فیضان عارف
لندن
ڈاکٹر جاوید شیخ۔ لندن میں اردو کے سفیر
لندن میں ڈاکٹر جاوید شیخ کا گھر برطانیہ آنے والے اردو کے شاعروں، ادیبوں اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ لوگوں کے لئے ”ادب سرائے“ کی طرح ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درجنوں نامور لوگوں نے اس ادب سرائے میں قیام و طعام کا لطف اُٹھایا۔ اب بھی اردو کے جو اہل قلم لندن آتے ہیں ڈاکٹر جاوید شیخ ایک خوشگوار اعزاز سمجھ کر اُن کی میزبانی اور دوست احباب سے اُن کی ملاقات کا اہتمام کرتے ہیں۔موسیقی اور شاعری کے دلدادہ، نفاست اور وضع داری کے پیکر مہمان نوازی اور مرّوت کی مثال ڈاکٹر جاوید شیخ ایک طویل مدّت سے لندن میں اردو زبان و ادب کے فروغ اور تہذیبی اقدار کے علمبردار ہیں۔انہوں نے شاعر اور گلوکار نہ ہوتے ہوئے بھی اہل فن اور اہل قلم کے بہت ناز اُٹھائے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید شیخ 29اکتوبر کو ملکہ ترنم نور جہاں کے آبائی شہر قصور کے ایک تاجر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اسی شہر میں حاصل کی جس کے بعد والدین نے انہیں مزید تعلیم کے لئے لاہور بھیج دیا جہاں گورنمنٹ کالج سے ایف ایس سی کے بعد انہوں نے 1967ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور پھر برطانیہ آ گئے۔ یہاں آ کر انہوں نے طب کے شعبے میں مزید تعلیم حاصل کی، رجسٹرار مقرر ہوئے، جی پی رہے اور کم و بیش 45برس تک این ایچ ایس میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر صاحب برطانیہ میں پاکستان میڈیکل سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری رہے اور آج کل براملی مسلم کلچرل ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور اردو مرکز لندن کے سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر جاوید شیخ کے لب و لہجہ کی نفاست سے اُن کے حلقہ احباب کے اکثر لوگوں کو ان کے دہلوی یا لکھنوی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ویسے تو ڈاکٹر جاوید شیخ اردو مرکز لندن کے سربراہ ہیں لیکن درحقیقت اُن کی شخصیت خود اردو کا ایک مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے اردو کے ادیب اور شاعر اِن کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ تمام تر لوازمات، ماحول اور کیفیات کے باوجود ڈاکٹر صاحب شعر لکھنے سے کیونکر باز رہے حالانکہ اُن کی طبیعت موزوں ہے۔ وہ بہت اچھے سُخن فہم، مطالعے کے شوقین اور اردو ادب کے بہت مخلص قدردان ہیں۔ ایک بار انہوں نے نظم لکھی اور شائع ہونے کے لئے مجھے بھیجی۔ میں اُن دِنوں پاکستان پوسٹ اخبار کا ایڈیٹر یعنی مدیر تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی اس نظم کا چھپنا تھا کہ برطانیہ کے ادبی حلقوں میں بھونچال سا آ گیا۔ معلوم نہیں ساقی فاروقی صاحب نے اس نظم کی اشاعت کے بعد ڈاکٹر صاحب کے کان میں کیا سرگوشی کی کہ اُس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کوئی نظم نہیں لکھی یا کم از کم چھپوائی نہیں۔ حالانکہ ان کی وہ واحد نظم برطانیہ میں اردو کے کئی بُرے شاعروں کی کئی نظموں سے بہتر تھی۔ بہرحال ڈاکٹر جاوید شیخ کو اس حقیقت کا بہت پہلے سے ادراک ہو گیا تھا کہ بُرے شاعر سے اچھا سُخن شناس اور اچھا ادب نواز ہونا زیادہ بہتر ہے۔ڈاکٹر جاوید شیخ پر کچھ لکھتے ہوئے یہ اعتراف بھی ناگزیر ہے کہ ان کی اہلیہ ڈاکٹر حسینہ شیخ کے بغیر ڈاکٹر صاحب کا گھر اردو کا گہوارہ اور مرکز نہیں بن سکتا تھا کیونکہ ڈاکٹر حسینہ شیخ صاحبہ جس خلوص سے مہمان نوازی کی ذمہ داریاں نبھاتی رہی ہیں وہ یقینا قابل ستائش ہے۔ ڈاکٹر حسینہ شیخ ادیبہ، اور شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی ادیبوں اور شاعروں کی میزبانی میں ڈاکٹر جاوید شیخ کے شانہ بہ شانہ ہوتی ہیں اس کے لئے میں انہیں ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اللہ انہیں ہمیشہ خوشحال اور صحت مند رکھے۔ کہا جاتا ہے کہ اچھا ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جس کے نسخے کو صرف میڈیکل سٹور یا فارمیسی والا ہی پڑھ سکے۔ ڈاکٹر جاوید شیخ صاحب کے نسخوں کی تحریر کو تو میں نہیں جانتا لیکن ان کی اردو تحریروں سے میں واقف ہوں۔ وہ کیا خوب نثر لکھتے ہیں۔ان کی اولین کتاب ”کچھ میرے ہم نشیں“ اس کی بڑی مثال ہے۔ اس شاندار اور خوبصورت کتاب میں 34مختلف شخصیات کے بارے میں ڈاکٹر جاوید شیخ نے اپنی یادداشتوں اور محبت کے رشتوں سے مزین تحریروں کو یکجا کیا ہے اور اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب کی 70تصاویر کے علاؤہ ایک سفرنامہ”ایران میں مانوس اجنبی“ بھی شامل ہے۔ کتاب میں سب تحریریں بہت عمدہ ہیں لیکن مجھے ان کے بھائی جان آفتاب شیخ کے علاؤہ روشن آرا بیگم، دلیپ کمار، ساقی فاروقی، خلیل الرحمن، دردانہ انصاری اور بھابھی حسینہ شیخ کے بارے میں لکھی گئی تحریروں نے زیادہ متاثر کیا۔ ڈاکٹر جاوید شیخ نے جس طرح برطانیہ اور خاص طور پر لندن میں اردو کے فروغ کے لئے کوششیں کی ہیں اس کے لئے وہ قابل ستائش ہیں۔ اسی طرح انہوں نے برطانیہ میں اپنے بعد آنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کی رہنمائی کی اور جس طرح خاموشی سے وہ بہت سے فلاحی اور سماجی کام کرتے رہتے ہیں اس کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز کے اعزاز سے سرفراز کیا۔ ڈاکٹر جاوید شیخ برطانیہ میں اردو زبان کے مستقبل کے بارے میں بہت پُرامید ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب میں 45برس پہلے برطانیہ آیا تھا تو اس وقت سے یہی کہا جا رہا ہے کہ اس ملک میں اردو زبان کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن پورے برطانیہ میں آج بھی اردو زبان کا چلن عام ہے بلکہ انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے یہ زبان اور زیادہ فروغ پا رہی ہے۔ بھارتی فلموں کے سبب اس پر ہندی کے اثرات بھی نمایاں ہوئے ہیں۔ دراصل اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ہماری تہذیب اور ثقافت کی آئینہ دار بھی ہے۔ اردو بہت توانا اور سخت جان زبان ہے جو تمام تر نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود زندہ ہے اور برصغیر کے لوگوں میں رابطے کا اہم ذریعہ ہے۔دراصل اس زبان کو مغرب میں توانا کرنے میں ہم سب حصہ دار ہیں۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ پانچ برس سے کم بچوں کو اگر آپ اردو سکھائیں گے تو ان کی انگریزی متاثر ہو گی اور بچہ سکول میں تعلیمی معیار میں پیچھے رہ جائے گا مگر اب نئی تحقیق سے یہ بات طے ہو چکی ہے کہ بچوں کو شروع میں ہی اگر تین چار زبانیں سکھائی جائیں تو بچہ اپنے اندر ان زبانوں کو ایک خاص معیار تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لئے اب ہمارے ایشیائی لوگوں نے اپنے بچوں کو گھر میں اردو بولنے پر کوئی روک ٹوک نہیں رکھی۔ تیس پینتیس برس پہلے برطانیہ کی وزارت تعلیم نے یہ حکمنامہ جاری کیا تھا کہ ہر بچہ انگریزی کے علاوہ ایک یورپی زبان ضرور سیکھے گا۔ اس وقت ہم لوگوں نے یہ موقف لیا کہ اردو تقریباً بیس لاکھ برطانوی ایشیائیوں کی رابطے کی زبان ہے اس لئے اردو کو بھی ایک یورپی زبان سمجھا جانا چاہئے۔ محکمہ تعلیم نے اس سے اتفاق کیا اور اب تقریباً 17ہزار طالب علم Aلیول میں اردو پڑھتے ہیں۔ بعد میں روزی کے سلسلے میں وہ اردو بولنا کم کر دیتے ہیں۔اس لئے ان نوجوانوں کو اردو کی طرف راغب رکھنے کی ضرورت ہے۔اردو زبان وادب کے فروغ میں مشاعروں کا کردار کے بارے میں ڈاکٹر جاوید شیخ کا نقطۂ نظر بہت واضح ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی تقریب جو اردو زبان کے حوالے سے ہو اس کا ہماری ادبی زندگی میں بہت اہم کردار ہے۔ اب اگر مشاعروں میں شرکاء بے وزن شاعری کریں گے تو ظاہر ہے کہ اس سے اردو کو نقصان پہنچے گا۔ آج کل اگر آپ کسی مشاعرے میں جائیں اور دو تین اچھے شعر وہاں سے لے کر آئیں جو آپ یاد رکھ سکیں تو اسے آپ بہت اچھی شام سمجھ سکتے ہیں۔ جیسے کوئی شخص بغیر استاد کے گائیکی نہیں سیکھ سکتا ویسے ہی بغیر استاد کے آپ شاعری بھی نہیں سیکھ سکتے، یا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ ہنر بخشا ہو تو پھر اور بات ہے۔ میرے پاس کئی مسودات آتے ہیں جس میں کوئی شعر ایسا نہیں ہوتا جو آپ کو سوچنے پر مجبور کرے۔ مگر پھر بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ مشاعروں کا انعقاد ایک اچھی روایت ہے اور ہمیں اس پر قائم رہنا چاہئے اور اسے فروغ دینا چاہئے۔ اگر آپ یہ سوچیں کہ کتنے لوگ لندن میں اردو سمجھتے ہیں تو میں اس بات سے متفق ہوں کہ لندن واقعی اردو کا تیسرا بڑا مرکز ہے۔ آج کل سفر آسان ہے۔ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی صاحبِ طرز ادیب اور صاحبِ اسلوب شاعر لندن آتا ہے اور ہم لوگ اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ اگر میں لندن میں نہ رہتا تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میری گوپی چند نارنگ، ساقی فاروقی، افتخار عارف، عبد اللہ حسین، قرۃ العین حیدر، کیفی اعظمی، علی سردار جعفری،خمار بارہ بنکوی، گیان چند جین اور بے شمار دوسرے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے ملاقاتیں اور محفلیں نہ ہو پاتیں۔اردو رسم الخط کے بارے میں ڈاکٹر جاوید شیخ کا کہنا ہے کہ یہ زبان اپنے رسم الخط کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر آپ اس لسانی ورثے سے محروم ہونا چاہتے ہیں تو بے شک رسم الخط رومن کر لیجئے۔ اردو کے پیچھے دوسری زبانیں یعنی عربی، فارسی اور ترکی کا ایک گراں قدر سرمایہ ہے جس کے ہم وارث ہیں۔ ترکی زبان نے اپنا رسم الخط بدلا تو لاکھوں کتابیں جو ”توپ کاپی“ عجائب گھر استنبول میں رکھی ہوئی ہیں اپنے پڑھنے والوں سے محروم ہو گئیں اور لوگ اپنے ورثا کی قبروں کے کتبے تک پڑھنے سے محروم ہو گئے۔ ڈاکٹر جاوید شیخ کا حلقہ احباب بہت وسیع ہے اور ان کے ملنے والوں میں اکثریت معقول لوگوں کی ہے۔ مجھے اطمینان اور فخر ہے کہ میں بھی اِن کے حلقہ احباب میں شامل ہوں۔
***