You are currently viewing پاکستانی اُردو نظم میں پھولوں کا تذکرہ

پاکستانی اُردو نظم میں پھولوں کا تذکرہ

ڈاکٹر رابعہ سرفراز

استاد شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد

مریم انور

ریسرچ اسکالر ایم فل اردو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد

پاکستانی اُردو نظم میں پھولوں کا تذکرہ

Abstract:

“Nature’s creations are very impressive, among which flowers are a great example, because flowers are every happiness of man (wedding , part love, during the departure and return of Hajj and Umrah, returning home to a foreigner, and other occasions) But it is common sense to use flowers for every grief (visitation, death and many places) so everyone is impressed by them with a good impression then the impressionable person starts to look at these wonders of nature in such a way so that he can embrace the beautiful and colorful world of nature in his hobby, in the same way poets of all times (ancient, classical, modern, Pakistani and present) have inspired by the colors of nature and made their poetry beautiful like a beautiful garden.”

پھول کیا ہے ؟ پھول جو ہے وہ مذکر واحد ہے جیسے اردو میں پھول ، فارسی میں گل اور انگریزی میں Flower کہا جاتا ہے لہٰذا پھول کے عام معنی توجوش، ولولہ، خوشی اور شادابی کے ہیں۔

فرہنگ آصفیہ کے مطابق:

’’اسم مذکر گل پشپ، داد، خوشبودار پھول جیسے موتیا، چنبیلی وغیرہ۔ ‘‘ (۱)

فرہنگ سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ پھول پودوں کا نہایت ہی خوبصورت عمدہ خوشبو والا ایک بہترین حصہ ہے پھول کی تعریف ہم اپنے لفظوں میں یوں بیان کرسکتے ہیں کہ پودوں کا اوپر والا حصہ جو کہ بے شمار رنگوں کے ساتھ مختلف ڈیزائن میں چار یا چار سے زیادہ مہک آفرین پتیوں پر مشتمل ہو تو وہ پھول کہلاتا ہے۔

دنیا میں پھولوں کی بے شمار اقسام مختلف رنگوں میں پائی جاتی ہے جن میں سے کچھ اقسام موسم گرما میں نمودار ہوتی ہے اور بعض قسمیں موسم سرما میں اپنے حسین وجمیل مناظر کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے واضح رہے ان تمام اقسام کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں ہے البتہ گلاب ، یاسمین ، چنبیلی، موتیا، کنول، گیندا، دن کا راجہ، رات کی رانی، سورج مکھی، گل لالہ، گل داودی ، گل نرگس جو کہ بہت مشہور معروف ہیں اور ہر ایک پھول معنوی اعتبارسے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔

’’وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِo فِيْہَا فَاكِہَۃٌ وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِo وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُo فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‘‘(سورۃ الرحمن: ۱۰ تا ۱۳)

ترجمہ:     (اور اس نے خلقت کے لیے زمین کو بچھا دیا اس میں میوے اور غلافوں والی کھجوریں ہیں اور بھوسے دار اناچ اور پھول خوشبودار ہیں پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔)

پس وہ اللہ ہے جس نے دنیا کو قائم رکھنے کی خاطر مخلوقات کو بنایا پھر اسی مخلوق کے لیے زمین کو بچھونا بنا دیا اور اسی زمین میں سے کئی قسم کے میووں، مختلف پھل اور خوشبودار پھولوں کو پیدا کیا ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

اردو ادب میں بھی پھولوں کا کردار نمایاں طو پرر دکھائی دیتا ہے پھول کا لفظ اردو شاعری میں بڑی ہی اہمیت کا حامل رہا ہے اردو شاعری کو کافی حد تک کامیابی پھولوں کے ذکر کی وجہ سے ہی حاصل ہوئی ہے نہ صرف لفظ پھول کا استعمال ہوا ہے بلکہ اس کی مختلف اقسام کا ذکر بھی کئی شعراء کے کلام میں جا بجا ملتا ہے پھر جہاں پھولوں کی اقسام بیان ہوتی ہے یعنی کنول یاسمین ، گلاب، نرگس وغیرہ وہاں تو شاعری کو چار چاند لگ کر شاعری کا مقام اور بھی بلند ہوجاتا ہے اس سے ایک بات اور یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ شاعر مناظرت فطرت کو کونسی نظر سے دیکھتا ہے اور کس طریقے سے فطرت کے مناظر کو الفاظ کا پیکر اہن پہنا کر اپنی شاعری کو دلکش اور جامع بناتا ہے آیئے پھولوں کو کلاسیکلی شاعری میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے

تجھ مکھ کا رنگ دیکھ کنول جل میں جل گئے
تیری نگاہ گرم سوں گل گل پگھل گئے(۲)

یعنی ولی اپنے محبوب سے یہ کہنے کی کوشش کرتا ہے کہ تیرے چہرے کا رنگ دیکھ کر کنول دھوکے میں جل کر راک ہوگئے اور ساتھ ہی تیری غصے بھری نگاہوں سے سارے کے سارے پھول پگھل کر آب آب ہو گئے۔

چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ باراں ہے
بات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم بادویاراں ہے(۳)

میر کہتے ہیں کہ اگر چلنا ہے تو باغ کو چلیے سب کہہ رہے ہیں کہ وہاں بہار کی وجہ سے پتے ہرے ہوئے ہیں اور ساتھ میں پھول کھلے ہیں۔

دیکھے جو یہ چنبیلی کی کلیوں سی انگلیاں
وہ تیرے دست وپا کو کہے یاسمن کی شاخ (۴)

ناسخ محبوب سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی تیری چنبیلی کی کلیوں کی مانند انگلیوں کو دیکھے تو وہ تیرے ہاتھوں اور قدموں کو یاسمن کی شاخ کہے گا۔

پھول اپنی خوبصورتی کی بنا پر بہت سے حسین وجمیل لمحات کو اور بھی دلکش بنا دیتے ہیں اسی خوبصورتی کی وجہ سے قدیم مغربی اور مشرقی شعراء نے اپنے اپنے کلام میں مختلف پھولوں کا تذکرہ کیا ہے بعدازاں پاکستانی دور کے شعرا ان کے کلام کے اس پہلو سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے پھر اسی تاثر کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی دور کے اردو نظم گوشعراء اور شاعرات(اقبال، نیرنگ ، فیض، مجید امجد، منیر نیازی، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض ،پروین شاکر) نے بھی اپنی نظموں میں باقاعدہ پھولوں کا تذکرہ ان کے ناموں کے ساتھ کیا ہے۔

اقبال انیسویں صدی کے بڑے ہی عظیم شاعر ماننے جاتے ہیں جنھوں نے فطرت کے کئی پہلوؤں پر اشعار کہہ کر شاعری کے حسن کو مزید حسین تر بنانے کی عمدہ کوشش کی ہے جیسے اقبال اپنی نظم ’’نگاہ‘‘ میں کہتے ہیں:

بہار وقافلہ لالہ ہائے صحرائی
شباب ومستی وذوق وسرور رعنائی!
اندھیری رات میں یہ چشمگیں ستاروں کی
یہ بحر! یہ فلک نیلگوں کی پہنائی!
سفر عروس قمر کا عماری شب میں
طلوع مہر و سکوتِ سپہر مینائی!
نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں
کہ بیچتی نہیں فطرت جمال وزیبائی!(۵)

اقبال کا کہنا ہے کہ کائنات کی ہر رنگیں شے اور فطرت کی حسین نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے دولت ضروری نہیں ہے بلکہ ایک ایسی نگاہ کی ضرورت ہے جو فطرت کی اہمیت جان سکے یعنی موسم بہار، باغوں میں مختلف قسموں کے کئی پھول عالم شباب اور حسن وجمال کی صورت فطرت کے مناظر میں ہی پائے جاتے ہیں لہٰذا آسمان، آفتاب کا نکلنا، چاندنی رات اور نیلے رنگ کا سمندر، تاروں سے چمکتا ہوا یہ آسمان دیکھنے کے لیے بڑی ہی حسین اشیاء ہیں جن کا نظارہ ہم مفت میں کرسکتے ہیں موسم بہار کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’بہار ایک موسم اور زمانے کا نام بھی ہے مگر اس موسم اور زمانے کا زمین اور مکان سے بھی گہرا ربطہ ہے بہار کی کیفیتوں اور دلآویزیوں کے لیے نظیر مرقعے ہر قوم کے ادب اور شاعری میں موجود ہیں فارسی اور اردو شعری کے ذخیرے بھی اس سے معمور ہیں۔‘‘ (۶)

اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بہار ایک خوبصورت موسم کا نام ہے جس میں کئی طرح کے پودے، درخت اور پھول کھلتے ہیں پھر بہار کی ان کیفیتوں کو اردو فارسی شعرا نے مختلف انداز سے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ پھر اقبال نرگس شہلا کے بارے میں کہتے ہیں:

گھر میں بنایا ہے سکوت دامن کہسار میں
آہ ! یہ لذت کہاں موسیقی گفتار میں !
ہمنشین نرگس شہلا، رفیق گل ہوں میں
ہے چمن میرا وطن ، ہمسایہ بلبل ہوں میں(۷)

علامہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا گھر پہاڑوں کے دامن میں بنانا ہے جتنا وہاں کی خامشی میں لطف اور سکون ہے کہیں بھی اتنا سکون تقریروں اور گفتگو میں نہیں پایا جاتاہے مجھے اب انسانوں کے بجائے گلاب اور نرگس کے پھولوں کا ہم نشین بنتا ہے کیونکہ میں باغ میں رہتا ہوں یہ میرے لیے زیادہ بہترین جگہ ہے کہ مجھے بلبل کا ہمسایہ ہونے کا بھی حق حاصل ہے۔

غلام بھیک نیرنگ اقبال کے ہمعصر اور اردو زبان کے بڑے ہی نامور شاعر تھے جنھوں نے اقبال کی طرح مناظرات فطرت کا گہری سے مطالعہ کرکے اسے اردو شاعری میں سمونے کی کوشش کی ہے جیسے نیرنگ اپنی نظم ’’عالم پیری اور یاد ایام‘‘ میں بیت ہوئے زمانے کو یاد کرکے کہتے ہیں:

کیا لطف کے تھے وہ دن ! کیا خوب زمانہ تھا
طفلی کی وہ سب باتیں کیا پیار افسانہ تھا
کھلتے تھے مزے سے گل ایام بہاراں میں
اور مت پرندے تھے دورمے الحاں میں
اب بھی ہیں چمن میں گل خوش رنگ بھی خوش بو بھی
شوخی بھی ہے سوسن میں نرگس میں ہے جادو بھی
پر آہ عجب پیارے ! وہ گل تھے بنفشہ کے
وہ غنچے تھے کیا تھیکے وہ پھول تھے کیا بانکے! (۸)

شاعر اپنے بچپن کے دنوں کو لطف کے دن کہتے ہوئے پرانی باتوں کو یاد کررہے ہیں اس زمانے میں تو پھول بہار کے دنوں میں بڑے ہی مزے سے کھلتے تھے اور پرندے بھی مست رہتے تھے لیکن اب باغ میں پھول بھی ہے ان میں خوسبو بھی ہے سوسن میں شوخی بھی ہے نرگس میں جادو بھی ہے پر افسوس پیارے وہ بنفشے کے پھول تھے ایسے پھول جو بطور دو استعمال ہوتے تھے۔ لہٰذا وہ کھلنے والے پھول کو ترچھے اور ہانکے کہہ رہے ہیں اور پوری نظم میں اپنے دوست کو ایک ہمدرد پھول کی صورت دکھا رہے ہیں نیرنگ اپنی نظم ’’بھونرا‘‘ میں مختلف پھولوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

دادِ گل گشت دے رہا ہوں میں
محوہر رنگ و ہرا داہوں میں
پیار کرتا ہوں جا کے گیندے کو
منھ بنفشے کا چومتا ہوں میں
آنکھ نرگس سے جا لڑاتا ہوں
مائل چشم فتنہ زاہوں میں
لگ چلاہنس کے سیوتی سے کبھی
کبھی چنپا سے جا ملا ہوں میں
کبھی جو ہی سے چھیڑ کر بیٹھا
دل لگی میں کوئی بلا ہوں میں
یاسمن سے ہے میری سرگوشی
موتیا سے سخن سراہوں میں(۹)

بھونرا کہتا ہے کہ میں باغ کی سیر کرتا  ہوا کبھی گیند ے سے پیار کرتاہوں کبھی بنفشے کا منہ چوم لیتا ہوں، کبھی آنکھ نرگس سے لڑتا ہوں کبھی سیوتی سے لگ کر ہنس چلا، کبھی چنپا سے جا ملا، کبھی ایسے ہی چھیڑ کر بیٹھ گیا او ریاسمن کے پھول سے تومیں چیکے چیکے کان میں آہستہ آہستہ باتیں کرتا ہوں لیکن موتیے کے پھول سے نالہ سرا ہوں میں

فیض انسان دوست ، انقلابی شاعر تھے جو فطرت کے مناظر سے گہری دلچسپی رکھتے تھے جس بنا پر ان کا کلام اپنے اندر پھولوں کی رنگا رنگی، اوس کی ٹھنڈک ، موسم گل کی بہار، شام وسحر میں سیر گل اور سروصنوبر کی بلندی سموئے ہوئے ہیں جیسے فیض اپنی نظم ’’بہار آئی‘‘ میں کہتے ہیں:

بہار آئی تو جیسے یکبار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے ، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پر مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
بکھر گئے ہیں گلاب سارے(۱۰)
یعنی بہار کے آنے سے ہی سارے خواب اور جوانی کی رنگ رنگیاں بھی ایک بار پھر سے واپس لوٹ آئی جو کہ کبھی نہ آنے والی تھی خوبصورت ہونٹوں پر مرنے والے گلاب بھی بہار کے آنے سے ایک بار پھر سے کھل پڑے شاعر اپنی نظم ’’ ایک رہنگرر پر ‘‘میں اپنے محبوب کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں جیسے:

وہ آنکھ جس کے بناؤ پہ خالق اترائے
زبان شعر کو تعریف کرتے شرم آئے
وہ ہونٹ فیض سے جن کی بہار لالہ فروش
بہشت و کوثر و نسیم و سبیل بدوش
گذاز جسم ، قبا جس پہ سج کے ناز کرے
دراز قد جسے سروسہی غاز کرے(۱۱)
فیض کہتے ہیں کہ میرے محبوب کی آنکھیں اتنی خوبصورت ہے جس کے بناؤ پر بنانے والے کو بھی ناز ہے یعنی اس کی تعریف کرتے ہوئے زبان شعر کو بھی شرم آرہی ہے کیونکہ میں شعروں میں اپنے محبوب کی تعریف بہتر طریقے سے نہیں کرسکوں گا پھر آنکھوں سے ہونٹوں کی طرف آتے ہوئے محبوب کے ہونٹوں کی لالی کو لالہ فروش اور قد کو سرو درخت کی طرح بہت بلند اور خوبصورت کہہ رہے ہیں ڈاکٹر سہیل احمد فیض کی شاعری کو گل ولالہ کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’فیض کی شاعری لالے کا پھول ہے سرخی دہکتی ہوئی شاعری جو زندگی کی قوت کا نشان بھی ہے اور زندگی کے جمال بے پناہ کا اعلان بھی ہے اس کی شاعری میں زندگی کے عذاب بھی ہیں او رآنے والی بہتر زندگی کے رجائیت آمیز خواب بھی ہے۔‘‘ (۱۲)

یعنی فیض اپنی شاعری میں بہت زیادہ زندگی کی تاریکیوں، اندھیروں، دکھوں کا تذکرہ کرکے نئی آنے والی زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش مند دکھائی دیتے ہیں۔

مجید امجد فطرت سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتے تھے اسی لگاؤں کی وجہ سے انھوں نے اپنے گھر میں موتیے  اور گلاب کے پودے لگا رکھے تھے جن کی وہ خود دیکھ بھال کرتے تھے اسی لیے وہ اپنی شاعری میں بھی فطرت کے ساتھ ہمدردانہ رشتہ قائم رکھتے ہیں جیسے مجید صاحب گل ولالہ کے بارے میں ایک نظم ’’افتاد‘‘ میں کہتے ہیں:

کوئی دوزخ کوئی ٹھکانہ تو ہو
کوئی غم حاصل زمانہ تو ہو
لالہ وگل کی رت نہیں نہ سہی
کچھ نہ ہو، شاخ آشیانہ تو ہو(۱۳)
ان کا کہنا ہے کہ کوئی ٹھکانہ غم حاصل زمانہ تو ہو مگر گل ولالہ کی بہار نہیں ہے تو نہ سہی چاہے کچھ نہ ہو بس شاخ آشیانہ تو ہو یعنی شاعر ایک بارونق گھر کی تلاش میں مگن دکھائی دے رہے ہیں شاعر گل ولالہ کے بعد چنبیلی کا ذکر اپنی رومانی نظم ’’التماس‘‘ میں کرتے ہوئے اپنے محبوب سے التجا کررہے ہیں  جیسے

مری آرزوؤں کی معبود! تجھ سے

فقط اتنا چاہیں، فقط اتنا چاہیں

کہ لٹکا کے اک بار گردن میں میری

چنبیلی کی شاخوں سی لچکیلی باہیں

زلف خوش تاب سے کھیلنے دے

جوانی کے اب خواب سے کھیلنے دے(۱۴)

شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے محبوب میری فقط ایک چاہت ہے تو اپنی چنبیلی کی شاخوں سی لچک دار با ہیں ایک مرتبہ میری گردن میں ڈال مجھے جوانی کے حسین خواب اور خوش تاب زلفوں سے کھیلنے دیں یعنی شاعر نے محبوب کے بازوں کو چنبیلی کی شاخوں کی مانند خوبصورت لچک دار بنایا ہے۔

منیر نیازی جدید ترین شاعروں میں بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی کے شاعرتھے جبکہ ان کی شاعری میں ڈر، خوف، وہم، چڑیلیں ، سانپ ، طوفانی راتوں کی گھٹا ، جنگل میں جادو، اجڑی ہوئی بستیوں میں مرجانے والی امتیں، خالی ویران گلیاں جیسی بے شمار ڈارؤنی باتوں کو مختلف علامات، استعارات اور کئی اساطیر کے ذریعے فطرت کے رنگوں اور خوشبوؤں کو بڑے ہی عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے منیر نیازی اپنے شہر کی ویرانی اور سنسانی کو اپنی نظم ’’ میں اور شہر‘‘ میں یوں دکھاتے ہیں نظم ملاحظہ ہو:

سڑکوں پہ بے شمار گل خوں پڑے ہوئے

پیڑوں کی ڈالیوں سے تماشے جھڑے ہوئے

سنسان ہیں مکان کہیں درکھلا نہیں

کمرے سجے ہوئے ہیں مگر راستا نہیں

ویراں ہے پورا شہر کوئی دیکھتا نہیں

آواز دے رہا ہوں کوئی بولتا نہیں(۱۵)

شاعرایک ایسے شہر کا منظر پیش کررہا ہے کہ جہاں سڑکوں پر بے شمار سرخ رنگ کے پھول یعنی درختوں کے حسین نطارے جھڑ کر گرے ہوئے ہیں اور مکانوں کی گمٹی پر حسین وجمیل مجسمے کھڑے ہیں لیکن مکان ایسے سنسان ویران ہے کہ کہیں سے بھی کوئی دروازہ کھلا نہیں ہے کمرے بھی بڑی ترتیب سے زیب ور ہے مگران میں آنے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے جس کے باعث نہ کوئی یہاں دکھائی دے رہا ہے اور نہ آؤاز دینے پر کوئی بول رہا ہے وہ بتاتے ہیں

’’منیر نیازی کی شاعری کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم جنگل میں چل رہے ہیں اور کسی گہرائی میں اتر رہے ہیں منیر نیازی اردگرد کے ماحول سے جس قدر خوف زدہ ہیں اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں اس نے اسے اس ماحول میں رچنے بسنے نہیں دیا۔ اسے اپنے اردگرد دشمن ہی دشمن نظر آتے ہیں اور شہر کا سناٹا جنگل کا سناٹا لگتا ہے۔‘‘(۱۶)

منیر نیازی کی شاعری میں شہر کے سناٹے کی خبر تو ہمیں بخوبی دکھائی دیتی ہے مگر وہ یونہی ہمیشہ خوف زیادہ سناٹے کو ساتھ لے کر چلتے ہیں جس کی وجہ سے خودتو بے چینی کی کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں اور قاری کو بھی اس سناٹے سے بے قرار کردیتے ہیں آگے شاعر سورج مکھی کا ذکر ایک نظم ’’ بسنت رت ‘‘ میں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جیسے

سرد ہوا میں کھلی ہوئی ہے ہرے رنگ کی گھاس

کنج کنج میں جاگ رہی ہے پیلے پھول کی باس

پھر بھی لاکوں سندریوں کا کومل من ہے اداس۷)

یعنی سبز رنگ کی گھاس ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں اور پیلے پھولوں کی خوشبو میں کھلی ہوئی ہے مگر پھر بھی لاکھوں خوبصورت حسین وجمیل عورتوں کے خوش مزاج نرم ونازک دل ملول ہے۔

کشور ناہید اردو ادب میں ایک ایسی نامور شاعرہ ہیں جنھوں نے ادب کے میدان میں عورتوں کے خلاف ہونے والی ہر قسم کی زیادتی پر زور آواز بلند کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور ساتھ ہی مناظرت فطرت کو اپنی شاعری میں مختلف علامات، تشبیہات اور استعارات کے ذریعے بیان کرکے اسے اعلیٰ سے اعلیٰ بنانے کی کوشش کی ہے جیسے

روشنی گھور اند یھروں سے کبھی ڈر نہیں سکتی

میں تو وہی ہوں گود سے جس کی پھول چُنے

انگارے اور کانٹے ڈالے

یہ نہیں جانا

زنجیروں سے پھول کی خوشبو چھپ نہیں سکتی۸)

شاعرہ کا کہنا ہے کہ روشنی کبھی بہت زیادہ تاریک اندھیرے سے ڈر نہیں سکتی روشنی سے مراد شاعرہ ہے یہ روشنی تو وہی ہے جس کے آغوش میں تم نے انگارے اور کانٹے ڈال دیئے مگر یہ نہ جانا کہ رکاوٹوں سے پھولوں کی مہک چھپ نہیں سکتی یہاں زنجیروں سے پھول کی خوشبو چھیپنا سے مراد رکاوٹوں کی وجہ سے کوئی بھی کامیابی پوشیدہ نہیں رہ سکتی پھر شاعرہ پھول کنول کا تذکرہ اپنی نظم ’’ان اللہ مع الصبرین‘‘ میں یوں کرتی ہے جیسے

زندگی کا کنول پتیاں پتیاں ہوکے

پانی پہ تازہ ہے اب بھی

مگر وہ کنارا کہ جس پہ مچلتے ہوئے

ہاتھ ، پانی

گِل وگُل

ہر ایک بہتی کشتی کو چھیڑیں! … بہت دور ہے!!! ۹)

زندگی کا کنول ایک ایک پنکھڑی میں بکھر کر اب پانی پر تازہ دم ہے یعنی زندگی کی خوشیاں پھول کی پتیوں کی صورت بکھر کر اب بھی پانی پر تازہ دم ہے یعنی زندگی کی خوشیاں پھول کی پتیوں کی صورت بکھر گئی ہے مگر آنسوؤں کے پانی پر اب بھی تازہ ہے لیکن وہ تعلق بہت دور ہے جو اصرار کرتے ہوئے ہاتھ، پانی، گل وگُل او رہر ایک رواں کشتی کو چھیڑیں۔

فہمیدہ ریاض کا شمار پاکستانی جدید ترین دور کی عظیم شاعرات میں ہوتاہے انھوں نے پاکستانی اردو نظم کو اپنے خیالات اور جذبات کے ذریعے بہت زیادہ وسعت بخشی ہے جیسے فہمیدہ صاحبہ اپنی نظم ’’ آدمی کی زندگی ‘‘میں ایک آدمی کے چند لمحوں کی خوشی کو اپنے لفظوں میں ایسے بیان کرتی ہے جیسے

زندگی نے پھول رکھے آدمی کے ہاتھ پر

آدمی خوش ہوگیا

زندگی کم ہوگئی

خواب میں چلنے لگی

اک الاؤ کی دہکتی آگ میں جلنے لگی (۲۰)

شاعرہ کہتی ہے کہ جب زندگی کسی آدمی کے ہاتھوں کی لکیریوں پر خوشیاں لکھتی ہے تو وہ آدمی بہت زیادہ خوش دکھائی دیتا ہے اور خیالوں میں کھو جاتا ہے مگر جب یہ خوشیاں رائیگاں ہوجاتی ہے وہی انسان ایک تصور میں شعلہ کے ڈھیر میں جل کر راکھ ہوجاتا ہے آگے شاعرہ ایک نظم ’’تیسرا باب‘‘ میں اپنے سینے کا منظر بیان کرتی ہے نظم ملاحظہ ہو۔

میرا سینہ!

جو گہوارہ ہے ان حسین گلابوں کا

جو کل ہمارے بچوں کے سینوں میں خیال بن کر کھلنے والے تھے

تم نے اُلٹا لٹکا دیاز مانوں کے علوم کو

تم نے انسانیت کو برہنہ کرکے کوڑے مارے

اور درد مند دلوں سے اٹھتی دعاوں کے ہاتھ کاٹ دیے کیوں؟(۲۱)

ان کاکہنا ہے کہ میرا سینہ ان حسین گلابوں کے علوم کی پرورش گاہ جو کل تمہاری اولاد کے دلوں میں تصورین کر کھلنے والا تھا مگر تم نے اسی علوم کو اوندھا بنا کر تمیز داری کو عریاں کیا اور اس پر کوڑے مارتے ہوئے ہمدرد دلوں سے نکلنے والی دعاؤں کے ہاتھوں کو زخمی کردیا آخر تم نے ایسا کیوں کیا؟

پروین شاکر جدید دور میں نئے لب ولہجہ کی تازہ بیان شاعرہ ہیں جنھوں نے عورت کے احساسات اور جذباتی مطالبات کی صاف وشفاف ترجمانی کرکے مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہونے کی کوشس کی ہے اور ان کی شاعری عورت کے رنگ میں رنگی ہوئی مناظرت فطرت کی عکاس دکھائی دیتی ہے جیسے شاعرہ ایک نظم ’’پرزم‘‘ میں کہتی ہے۔

میرا بھی اک سورج ہے

جو میرا تن چھو کر مجھ میں

قوس قزح کے پھول اُگائے

ذرا ابھی اس نے زاویہ بدلا

اور میں ہوگی

پانی کا اک سادہ قطرہ

بے منظر بے رنگ ! (۲۲)

پروین کا کہنا ہے کہ ایک سورج میرا بھی ہے سورج سے مراد محبوب ہے جو میرے بدن کو چھو کر میرے وجود سے سات رنگ کے پھول کھلائے گا اگر اس سورج نے ذرا بھی اپنا نظریہ بدلا تو میں ایک سادہ پانی کے قطرے کی مانند بے رنگ مزہ تماشا بن جاؤں گی۔ ڈاکٹر محمد تنویر لکھتے ہیں:

’’پروین اپنے محبوب سے بے انتہا محبت کرتی تھیں مگر اس کے برعکس ان کا محبوب ان کے لیے اتنا بے قرار نہیں رہتا پھر بھی پروین کے دل میں ہمیشہ اس کے لیے دعائیں اور اچھے خیالات آتے رہتے ہیں۔‘‘(۲۳)

اس سے واضح ہورہا ہے کہ پروین شاکر اپنے محبوب کو محبوب کی چاہت کی نسبت سے زیادہ چاہتی تھی بالکل اسی طرح شاعرہ اپنی نظم ’’آج کی رات‘‘ میں پھول کنول کے بارے میں کہتی ہے:

میرے ہاتھوں میں ترے چہرے کا بے داغ کنول

تازہ بارش میں تو کچھ اور کھلا جاتا ہے۴)

یعنی شاعرہ محبوب کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے داغ کے بغیر کنول کا پھول کہہ رہی ہے جو بارش کی صورت میں اور بھی کھل کر شاداب ہوجاتا ہے۔

حوالہ جات

۱۔     احمد دہلوی، سید، مولوی، فرہنگ آصفیہ (جلد اوّل)، لاہور، اردو سائنس بورڈ، 2010ء ، ص 557

۲۔    ولی دکنی، کلیات ولی، مرتب: نور الحسن ہاشمی، نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 2008ء ص300

۳۔    میر تقی میر، کلیات میر، لکھنو: منشی نولکشور، 1941ء ،ص 520

۴۔    امام بخش ناسخ، شیخ، کلیات ناسخ (جلد اوّل)، ترتیب وتحشیہ: یونس جاوید، لاہور: مجلس ترقی ادب، 1987ء ص 120

۵۔    اقبال، کلیات: اقبال اردو، علی گڑھ، ایجوکیشنل بُک ہاؤس، 1995ء، ص 566

۶۔    عبداللہ، سید، ڈاکٹر ، مسائل اقبال، لاہور: مغربی پاکستانی، اردو اکیڈمی، 1974ء ص 211

۷۔    اقبال، کلیات: اقبال اردو، ص 64

۸۔    غلام بیک نیرنگ، کلام نیرنگ ، مرتب: ڈاکٹر معین الدین عقیل، کراچی: مکتبہ اسلوب، 1983ء ص 23

۹۔    ایضاً ، ص 76

۱۰۔   فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء ، ص 540

۱۱۔    ایضاً ، ص 45

۱۲۔   سہل احمد ، ڈاکٹر، لالے کا پھول، مشمولہ: فیض احمد فیض کی شاعری، مرتبہ: اشتیاق احمد، لاہور: کتاب سرائے، 2010ء ، ص57

۱۳۔   مجید امجید، کلیات، مجید امجد، مرتبہ: خواجہ محمد زکریا، لاہور: الحمد پبلی کیشنز، 2014ء ص 138

۱۴۔   ایضاً ، ص 41

۱۵۔   منیر نیازی، کلیات: ایک اور دریا کا سامنا، اسلام آباد: دوست پبلی کیشنز ، 2014ء ، ص 162

۱۶۔   ایضاً ، ص 217

۱۷۔   ایضاً ، ص 174

۱۸۔   کشور ناہید، کلیات: دشت قیس میں لیلیٰ، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، 2001ء ص 577

۱۹۔   ایضاً ، ص 193

۲۰۔  فہمیدہ ریاض، کلیات: سب لعل وگہر، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، 2011ء ص 479

۲۱۔   ایضاً ، ص 281

۲۲۔  پروین شاکر ، کلیات: ماہ تمام (خوشبو)، دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1995ء ، ص: 40

۲۳۔  تنویر محمد، ڈاکٹر ، پروین شاکر کی شاعری (ایک تنقیدی جائزہ) ، دہلی: ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، 2014ء ص 97

۲۴۔  پروین شاکر، کلیات: ماہ تمام، (خود کلامی) ، ص 169

***

Leave a Reply