سید تالیف حیدر
ریسرچ اسکالر
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
چاکی واڑہ میں وصال
چاکیواڑہ میں وصال اردو کے جدید ذہن کے مالک ، ناول نگار محمد خالد اختر کا شاہکار ہے ،مصنف نے یہ ناول اپنے دوست ریاض الرحمن اسکوئر عرف ریاضنیو کے نام کیا ہے ۔اس کی ابتدا انتساب سے ہوتی ہے۔ انتساب دو صفحات کا دلچسپ انداز میں لکھا ہوا ایک مختصر خط ہے۔ جس میں مصنف اپنے دوست کو یہ بتاتے ہوئے کہ اس ناول کو اب شائع کروارہا ہے جسے وہ اور مصنف ایک عرصے تک بغل میں دبائے کئی پبلشرز کے دروازوں سے مایوس لوٹائے گئے تھے اور وہ اس کے سحر سے ناوقف تھے۔ مصنف نے بتایا کہ اس ناول کو منٹو نے بستر مرگ پہ پڑھا اور اسے ایک بکواس ناول قرار دیا۔ مگر اس کے بکواس کہنے سے ناول نگار مایوس نہیں ہوا بلکہ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ اس کے ناول کو اپنے عہد کے ایک بڑے ادب لکھنے والے نے پڑھا ، جس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اگر منٹو اس ناول کو نکار رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے(مصنف) اس کوبات کا احساس ہے کہ وقت بدل گیا ہے ، منٹو نما تحریریں اب مزید معنی خیز ی پیدا نہیں کر سکتیں۔ منٹو نے جس نوع کی دنیا خلق کی ہمارے مسائل اس سے آگے آ چکے ہیں۔ مصنف نے انتساب میں یہ اختراع کی ہے کہ اپنے اوپر تنقید کرنے کے چلن کو عام کیا ہے یہ کہتے ہوئے کہ :
“یہ کتاب اتنی بڑی نہیں ہو سکی اور تمہیں (ریاض الرحمن) اس سے منسوب ہونے پر شرمساری نہیں ہونی چاہیے! میں اس سے زیادہ نہیں لکھو گا۔”(1)
اس ناول کو محمد خالد اختر نے بیس حصوں میں منقسم کیا ہے ، کسی حصے کو کوئی نام نہیں دیا ہے ، اس کے باوجود ناول میں تسلسل کہیں ٹوٹتا نہیں ہے۔ ناول کا بنیادی کردار ، شیخ قربان علی کٹار ہے ۔ جس کا باقاعدہ تعارف دوسرے حصے میں کروایا گیا ہے۔ پہلے حصے میں مصنف نے نہایت دلچسپ انداز میں اپنا اور اپنے مذاق کا تعارف کرواتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بہت سی اہم باتوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ کسی ملک اور معاشرے میں ایک ادب لکھنے والےکی کیسی قدر کی جانی چاہیے یا کس نوع کے لکھاری ہمارے معاشرے میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اس کی پر مغز جھلک مصنف نے پیش کرنے کی سعی کی ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مصنف نے اپنے مذاق کو بیان کرتے ہوئے بھی عام انسانی جذبات کا خیال رکھا ہے ، اچھا ادب لکھنے والوں سے عوام کو کس نوع کا لگاو ہوتا ہے اس کا اظہار کرنے کے لیے مصنف نے خود کو ایک ایسی ڈائری کا مالک بتایا ہے جس میں وہ ہر لکھاری کے دستخط لیتا ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ عوام میں معیار کو پرکھنے کی اتنی صلاحیت نہیں ہوتی لہذا وہ لوگ جو کسی خاص قسم کا ادب پڑھنا پسند کرتے ہیں وہ ہر طرح کے ادیبوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ایک زندہ معاشرہ معیاری ادب کا خواہاں ہوتا ہے ، مگر مصنف نے اپنی معاشرت کو بھی اس بیان کی حد تک طنزکا نشانہ بنایا ہے جہاں معیار کو پرکھنے والوں کی علمی تقسیم مفقود ہے۔مصنف اپنی اس صورت حال کو طنزیہ انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :
“میرے اپنے ہیرو -میرے حقیقی ہیرو وہ لوگ ہیں جو کتابیں لکھتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیسی کتابیں لکھتے ہیں ، کیوں کہ میں ان کی کتابوں کو کبھی نہیں پڑھوں گا، میں مصنفوں میں ان کو ترجیح دیتا ہوں جو ادیب شہیر با مصور جذبات بن چکے ہیں اور اس لیے ہیرو ورشپ کے لیے موزوں تسلیم کیے جا چکے ہیں ، مگر ان ادبی شیروں کے علاوہ ہر وہ شخص جس نے کوئی کتاب لکھی ہو ، خواہ وہ پکی روٹی کا مصنف ہی کیوں نہ ہو میرا ہیرو ہے ۔ میرا سگا بھائی ہے۔” (2)
اس صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنے معاشرے میں پائے جانے والے مصنفین کی قدر و قیمت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے ان جذباتوں پہ بھی سوالیہ نشان قائم کیا ہے جس کے تحت ان کے دل میں کسی مصنف کی تحریر کا مطالعہ کیے بنا اس سے لگاو پیدا ہوجانے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت ایک مصنوعی معاشرے کی غماز ہوتی ہے ۔ جسے مصنف نے ظاہر کرتے ہوئے طنزیہ زبان کا سہارا لیا ہے۔
محمد خالد اختر نے اس ناول کے دوسرے حصے میں حسب روایت کئی باتوں پہ طنز کیا ہے اور بہت معقول نکتوں کی جانب اشارہ کیا ہے جس میں معاشرتی اور ادبی ہر دو طرح کے طنز موجود ہیں ۔ مثلاًعوامی شہوت کے ادیبوں کے القاب و آداب کس نوعیت کے ہوا کرتے تھے ، یہ ایک عام تجربہ ہے کہ سنسنی خیز ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کو شہنشاہ جذبات، تخلیق کا منارہ نور ، ادب کا مشاہیر اور اسی طر ح کے کئی القاب سے نوازا جاتا تھا۔ جو کام کاروباری پبلشرز کے لیے منافع بخش ثابت ہوتا تھا۔ اس کے باوجود مصنف اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ان پبلشرز کا رویہ ان معروف ادیبوں کے ساتھ کتنا عجیب و غریب سا ہوتا تھا۔دوسری طرف ان عوامی ادیبوں کے ساتھ صحافیوں کا اور عوام کا رویہ بھی وقت کے ساتھ بہت تیزی سے تبدیل ہوتا ہے ۔جن کی شہرت ایک دم سے بڑھتی ہے اور وقت کے ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ خواہ وہ متعدد ناولوں کے تخلیق کار ہوں۔اس شہرت کی محرومی کے ساتھ ان کو غربت کا ادبار بھی جھیلنا پڑتا ہے کیوں کہ ایسے ادیبوں میں اکثر کاروباری صلاحیت مفقود ہوتی ہے۔ انہیں سنسنی خیز ناول لکھنے کی عادت ہوتی ہے اسی لیے وہ تیزی سے ناول تخلیق کرتے ہیں جس میں گیرایت نہیں ہوتی اس لیے مصنف یہ بات طنزیہ انداز میں تحریر کی ہے کہ :
دس سال پہلے فضل بک ڈپو کے جاسوسی ناول نگار ان مروجہ اصولوں کے اتنے قائل تھے کہ ان کے سب ناولوں کے پلاٹ بالکل ایک سے ہیں ، اور سب ناول ایک ہی شخص کے لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔(3)
مصنف نے اس صورت حال کو واضح کرنے کے لیے ایک ناول کا پلاٹ بھی پیش کر دیا ہے جو خاصہ مضحکہ خیز ہے۔
مصنف نے طنز کے ساتھ مزاح کے پہلو کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے ۔ مثلاً جہاں وہ اس بات کا تذکرہ کرتا ہے کہ شیخ قربان علی کٹار اور اس کے پبلشر حاجی قادر داد کے تعلقات کیسے خراب ہوئے وہاں یہ دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے کہ حاجی جی کے بھانجے نے جو قربان علی کے آخری ناول کا کاتب تھا اس نے مصنف کا نام دھوکے سے مہربان علی لکھ دیا اور وہ چھپ بھی گیا ۔ جب کہ مہربان علی اتفاق سے خود کاتب کا بھی نام تھا۔ اس سے مصنف نے کاتبوں پہ بھی اچھا طنز کر دیا ہے اور اردو معاشرت پہ بہت گہرا طنز ہے کہ پروف پڑھنے کی رسم ہی یہاں نہیں ہے۔
اس ناول کے تیسرے حصے سے ناول کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ۔ جس میں شیخ قربان علی کٹار اور ناول کے بنیادی کردار (اقبال حسین چنگیزی) کی ملاقات کا واقعہ رقم ہے ۔ اس واقعے کو دلچسپ بنانے کے لیے مصنف ایک شاہسوار خان نامی ایک کردار خلق کیا ہے جس کے توسط سے قربان علی کٹار سے مصنف کی ملاقات ہوتی ہے ۔ شاہسوار خان اور اس کے تین جانور ایک بکرا(ملا ہدی) ایک ریچھ ( جس نام کوئی نام نہیں) اور ایک بندیا (مس میسی) کو بھی واقعے میں شامل کیا گیا ہے۔ مصنف نے اس حصے میں چاکی واڑہ کے ایک ریستوران کنگ ایڈورڈ ففتھ کا دلکش منظر پیش کیا ہے ۔ ساتھ ہی اپنی معاشرت کی تصویر ابھارنے کی کوشش کی ہے ۔ جس میں چھوٹے چائے خانوں میں کس طرح کے کردار آئے دن جمع ہوتے ہیں اور وہاں کس قسم کی باتیں ہوتی ہیں ۔ پروفیسر شاہسوار خان کی شکل میں ایک مثالی شخص کو وضح کرنے کی کوشش کی ہے جو غربت اور بے روز گاری کے ساتھ ایک نوع کی مذہبی جمالیات سے وجود میں آتی ہے ۔ ہندوستان ، پاکستا ن اور بنگلا دیش میں ایسے کئی دلچسپ کردار مسلم علاقوں میں عمومی طور پہ دیکھنے کو مل جاتے ہیں جو اپنے آپ کو قطب ، غوث یا صوفی ثابت کرنے کے لیے قسم قسم کی باتیں بناتے ہیں اور بھولی عوام سے تعویز گنڈے کے نام پہ کچھ رقم مستعار لے کر گزارا کرتے ہیں ۔
چھوتھے حصے میں مصنف نے مختصرا اپنا یعنی اقبال حسین چنگیزی کا تعارف کروایا ہے کہ ۔ اس کا نام کیسے اقبال حسین سے اقبال حسین چنگیزی میں بدلا ۔ اس نے کس طرح ایک ڈبل روٹی کی دکان اللہ توکل بیکری کے نام سے قائم کی اور وہ اپنے عہد کے ادب لکھنے والوں کا کتنا احترام کرتا ہے ۔ اس تعارف میں شیخ قربان علی کٹار کے ساتھ دوستی ہو جانے کے بعد اس کا کس طرح کا رویہ مصنف سے استوار ہو اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ مصنف نے جگہ جگہ طنز اور مزاح کی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں ، کہیں کو ئی غیر اخلاقی جملہ نہیں ہے اور زبان بھی شستہ اور سادہ ہے ۔ پھر خواہ وہ اپنے چنگیزی ہونے کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے اس بات پہ طنز کرتے ہوں کہ زیادہ تر چنگیزی غالباً اس نوع کے پائے جاتے ہیں جن کا چنگیز خان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا پھر جب وہ اللہ توکل بیکری کے کاروبار کو جماتے ہوئے اپنے ملازم تاج علی کا تذکرہ کرتے ہیں جس کی بدولت ایک کمپنی جو چار احباب نے مل کر شروع کی تھی وہ اللہ توکل بیکری میں بدل گئی ۔ اس کے علاوہ قربان علی کٹار کا مصنف سے کپڑے ، جوتے اور پیسے ادھار لینے کا جو بیانیہ مصنف نے تخلیق کیا ہے اس میں Exaggeration ہونے کے باوجود وہ نہایت دلچسپ لگتا ہے ۔
پانچویں حصے میں مصنف نے شیخ قربان علی کٹار اور اقبال حسین چنگیزی کی ایک ملاقات کا منظر پیش کیا ہے ۔ جس میں قربان علی کٹار حسب معمول اپنے بارویں عشق میں متبلا ہو کر اقبال حسین سے اس کو کامیاب بنانے کے لیے بنائے گئے اپنے تین ماہ کے منسوبے پہ تبادلہ خیال کرنے کے لیے آتا ہے اور ساتھ ہی اس سے ایک کوٹ اور ٹوپی جو پروفیسروں کی قبیل کے لوگ پہنتے ہیں انہیں مستعار لے جانے کا متمنی ہوتا ہے اور بالآخر وہ باتیں بنا کر اور اپنی دوستی کا حوالہ دے کر اسے لے جانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے ۔ اس حصے میں مصنف نے اپنے خالو جو کہ ایک پروفیسر تھے ان کا تذکرہ بھی کیا ہے جو غیر متوقع طور پہ بے بنیاد معلوم ہوتا ہے ۔ اس سے اس حصے کی طولت میں اضافہ ہو اہے ۔ حالاں کے اس تذکرے میں بعض جملے تخلیقی نوعیت کے بھی ہیں ۔ شیخ قربان علی کٹار کے عشق کی داستان سناتے ہوئے مصنف نے عورتوں کی نفسیات کے متعلق ادیبوں کی نا تجربے کاری اور بزدلی کا جو تذکرہ کیا ہے وہ خاصہ پر مزاح ہے ساتھ ہی ادیبوں کے حالات ، ان کے باتیں بنانے کا انداز اور اپنے احباب سے کام نکلوانے کے طریق کا بھی طنزیہ انداز میں تذکرہ کیا ہے ۔ایک جگہ جہاں قربان علی کے ناکام عشق کی داستان سناتے ہوئے مصنف نے معشوقہ کے بھائی کا قربان علی کے ساتھ جو رویہ دکھایا ہے اس سے ہمارے معاشرے میں عورتوں سے فاصلہ پیدا کرنے کی نفسیات وجود میں آتی ہیں ۔ مصنف نے اس ضمن میں خاصے تخلیقی جملے اس حصے میں رقم کیے جس میں مزاح بھی ہے۔
چھٹے حصے میں مصنف نے سنجیدگی اور مزاح کا بین بین استعمال کیا ہے ۔ اس حصے کی ابتدا مصنف نے چاکی واڑہ کے ایک خاص علاقے کے تعارف سے کی ہے ، جس کے گلی ، کوچوں ، دکانوں ، بازاروں ، سواریوں اور انسانوں کا حال بیان کرنے میں بلا کی مشاقی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے چاکی واڑہ کی تہذیبی شناخت کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اس نے نہایت سنجیدگی سے شیخ قربان علی کٹار اور اس کی ناول نگاری کی استاذی کے متعلق بہت سے تلخ حقائق کو بیان کیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے گویا مصنف اس صورت حال کو بیان کر رہا ہے جو کراچی میں اس نے اپنے اطراف میں دیکھی ہے کہ کس طرح غربت کو دور کرنے کے لیے تخلیق کار اپنی صلاحیتیوں کو بیچنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں خریدنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ اس کے علاوہ رضیہ جو شیخ قربان علی کٹار کی موجودہ معشوقہ ہو چاہتی ہے اس کے حسن کو کسی شاعر کی طرح بیان کیا ہے اور اس کے والد جو کہ ایک قصاب ہے اسے کسی اعلی مزاح نگار کی مانند ۔ ایک مقام پر جہاں اس نے شیخ قربان علی کٹار کے ایک چچا کا تذکرہ کرتے ہوئے ایسا پر مزاح جملہ لکھا ہے کہ پڑھنے والا بے ساختہ شگفتگی سے سرشار ہو جاتا ہے ۔ اس حصے کے اختتام تک مصنف نے کئی ایسی معاشرتی ، علمی ، سماجی اور تہذیبی علامتوں کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے جو اس کے معاصرین کے یہاں کہیں نظر نہیں آتا ۔ اس کے باجود اس کے لہجے کی لطافت کہیں ہاتھ سے نہیں جاتی ۔
ساتواں حصہ عمومی انداز کا ہے اس میں شیخ قربان علی کٹار اور اقبال حسین کی گفتگو اور اس جنرل پلین جس کے تحت قربان علی کو رضیہ کے قریب جانا تھا کی تفصیل کے علاوہ اس امر کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ رضیہ کے والد سے جو ایک قصاب ہے قربان علی اپنا تعلق بڑھائے اور اس سے راست طور پہ رضیہ کا ہاتھ طلب کرے۔ اس کے لیے مصنف نے ناول میں اس فضا کو پیدا کیا ہے کہ جنرل پلین سے کوئی خاص فائدہ قربان علی کو حاصل نہیں ہو رہا ہے اور اس کی چچا زاد بہن بھی شہر کے باہر چلی گئی ہے جو رضیہ سے قربت بڑھانے میں قربان علی کی مدد گار ثابت ہوتی ۔ ناول کے اس پورے حصے میں وہ جواں مرد تقریر بلا کی ہے جس میں مصنف قربان علی کو رضیہ کے والد سے اس کا ہاتھ مانگنے کے لیے اکسا رہا ہے اور اسے حوصلہ دے رہا ہے ۔ مزاح کی صورت بھی اسی کے درمیان پیدا ہوتی ہے کہ کس طرح قربان علی صرف اس لیے اپنے آپ کو جنرل پلان پہ رکھنا چاہتا ہے کیوں کہ اس میں ایک قصاب کا سامنہ کرنے کی رائی برابر ہمت نہیں ۔ بعض جملے مصنف نے ایسے لکھے ہیں جو معرکے کے مزاحیہ جملے کہے جا سکتے ہیں ۔
آٹھویں حصے میں مصنف نے اپنی یعنی اقبال حسین اور رضیہ کے باپ یعنی قصاب کی ملاقات کا منظر پیش کیا ہے جس میں اس نے قصاب کا ایک نہایت متاثر کن سرابہ بیان کیا ہے ۔ اس کے بیانیے سے مصنف کی صناعی کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے اطراف میں پائے جانے والے قصابوں کے حلیے کا جا ئزہ کتنی باریک بینی سے لیا ہے ۔ قصاب جو ایک سرطان کا مریض ہے بظاہر سخت مزاج اور پتھریلے تاثر کا شخص ہے لیکن اسے دنیاوی کامیاب انسانوں کی قدر کرنا آتی ہے ۔ یہاں بھی مصنف نے ایک فلسفیانہ اور نفسیاتی مسئلہ پیش کیا ہے کہ کس طرح ایک جوان لڑکی کا بیمار باپ ہر دنیاوی کامیاب غیر شادی شدہ نوجوان میں اپنی بیٹی کا شوہر تلاش کرتا ہے ۔ مصنف مزاح کے پہلو کو برقرار رکھنے کے لیے شیخ قربان علی کٹار کے متعلق قصاب کی غصیل باتوں کا سہارا لیا ہے ۔ لیکن غیر متوقع طور پہ اس حصے میں مزاح کا پہلو اس کامیابی سے شامل نہ ہو سکا جس انداز میں مصنف نے دیگر حصوں میں مزاح یا طنز کا پہلو شامل کیا ہے ۔ اس کے برخلاف اس حصے میں مصنف نے سنجیدہ اور زندگی کے تلخ حقائق کا اظہار زیادہ مستعدی سے کیا ہے ۔ مصنف نے قصاب کی شکل میں بیک وقت دو ایسے کرداروں کو دکھانے کی سعی کی ہے جو مجبور بھی ہے اور ظالم بھی ۔ جس کے ظاہر اور باطن میں ایسا جبریہ تضاد پایا جاتا ہے جو وقت نے اسے عطا کیا ہے ۔
نویں حصے میں مصنف نے لی مارکٹ کی تصویر کشی سے اپنی تحریر کا آغاز کیا ہے ۔ مصنف کی یہ خاص بات یہ کہ وہ منظر نگاری ، جزیات نگاری اور پیکر تراشی کو گاہ بہ گاہ بیان کرتا چلا جاتا ہے ، چاکی واڑہ میں وصال کے زیادہ تر مناظر مختلف حصوں میں کہانی کے درمیان تخلیق کیے گیے ہیں ۔ اس سے قاری کو بوریت کا احساس بھی نہیں ہوتا اور کہانی بھی چلتی رہتی ہے ۔ لی مارکیٹ کا بیان بہت متاثر کن ہے لیکن اسی کے درمیان سے کہانی کو دوبار ہ شروع کرنے کے لیے مصنف نے شاہسوار خان اور اس کے دو جنوں کا اچانک تذکرہ کیا تاکہ قاری کو دھیان دوبارہ کہانی کی طرف لوٹ جائے ۔ اس کے بعد اچانک قصاب کا مارکٹ میں دکھائی دینا اور شیخ قربان علی کٹار کو اکسا کر اقبال حسین کا اسے قصاب کی دکان پہ لے جانا تاکہ وہ قصاب سے رضیہ کا ہاتھ مانگے اس سے کہانی قاری کے ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ مزاح کے لیے قصاب اور شیخ قربان علی کٹار کی گفتگو کا عنصر اس میں شامل کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ وہ مکالمے جو شیخ قربان علی کٹار اور قصاب کی گفتگو کے بعد اقبال حسین اور شیخ قربان علی کٹار کے درمیان ہوئے ۔ اس ڈرمائی عنصر میں مصنف جذباتیت کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور اس مقام پہ جہاں کٹار مصنف پہ رضیہ سے اپنا رشتہ جوڑنے کا شک ظاہر کرتا ہے وہاں اس تاریخی دوستی کے انقاع کے تذکرے پہ کہانی میں جذباتی عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے ۔ یہ مصنف کا کمال ہے کہ وہ کسی طور اپنے ناول کو سادہ نہیں رہنے دیتا ۔
دسواں حصہ قدرے طویل ہے اس میں مصنف نے بہت سے معاملات کو بیک وقت کہانی میں شامل کر دیا ہے ۔ جن میں انناس کے شربت والا،پارک اور دیگر علاقوں کا نقشہ،بکر داڑھی والا،طلسمی انگوٹھی،شاہزان ریستوران ،جنات اور چند مزید کردار ۔ اس حصے میں مصنف شیخ حیدر آباد میں اپنی بیکری کی شاخ کے قائم ہونے کے مژدے سے بات شروع کرتا ہے اور کہانی میں تین بنیادی کرداروں اقبال حسین ، شیخ قربان علی کٹار اور شاہسوار خان کی گفتگو کو پیش کرتا ہے ۔ لیکن اس کے درمیان اس نے نئی کہانیاں جو شاہسوار خان کے توسط سے داخل ہوتی ہیں ان کا تذکرہ کر کے کہانی کو دلچسپ بنانے کی کوشش کی ہے ، لیکن ایک قاری کی حیثیت سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ حصہ غیر ضروری معلومات اور غیر دلچسپ مکالموں سے زیادہ بھرا ہوا ہے ۔ سوائے دو ایک مقام کی گفتگو کو چھوڑ کر جہاں دین محمد کا تذکرہ آیا ہے۔
گیارہویں حصے میں مصنف نے ناول میں نہایت بھونڈے انداز کی باتوں کو تخلیق کیا ہے ۔ جس میں وہ قطب ، ابدال ، غوث اور اسی قسم کے صوفیانہ نظام کو کسی حفاظتی اور عدلیہ کی طرح بیان کرنے سے شروع کرتا ہے اور اس کے بعد اسی نوع کی شاہسوار خان اور شیخ قربان علی کٹار کی غیر ضروری تفصلات تک لے جاتا ہے ۔ ناول میں کٹار کے نئے ناول کی تخلیق کا تذکر ہ کرتا ہے اور اس کی کہانی جو نہایت غیر تخلیقی اور طنز و مزاح سے پوری طرح مبرا ہے اس پہ اپنے تین صفحات خرچ کرتا ہے ۔ اس حصے میں ناول نگار جس زبان اور مکالمے کے لیے جس معیار کا استعمال کرتا ہے اس سے ناول کی فضا خاصی متاثر ہوئی ہے ۔ خاص طور پہ اس انگوٹھی کے تذکرے اور اس کی تفصیل سے جو مصنف نے ایک طلسمی انگوٹھی کے طور پہ شامل کی ہے جس کو کٹار رضیہ کے حصول کے لیے پہن رہا ہے اور اسے اقبال حسین کے مشوروں کا متبادل بنا رہا ہے۔ مصنف اگر اس کے بجائے اقبال حسین کے نئے مشوروں کو ناول میں جگہ دیتا تو اس میں فلسفہ ، انسانی نفسیات، طنز و مزاح اور جزیات نگاری و منظر نگاری کی زیادہ راہیں نکلتیں ۔ اس پورے حصے میں مصنف نے ناول کو ایک نوع کی طولت بخشنے کے لیے خلق کیا ہے ۔ مسلسل کہانی کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک قاری اسی نتیجے پہ پہنچتا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ کسی کی رائے اس کے برخلاف ہو۔
باروں حصہ نہایت مختصر ہے ۔ اس حصے میں ناول نگار جب چاکی واڑہ کے متعلق اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اس کے پا س ایک ایسی ڈائری ہے جس میں چاکی واڑی کی روز کی باتیں درج ہیں اور جسے ایک کرانیکل کے طور پہ دیکھا جا سکتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بات اقبال حسین چنگیزی نہیں بلکہ خود مصنف بیان کر رہا ہے ۔ یہ پورے ناول کا واحد مقام ہے جہاں مصنف کی شخصیت اقبال حسین چنگیزی جو کہ ناول کا بنیادی کردار ہے اس سے یکسر مختلف نظر آتا ہے ۔ اس کے فورا ً بعد وہ اسی مختصر حصے میں کہانی پہ لوٹنے کے لیے شیخ قربان علی کٹار اور اس کی انگوٹھی جو طلسمی نوعیت کی ہے اس کات ذکرہ کرتا ہے اور اقبال حسین کو اس میں شامل کر کے ناول کی کہانی کو دوبارہ ٹریک پہ لانے کی سعی کرتا ہے ۔ اس حصے میں مصنف نے کچھ ایسی دلچسپ باتوں کا تذکرہ کیا ہے جو واقتاً مستقبل کے تخلیق کاروں کے لیے مشعل کا کام کر سکتی ہیں ۔ ناول نگار کے علاوہ محمد خالد اختر یہاں ایک فلسفی کی مانند اس بات کا درست دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تاریخ نویسی یا تاریخ نگاری کا ادب سے کتنا گہرا تعلق ہے اور ایک ادیب جو اپنی روز مرہ کی زندگی کو کسی تخلیقی فن پارے میں رقم کرتا ہے ان مشاہدات اور تجربات کے ذریعے تاریخ لکھنے کی سعی کی جائے تو سچی تاریخ لکھنے کا چلن عام جو جو بڑی حد تک تاثراتی اور متعصب نوعیت کی نہ ہو ۔
تیسرویں حصے میں مصنف نے ناول کی مردار فضا میں دوبارہ جان ڈالنے کے لیے فغفور جن کے واقعے کو ناول میں پیش کیا ہے ۔ جو شیخ قربان علی کٹار کی طلسمی انگوٹھی سے اچانک باہر آ جاتا ہے اور شیخ کٹار اس سے قدر خائف ہے کہ اقبال حسین چنگیزی بھی اسے اس حال میں پہلی مرتبہ دیکھتا ہے۔ یہاں قربان علی کٹار کے ایک کتے مسافر کا تذکرہ بھی مصنف نے دلچسپی کے لیے بڑھا یا ہے جس کی موجودگی میں اقبال حسین اسے خوف زادہ نہ ہونے کی تلقین کرتا ہے کیوں کہ بقول اس کے کتوں کی موجودگی میں جنات نہیں آتے ۔ اس حصے میں رضیہ اور اس کی بالکنی کا ذکر بھی ہے ۔ مصنف نے بعض جملے نہات تخلیقی انداز کے اس حصے میں شامل کیے ہیں مثلاً جہاں وہ رضیہ کی بالکنی کا تذکرہ کرتا ہے وہاں بتاتا ہے کہ:
رضیہ اس عرصے میں سامنے اپنی بالکونی پر نہ آئی اور نہ ہی اس کا بالکونی کے رخ کا دروازہ کھلا ، صرف ایک دفعہ تھوڑا سا کھلا ، ٹاٹوں کے پیچھے سے روشنی کی ایک لمبی سی عمودی لکیر اور اندر سے کسی عجیب حیوان کی غراہٹوں اور خر خر اہٹوں کی آواز آئی ، مگر فوراً ہی وہ روشنی کی لمبی تاریکی میں مٹ گئی ۔(4)
یہاں مصنف نے جن حیوانی غراہٹوں کا تذکرہ کیا ہے اس سے غالباً قصاب کی آواز مراد لی ہے اور خر خراہٹوں سے یہ شبہ بھی پیدا کر دیا ہے کہ اس کے سرطان کا درد اسے ستا رہا ہے۔
چودھویں حصے میں مصنف نے ترقی پسند تحریک کے ایک ادیب رزم حنائی کا تذکرہ کر کے ترقی پسند تحریک کے ادبی مزاج کے قصے کو چیڑھا ہے اور اسے ناول کی فضا سے منسلک کرنے کی سعی کی ہے ۔ اس کے علاوہ ترقی پسند ادیبوں ک یا اس کے ادب کے متعلق جو اس کے بیانات خلق ہوئے ہیں اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کو اس تحریک یا اس کے مستقبل کے عملی ک کاروبار میں کسی نوع کی دلچسپی کبھی نہیں رہی۔ اس حصے سےمصنف کی ادبی فکر کا میلان ظاہر ہوتا ہے۔
پندھرویں حصے میں رضیہ کے چلے جانے اور شداد پشمی کے اقبال حسین سے ملازمت طلب کرنے جیسے دو اہم واقعات ہیں ۔ یہاں بھی مصنف نے اپنے ناول کے بنیادی کردار اور بنیادی کہانی کے علاوہ اس فلسفے کی جانب زیادہ توجہ صرف کی ہے کہ ایک مصنف جس کو انسانی نفسیات اور انسانی وجود کی گہری جذباتی حرکتوں کا شدید احساس ہوتا ہےا ور وہ اپنے تخلیقی عمل کے ذریعے ظاہر کر کے دنیا پہ احسان کر تا ہے اس کے صلے میں دنیا اس کا کیا حال کر تی ہے۔ ادب اور بھوک مصنف کے نزدیک ایک سکے کے دو پہلو معلوم ہوتے ہیں ۔
سولہویں حصے میں ڈاکٹر غریب محمد سے مصنف اپنے اپنی بات کا آغاز کیا ہے اور چاکیواڑہ میں ڈاکٹروں کی کیا حالت ہے اس پہ طنز کرتے ی ہوئے ڈاکٹر گریب محمد کا پر لطف خاکہ پیش کیا ہے ۔ مگر کہانی کا بنیادی حصہ اس وقت تذکرے میں آتا ہے جہاں وہ قصاب کی موت کے متعلق بتاتا ہے ۔ اس حصے میں مصنف نے انسانی غموں اور اس کی نفسیاتی گتھیوں کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے ۔ قربان علی کٹار کا مکالمہ بھی متاثر کن ہے۔
سترویں حصے کا مطالعہ کر کے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے قصاب کو سرطان کا مریض اپنی کہانی میں صرف اس لیے بنایا تھا کہ وہ چاکیواڑہ کے شہر کا نقاشہ بتاتے ہوئے یہاں کے قبرستان اور تدفین کے مسائل کو بھی بیان کر سکے جس کو بہت سماجی مسائل کی روشنی میں اس نے اس حصے میں بیان کیا ہے ۔ مصنف کے اس حصے سے ناول کی تخلیقی کے ساتھ ایک تاریخی حیثیت کا احساس بھی پختہ ہوتا ہے کہ اس نے ایک شہر کی اصل صورت کو ظاہر کرنے کے لیے کس نوع کی تخلیق کو وجود میں لانے کی سعی کی ۔
اٹھارویں حصے میں مصنف ناول کی کہانی کو کسی قدر سمیٹنے کی کوشش کی ہے جس کے باعث وہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ وہ اپنے کرانیکل کو ایک طرف رکھ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ شہر کے مختلف حصوں تذکرہ کرتا رہا ہے ۔ یہاں وہ صرف کہانی بیان کرتا ہے جس میں قصاب کی موت کے بعد رضیہ کا اس کی خالہ کی دیکھ ریکھ میں آ جانے کا بیان ہے اور رضیہ کا کٹار سے قربت کا ۔ اس کے علاوہ کس طرح کٹار یہ پلان بنا رہا ہے کہ وہ رضیہ کو اس کی خالہ کے چنگل سے اڑا لے جائے گا۔ اس حصے میں اقبال حسین کا یہ دکھ بھی بیان کیا گیا ہے جو اسے کٹا ر جیسے دوست سے دور ہو جانے پہ محسوس ہو رہا ہے۔
اس کے بعد آخری حصہ آتا ہے جس میں کٹار اپنے تمام تر منسوبے کو انجام دینے کی پلانگ کر چکا ہے اور دوسرے روز رضیہ کو اس کی خالہ کی قید سے چھڑا کر ایک ایکسپریس کے ذریعے ہمیشہ کے لیے چاکی واڑہ سے جانے والا ہے ۔ اس منظر کو مصنف نے کسی فلمی اسکرپٹ کی طرح بیان کیا ہے کہ سب تیاریاں ہو چکی ہیں اور اب صرف کٹار کے فلیٹ پہ رضیہ کے آنے کا انتظار ہے جہاں سے وہ اور کٹار پہلے اقبال حسین کے ہمراہ اس کی دکان پہ جائیں گے اور وہاں سے ااسٹیشن ۔ اقبال حسین اور کٹار رات تک اس کا انتظار کرتے ہیں لیکن رضیہ کا کہیں پتہ نہیں ہے ۔ دونوں کی حالت غیر ہو رہی ہے کہ اچانک دروازے پہ کسی کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور جب دونوں کے اندر اچانک زندگی دوڑ جاتی ہے تو انہیں نظر آتا ہے کہ دروازے پہ کٹار کا کتا مسافر کھڑا ہے جو ہمیشہ کی طرح اپنی دو ٹانگوں پہ کھڑا ہانپ رہا ہے۔ اس ناول کا اختتام مصنف نے ان جملوں پہ کیا ہے کہ :
میں نے دھپ دھپ کرتے دل کے ساتھ آنکھیں کھولیں ، کٹار نیم دراز ، آنکھیں موندے اور ایک سرشاری کی کیفیت اپنے چہرے پر لیے آرام کرسی میں لیٹا تھا اور اس کے بازوپچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہوئے مسافر کے گرد حمائل تھے ۔(5)
اس پورے ناول میں مصنف نے بہت دلچسپ انداز میں کہانی کو ایسے تاریخی مقامات کی تصاویر کے ساتھ بیان کیا ہے کہ چاکیواڑہ کی تصویر ایک محبت نامے کے ساتھ ہمیں تحفے میں ملی ہے ۔ جس میں فلسفہ ، انسانی نفسیات ، عورتوں کی سماجی حالت اور ان کے خیالات، گلی کوچوں کا بیان ، شہر کا نقشہ ، جذبات نگاری ، جزیات نگاری اور پیکر تراشی جیسے فنی اجزا کے ساتھ ناول میں بہت بامعنی پیغامات بھی موجود ہیں ۔ مصنف نے ہر جگہ اپنے خیالات کو ضرور شامل کیا ہے جو بہت عمدگی سے ظاہر ہوئے ہیں ۔ ناول کے تین بنیادی کرداروں کو مصنف نے بھرپور انداز میں استعمال کیا ہے۔ انگریزی الفاظ بہت سے مقامات پہ آئے ہیں ۔ کئی انگریزی کتب اور مصنفوں کے نام بھی شامل ہوئے ہیں لیکن یہ ناول ایک خالص مشرقی تہذیب کی شہری تاریخ کو اجاگر کرتا ہوا اپنی معاشرت کا زندہ بیانیہ ہے۔ جو مصنف کی نہایت تخلیقی صلاحیتوں کا مولفہ ہے ۔ اس میں بہت سے کمزور پہلو بھی شامل ہو گئے ہیں۔ کہانی میں کہیں کہیں بوریت کا احساس بھی ہوتا ہے اور تخلیق کے سوتے کئی مقامات پہ سوکھتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں ۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ ایک ایسا شاہکار ہے جو قابل تحسین کہا جا سکتا ہے۔
حواشی:
1۔ ص:4،انتساب،کتاب: چاکی واڑہ میں وصال، مصنف :محمد خالد اختر،پبلشر، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۔2000
2۔ ص:6،انتساب،کتاب: چاکی واڑہ میں وصال، مصنف :محمد خالد اختر،پبلشر، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۔2000
3۔ ص:10،انتساب،کتاب: چاکی واڑہ میں وصال، مصنف :محمد خالد اختر،پبلشر، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۔2000
4۔ ص:99،انتساب،کتاب: چاکی واڑہ میں وصال، مصنف :محمد خالد اختر،پبلشر، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۔2000
5۔ ص:144،انتساب،کتاب: چاکی واڑہ میں وصال، مصنف :محمد خالد اختر،پبلشر، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۔2000
بہت سطحی تبصرہ ہے یہ ۔۔۔۔۔ اس ناول کی ساخت اور بیانیاتی تجربات کو نظر انداز کرنا افسوس ناک ہے
تیمور اختر