You are currently viewing پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ۔بچّوں کے ادیب

پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ۔بچّوں کے ادیب

ڈاکٹر ترنم

کوٹا ، راجستھان

                       پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ۔بچّوں کے ادیب

         بچوں کا نام زبان پر آتے ہی ایک خوشی اور مسرت کی لہر ذہن میں دوڑ جاتی ہے۔جس گھر میں بچّے ہوتے ہیں وہاں دن بھر شرارتوں کا دور دورا ہوتا ہے اور گھر کا ہر فرد ان کی دیکھ بھال میں لگا ہوتا ہے۔دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جسے بچے پسند نہ ہوں۔بچّے اس روشن چراغ کے مانندہیں جو مستقبل میں ملک و معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی خدمات انجام دیں گے۔لیکن یہ تبھی ممکن ہو پائے گا جب بچوں کی تربیت بہترین انداز سے کی جائے ۔انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے ان کے مستقبل کو سنوارا جائے۔ان کی تعلیم کا نظام کچھ ایسا ہو جیسے کڑوی دوا شہد میں لپیٹ کر کھلائی جاتی ہے۔اور یہ کام ادب کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ادب کے ذریعہ بچو ں کو مشکل باتیں بھی آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہیں۔

         دنیا کی ہر ترقی یافتہ زبان میں بچوں کے لیے ادب تخلیق کیاگیا ہے۔اور ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کر کے بھی ادبِ اطفال میں اضافہ کیا گیا ہے تاکہ بچوں کو ہر دم کچھ نیا سیکھنے کو ملے۔اردو ادب میں بھی یہ روایت بہت پرانی ہے اور آج بھی متعدد اہلِ قلم اس علم کو تھامے آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنا خون جگر صرف کر کے بچوں کے لیے نظمیں ،ناول، افسانے تخلیق کر رہے ہیں۔ادب کے انہیں جاںباز سپاہیوں میںمناظر عاشق ہرگانوی بھی شامل ہیں۔

         ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اردو ادب میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔شاعری اور نثر دونوں ہی میدانوں میں آپ نے اپنے قلم کو رواں رکھا اور تقریباً ۲۶۰ کتابیں مختلف اصناف و موضوعات پر شائع کر کے اردو ادب سے اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت دیا ہے۔ایک طرف جہاں آپ نے بڑوں کے لیے ذہنی سکون کا سامان فراہم کیا ہے، وہیں دوسری طرف بچوں کا بھی پورا خیال رکھا اور ان کے لیے بھی افسانے اور ناول کی شکل میں ادب تخلیق کیا۔آپ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے وقت آپ کے بچوں کے لیے لکھے دو ناول’’بینک لوٹنے کا پروگرام‘‘اور ’’عدنان کا جاسوسی کارنامہ‘‘ اور دو کہانیوں کے مجموعے ’’ہم دونوں کی غلطی‘‘ اور ’’جیسے کو تیسا‘‘ نظر سے گزرے۔یہ کتابیں محض بچوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بڑوں کے لیے بھی دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔

         ’’بینک لوٹنے کا پروگرام‘‘ آپ کا چوتھا جاسوسی ناول ہے۔اس ناول میں روپ نگر کے ایک بینک کا ذکر ہے جسے دو شخص لوٹنے کا منصوبہ بناتے ہیں۔لیکن فیصل کی سوجھ بوجھ سے یہ دونوں کامیاب نہیں ہو پاتے۔اس ناول میں فیصل، بریشہ،دانش،غزالہ،ولی، سنّی ، فراز ، بینک منیجرمہا دیو ،عباس جعفر،کیلاش،قادری وغیرہ کردار ہیں۔یہ ایک بہترین اور دلچسپ ناول ہے۔جاسوس فیصل اپنی سوجھ بوجھ سے صرف ایک چھوٹے سے ثبوت کی بنا پر پورا معاملہ سلجھا لیتاہے۔فیصل تیز ذہن کا مالک ہے اور بہادر بھی ہے ۔وہ واردات کے ہرپہلو پر غور کرتا ہے اور بالآخر قتل کی گتھی کو سلجھانے میں کامیاب ہوتا ہے۔یہ کردار بچوں کوذہین او ربہادر بننے پر آمادہ کرتا ہے۔فیصل کا کردار بچوں کے ذہن پر اپنے گہرے نقش چھوڑتا ہے۔مناظر عاشق نے بچوں کے لحاظ سے اس ناول کے تمام کرداروں کو بڑی خوبی سے پیش کیا۔شروعات میں انسپیکٹر دانش شیر کے شکار کا واقعہ سناتا ہے پھر بریشہ چیتے کے شکار کی داستان سناتی ہے۔یہ دونوں واقعے بچوں کی دلچسپی کو مزید بڑھاتے ہیں۔کیوں کہ بچوں کو ایسی کہانیاں خوب بھاتی ہیں۔یہ تصنیف رحمانی پبلی کیشنز کے زیر اہتمام ۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی۔

         ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے بچوں کے لیے جاسوسی ناول کی ایک اور کڑی ’’عدنان کا جاسوسی کارنامہ ‘‘ہے۔یہ ناول ۲۰۱۳ء میں شائع ہوا۔اس ناول کے وجود میں آنے کے پیچھے بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔جسے بیان کرتے ہوئے مناظر صاحب فرماتے ہیں۔

                  ’’عدنان کا کردار یوں سامنے آیا کہ فیصل کی جاسوسی کہانیاں پڑھ کر اسے بھی جاسوس بننے کا

                  شوق ہوا۔میرے پاس آکر بولا’’میں بھی جاسوس بننا چاہتا ہوں ۔مقصود انجینئر صاحب کا

                   بیٹا ہوںاور روزی میری ممّی ہیں۔اسی محلے میں ہم رہتے ہیں۔فیصل کو آپ نے جاسوس بنا

                   دیا۔مجھے بھی بنائیے ۔ میرا نام عدنان ہے۔‘‘

                  (عدنان کا جاسوسی کارنامہ، ص۔۳،مصنف۔ مناظر عاشق ہرگانوی،۲۰۱۳ء)

معصوم بچے کی فرمائش نے آپ کو ناول لکھنے پر آمادہ کیا اور ۴۰صفحات کا ناول رحمانی پبلی کیشنز کے زیر اہتمام ۲۰۱۳ء میں منظر عام پر آیا۔

         اس ناول کی کہانی عدنان،انسپیکٹر ارحم،احمد ،عبد اللہ،منیرا ،اہیان،مولوی برکت صاحب،کے ارد گرد گھومتی ہے۔مولوی برکت جادو ٹونے کے زریعہ اپنی طاقت بڑھانا چاہتا ہے۔جس کے لیے وہ دو بچوں کا خون بھی کر دیتا ہے۔مولوی سے تنتر منتر کا علم حاصل کے لیے دو سادھو مولوی کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں۔ان سادھوؤں کو پکڑنے کے دوران میں ہی مولوی کرامت کے کالے کرتوتوں سے بھی پردہ اٹھتا ہے۔عدنان اور انسپکٹر ارحم کی سوجھ بوجھ سے مولوی کرامت پکڑا جاتا ہے۔

         یہ ناول بچوں میں تجسس اور دلچسپی پیدا کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔جگہ جگہ اس ناول میں بچوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے۔لیکن کہانی کے انداز میں۔مثلاً۔

                  ’’میری نانی اکثر برے لوگوں کی کہانیاں سناتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ایسے لوگوں سے بچ کر

                   رہنا۔اگر کوئی انجان آ دمی     بسکٹ یا چاکلیٹ کی لالچ دے تو ہر گز نہیں لینا چاۂے۔برے

                   لوگوں کے چنگل میں پھنس کر بچّے اکثر غائب ہو جاتے ہیں ۔‘‘

                  (عدنان کا جاسوسی کارنامہ، ص۔۷۔۸،مصنف۔ مناظر عاشق ہرگانوی،۲۰۱۳ء)

                  ’’کسی بھی چیز کو سمجھنے کے لیے سوچنا پڑتا ہے۔جتنا سوچوگے اتنے ہی معنی اور مطلب واضح ہوں

                   گے۔یہ عادت خود میں ڈالو۔میں بھی ہمیشہ سوچتا رہتا ہوں۔‘‘

                  (عدنان کا جاسوسی کارنامہ، ص۔۲۵،مصنف۔ مناظر عاشق ہرگانوی،۲۰۱۳ء)

اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے بچوں پر تعلیم کی اہمیت اور اس کا مقصد بھی واضح کیا۔

                  ’’تعلیم کے معنی صرف سکھانے یا آگاہ کرنے کے ہی نہیں بلکہ سنوارنے،نکھارنے اور تربیت

                   دینے کے بھی ہیں۔ہمیں چاہیٔ کہ اپنی سوچ کو صحیح اور تندرست بنائیں اور اپنے طرز عمل کو بھی

                   نکھاریں۔‘‘

                  (عدنان کا جاسوسی کارنامہ، ص۔۸،مصنف۔ مناظر عاشق ہرگانوی،۲۰۱۳ء)

         اس ناول کے ذریعہ تعلیم کی مقصدیت اور اہمیت کے ساتھ ساتھ بچوں کو ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ جیسی مشکلات سے بھی آگاہ کیا ہے۔گلوبل وارمنگ کا مطلب بچوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔تاکہ بچے اس کے نقصانات سے آگاہ ہوں اور اس سے بچنے کی کوشش کریں۔بچوں کو ماحولیاتی آلودگی سے ہونے والے نقصان سے آگاہ کر کے درخت لگانے کی طرف مائل کیا گیا ہے۔بچوں کو یہ سب سمجھانے کے لیے ناول نگار نے احمد کے ذریعہ یہ بات کہلوائی ہے۔

                  ’’احمدنے بتایا’’اسی لئے سرکار ہر سال درخت لگانے پر زور دیتی ہے۔ورنہ شہر میں تو ٹیکسیاں

                   اور دوسری سواریاں ،کار ،موٹر سائکل سبھی کچھ دھواں اڑاتی ہیں۔کاربن ڈائی آکسائڈ اور

                   دوسری گیس سے ہم زمین کی فضا کا درجہ حرارت بڑھاتے ہیں ۔اس کے لیے مصنوعی طریقے

                   اپناتے ہیں اورترقی کی دوڑ میں اپنے ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

                  (عدنان کا جاسوسی کارنامہ، ص۔۱۵،مصنف۔ مناظر عاشق ہرگانوی،۲۰۱۳ء)

         اس ناول کے ذریعہ بہت سی نصیحت آموز باتوں کو بڑی سادگی سے بچوں کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ایک جگہ بچوں میں غور فکر کی عادت کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں آپ فرماتے ہیں۔

                  ’’کسی بھی چیز کو سمجھنے کے لیے سوچنا پڑتا ہے۔جتنا سوچوگے اتنے ہی معنی اور مطلب واضح ہوں

                   گے۔یہ عادت خود میں ڈالو۔میں بھی ہمیشہ سوچتا رہتا ہوں۔‘‘

                  (عدنان کا جاسوسی کارنامہ، ص۔۲۵،مصنف۔ مناظر عاشق ہرگانوی،۲۰۱۳ء)

         مجموعی طور پریہ بھی سابقہ ناولوں کی طرح ایک کامیاب ناول ہے جو ادب ِ اطفال کے خزانے میں بیش بہا اضافہ ہے۔

         ناول کے ساتھ ساتھ مناظر عاشق ہرگانوی نے بچوں کے لیے کہانیاںبھی تحریر کی ہیں۔ کیوں کہ کہانی سننا بچوں کو بہت پسند ہوتا ہے  ۔اسی لیے آپ نے کہانی کا پیرا یا استعمال کیا اور کہانیوں کے مجموعے شائع کر کے بچوں کے مطالع کی میز تک پہنچا دئیے۔ایسی ہی دلچسپ کہانیوں کے مجموعوں میں سے ایک مجموعہ ’’جیسے کو تیسا ‘‘ رحمانی پبلی کیشنز کے زیر اہتمام ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا ۔۹۶ صفحات پر مشتمل اس تصنیف کی ابتدا ’’پہلی بات‘‘ سے ہوتی ہے جس میں مناظر صاحب بچوں کو لفظ کی طاقت اور اہمیت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں۔

                  ’’الفاظ کی آواز صرف کتابوں تک نہیں رہتی بلکہ ہر سو پھیلتی ہے۔اور عظیم حقیقت بن جاتی

                   ہے۔اس آواز میں مظاہر فطرت اور انسانی زندگی کے اتا ر چڑھاؤ سبھی کچھ شامل ہوتے ہیں۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا،مصنف۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ص۔۴،۲۰۰۹ء )

          الفاظ کی اس طاقت کو وہی محسوس کر سکتا ہے جسے انہیں سلیقے سے لفظ استعمال کرنے کا ہنر آتا ہو۔ اور مناظر عاشق ہرگانوی پر یہ بات صادق آتی ہے۔آپ الفاظ کے ذریعہ ہی اپنی کہانیوں کا تانا بانا بنتے ہیں اور اور بچوں کی نفسیات اور ماحول و فضا کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہانی تحریر کرتے ہیں۔اپنی کہانیوں کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے مناظر فرماتے ہیں کہ۔

                  ’’میری کہانیوں میں آواز کی گونج تو ہے ہی ،فطری رشتے بھی ہیں اور زندگی کا فلسفہ بھی ۔جنہیں

                   آپ دیکھتے ہیں اور جن کے بیچ آپ جیتے ہیں۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا،مصنف۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ص۔۴،۲۰۰۹ء )

         یہ سچ ہے کہ مناظر صاحب کی کہانیوں صداقت اور سچائی کی مظہر ہوتی ہیں اس لیے فطرت کے عین مطابق ہوتی ہیں۔اپنی کہانیوں کے ذریعہ کہانی کار اپنے مقصد میں کامیاب ہیں۔اس سلسلے میں آپ فرماتے ہیں۔

                  ’’اب جانچئے ،پرکھئے اور مسرت ڈھونڈئیے کہ الفاظ،فقرے اور خیالات سے کتنا انصاف ہوا

                   ہے۔اگر یہ کہانیاں آپ کے دل کو چھوتی ہیں،آپ کے ذہن کو بیدار کرتی ہیں۔آپ کے شوق

                   کو متجسس کرتی ہیں اور سچ کو سامنے لاتی ہیں تو میں کامیاب ہوں۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا،مصنف۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ص۔۴،۲۰۰۹ء )

         اپنی کہانیوں میں آپ نے قدیم و جدید معاشرے کے بیچ کی کشمکش کو بیان کیا ہے جس کے تحت دونوں پہلوؤں کی اچھائیوں اور برائیوں کی نشا دہی کی گئی ہے۔ایک جگہ آپ لکھتے ہیں۔

                  ’’ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔آج ہر چیز تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔بات

                   کرنے،سوچنے اور مخاطب کرنے کا طریقہ بھی بدلنا چاہیٔ۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا،مصنف۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ص۔۷،۲۰۰۹ء )

         اس مجموعے کی پہلی کہانی ’’بیٹے نے بتایا‘ ‘ہے۔یوں  تو یہ بچوں کے لیے لکھی گئی ہے لیکن اس سے ہم بڑوں کو بھی نصیحت ملتی ہے کہ ہم جدید کی فکر میں قدیم کو رسوا و ذلیل کرتے ہیں جیسا کہ آج کے زمانے کے کچھ ادیب و شاعر کر تے ہیں۔جس کے متعلق آپ لکھتے ہیں۔

                  ’’میں نے خود کو جدید کہلوانے کے لئے اتنا ہی پرانے اور عظیم شاعروں اور ادیبوں پر کیچڑ

                  اچھالے ہیں ۔جدید ہونے کے ناطے مجھے بھی پرانے لوگوں کا احترام کرنا چاہیٔ تھا۔لیکن

                   میں نے ایسا نہیں کیا۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا،مصنف۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ص۔۸،۲۰۰۹ء )

آپ کی یہ تحریر ان جدیدیت  پسندوں کے منھ پر تماچہ ہے جو جدیدیت کی آڑ میں قدیم شعراء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

         ڈاکٹر مناظر عاشق کی کہانیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر عبدالواسع فرماتے ہیں۔

                  ’’ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنی کہانیوں میں بچوں کے ذہن کی تربیت کی ہے۔اور انہیں

                   زندگی کی صالح قدروں کا سبق بھی دیا ہے۔وہ بچوں کی نفسیات کے عالم ہیں۔اور ان کے ذوق

                  و شوق اور میلان ِ طبع پر گہری نظر رکھتے ہیں۔اس کے ما سوا ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ان

                  کہانیوں میں ایسے اسلوب کا انتخاب کیا ہے جو سادہ،رواں ،دلچسپ اور براہِ راست ہے۔اس

                  وجہ سے ان کہانیوں کے ذر یعے جس امر کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے وہ بہت موثر

                   انداز میں ذہن نشین ہوتا ہے۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا، مصنف۔مناظر عاشق ہرگانوی، ص۔۹۵، ۲۰۰۹ء)

         اس کتاب میںکائیں کائیں،علاج،اصلی نقلی بریشہ،نصیحت، میٹھا گیت،لینے اور دینے کا فرق،سامنے کا سچ،گواہی،اداسی کی وجہ،جیسے کو تیسا،ادھ جلی لاش،دور اندیشی،آخری خواہش،تین رنگ ایک کہانی،وہ دونوں ،اسمبلی،زخمی چیتا،سراغ،یادوں کے پنکھ اور چڑی مار طوطاکے عنوان سے کہانیاں شامل ہیں اور ہر کہانی بچوں کے لیے خوشی اور تجسس کے ساتھ ساتھ ہمت ،حاضر جوابی،تیز ذہنی،ماں باپ کی فرما برداری،سب کے حقوق کی حفاظت کرنا،ایمانداری،حق بیانی،سچائی پر قائم رہنا،سبھی مذہب کا احترام،آپسی محبت و بھائی چارہ،قومی یکجہتی،مذہبی عقائد کی پابندی وغیرہ نصیحت سے آراستہ ہیں۔کیوں کہ یہ کہانیاں بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں اس لیے اس میں زبان بھی سادہ استعمال کی گئی ہے جسے بچے آسانی سے سمجھ سکے۔اس سلسلے میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی یہ رائے ملاحظہ کیجئے۔

                  ’’اردو میں بچوں کے اد ب کی بڑی کمی ہے۔نظم میں بھی ،نثرمیں بھی۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی

                   کا شمار ان اہل قلم میں ہے جنہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔اور کامیاب کوشش۔

                  بچوں کے لیے مناظر عاشق کے نثری ادب کی خوبی یہ ہے کہ بچے اسی سیدھی سادی اور دلکش زبان

                   میں یہ کہانیاں پڑھ کر کے اسی زبان میں دوسروں کو سنا سکتے ہیں۔بیان کی دلکشی مناظر عاشق کی

                   کہانیوں کی ایک قابل ذکر خصو صیت ہے۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا،مصنف۔ڈاکٹر مناظر واشق ہرگانوی، ص۔۹۴،۲۰۰۹ء)

آپ نے اپنی کہانیوں میں محاوروں کا استعمال بھی کیا ہے تاکہ بچے ان محاوروں کو پڑھیں اور ان کا مطلب سمجھ سکیں۔مثلاً۔

                  ’’چیتے نے سنا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔اسے لگا کہ اوپر والا اب اس کے اوپر کودنے ہی والا

                   ہے۔ضرور یہ آج مجھے ہی کھائے گا ۔بس چیتا نو دو گیارہ ہو گیا۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا،مصنف۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ص۔۲۳،۲۰۰۹ء )

                  ’’تم ذرا بھی فکر مت کرو۔میں اتنی آہستگی سے انہیں اپنے قبضے میں کروں گی کہ کسی کو کانوں کان

                   خبر نہیں ہوگی۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا،مصنف۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ص۔۵۱،۲۰۰۹ء )

         اس تصنیف پر آپ کو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے۲۰۱۲ء کے ادب اطفال ایواڈ سے بھی نوازہ گیا ۔اس کتاب کی کہانیاں جتنی بچوں کے لیے مفید ہیں اتنی ہی بڑوں کے لیے بھی فرحت کا سامان فراہم کرتی ہیں۔اس سلسلے میں ترنم جمال صاحبہ کا یہ قول ملاحظہ ہو۔

                  ’’ان کی کتاب ’’جیسے کو تیسا‘‘کئی بار میں نے اپنے شوہر پرویز کریم صاحب کو سنائی ہے۔وہ

                  دن بھر بزنس میں مصروف رہ کر گھر لوٹتے ہیں تو مناظر صاحب کی کہانیوں کو سن کر ان کی

                   تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔یہ کہانیاں ایسی ہی ہیں۔‘‘

                  (مناظر عاشق ہرگانوی سے انٹر ویوز، مرتب۔ترنم جمال،ص۔۶،۲۰۱۶ء)

         بچوں  کے ادب سے متعلق آپ کی  ایک اورکتاب ’’ہم دونوں کی غلطی ‘‘(کہانیوں کا مجموعہ)ہے۔ یہ کتاب بھی رحمانی پبلی کیشنز کے زیر اہتمام ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی۔یہ مجموعہ ۱۷ کہانیوں پر مشتمل ہے جن میں نیکی کا سفر،آچھیں،سوجھ بوجھ،چھٹنکی چوہا،پتھر شہزادہ،ہم دونو ں کی غلطی،قول،آداب بہن آداب، طاقت کا اندازہ،طوطے کی نصیحت،طوطے کی زمینداری،جب میں نے پہلا روزہ رکھا، بلا عنوان،قاتل کون؟،قتل کا معمہ،لمبی ناک والی شہزادی اورآئینہ والا بندر عنوان سے شامل ہیں۔یہ سبھی کہانیاں بھی سابقہ کہانیوں کی طرح نہایت دلچسپ اور مسرت بخش ہیں۔ان کہانیوں میں بھی بچوں کے لیے حیرت و مسرت کا سامان فراہم کیا گیاہے۔ پروفیسر گیان چند جین ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی ان کہانیوں کی خوبیوں کا احاطہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

                  ’’بچوں کی کہانیوں میں مناظر عاشق نے زیادہ توجہ،استعجاب آفرینی اور اخلاقی تلقین پر دی

                  ہے۔فوق الفطری کہانیوں میں دلچسپی اور تفنن ہوتا ہے مناظر صاحب نے اس کے بجائے

                   اخلاقی رہنمائی کی راہ پسند کرتے ہیں اور اس کی افادیت سے کیسے انکار ہو سکتا ہے۔لیکن

                   افادیت کے باوجود یہ کہانیاں دلچسپی سے معرّا نہیں۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا،مصنف۔ڈاکٹر مناظر واشق ہرگانوی، ص۔۹۴،۲۰۰۹ء)

         اس مجموعے میں شامل ’’قاتل کون؟ ‘‘اور’’ قتل کا معمہ‘‘ دونوں کہانیاں جاسوسی ناول کی طرز پر تحریر کی گئی ہیں۔ان دونوں ہی کہانیوں کا خاص کردار ملا نابالغ ہے جو اپنی سوجھ بوجھ اور چالاکی سے غفور اور نواب صاحب کے قتل کی گتھی سلجھاتا ہے۔یہ کہانیاں بچوں میں اس احساس کو عام کرتی ہیں کہ اپنے ذہن کا استعمال کر کے مشکلوں سے نجات پائی جا سکتی ہے۔

         مناظر عاشق کا جاسوسی کردار ملا نابالغ  ایک محنتی کردار ہے جو کام کو بڑی مستعدی سے انجام دیتا ہے۔اپنے کام کے دوران وہ بھوک پیاس کی بھی پرواہ نہیں کرتا ۔اس کردار کے ذریعہ آپ بچوں کو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنے مقصد کی حصولی میں اتنی ہی محنت کرنی چاہئے اور جب تک اپنی منزل پر نہ پہنچ جائیں تب تک آرام سے نہیں بیٹھنا چاہیٔ۔

         پروفیسر قمر رئیس ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی کہانیوں پرتبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

                  ’’مناظر عاشق  نے بچوں کے لئے کہانی کہنے کا ایک نیا انداز پیدا کیا ہے۔اس میں انہوں

                  نے جانوروں کو کردار بنانے والی پنچ تنتر کی بے مثل اور مشہور زمانہ کہانیوں سے بھی فائدہ

                   اٹھایاہے۔دوسری جانب انہوں نے بدلتے ہوئے حالات میں بچوں کی ذہنی ضرورتوں

                  کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔تاہم انہوں نے کہانی کہتے ہوئے صرف بچوں کی تفریح اور تفنن کے

                   مقاصد کو پیش نظر نہیں رکھا بلکہ ان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کو بھی خاص اہمیت دی ہے۔بلا شبہ

                   مناظر عاشق نے کہانی کا ایک نیا اسلوب وضع کیا ہے جو دلچسپ ہونے کی وجہ سے بچوں کے

                   ذہن کو پوری طرح گرفت میں لے لیتا ہے۔‘‘

                  (جیسے کو تیسا،مصنف۔ڈاکٹر مناظر واشق ہرگانوی، ص۔۹۴،۲۰۰۹ء)

قمر رئیس کی یہ رائے مناظر عاشق ہرگانوی کی کہانیوں کی تمام خوبیوں کو اجاگر کرتی ہے۔

ان کہانیوں کے مطالوہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مناظر عاشق ہرگانوی ہر مزاج کے بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔ان کہانیوں اور ناولوں کے ذریعہ بچّوں کی ذہنی آبیاریکرنے میں کامیاب ہیں۔اس موضوع پر تھریر کردہ ان کی نگارشات ادبِ اطفال کی ضرورتوںکو پورا کرتی ہیں اوربچوں کے لیے دلچسپی اور دلکشی کے در وا کرتی ہیں۔

***

Leave a Reply