You are currently viewing ناول ‘‘نارسائی’’ایک بے چین روح کی پکار

ناول ‘‘نارسائی’’ایک بے چین روح کی پکار

ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

ناول ‘‘نارسائی’’ایک بے چین روح کی پکار

ناول ‘‘نارسائی’’ کی غم انگیز کہانی اور مرکزی کردار کی کرب ریز داستان پڑھنے کے بعد جو فکرانگیز تاثر ذہن میں ابھرتا ہے وہ سارا شگفتہ کی نظم‘‘ شیلی بیٹی کے نام’’ کے ابتدائی مصرعوں کو پیش کرنے سے پُرتاثیر انداز سے واضح ہوجاتا ہے:

تجھے جب بھی کوئی دکھ دے

اس دکھ کا نام بیٹی رکھنا

 سارا شگفتہ کا حوالہ اس لئے بھی مناسب محسوس ہوا کیونکہ ایک تو ناول کے موضوع اور شعر میں معنوی ربط موجود ہے اور دوسرا یہ کہ ناول کی کہانی اور کردار نگاری کا بنیادی پس منظر بھی سارا شگفتہ کی دکھ بھری زندگی اور تخلیقی ذہانت کا فنی اظہار ہے۔ لیکن اس قسم کی مماثلت کے باوجود ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا یہ ناول ایک طرح سے سارا شگفتہ کی زندگی کے نشیب وفراز کا راست اظہار ہے یا اس کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر ایک فن پارہ بن گیا ہے ’تو بیانیہ کی سطح پر ناول کا پلاٹ’کہانی’ تکنیک اور موضوعاتی پیش کش میں یہ ایک مکمل ناول بن کر سامنے آگیا ہے جو اس کی ایک اہم فنی خوبی قرار دی جاسکتی ہے۔ تکنیکی سطح پرناول میں سارا شگفتہ کی زندگی کو ایک خارجی ڈیوائس(Outside Device)کے بطور برتا گیا ہے اورداخلی سطح پرناول میں بنیادی ڈسکورس عورت کی سماجی نارسائی(Social failure) کوبنایاگیاہے ۔البتہ ناول کا بیشتر پلاٹ سارا شگفتہ کی زندگی کی ہی عکاسی کرتا ہے۔

یہاں پرقاری کے ذہن میں ایک اور سوال اٹھ سکتا ہے خصوصاََ نئی نسل سے تعلق رکھنے والے قاری کے کہ آخر یہ سارا شگفتہ کون تھی جس کی زندگی ایک ناول کا مواد فراہم کرتی ہے۔سارا شگفتہ(1954-1984)پاکستان کی ایک معروف نظم گو شاعرہ گزری ہیں ’جس کی بیشتر نثری نظمیں اس کی زندگی کے کرب و جستجو کا ذاتی مرثیہ نظرآتی ہیں۔زندگی کی رزم گاہ میں لڑتے لڑتے چار شادیاں کرنے کے باوجود وہ بالآخر جنگ ہار جاتی ہے اور نفسیاتی بیماری کی زد پر آکر ٹرین کے نیچے جان دے دیتی ہے۔اس کی وفات کے بعد ان کی زندگی پر ایک ٹیلی وژن سیریل‘‘آسمان تک دیوار’’ بھی بنایا گیا اور دو کتابیں‘‘ ایک تھی سارہ ’’(امریتا پریتم)اور‘‘ ذلتوں کی اسیر’’(انورسن رائے)بھی لکھی گئیں۔

چونکہ ناول نگار روبینہ فیصل بھی پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں اور اب کینیڈا میں مقیم ہیں ’اس لئے انہوں نے جس کردار کی زندگی کو ناول میں بطور استعارہ چنا ہے’ اس کوپیش کرتے ہوئے ’پہلے خود کہانی کے درد وکرب کو محسوس کیا ہے ’پھر اس کے بعد اس کہانی کے پیش نظر ایک تو مرکزی کردار‘سائرہ’ کی دردانگیز زندگی اور پھر اس ہر عورت کے درد کو کہانی کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے جو زندگی کی ستائی ہوئی ہوتی ہے ۔اس لئے ناول کا کینوس فقط سارا شگفتہ کی زندگی پر ہی محیط نہیں ہے بلکہ اس کردار کوایک سورس بناکر تانیثی مسائل و موضوعات کو پلاٹ پر پھیلایا گیا ہے۔تکنیکی سطح پر ناول کا بیشتر پلاٹ فلیش بیک تکنیک کی تین اقسام میں سے ایک قسم پراستوار ہوا ہے یعنی اس قسم میں حال کے پیش نظر کسی کردار کی ماضی کی داستان پیش کی جاتی ہے جو کہ مطالعہ کے دوران لطف دیتا ہے اور کہیں کہیں فینتسی(Fantacy) کے عناصر بھی درآئے ہیں جس سے فنی طور پر واقعاتی بیانیہ اچھی طرح فکشنائز ہوا ہے ۔جیسے جب ٹرین کے نیچے عورت کی لاش کو نکالا جاتا ہے اور پولیس کی موجودگی میں لاش کو ایمبولنس میں رکھا جاتاتھا تو ناول نگار لاش کے دکھڑے کو درختوں کے جھنڈ سے اسی کی روح کو کردار بناکر سنانا شروع کردیتی ہیں اور قاری تھوڑی دیر کے لئے سوچ میں پڑجاتا ہے کہ یہ دکھڑا اب کون سنانے بیٹھ گیا۔یعنی ناول میں فکشن تکنیک کا اچھا استعمال ہواہے ۔مثلاََیہ اقتباس دیکھیں:

‘‘لیکن ….وہ جو نجات کی تلاش میں پٹری پر کٹ مری تھی اب درختوں کے جھنڈ میں حیران و پریشان کھڑی اپنے

ہی بریدہ جسم کو ایمبولنس میں جاتا دیکھ کر رہی تھی۔ ایک ہی سوال اس کی روح پر حاوی تھا کہ اگروہ مرگئی ہے تو

 ابھی تک یہ نجس دنیا اس کی نظروں کے سامنے کیوں ہے…. ’’ (ص:17 )

اس طرح ناول کے شروعات میں ایک اور بات سامنے آتی ہے کہ ابتدا سارا شگفتہ کے خودکشی کے واقعہ سے ہی ہوئی ہے اور پھر اسی کے ساتھ اس کے دل و دماغ کے کرب کو بھی خیالات کا جامہ پہنایا گیا ہے لیکن یہ سب سوانحی اسلوب یا روداد میں پیش نہیں ہوا ہے بلکہ رات کے وقت ریل کا سیٹی بجاتے بجاتے کچی بستی میں داخل ہونا’ غیرمتوقع طورپر بریکوں کی آواز’ ایک نسوانی چیخ کا ہوا میں گونجنا’بستی کے مزدوروں کا نیند سے بیدار ہونا اور حادثے کی جگہ پر پہنچنا’لاش دیکھ کر خوف زدہ ہونااور پھر پولیس اور ایمبولنس وٖغیرہ سارے ماجرے کی ڈرامائی اسلوب میں منظرکشی کی گئی ہے۔

 ناول یاافسانہ تخلیق کرنے کے دوران تجربات و مشاہدات اور مطالعہ… تخلیق کار کے لئے آکسیجن کا کام کرتا ہے لیکن یہ سب ایک فن پارہ کی صورت میں ڈھلنا چاہے اور کبھی کبھار تخیل کی بنیاد پر تخلیق کار بیان یا بیانیہ میں تخلیقی خیالات بھی پیش کرتا ہے جس سے متن تخلیقی جوہر سے نکھر جاتا ہے ۔‘‘نارسائی’’ میں بھی تجربات و مشاہدات اور مطالعہ کا فنی اظہار نظرآتا ہے۔کئی جگہ خوبصورت تخلیقی خیالات یا جملے دیکھنے کو بھی ملتے ہیں جو موضوع کی مناسبت یا کہانی وواقعہ کے عین مطابق برجستہ بھی ہیں اور معنی خیز بھی۔جیسے چند جملے ملاحظہ فرمائیں:

اتنی رات گئے ایک تنہا عورت کو یا تو کسی پیارے کی قبر اپنی جانب بلارہی تھی یا پھروہ ریل کی پٹری پراپنی ہی قبرتلاش کرنے پہنچ گئی تھی۔جس سرد پٹری نے اسے بدن کے بوجھ سے نجات دلا کر ایک غیرمرئی دنیا میں داخلے کااذن دیناتھا’وہ پھر سے اس کے

 سامنے کیوں بکھری پڑی تھی؟

بے وطن بدن کی موت نہیں آتی۔

اس کے ذہن کی کشتی سوالات کے بھنور میں دھنستی چلی گئی۔

کیا وجود مرکر بھی جذبات سے بھرا رہتا ہے۔

اگر موت مکمل ہار ہے تو یہ ہار اسے نصیب کیوں نہیں ہوئی ؟کیا وہ موت کے معیار پر پوری نہیں اتری تھی۔

……

اگر ناول کے پورے موضوع کا احاطہ کریں اور معنوی سطح پر کردار کی کہانی کے مقصد کوسامنے رکھیں تو اس پورے فنی

 ڈسکورس کااظہار ناول کے اس معنی خیز جملے میں نظرآتا ہے:

‘‘…اس کی روح اُس بدن میں گل سڑ رہی تھی۔’’

انسان کواگر روحانی طور پر اطمینان حاصل ہوگا توچاہے وہ امیر ہو یا غریب ’کم از کم دل کی راحت سے زندگی گزار سکتا ہے۔لیکن جب بدن کے اندر روح مضطرب رہے تو وہ ہرخوشی سے محروم ہوجاتا ہے۔اورناول کی مرکزی کردار‘‘بتول یا سائرہ’’ ہمیشہ جسمانی اذیت اور روحانی کرب کا شکار رہی تھی ’جس کی وجہ سے وہ بدن کی ا ذیت سے تنگ آکر روح کے سکون کے لئے خودکشی کا قدم اٹھاتی ہے تاکہ بدن میں گل سڑرہے روح کو سکون میسر آئے۔یہ زندگی کے مصائب اور ظلم و ستم سہنے کی آخری حد پار کرنے کااقدام ہوتا ہے۔اسی سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کیوں ریل کے آگے اپنے بدن کو کاٹنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

ناول کا بنیادی قضیہ ایک عورت کے سماجی و انسانی رتبے کا امتیاز’ اس کی من پسند زندگی گزارنے پر پدرسری سماج کی قدغن’ دائمی سکون حاصل کرنے کی محرومی اوراس کے جذبات واحساسات کو دبانے کا سماجی رویہ وغیرہ ہے’اور ناول نگار اپنے طرف سے سائرہ کی کردار نگاری میں اس کو اجاگر کرنے میں کامیاب بھی نظرآتی ہے۔مجموعی طور پر ناول کا سارا قصہ راوی کے ذریعے پیش ہوا ہے ۔ایک طرح سے ناول کا راوی حقوق نسواں کا پروٹیگونسٹ(Protagonist) بن کر کہانی میں موجود ہے۔جس کی وجہ سے کہانی میں عورت کے دفاع کے لئے جگہ جگہ جذباتی رویہ نظرآتا ہے اور یہی جذباتی رویہ سماج کے ہاتھوں مرکزی کردارسے روارکھے گئے امتیازی سلوک کایک طرفہ پہلو نظرآتا ہے۔کیونکہ سماج کے بیشتر مرد کردار یہاں تک کہ بھائی اور باپ بھی الزامات کے کٹہرے میں کھڑے نظرآتے ہیں۔باقی جن چار لوگوں سے تعلقات اور شادی و طلاق کا ماجرہ سنایا گیا ہے وہاں پر بھی عورت کو مظلوم اور مرد کو ظالم جتلایا گیا ہے۔صرف مرکزی کردار کی ماں کا رول ہمدردانہ دکھایا گیا ہے۔غالباََ ناول نگار عنوان ‘نارسائی’ کی اثرانگیزی کے زیراثر جگہ سائرہ کی نارسائی کو پیش کرنا چاہتی ہے اور یہ دکھانا چاہتی ہیں کہ روزاول سے ہی عورت کے ساتھ یہ ناورا سلوک روا رکھا گیا ہے۔لیکن ناول میں سائرہ کی ہی بات کریں(سارا شگفتہ کو چھوڑ کر) تو ایک تو اسے بولڈ بناکر پیش کیا گیا ہے اور دوسری جانب اس کی کوتاہیوں کو غیرمحسوس انداز سے چھپا کر اس کے کرب کو ہی ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی وجہ سے موضوعاتی سطح پر ناول کا سماجی و تانیثی اور تاثیر پذیرموضوعاتی گراف نیچے آجاتا ہے۔کیونکہ ناول میں سائرہ کوئی مستقل مزاج عورت نظرنہیں آتی ہے بلکہ اس کی سیمابی فطرت کسی بھی قسم کے سماجی واخلاقی ضابطے کو پسند نہیں کرتی۔بلکہ وہ ہرسطح پر خود کی سوچ کے مطابق زندگی میں آگے بڑھنے کی سوچتی رہتی ہیں اور وہاں پر بھی وہ حد سے آگے بڑھ جاتی ہے جہاں پر حدپار کرنا سم قاتل بن سکتا تھا۔

ناول میں کہیں کہیں عصمت چغتائی کے اسلوب کی طرح جنسی اورنفسیاتی مسائل کو بھی اشاروں کنایوں میں پیش کیاگیا ہے جیسے ناول میں سائرہ کی بہن بشری کا رات کے اندھیرے میں سایا دار واقعہ جو کہ عصمت چغتائی کے افسانے‘‘لحاف’’کی کردار بیگم جان کے ایک واقعہ کا دوسرا منظر جیسے لگتا ہے۔ ناول میں یکساں خیالات کی تکرار سے پلاٹ بوجھل سا بن گیا ہے کیونکہ بیشتر جگہ مرکزی کردار کے ذریعے بہت سارے خیالات کو کسی نہ کسی صورت میں دہرایا گیا ہے۔راقم کی رائے میں اگر خیالات و واقعات کی تکرار کم کی جاتی تو ناول نصف حصے تک اپنا پورا ڈسکورس سماسکتاتھا ۔ایک اور بات یہ کہ ہم ناول کی کہانی کااطلاق ہر جگہ یا خطے کی عورت کی نارسائی پر نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ اب سماج ذہنی و شعوری اور علمی وادبی طور پراتنا بیدار ہوا ہے کہ ایک عورت پڑھ لکھ بھی سکتی ہیں اور اعلی عہدوں پر فائز بھی ہیں۔

اب رہا موضوعاتی سطح پر ناول نگار کا نقطہ نظر تو اپنے نقطہ نظر کو وہ پیش کرنے میں کامیاب نظرآتی ہیں کیونکہ مرکزی موضوع یااس قسم کے سماجی و تانیثی نوعیت کے موضوع پر اتنا ضخیم ناول لکھنا اور ہرجگہ پلاٹ کو موضوع کے مطابق کڑی درکڑی جوڑے رکھنا’ ذہانت وفطانت اورتخلیقی و فنی صلاحیت کی عمدہ مثال قراردی جاسکتی ہے۔ناول میں سائرہ کی کرب انگیز زندگی کادرد ایسے دلچسپ اسلوب میں پیش ہوا ہے کہ قاری اس درد کا حصہ بن جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر اس طرح کسی عورت کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جاتا ہے جو خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے تو سماج کے اس ماحول کو بدلنے کے اقدام اٹھانے چاہیں۔آخر پر ناول کی اہمیت کے ضمن میں یہ بات کہنے میں خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ناول‘‘ نارسائی ’’ایک  بے چین روح کی پکار معلوم ہوتا ہے۔

Address: Wadipora Handwara Kashmir 193221

Email:drreyaztawheedi777@yahoo.com Cell:9906834877

Leave a Reply