You are currently viewing ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ  کی غزل  کا مختصر جائزہ

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ  کی غزل  کا مختصر جائزہ

شاہدہ صدیقی

ریسرچ اسکالر

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ  کی غزل  کا مختصر جائزہ

نجمہ شاہین کھوسہ  اکیسویں صدی کی ایک معتبر شاعر ہ ہیں  جنہوں نے غزل اور نظم ہر دو میدان میں  طبع آزمائی کی ہے ۔ ان کے اب تک چار شعری مجموعے منظر عام پہ آ چکے ہیں جن میں پھول سے بچھڑی خوشبو(2007)، میں آنکھیں بند رکھتی ہوں(2010)، اور شام ٹھہر گئی(2013)،پھول خوشبو اور تارہ(2016) شامل ہیں ۔ ان چاروں مجموعوں میں ان کی شاعری کے بہترین نمونے موجود ہیں ۔ ان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لینے سے قبل میں اردو غزل میں ان کی تعین قدر کے متعلق تذکرہ کروں تو محسوس ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی تک آتے آتے  اردو شاعری کا  مزاج اس قدر بدل چلا ہے کہ ہمیں غزل اور نظم ہر دو میدان میں بہت سے لہجے نظر آنے لگے ہیں ۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ غزل جس میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے اس میں موضوعات کی کثرت ہو گئی ہے ۔ ہم صرف برصغیر کی غزل کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ایک خاص لہجہ جو اقبال کے بعد اردو کی جدید شاعری میں عام ہوا، جس میں پیچیدہ اور فلسفیانہ  اصطلاحات ، اسلامی تلمیحات اور صوفیانہ استعارے    شدت سے استعمال  ہونے لگے اور دوسری جانب جگر مراد آبادی کے لہجے میں غزل کو عروج نصیب ہوا ۔ ان دو اسکولوں کے زیر سایہ اردو غزل نے اپنے پیر ہندو پاک میں پھیلانا شروع کیے ، بعد ازآں اردو کی تاریخ میں ترقی پسند  غزل اور جدیدیت کا لہجہ بھی شامل ہو گیا۔ بیسویں صدی میں اردو غزل نے جتنے  مختلف المزاج لہجوں کو اپنے دامن میں جگہ دی  اس کی مثال ہمیں اس سے قبل نظر نہیں آتی۔ کلاسکل شاعری میں ہمیں محبوب  سے چھیڑ چھاڑ  اس سے جدائی کا غم اور اس کی بے وفائی و بے اعتنائی کے مضامین کثرت سے نظر آتے ہیں ، لیکن جوں جوں اردو غزل کا ارتقا ہوا توں توں اردو غزل کے مضامین میں تنوع پیدا ہوا چلا  گیا ۔ اکیسویں صدی تک آتے آتے ہم نے اردو غزل میں جتنے تجربے کیے اس  نےنئے نئے تخلیقی اذہان کو غیر متوقع طور پہ تخلیقی میدان میں بہت فعال اور اچھوتا بنا دیا۔

نجمہ شاہین کھوسہ کی غزل جو اپنے تمام تر امکانات کے ساتھ اکیسویں صدی میں منظر عام پہ آنا شروع ہوئی اس کے متعلق ایک واضح بات تو یہ  ہی کہی جا سکتی ہے کہ  اس میں مختلف المزاجی بڑی حد تک پائی جاتی ہے ۔ اس میں ہر طرح کے رنگ موجود ہیں ، یہ بات الگ ہے کہ ان کی غزل کا ایک  غالب رجحان ہے جسے ہم مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کریں گے ،  لیکن ان کی شاعری میں اردو غزل کے تجربات کا پرتو موجود ہے۔ نجمہ شاہین کھوسہ کے ساتھ نئی شاعری کے وہ پیمانے بھی وابستہ ہیں جو برصغیر کی نو تاریخیت کے باعث وجود میں آئے ہیں ۔ ان کے یہاں تذبذب کی ایسی کثیر مثالیں  ہیں جو جذباتی اضمحلال پیدا کرتی ہیں ۔ انہوں نے اپنے شعری پیرائے کو کسی ایک خاص لہر سے مزین نہیں کیا ہے بلکہ اس میں  خیال کے ایسے مختلف دھارے پیدا ہوتے چلے گئے ہیں جن سے تخلیق کی نئی روشنی وجود میں آتی ہے۔ ہم اگر تاریخی تناظر میں دیکھیں تو نجمہ  شاہین کی غزل میں کلاسکیت ، نو کلاسکیت، افلاطونیت، رومانیت، انقلابی   ذہنیت اور نسوانیت سبھی  کچھ نظر آئے گا ، یہ بات الگ ہے کہ اس کے پیمانے کس   نوع کے معیار سے مزین ہیں اس سے بحث  کی جا سکتی ہے ۔ ان کی غزل میں انسانی  احساسات کی وہ کسک بھی ہے   جو ہماری نئی غزل کا پیش خیمہ ہے ۔ اردو میں نئی غزل کی ابتدا  اصغر ، جگر، حسرت اور فانی ان چاروں  کی غزلیات سے کی جاتی ہے ۔ لہذا  ان کے نشانات اردو غزل میں جہاں بھی نظر آئیں گے اس کا سہرا ان  ہی اکا برین کے سر ہوگا ۔  نجمہ شاہین کھوسہ کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی غزل کا مزاج اتنا ستھرا ہے کہ وہ اپنے اکابرین سے مسفید تو نظر آتی ہیں مگر ان کی نقل کرتی ہوئی معلوم نہیں ہوتی ہیں ۔ مثلاً ان کے یہاں جگر کا رومان، اصغر کی بے ثباتی، حسرت کی دلگی اور فانی کی یاسیت سبھی کچھ مل جاتا ہے ۔  لیکن ان کا انفراد یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں نئی زندگی کے وہ دھارے اس مزاج میں شامل ہو گئے ہیں جس سے ان کے کلام میں مزید معنویت پیدا ہو گئی ہے ۔

محبتوں کا  صلہ نہیں ہے

لبوں  پہ حرف  دعا نہیں ہے

نہیں وہ  تصویر  پاس میرے

سو ہاتھ میرا جلا نہیں ہے

نجمہ شاہین کھوسہ کی غزلیہ شاعری میں احساسات  کی ترجمانی بہت سلیقگی سے کی گئی ہے ، ان کی غزل  میں مختلف موضوعات ہمیں نظر آتے ہیں ، لیکن ایک خاص بات اگر ان کی  غزل کے حوالے سے یہ کہی جائے اس میں نہایت معنی خیز کنایوں اور استعاروں کا استعمال کیا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔  انہوں نے اپنی غزل میں واضح انداز میں اپنا مطلب بیان کرنے سے اکثر گریز کیا ہے۔ وہ باتوں میں ابہام پیدا کرتی ہیں  ، کسی احساس کے اظہار میں شاعرانہ   پن پیدا کرنے کے لیے وہ غزل میں ایسے اظہاریے کی مدد لیتی ہیں جس سے سطحیت  کو جگہ نہ ملے ۔ ان کے لہجے میں رومانی اظہار  نے اس تناظر میں بہت  لطیف انداز اختیار کیا ہے۔ وہ  شاعرانہ رومانی اظہار کو ایسی باریکی  بینی  سے مزین کرتی ہیں کہ قاری کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ  محبوب کی  بے وفائی کا گلا کر رہی ہیں یا اس کی عنایتوں کا اعتراف۔ اردو میں غزلیہ شاعری کی اس روایت کو ہم ان سے قبل زیب غوری کے یہاں دیکھتے ہیں اور ان کے علاوہ منچندہ بانی کی غزل میں بھی ہمیں اسی قسم کے اشارے نظر آتے ہیں ۔ ان کے یہاں ماضی کا کرب بہت زیادہ ہے وہ ، گزرے ہوئے دنوں کی ان یادوں کو جس میں رومانویت کا اظہار بھی ہے اور تاریخ کے کرب ناک واقعات  کی جھلکیاں بھی بہت درد مند انداز میں بیان کرتی ہیں ۔ کہیں کسی لمحے کو یاد کرتے ہوئے اس کی کسک کا اظہار کرتی ہیں تو کسی واقعے کو  تازہ کرتے ہوئے اس کی خوشبو سے خود کو معطر ہوتا ہوا محسوس کرتی  ہیں ۔ ان کی یاد آتا ہے ردیف کی غزل میں

 کئی اشعار ایسے ہیں جسے ناسٹیلجیہ کی بہترین مثال کہا جا سکتا ہے ۔ مثلاً:

کہا تم نے  جدائی کا وہ منظر بھول بیٹھے ہو

خلا میں  دکھ کر مجھ سے وہ کہنا یاد آتا ہے

وہ لمحہ  جو گزرتے موسموں  میں ساتھ ٹھہرا ہے

مجھے خود بھی  نہیں معلوم  کتنا یاد آتا ہے

یہ لہجہ ان کی شاعری میں ایک نوع کی معنویت کو جنم دیتا ہے ۔ جب وہ اپنے رومانوی انداز میں ماضی کا کرب شامل کرتی ہیں تو اس میں ان کے ذاتی اظہار کا پرتو بھی نظر آنے لگتا ہے ۔ ان کی غزل ان کے تجربات کا آئینہ معلوم ہونے لگتی ہے اس کی وجہ ان کے احساسات کی وہ شدت ہے جسے وہ بیان کرتے ہوئے مضمحل  نظر آتی ہیں ۔ ماضی کے غم میں کئی ہوئی غزلیہ شاعری کی ایسی مثال ہمیں اردو کے غزل گو شعرا میں سلیم احمد کے یہاں نظر آتی ہے ۔ ساتھ ہی ردیف کا ایسا استعمال جس میں اظہار کی گنجائش بہت کم ہے ، اس میں نئے معنیاتی سوتے تلاش کرنا یہ بھی ایک مشکل امر ہے ۔ نجمہ شاہین کھوسہ اپنی غزلیہ شاعری کو  اپنی روایت میں ہی کہیں کھویا ہو پاتی ہیں لہذا وہ اس میں تجربات تو کرتی ہیں مگر اس کی اصل کو نظر انداز کیے بنا اس سے وہی کام لیتی ہیں جو کام اردو کے استاد شعرا نے غزل سے لیا ہے ۔ ان کی غزل میں ہمیں  بہت سی  ناکامیوں  کا اظہار بھی نظر آتا ہے جس سے یک گنا یاسیت  بھی ان کی غزل  کے مزاج کا  بنتی چلی گئی ہے ۔ وہ دنوں اور سالوں کو  کسی خواب کی مانند ب محسوس کرتی ہیں اور ان کے گزرتے چلے جانے کا  ملال اپنی غزل میں پورے جوش سے کرتی ہیں ۔ نجمہ شاہین کی غزلیہ شاعری میں بہت سے کردار ہمیں ایک ساتھ نظر آتے ہیں ، کہیں ان کی غزل میں مایوسی کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے، کہیں وہ کسی المیے کے اظہار کو وسیلہ بنا لیتی ہیں ، کبھی وہ سماجی غزلیہ لہجے کو اپنا کر عوام کا دکھ اس میں بیان کرنے لگتی ہیں تو کہیں اپنی آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے ایک نو ع کے طر بیے کو اپنی  غزل کی شناخت بنا لیتی ہیں ۔ ان کی غزل کے  یہ اتار چڑاو ایک  قاری کے لیے  تنوع کے مسائل پیدا  کرتے ہیں ، مگر ان کے اظہار  میں یہ خاصیت بھی مضمر ہے کہ انہوں نے صرف ایک رنگ کو اپنی غزل کے آئینے میں جگہ نہیں دی ہے بلکہ چو طرفہ خیالات کو اس کا  میں سجا کر  اسے  غزل کا مرصع  خانہ بنا دیا ہے۔

***

Leave a Reply