ’’ وہ  مذہب ،سیاست ،رسم و رواج ہر میدان میں اجتہاد کے قائل تھے ، انھوں نے ہمیں نئی راہیں بتائیں، ہمارے لیے اندھیری راہوں میں شمعیں روشن کیں۔ اتنا بڑا عالم ، قدیم وجدید کا اتنا بڑا امتزاج ،علوم قدیم و جدید کے ماہر ،سائنسی نظر سے دنیا کو دیکھنے والا اس عہد میں ان سے بڑا شاید ہی کوئی ہو، لوگ انھیں امام الہند کہتے تھے ،مگر حقیقت میں امام انسانیت تھے ‘‘۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مولانامرحوم کی سماجی اور سیاسی بصیرتو ں اور اس ضمن میں ان کی مشعل راہ تحریروں سے بھرپور استفادہ کیا جائے ۔کیوں کہ وہ ایک شخص نہیں مستقل ادارہ ہے

مآخذ وکتابیات

         ۱۔ ظفر احمد نظامی ؍  مولانا آزاد کی کہانی

         ۲۔ظفر احمد نظامی ؍  ہندوستان کے چند سیاسی رہنما

         ۳۔ محمد ممتاز حسین ؍ سوانح حیات مولانا آزاد

         ۴۔عرش ملسیانی ؍  جدید ہندوستان کے معمارمولانا ابوالکلام آزاد

         ۵۔ مولانا عبد الرزاق  ملیح آبادی   ؍   ذکر آزاد

         ۶۔ علی جواد زیدی  ؍       انوار ابوالکلام آزادؒ

         ۷۔ ڈاکٹر عابد حسین ؍  ہندوستانی مسلمان آئینہ ایام میں

***

Leave a Reply