نبراس سہیل
دبئی
نا رسائی: ایک جائزہ
روبینہ فیصل کا ناول نارسائی ایک نا آسودہ عورت کے سلگتے ہوئے جذبات کی ایسی داستان ہے جو کہیں جذب ہی نہیں ہو پاتی؛ نہ دلوں میں، نہ سماج میں، نہ ہی خدا کی نادیدہ ، نا رسیدہ نگری میں ۔ یہ کہانی ہمیشہ ہوا میں ہی معلق رہی ، کسی بدروح کی طرح۔قرن ہا قرن سے دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ عورت اپنی نا آسودگی مٹانے کی خواہش میں جو رستہ چنے گی، بھٹک جائے گی؛ اس راہ میں جو ہمسفر ملے گا، اسے لوٹ لے گا؛ وہ جس دھرتی پہ پاؤں دھرے گی اس کی زمین دلدلی ہوگی۔یہ اصول دنیا کے خدا ؤں نے بنایا ہے یا اس دنیا بنانے والے خدا نے، گھاٹا عورت کے حصے میں ہی لکھا گیا۔نہ صدیوں کا پھیر یہ اصول بدل پایا نہ ماڈرن اور آزاد روپ دھارن کرنے کے باوجود یہ دنیا عورت کے لئے اس مقدمے کو جیت پائی۔
ایسی کہانی جس میں خود کہانی کہنے کا دکھ شامل ہو، اسے کہنا کس قدر دشوار ہو سکتا ہے اس کا اندازہ مجھ جیسےقاری کو صفحات پلٹتے کئی بار اپنی گرفت میں لے لیتا ہےمگر مصنفہ کمال مہارت سے یہ مراحل طے کرتی ہوئی کہانی کو اپنے انجام سے بھی ایک قدم آگے لے جاتی ہیں جس طرح ٹرین رکتے رکتے ایک آدھ کلو میٹر آگے نکل جائے۔
مرکزی کردار کی کہانی ختم ہونے کے بعد مستقبل کے مناظر اور اپنی بیٹی کا انجام دیکھتی ایک برباد عورت کی روح گویا اس اصول پہ مہر ثبت کرتی ہے کہ کبھی کبھی بد قسمت عورت کی پرچھائ بھی اس کی بیٹی کا مقدر اجاڑ دینے کو بہت کافی ہوتی ہے۔
روبینہ فیصل اس ناول کے بیان میں جو تکنیک اپناتی ہیں وہ ابتدائی چند صفحات میں ہی قاری کو متاثر کر دیتی ہے۔ کہانی مرکزی کردار کے مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ ذہن اس بات کو تسلیم کرنے لگتا ہے کہ ہاں مصور کے تخلیقی جہان میں ایسا ممکن تو ہے اور مصنفہ کو داد دئیے بنا نہیں رہ پاتا۔ اب قاری ٹرین کے حادثے میں مر جانے والی سائرہ کی آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہے۔ مگر یہاں بھی جو نقطہ میرے نزدیک اہم ہے وہ یہ کہ مصنفہ اپنے مرکزی کردار کو ماضی میں لے جاتے ہوئے بھی “میں” کا صیغہ استعمال کرنے کی بجائے ، “وہ ” اور “اس” کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے خود کو اپنے تخلیق کردہ کردار سے الگ کرکے معروضی نقطہ نظر اپناتی ہیں اور یوں حالات و واقعات کی تفہیم کو قاری پہ چھوڑ دیتی ہیں۔
روبینہ فیصل اپنے پیش لفظ میں کہہ چکیں کہ اس کتاب میں ہر عورت کو اپنی جھلک کہیں نہ کہیں ضرور دکھے گی اور ان کا دعویٰ بے جا بھی نہیں۔ ماں کے جنازے پہ بھائی بہنوں اور بھابھیوں کا اسے گھر سے نکال دینا میرے دل کے وہ زخم ہرے کر گیا جن کی سطح پہ آج تک صرف کھرنڈ آتا ہے ۔ جن زخموں کی دکھن ہمہ وقت دل سے لے کر آنکھ تک بھری رہتی ہے۔ اس ٹوٹی پھوٹی عورت سائرہ کی کرچیوں میں، ہر عورت کو کسی نہ کسی ٹکڑے میں اپنا عکس دکھے گا۔ مگر ہاں یہی عورت، سائرہ کی کہانی پڑھتے ہوئے اس کی خامیاں بھی ضرور گننے لگے گی۔ ذہن الجھتا رہے گا۔ سائرہ کے کردار کی ہر کمزوری بڑھ بڑھ کر اپنی تکالیف کا جواز فراہم کرتی نظر آئے گی۔اور پڑھنے والی عورت یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائے گی کہ سائرہ جو مردوں کی بانہوں میں آسانی سے جا پڑتی تھی ایک کمزور کردار کی عورت تھی۔
یہاں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ روبینہ فیصل نے اس کردار کو لکھتے وقت محض تخلیقیت کے لئے رنگا رنگ موتی نہیں چنے، ان پتھروں کو بھی شامل کیا جو اس کے کردار پہ اچھالے گئے، ان کرچیوں کو بھی سجا دیا جو اس کے خوابوں کے ٹوٹنے سے بکھریں اور ان غلیظ کیچڑ کے چھینٹوں کو بھی صورت عطا کر دی جو تمام عمر اس کے چہرے پہ اچھالے گئے۔ایک تخلیق کار یہ جانتا ہے کہ جیتے جاگتے انسان کی خوبیوں اور خامیوں کا تناسب ہر انسان میں برابر نہیں ہوتا۔ کہیں خوبیاں چمکتی ہیں تو کہیں خامیوں کا رنگ نمایاں ہو جاتا ہے۔ مگر وہ اپنے کردار سے نفرت نہیں کر سکتا ۔ اسے محبت سے بناتا چلا جاتا ہے۔ انگریزی ادب کے اولین ناول ٹام جونز کی جنسی لطف انگیزی اس کو کسی صورت ایک برا کردار بنا کر پیش نہیں کرتی۔یہ خدائی صفت ہے جو ایک ادب کے تخلیق کار میں آ جائے تو اس کا درجہ کہیں بلند کر دیتی ہے۔اس ضمن میں مجھے روبینہ فیصل ہنری فیلڈنگ کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئیں ۔مصنفہ نے اپنے انداز بیاں سے ایک رد کی ہوئی کہانی کو معتبر کر دیا۔
اس ناول میں کئی جملےاس قدر کاٹ دار ہیں کہ ذہن میں بار بار گونجتے ہیں۔۔ “تیرے جیسے انسان کے ہاں بیٹی پیداہو یا میرے جیسی بیٹی کا باپ مر جائے ،ماتم کا ہی مقام ہے”
” یہ پاکستان ہے ، پاک لوگوں کا ملک۔ یہاں ناپاکی چھپ کے کی جائے تو پاک رہتی ہے۔ کھل جائے تو ذلت و رسوائی بن جاتی ہے جس میں عورت کو زیادہ حصہ ملتا ہے۔”
ادب کی دنیا میں جاری منافقتوں کا قصہ اس ناول کا ضمنی موضوع ہے جو اپنے اندر ایک بہت بڑی حقیقت لئے ہے۔ شعرو سخن میں اوزان کا توازن رکھنے والے لطیف تخلیق کار ،صنف نازک کے وجود کی ہر تار چھیڑنے کے شوق میں کہاں سے کہاں نکل جاتے ہیں۔ سائرہ کے توسط سے مصنفہ یہ نقطہ بھی ا ٹھاتی ہیں کہ ان کے ملک میں کسی بھی عملی میدان میں قدم دھرنے والی پر عزم عورت کی تخلیقی صلاحیات کی پرکھ اس کے فن اور صلاحیت سے پہلے اس کے چہرے کی رعنائی اور بدن کے تناسب سے کی جاتی ہے۔ شیکسپئیر کے زمانے سے لے کر آج تک حسین چہرے کو ہی بہترین سفارش سمجھا جاتا رہاہے۔حلق سے اس بات کو اتارنا جتنا کٹھن ہے اس سے کہیں زیادہ صعوبت ایک خاتون اس پدر شاہی سماج میں اپنا مقام بنانے میں اٹھاتی ہے۔ اس موضوع سے اتفاق ہو یا نہ ہو، یہ سوال اپنی جگہ قائم ضرور ہے۔
مصنفہ نے چونکہ ایک حقیقی کردار سے متاثر ہو کے یہ ناول لکھا ہے ، ناول کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلم کو کہیں بھی حقائق سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ مگر ناول کے آخری حصے میں سائرہ کی بیٹی کا کردار پیش کرنا حقیقت پہ مبنی ہے یا یہاں وہ اپنے تخیل کو آزاد چھوڑتے ہوئے ایسا کرتی ہیں اس سوال کا جواب انھیں سے لیا جائے گا۔
قاری کے مطابق ناول کا اختتام باب 28 صفحہ نمبر 534 پہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد کے ابواب اضافی محسوس ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں مصنفہ خود ہی وضاحت پیش کر سکتی ہیں۔
مرد اور عورت کے لئے اس دنیا کے اصول مختلف ہیں۔ اس ناول کے مرکزی کردار سائرہ کی اس اصول کو ماننے میں غلطی ایسی ہی ہے گویا دھرتی پہ کھڑے آدمی کا کشش ثقل سے ہی منحرف ہوجانا یا مردو زن کی برابری کی رٹ لگانے والے کسی ایکٹیوسٹ کا اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہنا کہ مرد اور عورت اپنے اپنے ایلگوردھم پہ چلنے والی دو الگ الگ مخلوقات ہیں۔جینیاتی مادوں کا فرق سماج کے آئینے میں نہ جھلکتا تو کہانیاں کیسے جنم لیتیں۔آخر خدا بھی تو اپنےمقدس صحیفوں میں ہمیں یہی کہانیاں سناتا ہے۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ اس ناول کو میرا جسم میری مرضی کے تناظر میں اگر دیکھا بھی جائے تو یہ نعرہ بلند کرنے والی عورت کے اس عزم کے پیچھے ان عوامل، حالات اور نفسیات کو ضرور مد نظر رکھا جائے جن کی وجہ سے وہ چلا اٹھتی ہے۔۔۔۔۔ ناول نارسائی اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے۔
***