You are currently viewing اردو ناول کے معمارمرزا ہادی رسواؔ

اردو ناول کے معمارمرزا ہادی رسواؔ

ڈاکٹرمحمد توحید خان

ہندستانی زبانوں  کا مرکز

 جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی

اردو ناول کے معمارمرزا ہادی رسواؔ

         اردو اصناف نثر کے ارتقا کی  تاریخ  پر غور کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر  میں   اردو  نثر  کی کئی  اصناف ظہور  پذیر ہوتی ہیں اور سرعت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتی ہیں ۔  جبکہ دیگر اصناف  کے ارتقاکو دیکھیں تو اس کی ایک طویل تاریخ ملتی ہے ۔ در اصل  ادب  میں اظہار و ابلاغ  کے پیرائے اور ہئتیں  ملک کی معاشرتی، سیاسی اور تہذیبی  عوامل کے سبب  نمو پذیر ہوتے ہیں ۔انیسویں صدی کی نصف آخر   ہندستان میں تبدیلیوں کا دور تھا ۔  ملک  میں تہذیبی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل غیر ملکی تسلط کے سبب    سامنے آتے ہیں ۔ جہاں  زندگی کے دیگر شعبہٴ جات میں  کرب و انتشار  نظر آتاہے اور ان کے سد باب کی کوششیں  ہوتی ہیں وہیں ادب میں بھی ان مسائل کی ترجمانی کے لیے  نئے نئے پیرائے سامنے آتے ہیں ۔ انھیں   پیرایوں اور اصناف میں ناول کی ایک صنف ہے جس نے زندگی کی حقیقتوں کی  ترجمانی  کی اسی لیے اس صنف کو بہت جلد مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے۔ ناول در اصل وہ صنف نثر ہے جس میں زندگی اپنی تمام تر حقیقتوں کے ساتھ مکمل طور پر پیش کی جاتی ہے اور جس میں ماحول اور معاشرے کے نشیب و فراز اور تبدیلیوں کا خاکہ ہوتا ہے ۔ یعنی ناول اپنے دور کی تہذیبی اقدار کی کشمکش کا رزمیہ ہو تا ہے اور ان اقدار و حقائق کی پیش کش میں نا ول نگار اپنے تخیل کے ذریعے ’ قصہ پن‘ کا رنگ گھول کر اسے اپنے قارئین کے لیے دلچسپ بناتا ہے ۔

         اردوناول نگاری کا دور (۱۸۵۷؁ء) کے انقلاب کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ ۱۸۵۷؁ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان پر جب انگریزوں کا پورا تسلط قایم ہوگیا تو ان کی تہذیب معاشرت نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنا اثر ڈالنا شروع کیا ۔ جدید علوم و فنون اور نئے تہذیبی نظام نے نہ صرف ہندوستانی معاشرت کی فرسودہ اور بے بنیاد روایتوں پر کا ری ضرب لگائی ، بلکہ ہندوستانیوں کو زندگی اور زمانے کی نئی قدروں کا احساس بھی دلایا ۔ ان تبدیلیوں کا براہ راست اثر ہمارے ادب پر بھی پڑا ۔ اب داستانوں کا طلسم رفتہ رفتہ ٹوٹنے لگا۔ تخیلی اور بے بنیاد فکر کا تا نا با نا کمزور پڑا ’’ کھائو پیو اور موج اڑائو‘‘ کا فلسفہ مدھم پڑتا چلا گیا ۔ اسی دور میں سر سید احمدؔ خاں ، حالیؔ، شبلیؔ، ذکاء ؔ اللہ وغیرہ نے اصلاح سماج کے ساتھ ساتھ اصلاح ادب کو بھی لازمی جا نا ۔ انہی حضرات میں ڈپٹی نذیرؔ احمد بھی شامل تھے جنہوں نے حقیقت پر مبنی کہانیاں لکھ کر معاشرے کی اصلاح کی کوشش کی اور اس طرح ہمارے یہاں اردو ناول کا آغاز ہوا ۔ گرچہ نذیر ؔ احمد کی کہانیوں کو بعض ناقدین مکمل طور پر ناول کے زمرے میں رکھنے کو تیار نہیں لیکن یہ داستان کی خواب اَگیں فضا سے پہلی بار بغاوت کی کوشش تھی یا یہ کہیے کہ اردو قصہ نگاری میں ایک نئی روش کی شروعات تھی اس لیے اس ابتدائی کوشش کو ناول کی خام شکل قرار دینا زیادہ مناسب ہے ۔ اس لیے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح انگریزی میں رچرڈسن ؔ کی تخلیق ’’ پامیلا‘‘ سے ناول نگاری کا آغاز ہوا اسی طرح اردو میں نذیرؔ احمد کے ’’ مراۃ ۃ العروس‘‘ ، ’’توبۃ النصوح‘‘،’’ بنات النعش‘‘،’’ ابن الوقت‘‘ اور ’’یامی‘‘ جیسے ناول، اردو ناول کا نقطۂ آغاز کہے جا سکتے ہیں۔

         نذیر ؔ احمدنے ان تمام ناولوں کو طبقۂ نسواں کی اصلاح کے لیے لکھا تھا اس لیے ان میں فنی چابکدستی کی بجائے واعظانہ ثقالت وطوالت پائی جا تی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ان میں کردار بھی بے حد میکانیکی نداذ کے ہیں خواہ وہ اصغری ؔ ہو یا اکبری، نصوح ہو یا ابن الوقت ، یہ سب کردار بالکل مٹی کے بادھو نظر آتے ہیں۔ نذیرؔ احمد نے اپنے کردار کو یا تو خوبیوں کا پیکر یا محض خامیوں کا پتلا بنا کر پیش کیا ہے ، حالانکہ انسان تو خیر و شرکا پتلا ہوتا ہے ۔ محض اچھا ہونا یا صرف برا ہونا یکسر غیر فطری بات معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن ان تمام کمزوریوں کے باوجود نذیرؔ احمد کا یہ کا ر نا مہ کہ انہوں نے داستان نگاری کے طلسم سے نکل کر ناول کی داغ بیل ڈالی ،تاریخی اہمیت کے لحاظ سے نا قابل فراموش ہے اور اس اعتبار سے انہیں اردو ناول نگاری کی تاریخ میں خشت اول کا مقام حاصل ہو جا تا ہے ۔

         نذیر ؔ احمد کے بعد اردو ناول نگاری میں دوسرا نام پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ کا آتا ہے ۔ ان کی تصانیف میں ’’ فسانۂ آزاد‘‘ ، ’’ سیر کہسار‘‘، ’’ جام سر شار‘‘ اور ’’ کامنی‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ سر شارؔ کے یہاں وہ سنجیدگی اور متا نت مفقود ہے جو نذیر ؔ احمد کے ناولوں میں ملتی ہے ۔ سر شارؔ کے یہاں ایک آزادی کی فضا ہے ، ان کی کہا نیوں میں داستانی رنگ و آہنگ نمایاں ہے ۔ انہوں نے لکھنوی زندگی کو قریب سے دیکھا ہے اور وہاں کی تہذیب و معاشرت اور بول چال سے بخوبی واقف ہیں ۔ اس لیے پلاٹ کے ڈھیلے پن کے باوجود ان کی تحریر میں ایک کشش ہے ، زبان کا لطف ہے اور لکھنؤ کی جیتی جاگتی تصویر نمایاں ہے ۔ لیکن ان کے بیشتر ناولوں میں پلاٹ بے ربط اور ڈھیلے ڈھالے ہیں اور ایک سر گذشت کی صورت نظر آتی ہے ۔ چونکہ ان کے ہاں پلاٹ کی ترتیب و تنظیم میں بے قاعدگی اور بے ربطی ہے اس لیے ان کے کرداروں میں بھی استقلال نہیں ملتا۔ وہ قتی اور ہنگامی ضرورتوں کے مطابق رنگ بدلتے رہتے ہیں ۔ سرشارؔ کے یہاں جذبات نگاری کا بھی فقدان ہے ۔ وہ ظرافت نگاری کے ماہر ہیں۔ درد و غم کی تصویر کشی ان کے بس سے باہر ہے ۔ ان کے یہاں افراد قصہ کی اس قدر کثرت اور واقعات کی اتنی فراوانی ہے کہ ان کی بنا ئی ہو ئی تمام تصویریں آپس میں خلط ملط ہو جا تی ہیں۔ ان کی تحریروں میں یک رنگی سی ملتی ہے ۔ ان کے پلاٹ ، کردار اور زبان وغیرہ میں ملتی جلتی ایک ہی طرح کی بات نظر آتی ہے ۔ تاہم سرشارؔ نے خصوصاً آزادؔ اور خوجیؔ کے دو انتہائی جان دار کردار تراشے ہیں ، یہ دونوں بالترتیب لکھنؤ کی ابھرتی اور ڈوبتی ہو ئی تہذیب کے انتہائی جان دار مرقعے ہیں۔ چنا نچہ سرشارؔ کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے خیالی اور بے بنیاد قصہ نگاری کے بجائے حقیقی اورواقعی حالات و واقعات کو اپنا موضوع بنایا اور اپنی کہانیوں کے لیے معا شرتی فضا اور زندہ انسانوں کو منتخب کیا ہے ، اس لیے ان کا نام اردو ناول نگاری کے ایک معمار کی حیثیت سے لیا جا سکتا ہے ۔

         اردو ناول نگاری میں سرشارؔ کے بعد عبد الحلیم سرشارؔ بھی کئی لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے گرچہ اصلاحی اور سماجی ناول بھی لکھے ہیں لیکن ان کی پہچان در اصل تاریخی نا ول نویسی کی بنا پر ہوئی۔شررؔ نے اسلام کے تاریخی واقعات کو اپنا سر چشمہ بنا یا اور عروج اسلام کا نقشہ، آباء و اجداد کی فتوحات وغیرہ کو اپنے تاریخی ناولوں میں بڑے جذباتی انداز میں پیش کیا ہے ۔ لیکن وفورِ جذبات میں انہوں نے اکثر تاریخی حقائق کو مسخ کر دیا ہے ۔ ان کے نا ولوں کے اکثر کردار بھی بے جا ن نظر آتے ہیں ۔ ان کرداروں کے نام تو عربی ہوتے ہیں مگر اپنے مزاج وخواص کے اعتبار سے یہ کردار ہندوستانی ہیں ۔ شررؔ کے ہیرو ، ہیروئن عام طور پر ایک قسم کے ہوتے ہیں۔ انفرادیت جو کرداروں کا خاصہ ہوتی ہے ، شررؔ کے یہاں مفقود ہے ۔ شررؔ اپنے نا ولوں میں انسانی فطرت کا لحاظ بھی نہیں رکھتے۔ ان کا مسلم ہیرو تنہا دس دس مخالفوں پر بھاری پڑتا نظر آتا ہے ۔ شررؔ کے کرداروں کے مکا لمے بھی کو ئی خاص تاثر نہیں رکھتے۔ نفسیاتِ انسانی سے بھی شررؔ کو کوئی خاص سروکار نہیں، کیونکہ ان کے بیشتر ہیرو حسن و جمال میں یکتا اور فرشتہ خصلت نظر آتے ہیں اور یہی یکسانیت ان کے کرداروں کو غیر فطری، بے اثر اور بے جا ن بنا کر رکھ دیتی ہے ۔ لیکن ان تمام خامیوں کے با وجود اردو ناول نگاری میں شررؔ ایک اہم مقام اس سبب سے رکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ناولوںمیں پلاٹ کو بڑے منطقی ربط کے ساتھ برتا ہے ۔ نا ول نگا ری کے با ب میں بیا نیہ انداز کا رواج بھی انہیں کی دین ہے ۔ منظر نگاری میں بھی انہیں کما ل حاصل ہے اور پھر اردو میں تاریخی نا ول نگاری کے تو وہ موجد بھی ہیں ۔ شررؔ کے نا ولوں کی فہرست کا فی طویل ہے لیکن جو خاص اہمیت کے حامل ہیں ان میں ’’ فردوس بریں‘‘، ’’فلورا فلورنڈا‘‘، ’’منصور موہنا‘‘، ’’ ملک العزیز ورجینا‘‘، ’’ حسن انجلینا‘‘، ’’ ایام عرب زوال بغداد‘‘، فتح اندلس‘‘ وغیرہ ہیں ۔

         فن کے اعتبار سے اس وقت تک اردو نا ول نگاری میں کو ئی خاص ترقی نہیں ہو ئی تھی ۔ بس انگریزی نا ول نگا ری کے نقش قدم پر چلنے کی ایک کو شش تھی ۔ یہ سچ ہے کہ نذیر ؔاحمد، سرشارؔ اور شررؔؔکی بدولت اردو کہا نیاں ، داستان گوئی کے دائرے سے نکل کر زندگی اور سماج سے ہم آہنگ ہو ئیں ۔ لیکن نذیرؔ احمد نے اپنی زیادہ تر توجہ عورتوں اور مذہبی اصلاح پسندی پر مرکوز رکھی ۔ عام دلچسپی اور شگفتگی ان کے یہاں مفقود ہے ۔ ان کے نا ولوں پر اصلاحی اور مقصدی رنگ اس قدر غالب ہے کہ اکثر وہ اپنے مقصد کو واضح کر نے کی خاطر کا خون کر جا تے ہیں ۔ گو یا نذیرؔ احمد کے یہاں فن سے زیادہ مقصد یت کو اہمیت دی گئی ہے ۔ سرشارؔ نے مزاح اور شگفتگی کا عنصر ضرور پیدا کیا، کردار نگاری کی طرف بھی توجہ دی ، لیکن ان کے پلاٹ میں تسلسل اور ربط پیدا نہ ہو سکا اور نہ کو ئی خاص مقصد نمایاں ہو سکا ۔ شررؔ نے اپنے نا ولوں میں ماضی کو زندہ کر نا چاہا لیکن اس میں وہ کا میاب نہ ہو سکے اور نہ ہی ان کے کرداروں کی انفرادیت نمایاں ہو سکی۔ گو یا نا ول کے فن کو اس کی مکمل اسپرٹ کے ساتھ پوری کا میابی کے ساتھ ان لوگوں میں سے کو ئی بھی نہیں برت سکا تاہم اپنے دور کی حدود میں رہتے ہو ئے شاید یہ لوگ ناول کے میدان میں اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے ۔ آگے چل کر مرزا محمد ہادی رسواؔ نے اس جانب توجہ دی اور شعوری طور پر اردو ناو ل کو فنی اوصاف کا حامل بنا نے کی کوشش کی ۔

         مرزا رسواؔ کا زمانہ متضاد کیفیات کا حامل تھا ۔ دو تہذیبی قدریں شکست وریخت کے عمل سے گذر رہی تھیں۔ ملکی تہذیب نزاعی کیفیت سے دو چار تھی اور مغربی تہذیب اپنی تر جلوہ ساما نیوں کے ساتھ نمو پذیر ہو رہی تھی ۔ یہ زمانہ سیا سی ، تہذیبی ، معا شی ، سما جی اور ادبی ، ہر لحاظ سے بحرانی تھا اور عبوری بھی ۔ سلا طین و نوابین اور عا م لوگ سب کے سب معاشی زبوں حالی کے شکار تھے ۔ رسواؔ کی آنکھوں نے انہیں بھی دیکھا تھا جو کبھی صاحب تخت و تاج ہو تے تھے اور انہیں بھی جو بعد میں بھیک ما نگنے پر مجبور کر دیئے گئے ۔ اپنے زما نے کے حالات پر روشنی ڈالتے ہو ئے خود مرزا رسواؔ لکھتے ہیں:

         ’’ یہ شریف گردی کا زمانہ ہے اور اپنے ہاتھوں کسی قسم کی تعلیم نہیں ، اچھی صحبت نہیں پھر بنے تو کیوں بنے ۔ انہیں بھیک ما نگنے والوں میں وہ لوگ ہیں جن کے بزرگ بر سر حکومت تھے  ۱۔‘‘

         غرض اس سیا سی ، سماجی اور معاشی انتشار، افرا تفری اور اضمحلال سے لوگوں میں ذہنی بے اطمینا نی اور فرار کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی ۔ آل احمد سرورؔ نے ایک جگہ لکھا ہے ’’ نا ول لکھنے کے لیے ایک سنجیدہ شعور اور خیال کی ایک گہرائی اور گیرائی ضروری ہے  ۲۔‘‘ اس اعتبار سے مرزا رسواؔ کے نا ولوں میں نہ صرف موضوع اور مواد کے تجربے ملتے ہیں بلکہ ان میں تمام فنی لوازم کا لحاظ

بھی رکھا گیا ہے ، جو رسواؔ کے احساس اور با شعور ہو نے کا پتہ دیتا ہے ۔

         مرزا رسواؔ ایک جدت پسند طبیعت ، گہرے شعور، باریک میں نگاہ اور شدید قوت مشاہدہ کے ما لک تھے ۔ شعر و ادب کے علا وہ انہیں ریاضی اور فلسفے سے بھی گہرا لگا ئو تھا ۔ چونکہ اس زمانے میں نفسیات کو فلسفے کی ایک شاخ سمجھا جا تا تھا اس لیے فلسفے کے ساتھ ساتھ رسواؔ کو منطق اور نفسیات سے بھی دلچسپی تھی ۔ انہی علوم کے زیر اثر رسواؔ کے ذہن اور شعور کی نشو و نما ہو ئی تھی لہٰذا حقیقت بینی اور استدلال ان کے انداز فکر کا جزو بن گئے تھے ۔ اسی انداز فکر سے انہیں ناول نگاری میں بڑی مدد ملی ہے ۔ انہوں نے اپنے نا ولوں میں حقیقت نگاری کو اپنا یا اور اپنے عہد کی ترجمانی بڑے فنکا رانہ انداز میں کی ۔ غالباً اسی وجہ سے رسوا ؔ نے اپنے نا ولوں کو اپنے زما نے کی تاریخ کہہ کر پکا را ہے  ۳۔

         مرزا رسواؔ ناول کے فن کی با ریکیوں سے پو ری طرح آگاہ تھے ۔ وہ نہ تو نذیر ؔ احمد کی طرح اصلاح کے علم بردار تھے نہ سر شارؔ کی طرح محض ظرافت کے رسیا تھے اور نہ شررؔ کی طرح ماضی کے پرستار تھے ۔ وہ سب سے پہلے ایک فن کا ر تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا فنی شعور اپنے پیش رووں کے مقابلے میں زیادہ پختہ ہے ۔

         ما جرانگاری یا پلاٹ کی تعمیر میں رسواؔ اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ کسی نے کہا ہے کہ پلاٹ کی تنظیم ایک فلسفیانہ عمل ہے ۔ اردو نا ول نگا ری میں اس قول پر مرزا رسواؔ بالکل پورے اترے ہیں ۔ غالباً اس میں اس طبعی لگا ئو کا بھی دخل ہے جو انہیں فلسفے سے تھا ۔ ان کے نا ولوں کے پلاٹ تو ازن و تنا سب ، ہم آہنگی اور تنوع کے لحاظ سے نہا یت مربوط اور گٹھے ہو ئے ہیں ۔ وہ قصے اور واقعات کو اس سلیقے کے ساتھ ترتیب دیتے ہیں کہ کہیں بھی ان کے پلاٹ میں ڈھیلا پن یا جھول نظر نہیں آتا ۔ صرف دو ایک نا ولوں میں جہاں انہوں نے مقصد یت کو زیادہ ابھار نے کی کوشش کی ہے وہاں کچھ ناکام ہو ئے ہیں ۔ ایسی صورت ’’شریف زادہ‘‘ اور ’’ اختری بیگم‘‘ میں نظر آتی ہے ۔ لیکن اس کے بر عکس ’’ امرائو جان ادا‘‘ اور ’’ اختری بیگم‘‘ میں نظر آتی ہے ۔ لیکن اس کے بر عکس  ’’ امرائو جان ادا‘‘  اور ’’ ذات شریف‘‘ میں ان کے پلاٹ ہر لحاظ سے متوازن اور مربوط نظر آتے ہیں ۔ پلاٹ کی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں خود مرزا رسواؔ کا درج ذیل قول ان کی فنی بصیرت کا پتہ دیتا ہے ۔ وہ نا ول میں پلاٹ سے متعلق بحث کر تے ہو ئے لکھتے ہیں :

         ’’ بعض معاصرین کا یہ طریقہ ہے کہ وہ کسی امر خاص کے ثابت کر نے کے لیے پلاٹ بنا تے ہیں اور اس کی منا سبت سے خانہ پری کر تے ہیں ۔۔۔۔۔ ہمارا طرز تحریر اس کے بر عکس ہے ۔ ہم صرف اصل واقعے کو ہو بہو دکھا نا چا ہتے ہیں  ۴۔‘‘

         اور یہ سچ ہے کہ مرزا رسواؔ کا یہ فنی رکھ رکھا ئو عام طو پر مقصدیت سے مجروح نہیں ہوا ۔ انہوں نے اپنے نا ولوں میں مقصدیت کو اس فنی سلیقے سے پیش کیا ہے کہ ان کے پلاٹ بے ربط اور غیر متوازن نظر نہیں آتے ۔ پلاٹ سازی کی انہی خوبیوں کی بنا پر ناقدین ادب نے انہیں اردو کا فیلڈنگ ؔ(FIELDING)کہہ کر پکا را ہے ۔

         پلاٹ کی خوبصورت ساخت اور تعمیر و تشکیل کے بعد مرزا رسوا کی کردار نگاری پر فنی لحاظ سے نظر ڈالی جا ئے تو ان کے کما ل فن کی داد دینی پڑتی ہے ۔ انہوں نے کرداروں کو حتی المقدور حقیقی بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے زیادہ تر کردار لکھنو ہی کی دین ہیں اس لیے ما حول اور معا شرے سے مکمل واقفیت کی بنا پر رسواؔ نے اپنے کرداروں کی تخلیق میں نہا یت سلیقہ مندی سے کام لیا ہے ۔ ان کا ہر کردار نمایاں، جاندار اور اپنے معا شرے کی جیتی جا گتی تصویر نظر آتا ہے ۔ گرچہ مرزا رسواؔ سے قبل پنڈت رتن نا تھ سرشارؔ نے کردار نگاری میں اپنا زور قلم صرف کیا ہے اور ان کے کردار بھی سر زمین لکھنوہی سے وابستہ ہیں ، لیکن سرشار ؔ اپنے کرداروں کی روح میں نہیں اتر پاتے ، نہ ان کی نفسیات پر اپنی گرفت رکھ پا تے ہیں اور نہ ان میں سنجیدگی اور استقلال پیدا کر پاتے ہیں ، بلکہ وہ انہیں محض شوخی اور ظرافت کا پیکر بنا کر پیش کر تے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرشارؔ کے چند کرداروں کو چھوڑ کربیشتر کردار غیر مبسوط، غیر فطری اور یک طرفہ نظر آتے ہیں ۔ نذیر احمدؔ اور شررؔ بھی مرزا رسواؔ کے پیش روئوں میں ہیں ۔ لیکن ان دونوں کے یہاں بھی کردار نگاری کا کوئی خاص کمالِ فن نظر نہیں آتا ۔ ان دونوں نے اپنے نا ولوں میں عام طور پر مثالی کردار پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ ان تینوں کے بر عکس مرزا رسواؔ کا کما ل یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف فطری اور حقیقی کردار نگاری کی بلکہ اپنے کرداروں کے احساسات ، جذبات اور نفسیات کو بھی پوری طرح پیش کیا اور اس طرح اردو ادب میں نفسیاتی کردار نگاری کی نئی روش کا آغاز کیا ۔ رسوا ؔ اپنے ناولوں میں مختلف فطرت کے دو کرداروں کو پیش کر کے ان کی نفسیات اور جذبات کی عکاسی کر تے ہیں ۔ مثلاً  ’’ امرائو جان ادا‘‘ میں امرائو ؔ جان اور بسمؔ اللہ جان، ’’ اختری ؔ بیگم ‘‘ میں نادرؔ اور جعفریؔ، مرادؔ علی اور جعفرؔ علی ’’شریف زادہ‘‘ میں رقیہؔ، سکینہؔ اسی طرح کی متضاد فطرت کے حامل کردار ہیں ۔ مرزا رسواؔکی کردار نگاری کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے اہم اور بنیادی کر داروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور ضمنی کرداروں کی تصویر کشی میں بھی اپنی فنی بصیرت کا ثبوت دیا ہے ۔ وہ معمولی سے معمولی کر دار کی چھوٹی سے چھوٹی خصوصیت کو بھی نظر انداز نہیں کر تے ۔ یہی سبب ہے کہ رسوا ؔ کے کرداروں میں حالات اور ماحول کی تبدیلیوں کے مطابق جیتے جا گتے انسانوں کی طرح ارتقائی کیفیت نظر آتی ہے ۔ کردار نگاری کی یہ تمام خوبیاں مرزا رسوا کی فنی صلاحیتوں کی مظہر ہیں ۔

         پلاٹ کی تعمیر و تشکیل اور کردار نگاری کے ضمن میں مرزا رسوا نے جہاں اپنے فنی شعور کا ثبوت دیا ہے وہیں انہوں نے زبان و بیان ، مکا لمہ نگاری اور منظر نگار ی کے میدان میں بھی اپنے قلم کا جادو جگایا ہے ۔ مرزا رسواؔ کو زبان و اظہار پر بڑی قدرت حاصل تھی ۔ ان کی زبان عام فہم ، سلیس اور سشتہ ہے ، جس میں شوخی ، متانت ، بے ساختگی، ادبیت سب کچھ نہایت لطیف ہم آہنگی کے ساتھ شامل ہے ۔ زبان کی ان خوبیوں نے رسوا ؔ کے بیا نیہ میں جان ڈال دی ہے ۔ ان کا بیا نیہ انداز متوازن اور دلا ویز ہوتا ہے ۔ کردار نگاری کا ہی ایک اہم جزو مکا لمہ نگاری بھی ہے ۔ مرزا رسوا ؔ مکا لمہ نگاری میں بھی فن کا ری کا اعلیٰ معیار پیش کر تے ہیں ۔ ان کے مکا لمے نہایت چست ، وقیع و بلیغ ، مختصر اور کردار کی مناسبست سے ہو تے ہیں ، جن کے توسط سے رسوا ؔ نہ صرف کرداروں کی نفسیات اور جذبات کی عمدہ عکا سی کرتے ہیں بلکہ لکھنوی تہذیب کی پوری فضاکو اپنے قاری کے سامنے پیش کر دیتے ہیں ۔ مرزا رسوا ؔ کو لکھنؤ کی بیگماتی زبان اور زنانہ لب و لہجہ پر بھی مہا رت حاصل تھی ۔ منظر نگاری کے میدا ن میں بھی مرزا رسوا ؔ بڑی دسترس رکھتے تھے ۔ وہ تما م جزئیات پر اس طرح نظر ڈا لتے ہیں کہ ان کے مختصر سے بیا ن سے بھی پوری تصویر آنکھوں میں کھینچ آتی ہے ، گو یا مرزا رسوا کے نا ولوں میں تمام فنی لوازم کی تکمیل بڑے ہی توازن کے ساتھ ہو ئی ہے ۔

         مرزا رسوا ؔ نے ’’ امرائو جان ادا‘‘ ، ’’ شریف زادہ‘‘، ’’ ذات شریف‘‘، ’’ اختری بیگم‘‘ اور ’’ افشائے راز‘‘ جیسے معاشرتی ناولوں کی تخلیق کی ہے ۔ ان کے اکثر ناول لکھنوی معاشرت کے مختلف طبقوں اور پہلوئوں کا نقشہ پیش کر تے ہیں ۔ چونکہ رسوا ؔ لکھنوی تہذیب و معاشرت کی رگ رگت سے واقف تھے اس لیے انہوں نے اسی ماحول کے پس منظر میں لکھنو ی زندگی کے ہر پہلو کی بڑے دل کش اور فن کا رانہ انداز میں حقیقی ترجما نی کی ہے ۔

         رسواؔ کے نا ولوں میں ’’ امرائو جان ادا‘‘  ان کا نہ صرف سب سے اہم اور کا میاب نا ول ہے بلکہ اردو نا ولوں میں شا ہکار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ بقول سہیل بخاریؔ:

          ’’ امرائو جان ادا مرزارسواؔ کا بہترین ناول اور اردو زبان کا ایک ما یہ ناز شاہکار ہے  ۵۔‘‘

         علی عباس حسینیؔ لکھتے ہیں :

         ’’ مرزا صاحب کا یہ نا ول (امرائو جان) مجموعی حیثیت سے اردو کا شاہکار ہے اور اس پر ہما ری زبان جتنا بھی فخر کرے بجا ہے  ۶۔‘‘

         مرزا رسوا ؔ نے ’’ امرائو جان ادا‘‘میں طوائف کی زندگی اور اس طبقے کے گردیدہ لوگوں کا نقشہ بڑی فن کا ری سے پیش کیا ہے ۔ انہوں نے اس کے پس منظر میں لکھنؤ کی اس زوال پذیر معاشرت کی تصویر کشی کی ہے جس میں طوا ئفوں کو ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ اس تمدن میں طوائفیں محض ذہنی یا جسمانی عیاشی کا ذریعہ ہی نہیں تھیں بلکہ وہ پوری زندگی پر چھائی ہو ئی تھیں۔ ان کا کوٹھا تہذیب و اخلاق کی آماجگاہ سمجھا جا تا تھا جہاں تہذیب اور خصوصاً آدابِ مجلس سیکھنے کے لیے شرفاء کے بچے بھیجے جا تے تھے اور خود شرفاء کا کوٹھوں پر جا نا رئیسوں کی وضع داری میں شامل تھا ۔ حالانکہ اب نہ وہ شان و شوکت رہی تھی اور نہ مال و زر ۔ لیکن اپنی کھو کھلی شرافت و نجا بت اک بھر م رکھنے کے لیے وہ اسی طرح کے جھوٹے سہاروں کو اپنا ئے ہو ئے تھے اور تھوڑی بہت جو دولت بچ گئی تھی اسے بھی طوا ئفوں کی نذر کر رہے تھے ۔ یہی وہ پس منظر ہے جس پر اس ناول کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ ’’ امرائو جان ادا‘‘رسواؔ کے تمام ناولوں میں اس لیے شا ہکار کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں رسواؔ نے نہ صرف لکھنوی معاشرت کی عکا سی تک اپنے کو محدود رکھا ہے بلکہ اس کے کرداروں کے احساسات و جذبات اور ان کی نفسیات کا گہرا مطالعہ بھی کیا ہے ساتھ ہی واقعات میں جو ترتیب ، ربط ، تسلسل اور ارتقا ہے وہ بڑا فطری ہے کہیں بھی آورد کی کیفیت نہیں ملتی ۔ اس نا ول میں رسواؔ نے انسانی زندگی کے حقیقی اور رومانی پہلو کا بڑا حسین امتزاج پیش کیا ہے جو ان کے اور نا ولوں میں اس حد تک نظر نہیں آتا ۔

          ’’ امرائو جان ادا‘‘میں رسواؔ نے پلاٹ و واقعات کے مقابلے میں کر دار کو بڑی اہمیت دی ہے ۔ ان کی کا میابی کا دا ر ومدار پلاٹ کی چستی اور تنظیم سے زیادہ ماحول کی سچی عکا سی اور فطری کردار نگاری پر ہے ۔ ’’ امرائو جان ادا‘‘ میں رسوا ؔ نے کردار نگاری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے ۔ ہر کردار جیتی جا گتی اور چلتی پھرتی دنیا کا باشندہ نظر آتا ہے اس ناول کے تمام کردار عام انسانوں جیسی خوبیوں اور خامیوں کے حامل ہیں۔ انہوں نے کسی کردار کو مثالی بنا کے پیش نہیں کیا ہے اور نہ ہی انہیں حالات کے اثرات سے بے نیاز رکھا ہے ، بلکہ ان کے کردار ماحول اور حالات کے نشیب و فراز سے اسی طرح متاثر ہو تے ہیں جس طرح حقیقی زندگی گذارنے والے ہوا کر تے ہیں ۔ ’’ امرائو جان ادا‘‘میں رسواؔ کی کردار نگاری کا یہ وصف در اصل ان کے گہرے نفسیاتی مطالعے اور ان کی شدید قوت مشاہدہ کی دلیل ہے ۔ اس ناول کے نسوانی کرداروں میں ایک خاص خوبی یہ ہے کہ ہر کردار اپنے مزاج و اطوار کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ ان میں موقع اور محل کے مطابق تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسوا ؔ کا مقصد محض کرداروں کو نمایاں کرنا نہیں تھا بلکہ ان کے وسیلے سے زندگی کی حقیقی ترجما نی مقصد تھی اور یہی در اصل رسوا ؔ کی فن کا ری ہے ۔ بقول وقار عظیمؔ:

          ’’ امرائو جان ادا‘‘ اردو کا پہلا نا ول ہے جس میں زندگی اور فن ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہا تھ ڈال کر قدم بہ قدم چل رہے ہیں ۔ زندگی فن کو راہ دکھا تی ہے اور فن زندگی کو اس کی حدوں میں رکھ کر بھی اسے وہ بلندی دیتا ہے جہاں عام نظر نہیں پہنچتی  ۷۔‘‘

         مرز ا رسواؔ کا دوسرا قابل توجہ نا ول ’’ شریف زادہ ‘‘ ہے ۔ رسوا ؔ نے اس نا و ل میں اس معاشرت کی عکا سی کی ہے جو ۱۸۵۷؁ء کے نا کام انقلاب کے بعد سماجی اور معا شی زبوں حالی کا شکار ہو چکی تھی ۔ شاہی شا ن و شوکت ختم ہو چکی تھی ، رقص وسرود کی محفلیں اجڑ چکی تھیں ، عوام کے حوصلے پست اور دل مایوس تھے ۔ لیکن پھر بھی ماضی کا نشہ اب بھی ذہن پر چھا یا ہوا تھا ۔ جد و جہد اور محنت و مشقت کو معیوب سمجھا جا تا تھا ۔ گو یا رسی جل گئی تھی لیکن بل باقی تھا ۔ رسواؔ نے اس ناول میں با لواسطہ طور پر نہ صرف اس انحطاط پذیر تہذیب کی فرسودہ قدروں کو پیش کیا ہے بلکہ اسے ایک نئی روشنی دکھا نے کی کو شش بھی کی ہے ۔ اپنے اس مقصد کی خاطر انہوں نے اس نا ول میں ایک ایسے کردار کی زندگی پیش کی ہے جو نا مساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کر تا ہے اور اپنی محنت سے اپنی زندگی کو خوشگوار بنا تا ہے ۔ اسی مقصدیت کی وجہ سے ’’ شریف زادہ‘‘ میں فنی نقطۂ نظر سے کچھ کمزور یاں پیدا ہو گئی ہیں۔ مثلاً واقعات کی ترتیب میں کچھ ڈھیلا پن ہے جو اس کے پلاٹ کو غیر دلچسپ اور میکا نکی بنا دیتا ہے ۔ اس کے زیادہ تر کردار بھی بے جان اور مثالی نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اس ناول کے نسوانی کردار کسی حد تک ہماری دنیا ہی کے باشندے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر فداؔ حسین کی بیوی جو ایک بد سلیقہ، پھوہڑ، ناخواندہ، رسم و رواج کو مذہب پر فوقیت دینے والی تنگ مزاج اور دقیانوس خیال کی عورت ہے ، اس طرح کی عورت کا گھروں میں مل جا نا مشکل نہیں ۔ عابدؔ حسین کی بیوی کا کردار گرچہ مثالی ہے لیکن اس حد تک نہیں کہ وہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق نظر آئے ۔ اس کے علا وہ رسوا ؔ نے اس ناول میں عابد حسین کے کردار کو بھی مثالی بنا کر پیش کیا ہے جو ایک فنی نقص ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اس ناول کی اہمیت اور عظمت اس بنا پر ہے کہ اس میں بدلتے ہو ئے سما ج میں نوجوانوں کو اپنی دنیا آپ پیدا کر نے کا درس دیا گیا ہے ۔ لکھنوی طرز معاشرت اور سما جی حقائق کی پیش کش بھی بڑے فلسفیانہ اور فنکارانہ انداز میں کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر مجتبیٰؔ حسین کا خیال ہے کہ :

         ’’شریف زاداہ اگر کچھ اور جا ندار ہوتا اور واقعاتی ترتیب کی خشکی اور زاہدانہ تبلیغ ذرا کم ہوتی تو غالباً اردو کا سب سے بڑا ناول ہوتا  ۸۔‘‘

         اپنے تیسرے ناول ’’ ذات شریف‘‘ میں رسواؔ نے لکھنؤ کے بیمار اور انتشار پذیر سماج کا نقشہ کھینچا ہے اور ان عیوب اور کمزوریوں کی نشان دہی کی ہے جو اس عظیم الشان تہذیب کی تباہی کا باعث بنیں۔ گویا لکھنؤ کی مٹتی ہو ئی سماجی قدریں اور نوابین کے لٹے ہو ئے طبقے کی ذہنی ، معاشی، اخلاقی اور سماجی پستی ’’ ذات شریف‘‘ کا موضوع ہے ۔ اس ناول میں رسواؔ کی کردار نگاری ’’ شریف زادہ‘‘ کے مقابلے میں بہتر ہے ۔ اس میں رسوا نے کسی کردار کو مثالی بنا کر پیش نہیں کیا ہے ۔ کئی نسوانی کردار بھی اس ناول میں پیش کیے گئے ہیں ۔ مگر ان کے مقابلے میں مردوں کے کردار زیادہ جان دار ہیں ۔ کلثومؔ بیگم، امامنؔ، چھٹی نویسؔ اور مہری وغیرہ اپنے اپنے طبقے کی نما ئندگی کرتی ہیں ۔ کلثوم ؔ بیگم کے کردار میں رسوا ؔ نے اودھ کی بیگموں کی سچی تصویر پیش کی ہے ۔

         مرزا رسواؔ نے اس ناول میں عمدہ کردار نگاری کے ساتھ ساتھ دوسرے فنی لوازم کا بھی لحاظ رکھا ہے ۔ انہوں نے اس کے پلاٹ میں دو مختلف قصوں کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ وہ کہیں سے بے ربط نظر نہیں آتے اور دونوں کے کردار لازم و ملزوم بن جا تے ہیں ۔ خلیفہؔ، نبی بخشؔ، امامنؔ، امجدؔ، حکیمؔ صاحب، چھٹیؔ نویس، کلثومؔ بیگم اور نواب دونوں عناصر میں اہمیت رکھتے ہیں ۔ اس سے رسواؔ کے فنکا رانہ شعور کا پتہ چلتا ہے ۔

         ’’ اختری بیگم‘‘ میں مرزا رسواؔ نے ۱۸۵۷؁ء کے بعد کی انحطاط پذیر لکھنوی معا شرت اور چند شریف اور معزز خاندانوں کی خانگی الجھنوں کو پیش کیا ہے ۔ انہوں نے اس ناول میں اس بات کو بتا نے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح اس بیمار تہذیب کے پروردہ کا ہل اور مکار ہیں اور جن میں اپنے آپ کو وقت کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت نہیں ۔ ناول کا مرکزی کردار اختری ؔ بیگم ہے ۔ اس کے علا وہ جعفریؔ، نادریؔ، ہرمزیؔ، بوٹنؔ، نواب خورشیدؔ مرزا، مرادؔ علی، حسینؔ عی، مہدیؔ حسینی وغیرہ کے کردار بھی پیش کیے گئے ہیں ، جو اگرچہ اپنے اپنے طور پر فرائض کی انجام دہی میں نظر آتے ہیں ، لیکن ان میں وہ فعا لیت یا ارتقائی کیفیت نہیں جو رسواؔ کی کردار نگاری کا خاصہ ہے ۔ گو یا اس نا ول میں رسواؔ کردار نگاری کا نمونہ پیش کر نے میں نا کام رہے ہیں ۔ اختریؔ بیگم جو ناول کا بنیادی کردار ہے ، رسواؔ نے اسے فعال نہیں دکھا یا ہے بلکہ اس کردار کی زندگی کو ادھورا چھوڑ دیا ہے ۔ اسی طرح جعفریؔ کی بد مزاجی نادریؔ اور ہر مزیؔ کی نیک نفسی ، بوٹنؔ کی بد عقلی، مرادؔ علی کی فریب کاری اور مکاری اور نواب خورشیدؔ مرزا کی بے اعتنا ئی اور لا پرواہی کو مبالغے کی حد تک پیش کیا گیا ہے ۔

         پلاٹ کے لحاظ سے بھی رسواؔ کا یہ نا ول بہت کا میاب نہیں ہے ۔ واقعات اور کردار کی کثرت نے اس کے پلاٹ کو غیر متوازن بنا دیا ہے ۔ غرض کہ ’’ اختری بیگم‘‘ میں رسوا ؔ کی وہ فنی مہارت نظر نہیں آتی جو ’’ امرائو جان ادا‘‘ ، ’’ شریف زادہ‘‘ اور ’’ ذات شریف‘‘ میں ملتی ہے ۔

         ’’ افشا کے راز‘‘ مرزا رسواؔ کا پہلا اور نا مکمل نا ول ہے اس میں ذکیؔ کی سیرت کو رسوا ؔ نے بڑے دل کش انداز میں بیا ن کیا ہے ۔ لیکن نا ول کا ادھورا پن پلاٹ اور کردار دونوں پر اثر انداز میں بیان کیا ہے ۔ لیکن نا ول کا ادھورا پن پلاٹ اور کردار دونوں پر اثر انداز ہوا ہے ۔ پلاٹ بالکل سپاٹ اور ڈھیلا ڈھالا ہے ۔ کرداروں میں ارتقائی کیفیت مفقود ہے ۔ اس ناول میں مرزا رسواؔ بہ حیثیت ناول نگا ر وہ نہیں ہیں جو اپنے بعد کے نا ولوں میں نظر آتے ہیں ۔

         ان تمام نا ولوں کے جا ئزے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مرزا رسوا ؔ اردو کے وہ پہلے ناول نگار ہیں جنہوں نے اپنے نا ولوں کو ہر اعتبار سے فنی اوصاف کا حامل بنا یا ۔ پلاٹ ، کہانی ، کردار نگاری، منظر نگاری، فلسفہ حیات، مکالمے اور زبان و بیان کو وہ اس طرح ہم آہنگ کر دیتے ہیں کہ فن کی تکمیل کے لحاظ سے ان کے ناول ایک روایت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ البتہ کہیں کہیں اور کسی کسی نا ول میں رسوا ؔ کے فلسفیانہ مزاج اور علم ریاضٰ کا روکھا پن درآیا ہے جس سے تھوڑی بے کیفی اور بے رنگی پیدا ہو گئی ہے ۔ اس کے علا وہ بعض ناولوں کے پلاٹ اور کردار بھی کچھ کمزور نظر آتے ہیں ۔ لیکن یہ مرزا رسوا ؔ کا عام انداز نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنے اکثر نا ولوں میں بہترین فن کا ری کا ثبوت دیا ہے ۔ اس لیے بہ حیثیت مجموعی مرزا رسوا ؔ کی نا ول نگاری کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے نا ولوں کو نہ صرف معاشرتی زندگی کی حقیقتوں کا ترجمان بنا یا بلکہ ان کے وسیلے سے فکر و فن کی ایسی روشنی عطا کر دی جس کی شعا ئیں آج تک اردو ادب کو منور کر رہی ہیں ۔

حواشی

۱۔مرزا محمد ہادی رسواؔ        اختری بیگم۔ کراچی، نفیس اکیڈمی۔ )سن اشاعت درج نہیں ہے )ص۔۹۹

۲۔آل احمد سرورؔ              ناول کیا ہے۔ دوسرا ایڈیشن۔ ص۔۵  بحوالہ: ڈاکٹر آدم شیخ۔ مرزا رسواؔ : حیات اور ناول نگاری۔ دوسرا ایڈیشن۔ لکھنئو، نسیم بک ڈپو۔۱۹۸۱۔ ص۳۴۰

۳۔مرزا محمد ہادی رسواؔ        ذات شریف۔ لکھنئو، اشرفی بکڈپی، ۱۹۲۱ء۔    ص ۱۶۲

۴۔ایضاً                    ایضاً     ص ۵۴۔

۵۔ سہیل بخاریؔ            اردو ناول نگاری۔ بار اول۔ دہلی ، الحمرا پبلیشرز۔ ۱۹۷۲ء    ص ۷۹

۶۔علی عباس حسینیؔ          ناول کی تاریخ اور تنقید۔ بار اول لکھنئو، انڈین بکڈپو۔)سن اشاعت درج نہیں ہے)ص ۳۳۷

۷۔وقار عظیمؔ              داستان سے افسانے تک۔ علی گڈھ،

                           مکتبہ الفاظ۔ ۱۹۸۰ء          ص۱۵۵

۸۔مجتبیٰ حسینؔ             اردو ناول کا ارتقا۔ دہلی، پرویز، بک ڈپو۔ ۱۹۷۴ء   ص ۱۲۰

***

Leave a Reply