ڈاکٹر طاہرہ غفور
( لیکچرر اُردو) گورنمنٹ گریجویٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن ، راولپنڈی
ڈاکٹر محمد سہیل اقبال
Dr. Tahira Ghafoor
(Lecturer Urdu) Government Graduate College Satellite Town Rawalpindi
Dr. Muhammad Sohail Iqbal
ناول” پنجر” میں ایجنڈا سیٹنگ کا تجزیاتی مطالعہ
Abstract:
This paper critically examines how Amrita Pritam’s novel Pinjar sets the agenda for important social, cultural, and political issues, especially related to women, identity, and the Partition of India. Using the agenda-setting theory, this research explores how Pritam brings certain topics like the oppression of women, communal violence, and the struggle for freedom to the forefront, while placing others in the background. The novel is analysed within the context of post-colonial India, focusing on the impact of Partition on women’s lives. By studying how Pritam presents these themes, this analysis highlights the novel’s message about power, social structures, and the role of women in history. This paper shows how Pinjar is still relevant today in discussions on gender and identity, and how literature can influence public thinking and social awareness.
Keywords:
تقسیم ، ہندوستان،مسلمان، قتل، ناول، امرتیا پریتم، فسادات،عورت، پنجر
تقسیم ہندوستان کے دوران فسادات میں انسان، انسانیت کی حد سے ایسا گزرا کہ حیوان بھی شرما جائے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی بلاتخصیص قوم سب ہی فسادات کی زد میں تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں جنگ و جدل کے واقعات نئے نہیں تھے پہلے بھی بارہا یہاں جنگیں ہو چکی تھیں لیکن تقسیم کے دوران جو فسادات برپا ہوئے اس میں انسانیت کی بری طرح تذلیل کی گئی۔ بچوں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا جا رہا تھا۔ عورتوں کی عصمت دری کی گئی ۔ ان حالات کے بارے میں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری لکھتے ہیں کہ:
قتل کے واقعے سے زیادہ اہم قتل کا طریقہ ہے۔ جب امیر غریب ، جاہل، عالم، ننگی عورتوں کو دیکھ کر خوش ہوں، بچوں کے سر نیزوں پر لٹکائے پھریں اور عورتوں کی سرِ عام عصمت دری پر نازاں ہوں اور ان حرکتوں کا مذہب یا سیاست کے نام پر جواز ثابت کریں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایسے عجیب دور سے گزر رہے ہیں جس میں انسان کی شکل اس قدر مسخ ہو چکی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی۔1؎
۱۹۴۷ء میں تقسیم کے دوران فسادات کا اثر ادیبوں پر بھی بہت زیادہ ہوا۔ ادیب حساس ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں اور یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس قدر انسانیت سوز سلوک دیکھیں، ان حالات سے گزریں اور ان کا قلم اس ظلم کے خلاف دہائی نہ دے۔ عام انسان اس ظلم کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا اوروہ ادیب جو اندرونی و بیرونی لحاظ سے اس خلفشار سے گزر رہے تھے ، ان کی تحریریں ان حالات کی عکاس تھیں۔ اگرچہ ہر ادیب کا ان حالات کے بارے میں اپنا اپنا نقطۂ نظر تھا۔ ان کے اپنے اپنے خیالات اور تعصبات تھے۔ ادب میں کچھ مصنفین نے فسادت کے دوران ہونے والے حالات و واقعات پر لکھا اور کچھ نے ان کے اثرات کو موضوع بنایا۔
امرتا پریتم ہندوستانی ناول نگار اور شاعرہ ہیں ۔انھیں پاکستان اور بھارت میں نہایت پسندیدگی سے پڑھا جاتا ہے۔ تقسیم کے حوالے سے ان کی نظم اج آکھاں وارث شاہ نوں نے عوام میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ امرتا نے تقسیم ہندوستان کے دوران ہونے والی قتل و غارت اور عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔ ان کے ناول پنجر میں بھی عورت کی بے بسی، اس کو انتقام کا ذریعہ بنانا اور خیر و شر کی کش مکش کو تقسیم ہندوستان کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔
ناول پنجر میں امرتا پریتم نے تانیثی ایجنڈا کو اہمیت دی ہے۔ اس ناول کا بنیادی موضوع عورت ہے۔ امرتا نے عورت کے ساتھ معاشرے میں ہونے والے ناروا سلوک کو پورو کی کہانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ البتہ تقسیم ہندوستان کے دوران ہونے والے فسادات بھی ناول کا حصہ ہیں لیکن اصل میں کہانی کا مقصد تانیثیت کے حوالے سے بات کرنا ہے۔ کہانی میں تانیثی ایجنڈا کو جدّت اور رومانویت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ امرتا پریتم تانیثی تحریروں کے حوالے سے اپنا الگ مقام رکھتی ہیں۔ انھوں نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولی اور اسی ماحول اور تہذیب میں پلی بڑھی۔ یہاں کی روایات ان کی گھٹی میں شامل تھیں۔ انھوں نے مقامی محبتوں اور رنجشوں کا ذائقہ چکھا اور انھیں ہی اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ انھوں نے اپنی آنکھوں سے فسادات میں ہونے والے مظالم کو دیکھا۔ خاص طور پر عورت کے دکھ کو بہت گہرائی سے محسوس کیا۔ امرتا پریتم نے منضبط انداز میں پورو کی داستان کو ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی عورت کی داستان بنا دیا اور اپنی اس کہانی کا کینوس وسیع کرتے ہوئے تقسیم ہندوستان کے دوران خواتین کو پیش آنے والے مسائل کی تفہیم کے ساتھ وابستہ کر دیا۔ امرتا پریتم نے اپنے ناول میں ایک مظلوم عورت کی نمائندگی کی ہے۔ ناول پنجر کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ مصنفہ نے ناول میں ایجنڈا کو دو طرح سے پیش کیا ہے ۔ پہلا یہ کہ معاشرے میں عورت کے ساتھ ہونے والے سلوک کی ترجمانی کی گئی ہے یعنی تانیثی پہلو نمایاں ہے۔ پورو کا علامتی کردار مقامی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ناول میں فسادات کے موضوع کو شامل کر کے تقسیم کے دوران عورتوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کو کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ امرتا پریتم نے پورو کی زندگی میں ایک مظلوم عورت کے ساتھ ہونے والے سلوک کو اتنی مہارت کے ساتھ سمویا ہے کہ کہانی کے تمام حالات و واقعات باہم جذب ہو گئے ہیں اور ان میں توازن کی کیفیت نمایاں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ناول کے مرکزی کردار فعال ہیں۔ یہ کردار روایتی، کمزور، بے عمل او ر مایوس نہیں ہیں۔ رشید جب پورو کو اغوا کرنے کے لیے جاتا ہے تو پورو اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کے بجائے رشید کی قید سے فرار ہونے کی کوشش کرتی ہے اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اپنے گھر پہنچ جاتی ہے لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس کے والدین اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پورو کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو شاید اپنی جان ہی دے دیتی لیکن امرتا کے ناول کی یہ عورت اتنے برے حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتی۔ اسے اپنی فطری کمزوری کو نظرانداز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔وہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ رشید کی قید سے آزاد ہو کر دوبارہ سے اپنے گھر والوں کے ساتھ زندگی کی خوشیوں میں شریک ہو جائے لیکن ہر طرف سے دھتکارے جانے کے بعد ہی وہ زندگی کی گاڑی رشید کے ساتھ چارو ناچار کھینچنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ناول میں اس طرح سے تانیثی ایجنڈا کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہیں کہیں ہمیں مذہبی منافرت کے انداز نمایاں نظر آتے ہیں۔ پارو اور رشید کے بچے کو مٹر سے نکلے ہوئے غلیظ کیڑے سے تشبیہ دی گئی ہے جس کے بارے میں سوچ کر بھی گھن محسوس ہوتی ہے۔ اس سے مذہبی منافرت کا ایجنڈا سامنے آتا ہے۔ اگرچہ ناول میں عورت کے جذبات اوراس سے ہونے والی زیادتی کو نمایاں کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت بھی سامنے آتی ہے۔ اسی طرح ناول میں ایک واقعے میں جب پورو کی نظر رشید پر پڑتی ہے تو اس کے منہ سے ڈر کے مارے چیخ نکل جاتی ہے۔ وہ وہاں سے بھاگ جاتی ہے اور اپنی سہیلیوں کے پاس پہنچ کر بری طرح ہانپ رہی ہوتی ہے۔ اس کی سہیلیاں اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتی ہیں کہ کیا کسی ریچھ کو دیکھ لیا ہے؟ یعنی رشید کو ریچھ سے تشبیہ دی گئی ہے” اور پورو کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے رشید ریچھ کی طرح اپنے چوڑے پنجے لیے ہوئے اس کی طرف لپک رہا ہے۔ اس کی لمبی لمبی انگلیاں ریچھ کے ناخنوں کی طرح اس کی گردن کے گرد پھیل جائیں گی اور پھر وہ اس کو گھسیٹتا ہوا لے جائے گا” ۔۲؎
اگرچہ ابھی ناول کا آغاز ہے اور رشید نے بھی پورو کے ساتھ کوئی نازیباحرکت نہیں کی لیکن پورو پہلے سے ہی اس سے شدید نفرت کرتی ہے ۔ناول کے مطابق پورو اغوا ہونے کے بعد رشید کے گھر سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن جب اپنے گھر پہنچتی ہے تو اس کے والدین اسے واپس جانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ رشید اسے پہلے ہی یہ بات باور کرا چکا تھا کہ اس قسم کی تمام کوششیں بے کار جائیں گی ۔ پندرہ دن رشید کے گھر گزارنے کے بعد پارو کے گھر والے بدنامی کے خوف سے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیں گے لیکن پارو اپنے آپ کو بے گناہ سمجھتی ہے اور اسے یقین ہے کہ اس کے والدین اس مظلوم بیٹی کو دوبارہ سینے سے لگا لیں گے۔ پارو کا یہ خیال خام خیال ہی رہا۔ والدین سے سامنا ہوتے ہی انھوں نے اپنی مجبوریوں کا واسطہ دے کر اسے واپس لوٹنے کا کہا۔ اس واقعے سے امرتا پریتم کا تانیثی ایجنڈا کھل کر سامنے آتا ہے۔ پورو کے اغوا میں اس کا اپنا کوئی قصور نہ تھا لیکن پھر بھی مرد کا پاپ اس کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ معاشرے میں پارو جیسی عورتیں زندگی بھر کے لیے دنیا کی نظروں میں باپ کی گٹھری سمجھی جاتی ہیں اور خود مرد دنیا کی نظروں میں ہر الزام سے بری الذمہ ہو کر سینہ تان کر پھرتے ہیں۔ عورت چاہے مظلوم ہو، بے قصور ہو ایسے موقع پر خونی رشتے بھی بے گانے بن جاتے ہیں۔ عورت کو عزت کی علامت بنا کر اس کی ذات کو عتاب کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور شاید یہاں بھی اپنے باپ اور بھائی کی جان کی بلّی اسے ہی دینا پڑتی ہے۔ ماں باپ کے رویے سے مایوس ہو کر پورو کو زندگی بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ دکھوں نے اسے بنجر بنا دیا تھا جیسا کہ امرتا پورو کے بارے میں لکھتی ہیں کہ:
اس کے جسم کو ان پندرہ دنوں نے پنجر بنا دیا تھا جس کی نہ کوئی شکل ہے اور نہ کوئی صورت، نہ کوئی دل ہے اور نہ کوئی مرضی۔3؎
اپنے تانیثی ایجنڈا کو امرتا نے اپنے ناول پنجر میں بیان کر دیا ہے ۔ پورو کی رشید سے شادی کے بعد وہ پورو کا نام بدل کر حمیدہ رکھ دیتا ہے۔ پورو کی اپنی شناخت بھی اس سے چھین لی جاتی ہے۔ جسم و جان پر تو پہلے ہی اس کا اختیار نہیں رہا تھا ایک نام کا ساتھ باقی تھا سو وہ بھی ہٹا دیا گیا۔ نام کے تبدیل کرنے پر پورو کو اپنا آپ خالی خالی سا محسوس ہوتا ہے اور وہ سوچتی ہے کہ ’’وہ اصل میں حمیدہ ہے نہ پارو، وہ صرف ایک ڈھانچہ ہے جس کا نہ کوئی روپ ہے اور نہ کوئی نام۔ ‘‘4؎
رشید سے شادی کے بعد پارو سکڑیالے میں رہنے لگتی ہے۔ ایک دن و ہ رشید کی فرمائش پر اس کے لیے سویاں بناتی ہے تو اسے یاد آتا ہے کہ وہ اپنی ماں سے جب بھی مشین کی بنی سویاں بنانے کا کہتی تھی تو اس کی ماں جواب دیتی کہ مشین کی سویاں تو مسلمان کھاتے ہیں۔اس طرح سے مذہبی و معاشرتی روایات کو واضح کرتے ہوئے ہندو مسلم تفاوت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔
ناول میں پورو کا رشید کے لیے التفات رشید کی بیماری کے دوران سامنےآتا ہے۔ رشید بیمار ہو جاتا ہے تو پورو اس کی دن رات خدمت کرتی ہے۔ اسی دوران اسے رشید سے اپنائیت بھی محسوس ہوتی ہے۔یہاں امرتا پریتم مشرقی عورت کی عام نفسیات واضح کرتی ہے کہ مشرقی عورت شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد ایک ان چاہے مرد سے بھی محبت کرنے لگتی ہے۔ اگرچہ رشید نے پورو کو اغوا کر کے اس پر ظلم کیا تھا لیکن اس کے باوجود اسے صرف یہ سچ یاد تھا کہ وہ اس کا خاوند ہے اور اس کے بچے کا باپ ہے، اس کے علاوہ باقی تمام باتیں اس کے لیے سراب تھیں اور یہی ایک عام مشرقی عورت کا برتاؤ تھا جسے امرتا نے اس واقعے کے ذریعے قارئین پر واضح کیا ہے۔ اس واقعے سے امرتا کے تانیثی ایجنڈے کو تقویت ملتی ہے جس کے مطابق عورت گھر گرہستی کے سراب میں اپنی ذات کو نظرانداز کر دیتی ہے۔ اس کی زندگی کا دائرہ انھی رشتوں کے گرد گھومتے گھومتے تکمیل کے مراحل طے کرتا جاتا ہے۔ ناول میں کمّو کے کردار کے ذریعے امرتا نے تانیثیت کے حوالے سے ایک اور پہلو کو واضح کیا ہے کہ بعض اوقات عورت ہی عورت کے زخموں کا باعث بنتی ہے اور پھر عورت ہی ا س کے زخموں پر پھاہا رکھتی ہے۔ پورو کو کمّو برے حالوں میں ملتی ہے تو اسے اس پر بڑا پیار آتا ہے۔ ایک عورت ہونے کے ناطے اسے دوسری عورت کے دکھ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ کمّو کی ماں بن جائے۔ وہ سب بِن ماں کے بچوں کی ماں بن جائے، وہ ایک اچھی بیٹی نہیں بن سکتی تو ایک اچھی ماں ہی بن جائے۔ امرتا نے کمّو کی صورت میں مظلوم عورت کی ایک اور ہیئت کو نمایاں کیا ہے۔ کمّو کے والدین نہیں تھے اور وہ اپنے چچا کے گھر سارا دن کام کاج کر کے کھانے کے دو لقمے حاصل کرتی۔ اس کی چچی اس پر بہت ظلم کرتی تھی یعنی بعض اوقات عورت بھی عورت کا احساس نہیں کرتی۔ وہ بھی اپنی ہم صنف پر ظلم کرنے والوں میں شریک ہو جاتی ہے۔ عورت اتنی کمزور اور بے اختیار ہے کہ اگر اس کے سر پر سے والدین کا سایہ چھن جائے تو زندگی گزارنا کسی اذیت سے کم نہیں ۔ امرتا نے اس واقعہ کے ذریعے عورت کی بے بسی کو واضح کیا ہے۔ ناول میں پورو کا بھائی غصے میں آکر رشید کے کھیتوں کو آگ لگا دیتا ہے۔ جب پورو کو اس بات کا پتہ چلتا ہے تو وہ جلے ہوئے کھیتوں کا دکھ بھول جاتی ہے اور اسے بھائی کی بے تحاشا یاد ستانے لگتی ہے۔ وہ ہر صورت اپنے بھائی کی خیریت چاہتی ہے ۔ وہ سوچتی ہے کہ ا س کے بھائی کے دل میں دکھ اور پیار کی آگ لگی ہوئی ہے۔ اس لگی ہوئی آگ میں سے اس نے ایک دیا سلائی کھیتوں کو دکھا دی تھی۔ یہاں امرتا نے بہن کی محبت کو دکھایا ہے۔ بہن ہونے کے ناتے نقصان ہونے کے باوجود اسے اپنے بھائی پر رہ رہ کر پیار آرہا ہے۔ عورت بہن کے روپ میں بھائی کی زندگی کی خیر خواہ ہوتی ہے اور اپنے سب دکھوں کے سامنے اسے اپنے بھائی کی پرواہ اور عزت سب سے عزیز ہوتی ہے۔ تانیثی ایجنڈے کے حوالے سے یہاں بہن کا روپ سامنے لایا گیا۔ مظلوم عورت کو امرتا نے ایک پگلی کے کردار کے ذریعے نمایاں کیا ہے۔ پگلی جس کی نہ کوئی شکل و صورت ہے اور نہ ذہنی حالت ایسی ہے کہ اسے اپنی درندگی کا نشانہ بنایا جائے۔ یہاں عورت کا ایک روپ دکھیا گیا ہے جہاں وہ ہمیں بے حد بے بس اور لاچار محسوس ہوتی ہے۔ جہاں معاشرہ اس کے پنجر کو بھی نہیں چھوڑتا اور اس کی ہڈیوں تک کو چبھا جاتا ہے۔
پورو رشید سے شادی کے بعد پہلی باررحیمے کی والدہ کے ساتھ رتّووال جاتی ہے۔ رتّووال میں پورو کی منگنی ہوئی تھی۔راستے میں اسے بار بار اپنے منگیتر کا خیال ستا رہا تھا۔ خیالات اس کی یادوں کو جگا رہے تھے۔ خیالوں میں گم وہ سوچ رہی ہے کہ:
مجھے کسی نے بلوا نہیں بھیجا، مجھے ایک آدمی بھی لینے نہیں آیا، کسی نے بھی شہنائی نہ بجائی، کسی نے بھی میرے ہاتھوں میں چوڑیاں نہ پہنائیں۔ ایک چوڑی بھی میری بانہوں میں نہ چھنک اٹھی۔ مہندی کا ایک پتہ بھی میرے ہاتھوں پر نہ لگا۔5
یہاں امرتا پریتم عورت کی طبیعت میں شامل فطری خواہشات کو واضح کرتی ہیں۔ وفاداری عورت کی سرشت میں شامل ہے۔ رام چند ، پورو کی زندگی میں آنے والا پہلا شخص تھا۔ زندگی نے پورو سے اس کے خواب چھین لیے تھے لیکن آج بھی وہ رام چند کی یادوں سے پیچھا نہ چھڑا سکی تھی۔ پورو کو جب معلوم ہوتا ہے کہ رام چند کی بہن لاجو کو بلوائی اٹھا کر لے گئے ہیں تو وہ تڑپ اٹھتی ہے اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر لاجو کو اپنے گھر لے آتی ہے۔ لاجو نہ صرف رام چند کی بہن ہے بلکہ وہ پورو کی بھابھی بھی ہے۔ ترلوک کے حوالے سے پورو کے دل میں اس کے لیے محبت موجود ہے۔ ایک عورت ہونے کے ناطے وہ گھر سے دوری کا دکھ سمجھتی ہے۔ لاجو کو تلاش کر کے بہت تگ و دو کے وہ اسے ساتھ لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ لاجو کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ شاید اس کے گھر والے اسے قبول نہ کریں۔ پورو سے اسے تسلی دیتی ہے کہ وہ فکر نہ کرے۔ اس کے گھر والے اسے لے جائیں گے لیکن وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت اگر ایک رات بھی گھر سے باہر گزارلے تو اس کا مقام کیا رہ جاتا ہے۔ لاجو جانتی تھی کہ پورو اس ظلم کا شکار ہو چکی ہے ۔ اس کے بعد کن حالوں سے گز رہی ہے اور اس بات کا ا ظہار وہ پورو سے بھی کرتی ہے لیکن پورو پرا مید ہوتی ہے کہ آج ایسے حالات ہو گئے ہیں کہ سب لوگ اس آگ میں جل رہے یں ۔ ان حالات میں معاشرے کی فرسودہ روایات کچھ دیر کے لیے بھلا دی گئیں ہیں۔ پورو جب لاجو کو اپنے بھائی کو سونپتی ہے تو اسے تاکید کرتی ہے کہ خدا کےلیے لاجو کی بے قدری نہ کرے۔ یہ تمام واقعہ امرتا پریتم کے تانیثی ایجنڈے کو واضح کرتا ہے۔ عورت کی بے بسی، لاچاری اور بہت سے مظالم میں اس کا قصور نہ ہوتے ہوئے بھی اسے قصور وار ٹھہرانا، عورت کی زندگی کے تاریک المیے ہیں۔
رشید سے شادی کے بعد پورو کے ہاں جاوید پیدا ہوتا ہے لیکن پورو کو اس میں کوئی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی بلکہ کچھ وقت کے لیے اسے اپنے بچے جاوید سے نفرت محسوس ہوتی ہے۔ اسے لگتا ہے جیسے جاوید مٹر سے نکلا ہوا غلیظ کیڑا ہے۔ ناول کا آغاز پارو کے اسی خیال سے ہوتا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ عورت جس مرد کو پسند ہی نہیں کرتی اور مذہبی طور پر بھی وہ اس سے تعصب رکھتی ہے کیوں کہ بچپن سے خاندانی طور پر اس کے اندر یہ تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہے تو ایسا ممکن نہیں کہ وہ ایک دم سے ایسے مرد یا اس کی اولاد سے محبت میں مبتلا ہو جائے۔ اگرچہ جاوید کی پیدائش کے بعد اس کے اندر خود بخود ممتا کا جذبہ غالب آجاتا ہے اور یہی عورت کی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ چاہے اس کے ساتھ جتنا بھی ظلم ہو جائے وہ اپنے بچے سے زیادہ دیر دور نہیں رہ سکتی۔ آخر کو جیت ممتا کی ہی ہوتی ہے۔
ناول پنجر کے بغور جائزے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ امرتا پریتم نے اس ناول میں بنیادی طور پر تانیثی ایجنڈے کو پیش کیا ہے۔ اگرچہ پس منظری حوالے سے اس میں تقسیم ہندوستان کو بھی موضوع بنایا ہے لیکن یہاں بھی موضوع بحث عورت ہی رہی ہے۔ ناول میں ایجنڈا کے طور پر تانیثی پہلو کو ہی اہمیت دی گئی ہے۔ جب کہ ضمنی طور پر فسادات کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔
حوالہ جات
1۔ اختر حسین رائے پوری، مضمون ’’ادیب اور فسادات‘‘ مشمولہ روشن مینار (کراچی: اردو اکیڈمی، سندھ،
۱۹۵۸ء)، ص۶۶۔
2۔ امرتا پریتم، پنجر، ص۱۱،۱۲۔
3۔ ایضاً، ص۲۳۔
4۔ ایضاً، ص۲۵۔
5۔ ایضاً، ص۶۷۔
***