You are currently viewing پاکستان میں تصوف  اور خانقاہی نظام کی موجودہ صورتحال :اجمالی جائزہ

پاکستان میں تصوف  اور خانقاہی نظام کی موجودہ صورتحال :اجمالی جائزہ

محسن خالد محسنؔ

لیکچرار شعبہ اُردو ادبیات، گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،چوہنگ،لاہور

mohsinkhalid53@gmail.com/03014463640

پاکستان میں تصوف  اور خانقاہی نظام کی موجودہ صورتحال :اجمالی جائزہ

The Present Status of Sufism and Monasticism in Pakistan: An Overview

ABSTRACT

Sufism is a discourse of practicing Sharia parallel to the religion of Islam, which was introduced in the subcontinent by the sages of Sufism from the beginning of Islam. Realisation of the reality of the Almighty is the source of familiarity with true mysticism. The tradition of Sufism in Pakistan is centuries old, and the influence of innovation and non-Sharia customs has intensified with the passage of time. The tradition of Sufism in Pakistan is centuries old, and with the passage of time, the influence of innovations and non-Sharia customs has intensified. In this paper, all the concepts of Sufism prevalent in Pakistan have been seen in a badi-nazar. In the shrines related to Sufism, innovations and illegal actions and activities on Urs and other occasions have been critically evaluated. Lately, Syed Sarfraz A. Shah’s interpretation of reform and correctness in the entire tradition of Sufism has been reviewed. The purpose of this paper is to highlight the defects, ambiguities, and innovations while reviewing the murky situation of Sufism in Pakistan and to mention the services of spiritual scholars for further improvement and clarification.

Key words: Sufism, shrines, subcontinent, Sufism tradition, Balhe Shah, Baba Farid, Pakistan, unity, religion of Islam, saints of Sufism, Gadi Nashin, Peer, Sufi, Syed Sarfraz Shah, customs and traditions, Pakistani society, politics, monasticism.

خلاصہ:تصوف دینِ اسلام کے متوازی  شریعت پر عمل کرنے کا ایک  ڈسکورس ہے جسے برصغیر میں بزرگانِ صوفیا نے اسلام کے اوائل سے متعارف کروایا۔ رب تعالیٰ کی حقیقت کا ادراک اور عرفانِ حقیقی  سے آشنائی کا ذریعہ ہے۔پاکستان میں تصوف کی روایت صدیوں پرانی ہے جس میں مرورِ وقت کے ساتھ بدعات اور غیر شرعی رسوم و رواج کا   دخل شدت اختیار کر گیا ہے ۔اس مقالہ میں پاکستان میں رائج تصوف کے جملہ تصورات کو بادی النظر میں دیکھا گیا ہے۔ تصوف سے متصل  مزارات میں عُرس و دیگر مواقع پر ہونے والی بدعات اور غیر شرعی حرکات و افعال کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ اواخر میں سید سرفراز اے شاہ کی تصوف کی جملہ روایت میں اصلاح و درستی کی توضیح ِ نو کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مقالہ کا مقصد پاکستان میں تصوف کی مخدوش صورتحال کا  اجمالی جائزہ لیتے ہوئے نقائص و ابہام و بدعات کو نشان زد کرنا ہے اور مزید بہتری و اصلاح اور توضیح کے لیے روحانی سکالرز کی خدمات کا ذکر کرنا ہے۔

کلیدی الفاظ: تصوف، مزارات، برصغیر، متصوفانہ روایت، بلھے شاہ،بابا فرید،پاکستان، وحدانیت، دینِ اسلام،بزرگانِ صوفیا،گدی نشین،پیر،صوفی،سید سرفراز اے شاہ،رسوم و رواج،پاکستانی معاشرہ،سیاست ،خانقاہی نظام

پاکستان میں اس جو وقت  تصوف رائج ہے وہ عجیب و غریب صورت اختیار کر گیا ہے۔  بزرگانِ تصوف کی  گدیوں پر قابض  سجادہ نشین اپنے اپنے انداز میں تصوف کی تعبیرو توضیح کر رہے ہیں۔ جو جی میں آتاہے اُسی کو متصوفانہ لائف اسٹائل بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ان کی اس حرکت کی وجہ سے پاکستان میں صدیوں سے رائج تصوف  کی تعبیرات و توضیحات میں ایسا بگاڑ در آیا ہے جس کی روک تھام کے لیے کہیں کہیں کوئی چراغ ٹمٹاتا ہوا دکھائی دے جاتا ہے بصورت دیگر  تاریکی کا دور دورہ ہے۔ لاعلمی، بے شعوری اور حد درجہ ہٹ دھرمی نے تصوف کی جملہ تعبیرات کو ابہام و اوہام کا گورکھ دھندہ بنا ڈالا ہے۔

 پاکستان میں تصوف کی مخدوش صورتحال پنجاب میں سب سے زیادہ دکھائی دیتی ہے؛ جہاں  لاتعداد مزارات ایسے ہیں جن کے بارے میں قطعیت سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان مزارات کے اندر موجود قبور میں کوئی بزرگ  واقعتاً  دفن ہے بھی یا خودساختہ دیناوی مفاد کی مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت مشہور کر لیا گیا ہے ۔ مزارات کے مشہور ہونے  کی عوامی روایت صدیوں پرانی ہے۔

  اس چلن کا آغاز یوں ہوا کہ کسی ویرانے میں نہایت راز داری سے ایک قبر بنتی ہے۔ رفتہ رفتہ اسے پکی کر دیا جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہاں  تارک الدنیا کوئی دیوانہ آکر بیٹھ جاتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے لوگوں کی توجہ اس قبر سے متصل طلسمی احوال و حرکات کے پھیلائے ہوئے قصص  کی طرف مائل ہو نے لگتی ہے۔

دو،چار برس میں نشست و برخاست کا  شروع ہوتا ہے جو اس ویرانے کو برکت و رحمت کا مرکز بنا دیتا ہے۔ یہاں دُعائیں قبول ہونے لگتی ہے، مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ بیٹے عطا ہوتے ہیں۔گویا ہر قسم کی پیری گردی جاری ہو جاتی ہے تاآنکہ  مزار کو آباد کرنے والے مجاورکی  موت واقع ہو جاتی ہے ۔وفات کے بعد بڑے اہتمام سے  مجاور کے چیلے اس کا  چہلم مناتے ہیں۔وفات کے بعد سالانہ عرس کا اہتمام کرکے  چندہ جمع کیا جاتا ہے جس سے مزار پر گنبد تعمیر کر کے  محکمہ اوقاف سے منظور کروا لیا جاتا ہے۔ کسی لکھنے والے سے دو،چار کتابیں کشف و کرامات کے طلسمی قصوں کی لکھوا لی جاتی ہیں جنھیں مفت بانٹ کر لوگوں میں صاحبِ مزار کو غوث الااعظم کے لیول کا بزرگ ٹھہرا لیا جاتا۔

اس طرح مزار کو  عوامی، قانونی اور ریاستی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔اس کے بعد  مزار سے متصل ارکان کا دھندہ  شروع ہو جاتا ہے  جوخوب چلتا ہے ۔ لوگوں کو بے وقوف بنا نے کے لیے مزار کے ارد گرد پاکیزہ ہستیوں کی علامتی قبریں بنا لی جاتی ہیں۔ ان پر عجیب و غریب وضع کے کھلونے یعنی پنگوڑے، رومال، لمبی ڈوریاں، تالے، عبیر و گلال اور سفید پھول کی  سوکھی ٹہنیاں اور جانے کیا کچھ رکھ دیا جاتا ہے اور ایک لونڈے کو رنگ برنگا چیتھڑوں ایسا لباس پہنا کر بٹھا دیا جاتا ہے جو عربی،فارسی،ترکی،یونانی اور پُرتگالی زبان کی ویج بریانی بنا کر مخصوص الفاظ میں کچھ کلمات کہتا ہے جس سے سننے والے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور متاثر ہو کر خوب نذر ع نیاز کرتے ہیں۔

 تصوف کی اوٹ میں مذہب کے نام پرعقیدت کے پیرہن میں لایعنی اور غری شرعی بدعات و حرکات کی ایسی ریل پیل ہوتی ہے کہ ذرا سا تشکیک اور غوروفکر کرنے والے ذی شعور پر اس کی قلعی کُھلتے ہی بیزاری و اذیت کا  ناقابلِ برداشت صدمہ روح کو گھائل کرجاتا ہے؛ جس کی ٹیس انتہائی تکلیف دہ اور لاحاصل ہوتی ہے۔یہ  غیر شرعی اور جعلی رسوم و رواج کی شدت اور قطعیت اس قدر پختہ اور مستحکم ہے کہ بڑے سے بڑا عہددار اور صاحبِ اختیار؛ ان بدعات کے اڈوں پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہے۔ پاکستان میں  وہ بزرگانِ صوفیا جنھوں نے ہندوستان کو  تبلیغ و اشاعت ِ دین کی غرض سے خانقاہیں بنائیں اور   لوگوں کو رب تعالیٰ کی وحدانیت سے آگاہ کیا اورہزار ہا لوگوں کو اپنے عمل اور سوانح سے مشرف بہ اسلام کیا۔

آج اُن کےمزارات پر بھی یہی کچھ ہوتا نظر آتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ہر مزار پر اس طرح کی بکواسیات ہو رہی ہے ۔ یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ بزرگانِ تصوف کے مزارات بھی بدعات سے متصل رسوم و رواج اور مذموم حرکات و سکنات سے مبرا نہیں  رہے ۔ برصغیر پاک و ہند میں دینِ اسلام کی اشاعت کو صوفیا کی متصوفانہ تعلیمات  سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ مَثل مشہور ہے کہ برصغیر میں اسلام کی  تبلیغ و اشاعت کا  بیشترانحصار  باہر سے آئے ہوئے بزرگانِ صوفیا پر ہے؛ جنھوں نے اپنی زندگی اس خطے کی جہالت،لاعلمی،بے شعوری اور کفر و شرک کو ختم کرنے میں صرف کر دی۔

ان بزرگانِ تصوف  میں بابا فرید الدین گنج شکر، شاہ حسین،میاں میر،  سلطان باہو، بلھے شاہ، میاں محمد بخش، رحمان بابا، شاہ عبد الطیف بھٹائی، سچل سرمست، مست توکلی،عثمان علی ہجویری، شیخ امیر حسنی، لال شہباز قلندر، ذہین شاہ تاجی،نور محمد مہاروی،صوفی برکت علی، پیر مہر علی گولڑوی،پیر فضل فورٹ عباسی، عبداللہ شاہ غازی،بہاؤ الدین زکریا ملتانی،جمن شاہ،ولایت شاہ،عالم شاہ،پیر کھڑی شریف،خواجہ سخی سلطان سرور،فقیرنور محمد سروری وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ صوفیا کے تصورات،نظریات، افکار اور علمی مظاہرات میں خاصا  تضاد موجود ہے ۔ قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی  سلاسل ؛اسی فکری و عملی اور سالکی طُرق  میں اختلاف و بُعد کی وجہ سے پیدا ہوئے۔

ان سلاسلِ صوفیا کے علاوہ  دسیوں اورسلسلے  موجود ہیں جن کے ہاں تصوف کی مبادیات کے حوالے سے عجیب و غریب تصورات اور لائف اسٹائل کا ڈسکورس  ملتا ہے۔ پاکستانی تصوف کی اس مخدوش صورتحال  کی اصلاح و درستی  دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ پڑھا لکھا اور تشکیک کا عنصر رکھنے والا طبقہ بھی عقیدت میں غرق ان بدعات میں مبتلا ہ

ے۔باشعور اور حقیقت سے آشنا افراد کی اس عدم دلچسپی اور خاموشی کی وجہ سے بزرگانِ صوفیا کے مزار ات بدعات کی آماجگاہ بن گئے ہیں۔ جس کے من میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے۔کوئی ان مریدین ،عقیدت مندوں اور متاثرین کے غیر شرعی افعال  اور حرکات و سکنات کو روکنے والا نہیں ہے۔ مولا علی! کرے گا بھلی۔ نعرہ حیدری۔ حق حق چار یار،سب مل کر بولو،شیر ،شیر۔حیدر  ،حیدر، دم میراں ،پاک قلندر، یا عباس! پُتر مانگا واں،لے جاناں اے، بھر دو جھولی میری اجمیر والے،داتا! تو ہی دے گا  ۔ا س طرح کے ہزاروں غیر شرعی، کفرانہ اور جاہلانہ جملے مزارات اور درگاہوں میں بولے جاتے ہیں اور انھیں دُہرانے والے ہزاروں کی تعداد میں الاپ رہے ہوتے ہیں۔

 مزار کے اندر کا ماحول او رباہر کی فضا میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ہر قماش اور رنگ کا بندہ ان مزارات پر موجود ہوتا ہے۔ امیر، غریب، ادنیٰ،اعلیٰ،جاہل،پڑھا لکھا،بے شعور اور شعور یافتہ سبھی کی عقیدت کا رنگ معمولی اختلاف کے سِوا ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔ گدی کی سیاست پر مجاوروں کی باہمی چپلقشیں بھی عروج ہو ہوتی ہیں۔ عُرس گویا ان کا سالانہ مال اکھٹا کرنے کا موسم ہوتا ہے جسے کسی صورت یہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ زندگی میں صاحبِ مزار کے کسی عزیز نے اِسے پوچھا ہوتا ہے نہ اس کے بتلائے ہوئے طریقہ اور واعظ پر عمل کیا ہوتا ہے۔ وفات کے یہی عزیزان مجاور اور گدی نشین بن کر پیر بن جاتے ہیں اور اپنے اپنے دھڑے اور گروپ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

 یہ اصحاب اپنے غنڈوں کے ذریعے مریدین کو ڈراتے ،دھمکاتے بھی ہیں کہ فلاں کے پاس نہیں جانا۔ صاحبِ مزار نے  دمِ رخصت سارا علم اور فیض مجھے سونپ دیا تھا اور میں ہی اصل وارث ہوں۔ ایسے ایسے گدی نشین دیکھے گئے ہیں جنھیں پہلا کلمہ درست پڑھنا بھی نہیں آتا اور یہ مریدین کو دُعا دیتے ہوئے ایسی ڈراما بازی کا انداز اپناتے ہیں کہ غوث الااعظم کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ صاحبِ مزار کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ بے چار ا اگر قبر میں واقعتاً موجود ہے تو چیختا،تڑپتا اور کُرلاتا ہوگا کہ ظالمو! یہ کیا کر رہے ہو؟ مجھ پر رحم کرو۔ میں نے یہ تھوڑا کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میری قبر کو  دُنیا کمانے کا اڈہ بنا لو اور بھتا وصول کرنا شروع کر دو۔

 ان مزارات پر جو غیر شرعی اور بدعتی افعال انجام دئیے جاتے ہیں۔اس کا وبال صاحبِ مزار پر نہیں ہوگا(اس بارے اختلاف ہے) بلکہ یہ سب کرنے والوں پر ہے جنھیں یہ شعور دیا گیا ہے کہ دین کی اصل اساس اور اصل روح کو سمجھ کر اس پر عمل پیراہوں نہ کہ اندھی تقلید کے ذریعے ایمان سے محروم ہو جائیں۔ ان مزارات پر سب زیادہ بدعات و غیر شرعی افعال میں مبتلا عورتوں کو دیکھا گیا ہے۔ عورتوں نے اس معاملے میں ہر حد پار کر رکھی ہے۔

 عورتوں کو کمزور مرد یعنی زن مرید روکنے کی کوشش سے بھی محروم ہیں۔ ہمارا معاشرہ بھی ایسا ننگ اور  تعقل سے عاری ہے کہ اس کے جملہ رسم و رواج میں ایسے ایسے شرمناک تصور موجود ہیں جن کے درد کا علاج ان مزارات اور جعلی پیروں،فقیروں کی دُعاوں ،تعویذوں اور گنڈوں سے  ہوتا ہے۔ ایک عورت کو پتہ چل جائے کہ فلاں جگہ کوئی کامل وارد ہے۔اگلے دن پورے محلے کی عورتیں نہایت راز داری سے رکشہ کروا کے پہنچ جائیں گی ۔اُس فُقرے کی خوب دھیاڑی لگتی ہے،آنکھیں بھی ٹھنڈی کرتا ہے اور جگر میں ٹھنڈ بھی پڑتی ہے ۔بیٹے دیتا ہے اور راکھ سے تعویذ لکھ کر ساس، نند، سوتن، چچی، پھوپھی،خالہ اور دیور،جیٹھ  کا رزق ،صحت، جوانی، سانس،خوشیاں،دولت  سب بند بھی کر دیتا ہے۔

 یہ عورتیں خوشی میں پھولے نہ سماتی ہیں اور ایک مستی اور مدہوشی کے عالم میں گھروں کوشام کے بعد لوٹتی ہیں ۔ان میں سے بیشتر اپنے منصوبہ میں کامیاب رہتی ہیں اور ایک قلیل تعداد تعقل پسند مرد کے ہاتھوں پِٹتی بھی ہیں اور توبہ کر کے  وفا شعار بیوی بننے کا  جھوٹا عہد کر لیتی ہیں۔

 پاکستان میں تصوف کی اس مخدوش صورتحال اور مزارات  پر بدعات و غیر شرعی افعال کے حوالے سے ہر مسلک کے غیر جابندار علما اور سکالرز مسلسل  تنقید کر رہے ہیں ۔اہل سُنت،اہلِ حدیث، اہل تشیع اور دیوبندی   مسالک سے تعلق رکھنے والے سکالرز اور عالمِ دین مزارات پر ہونے والے ان غیر شرعی افعا ل کے بارے میں متفقہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ سراسر غیر شرعی عمل ہے اور کی روک تھام کے لیے ریاست کو آگے آنا چاہیے اور قانون کے ڈنڈے سے ان بدعات میں مبتلا لوگوں کی اصلاح کرنی چاہیے۔ پاکستان میں مسالک کے باہمی مسائل و افکار کی تشریح و تعبیر میں اختلاف کی شدت اس قدر ہے کہ انھیں ایک پیج پر لانا ناممکن ہے ؛ایسے میں تصوف کے تصور کو اہلِ سُنت کے علاوہ کوئی اور مسلک ذہن و قلب سے تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔

 اس مفصل بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریاست نے اس معاملے میں ہاتھ نہیں ڈالنا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں پچاس فیصد نشستوں پر یہی گدی نشین براجمان ہیں۔ خلائی مخلوق کی ایک کثیر تعداد بھی  مزارات کے روحانی فیوض و برکات سے عقیدت رکھتی ہے اور اسے خواہی نہ خواہی سپورٹ بھی کرتی ہے۔

 گلی محلے کے علما اور مبلغین کا شعور،علم اور فہمِ ادراک اتنا پختہ نہیں کہ وہ اس مسلئے کے اصل جڑ کو سمجھ سکیں ،علاقائی سطح پر ا ن بدعات کی روک تھام کا کوئی اتنظام موجود نہیں۔ گدی نشین  حضرات سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے مریدین،عقیدت مندوں اور متاثرین اور متعقدین کو تصوف کی اصل مبادیات سمجھا کر انھیں راہ راست پر لائیں اور شریعت سے ٹکراؤ رکھنے والے جملہ افعال و حرکات اور رسوم و رواج سے  گُریز و اجتناب کریں۔

 یہ اصحاب یہ کام کرسکتے ہیں لیکن ان  کا کاروبار بند ہو جائے گا اور ان فقیروں کو فُقروں کی طرح در،در ہاتھ دراز کرنا بہت دُشوا ر لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں کہیں جو اللہ کا بندہ، صاحبِ شعور اور تصوف کی اصل روح کو سمجھنے اور اس کے جملہ سرمایہ کو تحقیق کی کسوٹی سے پرکھ کر واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔میں اُن احباب سے دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ وہ سامنے آئیں اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے  پاکستان میں مزارات سے متصل ان بدعات و روسوم و رواج اور جملہ غیر شرعی افعال پر تنقید کریں اور لوگوں کو  نہایت سائشہ اور مدلل انداز میں سمجھائیں کہ دین ِ اسلام اس طرح کے افعال  اور حرکات ِ غیر شرعیہ سے مبرا ہیں اور اس کا دین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

 تصوف کی اصل غایت اور اس کے حقیقت پر مبنی تصورات و وعقائد کو تحریر و تقریر کی صورت سامنے والوں میں یوں تو دسیوں روحانی سکالرز کے نام لیے جاسکتے ہیں تاہم جس صاحبِ تصوف نے اس کام میں خشتِ اول کا کارنامہ انجام دیا ہے وہ سید سرفراز اے شاہ ہیں۔ ان کی تعلیم نہایت اعلیٰ پیمانے پر ہوئی۔  یہ نجیب الطرفین سید ہیں۔ ان کی پوری زندگی تصوف کی حقیقت و ماہیت اور اس کے جملہ اسَرار و رموز کو سمجھنے اور اس کا اصل گیان حاصل کرنے میں گزر گئی۔

 پاکستان بھر میں ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتا ج نہیں ہے۔ انھوں نے تصوف کی اصلاح و درستی اور اس سے متصل تصورات ونظریات کی توضیحِ نو کے لیے بیڑا اُٹھا رکھا ہے ۔گذشتہ تیس برس میں ان کے اس کام کو بہت سراہا گیا ہے۔ ان کے آڈیو لیکچر اور کتب میں تصوف میں موجود باطل نظریات و تصورات اور مزارات پر بدعات سمیت دیگر غیر شرعی افعال پر سخت تنقید ملتی ہے جو مدلل، موثر اور اثر پذیر ہے۔

سید سرفراز اے شاہ نے  پاکستانی تصوف کی جملہ مبادیات، تصورات، نظریات اور فکری تضادات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اس پر بدعات کی چڑھی ہوئی  دبیر جہالت کی تہ کو اکھاڑ ڈالا ہے۔ سید سرفراز اے شاہ نے  اقبال ٹاؤن لاہور میں گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں انھوں نے (http://qalander.org/first.html)  407 لیکچر ز دئیے ہیں ۔ ان لیکچرز کو تحریر ی  شکل دی گئی جو کہے فقیر کے نام سے سات کُتب(فقیر نگری، لوحِ فقیر، فقیر رنگ، ارژنگِ فقیر، عرضِ فقیر اور نوائے ِ فقیر)کے نام جہانگیر بک ڈپو سے شائع ہوئی ہیں۔

 سید سرفراز اے شاہ نے مذکورہ آڈیو لیکچرز اور سات کُتب میں تصوف کی جملہ بحث کو اپنے منفرد اور دلآویز انداز میں ازِ سر نو کھنگالا ہے اور اس پر بدعات سے متصل رسوم و رواج کی پڑی گرد کو صاف کر ڈالا ہے۔ سید سرفراز اے شاہ نے صدیوں سے رائج تصوف کے تصورات و نظریات سے متصل عبادت و ریاضت کی مشکو ک اور لایعنی سرگرمیوں کو بھی  ثقیل کر کے  از سرِ نو اس کی اصلاح کی ہے۔ سید سرفراز اے شاہ نے تصوف کو دین کے متوازی کوئی نیا دین قرار نہیں دیا بلکہ تصوف کو شریعت پر عمل کرنے کا آسان راستہ قرار دیا ہے۔

 تصوف کے تین درجات یعنی فنا فی الشیخ،فنا فی الرسول اور فنافی اللہ کے بارے میں انھوں نے تصوف کے بعینہ تصورات کا نہائت آسان الفاظ میں توضیح کی ہے جس سے بزرگانِ صوفیا کی نسبت سے  کشف و کرامات  کی جعلی طلسم کاریوں کی نفی ہو ئی ہے۔پاکستان میں اس وقت بزرگانِ تصوف کے مزارات پر  صوفی ازم کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے؛ سید سرفراز اے شاہ نے نہ صرف اس کی سخت الفاظ میں نفی کی ہے  بلکہ اسے اسلام سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس روئیے اور چلن کو دینِ اسلام کے لیے تباہ کُن اور زہرناک قرار دیا ہے۔

 ان کا کہنا ہے کہ تصوف انسان کو شریعت پر عمل کرنا سکھاتا ہے نہ کہ شریعت کے متوازی نیا ڈسکورس وضع کر کے اس کے مقابلے میں ہٹ دھرمی کا وطیرہ اپنا کر لوگوں کو  ذاتی مفادات کے حصول کے لیے گمراہ کرنا سکھاتا ہے۔ سید سرفراز اے شاہ نے تصوف کے جملہ تصورات کے بارے میں پاکستانی معاشرے میں رائج تصورات کا رَد کیا ہے جس سے تصوف کی اصل روح کُھل کر سامنے آئی ہے بدعات  کا قلم قمع ہوا ہے۔

 تصوف سے دلچسپی لینے والے  والوں کے لیے یہ کتب   بنیادی نصاب کا درجہ رکھتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے  کہ سید سرفراز اے شاہ کی طرح دیگر  روحانی سکالر بھی سامنے آئیں اور اپنے علم و عمل  سے پاکستانی معاشرے میں رائج متصوفانہ بدعات کی روک تھام اور صحیح تصورات کی توضیح و تشریح میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ مزارت کی گدیوں پر قابض جعلی  پیروں کی ڈراما بازیاں ختم ہو ں ۔

پاکستان میں اس وقت تصوف کا جو نظام موجود ہے اور خانقاہی سسٹم کی جو صورتحال یہاں رائج ہے ۔یہ اس قدر گراوٹ اور تنزل کا شکار ہے کہ اگر اسے یوں ہی روا رہنے دیا گیا اور اس کی روک تھام اور بندش کے لیے کوئی  عملی کاوش نہ کی گئی تو بہت جلد مندروں،چرچوں  اور مزاروں میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا ۔

***

Leave a Reply