محمد عثمان بٹ
آفیشل ایڈریس: پرنسپل، گورنمنٹ ہائی سکول الھڑ، پسرور، سیال کوٹ، پنجاب، پاکستان
ایجوکیشنل ایڈریس: پی ایچ۔ ڈی اُردو اسکالر، منہاج یونیورسٹی لاہور، پنجاب، پاکستان
ای میل ایڈریس: usmanyaseen86@gmail.com
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی لسانیاتی خدمات
Linguistic Contributions of Dr. Abul Lais Siddiqui
Abstract:
Dr. Abul Lais Siddiqui (June 15, 1916–Sepetmber 7, 1994) is one of the most influential literary persons of the twentieth century who played an important role in the promotion of Urdu linguistics, lexicography, literature and criticism. He was the first doctoral degree holder in Urdu from Muslim University Aligarh. First linguistic laboratory was established in University of Karachi under his headship of Urdu department. This article presents his linguistic contributions with special reference to his books named Adab o Lisaniyat and Jama al Qawaid (Hissa Sarf). First six volumes of Urdu Lughat (Tareekhi Usool Par) was compiled and issued under his meritorious editorship.
Keywords:
Dr. Abul Lais Siddiqui, linguistcs, lexicography, ancient Urdu, medium of instruction, secondary language, phonetic variation
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی بیسویں صدی کے اُردو زبان و ادب کا اہم حوالہ ہیں جنھوں نے اُردو لسانیات، علم لغات، ادب اور تحقیق و تنقید کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر صدیقی، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے اُردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے پہلے شخص کا اعزاز رکھتے ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اُردو میں پہلی لسانیاتی لیبارٹری قائم کرنے میں اُن کا بنیادی کردار رہا۔ اُردو لغت بورڈ کراچی کے زیرِ اہتما م لغت کی بائیس جلدیں نکلیں جن میں سے پہلی چھ جلدیں “اُردو لغت (تاریخی اصول پر)” کے نام سے ابواللیث صدیقی کی ادارت میں شائع ہوئیں۔اِس مقالے میں اُن کی لسانیاتی خدمات کو اُن کی دو نمایاں تصانیف ”ادب و لسانیات” اور ”جامع القواعد (حصہ صرف)” کے خصوصی تناظر میں پیش کیا جائے گا۔
ابو اللیث صدیقی 15 جون 1916ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ سے1943ء میں رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی اُردوکی ڈگری حاصل کی۔ اُن کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان”لکھنؤ کا دبستانِ شاعری”ہے جو اُن کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ کے شعبہ اُردو سے منسلک ہوئے اور تدریسی فرائض سرانجام دینے لگے۔تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آ ئے اور کراچی منتقل ہو ئے۔پھر وہ لسانیات میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لندن چلے گئے جہاں اُنھوں نے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز،لندن سے لسانیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی،پھر وہاں سے کولمبیا یونیورسٹی،نیویارک سے لسانیات کی مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔پاکستان واپس آکر وہ جامعہ پنجاب،لاہور کے شعبہ اُردو سے منسلک رہے اور اِس کے بعد جامعہ کراچی کے شعبہ اُردو سے منسلک ہو گئے جہاں سے صدر شعبہ اُردو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔وہ جامعہ کراچی میں بیس سال سے زائد عرصہ صدر شعبہ اُردو کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اُنھیں پروفیسر ایمریطس کا درجہ دے دیا گیا۔وہ 1962ء سے 1984ء تک اُردو لغت بورڈکراچی کے سربراہ رہے۔ وہ ماہ نامہ”تہذیب” کراچی کے مدیرِ اعلیٰ اعزازی بھی رہے۔وہ علی گڑھ میں اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھتے رہے ہیں۔علی گڑھ قیام کے دوران اُن کے لسانیات پر مضامین”علی گڑھ میگزین”میں شائع ہوتے رہے۔ادبی تنقید اور لسانیات اُن کی دل چسپی کے میدان ہیں۔اُنھوں نے اپنے شاگردوں کی تربیت اِس انداز سے کی کہ آج اُن کے شاگردوں کا اُردو ادب و لسانیات کے منظر نامہ پر اپنا مخصوص مقام ہے جس میں ابواللیث صدیقی صاحب کی محنت کا کمال ہے۔ پچاس سے زائد طلبا نے اُن کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے تحریر کیے۔اُن کے معروف شاگردوں میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نام نمایاں ہیں۔اُنھوں نے بیس کے قریب کتابیں تحریر کیں۔
اُن کی نمایاں تصانیف میں”لکھنؤ کا دبستانِ شاعری”(1944ء)،”جرات:اُن کاعہد اور عشقیہ شاعری”(1953ء)،”نظیر اکبر آبادی: اُن کا عہد اور شاعری”(1957ء)، “تجربے اور روایت”(1959ء)،”اُردو کی ادبی تاریخ کا خاکہ”(1967ء)، “غزل اور متغزلین”(1968ء)،”ادب و لسانیات” (1970ء)،”جامع القواعد (حصہ صرف)” (1971ء)،”آج کا اُردو ادب”(1975ء)، “اقبال اور مسلک تصوف”(1977ء)، “ملفوظاتِ اقبال”(1977ء)، “ہندوستانی گرامراز بنجمن شُلزے(ترتیب و ترجمہ و تعلیقات)”(1977ء)،”اُردو میں سائنسی ادب کا اشاریہ”(1981ء) اور “امراؤ جان ادا: تنقید و تبصرہ”(1992ء) شامل ہیں۔”رفت و بود”کے نام سے اُن کی خود نوشت سوانح1981ء میں سلسلہ وار شائع ہوئی جسے اُن کے شاگرد ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کتابی شکل میں مرتب کیا اور اِس کتاب کو2011ء میں ادارہ یادگارِ غالب کراچی نے شائع کیا۔”رفت و بود”صدیقی صاحب کے علی گڑھ میں گزارے دنوں کی نمایاں عکاس ہے۔اُردو لسانیات کے تناظر میں اُن کی دلچسپی کے نمایاں شعبوں میں تاریخی لسانیات، توضیحی لسانیات اور صوتیات شامل ہیں۔ادب و لسانیات کا یہ مصنف ۷ستمبر 1994ء کو اِس دنیا سے رخصت ہوا۔وہ کراچی میں مدفون ہیں۔
لسانیات کے موضوع پر ابواللیث صدیقی کی اہم تصنیف”ادب و لسانیات”کے عنوان سے جنوری1970ء کو منظر ِعام پر آئی جسے اُردو اکیڈمی سندھ، کراچی نے شائع کیا۔یہ کتاب اُن کے علمی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے جو اُنھوں نے مختلف اوقات میں تحریر کیے اور مختلف محفلوں میں پڑھے۔اِس کتاب میں شامل مضامین کی کل تعداد اکیس ہے۔مضامین کے نمایاں مباحث میں اُردوے قدیم کے دو نادر مخطوطے، چند قدیم لغات، اُردو کی ترقی میں تراجم کا حصہ، جنگِ آزادی کا اثر زبان پر، کچھ ذریعہ تعلیم کے باب میں، زبان اور سائنس کی تعلیم، ثانوی زبان کی تدریس کے مسائل، پاکستانی ادب کی زبان کا مسئلہ، اعلیٰ تعلیم میں جدید تدریسی تکنیک کا استعمال،جنوب مشرقی ایشیا میں سائنس کے ذریعہ تعلیم کا مسئلہ،لسانی مطالعہ میں شماریاتی امدادی طریقوں کا استعمال، مطالعہ لسانیات:اٹھارھویں صدی تک، کچھ اُردو زبان کے بارے میں، صوتی تغیرات، اصطلاحات، اُردو کا صوتی نظام، پاکستان میں اُردو اور اُس کا مستقبل، اُردو ٹائپ مشین کی اصلاح کا مسئلہ، اور بنیادی اُردو شامل ہیں۔قیام پاکستان کے بعد بہت سے لسانی مسائل نے جنم لیاجن پر گفتگو لازم تھی۔ ابواللیث صدیقی کا شمار اُن اولین پاکستانی ماہرِ لسانیات میں ہوتا ہے جنھوں نے اُس دور کے لسانی مسائل کو اپنے مضامین میں خصوصی جگہ دی اور اُنھیں بحث کا موضوع بنایا۔اُردو لسانیات سے متعلق شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر اُنھوں نے اظہارِ خیال نہ کیا ہو۔
جدیدلسانیات بنیادی طور پر زبان کے اُن پہلوؤں کا احاطہ کرتی جن کا تعلق براہِ راست زبان کی تقریری اور تحریری حالت سے ہوتا ہے۔اِس ضمن میں قواعدکا کردار نمایاں حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔جہاں لسانیات زبانوں کا مطالعہ سائنسی انداز سے پیش کرتی ہے ، وہیں قواعدنے زبانوں کے لیے اُصول و ضوابط بہترین طریقے سےوضع کیے ہیں۔قواعد کے یہ اُصول دو طرح سے بیان کیے جاتے ہیں جن میں الفاظ کا مطالعہ (صرف) اور الفاظ سے کس طرح فقرے اور جملے ترتیب پاتے ہیں (نحو)، شامل ہیں۔اُردو لسانیات اور اُردوقواعد کے تناظر میں تحریر کردہ ابواللیث صدیقی کی اہم کتاب “جامع القواعد(حصہ صرف)” کے عنوان سے مرکزی اُردو بورڈ، لاہور نے 1971ء میں شائع کی۔اُردو لسانیات کے ساتھ اُردوقواعد کے معاملات کو اُنھوں نے صرفیات کی حد تک شامل کیا ہے۔ اِس کتاب کے مختلف مباحث کو اُنھوں نے دس ابواب میں تقسیم کیا ہے جس میں اُردو زبان کا تاریخی پس منظر، اُردو کا لسانی ڈھانچہ، اُردو کی قواعد نویسی کا آغاز اور ارتقا، اُردو کا صوتی نظام، اُردواملا یا ہجا، صرف اور اِس کے مباحث اور موضوعات، اسم، فعل، حرف، اور اُردو میں مشتق اور مرکب الفاظ شامل ہیں۔اُردو زبان کا تاریخی پس منظر کے تناظر میں ابواللیث صدیقی نے اُردو زبان کا خاندان، آریائی زبانوں کی تقسیم اور مختصر تاریخ، ہند آریائی کا ارتقا، سنسکرت، پراکرتیں، جدید ہند و پاکستانی زبانیں اور بولیاں، اُردو کی ساخت اور اُس کی ابتدا، لفظ اُردو کے استعمال کی تاریخ، اور اُردو کے مختلف نام جیسے مباحث پر روشنی ڈالی ہے۔ اُن کے خیال میں دنیا کی زبانوں کو علمی توجیہ کے تحت ساخت کے اعتبار سے تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا گروہ تجریدی زبانوں کا ہے، دوسرا ترکیبی ساخت کی زبانوں اور تیسرا تخلیطی ساخت کی زبانوں کا ہے۔
ابواللیث صدیقی کی ادبی و لسانی تحقیق نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔اُنھوں نے اپنے ایک مضمون”اُردو ے قدیم کے دو نادر مخطوطے”(۱) میں میاں شیخ خوب محمد چشتی(وفات:1614ء) کی دو کتابوں”خوب ترنگ”اور”چھند چھندان”کا تعارف کروایا ہے۔ “خوب ترنگ”(986ھ/1578ء) ایک منطوم کتاب ہے جس میں خوب محمد نے اپنے پیرو مرشد شیخ کمال محمد سیستانی کے اقوال درج کیے ہیں۔یہ نظم بنیادی طور پر تصوف کے موضوع کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اپنی اِسی کتاب کی شرح اُنھوں نے فارسی زبان میں”امواج خوبی”کے نام سے تحریر کی۔ اُن کی دوسری کتاب”چھند چھندان”عروض سے متعلق ہے جسے ابواللیث صدیقی عروض کے ضمن میں سب سے پہلی تصنیف قرار دیتے ہیں۔ انڈیا آفس لائبریری سے اُنھیں”خوب ترنگ”کے دو مخطوطہ جات اور”امواج خوبی” کا ایک مخطوطہ میسر ہوا جن کی بنیاد پر اُنھوں نے یہ مضمون تحریر کیا۔اُردو کا مذکورہ قدیم دور اُردو زبان و ادب کی تاریخ میں صوفیاے کرام کے عہد سے منسوب ہے۔ابواللیث صدیقی کے نزدیک “یہ زمانہ ہندوستان کی عوام کی بولیوں اور جدید ہندوستانی زبانوں میں ایک عبوری دور کی حیثیت رکھتا ہے”۔(۲) یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اُس دور کی نایاب تصانیف کا تعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اُن کا لسانی اعتبار سے جائزہ بھی پیش کیا ہے۔اُس دور میں جتنی بھی بولیوں کا چلن رہا سب ہندی یا ہندوی کے نام سے معروف تھیں اور اِن بولیوں میں عربی و فارسی رجحان فروغ پا رہا تھا۔اِنھی اپ بھرنش بولیوں کو اُنھوں نے جدید ہندوستانی زبانوں کا پیش رو قرار دیا ہے۔
اِس ضمن میں ابواللیث صدیقی رقم طراز ہیں:
“اُس عبوری اپ بھرنش میں عربی، فارسی کی آمیزش سے جو نئی بولی تیار ہو رہی تھی اُس کے لیے پہلے ایک نام ہندوی یا ہندی تھا۔ مسلمانوں کے لیے ہندوستان کی ہر زبان ہندوی یا ہندی تھی۔ چناں چہ اپنی عربی و فارسی سے ممتاز کرنے کے لیے اُنھوں نے اپنے اپنے علاقوں کی بولی کو ہندوی یا ہندی کے عام نام سے پکارنا شروع کیا۔ اُن کے ذہن میں ہندوی یا ہندی کا مفہوم صرف’لغت اہلِ ہند’تھا۔چناں چہ لغت کی جو کتابیں اُس زمانے میں لکھی گئی ہیں اُن میں یہی تشریح کی گئی ہے”۔ (۳)
ابوللیث صدیقی نے”خوب ترنگ” کا لسانی جائزہ پیش کرتے ہوئے اِس کی زبان کو عبوری نمونہ قرار دیا ہے۔ اُن کے خیال میں اِس کی زبان میں وہی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو قدیم پنجابی، قدیم برج، قدیم دکھنی اور قدیم مرہٹی جیسی زبانوں کی ہیں۔ یعنی اُنھوں نے پراکرت کی اپ بھرنش اشکال کی لسانی خصوصیات کے اشتراک کاتذکرہ کیا ہے۔حافظ محمود شیرانی کے نزدیک یہی زبان پنجاب سے ہوتے ہوئے دہلی، پھر گجرات اور پھر دکن کے علاقوں میں پہنچتی ہے۔ ابواللیث صدیقی نے”خوب ترنگ” کی زبان کی دو نمایاں خصوصیات بیان کی ہیں۔پہلی خصوصیت یہ کہ اِس میں شامل اکثر الفاظ کے آخر میں’نون’ کا استعمال کیا گیا ہے جسے اُس دور کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔اِ س ضمن کی مثالوں میں کون (کو)، تین (تو)، پچھین (پیچھے)، اور پہلوں (پہلے) وغیرہ شامل ہیں۔دوسری خصوصیت حروفِ علت میں تخفیف کی صورت حال ہے۔اِس ضمن کی مثالوں میں چھٹ (چھوٹ)، کیت (کہت/کہتا ہے)، اور پچھیں (پیچھے) وغیرہ کو شامل کیا ہے۔(۴)عربی اور فارسی الفاظ کے اُردو یا دوسری قدیم ہندوستانی زبانوں میں دخیل شکل کی صورت میں اصل الفاظ کی بجائے اُس کی عوامی صوتی شکل کو مد نظر رکھا جا تا تھا۔اِسی کیفیت کو تارید یا تصرفی حالت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عمل ہندوستانی زبانوں بالخصوص اُردو زبان میں پا یا جا تا ہے۔ شیخ خوب محمد کی دوسری تصنیف”چھند چھندان” کا سن اشاعت نا معلوم ہے اور یہ کتاب نامکمل ہے۔ یہ کتاب دو رسالوں پر مشتمل ہے پہلا رسالہ پنگل (ہندی عروض) کے بیان پر روشنی ڈالتا ہے جس میں ہندی کے اوزان کو فارسی کے اوزان کے ساتھ ملا کر پیش کیا گیا ہے۔ دوسرا رسالہ عروض کے معاملات کو عربی کے اوزان کے ساتھ ملا کر بیان کرتا ہے۔کتاب میں پنگل کے آٹھ گن کا بیان ہے۔ پھر ہر گن کے آگے آٹھ روپ بیان کیے گئے ہیں۔اُن کی اشکال اور مختلف جوڑ توڑ کا تفصیلی بیان بھی اِس کتاب میں موجود ہے۔ ہر روپ کی تفصیل کے بیان میں اُس کی تال اور حرکتوں کی تعداد کا ذکر بھی ملتا ہے۔
“چندقدیم لغات”(۵)کے تناظر میں ابواللیث صدیقی خیال ظاہر کرتے ہیں کہ امیر خسرو کی مرتب کردہ لغت”خالقِ باری”کو عموماََ اُردو (ہندوی /ہندی) کا قدیم ترین لغت تصور کیا جاتا ہے مگر وہ تاریخی اعتبار سے اِس بات کو درست نہیں سمجھتے۔ اُنھوں نے اپنی لسانی تحقیقی کی بدولت چار قدیم ترین لغات کی طرف نشان دہی کی ہے۔اُن کے نزدیک سب سے قدیم لغت”ادات الفضلا”ہے جس کے مؤلف قاضی خاں بدر محمد دھاروالی ہیں اور اِس کا سنِ تالیف812ھ ہے۔برٹش میوزیم لندن میں رکھے گئے اِس کے نسخہ کو اُنھوں نے اپنے مضمون کی بنیاد بنایا ہے۔
ابواللیث صدیقی کے مطابق قاضی صاحب نے اِس لغت کے ضمن میں درج ذیل چھ مآخذ درج کیے ہیں:
۱۔فرنگ نامہ فخر قواص
۲۔رسالات النثر
۳۔رسالات اسد طوسی
۴۔دستور الافاضل
۵۔لسان الشعرا
۶۔فوائد برہانی و فردوسی (۶)
دوسرا لغت”مفتاح الفضلا”درج کیا ہے جس کے مؤلف محمد بن داؤد بن محمد بن محمود شادیا بادی ہیں اور اِس کی سنِ تالیف 873ھ ہے۔اِس لغت کے ضمن میں بھی برٹش میوزم لندن میں رکھا گیا اِس کا نسخہ ڈاکٹر صدیقی نے استعمال کیا ہے۔ یہاں بھی زبان کے لیے ہندوی کا لفظ ہی عمومی طور پر استعمال ہوا ہے مگر کہیں کہیں ہندی نام بھی موجود ہے۔ صدیقی صاحب کے خیال میں”مفتاح الفضلا”اور”ادات الفضلا”کے نسخوں میں کافی مماثلت موجود ہے جس بنا پر وہ یہ رائے رکھتے ہیں کہ دونوں کا ماخذ کوئی دوسرا لغت ہے یا”مفتاح الفضلا”کے مؤلف کے سامنے”ادات الفضلا” کا کوئی نسخہ ضرور تھا۔(۷)تیسرا لغت”مؤید الفضلا”کے نام سے ہے جس کے مؤلف محمد ابن لاد ہیں جنھوں نے اپنے پیشرو تمام لغت نگاروں کے کام کے علاوہ ایسے شاعروں اور حکیموں کا تذکرہ بھی اِس لغت میں شامل کیا ہے جو اِس سے پہلے کہیں نہیں ملتا۔اِسی بنا پر ابواللیث صدیقی اِس لغت کو پہلی دونوں بیان کردہ لغات سے زیادہ مکمل قرار دیتے ہیں۔ اِس کے لیے بھی برٹش میوزیم لندن میں موجود نسخہ کو بنیاد بنا یا گیا ہے۔اِس کا سنِ تالیف نا معلوم ہے مگر سنِ کتابت1118ھ درج ہے اور کاتب کا نام ملا ولی موجود ہے۔چوتھا نسخہ”دستور الصبیان”کے نام سے رقم کیا گیا ہے جس کے مؤلف کا نام معلوم نہیں ہے اور اِس کا نسخہ بھی اُنھیں برٹش میوزیم لندن سے ہی دستیاب ہوا اور اِس کا سنِ تالیف990ھ درج ہے۔
ترجمہ بین الاقوامی زبان کی حیثیت رکھتا ہے جس کی اہمیت دنیا کی ہر زبان کے لیے ناگزیر ہے۔”اُردو کی ترقی میں تراجم کا حصہ”(۸)کے تناظر میں بات کرتے ہوئے ابواللیث صدیقی خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اُردو زبان میں تراجم کی روایت کا آغاز مذہبی تراجم سے دکن میں ہوا۔ مسلمان علما اور صوفیاے کرام نے تصوف اور اسلامی تاریخ پر مبنی لٹریچر کو تعلیم و تبلیغ کے سلسلہ میں ترجمہ کی زبان کے ذریعے استعمال کیا۔اسلامی تناظر میں ترجمہ کا ذکر ہو تو ابتدائی دور کے تراجم میں علمِ قرآن کے تراجم، قرآن کی تفسیر کے تراجم، اصولِ تفسیر کے موضوع پر ترا جم،اور حدیث کے تراجم شامل ہیں۔اِسی دور میں انجیل کے تراجم ہوئے اور اِس کے علاوہ ہندو مت کی کتابوں کے تراجم بھی ہوئے۔ مذہبی تناظر میں ترجمہ کی زبان نے اپنا رنگ دیگر مذاہب میں بھی دکھایا۔بھگتی تحریک، بدھ مت، جین مت، سکھ مت، برہمو سماج اور رادھا سوامی مت اِن سب نے ترجمہ کی زبان کے ذریعے لوگوں تک اپنی باتیں آسانی سے پہنچائیں۔ اِس ضمن میں اُردو ایک ایسی زبان بن کر نمایاں ہوئی جس نے ہندوستان میں مشترکہ کلچر کے بیج بوئے۔ اُردو نے بلا رنگ و نسل اور بلا تمیز مذہب ہندوستانی زبانوں سے فیض حاصل کیا اور پورے ہندوستان میں ایک ایسے کلچر کو فروغ دیا جسے اپنانے کے دعویٰ دار کئی ہیں۔
اِس ضمن میں ابواللیث صدیقی رقم طراز ہیں:
“برصغیر کی ثقافتی اور تمدنی زندگی کی جتنی آئینہ داری اُردو کرتی ہے کوئی دوسری زبان نہیں کرتی۔ یہ ضرور ہے کہ عربی و فارسی کی جگہ مسلمانوں نے اُردو کو عموماََ استعمال کیا ہے۔ اِس زبان میں اُن کے کارنامے اور اُن کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔اِس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مشترک ثقافتی ورثہ کی حیثیت سے اُردو نے بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب ہماری نمائندگی کی ہے”۔ (۹)
ادبی تناظر میں ترجمہ کے ذریعے اُردو داستان نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔اِس سلسلہ میں سنسکرت کی بہت سی منظوم اور نثری داستانوں کا اُردو زبان میں ترجمہ شامل ہے۔’شکنتلا’اِس کی اولین مثال ہے۔ یہی معاملہ عربی اور فارسی زبان سے اُردو میں تراجم کا بھی ہے۔’الف لیلیٰ’عربی سے اور قصہ’حسن دل’فارسی سے اُردو میں ترجمہ ہونے کی بہترین مثالیں ہیں۔ترجمہ کا تیسرا تناظر اداروں کی سرپرستی میں ہونے والے تراجم کی صورت میں سامنے آیا۔ فورٹ ولیم کالج، دلی کالج، سائنٹفک سوسائٹی، اور عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد اِس ذیل کی نمایاں مثالیں ہیں جنھوں نے ترجمہ کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ فورٹ ولیم کالج کے ذریعے ہونے والے تراجم کی زبان نہایت سادہ، سلیس اور عربی و فارسی کے بھاری پن سے آزاد تھی جس نے اُردو نثر کی جدید بنیادوں کی نوک پلک سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اِس کی جدید شکل غالب اورسر سید کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی جسے بعد میں سرسید کے رفقا نے عروج کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔1857ء کی جنگِ آزادی کا اثر جہاں زندگی کے بہت سے شعبوں پر ہوا، وہیں اُردو زبان بھی اِس سے متاثر ہوئی۔ اُردو زبان کے شعر و ادب میں مغربی اثرات کے ڈانڈے فورٹ ولیم کالج سے جا ملتے ہیں۔ اُردو زبان میں علمی مباحث کانقطہ آغاز بھی اِسے قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ فورٹ ولیم کالج کے تحت نہ صرف تراجم کے رجحان کو فروغ ملا بلکہ اُردو زبان کی قواعد اور زبان کی تاریخ سے متعلق معاملات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
ابواللیث صدیقی کے نزدیک”جنگِ آزادی کا اثر زبان پر”(10)سب سے پہلے فارسی زبان کی تہذیبی حیثیت کے خاتمہ کی صورت میں نمودار ہوا۔ فارسی کی جگہ انگریزی کو دفتری اور عدالتی زبان کا درجہ دے دیا گیا مگر عوام چوں کہ انگریزی زبان سے مکمل طور پر نا واقف تھی اِس لیے چارو ناچار اُردو زبان کا سہارا لینا پڑا۔اب اُردو کا معاملہ کچھ یوں ہونے لگاکہ اِس میں انگریزی الفاظ کے استعمال کا چلن بڑھنے لگا جس سے انگریزی زدہ اُردو سامنے آئی۔ ڈاکٹر صدیقی کے خیال میں انگریزی زبان سے اُردو میں شامل ہونے والے الفاظ تین مختلف حیثیتوں کے حامل ہیں۔ پہلی حیثیت میں دفتری اور عدالتی الفاظ شامل ہیں۔مثلاََ جج، کپتان، رنگروٹ، اور فیس وغیرہ۔ دوسری حیثیت سماجی اور تہذیبی زندگی کی عمومی صورت حال سے متعلق الفاظ سے ہے۔ مثلاََ ٹماٹر، کوٹ، ڈبل روٹی، اور بٹن وغیرہ۔ تیسری حیثیت کا تعلق اُن الفاظ کے ساتھ وابستہ ہے جو علمی وا دبی اور فنی حوالے سے استعمال ہوتے ہیں۔ اِس روایت کے آغاز کا سہرا سر سید تحریک کے سر ہے۔ انگریزی سے اُردو میں شامل ہونے والے اکثر الفاظ سر سید اور اُن کے ساتھیوں نے استعمال کیے ہیں۔ ڈگری، سوشل، گورنمنٹ، پارلیمنٹ، ممبر، سویلزیشن اور کلچر اِس ضمن کی نمائندہ مثالیں ہیں۔
ابواللیث صدیقی انگریزی زبان کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُردو کی ترقی کے امکانات کے ضمن میں لکھتے ہیں:
“اُردو کو انگریزی کی جگہ لینے کے لیے انگریزی سے بہت کچھ لینا پڑے گا۔ اصطلاحات کے ترجمے ہوں گے، درسی کتابوں کے ترجمے ہوں گے۔ دفتری اور عدالتی زبان میں نئی اصطلاحیں بنائی جائیں گی، جدید علوم و فنون کی کتابیں جو آج دنیا کے مختلف علاقوں میں لکھی جا رہی ہیں انگریزی کے ذریعے سے ہم تک پہنچیں گی اور اُن کے خیالات اور مضامین کا ترجمہ ہو گا اور اِس طرح ہماری زبان اپنی ترقی کے امکانات کو حقائق میں بدل سکے گی”۔(۱۱)
ہندوستان میں جب فارسی کی جگہ انگریزی کو تھوپنے کی کوشش کی گئی تو عوام کی طرف سے اِسے قبولِ عام کی سند نہ مل سکی مگر اُردو میں انگریزی الفاظ کے بے جا استعمال کا بخار ضرور سامنے آیا۔اِس کا سبب ایک ایسی رائے عامہ کا فروغ تھا جس کے باعث انگریزی الفاظ کا استعمال علمیت کی نشانی سمجھا جانے لگا تھا۔انگریز تو برصغیر سے چلے گئے مگر اپنے پیچھے انگریزی وائر س کی قلمیں چھوڑ گئے جسے ایک مخصوص طبقے نے اپنے سینے سے لگا کر پروان چڑھانے کی ناکام کوشش کی۔وہ اپنی اِس کوشش میں تو ناکام رہے مگر ملک کے ذریعہ تعلیم کے لیے الجھنوں کا جال بننے میں کامیاب ہو گئے۔اِس طبقے کی سوچ کے مطابق اُردو زبان میں الفاظ کے ذخیرے کی کمی ہے اِس لیے سائنس اور تکنالوجی کی تعلیم اِس زبان کے ذریعے دینا ممکن نہیں ہے۔ وہ انگریزی کو بین الاقوامی زبان قرار دیتے ہوئے اِسے ہی مکمل طور پر سائنس اور تکنالوجی کی زبان کے لیے موزوں اور مناسب خیال گردانتے ہیں۔ یہ طبقہ کسی مخصوص شعبے سے وابستہ نہیں بلکہ انگریزوں کے زیرِ اثر افراد پر مشتمل گروہ ہے جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر انگریزی زبان میں ہی صرف سائنس کی تعلیم دینے کی صلاحیت موجود ہوتی تو آج جرمنی، فرانس، روس اور جاپان اپنی زبان کے ذریعے یہ کام کامیابی سے نہ کر پا رہے ہوتے۔اِن ممالک کا کامیابی سے اپنی زبان کو سائنس کی تعلیم کے لیے استعمال کرنا اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کسی زبان میں صلاحیت کا موجود ہونا اُس کے کامیاب استعمال کے ساتھ وابستہ ہے نہ کہ غیر ملکی زبانوں کے بے جا استعمال پر۔
ابواللیث صدیقی اپنے ایک مضمون “کچھ ذریعہ تعلیم کے باب میں”(12)کے تناظر میں کچھ یوں کہتے ہیں:
“بنیادی طور پر دنیا کی کسی بھی زبان کے باب میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ قدرتی طور پر کسی دوسری زبان کے مقابلے میں اعلیٰ یا ادنی، ترقی پذیر یا رجعت پسند ہے۔ زبان تو خیالات اور افکار کے اظہار کا ذریعہ ہے اور اِن کے تابع ہے۔ جس قسم کے خیالات اور مضامین اِس میں ادا کیے جائیں گے اُس قسم کے الفاظ اور اسالیب پیدا ہو جائیں گے۔ یہ کوئی بحث طلب مسئلہ نہیں ہے اور دنیا کی تمام زبانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جیسے جیسے کسی ملک کی تہذیبی اور معاشرتی ترقی ہوتی ہے اُس کی زبان کو بھی فروغ نصیب ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ پہلے زبان میں وسعت پیدا ہو جائے اور پھر تہذیبی، ثقافتی یا سائنسی زندگی میں ترقی کے آثار پیدا ہوں”۔(13)
اُردو زبان کے ذریعہ تعلیم نہ ہونے کے حوالے سے مسائل بیان کرتے ہوئے ابواللیث صدیقی نے دو بنیادی مسائل کی طرف نشان دہی کی ہے۔ پہلا مسئلہ اصطلاحات کی کمی کا ہے اور دوسرا مسئلہ تراجم کی کمی کی صورت میں موجود ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ یہ لسانی مسئلہ(ذریعہ تعلیم) بھی ملک و قوم کو درپیش رہا مگر یہ مسئلہ اکیسویں صدی کے موجودہ لسانی تناظر میں بھی اپنی اُسی بنیادی شکل میں کھڑا ہے جس کی طرف صدیقی صاحب نے آج سے پچپن سال پہلے اشارہ کیا تھا۔ساٹھ کی دہائی میں بیان کردہ اِن مسائل کی طرف نہ صرف اُنھوں نے توجہ دی بلکہ اِس کے حل کے لیے ٹھوس تجاویز بھی پیش کی ہیں۔
اُن کے خیالات کی روشنی میں چھ بنیادی تجاویز نمایاں اہمیت کی حامل ہیں:
۱۔تمام ثانوی تعلیمی بورڈز اور جامعات کے تعلیمی نصاب کی روشنی میں کتابیں مرتب کی جائیں۔
۲۔مختلف مضامین، موضوعات اور مقالات کی فہرست پر مشتمل کتابیات تیار کی جائے۔
۳۔مختلف النوع اصطلاحات کی فہرستیں مرتب کی جائیں۔
۴۔اُردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کوشاں اداروں بشمول جامعات کو اپنا کردار بخوبی نبھانا چاہیے۔ اِس ضمن میں کسی ایک ادارے کو مرکزی سطح پر نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے اطلاعات کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے آپس میں مکمل تعاون کی فضا قائم کی جائے۔
۵۔ادب و تنقید کے ساتھ ساتھ زبان کی تعلیم (لسانیات) کو بھی نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے۔
۶۔مذکورہ بالا تمام تجاویز پر عمل درآمد کے لیے ایک منظم تحریک کی شکل میں عوامی رائے تیار کی جائے تاکہ اِن پر خاطر خواہ نتائج کے حصول میں آسانی رہے۔
سائنس کی تعلیم وتدریس کی بات ہو یا پھر کسی بھی دوسرے مخصوص شعبے سے وابستہ تعلیم کا معاملہ اِسے کسی مخصوص زبان سے منسلک کرنا قطعاََ مناسب نہیں ہے۔ یہ صلاحیت تو دنیا کی ہر زندہ زبان میں ہوتی ہے جس کا سامنے آنا اہلِ زبان کی صلاحیتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ پاکستان میں سائنس کی تعلیم کا ذریعہ انگریزی ہونے کے باعث ہمارے ہاں سائنسی حوالے سے رجحان کووہ فروغ حاصل نہیں ہو پایا جو اِس کا خاصہ ہو نا چاہیے تھا۔ ابوللیث صدیقی کی”زبان اور سائنس کی تعلیم”(14)کے تناظر میں رائے اِس ضمن میں خاصی اہمیت کی حامل ہے کہ “اُس وقت تک کسی ملک کی تعلیمی حالت نہیں سدھر سکتی جب تک طالب علموں کو اُن کی اپنی زبان میں تعلیم نہیں دی جائے گی”۔(15)وہ اُردو ذریعہ تعلیم کے زبردست حامیوں میں سے تھے۔”ثانوی زبان کی تدریس کے مسائل”(16)پر بات کرتے ہوئے اُنھوں نے پہلے دو طریقہ ہائے تدریس کوبیان کیا ہے جس کے بعد اُن کے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔پہلے طریقے کو اُنھوں نے”زبان کا روایتی طریقہ” کہا ہے جس میں حروفِ تہجی سے شناسائی کے بعد مفرد آوازوں کے مرکبات کی ادائیگی کی مشق کروائی جاتی ہے۔ اِس طریقہ کی خامی یہ ہے کہ اِس میں الفاظ اور جملوں کو بار بار دہرانا پڑتا ہے۔دوسرا طریقہ”کتابی زبان کا اکتسابی طریقہ”کے تناظر میں بیان کیا ہے جس کے ذریعے کتابی معیاری زبان کی درس و تدریس کا معاملہ سرانجام دیا جاتا ہے۔ اِس طریقہ کی خامی یہ ہے کہ اِس کے ذریعے اہلِ زبان جیسی صفات پیدا نہیں ہوتیں کیوں کہ اہلِ زبان سے براہِ راست زبان سیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔ ثانوی زبان کی تدریس میں سب سے بڑا مسئلہ لسانی تجربہ گاہوں کی عدم دستیابی ہے۔
جدید لسانیات کے اُصول ابواللیث صدیقی نے ہمیشہ مدنظر رکھے جس کے مباحث اُن کے مضامین کا خاصہ رہے ہیں۔ اِنھی اُصولوں کی روشنی میں وہ صوتیے (Phonemes)کا کردار ثانوی زبان کو سیکھنے میں نمایاں اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں۔ اِس ضمن میں ابتدائی زبان اور ثانوی زبان کے صوتیوں کی علیحدہ علیحدہ فہرست تیار کی جاتی ہے۔اُنھوں نے دونوں زبانوں میں مشترک صوتیوں اور اختلافی صوتیوں کی صورت حال کو واضح کیا ہے جو ثانوی زبان کو سیکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مشترک صوتیوں کو سیکھنے کے لیے نئے صوتیوں کو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی جب کہ اختلافی صوتیوں کو سیکھنے کے لیے اداے صوتیات (Articulatory Phonetics)کے اصولوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔اِس ضمن میں نقطہ ادا (Point of Articulation)، اداکار (Articulator) اور طریق ادا (Mode of Articulation)جیسے تین پہلوؤں کی تشریح ضروری ہوتی ہے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے مختلف آلات جیسے ٹیپ ریکارڈر وغیرہ سے مدد لی جا سکتی ہے تا کہ معیاری تلفظ سے موازنہ کر کے تلفظ کو درست طریقے سے اختیار کرنے کی مشق کی جا سکے۔ حرف تحریر کے اعتبار سے اور آواز بولنے کے اعتبار سے چوں کہ ذہن میں اپنا نقش قائم کرتے ہیں لہٰذا ابواللیث صدیقی کے خیال میں کسری صوتیوں (Segmental Phonemes)کے ضمن میں حرفِ صحیح اور حرفِ علت کی بجائے بالترتیب صوتِ صحیح اور صوتِ علت کی اصطلاحات کا استعمال زیادہ موزوں اور معقول ہے۔
اصوات کی تحریر میں مکمل نمائندگی محض صوتی علامات کی مدد سے ہی مناسب نہیں ہوتی بلکہ اِس ضمن میں اُن کے نزدیک بالا کسری صوتیوں (Supera Segmental Phonemes)کا استعمال بھی ہونا چاہیے جس سے آواز کا اتار چڑھاؤ مخصوص علامتوں اور نشانات سے واضح کیا جا تا ہے۔اِس کے بعد زبان کی تدریس کا دوسرا مرحلہ زبان کی ساخت کی تدریس ہے جس کے ضمن میں صرفیات (Morphology)اور نحویات (Syntax)کی حیثیت نمایاں ہوتی ہے۔ اِس جدید لسانی طریقہ تدریس کو نہ صرف غیر ملکی زبانیں سیکھنے کے لیے اختیار کرنا چاہیے بلکہ دیگر ملکی و علاقائی زبانوں کے سیکھنے کے لیے بھی اِسی جدید طریقہ ہائے تدریس سے مدد لینی چاہیے۔
زبان کا تہذیب و ثقافت سے نہایت گہرا رشتہ ہے۔ ایک مخصوص زبان اپنے بولنے والے سماجی گروہ کے کلچر (تہذیب و ثقافت)کی نمائندہ ہوتی ہے۔ زبان محض خیالات کے اظہار کا ہی ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ یہ علامتوں کا ایک مخصوص نظام بھی قائم کرتی ہے جو آگے چل کر مخصوص روایات، رسوم، رویے، رہن سہن، عادات و اطوار، رجحانات، قوانین، ضابطے، ادب، تہذیب، اعتقاد اوراقدارکو جنم دیتی ہے جس کا مجموعہ ایک شناخت کے طور پر سامنے آتا ہے۔یہی شناخت اُس سماج یا قوم کے کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔ زبان، کلچر، ادب اور زندگی آپس میں مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں۔پاکستانی قوم کی بنیادیں مذہب اور مخصوص کلچر کی حامل ہیں۔ یہ کلچر مشترکہ عناصر پر مشتمل ہے جو پاکستان کے مختلف علاقوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اِ ن عناصر میں اُردو زبان و ادب کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
اِس ضمن میں ابواللیث صدیقی اپنے ایک مضمون”پاکستانی ادب کی زبان کا مسئلہ”میں رقم طراز ہیں:
“ادب جو زندگی اور اُس کے رشتوں کا ترجمان ہوتا ہے اُسی صورت میں پاکستانی ادب ہے جب اُس پاکستانی قومیت اور پاکستانی کلچر کی ترجمانی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ادب جس کا اظہار زبان کے وسیلے سے ہوتا ہے آپس کے لسانی اختلاف کے موجود ہوتے ہوئے کس طرح ایک متحدہ قومیت اور ایک مشترکہ کلچر کا ترجمان رہا ہے یا ہو سکتا ہے۔ کیا اِس ادب کی کوئی ایک زبان ہے یا مختلف زبانوں کے پاکستانی قومی ادب میں مشترک عناصر موجود ہیں جن سے پاکستانی ادب کی ترجمانی ہوتی ہے اور کیا اِن عناصر کی ترقی اور تجزیہ سے پاکستانی قومیت کے تصور کو تقویت پہنچنے کا امکان ہے”۔ (17)
پاکستانی ادب، پاکستانی قوم کی ترجمانی کا کام کرتا ہے جو عموماََ اُردو زبان کے ذریعہ سے ہو رہی ہے۔ ابواللیث صدیقی کا خیال ہے کہ اُردو زبان کا نام تبدیل کر کے”پاکستانی”رکھ لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے جس سے مختلف علاقوں کے مابین لسانی قربت میں اضافہ ہو گا۔ اُردو کے نام کی اِس مجوزہ تبدیلی سے اُنھوں نے کئی لسانی الجھنوں کا حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر محض نام کی تبدیلی سے کچھ حقیقی فائدہ تو ہونے سے رہا جب تک کہ مختلف علاقائی زبانوں کو اُردو کے قریب لانے کے لیے مشترکہ لسانی سرمائے اور مشترکہ کلچر کے فروغ کے لیے رائے عامہ نہ ہموار کر لی جائے۔ اِس ضمن میں پاکستانی زبانوں کے حوالے سے کام کرنا نہایت ضروری ہے جس کے لیے طلبا کو پاکستانی زبانوں پر تحقیق کرنے کے لیے لسانیات کے جدید اُصولوں کی روشنی میں کام کرنا ہو گا۔اِس مقصد کے حصول کے لیے حکومتی اداروں، جامعات اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار نبھانا ہو گا۔ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کے مختلف لسانی موضوعات پر مضامین اور اُن کی صرفیات پر کتاب اُردو لسانیات کے میدان میں یقیناً اہمیت کے حامل ہیں۔ زبان کی تدریس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے اُردو صوتیات کے حوالے سے کئی اہم مباحث کو اُردو لسانیات میں جگہ دی۔تاریخی لسانیات اور اطلاقی لسانیات کے علاوہ سماجی لسانیات کے ضمن میں اُنھوں نے زبان اور کلچر کے رشتے کو بھی اپنی تحریروں میں اُجاگر کیا۔
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات:
(1) ”اُردوے قدیم کے دو نادر مخطوطے”کے عنوان سے ابواللیث صدیقی کا مضمون پہلی دفعہ رسالہ”اُردو”کراچی میں جولائی1956ء میں شائع ہوا۔
(2) ابواللیث صدیقی، ادب و لسانیات(کراچی:اُردو اکیڈمی سندھ،1950ء)،ص18۔
(3) ایضاً،ص19۔
(4) ایضاً،ص34۔35۔
(5) ”چند قدیم لغات”کے عنوان سے ڈاکٹر صدیقی کا مضمون پہلی دفعہ”اورینٹل کالج میگزین” شمارہ مئی1949ء میں شائع ہوا۔
(6) ابواللیث صدیقی، ادب و لسانیات،ص45۔
(7) ایضاً،ص49۔
(8) ”اُردو کی ترقی میں تراجم کا حصہ”کے عنوان سے ابواللیث صدیقی کا مضمون پہلی مرتبہ رسالہ”نگار”پاکستان، کراچی میں جنوری1963ء میں شائع ہوا۔
(9) ابواللیث صدیقی،ادب و لسانیات،ص61۔
(10) ”جنگِ آزادی کا اثر زبان پر”کے عنوان سے ابواللیث صدیقی کا مضمون پہلی بار رسالہ”قومی زبان”کراچی میں1857ء کی جنگِ آزادی کے سوسال بعدمئی1957ء میں شائع ہوا۔
(11) ابواللیث صدیقی،ادب و لسانیات،ص82۔
(12) ”کچھ ذریعہ تعلیم کے باب میں”کے عنوان سے ابواللیث صدیقی نے ایک مضمون سائنٹفک سوسائٹی پاکستان، کراچی کے سالانہ اجلاس منعقدہ1963ءمیں پڑھا جو پہلی دفعہ سہ ماہی رسالہ”سیپ” کراچی کے شمارہ3،1963ء میں شائع ہوا۔
(13) ابواللیث صدیقی، ادب و لسانیات،ص94۔
(14) ”زبان اور سائنس کی تعلیم”کے عنوان سے ابواللیث صدیقی نے ایک مضمون سائنٹفک سوسائٹی پاکستان، کراچی کے سالانہ اجلاس منعقدہ 13 دسمبر1956ء میں پڑھا جو پہلی دفعہ روزنامہ”جنگ” کراچی، 17 دسمبر،1957ء میں شائع ہوا۔
(15) ابواللیث صدیقی، ادب و لسانیات،ص110۔
(16) ”ثانوی زبان کی تدریس کے مسائل”کے عنوان سے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا ایک مضمون پہلی دفعہ سہ ماہی رسالہ”سیپ” کراچی کے شمارہ۴، 1963ء میں شائع ہوا۔
(17) ابواللیث صدیقی، ادب و لسانیات،ص135۔
٭٭٭