You are currently viewing مولانا سید سلیمان ندوی اور سیرت عائشہ

مولانا سید سلیمان ندوی اور سیرت عائشہ

ڈاکٹر شافعہ

 دوآبگاہ سوپور، کشمیر

مولانا سید سلیمان ندوی اور سیرت عائشہ

اردو ادب کے نامور مورخ ،محقق،سوانح نگار،سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد رشید سید سلیمان ندوی اردو کے اہم نام ہیں۔ جو ۲۲ نومبر ۱۸۸۴میں بہار میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے اپنے قلم کی بدولت اردودنیا کومالامال کردیا۔اپنے استاد کے انتقال کے بعد ان کی لکھی ہوئی سیرت’’سیرت النبی‘‘کی چار جلدیں مکمل کیں ۔انہوں نے یکے بعد دیگرے تصانیف شائع کرائی جن میں ’’عرب وہندکے تعلقات،حیات شبلی،رحمت عالم،نقوش سلیمان،مقالات سلیمان،ارض القرآن ،سیرت عائشہ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

’’سیرت عائشہ‘‘ ام المومنین سیدہ عائشہ کی حیات مبارکہ پر مبنی ہیں،جو دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ،یو پی سے شائع ہوئی ہے۔کتاب کی شروعات دیباچہ سے ہوتی ہے ،جس میں مصنف نے کتاب کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اسے پائے تکمیل تک پہنچانے کے ذوق کو بھی موضوع بحث لایا ہے۔

         ’’نو برس گزر گئے ،جب مجھ کو سیرت عائشہ کا اول اول خیال آیا،اس وقت میں الندوہ کا سب اڈیٹر تھا ،اور یہ میرے تعلیمی زمانہ کا آخری سال تھا ،اپریل ۱۹۰۶ء میں ایک عریضہ کے ذریعہ سے اپنے خیالات استادمرحوم کی خدمت میں عرض کئے ۔انہوں نے ہمت بندھائی اور کتابوں کے نام بتائے،چنانچہ دو برس کے بعد ایک ٹکڑا ربیع الاول ۱۳۲۶ھج مطابق اپریل ۱۹۰۸ء کے الندوہ میں شائع بھی کیا گیا۔پھر سوء اتفاق سے یہ خیال کچھ سرد سا پڑگیا لیکن احباب کا تقاضائے شوق برار جاری رہا۔‘‘  ۱ ؎

کتاب کے ماخذ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا ماخذ صیح بخاری ،صیح مسلم ،ابوداود جیسی مستندد کتابیں ہیں۔مصنف کا دعویٰ ہے کہ ان کتابوں کا ایک ایک حرف ان کی نظر سے گزرے ہیں۔اس سیرت کے مطالعے سے قاری کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ مصنف کا کیا گیا دعویٰ با لکل صیح ہے۔مصنف کے اس غائر مطالعے کی وجہ سے انہوں نے سیرت عائشہ جیسی کتاب قارئین کی نظر کی ہے۔سید سلیمان ندوی کے مطابق ایک مسلمان عورت کی زندگی میںجو تغیر و تبدل رونما ہوتے ہیں مذکورہ کتاب میں باضابطہ طور پر اس کی نشاندہی کی گئی ہے ۔انہوں نے عالمی دنیا کی عورتوں کے لیے حضرت عائشہ کو Role Modelقرار دیا ہے۔مذکورہ کتاب میں انہوں نے حضرت عائشہ کو ’’مراۃ کاملہ‘‘کا لقب دیا ہے۔ جس کے معنی کامل عورت کے ہے

 کتاب کی شروعات میں حضرت عائشہ کی ولادت و ازدواجی زندگی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جیسے کہ ان کی والدہ ام رومان کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا تھا جن کے انتقال کے بعد ان کا نکاح حضرت ابو بکر سے ہوا اور اس طرح ام رومان کے بطن سے حضرت عائشہ نے جنم لیا ۔آگے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ کی شادی کا ذکر ہے،جس میں حضرت عا ئشہ کی شادی سے پہلے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی شریک حیات  حضرت خدیجہ کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں ۔ ا س کے بعد ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ کے نکاح کے بارے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔اس سلسلے میں مصنف لکھتے ہیں:

’’حضرت عطیہ حضرت عائشہ کے نکاح کا واقعہ اس سادگی سے بیان کرتی ہیں کہ ،حضرت عائشہ

لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں ۔انکی انا آئی ۔اور ان کو لے گئی ،حضرت ابوبکر نے آکر نکاح

پڑھادیا‘‘۔  ۲  ؎

ان کا نکاح نہایت ہی سادگی اور ہر رسم و رواج سے منزہ ہو کر ہوا۔جس میں کسی قسم کی تکلیف اور اسراف کا نام نہیں تھا۔ اس کے علاوہ کتاب کا باقی حصہ حضرت عائشہ کی تعلیم و ترتیب ،خانہ داری،معاشرت ازدواجی، سوتیلی اولاد کے ساتھ برتاؤ،وقعہ افک،تحریم ایلاو تخییر،بیوگی،عام حالات،دعوت اصلاح ،وفات، اخلاق و عادات ،علم و اجتہاد،علم حدیث،فقہ و قیاس ،علم کلام و عقائد،عالم نسوانی میں حضرت عائشہ کا درجہ وغیرہ پر مبنی ہیں ۔ان عنوانات کے اندر ذیلی عنوانات بھی شامل کیے گئے ہیں۔سید سلیمان ندوی اپنی تحقیق کی بنا پر لکھتے ہیں آپ (حضرت عائشہ)کی تعلیم و ترتیب ان کے والد صاحب حضرت ابو بکر نے کی لیکن اصل تعلیم و تربیت کا زمانہ رخصتی کے بعد سے شروع ہوا۔اور اس طرح سے انہوں نے اپنے شوہر سے تعلیم حاصل کی۔سیرت عائشہ میں ذیلی عنوانات کے تحت ایک عنوان ’’بیوی سے محبت‘‘کے بارے میں ہے۔اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ کی محبت کی داستان ہے۔سید سلیمان ندوی ’’صیح بخاری فضل عائشہ صفحہ۵۳۲ سے نقل کرکے لکھتے ہیں:

         ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ سے نہایت محبت رکھتے تھے،اور تمام صحابہ کو معلوم تھا۔چنانچہ لوگ قصد اً اسی روزہدیے اور تحفے بھیجتے تھے ،جس روز حضرت عائشہ کے ہاں قیام کی باری ہوتی۔‘‘  ۳  ؎

اس پر باقی ازواج مطہرات کو ملال ہوتا جو انسانی فطرت کا ایک اہم حصہ ہے۔وہ حضرت عائشہ پر رشک کرتیں تھیں ۔لیکن جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ سے محبت کرتے اسی طرح حضرت عائشہ بھی اپنے شوہر سے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ان کی محبت کے حوالے سے مصنف نے بہت سارے واقعات نقل کیں ہیں جن میں ایک مشہور واقع یوں ہیں:

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہسواری اور تیراندازی کا بہت شوق تھا ۔صحابہ کو اس کی ترغیب دیتے تھے اور خود اپنے سامنے لوگوں سے اس کی مشق کراتے تھے۔ ایک غزوہ میں حضرت عائشہ رفیق سفر تھیں۔تمام صحابہ کو آگے بڑھ جانے کا حکم دیا۔ حضرت عائشہ سے فرمایا آؤدوڑیں۔ دیکھیں کون آگے نکل جاتا ہے۔ یہ دبلی پتلی تھیں آگے نکل گئیں۔ کئی سال کے بعد اسی قسم کا پھر ایک اور موقع آیا حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اب میں بھاری بھر کم ہوگئی تھی۔ اب کی آپ ﷺ آگے نکل گئے۔ فرمایا عائشہ یہ اس دن کا جواب ہے ‘ ‘  ۴ ؎

حضرت عائشہ کے واقعات کے ساتھ ساتھ مصنف نے دوسری ازواج مطہرات کا تذکرہ کیا ہیں،جن میں حضرت خدیجہ ،حضرت حفصہ،حضرت ام سلمہ،حضرت جویریہ،حضرت زینب بنت حجش شامل ہیں۔مذکورہ کتاب میں حضرت عائشہ کے بارے میںتقریباً تمام واقعات نقل کیے گئے ہیں،جس میں مندرجہ بالا عنوانات کے ساتھ ساتھ منافقین کی شرارتیں اور تہمت کو بھی موضوع بحث لایا گیا ہے۔جس میں عبداللہ بن ابی ،جنہوں نے حضرت عائشہ کی پاکدامنی پر الزام عائد کیا ،کا واقعہ بھی شامل ہے ۔ ساتھ ہی قرآن مجید کی وہ آیات درج ہیں جن میں اللہ تعالیٰ حضرت عائشہ کی پاکدامنی کا خود گواہ ہیں۔اس واقعے کے متعلق’’ سرولیم میور‘‘نے اپنی کتاب’’ لائف آف محمد ‘‘میں جو واقع بیان کیا ہے اس کے بارے میں مصنف ان واقعات کوحدیث وسیرت کی ساری کتابوں کے خلاف تصور کرتے ہیں ۔اس کے متعلق موصوف نے سر ولیم میور کی کتاب سے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ یوں ہیں۔

 ’’بنی مصطلق کے خلاف بھیجی ہوئی مہم جب مدینہ واپس آئی تو عائشہ کا محمل آپ کے سامنے دروازہ کے پاس مسجد کے متصل رکھا گیا ،لیکن جب کھولا گیا تو وہ خالی تھا ،تھوڑی دیر کے بعد صفوان جو ایک مہاجر تھے نمودار ہوئے اونٹ پر عائشہ بیٹھی ہوئی تھیں،اور آگے آگے صفوان تھے‘‘

 آگے چل کر کہتا ہے:

’’ اگرچہ صفوان نے بڑی جلدی کی تاہم فوج کو نہ پا سکے ۔پس لوگوں کے اترنے اور خیمہ نصب کرنے کے بعد حضرت عائشہ صفوان کی رہبری میں منظرعام کے سامنے داخل شہر ہوئیں۔‘‘  ۵ ؎

آگے کتاب میں بیوگی کا تذکرہ ہے۔ اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال کی تھی جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کا سفر اختیار کرلیا ،اس سفر کی شروعات بھی حضرت عائشہ کے حجرے مبارک سے ہوئی۔اس واقعہ کے بعد بہت سارے واقعات پیش کئے گئے ہیں جن میں حضرت عائشہ کی وفات کا واقعہ’’وفات‘‘عنوان سے ہی شامل ہے ۔ سید سلیمان ندوی کے مطا بق آپ ( حضرت عائشہ) ۱۲ جون، ۶۷۸؁ کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئی ۔ آخر پر ’’عالم نسوانی میں حضرت عائشہ کا درجہ ‘‘کے عنوان سے سیرت حضرت عائشہ کے تمام اوصاف کو مستند طریقے سے مصنف نے پیش کیا ہے۔

المختصر ’’ سیرت عائشہ‘‘ میں  سید سلیمان ندوی نے  حضرت عائشہ کے ساتھ جڑے سارے واقعات کو انتہائی عرق ریزی سے پیش کیے ہیں۔کتاب کے آخری اوراق پر حضرت عائشہ کی عمر مبارکہ پر تحقیقی نقطۂ نظر بھی پیش کیا ہے۔اور خلاصہ بحث میں حضرت عائشہ کا نکاح وقت کے عمر کے سلسلے میں سرسری روشنی ڈالی گئی اور ثابت کیا گیا کہ اُس وقت ان کی عمر محض چھ برس کی تھی ۔کتاب کا مطالعہ کرنے سے اس بات پر یقین ہوجاتا ہے کہ پہلے صفحات میں مصنف نے کتاب کے ماخذ کے بارے میں جو دعویٰ کیا ہے وہ سچ ثابت ہوتا ہے ۔

٭٭٭

 حوالہ جات

  ؎۱علامہ سید سلیمان ندوی ،سیرت عائشہ ،دارلمصنفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،یو پی۔ دیباچہ ص۱۲

  ؎۲ ایضاًص ۲۵

  ؎۳ایضاً ص

  ؎۴  سنن ابو داؤد باب السبق۔مشمولہ علامہ سید سلیمان ندوی ،سیرت عائشہ ،دارلمصنفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،یو پی۔ص۵۸۔۵۷

  ؎۵ ایضاً ص ۹۵

  ؎۶ ابن سعد جزء نسا ء ص۵۱۔مشمولہ علامہ سید سلیمان ندوی ،سیرت عائشہ ،دارلمصنفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،یوپی۔ص۱۵۶۔

***

Leave a Reply