You are currently viewing پروین شاکر اور ثمینہ راجا کی شعری خصوصیات کا تقابلی جائزہ

پروین شاکر اور ثمینہ راجا کی شعری خصوصیات کا تقابلی جائزہ

ڈاکٹر یاسمین کوثر

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو،یونی ورسٹی آف سیال کوٹ

کونب غضنفر

ایم فل اسکالر، شعبہ اُردو،یونی ورسٹی آف سیال کوٹ

پروین شاکر اور ثمینہ راجا کی شعری خصوصیات کا تقابلی جائزہ

Abstract

                 Parveen Shakir and Samina Raja are well reputed and influenced personalities of modern Urdu literature. They are known those poetess who distinctive feminine voice in Urdu poetry. They utilised several literary techniques and examined delicate topics to create a full image of the female experience. They are totally sincere and uncompromising towards poetry. In a comparison, both have differences as well as similarities to each other.   They are multi- directional, most creative and know how to convey their feelings through poetry. Their tone and sound of meter for traditional and literary well expressed. Their work gained iconic status in Urdu literature, we will explore how both have impact and differences on each other as well as Urdu literature.

Key words: Parveen Shakir,  Samina Raja, impact on Urdu poetry, delicate topics, feminine voice.

         کلیدی الفاظ:۔   پروین شاکر، ثمینہ راجا، اردو شاعری پر اثرات،  نازک موضوعات، نسوانی آواز۔

                 اردو شاعری کا جائزہ لیں ،تو شعراء کے ساتھ ساتھ شاعرات کی بھی ایک لمبی فہرست ہے ، جن کے بغیر اردو ادب ادھورہ اور نامکمل ہے۔  پروین شاکراور ثمینہ راجا ان میں اہم ترین  ہے ۔ جو مقام اورعزت ان کو حاصل ہے، وہ کسی اور کونہیں ۔ ان کے منفرد انداز اور چونکا دینے والے اسلوب بیاں نے اردو ادب اور خاص کر اُردوشاعرات کے راستے ہموار کیے ہیں۔ان کا شمار اُردو ادب کے درخشا ں ستاروں میں ہوتا ہے۔  ادب کی دنیا پر شعوری اور لا شعوری طور پر ان کی گہری چھاپ  ملتی ہے۔ وہ سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ حقوق نسواں کی زبردست علم بردار اور فطرت کی آگاہی کا بھرپور مظاہرہ  کرتی ہیں۔ دونوں ہی شاعری  میں تمثالوں اور استعارت کی مدد سے عورت کے جذباتی و نفسیاتی بحران ، رشتوں پر بے اعتباری اور روح عصر کی عکاسی کر تی ہیں۔ اُنھوں نے کسی بھی موضوع پر بےباکی سے لکھااور فکری لحاظ سے زمانے کی ضرورت کے مطابق اپنے نظریات کو اس سانچے میں ڈھالا۔ جہاں پروین شاکر کو خوشبوں اور نو خیز جذبوں کی شاعرہ کہا جاتا ہے تو ثمینہ راجا کو خوابوں سے بنی  شاعرہ مانا جاتا ہے۔  پروین شاکر کے بارے میں  ڈاکڑ محمد تنویر نے کہا:

“پروین  کی شاعری میں دلی جذبات کی عکاسی ہوتی ہےیعنی جو دل میں ہوتا ہےاسی کا نقش وہ اپنی شاعری میں ڈھالتی ہیں۔ انہیں شعر گوئی کا ملکہ اور نسوانی جذبات کے اظہار پر کمال حاصل تھا۔وہ بے حد مہذب شائستہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں ۔ ان کا انداز ِ گفتگو بہت عمدہ اور  وہ اپنی گفتگو میں مشکل اور ثقیل الفاظ سے گریز کرتی تھیں اور نرم مزاجی کے باعث دھیمے لہجے میں باتیں کر تی تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ‘میں جو ہوں وہی ہوں ویسے ہی سامنے رہنا چاہتی ہوں'(1)

                 ثمینہ راجا بھی  اُردو ادب کا ایک بڑا نام ، انتہائی سنجیدہ مزاج اور بلند آہنگ شاعرہ ہے۔ اُن کے کلام میں فکر انگیزی،رفعت اور وسعت آ میزی کا عنصر غالب رہا ہے۔ان کے کلام میں فلسیفانہ فکر کی انفرادیت اپنے درجہ کمال کی طرف رواں دواں ملتی ہے۔کلام اس انداز سے کہتی کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ثمینہ راجا کی شاعری دراصل عشقیہ ہونے کے علاوہ ان کا لہجہ نہایت عمدہ اور منفرد اہمیت کا حامل ہے۔انھوں نےاپنے کلام میں جس تخیل پردازی کا مظاہرہ کیا کسی اور کے ہاں نایاب ہی ملتا ہے۔اُن کا تصور حیات نہایت پختہ اور بے باک ہونے کے ساتھ وہ سادہ لفظ آہنگ میں انسانی رشتوں کی تمام گہرائیوں کے ساتھ جذبوں کا ارتفاع بھی کرتی ہیں۔ثمینہ سچی اور کھری شاعرہ ہیں جو حقیقت کو اپنے انداز اور منفرد لب و لہجے سے پیش کرتی ہیں۔

فتح محمد ملک  ثمینہ راجہ  کے بارے میں  لکھتے ہیں:۔

“گزشتہ نصف صدی کے دوران اردو شاعری کے آفاق پر طلوع ہونے والے تخلیقی فنکاروںمیں ثمینہ راجہ ایک منفرد اور ممتاز مقام کی حامل ہیں۔ تخلیقی وفور اور سلاست اظہار میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شعری وفور اس بات کا ثبوت ہے کہ خالق اکبر نے انہیں بھر پور تخلیقی صلاحیتوںسے نوازا ہے۔جاگیرداری نظام کے زنداں میں آنکھ کھولتے اور ہوش سنبھالتے ہی انہیں شاعری اور غم میں اسیری کی دولت ِنایاب سے سر فراز کیا گیا۔ اس لیے وہ بیک وقت فروغِ فن اور ترکِ دنیا کی راہ پر گامزن ہیں”(2)

            پروین شاکر اور ثمینہ راجا کی شاعری میں نئی جہدت ہے۔ موضوع کے اعتبار سے تو بظاہر کچھ بھی مختلف نہیں ملتا مگر جذبات اور اسلوب بیان ایسا  ہے کہ پڑھنے والے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شعوری اور لا شعوری طور پر پروین شاکراور ثمینہ راجا کی تخلیقی شاعری ،ان کی سوچ اور خیالات پر زمانے کی تلخیوں کی چھاپ گہری اور نمایاں ملتی ہے۔ دونوں ہی عصری سچائیوں اور انسانی رویوں  پر ایک مضبوط آواز بلند کرتی نظر آتی ہیں۔پروین شاکر اور ثمینہ راجا دونوں نے  حالات اور معاشرے میں ہونے والی سماجی اور سیاسی ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ ذاتی کیفیات کی ترجمانی سے لے کر عہد حاضر کی تمام مسائل پر بات کی ہے۔ سیاسی دور کی دونوں شاعرات نے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی اور اپنے کلام میں بر مِلا اظہار بھی کیا۔ حکمرِان وقت کے لیے سخت الفاظ اور طنزو ملامت کرتے ہوۓ زارا بھی جھجک کا مظہرا نہیں کیا۔ روبینہ شبنم، پروین کے بارے میں لکھتی ہیں ۔

                    “اہل اقتدار کے قول و فعل میں تضاد پر پروین نے روشنی ڈالتے ہوۓ ان کی فطرت کو داضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہ ان میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور شاید سیاست میں یہ سب کچھ ضروری بھی ہے۔”(3)

اپنی ایک غزل میں پروین شاکر لکھتی ہیں:۔

ظلم کے ہاتھوں اذیت میں ہے جس طرح حیات

ایسا لگتا ہے کہ اب حشر ہے کچھ دیر کی بات

روز اک دوست کے مرنے کی خبر آتی ہے

روز اک قتل پہ جس طرح کہ مامور ہے رات(4)

                اپنے ملک اور قوم سے کس کو پیار نہیں ہوتا ، جب ملک و قوم کے حکمران ظالم سے سیاسی مصحلت آمیز دوستی اور وطن سے بے توجہی کا مظاہرا کیا جاتا ہے تو فنکار اپنے دکھ اور غصے بھرے جذبات کا اظہار ضرور کرتا ہے۔ثمینہ راجا نے بھی پروین کی طرح سیاست پر کھل کر بولا ۔ ان کو ضیاءالحق سے سخت چڑ تھی ،اُن کا کہنا تھا کہ یہ شخص انتہائی جھوٹا اور انا پرست ہے۔صنف نازک تو ہر حال میں کسی نہ کسی ظلم و استحصال کا شکار رہی ہے۔ان کا تعلق فیوڈل ماحول سے تھا ،جہاں ابھی بھی  گھٹن اور سخت پہرے ہوتے ہیں سو وہ اس طرح کے ماحول اور گھٹن کے خلاف احتجاج کرتی ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے کی شاعری کا ذائقہ تلخ ہے۔ ثمینہ نے ایسے سوالات اُٹھائے جن کے جواب آج بھی تشنہ ہیں۔سماجی  طبقاتی نا انصافیوں کے با رے میں کھل کر لکھا۔ تاریخ کے عہد و جبر کا رنگ  پروین کے لہجے کی  طرح گہرا اور واضح  ملتا ہے۔

“ہویدا ” میں  لکھتی ہیں ۔

میں اپنے گِرد

پتھر کی فصیلیں کیوں نہ استادہ کروں

احساس کے شیشے کے محلوں میں

مجھے یہ لوگ رہنے ہی نہیں دیتے

کوئی آنسو بھی آنکھوں میں چمک جائے

تو یہ پتھراؤ کرتے ہیں (5)

امجد اسلام امجدروزنامہ اردو میں  ثمینہ کے بارے میں کہتے ہیں۔

               ” اس کی شاعری میں  چونکانے اور آنکھیں خیرہ کر دینے والی چکا چوند  تو کم کم تھی  مگر خیال کی انفرادیت، گہرائی، اسلوب کی تازگی اور اپنے موضوع کی تہہ تک اُترنے کی صلاحیت اس معیار کی تھی کہ اب اس کا شماراپنے عہد کی نمائندہ نسائی آوازوں میں ہونے لگا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے قرآن مجید کی کچھ سورتوں کا منظوم ترجمہ بھی کیا اور بہت منفرد انداز کی نعتیں بھی لکھیں۔ گزشتہ چند برسوں میں اس کے کئی شعری مجموعے یکے بعد دیگرے منظر عام پر آئے لیکن چونکہ اس کا تعلق کسی ادبی گروہ سے نہیں  تھا اس لیے اس کے فکر و فن پر بہت کم لکھا گیا جو اپنی جگہ پر ایک افسوس ناک حقیقت ہے۔” (6)

                  پروین شاکر کے اسلوب بیان ان کے ذاتی تجربات اور نسائی لب و لہجے کی عکاسی ملتی ہے۔ پروین شاکر تاثر اور تخیل کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ ان کی شاعری میں مختلف تجربات کے ساتھ ساتھ آزاد اور پابند نظموں میں طبع آزمائی ملتی ہے۔ ان کے بنیادی صفات میں نئے نئے استعارات اور انفرادیت شامل ہیں۔ سادہ زبان میں گہرے اور پیوست مصرعوں کا استعمال ملتا ہے۔انکی شاعری میں خوشبو، تتلیوں، ہوا، بارش،رات جگنو اورپھول وغیرہ کاذکر بارہا ملتا ہے۔ دونوں  شاعرات کا فکری اور تخلیقی کینوس بہت ملتا جلتا ہے۔منفرد لب ولہجہ اور زاویہءنظر، ان کی شاعری میں لفظ اورمعنی کا رشتہ برقرار  ہونے کے ساتھ لفظیات، تشبیہات اور علامتوں کا استعمال بڑی سنجیدگی سے کیا ہے ۔

راحت ملک پر وین شاکر کے شعری سفر کے بارے میں  اپنے خیا لات کا اظہار اس طرح کرتے  ہیں:۔

          “حقیقت یہ ہے کہ”خوشبو” سے “انکار” تک کا سفر خودشاعرہ کے فکر و فن ، شعوروآگہی، فرد سے سماج کے باہمی رشتوں اور تصادم سے ابھرنے والی تلخ حقیقتوں کے ادراک اور اظہار کا ارتقا بھی تھا اور سفر بھی۔۔۔۔۔وہ رومانیت ہی کی نہیں عقلیت کی بھی شاعرہ ہے۔” (7)

              پروین کی شاعری میں ان کا عہد سانس لیتا ہے۔ زندگی کی مختلف رنگ اور لہریں ان کے اسلوب بیان سے نمایاں کرتی ہیں ۔ اُنھوں نے صرفی قواعد و ضوابط اور اسرارورموز سے پوری واقفیت سے شاعری میں رنگ بھرے۔ اُن کی شاعری تخیل کے ایسے بل کھاتے راستے سے گزارتی ہے کہ مسافر گلِ معنی کی لذت سے آشنا ہوتے ہوئے  منزل کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ پروین کے اندازِ سخن میں انا، خوداری اورشعورکی بلندوں کا سفر نظر آتا ہے۔ان کے یہاں میرکی جھلک بھی ملتی ہیں۔اپنی ہی ذات کے متعلق تخلیقی اظہارمیں اپنی دلی کیفییت اور جذبات کی شدت کا برمِلا اظہار کیا۔انھو ں نے معمولی الفاظ سے گہرے اور وسیع معنی سے قاریئن کو متعارف کروایا۔ جیسے کہ انھوں نے کہا:۔

“بیٹھی ہے بال کھولے ہوۓمیرے پاس شب

آئی ہے کون شہر سے اتنی اُداس شب

میں چُپ رہی تو رات نے بھی ہونٹ سی لیے

میں اس کا پیرہن ہُوں تو میں لباس شب (8)

              ثمینہ راجا کے ہاں بھی  پروین شاکر کے انداز کا سا  اسلوب بیان ملتا ہے۔ ثمینہ نے اسلوبی سطح پر اپنے تخیل اور فکروفن کو اپنی شاعری میں ڈھالا۔انھوں نے اپنے نازک خیال اور خوبصورت اندازِ سے اردو ادب کے دامن کو وسیع کرنے میں کردار ادا کیا۔ بحیثت شاعرہ ان کے یہاں انفرادی شعوربیدار ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اور یہ ہی تخلیقی شخصیت کی پختگی کا عہد ہوتا ہے۔ شاعری کی دنیا میں یہ عہدآفریں  بن کر اُبھری ، انھوں نے اپنی صلاحیت و جرات اور ہمت کے ذریعے ہر لمحہ آگے بڑھنے کی سعی کرنے کے ساتھ ساتھ لا شعوری طور پر اردو اداب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیتی رہی۔ پروین کے ملتے جلتے انداز میں ثمینہ کی ایک غزل کے چند مصرعے۔

“بال بکھرۓ ہوۓ رات چلی آتی ہے

دل میں بھولی اک بات چلی آتی ہے

قریہء ہجر میں پھیلی ہے عجب خاموشی

نیند آنکھوں میں نہیں

خواب نگاہوں میں” (9)

احمد ندیم قاسمی ،ثمینہ راجہ کی تخلیقی صلاحیتوں  اور جدید حساسیت کو اپنے انداز سے دیکھتے ہوئے ان الفاظ میں اظہارِ خیال کر تے  ہیں۔

          ” ان کی شاعری میں ذات کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کے  رنگ بکھیرے ہوئے ہیں۔ جن پر محبت کا جگمگاتا ہوا رنگ غالب ہے۔مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہےکہ بے پناہ تخلیقی وفور کے باوجود وہ خود اپنی شاعری کی کڑی نقاد ہیں۔اور ضرورت سے زیادہ آواز بلند نہیں کرتیں۔اوزان و بحور پر مکمل گرفت، خوب صورت ترین آہنگ، شدیداورجدیدحساسیت اور حسیت ان کی شاعری کے نمایاں اوصاف ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تمام تخلیقات جادو کا اثر رکھتی ہیں۔ اور ان میں روح عصر کی دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے۔ “(10  )

            ثمینہ راجا اور پروین شاکرکے یہاں روایت اور ثقافت کی بیک وقت مخالفت اور پاسداری ملتی ہیں۔ بہت سے لوگ تصور کرتے ہیں کہ دونوں باغی ہیں ،اور روایت سے انحرف ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ تجربات کی سچائیوں کا بے باک اظہار اور روایتی جذبوں کے حوالے سے دونوں کے خیالات ایک ایسی فضا قائم کرتے ہیں ۔ کہ روایتی معاشرہ ڈگمگاتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر یہ تاثر غلط ہے کہ  دونوں باغی ہیں ،بلکہ ان کی شاعری میں معاشرے کے فرسودہ روایات اور مردوں کے استحصال کے  خلاف آواز بلند کر کے افکارومسائل پر بات کی ہے۔  سماجی زندگی میں خواتین کے حقوق اور آزادی کے بارے میں ہوش مندی اور بے باکی سے احتجاج  کیا ۔ دونوں ہی سچی اور کھری  صفات کے ساتھ شعوری اور لا شعوری طور پر معاشرے کی ترقی اور خاص کر نسائی فلاح لے لیے کو شاں ملتی ہیں۔

اس سلسلے میں کشور ناہید  ، پروین شاکر کے بارے میں کہتی ہیں:۔

           ” پروین شاکر نے دہرائے ہوئے جذبوں کو دہرا کر شاعری نہیں کی۔ اس نے رو کر، التجا کر کے اپنی مشرقیت کی لاج رکھنے کا ہُنر بھی نہیں آزمایا۔ پروین شاکر نے ایک فرد کو معاشرے کی تہذیب یا فتگی کے باوجود وحشیانہ سزاؤں کی تپتی ریت پر پا برہنہ چلنے پر مجبور ہوتے دیکھا ہے، مگر جذبہ عشق سلامت رکھتے ہوئے ، اپنے حوصلے کی قندیل فزوزاں کیے، نہ دھجی ھجی جمع کرتی ہے، نہ مجرموں کو احساس جُرم کے کچو کے دیتی ہے، بلکہ ےیوں اشارے کرتی ہے کہ “جھتے بُہتیاں قبراں، اوہوئی وڈے گراں ” اردو شاعری کے گزشتہ اور آنے والے دس سال بھی، شاعرات اور خصوصا پروین کے عطا کردہ اسلوب کے آیئنہ دار ہوں گے۔” (11)

                  انہی کے وسیلے سے ہم دیکھتے ہیں عورت وقتا فوقتا  اپنے حق میں آواز اُٹھاتی اور اپنے حقوقکا مطالبہ کرتی  ہے  معاشرے میں اخلاقی جبرواستحصال کی زنجیریں توڑنے اور آزادی کےلیے لڑتی نظر اتی ہیں۔موضوعات میں گہرائی اور ذومعنی الفاظ کے چناؤ سے زندگی کے فلسفے کو تہذیبی تناظر سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔  ثمینہ راجا کا تعلق ایک فیوڈل گھرانے سے ہے،جہاں عورت کی آزادی کا تصورسرے سے موجود ہی نہیں۔ ایسے حالات میں انھوں نے بھی جابجا سماج کی برئیواں اور خاص کر عورت کی آزادی  خود ارادیت  کے بارے بات کرتی اور ان کو حوصلہ دیتی ہیں۔گھٹن زدہ ماحول اور قید اضطراب سے آزادی کے لیے تگ و دوان کی شاعری کا بڑا عنصر ہے۔ انھوں نے تہذیبی اور معاشرتی حالات کی جانکاری کے ساتھ اپنے ارد گرد کی سفاکی کو بھی موضوع بنایا۔ ثمینہ راجہ  لکھتی ہیں ۔

“مری سنسان خموشی کی خبر پا کر نجانے کتنے

بے ریا لوگ مرے پاس آئے

مرے ہمدرد، بہی خواہ، بہت پیارے لوگ

چاہتے ہیں کہ میں کچھ تو بولوں

کو ئی تو بات کروں “(12)

      ثمینہ راجا اور پروین کے یہاں تخیل کے ساتھ تاثر بھی ہے۔وہ جب محبت کے موضوع پر بات کرتی ہیں توفن کی لطافتوں، خیال کی رعنائیوں اوربیان کی سادگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اظہارِخیال کے لیے مناسب الفاظ اور آسان اسلوبِ بیان کا استعمال با آسا نی ملتا ہے۔ محبت کے ماملے میں دونوں شاعرات نہایت جرات مند اور بہادر ثابت ہوئیں۔ ان کی شاعری میں انسانی تناظر، یادوں، عصر حاضرکے سماجی و نفسیاتی مسا ئل اور حقیقت نگاری کے جابجا عنصر ملتے ہیں۔پروین شاکر کے مجموعہ کلام  میں ایک عورت کے جذبات اور احساسات کی عکاسی اس طرح  ملتی ہیں۔ اپنے مجموعہِ کلام”خوشبو ” میں لکھتی ہیں :

“دن میں کیسی لگتی ہوگی،سوچتی ہوں

ندی کا سارا حسن تو چاند کے عکس میں ہے

میری اچھائی تو سب کو اچھی لگی!

اُس کے پیار کا مرکز میرے نقص میں ہے

ایسی خالی نسل کے خواب ہی کیا ہونگے

جس کی نیند کا سر چشمہ تک چرس میں ہے  “(13)

                  اسی تناظر میں ثمینہ راجا کے خیالات بھی بہت پختہ اور وسیع تر ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کی شاعری سے اگر جذبات کا خالص پن اور حساسیت کا رنگ روپ نکال دیں تو باقی بچتا کچھ نہیں ۔ازداجی زندگی کی ناخوشی اور عدم توازن کے باعث ان کی نظموں اور غزلوں میں نسوانی جذبات کی حقیقی عکاسی پائی جاتی ہے۔اور اسی وجہ سے ان کے کلام میں تاثر پذیری کے اثرات بھی زیادہ ہیں۔اان کے یہاں عشقیہ عنصر اور رحجانات ایک مختلف انداز میں ملتے ہیں،وہ کم و بیش ہی رمزو کنایہ سے کام لیتی ہے۔ان کے انداز میں مشرقی پن ٹپکتا ہے۔   پروین کی طرح ان کے کلام میں بھی  ‘خوشبو’، پھول’، ‘ دشت’، صحرا’، ‘سورج،’چاند’، وغیرہ کہ استعارہو تشبیہ کے طور پر استعمال ہوئے ہیں  ۔  “پری خانہ ” سے چند اشعار:

عجب گلاب کھِلا ہے کہیں گلابوں میں

مہک رہا ہے کوئی باغ میرے خوابوں میں

نگاہِ شوق سے آگے بھی کوئی بات چلے

یہ رات بیت نہ جائے کہیں حجابوں میں(14)

            ثمینہ راجا اور پروین شاکر کی شاعری  ان کے  فکر و فن اور مزاج کی انفرادیت کے ثبوت دیتی ہے۔ دونوں ہی اپنے عہد کی باکمال اور نمائندہ شاعرات ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق  صنف غزل اور نظم میں نکھار ، کلام میں نوعیت ، طرزِ ادا اور منفرد لہجے کے باعث  شاعری کے میدان میں نمایاں کردار پیش کیا۔ان دونوں ہی شاعرات نے اپنے الفاظ کے انتخاب، تشبیہات اور علامتوں میں ایسی جدت پیدا کی کہ  بلاشبہ ادب سے تعلق رکھنے والے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ  سکتے۔انھوں نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے فنی اور لسانی ضابطوں کو آزادانہ اور خوبصورت ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ پروین شاکر کے یہاں بھی  طنز اور تیکھا پن بھی ملتا ہے جس سے ان کی شخصیت کا ایک خوبصوت پہلو قارئین پر ظاہر ہو تا ہے۔

طنز سے بھر پور  ان کی نظم  “فبای آلاءِ ربکما تکذ بن” :

دلآزاری بھی اک فن ہے

اور کچھ لوگ تو

ساری زندگی اسی کی روتی کھاتے ہیں

چاہے اُن کا بُرج کوئی ہو

تیسرے درجے کے پیلے اخباروں پر یہ

اپنی یرقانی سوچوں سے

اور بھی زردی مَلتے رہتے ہیں

مالا باری کیبن ہو ں یا پانچ ستارہ ہوٹل

کہیں بھی اے کرنے سے باز نہیں آتے

اوپر سے اس عمل کو

فقرے بازی کہتے ہیں

جس کا پہلا نشانہ عموما

بل کو ادا کرنے والا ساتھی ہوتا ہے!( 15)

آفتاب احمد ، پروین شاکر کی شاعری کے بارے میں اپنے خیالات اس طرح کہتے ہیں:۔

                  “پروین شاکر نے اپنی شاعری کا آغاز خوشبو کے وطن، یعنی خوش رنگ پھولوں، خوشنما رنگوں اور خوشنوا طائروں کی وادی سے کیا، مگر جلد ہی زندگی نے ان کی راہوں میں کانٹوں کے جال بچھا دئیے۔ “(16)

               ثمینہ راجہ  نے مرقع کشی میں چھوٹی اور معمولی جزئیات کو بھی نظر اندازنہیں کیا۔ ان کی شاعری میں ایسے بھی شواہد ملتے ہیں جہاں وہ وفاپرست اور مکمل عورت کی عکاسی کرتی ہیں۔ کچھ لوگ ثمینہ راجا کو  اکھڑ مزاج اور نک چڑھی تصور کرتے ہیں ۔ ان کے خیال میں ثمینہ راجہ خوش اخلاق اور سلیقہ مند خاتون نہیں ہے۔ دراصل وہ بہت سنجیدہ اور خودار خاتون تھی۔ وہ کسی کی خوش آمد کرنے کی بجائے اپنے کام سے کام رکھنے والی باہمت اور بہادر خاتون اور شاعرہ تھی۔  شاعری کے میدان میں انھوں نے اپنی  تخلیقی اور غیرمعمولی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ موضوعات کے اعتبار جو منفرد انداز انھوں نے اپنایا  شروع  سے  آخری دم تک اس پر عمل پیرا رہی۔روزنامہ دنیا میں لکھا:۔

                                       ” ثمینہ راجہ عجیب و غریب شاعرہ تھی۔ وہ اپنے عہد کی تھی ہی نہیں ‘وہ کسی اور زمانے کے لیے آئی تھی’ موجوہ عہد اسے قبول بھی کیسے کر سکتا تھا۔ وہ منافقت، چالاکی اور مصلحت پسندی سے دور تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔وہ پہاڑوں سے نکلنے والا چشمہ، چوٹیوں پر پڑنے والی برف اور جنگل میں کھلنے والا پھول تھی۔ اہل دہر کےلیے وہ ناموس اور اجنبی تھی مگر اسے بھی تو کسی کی پروا نہیں تھی۔ ” (17)

               ثمینہ کے یہاں روحوں کے ملن کی بڑی اہمیت ہے۔کلام میں گھٹن اور آواز کے دبنے کے اثرات جا بجا ملتے ہیں۔انھو ں نے نفسیاتی خواہشات کے حوالے سے رمزوں اور کنایوں کا بہت خوبصورتی سے سہارا لیا۔ ثمینہ راجا  حالات کی نزاکت اور معاشرے میں ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا ادراک رکھتی تھیں۔ان کے کلام میں کسی ایک پہلو کی بجائےزندگی کے ہر شعبے اور احساس کو احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے  حقوقِ نسواں کےلیے احتجاج ، نظریات کی ترجمانی اور انسانیت کے حقوق کی آواز بلند کی۔عہدِ حاضر کے تقریبا تمام مسائلاپنے دامن میں سمیٹتے ہوئےخواتین کو حیات کائنات کے نئے زاویے ری طرف متوجہ کیا۔ اردو ادب میں ثمینہ نے اپنے افکار کی غیر ارادی تسلسل، خیالات میں موزونیت، تشبیہات کی نئی معنویت سےاکثر شعری اصناف میں لطافت پیدا کی۔”کتاب¸جاں ” میں اُن کی ایک نظم اس طرح ہے۔

نظر کے سامنےدریا تھا ہم بھی پیاسے تھے “

مگر مناہی پہ دل کی اُسے سراب کِیا

یہ ٹھیک ہے کہ زمانے کو ہے بہت مطلوب

مگر یہ دیکھ، تجھے کس نے انتخاب کِیا

اور اب بدن سے وہ بوئے سفال آتی نہیں

ہَوائے شہر نے ہم کو بہت خراب کِیا”  (18)

                                  ان کے فکروفن پرتنقیدی  نگاہ ڈالی جائے تو قارئیں دیکھتے ہیں کہ ان کاقلم حرکت میں آتا تووہ سماج کے اونچے طبقے اورظلم و ستم کے خلاف بے باکی سے لکھتی۔ ان کے ہاں غمِ جاناں اور غمِ دوراںکی جھلک واضح ملتی ہے۔دونوں ہی مختلف لہجوں میں ایک ہی نظریہ پیش کرتی ہیں۔قارئین کوان کی شاعری میں نغمگی، روایت، پیکر تراشی اور نسانی جذبات ملتے ہیں۔

              ثمینہ راجا اور پروین شاکر کی شعری خصوصیات کے تقابلی جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انھوں نےاردو ادب میں بہت گہرے اور متاثر کُن اثرات چھوڑے ہیں۔ یہ شاعری میں خواتین کے حقوق، اور معاشرے کی ہٹ دھرمی کے بارے میں احتجاج کرتی تھیں۔اور معاشرے کی اصلاح کے لیے کوشاں تھی۔ نسائی جذبے کے حوالے سے ان کا لہجہ شفاف اور پختہ ہے۔تجربات میں تیکھاپن اور کڑواہٹ کے اثرات بھی نمایاں ملتے ہیں۔     نفسِ مضمون میں جدید علامتوں کا استعمال، اردو نظم اور غزل کو صحیح برتنے کا سلیقہ خوب آتا تھا۔اپنی بصیرت اور روایتی معاملات سے اپنا پیغام رسائی میں ہر رکاوٹ کو عبور کیا ،  اردو شاعری میں تخلیقی جذبات کے ساتھ روایتی اور ادبی لحاظ سے ایک نئی راہ اور نئے اسلوب سے آگاہ کرنے کی سعی ملتی ہیں۔اسلوب بیان اور نظریات کے حوالے سے فرق کے باوجود  ان کے بہت سے عنصر اور خصوصیات مشترک ہیں۔ ایسے تخلیق کار کم ہی ہوتے ہیں جن کی تخلیقات کے پس پردہ ایک مرکزی تخلیقی واردات کار فرما ہو۔ شعری لطافتوں اور اظہار و بیان کی خصوصیات کے حوالے سے دونوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے اپنے اپنے دائرے ہیں۔ مگر   جہاں تک اسلوبِ بیاں کے خدوخال کا تعلق ہے، تو دونوں نے طرز اظہار میں اپنے سماجی، سیاسی، معاشی اور اجتماعی خیالات کو اپنی فکری و تہذینی روایت کے  سر چشموں سے سیراب کرنے کی ایک کوشش ضرور کی ہے۔

              اُنھوں نے اُ ردو شاعری کو حقیقی زندگی اور اس کے مسائل کو سچے جذبوں کے ساتھ پیش کرنے کی بھر پور سعی کی ہے۔دونوں نے ہی انسانیت کے وقار اورسربلندی کو اپنی شاعری میں اولین ترجیح دی اور عدل و انصاف کی آرزو مند رہیں۔ ان کی شاعری میں معاشرے کے منفی رحجانات کو مخاطب کیا گیا ہے۔دونوں ہی کی اپنے اپنے دائرےاسلوب میں حیرت انگیز حد تک مضبوط گرفت نظر آتی ہیں۔ان کے کلام میں حقیقت پسندانہ اظہاراور زندگی کے تلخ رویے کی چھاپ نمایاں ملتی ہیں، پروین شاکر اور ثمینہ راجہ کی شعری خصوصیات کو دیکھتے ہوئے قارئین یہ احساس کیے بنا نہیں رہ سکتے کہ دونوں ہی کی آوازیں جدید  شاعری کے لیے ایک مشعل راہ ہے، جو مستقبل کے شعراء اور خاص کر شاعرات کے لیے اُمید کی کرن ثابت ہوں گی۔

حواشی:۔

1)-محمد تنویر، ڈاکٹر ، پروین شاکر کی شاعری: اک تنقیدی جائزہ،(ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس، دہلی،2014ء)ص:14

2)۔فتح محمد ملک، فلپ، کتابِ جاں از ثمینہ راجہ ( خزینہ علم و ادب،  الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور، 2005ء )

3)-روبینہ شبنم، ڈاکٹر ، اردو غزل کی ماہِ تمام پروین شاکر (ماڈرن پبلیشنگ ہاوس، نئی دہلی،2004ء):128۔ 129

4)- پروین شاکر، کف آیئنہ ( مراد پبلی کیشنز، اسلام آباد)ص :72

5) – ثمینہ راجا ، ہویدا (مستقبل پبلی کیشنز،اسلام آباد،دسمبر 1995ء)ص  :48

 6)امجد اسلام امجد، (ڈیلی اردو کالمز  23 نومبر 2012ء ) ص :کالم                                                            https://columns.pk/category/amjad-islam-amjad/

7)راحت ملک، پروین شاکر شخصیت، فکر و فن،( اسلام آباد: مراد پبلی کشنز ،  1995ء) ص: 433-437

8)- پروین شاکر: انکار(مراد پبلی کیشنز، اسلام آباد،مئی 1990ء)ص :34

9)-  ثمینہ راجا : ہفت آسماں، 2001ء) ص: 151

10)۔احمد ندیم قاسمی، فلپ، کتابِ جاں از ثمینہ راجہ ( خزینہ علم و ادب،  الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور، 2005ء )

11)۔ کشور ناہید، فلپ ، صد برگ از پروین شاکر (غالب پبلشرز، لاہور، فروری 1980ء)

12)- ثمینہ راجا ، ہویدا ، ص :166

13)۔پروین شاکر، خوشبو، (تنویر پریس لکھنؤ ، دسمبر 1980ء)ص  :130

14)- ثمینہ راجا، پری خانہ(الحمد پبلی کیشنز، لاہور، ستمبر 2002ء)ص  :149

15)-  پروین شاکر، ماہِ تمام(  ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس، دہلی ،2008ء)ص : 56

16)۔ آفتاب احمد، مضمون پروین شاکر (ماہ نامہ ‘شاعر’ شمارہ:12) ص:12

17)۔ آہ۔۔۔۔ ثمینہ راجہ ، (روزنامہ دنیا، لاہور، 6 نومبر 2012ء) اسپثل فیچر۔

18)- ثمینہ راجا ، کتابِ جاں ،ص  :65

مآخذ:۔ 

1)-محمد تنویر، ڈاکٹر،پروین شاکر کی شاعری: اک تنقیدی جائزہ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس، دہلی،2014ء

2)۔فتح محمد ملک، فلپ، کتابِ جاں از ثمینہ راجہ، خزینہ علم و ادب،  الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور، 2005ء

3)- روبینہ شبنم، ڈاکٹر،  اردو غزل کی ماہِ تمام پروین شاکر (ماڈرن پبلیشنگ ہاوس، نئی دہلی،2004ء

4)- پروین شاکر، کف آیئنہ ، مراد پبلی کیشنز، اسلام آباد

5) – ثمینہ راجا ، ہویدا ،مستقبل پبلی کیشنز،اسلام آباد،دسمبر 1995ء

6)راحت ملک، پروین شاکر شخصیت، فکر و فن،، اسلام آباد: مراد پبلی کشنز ،  1995ء

8)- پروین شاکر: انکار،مراد پبلی کیشنز، اسلام آباد،مئی 1990ء

9)۔ آفتاب احمد، مضمون پروین شاکر ،ماہ نامہ ‘شاعر’ شمارہ:12

10)۔پروین شاکر، خوشبو، (تنویر پریس لکھنؤ ، دسمبر 1980ء

11)- ثمینہ راجا، پری خانہ(الحمد پبلی کیشنز، لاہور، ستمبر 2002ء

12)-  پروین شاکر، ماہِ تمام(کلیات)   ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس، دہلی ،2008ء

***

Leave a Reply