مخدوم عرفان طاہر( جھنگ پاکستان)
ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا ڈرامہ ” وکھری سوچ” ایک مطالعہ
اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر، سفر نامہ نگار، مزاح نگار اور کالم نگار ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا نام ایسا نہیں ہے ،جس کا تعارف کروایا جائے۔ڈاکٹر صاحب ایک ایسی شخصیت ہیں، جن کے نام سے ہر شخص واقف ہے۔ ڈاکٹر صاحب جہاں شاعر،مزاح نگار، سفرنامہ نگار اور ڈرامہ نگار کے طور نظر آتے ہیں،وہیں ایک طبیب کے طور پر بھی جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ایسی ہے جنہوں نے ادب سے تعلیمی تعلق نہ ہونے کے باوجود اتنی تصانیف منظر عام پر لائیں کہ جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
ڈاکٹر صاحب کا شاعری اور ادبی دنیا میں ذوق مطالعہ اور تدوین کتب ان کا شوق ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ ذوق ان کی بے پناہ فکری اور نظری صلاحیت اور ادب شناسی کی اعلیٰ استعداد کے سبب محض ذوق کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ذہنی و قلبی وابستگی کی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سارے کام چھوڑ کر ادب کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی ابتدائی کاوش مزاحیہ خودنوشت “انوکھا لاڈلہ” کے زیر عنوان منظرعام پر آئی،جس کے سبب انہیں کافی شہرت ملی،وہیں سے انہوں نے باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے جہاں اپنی غیر معمولی تجسس آمیز مزاجی کیفیت اور تلاش حقیقت کے حوالے سے کئی کتب منظر عام پر لائیں وہیں ان کا اہم کارنامہ”وکھری سوچ ” کے نتیجے میں سامنے آیا۔ڈاکٹر صاحب کا ڈرامہ ” وکھری سوچ” کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری ان کے الگ مزاج اور ذہنی و فکری سوچ سے متعارف ہوتا ہے ان کے پنجابی ڈرامہ”وکھری سوچ” کو ڈاکٹر شبیر احمد قادری نے اردو زبان میں ترجمہ کیا۔
ڈاکٹر صاحب کو پنجاب دھرتی اور پنجابی زبان سے بے حد لگاؤ ہے اس وجہ سے انہوں نے اپنے ہسپتال کے آفس میں بھی پنجابی رسم و روایات کو اپنایا ہوا ہے ان کا مزاج بھی خالصاً پنجابی ہے۔ڈاکٹر محسن مگھیانہ موضوع کے اعتبار سے بھی ایک نازک فنکار ہیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کون سا موضوع ان کے کتنے حساب جاں کا طلبگار ہے۔
اڈاکٹر صاحب نے ڈرامہ نگاری میں ڈرامہ کی تکینک پر خاص توجہ دی ہے۔ ڈرامہ کے اندر جو لوازمات ہوتے ہیں،یا جن کو پورا کرنا ضروری ہے،وہ تمام لوازمات پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا ڈرامہ “وکھری سوچ ” چودہ مناظر پر مشتمل ہے۔ اس میں انہوں نے ہر منظر کو ایک خاص اسلوب کے تحت گاؤں کے مناظر کے ساتھ ساتھ گاؤں کی تہذیب اور وڈیرے نظام کو دکھایا ہے۔ جس طرح پہلے منظر میں ایک جاگیر دار کا ڈیرے کا منظر دکھایا گیا ہے،اس ڈیرے پر بیٹھے مہر جی کا پگڑی باندھ کر بڑی سی چارپائی پر تکیہ لگا کر حقہ کے کش لگانا دکھایا گیا ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے ڈرامہ میں گاؤں کی تہذیب روایت اور یہ کہوں کہ شعور کی روشنی میں سماج کے اخلاقی انحطاط کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے ڈرامے میں تمام کردار اخلاقی اقدار کا منظر دکھاتے ہیں۔ڈرامے کا پلاٹ مربوط ہے۔ ہر منظر کے پلاٹ کو مصنف نے بڑی چابکدستی سے ترتیب دیتے ہوئے اختصار سے کام لیا ہے ۔ کردار نگاری ، مکالمہ نگاری ، تہذیبی پہلو اور منظر نگاری کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔
ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے ڈرامہ میں گاؤں کے منظر کو دکھایا ہے ،ساتھ ہی ساتھ اس گاؤں کے نظام زندگی کو دکھایا گیا ۔ گاؤں میں مہر جی کا ڈیرہ ہوتا ہے اور وہ ایک بڑی سی چارپائی پر بیٹھا حقہ کے کش لگا رہا ہوتا ہے ،اس دوران ایک مراثی حقہ کے قریب زمین پر بیٹھا ہے ،جبکہ دوسرا مراثی مہر صاحب کے پاؤں دبا رہا ہوتا، ساتھ ہی کچھ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں ۔۔ ڈاکٹر صاحب کی خوبی یہ ہے کہ جہاں انہوں نے گاؤں کے اس نظام کو دکھایا وہیں اس ڈیرے کی دیگر روایات کو بھی اس ڈرامے میں دکھایا ہے،جیسے مہر صاحب کا مخصوص چارپائی پر بیٹھنا اور پگڑی باندھے حقہ کے کش لگانا۔ اس کہانی میں تین کردار مہر صاحب،گاموں اور رمضو کو دیکھایا گیا ہے ۔ رمضو اور گاموں کے درمیان تعلیمی نظام پر بحث ہوتی ہے جس میں شعور کی تکینک کو دکھایا گیا ہے ۔رمضو اور گاموں کی سوچ کو پرکھا جا سکتا ہے ۔ رمضو کی خواہش ہوتی کہ وہ اپنے بیٹے کو شہر کے سکول میں پڑھائے گا،تا کہ وہ بڑا آدمی بن جائے،یہ بات مہر صاحب کو ناگوار گزرتی ہے ،جس پر مہر صاحب غصے کا اظہار کرتا ہے ۔ رمضو مہر صاحب کے چہرے کی نوعیت کو دیکھ کر یہ سمجھ جاتا ہے کہ بچے کو شہر کے سکول میں پڑھانے کی خواہش مہر صاحب کو ناگوار گزری ہے۔ رمضو کے ساتھ بیٹھا گاموں بوکھلا اٹھتا ہے اور رمضو پر یوں برستا ہے۔
گاموں: مہر صاحب ! اس کا بیٹا پانچویں جماعت میں کیا ہو گیا ہے، اس نے بڑھ چڑھ کر بولنا شروع کر دیا ۔ کہتا ہے میں بیٹے کو شہر بھیجوں گا اور افسر بناؤں گا۔
مہر صاحب: کیوں بھئی رمضو تم اپنے بیٹے کو افسر بنانا چاہتے ہو؟
مہر صاحب کی بات سن کر رمضو خاموش ہو جاتا ہے اور مہر صاحب ایک وقفے کے بعد جواب میں دیتا ۔
رمضو: مہر صاحب یہ گاموں تو ایسے ہی مذاق کر رہا ہے ۔ مراثیوں کی اولاد کیسے افسر بن سکتی ہے۔ میں نے صرف یہ سوچا کہ شہر جائے گا اور میٹرک کرلے گا۔
گاؤں کے ڈیروں جاگیرداروں کا منشی بن کر کام کرنے والے کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ خود تو ساری عمر انہیں وڈیروں کی نوکری کی،اب بچے پڑھ جائیں،تاکہ وہ خود کمانے کے قابل ہو جائیں۔مگر ایسا تبھی ممکن ہوتا جب انہیں جاگیرداروں کی غلامی سے نجات مل جائے،اور ایسا ہی ہوا رمضو کی خواہش تھی کہ بیٹا میٹرک کر لے،جس پر مہر صاحب کا جواب دیکھیے :
مہر صاحب : (غصہ سے) ارے تیرا بیٹا میٹرک کر کے کیا کرے گا ؟
ڈاکٹر صاحب ڈرامہ میں لوگوں کے وڈیروں کی ذہنی سوچ اور حالات و واقعات کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے ڈرامہ میں گاؤں کے سکول کا منظر بھی دکھایا ہے۔ سکول میں ایک درخت ہوتا ہے،جس کے نیچے بچوں کو ایک استاد پہاڑے یاد کروا رہا ہوتا ہے کہ اسی دوران بچوں کو پہاڑ یاد کروانے کے لیے ہاتھ میں ڈنڈا پکڑے ہوتا ہے ۔ اسی دوران گاؤں کے کچھ لوگ سکول میں داخل ہوتے ہیں،جن کو دیکھ کر استاد کرسی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ان کو کرسی پر بیٹھنے کا کہتا ہے ۔ زمیندار استاد سے غصہ ہوتا ہے کہ اس کے بچے کو کیوں فیل کیا؟ جس کے بعد ان کے درمیان لفظوں کی تلخ کلامی ہوتی ہے ،زمیندار استاد کو دھمکی دیتے ہوئے مہر صاحب کے ڈیرے پر آنے کا پیغام دیتا ہے۔
ڈاکٹر محسن مگھیانہ اس منظر میں گاؤں کے سکول اور اس میں ہونے والے وڈیروں کے بے جا عمل دخل کو واضح کرتے ہیں ۔گاؤں کے امیروں کے بچوں کا سکول میں فیل ہونا، زمیندار کا استاد کو دھمکی دینا، ساتھ ہی استاد کو یہ اشارہ دینا کہ آپ جاگیرداری نظام کے خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔اس منظر میں ذرا زمیندار کی طرف
سے تلخ گفتگو دیکھے :
ماسٹر: اب ترا کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ میں ذرا مہر صاحب سے بات کر لوں،ہم دونوں مل کر تمہارا کوئی علاج کرتے ہیں ۔ زمیندار نے غصے سے کہا
ڈاکٹر صاحب نے جہاں گاؤں اور سکول کا منظر دیکھا رہے ہیں وہی گاؤں میں موجود وڈیروں کے ڈیرہ کا منظر بھی دیکھاتے ہیں۔ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے اس منظر میں گاؤں کی تہذیب کے ساتھ ساتھ وہاں کے وڈیرے نظام کے مناظر کو دکھایا ہے۔ گاؤں میں وڈیرہ نظام عام رعایا کے لیے خوش آئند ثابت نہیں ہوتا۔ منظر میں دکھایا گیا کہ ایک مہر صاحب رنگ دار کرسی( جس کو خاص طرز سے بنا کر مختلف رنگوں میں ڈھالا گیا ہو) پر بیٹھا حقہ کے کش لگا رہا ہے ،مہر صاحب کا نوکر پاؤں دبانے میں مصروف ہوتا ہے ۔ پاؤں نہ دبانے پر مہر صاحب بڑبڑاتا ہے ،جس پر نوکر مزید زور دار حالت میں پاؤں دبانے کی کوشش کرتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے گاؤں کے ان نوابوں کی تصویر پیش کی ہے،جو یقیناً اپنے آپ کو گاؤں کا نواب یا یہ کہ لیں کہ رئیس زادہ تصور کرتے ہیں ،ان کے نزدیک عام شخص کی کوئی قدر و اہمیت ہی نہیں اور وہی نواب صاحب کے سب خودساختہ حاکم،بادشاہ مانتے ہیں ۔ان نوابوں کی نظر میں باقی سارے گاؤں والے ان کے رعایا ہیں۔رمضو اور مہر جی کی گفتگو ملاحظہ ہے:
مہر : او تجھے موت آئے زور سے دباؤ۔ہاتھوں میں جیسے جان ہی نہیں ہے۔ سارا دن کچھ کھایا یا نہیں ۔
رمضو: سرکار ہماری قسمت میں چوریاں کہاں ہم تو جوتے ہی کھا کھا کر بڑے ہوئے ہیں ۔
ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے سماج کی حقیقی تصویر دکھائی ہے ،جہاں کہیں ایک طاقتور شخص رہتا
ہے ،جو باقی لوگوں کو رعایا سمجھ کر اس بات کا متقاضی ہے کہ کسی کو گردن اونچی کر کے بات کرنے کی جراءت نہیں ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے سماج حقیقت نگاری غریبوں کے مسائل اور مشکلات احساس ذلت ،عزت نفس کو بری طرح جھنجھوڑنا اور مجروح کرنا جاگیردار اور غریب طبقے پر ظلم و جبر اس ڈرامہ میں دکھایا ہے ۔
ڈاکٹر محسن مگھیانہ ڈرامہ میں یونی ورسٹی کا منظر بھی دکھاتے ہیں ۔ اس منظر میں دو کردار دکھائے گئے ہیں۔جہاں سلمہ اور شیر افگن کے تعلق کو واضح کیا گیا ہے ۔اور اس تعلق کے نتیجے میں شیر افگن کی مثبت سوچ کو دکھایا ہے ۔شیر افگن اور سلمہ کے درمیان تعلیمی حوالے سے تعلق بنتا ہے ،اور اس تعلق کو شیر افگن ازدواجی شکل میں ڈھالنے کی پیشکش کرتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے یونی ورسٹی کے اس جوڑے کا منظر دکھایا ہے جسے عموماً ہمارا سماج منفی سوچ پر دکھانے کی کوشش کرتا ہے ۔یونی ورسٹی کے اس ماحول کو ڈاکٹر صاحب نے شیر افگن کے کردار کے ذریعے سوچ کو منفی کی بجائے مثبت پہلو میں ڈھالا ہے۔
ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے اس ڈرامہ میں کرداروں کے ذریعے گاؤں کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ پنجابی ڈرامہ کو اردو میں ترجمہ کرنے پر ڈاکٹر شبیر احمد قادری صاحب اور ڈاکٹر فیاض مگھیانہ صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
***