You are currently viewing نظام الدین سحرؔ کی سحر بیانی

نظام الدین سحرؔ کی سحر بیانی

ارشادآفاقی

اسسٹنٹ پروفیسر اردو

گورنمنٹ ڈگری کالج  بانڈی پورہ کشمیر

نظام الدین سحرؔ کی سحر بیانی

 اس جہانِ آب و گل میں کچھ شخصیات اپنی شرافت ، انسان دوستی اور اصول پرستی کی بناء پر یاد کیے جاتے ہیں اور کچھ اپنی تصانیف و تالیف کے سہارے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ایسی ہی شخصیات میں جن کے بارے میں یہ سبھی باتیں صادق آجاتی ہیں مرحوم نظام الدین مخدومی بھی ہے۔نظام الدین مخدومی، تخلص سحرؔ کی جنم بھومی ضلع کپواڑا،تحصیل ہندواڑہ کے ایک گاؤں عشہ پورہ میں ۱۳ستمبر ۱۹۴۶؁ء میں ہوئی۔بنیادی تعلیم عشہ پورہ اور اس کے ملحق علاقوں میں حاصل کرنے کے بعد جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل ،دارالعلوم دیویند(یو۔پی) سے ماہرِدینیات اردو کی اسناد حاصل کی ۔آپ ۱۹۶۴؁ء میں بحیثیت سرکاری مدرس تعنیات ہوئے،سرکاری ملازمت ملنے کے بعد آپ کی علمی پیاس نہ بجھ سکی،بلکہ اپنی ذہانت وفطانت ،محنت ولگن سے ۱۹۷۴؁ء میں بی ۔اے،۱۹۷۷؁ء میں بی۔ایڈ کرنے کے علاوہ ایم۔اے فارسی کی ڈگری بھی حاصل کی۔موصوف ۱۹۸۸؁ء میں ترقی پا کر ماسٹر اور ۲۰۰۳؁ء میں انچارچ ہیڈماسٹر بنے اور اسی عہدے پر ستمبر ۲۰۰۴؁ء میں سبکدوش ہوئے۔آپ جنوری ۲۰۰۸؁ء سے مرتے دم تک محکمہ آثارقدیمہ( Archology )سے منسلک رہ کر قومی مشن میں بحیثیت عربی،فارسی ،کشمیری اسکالر کم سرویئرتقربیاً سات اضلاع میں مخطوطات کا سروے مکمل کرنے کے بعد بیمار ہوئے۔اس کے بعد اپریل ۲۰۱۷؁ء میں دائمی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

 نظام الدین سحرؔ کی شادی ۱۹۷۱؁ء میں شریف النسا ء نامی خاتوں سے ہوئی جن کے بطن سے ایک اولاد نرینہ ڈاکٹر ظہور احمد مخدومی اور تین اولاد اناث پیدا ہوے ۔ ۱۹۹۱؁ء میں آپ نے اپنے آبائی وطن عشہ پورہ سے ہجرت کرکے تحصیل سوپور کی مبارک کالونی،نسیم باغ میں رہائش پذیر ہوئے ۔الواع عشہ پورہ کے حوالے سے آپ نے کئی اشعار قلمبند کیے۔آپ نے ۱۹۹۹؁ء میں بغرض حج سعودی عرب کا سفر کیا اور ۲۰۰۸؁ء میں اپنی شریک ِحیات کے حج البدل کا فریضہ بھی انجام دیا۔بعد ازحج آپ نے اردو زبان میں ‘‘سفر نامہ حج’’ تحریر کیا ہے۔ بقول ان کے ؂

یوں تو میں دوبار کر آیا ہوں دیدار ِ حرم

ہے تمنا یہ زیارت ہو سہ بارہ ،دوستو

 نظام الدین سحرؔ نے اگر چہ اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز اردو شعر گوئی سے کیا مگر جلد ہی انھیں اپنے ایک مشفق استاد جناب علی محمد شہباز (مرحوم) نے اردو کے بجائے اپنی مادری /پہلی زبان یعنی کشمیری میں شاعری کرنے کا مشورہ دیا۔جس کی نظام الدین سحرؔ نے تائید کی۔اسطرح انھوں نے ستر کی دہائی میں کشمیری میں شعر موزوں کرنے کی باضابطہ شروعات کی۔کشمیری میں شاعری کرتے کرتے آپ نے اردو زبان وادب سے اپنا ناطہ مکمل طور منقطع نہیں کیا بلکہ کشمیری کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے۔جس کا اعتراف نظام الدین سحرؔ نے اپنے شعری مجموعہ ‘‘ صدائے سحر’’ کے دیباچہ میں یوں کیا:۔

 ” میں نے سترکی دہائی میں ہی اردو میں شعر لکھنے کی ابتداء کی تھی،مگر اپنے ایک شفیق استاد اور مہربان رفیق کا رمرحوم علی محمد شہباز کی ترغیب سے اردو لکھنے کی بجائے مادری زبان کشمیری کو ہی ترجیح دی۔” ص۳۳

 کشمیری زبان میں شاعری کرنے کے کئی وجوہات ہو سکتے تھے۔ایک استاد ِمحترم کا مشورہ،کیونکہ کہا جاتا ہے کہ طالب علم کی پوشیدہ صلاحتیوں کا زیادہ علم اور واقفیت اس سے بہتر اس کے استاد کو ہوتی ہے۔شاید شہبازؔ نے بھی اُن کی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان کر انھیں یہ صلاح دی ۔دوسری بات یہ ہے کہ کشمیری ان کی مادری زبان ہے جس میں انسان دوسری زبان سے زیادہ موثر اور احسن طریقے سے اپنے احساسات وجذبات ، مشاہدات وتجربات اور خیالات و تخیلات بیان کر سکتا ہے۔تیسرا سحرؔ چونکہ ادبی مرکزکمراز سے نہ صرف وابستہ تھے بلکہ اس کی ادبی نشستوں میں بھی شرکت کرتے تھے اور اس انجمن کی ادبی سرگرمیوں میں سر گرم عمل رہتے تھے۔اس لئے انھوں نے اردو کے بجائے کشمیری کو ترجیح دی۔کیونکہ جیسا ماحول اور اور ادبی فضا ملتی ہے ویسا ہی رنگ قلمکار اور تخلیق کار پر چڑھتا ہے۔ویسا ہی واقعی سحرنے بھیؔ قبول کیا تھا۔جس کا بین ثبوت ان کے دو کشمیری شعری مجموعے ‘‘ ندائے سحرؔ’’ اور ‘‘نوائے سحرؔ’’ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے وقتاً فوفتاً کشمیری میں مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔جن کا مجموعہ ‘‘مضامین سحرؔ’’ کے عنواں سے جلد منظرِعام پر آئیے گا۔

 نظام الدین سحرؔ بیک وقت استاد و مدرس ،داعی و مبلغ اور شاعر وادیب تھے۔وہ سادہ طبیعت ’سادہ دل اور صاف گو تھے۔وہ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اورحسب ِ مراتب مخاطب سے گفتگو کرتے تھے۔ان کا اندازِ تکلم نہ صرف دل مول لیتا تھابلکہ مخاطب ان کا گرویدہ بھی بنتا تھا۔جس کا اندازہ مجھے بخوبی ہوا تھا۔جب میں ان کے صاحبزادے ڈاکٹر ظہور احمد مخدومی کے ساتھ ان کے گھر جاتا تھا۔ان کے والد صاحب بہت خوش ہوتے تھے ۔علیک سلیک کے بعد کسی ادبی موضوع پر بحث کرتے تھے۔اپنی بات مکمل کرنے کے بعد مخاطب کی بات دھیان سے سنتے تھے چاہیے مخاطب چھوٹا ہو یا بڑا،امیر ہو یا غریب یا کسی بھی مکاتب فکر کا ہو۔مگر سحرؔ صاحب ہمیشہ بات کرنے کا برابر موقع اور وقت دیتے تھے۔اور مخاطب سے اتفاق بھی کرتے تھے اور اختلاف بھی ۔بشرطیکہ بات کی بنیادٹھوس شواہدپر مبنی ہو۔گفتگو کے اختتام پر ہمیشہ اپنے مذہب کے بارے میں کہتے تھے اور نصیحت کرتے تھے۔کبھی کبھی اپنی زندگی کے تجربات اور نشیب وفراز سے بھی آگاہ کرتے تھے۔جس سے واقعی حوصلہ ملتا تھا۔دراصل وہ مخلص اور ملنسار انسان تھے اس لئے بڑی بے باکی اور بغیر کسی افسانہ طرازی کے اپنے حالات وواقعات سے باخبر کرتے تھے۔جس سے انسان کے اندر حوصلہ وہمت اور محنت ولگن کے جذبات پیدا ہوتے تھے۔

 سحرؔ ۲۰۰۹؁ء سے مرتے دم تک موسم سرما میں جموں وکشمیرکی سرمائی دا جدھانی جموں کا رخ کرتے تھے کیونکہ یہاں سردی کی شدت اس عمر میں برداشت کرنا ذرا مشکل تھا۔مگر انھیں اس سے بھی فائدہ ملا۔کیونکہ انھیں وہاں کئی شاعروں اور قلمکاروں سے رابط ہوا۔جس کی بدولت انھیں وہاں کی دو فعال ادبی تنظیموں ‘‘ادبی کنج’’ اور‘‘انجمن فروغ اردو’’ کی ہفتہ وار نشستوں میں شرکت کرنے کا موقعہ ملا تھا۔اس طرح وہ صوبہ جموں میں بھی متعارف ہوئے تھے۔ہفتہ وار ادبی نشستوں میں پہلے پہل انھوں نے اپنا کشمیری کلام سنایا تھا،جس پر انھیں خوب پزیرآرائی اور حوصلہ افزائی ملی۔نیز انھیں اردو میں شعر لکھنے کے لئے نہ صرف ترغیب ملی بلکہ اکتایا گیا تھا۔اس طرح انھوں نے اپنی ذہانت اور تخلیقیت کو بروائے کار لاکرعمدہ اور معیاری شعر کہے۔ حالانکہ سحرؔ اس سے قبل بھی منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لئے اردو زبان میں شعر موزون کرتے تھے ۔مگر ۲۰۰۹؁ء کے بعد انھیں ایک تحریک ملی۔اس طرح ۲۰۱۳؁ء تک ان کے پاس اتنا کلام جمع ہو چکا تھا جسے یکجا کرکے انھوں نے ایک شعری مجموعہ بعنواں ‘‘ صدائے سحر’’ ترتیب دے کر ۲۰۱۳؁ء میں منظرعام پر لایا ۔یہ شعری مجموعہ ۱۷۶ صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں حمد،نعت،دعا کے علاوہ نظمیں ،غزلیں اور چند قطعات شامل ہیں۔اس شعری مجموعہ میں ۱۹۶۶؁ء سے لیکر ۲۰۱۳؁ء تک کے عرصے میں لکھی جانے والی شاعری شامل کی گئی ہے۔

 سحرؔ نے اگرچہ متعدد اصناف ِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے اور ان کا زیر نظرشعری مجموعہ رنگارنگ کلام پر مبنی ہے مگراس میں دیگر اصناف کے برعکس غزلوں کی تعداد زیادہ ہے یعنی اس میں ۵۷غزلیں جن میں ۵۱۷ اشعار ہیں۔اس لئے میں اسے غزل گو شاعر ہی سمجھتا ہوں اور پنے اس مضمون میں ان کی غزل گوئی کے حوالے سے روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ تاکہ ان کی غزل گوئی کی نمایاں خصوصیات اور منفرد خوبیاں سامنے آجائیں ۔سحرؔ کی غزلوں میں متنوع موضوعات پائے جاتے ہیں۔زبان کی سادگی ،الفاظ کے موثر اور موزوں استعمال نے کلام کی جاذبیت اور شگفتگی میں اضا فہ کیاہے۔سحرؔ کو عربی اور فارسی زبانوں پر دسترس ہونے کے سبب ان زبانوں کے الفاظ ،تراکیب اور دیگر شعری وسائل کو اپنی شاعری میں حسبِ منشا برتنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔جس سے ان کی شاعری میں تہہ داری اور رنگارنگی پیداہوئی۔کیونکہ تہہ داری اردو غزل کی بنیادی خصوصیت رہی ہے اپنے کلام میں تہہ داری کو پیدا کرنے کے لئے شعراء مختلف شعری صنعات اور وسائل سے کام لیتے ہیں۔سحرؔ نے بھی حسبِ استطاعت اور حسبِ ضرورت مختلف فنی وشعری وسائل سے کام لے کر اپنی غزلوں میں گیرائی وگہرائی پیدا کی۔

 سحرؔ پیشے کے لحاظ سے مدرس تھے مگر دلچسپی کے اعتبار سے خطیب،مبلغ اور شاعر۔انھوں نے قرآن وحدیث اور تاریخ اسلام کا باریک بینی سے مطالعہ کیا تھا۔جس سے ایک طرف ان کا ایمان وایقان مضبوط ہوا،دوسری جانب ان کے قلب ونظر میں وسعت پیدا ہوئی۔اس لئے مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی قباحت یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی ہے کہ سحرؔ کی شاعری کا مبع وماخذ قرآن وحدیث اور اسلامی فلسفہ ہے۔اس لئے بعض جگہ ان کی غزلوں میں علامہ اقبالؔ کا اثر یا شائبہ نظر آتا ہے۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری کا محور خدا کی واحدینت،حبِ رسولؐ ،فلسفہ اسلام ،بنی نوع انسان کی فلاح وبہودی ہے۔ان کی شاعری کی ورق گردانی کرتے وقت ایسے موضوعات جابجا نظر آتے ہیں۔

 خدا کی یاد سے غافل ہوا ہے یوں انسان

 سکوں وچین نہیں اُسے قرار نہیں

 چشمِ دروں بین سے حُسنِ ازل کو تو بھانپ

 چارسو اس کا ظہور چار سو اُس کا گزر

 دوسروں کے کام جو آئے خدا کے واسطے

 مجھ کو لگتا ہے وہ سب لوگوں میں پیارا دوستو

 سحرؔ نے اپنی شاعری کی ابتدا ء ۱۹۶۶؁ء میں کی یعنی جب اردو ادب میں جدیدیت کا رحجان زور پکڑ رہا تھا۔ہر سو جدیدیت کا غلغلہ ہو رہا تھا۔جدید شعراء نے روایتی غزل اور اس کی خصوصیات کو یکسر ترک کرکے انکشاف ِذات اور اپنی داخلی کیفیات کو ترجیح دی۔اور نئے نئے استعاروں ،تشبہات اور علامتوں کو جنم بخشا۔ جدیدپسند شاعروں میں احساس تنہائی ،خوف،دہشت،ذات کا داخلی کرب کے علاوہ بیگانگی ،علاحدگی ،گوشہ نشینی اور اکیلاپن وغیرہ نمائندہ موضوعات رہے۔جو ان کی شاعری میں جگمگارہے ہیں۔اس تناظر میں سحرؔ کی شاعری کاجائزہ لیا جائے۔تو ان کی شاعری میں بھی جگہ جگہ اس کسک اور کرب کا احساس ہو تاہے اوراس نوع کے موضوعات ملتے ہیں ۔درج ذیل اشعار میرے دعوی ٰ کی دلیل ہیں:۔

 بستیوں سے دُور رہنا کچھ مجھے بھاتا ہے آج

 ان بیابانوں میں دل تسکین سی پاتا ہے آج

 میں ہی سہتا نہیں ہوں تنہائی

اِس مرض کے شکار کتنے ہیں

؂ بستی میں ہیں مکاں ہی مکاں کوئی گھر نہیں

چاروں طرف ہیں پیڑ ہی سایہ ثمر نہیں

 اب تو نظروں میں نہیں آتا ہے کوئی بھی رقیب

 دُشمن ِ جاں تو سحرؔ اپنی ہی پرچھائی ہوئی

 سحرؔنے اپنی غزلوں میں دور حاضر کے انسانوں کے مسائل و مصائب کا ذکر کیا ہے اور انسانوں کی انسانوں سے لاتعلقی ،عدم ہمدردی،اعصاب شکن ،مادی وسائل کا تعا قب و غیرہ کو اشعار میں ڈھال کر اطمینان ِ قلب ،یکسوئی اور اعلٰی اقدار کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔انسان اتنا مادیت پرست بن گیا کہ اس کے پاس نہ رشتہ نبھانے کا وقت ہے نہ ہی وہ سچا پیار ومحبت کسی سے کر رہاہے۔بلکہ رسم(formality) کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی محبت پر ہی گزارا کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کیا جا سکتا ہے کہ عصرِ حاضر میں ہمدردی، محبت اور ایثار اپنے معنی کھوچکے ہیں یہ صرف لغت تک محدود رہ گئے۔اس رویہ نے نہ صرف انسان کو انسان سے دور رکھا بلکہ درندہ اور حیوان بنا دیا اس لئے آئے دن وحشیانہ اور غیر انسانی واقعات رونماں ہو رہے ہیں۔جن کی جانب سحرؔ نے واشگاف مگر فنکارانہ انداز میں اظہار کیا ہے۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا کہ انسان بدل گئے،ان کا مزاح ،عادات ،اطوار،گفتار تبدیل ہو گیا۔کسی کو کسی پر بھروسہ نہیں رہا۔بھائی بھائی کا نہیں،بیٹا باپ کا نہیں ،ماں بیٹی کی اور ہمسایہ ہمسائے کا نہیں رہے۔ان نکات کی سادہ مگر بہترین عکاسی درج ذیل اشعار میں کی گئی ہیں:

 زندگی اس نے بتائی عیش ومستی میں تو ہے

اپنی کرنی پر سحرؔ بھی خوب پچھتاتا ہے آج

؂ یہ بار بار میں کہتا ہوں ایک بار نہیں

کسی کے دِل میں بھی اب تو کسی کا پیار نہیں

؂ وہ مرا یا یہ مرا کیسے مرا کیونکر مرا

دیکھنا یہ ہے کہ اس کو کس نے مارا دیکھئے

؂ در و دیوار سے ٹپکے اندھیرا ہے

کروں میں بات کس سے کون میرا ہے

 اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنا وجودبھول چکا ہے۔وہ اپنے خائق اور اس کے احکام، اپنے رسولﷺ اوراس کے طریقے کوبہت حد تک ترک کرچکے ہیں۔ ان سے غافل ہو گیا اور اس راہ سے مُنہ موڈرہا ہے۔جس کی بناء پر نہ وہ دنیا میں کامیاب ہو رہا ہے اورنہ آخرت میں کامیابی کا کوئی وعدہ ہے۔اسطرح یہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی وبال بن چکا ہے۔جس سے معاشرہ،سماج اور زندگی کے دوسرے شعباجات متاثرہی نہیں بلکہ آلودہ بھی ہو چکے۔اس تمام کی ذمہ داری انسان اور اس کے طریقہ پر عائدہو رہی ہے۔مثلاً

؂ ہائے! کیا دن ہیں کہ روندا جا رہاہوں

چارسُو حق نے بھیجا تھا مجھے باطل کچلنے کے لیے

؂ خدا کی یاد سے غافل ہوا ہے یوں انساں

سکوں وچین نہیں اُسے قرار نہیں

وہ بدنصیب کہ جو ظلم کرکے اِترائے

سیاہ رو ہے بھلے ہی وہ شرمسار نہیں

 سحرؔ وادی کشمیر کے پُر آشوب دور کا چشم دید گواہ ہی نہیں بلکہ ان حالات وواقعات کا انھوں نے بذاتِ خود سامنا بھی کیا ہو گا۔اس لئے ان کی شاعری میں ان حالات وواقعات کے اثرات جابجا ملتے ہیں۔ان کی شاعری میں آج کے ماحول کا حسی پہلو،اردو گرد کی داخلی فضا ،اس کا دھواں ،حق وباطل کی کشمکش،ہجرت اور بے مکانی کا احساس ،تنہائی کا ماتم کے علاوہ انسانوں کے مخصوص حالات کی تپش اور اس سے پیدا ہونے والی بے چینی اور اضطراب سب کا اظہار غزل کے روپ میں ڈھل کر ایک نئے جمالیاتی تجربے کے ساتھ ہوا ہے ۔جس میں عام انسان شریک ہو کر بصیرت اور جمالیاتی مسرت حاصل کر سکتا ہے۔

ملے جہاں بھی ہمیں صرف راہزن ہی

ملے کسی کی راہبری پر ہی اعتبار نہیں

بربادیِ چمن پہ میں ماتم نہ کیوں کروں

اس کو ٹٹولئے کہیں دیوار و در نہیں

 موضوعات میں وسعت پیدا کرنے کے لئے سماجی مضامین کی شمولیت کو بنظرِاستحسان دیکھا۔سیاسی،اخلاقی،حسن وعشق ،خوف وڈر،ظلم وجبر،مسلکی لڑایاں اور دیگر مضامین نے ان کی شاعری میں موضوعاتی رنگارنگی پیدا کی ہے۔اگر چہ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع یا محور دینِ حق ہے مگر انھوں نے اپنی شاعری میں انسانی زندگی کے متنوع اور اس کے گوناگوں مسائل ومعاملات کو صحیح تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

جب بھی اس کا خیال آتا ہے

روبرو حسبِ حال آتا ہے

نہ کیوں اس پیڑ کو جڑ سے اکھاڑوں

یہاں جو مدتوں سے بے ثمر ہے

دل کا سکون روح کی آسودگی گئی کیا

کیا نہ لُٹ گیا مرا اس کاروبار میں

 سحرؔ نے اردو زبان کے حوالے سے بھی چند اشعار کہے۔کیونکہ انھیں اردو زبان وادب سے والہانہ محبت تھی اور وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اردو نہ صرف گنگا جمنی تہذیب کی ترجمان ہے بلکہ اس میں ہمارا پورا علمی وادبی ورثہ محفوظ و موجود ہے۔ علاوہ ازیں فن ِشاعری اور اس کی دشواریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔سحرؔنے الفاظ کے انتخاب اور انھیں برتنے کے انداز سے جو منفرد لہجہ تراشا ہے۔اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

تابندہ ہی رہیں میری تہذیب کے نشان

جب تک جہاں میں زندہ یہ اردو زبان رہے

کافی مشکل ہے شاعری کا فن

ہے بوڑھاپے میں سیکھنا دشوار

؂ کھیلتا ہے سحرؔ بھی لفظوں سے

ہو نہ جائے یہ شاعروں میں شمار

؂ سحرؔ شاعر ہے کشمیری زبان کا

مگر اردو میں لکھنے کا ہنر ہے

 سحرؔ سچے مسلمان ہونے کے ناطے صرف دعویٰ کے نہیں بلکہ دلیل کے قائل تھے۔وہ گفتار کے غازی کے برعکس کردار کے غازی کو ترجیح دیتے تھے۔میں جب ان کے گھر ان کی حین و حیات میں جاتا تھا اور آج بھی جاتا ہوں۔تب بھی وہ دورانِ گفتگو یہی کہتے تھے کہ انسان کو عامل اور عابد ہونا چاہیے۔گفتار سے زیادہ کردار اور صورت سے زیادہ سیرت اس کی قابلِ دیداور قابلِ تقلید ہونی چاہیے۔جس کی ترجمانی انھوں نے اپنے کلام میں جابجاکی ہے۔ان کے بعض اشعار پر یہ گمان ہوتا ہے کہ ان پر علامہ اقبالؔ کا گہرا اثر پڑا ہے۔مثلاً

حوصلہ دیتے ہیں ہم اپنے عمل سے خود

اسے صرف گفتار سے باطل کو مٹائیں کیسے

صاحبِ قرآن ہو کر وہ معزز ہوگئے

ترکِ قرآنی سے ہی ہم کو بھی رُوائی ہوئی

خدمت ِ خلق خدامیں ہے نہاں خوشیوں کا راز

ہم سے خود غرضی ہوئی غم سے شناشائی ہوئی

 شعراء نے ہمیشہ اپنی شاعری میں طنزومزاح سے ایسے ایسے بڑے اور نازک کام سر انجام دیئے ہیں جو دوسرے طریقوں یا حربوں سے شاید ممکن نہیں۔انھوں نے معاشرہ اور فرد کو ہمیشہ ہنستے ہساتے راہ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوئے۔سماج اور دیگر شعبہائے زندگی کی کمزوریوں اور کجروریوں پر ایسے کڑی طنز کے تیر برسائے تھے جن کے وار اوچھا یا خطا نہیں ہوئے۔انھوں نے دور حاضر کی فیشن پرستی پر اچھا وار کیا ہے کیونکہ آج کل مردوزن ایسے لباس زیب تن کرتے ہیں۔جن سے پہلے تو مرد وزن کا فرق ہی مٹ گیا دوسرا وہ اتنے باریک ہوتے ہیں کہ ان کے پہننے یا نہ پہننے میں شاید کوئی فرق ہے۔کیونکہ آج سے کئی صدیاں قبل پیغمبرِ آخرالزماںﷺ نے پیش گوئی کی ہے کہ لوگ لباس پہننے کے باوجود بھی ننگے نظر آئے گے۔آج جب معاشرے پر نظر دوڈائیں ہیں۔تو چارسو ایسے ہی لوگ نظرآتے ہیں ۔اس صورت میں انسان نظریں بچائیں تو کیسے۔

بےلباسی پہ تُلی ہے تیری دنیا یارب

راستہ چلنا ہے نظروں کو بچائیں کیسے

عریاں بدن اس دورمیں کہلائیں

مہذب تہذیب زمانہ کو ہے جاہل کی ضرورت

***

Leave a Reply