محمد ریحان خاں
اسلامیہ کالج، شاہ جہاں پور
نگراں: پروفیسر مظہر مہدی حسین
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
میر تقی میرؔ کی شاعری میں نیستی کا تصور
یہ ایک مسلمہ حقیت ہے کہ میر تقی میرؔ اردو کے نہایت ہی عظیم المرتب شاعر ہیں ان کی شعری قدرومنزلت کا واضح ثوت یہ ہے کہ انہیں اردو شاعری میں خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ان کی شاعری میں فکری وفنی سطح پر عشق وعاشقی،درد وغم، سوزوگداز،ر نج والم،آہ وفغاں،
سیاسی وسماجی مسائل،اخلاقی ومذہبی اقدار،خداری وغیرت مندی کے مضامین،حقیقی واصلی صورت حال،عارفانہ موضوعات،دلّی واہل دلّی کی تباہی وبربادی،حیات وکائنات کی تصویر کاری،داخلی وخارجی کیفیات کی عکاسی،شاعرانہ تعلی وبالادستی، فارسی الفاط وتراکیب،تشبیہات و
استعارات،خطابتی انداز بیان،ترنم وموسیقیت، سادگی وسلاست، بے ثباتی اور نیستی کے مضامین نظر آتے ہیں۔
ایک بڑا شاعر جن خوبیوں سے بڑا بنتا ہے وہ یہ ہیں کہ اس کے یہاں خیالات کی پاکیزگی وبلندی ہو،الفاظ ومضامین کے انتخاب میں شعوری اور غیر شعوری کاوشیں ہوں،معنوی گہرائی وگیرائی ہو،گوناگوں موضوعات کا تنوّع ہو،مخصوص اصطلاحات کے تجربات ہوں، مختلف علوم وفنون کی پشت پناہی ہو،تخیل وتفکر کی باریک بینی ہو،فنی امتیازات اور زمانے کی نبض شناسی ہو ۔ ان مذکورہ خصوصیات کی روشنی میں تمام ناقدین نے میر تقی میرؔ کو شاعر کی حیثیت سے متفقہ طور پرتسلیم کیا ہے۔ میر کو لفظوں کی روح میں اترنے کا سلیقہ آتا ہے،الفاظ کو وجود بخشنے سے واقف ہیں، شعروں میں تصویر کاری کرتے ہیں،خیال وفکر کومادیت عطاکرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں ان کے قد کا دوسرا کوئی شاعر نظر نہیں آتا ہے۔ان کو اپنی شاعری پر بڑا فخر وناز تھا۔اشعار ملاحظہ ہوں:
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا
جب کہتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا (۱)
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں(۲)
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا(۳)
ریختہ ر تبے کو پہنچا یا ہوا اس کا
معتقد کون نہیں میر کی استادی کا (۴)
میر تقی میرؔ کی عظمتِ شاعرانہ و بالادستی کو تمام معاصرین اور متاخرین مثلا ً مرزا سداللہ خاں غالبؔ ،مرزا محمد رفیع سوداؔ،شیخ ابراہیم ذوقؔ،مولانا حسرت موہانیؔ،شیخ امام بخش ناسخؔ ، مولانا الطاف حسین حالیؔ، انشااللہ خاں انشاؔ ، غلام ہمدانی مصحفیؔ اور اکبر الہ آبادی وغیرہ نے تسلیم کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
مرزا سداللہ خاں غالبؔ لکھتے ہیں:
ریختہ کے تمہی استا د نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا (۵)
غالب ؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں (۶)
میرؔ کے شعرکا احوال کہوں کیا غالبؔ
جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں (۷)
مرزا محمد رفیع سوداؔ لکھتے ہیں:
سوداؔ تو اس زمین میں غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میر ؔ سے استاد کی طرح (۸)
شیخ ابراہیم ذوقؔ لکھتے ہیں:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر ؔسا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا (۹)
مولانا حسرت موہانیؔ لکھتے ہیں:
شعر میرے بھی ہیں پردرد ولیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں(۱۰)
شیخ امام بخش ناسخؔ لکھتے ہیں:
شبہ ناسخ ؔنہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں (۱۱)
مولاناالطاف حسین حالیؔ لکھتے ہیں:
حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے
غالبؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میر ؔ کا(۱۲)
انشا اللہ خا ں انشاؔ لکھتے ہیں:
اک بات بتاؤ انشا جی تمہیں ریختہ کہتے ہوئی عمر
تم سارے جہاں کا علم پڑھے کوئی میرؔ سا شعر کہا تم نے (۱۳)
غلام ہمدانی مصحفیؔ لکھتے ہیں:
اے مصحفیؔ تو اور کہاں شعر کا دعویٰ
پھبتا ہے یہ انداز سخن میرؔ کے منہ پر(۱۴)
اکبر الہ آلہ بادی لکھتے ہیں:
میں ہو ں کیا چیز جو اس طرزپہ جاؤں اکبر
نا سخ و ذوق بھی چل نہ سکے میر ؔ کے ساتھ(۱۵)
ان مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ مثلاً میر مہدی مجروحؔ، اسماعیل میرٹھی اور امیر مینائیؔ وغیرہ نے میر ؔ کی استادی کو تسلیم کیا ہے۔
میرؔ کا عہد شور شوں اور فتنہ وفساد کا تھا۔ دہلی پر نادر شاہ اور حمد شاہ ابدالی کے حملے برابر ہو رہے تھے۔ اس کومتعدد بار تخت وتاراج کیا گیا تھا۔ مغلیہ سلطنت روبزوال تھی، اقتضادی بدحالی، سماجی ومعاشرتی افراتفری اور اخلاقی قدریں ختم ہوتی جارہی تھیں۔خود میرؔ کے حالات بھی بہت نازک تھے۔ ان کی زندگی معاشی بدحالی، مصیبت وتکلیف، دردوغم اور گوناگوں نشیب وفراز کا شکار تھی۔ ان تمام مخصوص تجربات ومشاہدات کو اپنی غزلیات میں پیش کیا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کے صاحب میں نے
دردوغم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا(۱۶)
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا ہمیشہ غم رہا (۱۷)
آبلے کہ طرح ٹھیس لگی پھوت بہے
دردمندی میں کٹی ساری جوانی اپنی(۱۸)
میر ؔ کی حیات مسلسل مصائب وآلام سے دوچار رہی ہے ،سماج ومعاشرہ جن مصیبتوں اور پریشانیوں میں الجھا ہواتھااس سے ہرطرف قنوطیت وافسردگی چھائی ہوئی تھی،دلّی اور اہل دلّی کی تباہی وبربادی شباب پر تھی اور خود مغل حکمراں اپنی قدرومنزلت کھو چکے تھے، ان حالات میں میرؔ کو سماج ومعاشرے کے مسائل خود اپنے نظر آتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا(۱۹)
اشک آنکھوں کب نہیں آتا
لو آتا ہے جب نہیں آتا(۲۰)
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی(۲۱)
میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامئے دستار (۲۲)
میرے اس مقالے کاعنوان ‘‘ میر تقی میرؔ کی شاعری میں نیستی کا تصور’’ ہے جس کو ان کی شعری کائنات کے واسطے سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔کسی چیز کی تفہیم کے لئے وجود وعدم کا تصور نہایت ضروری ہے اگر کوئی چیز موجود ہے تو وہ معدوم بھی ہوگی چونکہ شئی کی وجودیت ہی معدومیت کی ضامن ہوتی ہے گویا یہ بات بلاتامل کہی جاسکتی ہے کہ موجودات کے ساتھ ساتھ معدومات کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے شاعری میں بیان کیا جاتا رہا ہے۔آئے دیکھتے ہیں کہ میرؔ نے کس طرح فلسفۂ نیستی کو شاعری میں بیان کیا ہے؟۔ کیا واقعی تصور نیستی کو شاعری میں ڈھالاجاسکتا ہے؟۔فلسفۂ نیستی سے میر کی شاعری کس قدر مزین ہے؟۔فلسفۂ نیستی کی تفہیم کے لئے ان کی غزلیات کے اشعار سے کلام کیا جائے گا تاکہ فلسفے کی حقیقت واضح ہوسکے۔ شعر ملاحظہ ہو:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی ہے(۲۳)
اس قدر سہل اور آسان لفظوں میں ایک گہرے اور فلسفیانہ موضوع کو پیش کرنا میرؔ کا ہی خاصہ ہے۔ جب ہم زبان زدِ عام شعر کا عمیق نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس میں فلسفۂ نیستی کو پیش کیا جا رہا ہے اس طور پر کہ مصرعہ اول میں ہستی کو حبات (بمعنیٰ فلسفۂ نیستی) کے مد مقابل رکھا گیا ہے اور مصرعہ ثانی میں لٖفظ نمائش کے با لمقابل سراب( بمعنیٰ فلسفہ نیستی) کو پیش کیا گیا ہے گویا ہستی کوحباب اور نمائش کو سراب کے قبیل میں پیش کرکے فلسفۂ نیستی کو پیش کیا گیاہے۔ میرؔ عظیم المرتبت شاعر ہیں ان کی شاعری میں وجودیت کی بات جہاں بھی پیش کی گئی ہے وہ ہست سے زیادہ نیست کی متحمل ہے۔ اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ میرؔ نے زند گی کو فلسفۂ تصوف کی روایت کے آئینے میں بھی دیکھا ہے۔ شعرملاحظہ ہو:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے ذرّوں سے انسان نکلتے ہیں(۲۴)
مذکورہ بالا شعر میں میر ؔ نے اپنی تخلیقی قوتوں کو جس طرح پیش کیا ہے اس کی مثال تلاش کرنا سعی لاحاصل ہے کہ میں ایک ایسا وجود ہوں جس کی کنہ وحقیقت کو عام نہ سمجھا جائے ، میرؔ اس میں گردش فلک سے جس وجود کے قائل ہیں وہ خاک کے ذروں سے تکمیل کو پہنچا ہے۔ اور انسان کا مٹی سے بننا، مٹی کے لئے قدرتی عمل کے واسطے باطنی طور پر ہیت وشکل عطا ہوناپھرمٹی کے مختلف ذرات سے جو ممکنہ وجود تخلیق ہوا ہے اس کے فنا ہونے کے لئے کسی ایک بھی جز میں خرابی واقع ہونے کے ساتھ پورا تشکیلی ڈھانچہ انہدام کو پہنچ جاتا ہے اور وہ بقا کا متحمل کسی صورت میں بھی نہیں رہ پاتا ہے یعنی اس شعر کا مطالعہ در اصل ان قوتوں کو اجاگر کرنے کا ہے جو موجودات کے پس پشت کارفرما ہیں۔اشعار ملاحظہ ہوں:
بے یار ہوں، بیکس ہوں، آگاہ نہیں کوئی
بے غم کروخوریزی، خونخواں نہیں کوئی
کیا تنگ مخوف ہے، اس نیستی کا رستہ
تنہا پڑا ہے جانا، ہم راہ نہیں کوئی(۲۵)
مذکورہ بالااشعار میں سے پہلے والے شعر میں عام سی بات دیکھائی دیتی ہے اس طرح کہ وہ جس انداز سے لفظوں کو پروتے ہیں وہاں معانی کے ذخائر کھلنے لگتے ہیں کہ جس طرح کوئی بے یارومددگار شخص مایوسی اور ناامیدی کی زد میں ہو اور اس کو کسی طرح کا خوف وخطرہ بھی نہ ہو چاہے کتنی بڑی مصیبت کیوں نہ آجائے۔یہاں انسان کی بے یاری دراصل وجود کا ایک خلاہے جب یہی بے یاری درجہ کمال کو پہنچ جائے اور امید کا کوئی راستہ باقی نہ رہ جائے تو ایسا انسان اپنے وجود سے اس قدر تنگ وعاجز ہو جاتا ہے کہ اسے وجود کے ہونے کی پرواہ نہیں رہتی ہے وہ اس عالم میں اپنے خون کو دوسروں کے لئے نہ صرف جائز قرار دیتا ہے بلکہ اس عمل میں قصاص کے خوف سے بھی عاری ہو جاتا ہے۔ دوسرا شعر پہلے شعر سے بلکل مختلف ہے مگر نیستی کے تصور کوخوب واضح کر رہا ہے۔ میرؔ کہتے ہیں کہ فنا ہوجانے کی راہ کس قدر دشوارگذار اورخوف زدہ ہے کہ انسان اس میں تنہائی کا سفیر ہے اگر کوئی وجود دنیا میں نسبتوں اور تعلقات کے سبب اہم ہے تو یہ مراسم اس راہ فنا میں کچھ بھی کام نہ آنے والے ہیں۔انسان کے تعلقات ،ظاہری رشتے، نسبتیں،دوستانہ مراسم، سوشلائزیش در حقیقت اسی فانی دنیا تک ہیں۔ انسان کا اپنا وجود ایک وجودی کردار ہے اس کو فوت ہونے کے بعدخود ہی آگے کی منزل طے کرنی ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
موہوم ہے ہستی تو کیا معتبری اس کی
ہے گاہ اگر کوئی تو گاہ نہیں کوئی
میر اتنی سماجت جو بندوں سے تو کرتاہے
دنیا میں مگر تیرا اللہ نہیں کوئی (۲۶)
نیستی کے تصور کو ایک کامل نطریے کی صورت میں پیش کرنے کے لئے میرؔ کا پہلا شعر نہایت ہی معتبر اور فلسفیانہ ہے یعنی وجود ہستی اس قدر عظیم الشان ہے ہونے کے باوجود بھی ان چیزوں میں شمار کی جاتی ہے جو موہوم و فانی ہے کیونکہ مالک حقیقی نے اس ہستی کے وجود کو تقویٰ وپرہیزگاری پر قائم رکھتے ہوئے فنا کی تحویل میں دے دیا ہے اسی وجہ سے اس کا وجود اعتباری ہے اور جب کوئی وجود اعتباری ہوتا ہے تو محال ہوتا اس کاحقیقی درجے تک پہنچنا۔ دوسرا شعر اس کا ظاہری معنیٰ یہ ہے کہ دنیا میں تو بندوں کے نزدیک اس قدر عام ہے کہ تمام معاملات میں تو ان کی منت وسماجت کرتا ہے اور تیرے یہی لوگ جن کی حمایت تجھے ہر جگہ حاصل ہے مگر کبھی نہ کبھی وقت ضرورت تیرے کام نہیں آتے حالانکہ انہوں نے مشکل وقت میں تیری مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ باطنی معنیٰ یہ ہے کہ اگر تو حقیقت میں اپنے تمام معاملات کو مختار کل کے سپرد کرے گا تو یقینا تو دنیا و آخرت دونوں جگہوں پر کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ میر ؔ کی شاعر ی میں بہت سارے مقامات ایسے ہیں جہاں وہ انسان کے دنیاوی تجربات ومشاہدات کو ایسی صورت عطا کرتے ہیں کہ ایمان کے بنیادی تقاضے مجروح ہوجاتے ہیں لیکن نیستی کا تصور اپنی غالب حیثیت سے واضح ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پر یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا (۲۷)
یہاں مندرجہ بالااشعار کو دیکھا جائے تو یہ بات آشکارہ ہوتی ہے کہ دنیاوی جاہ وجلال، شان وشوکت انسان کے وجود کے باقی رہنے کے ساتھ ہی قائم رہتی ہے اس طرح وہ اپنی شخصیت کا ایک ہمالیائی وجود تیار کرتا ہے جس کے سامنے آواز بلند کرنے کی جسارت کرنے والاناقابل معافی جرم کا مرتکب ہوتا ہے مگر ایک دن اسی ہمالیائی وجود کے متحمل فرد کو موت کا جھونکا ڈھاکرکے رکھ دیتا ہے بعد ازاں اس کے اہل خانہ اور چاہنے والے نمناک آنکھوں کے ساتھ اس کو فارغ الدنیا کردیتے ہیں یہی ایک وجود کی حقیقت ہے یعنی کوئی ثبات نہیں۔ دوسرے شعر میں کہ انسان ایک ایسا وجودی کردار ہے جس کی بے بسی کا میعار اس قدر تنگ ہے کہ اس کو کائنات کے دائروں میں گھیر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کا وجود ایک روز دوران سفر فنا کی سرحدوں میں داخل ہو کرخود کو عدم ثبات سے ہمکنار کر لیتا ہے۔ لفظ لٹا کا استعمال اس قدر معنیٰ خیز ہے کہ انسان اپنے وجود کو کسی کے سپرد کرنے میں اتنا بے بس ہے کہ وہ پچپن، جوانی،بڑھاپے کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے فنا ہوجاتا ہے اور یہاں اس کو یہ علم بھی نہیں ہوتا ہے کہ مجھے اس سفر میں لوٹنے والا کون ہے حالانکہ اس کی ناخدائی نے اسے ہر چہار اطراف سے بظاہر محفوظ کر رکھا تھا اور وہ منزل کے آخری قدم پر پہنچ کر وجود ی کردارکی حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے کہ میرے وجود کی ماہیت فنا ہونا ہے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو میرؔ کے کلام میں نیستی کا احساس دلاتا ہے اور ہمارے عنوان کی توثیق کرتا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:
دیکھو جسے ہے راہ فنا کی طرف راوں
تیرے محل سرا کا یہی راستہ ہے کیا(۲۸)
اس شعر میں بھی انسان کی آخری منزل کو پیش کرنے کا انوکھا انداز نظر آتاہے۔ موت ہر ذی روح کے لئے حقیقت ہے ، موت سے کسی کو رستگاری نہیں ہے اس طور پر کہ وجود کے بعد عدم کا حصول مراد زندگی ہے اس لئے یہ چوں طرفہ رنگا رنگی صرف کچھ دنوں کے لئے ہے ہر انسان راہ فنا کی رواں دواں ہے یعنی ہم اپنی زندگی میں جس بیتابی سے اگلے دن کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں وہ میرؔ کی نظر میں فنا کی جانب کا شعوری سفر ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جس جوش وخروش کے ساتھ آنے والے کل کی سیڑیاں طے کرتے جا رہے ہیں وہ ہمارے لئے فنا کے سفر کی ایک منزل ہے جس کو ہم بغیر کسی تکلف کے چڑھ جانا چاہتے ہیں۔ میر ؔ کہتے ہیں کہ اے محرک کل تیری جانب آنے میں جو ہماری پیش رفت ہے وہی تیرے مقام کی لامتناہی حقیقت ہے جو مقناطیسی قوت کے مانند تمام موجودات کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔اشعار ملاحظہ ہوں:
کل پاوئں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستہ سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کر چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا (۲۹)
میرؔ مذکورہ بالا اشعار میں ان نکات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ گذشتہ روز دوران سفر میرا پاؤں سپرد خاک انسان کی کھونپڑی پر پڑا جس کی وجہ سے اس کے سر کی ہڈیاں چکنا چور ہوگئی ہیں اور اب وہ بوسیدہ ہڈیاں اس مغرور انسان سے مخاطب ہیں کہ اے بے خبر انسان تجھے راستہ دیکھ کر چلنا چاہیے تاکہ تیرے پاؤں مجھ تک نہ پہنچیں اور تو بے خبری میں مجھے روند کر آگے نہ بڑھے کیونکہ آج جس کھونپڑی کو پاؤں کے نیچے روند کر آگے کی منزل طے کر رہا ہے وہ بھی کسی کے سر کا غرور تھی۔ لفظ چور کی مناسبت سے کاسۂ سر کا جو حال میرؔ نے پیش کیا ہے وہ وجود کے ادراک کی تفہیم کے ساتھ نیستی کے معنی کو پیش کررہا ہے۔ میرؔ کے کلام میں اس قبیل کے بے شمار اشعار موجود ہیں۔ مزید اشعار دیکھیں:
کچھ نہیں بحر جہاں کی موج پر مت بھول میرؔ
دور سے دریا نظر آتا ہے لیکن ہے سراب(۳۰)
دھوکا ہے تمام بحر دنیا
دیکھئے گا ہونٹ تر نہ ہوگا
دنیا کی نہ کرتوخواستگاری
اس سے کبھی بہرہ ور نہ ہوگا(۳۱)
بیٹھا ہوں میرؔ مرنے کو اپنے میں مستعد
پیدا نہ ہوں گے مجھ سے بھی جانباز میرے بعد(۳۲)
وسعت جہاں کی چھوڑ جو آرام چاہئے
آسودگی رکھے ہے بہت کوشۂ مزار(۳۳)
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لیکر(۳۴)
بعد مرنے کے بھی آرام نہیں میرؔمجھے
اس کے کوچے میں ہے پامال مری خاک ہنوز(۳۵)
حیراں ہوں میرؔنزع میں اب کیا کروں بھلا
ٍ احوال دل بہت ہے مجھے فرصت یک نفس (۳۶)
فکر کر زادِ آخرت کی بھی
میرؔ اگر تو ہے عاقبت اندیش(۳۷)
تنہا تو اپنی گور میں رہنے پہ بعد مرگ
مت اضطراب کر یو کہ عالم ہے زیر خاک(۳۸)
کہا میں نے کتنا ہے گل کو ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا(۳۹)
میرؔ کی زندگی پیدائش سے ہی آنسوں کا سر مایہ، مایوسی اور بے بسی کا البم رہی ہے انہوں نے اپنی روداد زندگی کو پوری تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ان کے یہاں حوادث زمانہ اور گردش دوراں کی وجہ سے عزلت نشینی کے تصور کو خوب استحکام حاصل ہوا ہے جس کا اظہار انہوں نے اپنی غزلیات میں جا بجا کیا ہے اور دنیا کے فانی ہونے کے تصور نے ان کی شاعری میں مکمل ایک مضمون کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔اشعار ملاحظہ ہوں:
نمود کر کے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میرؔ بھی اک بلبلا تھا پانی کا(۴۰)
کیا آسماں پہ کھینچے کوئی میرؔ آپ کو
جانا جہاں سے سب کو مسلّم ہے زیر خاک(۴۱)
اردو غزل میں ذات وہستی کے متعلق سے جو مضامین باندھے گئے ہیں وہ فکرو فلسفہ کی صورت میں ہمارے سامنے باضابطہ ایک موضوع کی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس مقالے میں تصور نیستی کو میر تقی میرؔ سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ ان کے کلام میں اس حوالے سے ایک بڑا ادبی ذخیرہ موجود ہے جس میں وجود بشر سے لیکرکائنات کے متعدد علوم وفنون کو پیش کیا گیا ہے۔ جیسا کے متعدد ناقدین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے فراقؔ گورکھپوری لکھتے ہیں کہ‘‘ ہندوستان میں میرؔ اپنے وقت کے سبب سے بڑے ہندوستانی،سب سے بڑے انسان اور سب سے بڑے شاعر ہیں’’ اور شمس الرحمان فاروقی اس تعلق سے رقمطراز ہیں کہ ــ‘‘ میرؔ کازیادہ تر کلام کیفیت اور معنیٰ آفرینی کا دلکش گلدستہ ہے جس کی مثال کسی دوسرے شاعر کے یہاں تلاش کرنا مشکل ہے یہاں تک کہ غالبؔ کا کلام بھی اس صفت سے مجرد ہے’’
میر ؔ کے عہد میں خواجہ میر دردؔنے اردو غزل کو تصوف وروحانیت فارسی کے صوفیانہ طرز فکر سے عطا کی ہے انہوں نے اپنی غزلوں میں سوز وگداز، چین وسکون اور اخلاق وموعظت کے مضامین بیان کئے ہیں۔ ان کی شاعری میں تصوف کے دوبنیادی نکات وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے اثرات نظر آتے ہیں۔مرزا محمد رفیع سوداؔ جن کو قصیدہ کا نقاش اول کہا جاتا ہے انہوں نے اردو غزل کوخارجیت، زور بیان اور نشاط آمیز لب ولہجہ عطا کیا ہے۔ عہد میرؔ میں اردو غزل کو جن بنیادوں کی ضرورت تھی وہ تما م اس کو حاصل ہوچکی تھیں اس لئے غزلیات میں دنیا اور ماورائے دنیا کے مضامین کو خوب بیان کیا جانے لگا تھا اس طرح غزل کا دامن موضوعات کی فراوانی سے پھرتا چلا گیا تھا۔ ان سب میں میرؔ کی غزلوں کا ایک بڑا عمل دخل ہے اور پھر بعد کے اردو غزل گو شعراء نے غزل میں کائنات اور وجود ہستی کی بحثیں شامل کی ہیں جس سے ایک تو فکرو خیال کا محدود دائرہ وسیع ہوا دوسرا ن مضامین سے غزل کی دنیا آفاقی معلومات کا دفتر بنتی چلی گئی۔
میرؔ کا شعری ڈسکورس انسانی وجود کو کل کائنات سے ایک جز مانتا ہے انہوں نے کائنات سے ذات وہستی کے وجودپر ایک مکمل شعوری کوشش کرتے ہوئے اجسام میں روحوں کا رشتہ تلاش کیا ہے۔ انہوں نے غزل کے مضامین میں جہاں وسعتیں پیدا کی ہیں وہیں آنے والی نسلوں کے لئے جدید موضوعات کے راستوں کو بھی ہموار کیا ہے یہی چیز میرؔ اور ان کے عہد کو دستاویزی حیثیت عطا کرتی ہے۔اردو غزل نے نئے اثرات کو اپنے دامن میں ضرورتوں کے مطابق جگہ دینے سے کبھی گریز نہیں کیا ہے۔ اگرجدید اردو غزل کے شعرا ء کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جہاں دوسرے موضوعات غزل میں شامل ہوئے ہیں وہیں اللہ کی ذات اور اس کی تخلیقات میں انسان کی وجوی حالت بھی ایک بڑا اہم موضوع رہا ہے۔غزل کے ڈکشن میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں انہیں غزل کی روایت میں میر سے ضروری نسبت ہے، غزل کا مضمون جس قدر بھی نیا ہو اس کی جڑیں میرؔ کے عطا کردہ نصاب میں ضرور ملیں گی یہی وجہ ہے کہ نیستی جیسے فکری اور فلسفیانہ موضوع پر میں نے میرؔ کے کلام کا انتخاب کیا ہے اور میرا یہ ماننا ہے کہ اگر اس موضوع کی میرؔ کے حوالے سے مزید تحقیق کی جائے تو یقینا درجنوں ایسے اور اشعار ملیں گے جو نیستی کے تصور کو واضح کرتے نظر آئیں گے۔
حوالہ جات
۱۔ میر،ؔ میر تقی ۔ دیوان ششم، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱، ص۶۲۹
۲۔ میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۹۶
۳۔ میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۵
۴۔ میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۵۰
۵۔ فاروقیؔ، شمس الرحمان، شعر شور انگیز، (جلد اول) نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،۲۰۰۶،ص۶۶
۶۔محمد انوار الحق،(مرتب)،دیوان غالب جدید، لکھنؤ: اترپردیس اردو اکادمی۱۹۸۲،ص۲۵۹
۷۔محمد انوار الحق،(مرتب)،دیوان غالب جدید، لکھنؤ: اترپردیس اردو اکادمی۱۹۸۲،ص۲۵۹
۸۔ایم۔اے اردو سال اول(غزل،قصیدہ اور رباعی)حیدرآباد: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،ص۹۱
۹۔آسی،مولولی عبد الباری،کلیات میر، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱، ص۴۳
۱۰۔ایم۔اے اردو سال اول(غزل،قصیدہ اور رباعی)حیدرآباد: مولانا آزاد نیشنل اردو یو نیورسٹی،ص۹۱
۱۱۔ایم۔اے اردو سال اول(غزل،قصیدہ اور رباعی)حیدرآباد: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،ص۹۱
۱۲۔حسین،صالحہ عابد ،یاد گار حالی،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو ہند،۱۹۸۶،ص۱۳۴
۱۳۔عسکری، مرزا محمد،کلام انشا،الہ آباد:پہندوستانی اکیڈمی اترپردیش،۱۹۵۲،ص۹۰
۱۴۔مصحفی، غلام ہمدانی،انتخاب کلام مصحفی،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو ہند،۰۰ہ۲،ص۱۹
۱۵۔اکبر الہ آبادی،انتخاب اکبر الہ آبادی،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو ہند،۱۹۷۰،ص۳۲
۱۶۔آسی،مولولی عبد الباری،کلیات میر، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱، ص۴۲
۱۷۔ میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۴۲
۱۸۔۔ میرؔ،میر تقی، دیوان دوم، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۳۲۵
۱۹۔ میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۲۲
۲۰۔ میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۳۱
۲۱آسی،مولولی عبد الباری،کلیات میر، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱، ص۳۲
۲۲۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۶۸
۲۳۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۱۵۸
۲۴۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۹۸
۲۵۔میرؔ،میر تقی، دیوان پنجم، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۶۲۱
۲۶۔میرؔ،میر تقی، دیوان پنجم، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۶۲۱
۲۷۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۶
۲۸۔میرؔ،میر تقی، دیوان دوم، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۵۳
۲۹۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۲
۳۰۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۵۶
۳۱۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۲۱
۳۲۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۶۲
۳۳۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۶۶
۳۴۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۷۳
۳۵۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۷۶
۳۶۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۷۷
۳۷۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۷۹
۳۸۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۸۲۔۸۱
۳۹۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۴
۴۰۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۲۶
۴۱۔میرؔ،میر تقی، دیوان اول، لکھنؤ: مطبع نامی منشی نولکشور، ۱۹۴۱،ص۸۳
آسلام علیکم ،
رسالہ ترجیحات کے مدیران و ذمہ داران سے گزارش ہے کہ یہ مضمون میرے پی ایچ ڈی تھیسیس سے لیا گیا ہے تھیسیس کا ٹائٹل ہے اردو شاعری میں نیستی کا تصور اور یہ مضمون میر تقی میر کی شاعری میں نیستی کا تصور مذکورہ تھیسیس میں موجود ہے ۔ اس کے علاؤہ یہی مضمون فکر و تحقیق میں شائع ہونے کے لیے بھی میں نے بھیجا ہوا ہے ،۔ لہذا میری گزارش ہے کہ محمد ریحان کے نام سے شائع شدہ مضمون جو کہ میرے تھیسیس سے سرقہ ہے ترجیحات سے حذف کیا جائے اور مضمون نگار کو ہدایت کی جائے کہ وہ قانونی گرفت سے بچنے کی خاطر آئندہ ایسے تجربات نہ کریں ۔