طارق سعید
(ایم۔ فل اسکالر یونیورسٹی آف اوکاڑا)
ڈاکٹر سید تقی عابدی کی امجدفہمی
(حمدیہ شاعری کے تناظر میں)
Dr. Syed Taqi Abadi’s Amjad Fahmee ( In the light of hymning poetry)
Tariq Saeed (M.Phil Scholar University of Okara)
Abstract
Amjad Islam Amjad is a genius poet. His poetic style distinguish him from other poets. His poetry play a vital role in society. Range of his area of interest is so vast that it requires immense knowledge to write or speak on his verse and thought. A number of scholars came forward to offer interpretation of his verse. Dr. Syed Taqi Abide is one of them. He write book, articles and delivered lectures on Amjad’s poetry and thought. The article focuses Syed Taqi Abadi’s services in the field of hymning poetry.
Keywords:
سید تقی عابدی، امجد اسلام امجد،حمدیہ شاعری، امجد فہمی،کینیڈا، بک کارنر جہلم، علامہ اقبال
اردو ادب میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ وہ بیک وقت محقق ، نقاد اور شاعر ہیں۔ وہ اگرچہ پیشے کے اعتبار سے طبیب ہیں اور اس میدان میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں لیکن اردو ادب بھی ان کی رگ رگ اور نس نس میں رچا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں بھی وہ ایک نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ان کا مشہور قول ہے کہ وہ صحت کے طبیب ادب کے مریض اور اردو کے وکیل ہیں۔ وہ عرصہ دراز سے کینیڈامیں مقیم ہیں جہاں وہ اردو کی سر پرستی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ وہ مغربی ممالک میں اردو کی شمع کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ 65 سے زائد کتب کے مصنف و مرتب ڈاکٹر سید تقی عابدی نے اردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔
امجدؔ کی شخصیت اور فن پر بہت کام ہو چکا ہے۔ انہی میں سے ایک کام ڈاکٹر سید تقی عابدی کی کتاب “امجد فہمی” بھی ہے۔ یہ کتاب نومبر 2018ء میں بک کارنر جہلم کے پلیٹ فارم سے شائع ہوئی جس میں ان کے جہانِ شعر کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کے حوالے سے ان کا ایک الگ اور منفرد اسلوب انہیں اپنے معاصرین میں جداگانہ قد و قامت کا حامل ٹھہراتا ہے۔اردو ادب میں امجد اسلام امجدؔ کی شاعری خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی شاعری میں حمد ، نعت، منقبت، نظم ، غزل قریب تمام اصناف سخن کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی “امجد فہمی ” میں امجؔد کی حمدیہ شاعری کے سلسلہ میں اپنے مضمون “دور حاضر کے حمدیہ موضوعات کا جائزہ” کا مقصد بیان کرتے ہیں کہ ان کا یہ مضمون امجد اسلام امجدؔ کی حمدیہ منظوم نگارشات کا تجلیلی ، تحلیلی، تشریحی، توصیفی، مذہبی، قرآنی ، عقیدتی، علمی ، ادبی اور شعری جائزہ ہے جو طریقت ، شریعت اور حقیقت کے نقش و نگار کے ساتھ ساتھ اکیسویں صدی کی سماجی ، تہذیبی اور تربیتی قدروں کا صحیفہ بھی ہے۔
امجد اسلام امجدؔ کی حمد وں کے بارے میں ڈاکٹر سید تقی عابدی بتاتے ہیں کہ ان کے کلام میں پینتیس(35) سے زیادہ حمدیں، چار (4)مناجاتیں، چھ (6)نظمیں کعبے اور مناسک حج سے متعلق ہیں۔ امجؔد کی حمد یں غزل کی ہیت مردف اور غیر مردف ، مثنوی، قطعات، ماہیے اور نظموں کی شکل میں ملتی ہیں۔ نظموں میں پابند نظم، نظم معریٰ اور آزاد نظم دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنا یہ تمام کلام مجموعہ “اسباب” میں نعت اور سلام کے ساتھ جمع کر دیا ہے۔ امجؔد کی حمد نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر سید تقی عابدی کچھ یوں رقمطراز ہیں:
” یہاں یہ بات بھی فخر و مباہات اور مبارک باد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ امجد کا شمار اردو ادب کے ان چند شعرا ء میں ہوتا ہےجنھیں حمدیں لکھنے کی خاص توفیق ہوئی۔ اتنا زیادہ حمدیہ کلام مرثیہ گو یوں اور نعت نگاروں کے دفاتر میں تو نظر آتا ہے لیکن دوسرے غزل اور نظم کے ممتاز شعراء کے پاس موجود نہیں۔ ہم صرف یہاں امجد ؔ کی زبانی یہی کہہ سکتے ہیں۔ ھذا من فضل ربی۔”(1) |
امجدؔ کی حمدیہ شاعری کی انفرادیت بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر سید تقی عابدی کہتے ہیں کہ انہوں نے حمد کو نیا لہجہ اور نئی وسعت دی ہے۔ ان کی حمد نگاری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ حمد نگاری کو موجودہ دور اور اس کے موجودہ مسائل سے جوڑ رہے ہیں جن میں سائنسی ترقیاں، فلائی اطلاعات اور کہکشاؤں کی ہر روز نئی نئی موشگافیاں شامل ہیں۔ حمد کا بیانی حسن خود اس نظم کی لسانی دستکاری ہے اگرچہ ظاہرناًمصرعے اور فقرے خیالات میں شعری رنگ و بو بکھرتے ہیں لیکن باطناً ان میں تمام صفات کبریا کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ حمدوں میں انہوں نے خوبصورت پیکر تراشے ہیں جو زیادہ تر کائناتی یا فطری ہیں جیسے خلا، جہان، کہکشاں، سورج ، روشنی وغیرہ انسانی پیکر جیسے آنکھیں، نیلیوں، میٹھوں، لہو وغیرہ کے ساتھ چرند اور پرند کی پیکر سازی نے مضمون میں ندرت پیدا کی ہے۔ حمد کے اصلی موضوعات جن میں شاعر نے اثبات وجود اور اقرارِ وحدت کا ذکر کیا ہے۔ امجؔد کی حمدیہ شاعری کی نمایاں خصوصیات کے متعلق ڈاکٹر سید تقی عابدی کچھ اس طرح رقمطراز ہیں:
“امجد کی پیکر سازی میں آنکھ ، نیند اور خواب مختلف معنی کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔ حمد میں یہ مضامین بالکل جدید ہیں اور جدید حمد کی قلمرو میں ان کا مقام اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے حسنیٰ حرفوں سے بنے ہیں اور جب یہ الفاظ زبان پر آتے ہیں تو آواز بن جاتے ہیں چنانچہ پڑھنے والا ہی نہیں بلکہ خود حروف اور اس کے اندر لبریز صدانے بھی معبود حقیقی کو ہر قدم پر پکارا ہے ۔”(2) |
ڈاکٹر سید تقی عابدی کے مطابق امجد کی حمدوں کے مطالعے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر نے دس بارہ چھوٹی بڑی حمدوں میں توصیف اور تجلیل کے ساتھ کچھ سوالات بھی اٹھائے ہیں جن میں “کن فیکون” مسلہ جبرو قدر ، مسلہ جزاوسزا پر بحث کی گئی ہے اور حضور اقدس ﷺ سے روشنی بھی مانگی ہے۔ ان کی حمدوں میں وقتاً فوقتاً انسانی فکر ی ذہین میں اٹھنے والے سوالات نہایت سلیقے سے بیان کیے گئے ہیں جس کا مبدا اسلامی فلسفہ ہے۔ اس ضمن میں علامہ اقباؔل کے لہجے کا رنگ بھی نمایاں ہے لیکن امجد کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مطالب کو آسان اور فہم بنانے کے لیے حتی الامکان ادق الفاظ تلمیحات اور اصطلاحات سے دوری اختیار کی ہے سادہ اور عام فہم انداز کو فوقیت دی ہے۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی اپنے مضمون”حمدوں میں کن فیکون کا تجسس اور تلقین”میں اظہار خیال کرتے ہوئے اردو شاعری میں ان الفاظ کے استعمال کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں کہ علامہ اقبالؔ کے کلام میں قرآنی اصطلاحات ، آیات کے فقرات اور الفاظ میں “کن فیکون” کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے مطابق ایسا نہیں کہ اردو شعرو ادب میں “کن فیکون” ، “کن فکون” یا “کن فکان” یا اس کا مخفف “کن” کا پہلے استعمال نہیں تھا بلکہ اس لفظ کی مختلف جہات میں استعمال کا وسیع استعمال علامہ اقباؔل کے کلام میں ملتا ہے۔ اللہ کے حکم کے مطابق تخلیق کائنات میں رب العزت نے کہا”ہوجا” اور اسی وقت وجود کائنات کا عمل مکمل ہو گیا۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی ان الفاظ کے اردو ادب میں استعمال کے متعلق لکھتے ہیں:
” جہاں تک اردو شاعری کا تعلق ہے علامہ اقبال کے بعد اگر کسی شاعر نے سب سے زیادہ اس مسلہ سے متعلق لکھا ہے تو میرے مطالعے میں امجد اسلام امجد ہیں۔امجد نے “کن فکان” کا سوال ہر اس مقام پر اٹھایا ہے جہاں حیرت، عظمت، وحدت، خلقت کے مسائل ربوبیت کی معرفت سے متعلق ہیں ۔”(3) |
ڈاکٹر سید تقی عابدی کے نزدیک اللہ کے فضل و کمال پر جو سوالات امجؔد نے اٹھائے ہیں ان کا جواز اور جواب بھی پیش کیا ہے جس کے سبب گمان یقین میں بدل جاتا ہے۔ معرفت کی عدمیت کے باعث عبادت تجارت کا روپ دھار لیتی ہے۔ سوال و جواز کے سلسلے میں امجؔد کی نظم “مجھے ہی کیوں” اس کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کے ذیل میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ خود دوسرے زاویہ نظر سے ان کے جواب بھی ہیں مصرعے سوال کے ساتھ اس کے مخفی جواب بھی ہیں۔
فلسفہ وجود باری تعالیٰ پر صفات اور کمالات کی روشنی میں علماء اور صوفیا نے کئی بحثیں کی ہیں۔ یہاں امؔجد نے اپنی نظموں کے مجموعہ میں سوال کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ ایک ترتیب شدہ واقعہ ہے جس میں ہر چیز قاعدہ اور منصوبہ بندی کے تحت وجود میں آئی ہے کیوں کہ ان کا بنانے والا موجود ہے۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی اپنے مضمون” حمدوں میں مناجاتی اور دعائیہ تجلیات” میں امجؔد کے حمدیہ کلام میں موجود مناجاتی اور دعائیہ اشعار کا تنقیدی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق حمد میں مناجاتی اور دعائیہ اشعار ہمیشہ کم یا زیادہ موجود رہے ہیں اسی لیے حمد، دعا اور مناجات کو جدا جدا خانوں میں پوری طرح نہیں رکھا جا سکتا۔ امجد کی کوئی بھی حمد ایسی نہیں جس میں کم از کم ایک شعر اس موضوع پر موجود نہ ہو لیکن قریب قریب ایک درجن حمدیں ایسی ہیں جن میں مناجاتی اور دعائیہ مضامین کی کثرت ہے اور اسی لیے شاعر نے بعض حمدوں کو مناجات ، دعا ئیہ، حمدیہ مناجات کا عنوان بھی دیا ہے۔ موضوع اور مطالب کی ہم آہنگی کے پیش نظر ایسی تمام حمدوں اور مناجاتوں اور دعاؤں کو چند عنوانات کے تحت مذکورہ مضمون کے تحت ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
فن کسی بھی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ امؔجد فہمی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کی شخصیت میں عجز و انکساری اور خاکساری دوسرے شعراء کی نسبت بہت زیادہ ہے جو دین اور دنیاوی لحاظ سے ایک بڑی فضیلت ہے۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننا نا پسندیدہ عمل ہے لیکن صرف شریعت شاعری میں یہ نہ صرف مستحب ہے بلکہ بعض شاعروں نے تو اس کو واجب اور فرض جان کر ہر موقع پرا سے ادا کیا ہے۔ امجؔد کی ایک نظم “سمندر کو دیکھو” میں وہ بڑائی اور تکبر کو صرف خدا واحد کی ذات کا خاصہ قرار دیتے ہیں۔ اللہ کی ہی ذات کو یہ زیبا ہے کہ وہ اپنی آپ تعریف کرے۔ انہوں نے اپنےکلام میں بہت کم اس دولت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ حمدوں میں تو عجز و انکساری کی بڑائی قدم قدم پر ان کے کردار کے روشن مینار دکھاتی ہے اور اس کی انتہا مناجات ، دعا وغیرہ میں فلک بوس ہے۔ ان کی مناجاتی اور دعائیہ شاعری اس بات پر مدلل ہے کہ انہوں نے عجز و انکساری کو بندے کے لیے ضروری خیال کیا ہے۔ شاعر کی عجز وانکساری کا یہ عالم ہے کہ وہ دست دعا تو بلند کرتا ہے لیکن رب اقدس کی بڑائی اور عظمت بیان کرنے کے لیے اپنے پاس الفاظ کی محتاجی کو پیش کرتا ہے۔
امجؔد کے حمدیہ کلام کے مقاصد کو بھی ڈاکٹر سید تقی عابدی موضوع گفتگو بناتے ہیں ان کے مطابق امؔجد کی حمدیہ مناجاتوں اور دعاؤں میں عالی مقاصد پنہاں ہیں۔ وہ اپنے ذاتی، شخصی مسائل میں بھی تو مغفرت اور بخشش کی دعا کرتے ہیں یا اپنے پیغام کو پہنچانے کے لیے فن کی بالیدگی اور تاثیر کی دعا مانگتے ہیں۔ وہ کبھی کعبے کے سامنے ، کبھی گنبد خضریٰ میں ، کبھی حضور اکرم ﷺ کے وسیلے سے اپنی حاجات کو پیش کرتے ہیں۔ رحمت حق کو جوش میں لانے کے لیے شاعر نے “میرے آقائے محترم کے فدا” لکھ کر قلبی تعلق اور وابستگی کا والہانہ اظہار کیا ہے۔ حدیث دل کا اظہار یہاں کی بناوٹ کے تحت نہیں بلکہ دل کی آواز الفاظ میں بھر دی گئی ہے کہ جس کے تحت حضور ختمی مرتبت ﷺ سے وسیلہ برصغیر کی مناجات کی تہذیب ، ترتیب اور تطہیر سمجھی جاتی ہے جو قبولیت کی ضامن ہے۔ وہ اپنے دفتر اعمال پر نظر نہ کرنے کی دعا مانگتے ہیں اور نیک راستے کی توقعات چاہتے ہیں۔ ہر بڑے شاعر کی طرح امجؔد نے بھی اپنے کلام کی مقبولیت اور دوام کے ساتھ ساتھ شاعری کے نزول یعنی آمد کی دعا مانگی ہے۔ “تم سچے برحق سائیں” میں وہ خدا برحق سے فکر و خیال، راز و رموز ،اسرار اور افکار کی طلب کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی کی رائے میں شاعر کے فن میں اس کی شخصیت اور حیات کے دل کش اور درد ناک حالات ہر لمحہ رقم ہوتے رہتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کے عرفان کا حصول ممکن بنانا چاہتے ہیں تاکہ علم و آگہی کی روشنی اپنے کلام میں بکھیر سکیں۔ شاعری فکر و دید کا کرشمہ ہے اور یہ سعادت بازو کے زور اور آنکھوں کی بصارت سے نہیں بلکہ الہامی توفیقات اور دلوں کی بصیرت سے حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ امجؔد نے اپنے فن میں معجز بیانی کی دعا کی ہے۔ بڑی شاعری داخلی تجربات کو لفظوں میں ڈھال کر سننے اور پڑھنے والے کے دل میں وہی کیفیت کا مقصد لے کر آتی ہے۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی رقمطراز ہیں :
” امجد اللہ کے کرم اور رحم کے علاوہ اس کے فضل کا بھی شکر گزار ہے۔ انسان مہد سے لحد تک ہر قدم پر معبود کے کرم، رحم، فضل کا محتاج ہے۔ اگر انسان اپنا خود محاسبہ کرے تو معلوم ہو گا کہ یہ مشت خاک کی ترقی اور کامیابی سب کچھ اسی کا دین ہے۔ شکر در حقیقت اللہ کے الطاف کا اقرار ہے جس سے اس کے لطف میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ امجد اسلام امجد کو قدرت نے ہر طرح سے نوازا اور عزت و احترام سے مالا مال کیا ہے جس کے لیے وہ باآواز بلند کہے سکتے ہیں کہ ھذا من فضل ربی ۔”(4) |
ڈاکٹر سید تقی عابدی امجؔد کے کلام میں وطنیت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وطن سے محبت کا جذبہ ہر شاعر کے ہاں ملتا ہے۔ امجد کی مناجاتوں اور دعاوں میں اپنی خاک اور اپنے قومی درد کی ترجیح تو ہے لیکن تفریق نہیں۔ وہ کسی ایک ذات، مذہب یا قوم کی بات نہیں کرتے بلکہ وہ تمام قوموں کے محرومین اور مظلومین کی بات کرتے ہیں۔ ایک طبعی کیفیت کے تحت ہر شخص کو اپنا دین اور وطن عزیز ہے۔ اسی لیے امجؔد کے کلام میں دوسری قوموں کے شعراء کی نظموں کے تراجم بھی شامل ہیں جو رنگ و نسل کی بنیاد پر دوسروں سے علیحدہ کر دیے گئے تھے۔ ان کے کلام کو ہر طبقے کے لوگ پسند کرتے ہیں کیوں کہ ان کی مناجاتوں اور دعاؤں کا ایک جذباتی اور احساسی پہلو ان کی وطن دوستی، وطن پرستی اور وطن کے ستم رسیدہ غریب اور محروم لوگوں سے ہے۔ امجؔد کی شاعری کی طرح ان کے ڈراموں میں بھی ملک کی جاگیردارانہ ذہنیت پر کھل کر اظہار ہو چکا ہے۔ اسی لیے وہ بہت مقبول ہوئے۔ جہاں انہوں نے ملک کے غیر منصفانہ وسائل کے خلاف احتجاج کیا ہے اپنی قلبی واردات میں خدائے برتر سے اس مہم میں لوگوں کی مدد کی دعا بھی کی ہے۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی کی رائے میں امجؔد دعا کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ سمیع و علیم ہے وہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ وہ دعائیں ہونٹوں پر آنے سے پہلے ان سے واقف ہوتا ہے تو پھر ان دعاؤں کی تاکید اور وہ بھی عجز و انکساری اور گریہ و زاری کے ساتھ کیوں ہو؟ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ بعض دعائیں مانگنے سے پہلے مستجاب ہو جاتی ہیں۔ دعا دراصل سوال اور طلب ہے حضور باری تعالیٰ میں دعا ہر مقام پر اور ہر قوم کا غیبی سہارا ہے۔امجؔد دعائیہ لہجہ اور اس کی تاثیری وسعت کو نظم کے عنوان سے جوڑ دیتے ہیں۔ امجد کی احساساتی نظم “ماں” ان کی والدہ کے انتقال پر ہے اس طویل نظم میں دعا کے کچھ پہلو سوز و گداز کے ساتھ روشنی بکھیرتے ہیں۔ اسی طرح ایک نجی نظم میں وہ اپنے والدین اور اپنے اہل و عیال کی پر رونق زندگی کا شکر ادا کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کا فضل ہے۔
امجؔدنظم میں موضوع اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ امجد کی شاعری میں رزق کا پیکر درجنوں طریقوں سے مصرف ہوا ہے۔ ایک نظم “سبق” میں بتاتے ہیں کہ بہت سی قومیں اس دنیا میں ایسے تباہ و تاراج ہوئیں کہ مشکل سے ان کا نام و نشان کتابوں میں ملتا ہے۔یہ وہ قومیں تھیں جن کے فیصلے دوسرے لوگ کرتے تھے۔ عمدہ شاعری کے لیے سب سے ضروری اور اہم چیز مفہوم و مطالب کا ابلاغ ہے جو اس نظم میں روز مرہ کی شکل میں ایسے موجود ہے جیسے کوئی بات کر رہا ہو۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی اس نظم کا تنقیدی جائزہ کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:
” اس میں رزق کی نادر پیکر تراشی، منزل سراب کی صورت کی خوب فہم تشبیہ کے علاوہ مراعات النظیر یا ایک ہی مضمون سے رشتے رکھنے والے الفاظ کا اژدھام ہے۔ جیسے سرون ، جھکا،عبادت خدا، قبول کے ساتھ راہ گزار منزل سفر کے علاوہ فنا، بے نشاں وغیرہ ہیں۔”(5) |
ڈاکٹر سید تقی عابدی نے امجؔد کے گیتوں میں حمدیہ عناصر کا سراغ بھی لگایا ہے ان کے مطابق گیت بھی ابلاغ کا اہم ذریعہ ہیں۔ امجؔد نے گیتوں میں بھی بعض گیت اور بعض اشعار مناجاتی اور دعائیہ کہے ہیں ۔ ان گیتوں میں رحمت کو جلال میں لانے کے لیے اللہ کی صفات سے فائدہ اٹھا کر سوالات سے استغاثہ کیا ہے۔ ایک اور گیت میں علم کی اہمیت ، عظمت اور اس کے حصول کی دعا کو خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ ساز گیت خدا، علم، زندگی اور روشنی کے پیکروں سے بنایا گیا ہے ۔تکرار نے مفہوم کو بہت گہرا رنگ اور نغمگی کو غنائیت دے کر گیت کو غنی کر دیا ہے۔
ڈاکٹرسید تقی عابدی اپنے مضمون “حمدوں میں کعبے کی قبلہ نمائی” میں امجؔد کی حمدیہ شاعری میں کعبے کی قبلہ نمائی کا ناقدانہ جائزہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق امجؔد کا مجموعہ کلام “اسباب” کی پہلی حمد جو غزل کی ہیت میں سات اشعار مردف متوسط بحر کی تخلیق ہے خود صحنِ کعبہ میں لکھی گئی ہے ۔ اس حمد کے اشعار کعبہ سے جوڑے گئے ہیں۔ یہاں شعروں میں الفاظ کعبہ، گھر، باب وغیرہ کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ یہاں پر شعر میں فقرہ یا فقرے ، جو قافیہ کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں بذاتِ خود ایک مکمل حمدیہ عنوان اور قلبی واردات ہے۔ اس حمد میں امجؔد کے معروف علامتی پیکر خواب اور آنکھ کا ذکر خوب صورت انداز میں ملتا ہے۔ اسی لیے یہ مقام دعاؤں کی قبولیت کا مرکز ہے اور اس کا سفر بھی حصول ثواب کا ذریعہ ہے ۔ پوری حمد روز مرہ میں نہایت سادہ اور آسان الفاظ سے مزین ہے۔ سچی اور تاثیری شاعری کے ضمن میں سچے جذبات اور بیانات میں صداقت اہم چیز ہے۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی کے مطابق امجؔد کے کلام میں ارکان اسلام کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے ان کی رائے میں امجؔد کی حمدیہ شاعری کی نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ نہ صرف کعبہ کی عظمت ، احترام، تاریخ اور تجلیات کے بارے میں لکھتے ہیں بلکہ طواف ، مناسک حج کے علاوہ الگ الگ نظمیں چاہ زم زم ، منیٰ وغیرہ پر لکھ کر آبدار تاثیری اشعار بھی پیش کرتے ہیں۔ امجؔد کی حمدیہ شاعری ان کی معروف اور مستجاب روایت کی بہترین عکاس ہے۔ شاعر کی جب پہلی نظر کعبہ پر پڑی تو ہوش و حواس، شدت جذبات اور روحانی آب و تاب سے گم سم ہو جاتے ہیں آنکھیں موند جاتی ہیں۔ ذہین کند اور زبان بند ہونے لگتی ہے۔ اس حمد کے بارے میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کچھ یوں رقمطراز ہیں:
” ایک کامیاب ذہن جہاں بھی جاتا ہے اپنے لیے ایک کامیاب بارگاہ بنا لیتا ہے ۔ چناں چہ امجد نے کعبہ پر پہلی نظر کو نہ صرف شعری رنگ میں رنگا بلکہ اس میں دقیق ندرت بیانی سے مضمون کے کئی گوشوں کو روشن بھی کیا۔ ان نظموں سے اکیسویں صدی کی حمدوں کی دقیق نگاری اور جزئیات بیانی بھی جو امجد کی شاعری کی پہچان ہے ظاہر ہوتی ہے۔”(6) |
حج کی سعادت اور مناسک کی ادائیگی کے دوران قیام مکہ بھی شاعر کے لیے کلام یا پیام لایا اور شاعر نے انہیں بھی لفظوں میں قید کر لیا تاکہ جذبات کا اظہار ایک عمدہ انداز میں کیا جا سکے۔ اس تین شعر کی حمد میں امجد نے حج کے بیکراں سفر کی روداد کو نہ صرف کوزے میں بند کیا بلکہ ان میں جذبات کا تلاطم بھی پیدا کیا۔
امجد کی ایک نظم “کعبہ کہیں جسے” پانچ اشعار کی ایک خوب صورت نظم ہے جس کی خوب صورتی یہ ہے کہ سیدھے سادے رواں دواں الفاظ میں جذبات ، محسوسات جو شعور کی غیر مرئی صورت حال ہے الفاظ کی صورت پر خال بنا کر پیش کیے گئے ہیں۔ اس میں داخلیت کے ایسے پہلو نمایاں ہیں جس میں ہر خارجی پیکر شامل ہو جاتا ہے۔ امجد کی کعبہ سے متعلق حمدیہ شاعری کے بارے میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کچھ یوں لکھتے ہیں:
” حج کے سفر میں کئی درجن حمدیں اور نعتیں مسلسل بارانِ رحمت کی طرح ذہن پر برستی رہیں۔ کئی نظمیں کعبے کے سامنے بیٹھ کر بھی لکھی گئیں۔چنانچہ ان میں خارجی مشاہدہ اور داخلی جذبہ کی ملی جلی تاثیر ہے جو حاجی یا ہر تصور ذہنی کو اسی طرح متاثر اور محضوظ کرتی ہے جس طرح کہ خود شاعر کو یہی عمل کامیاب اور مقبول شاعری کی سند بھی ہے۔”(7) |
ڈاکٹر سید تقی عابدی کے مطابق امجؔد قادر الکلام شاعر ہیں۔ انہوں نے حمد میں ششدر صفت ابہام اور ایہام کا استعمال بھی کیا ہے۔اسی میں صنعت سیاق الاعداد کا ستعمال بھی ملتا ہے۔ صنعت مراعات النظیر میں آنکھیں، نظر، روشنی، صنعت تکرار میں بے نام و نشاں، صنعت تضاد میں قطرہ، دریا وغیرہ بھی نظر آتے ہیں۔ امجد نے خود مضمون کو داورِ محشر سے منسلک کیا ہے۔ یعنی پروردگار مجھے بخش دے میرے عصیاں کو مٹا دے تاکہ میں شرمندہ نہ ہوں۔
امجؔد کی ایک آزاد حمدیہ نظم”حطیم” ہے۔ اس نظم کو حمدیہ کہنے کی بابت ڈاکٹر سید تقی عابدی کہتے ہیں کہ اس نظم کا تعلق بیت اللہ اور ذکر اللہ سے ہے۔ امجد کی وہ نظمیں جو کعبہ کے ذکر سے لبریز ہیں پڑھنے اور سننے والے کو نہ صرف کعبہ کی عظمت بلکہ اس کی تاریخ اور ساخت و تعمیر سے بھی باخبر کرتی ہیں۔ اس ضمن میں سید تقی عابدی لکھتے ہیں:
“حطیم کعبہ کی قدیم دیوار کا حصہ ہے جو ہزاروں برس قدیم ہے جس میں وہ تاثیر ہے جس کو شاعر نے اپنی قلبی آواز سے جوڑا ہے۔”(8) |
قرآنی آیت کی روشنی میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے سب سے پہلا مبارک گھر (کعبہ)بنایا جو سارے جہانوں کے لیے ہدایت کا مرکز ہے۔ چناں چہ اس گھر کے حصے حطیم میں جو دنیا کی سب سے پہلی ربانی عمارت کعبہ کا جزو ہے وہی اثر اور تاثیر ہونی چاہیے جس طرح سے شاعر نے محسوس کی اور قرطاس پر نقش کی۔
امجد کی حمد میں نئے تجربات کا پتہ چلتا ہے۔ طواف کرتے وقت اللھم لبیک کا عدد بھی حمد کی ردیف میں تکرار کے ساتھ “میں حاضر ہوں” ، “میں حاضر ہوں” کہہ کر لایا گیا ہے۔ شاعر حمد میں اپنی عاجزی کے ذکر کے ساتھ اللہ رب العزت کی ذات ، صفات، کمالات اور عظمت پر سپردگی اور حیرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ شعار اللہ کے بیان کے ساتھ امجؔد کا شعوری اور غیر شعوری پیکر آنکھیں اور خواب کا بیان دل کش اور دلفریب ہے۔
الفاظ کی تکرار ، ردیف کا ردھم ، ہم قافیہ الفاظ اس طویل بحر کی حمد کو نغمگی اور غنائیت سے سر شار کر دیتے ہیں۔ حمد کو نورانیت سے بھر پور کرنے کے لیے تضاد الفاظ ارض، سما، ازل، ابد کے ساتھ پوری حمد میں معتبر اور متبرک تراکیب کا ہجوم ہے۔ حمد میں تلمیحات کے ذریعے دل کشی پیدا کرنے کی سعی بھی کی گئی ہے۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی کی تحقیق کے مطابق امجؔد نے حمدیہ نظم” یہ بستی منیٰ کی ہے” لکھی۔ بھر پور کیفیت سے دور چار منیٰ پر لکھی گئی ایسی نظم اس سے پہلے اردو اور فارسی میں نہیں لکھی گئی۔ حمد کی تفہیم واضح کر تی ہے کہ منیٰ صرف خیموں کا پڑاؤ نہیں بلکہ یہ حق کا راستہ ہے جو نفی سے اثبات یعنی لا سے الہٰ کی طرف ہے۔ یہاں ہر شخص دل شاد ہے مستی عشق خدا سے سرشار ہے۔ یہاں کی خاک دوا اور یہاں کی فضا شفا ہے۔ شاعر دورانِ حج جزئیات کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ بلخصوص جہاں مسلہ واردات قلبی کا ہے۔ حاجی کے لیے وہ لحظہ جب وہ کعبہ سے وداع ہوتا ہے بہت سخت ہوتا ہے اسی لیے وہ اشکبار اور غم زدہ رہتا ہے۔ امجؔد ان رخصتی کے لمحات کو مثبت رنگ دے کر مصرعوں میں درد وگداز کے ساتھ امید اور دعاوں کی تاثیر پیدا کرتے ہیں ۔ اس نظم “طواف وداع” میں جہاں وہ ایک طرف بچھڑنے کی وجہ سے غم زدہ ہیں تو وہیں وہ اس امید کا دامن بھی تھامے ہوئے ہیں کہ یہ خوش نصیبی پھر دوبارہ نصیب ہو گی۔
سید تقی عابدی ان کی حمدیہ شاعری کی جزئیات کو نہایت باریک بینی سے دیکھتے ہیں۔ کلاسیک اور موجودہ دور کے رنگ شاعری کو ایک نئے زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ حمدیہ شاعری میں موجود الفاظ کے تناظر اور پس منظر کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ حمد کی سائنسی انداز میں پیش کش کو پہلی مرتبہ عابدی نے امجد کی شاعری میں کھوجنے کی کوشش کی کامیاب کوشش ہے۔ مذہبی عقائد خصوصا حج اور اس کے مناسک کو امجد کی شاعری میں خاصی اہمیت دی گئی ہے جس پرعابدی نے ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے۔ امجد کی حمد نگاری جدیدیت اور عصرِ حاضر کے تمام تر لوازمات سے بھر پور ہے۔ ان کی حمدیہ شاعری جہاں ان کی قلبی واردات کا اظہار ہے وہیں مناجاتی انداز اللہ کے حضور دست دعا بھی ہے۔ ان کی صنف حمد نگاری کی انفرادیت انہیں اردو ادب میں کمال درجے پر فائز کیے ہوئے ہے۔
حوالہ جات
1۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی، امجد فہمی (جہلم:بک کارنر ،2018ء )، ص :46
2۔ ایضاً، ص :47
3۔ ایضاً، ص :58
4۔ ایضاً، ص :68
5۔ ایضاً، ص :78
6۔ ایضاً، ص :83
7۔ ایضاً، ص :85
8۔ ایضاً، ص :88
***