You are currently viewing ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے ناقدین

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے ناقدین

شاہدہ صدیقی

ریسرچ اسکالر  جواہر لعل نہرو یونیورسٹی

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے ناقدین

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کا شمار اردو کی جدید تر شاعرات میں ہوتا ہے۔ انھوں نے نوّے کی دہائی میں شاعری کا آغاز کیا اور چند ہی برسوں میں ہندو پاک کے علمی و ادبی حلقوں میں اپنے لہجے کی شاخت قائم کرلی۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک ڈاکٹر (Gynecologist) ہیں تاہم ابتدائے عمر سے ہی انھیں شعرو ادب میں بھی غیرمعمولی دلچسپی رہی ہے۔ اب تک ان کے پانچ شعری مجموعے بالترتیب ‘‘پھول سے بچھڑی خوشبو’’(۲۰۰۷)، ‘‘میں آنکھیں بند رکھتی ہوں’’ (۲۰۱۰)، ‘‘اور شام ٹھہرگئی’’(۲۰۱۳)، ‘‘پھول خوشبو اور تارہ’’ (۲۰۱۶) اور ‘‘میرا صاحب سائیں عشق ہے تو’’ (۲۰۱۹) شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں۔ انھوں نے ناول کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور اس ذیل میں ان کا ناول ‘‘گردِ سفر’’ اپنے موضوع اور اسلوب کی بدولت علمی و ادبی حلقوں سے داد و تحسین وصول کرچکا ہے۔ علاوہ ازیں مختلف علمی، ادبی و تحقیقی موضوعات پر لکھی گئی ان کی تحریریں، مضامین اور مقالات ان کی ادبی حیثیت کے غماز ہیں۔ نجمہ شاہین کھوسہ کے ادبی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ‘‘کون جانے’’ ادبی نقطۂ نظر سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس کثیر ادبی سرمائے کے پیش نظر ہندو پاک کے کئی اہم لکھنے والوں نے ان کے ادب بالخصوص شاعری سے متعلق تنقیدی خیالات کا اظہار کیاہے۔ یوں تو اب تک نجمہ شاہین کھوسہ کی تخلیقات پر سیکڑوں مضامین شائع ہوئے ہیں اور مختلف جامعات میں ان پر متعدد تحقیقی مقالات بھی لکھے گئے ہیں تاہم ان میں بعض تحریریں ایسی بھی ہیں جو نجمہ شاہین کھوسہ کے ادب پرخالص تنقیدی نقطۂ نظر سے غور کرتی ہیں اور ان کی ادبی حیثیت کے تعین میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔

نجمہ شاہین کھوسہ کے ناقدین کی فہرست میں ممتاز ادیب و دانشور انور سدید کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے نجمہ کے شعری مجموعے ‘‘اور شام ٹھہرگئی’’ کو مرکز میں رکھ کر اسی عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جو اگرچہ بہت مختصر ہے تاہم تنقیدی نقطۂ نگاہ سے ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ انور سدید کے نزدیک ‘‘اور شام ٹھہرگئی’’ میں شاعرہ نے جس شام کا ذکر کیا ہے وہ دراصل اس کی ذاتی زندگی کا استعارہ ہے۔ وہ نجمہ شاہین کھوسہ کے درج ذیل اشعار

اجنبی شہر کی اجنبی شام میں

زندگی ڈھل گئی ملکجی شام میں

آخری بار آیا تھا ملنے کوئی

ہجر تجھ کو ملا وصل کی شام میں

کی روشنی میں ان کے فن کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان اشعار میں اجنبی شہر اور اجنبی شام کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ دراصل شاعرہ کے باطن میں موجود ایک حزنِ مسلسل کی کیفیت کو عیاں کرتا ہے ۔ انور سدید کے نزدیک فنکار کے باطن کی یہ صورت ِ حال نظموں کے مقابلے ان کی غزلوں میں زیادہ نکھرکر سامنے آئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

“ڈاکٹر نجمہ شاہین کا باطن نئے زاویوں سے سامنے آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ غزل کی لخت لخت کیفیت ایک حزنِ مسلسل میں تبدیل ہوگئی ہے۔”

                  (بحوالہ یہ جہاں اور میں، نجمہ شاہین کھوسہ، عبدالحنان پبلی کیشنز، ملتان، جنوری 2022،ص:78)

اس اقتباس میں انور سدید شاعرہ کے باطن کے جن نئے زاویوں کا ذکر کررہے ہیں اس کی کوئی وضاحت ان کے تجزیے میں نظر نہیں آتی۔ نجمہ شاہین کھوسہ کے یہاں فکری سطح پر جو ایک حزنِ مسلسل کی کیفیت ہے اس کا بھی محض سرسری ذکر کردیا گیا ہے۔ حالاں کہ کسی بھی فنکار کے باطن اور اس کے ذریعے تخلیق کردہ متن کے تمام تر ظاہری و باطنی پہلوؤں کے معروضی تجزیے کے بغیر کسی بھی نوع کی گفتگو تنقیدی قرار نہیں دی جاسکتی۔ انور سدید کی یہ مختصر تحریر محض تاثراتی نوعیت کی ہے۔ اس میں نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری یا ان کے منتخب کلام بالخصوص ‘‘اور شام ٹھہرگئی’’ سے جس ناقدانہ گفتگو کی توقع انور سدید جیسے اہم ادیب و دانشور سے تھی وہ پوری نہیں ہوسکی۔

نجمہ شاہین کھوسہ کے ادب پر اظہارِ خیال کرنے والوں میں رضی الدین رضی بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے دو مضامین ‘‘شام کیوں ٹھہرتی ہے’’ اور ‘‘نجمہ شاہین کی شاعری ـ لاحاصلی کے دکھ اور سرشاری’’ کا ذکر ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ اول الذکر میں وہ نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری بالخصوص ان کی غزلوں میں موجود سرائیکی خطے اور وہاں کی سیاسی و معاشرتی صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ بعد ازاں وہ نجمہ کے یہاں موجود نسائی حسیت اور شاعرہ کے اپنے خاندانی و سماجی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہیں جس سے نجمہ کی شاعری میں ‘‘شام’’ کے استعارے کی وضاحت کے لیے ایک سِرا ہمارے ہاتھ آجاتا ہے۔ نجمہ شاہین کے شعری مجموعے ‘‘اور شام ٹھہرگئی’’ کے تعلق سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

‘‘ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ نے اپنے تیسرے شعری مجموعے کو ‘اور شام ٹھہرگئی’ کا عنوان دیا تو شام کو ایک نئی معنویت مل گئی۔ یہ عنوان ان کی ذات سے بالاتر ہوکر پورے معاشرے کا منظرنامہ بن گیا ہے۔ ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں، جس ماحول میں بظاہر زندہ ہیں وہاں ہم سب کی زندگیوں میں شام ٹھہرچکی ہے۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں بہت سی سچائیاں ہیں اور بہت سی تلخیاں۔ وہ تمام تلخیاں اور سچائیاں جو ہمارے گردو پیش میں موجود ہیں۔ بہت کچھ انھوں نے کہہ دیا اور بہت کچھ ان کہا رہنے دیا۔ یہ کتاب سرائیکی وسیب کی خواتین کی زندگیوں سے وابستہ شام کی کہانی ہے۔ وہ شام جو ان کے جیون میں ٹھہرگئی یا جس شام میں انھیں ہمیشہ کے لیے مقید کردیا گیا۔ ’’)ایضاً،ص:(24-25

اس اقتباس سے نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں استعمال ہوئے شام کے استعارے کسی قدر وضاحت ہوجاتی ہے اور یہ پہلو زیادہ نکھرکر ہمارے سامنے آتا ہے کہ شاعرہ جس شام کا ذکر بار بار کررہی ہیں وہ دراصل ایک استعارہ ہے۔ ایسا استعارہ جو ان کی اپنی ذات، خاندانی و سماجی پس منظر اور سرائیکی وسیب علاقے کی مظلوم و محروم خواتین کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔

رضی الدین رضی نے اپنے دوسرے مضمون‘‘نجمہ شاہین کی شاعری_لاحاصلی کے دکھ اور سرشاری’’میں بھی ان کی شاعری ہی کو مرکزِ توجہ بنایا ہے۔ اس ذیل میں انھوں نے بعض غزلیہ اشعار کی مدد سے نجمہ کی شعری حسیت اور ان کے فن کے مختلف زاویوں کی افہام و تفہیم کی کوشش کی ہے۔ رضی الدین رضی کا تیسرا مضمون ‘‘ہجر اور بلندی کا استعارہ’’ بھی نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری ہی پر توجہ صَرف کرتا ہے اور ‘‘پھول خوشبو اورتارہ’’ کی روشنی میں ان کے کلام کا جائزہ لیتا ہے۔ پھول ، خوشبو اور تارہ کو وہ ہجر کا استعارہ قرار دیتے ہیں اور یہ خیال پیش کرتے ہیں :

“پھول خوشبو اور تارہ ہجر کا استعارہ ہے۔ ہجر جو زندگی بھی ہے اور موت بھی، ہجر جو روشنی بھی ہے اور تاریکی بھی ۔ہجر جو بے سکون بھی کرتا ہے اور اطمینان بھی بخشتا ہے۔ یہی بندگی ہے اور یہی زندگی ہے۔ یہی تشنگی ہے اور یہی آسودگی۔ یہی خواب ہے اور یہی سراب۔ یہی حقیقت ہے اور یہی گمان۔ ’’  (ایضاً،ص:32 (

اس اقتباس کے ذریعے ہم نجمہ شاہین کھوسہ کے زیرِ بحث مجموعے میں موجود ہجر کے استعارے کی متنوع جہات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ اس ذیل میں رضی الدین رضی کے تنقیدی موقف سے قطع نظر ہم ان کے تجزیاتی شعور سے بھی متعارف ہوتے ہیں۔ متن میں موجود معانی کی مختلف سطحوں کو وہ بڑی باریکی اور کامیابی کے ساتھ سامنے لاتے ہیں۔

نجمہ شاہین کھوسہ کے فن پر تنقیدی نقطۂ نظر سے اظہارِ خیال کرنے والوں میں پروفیسر خواجہ اکرام الدین کا نام بھی اہم ہے۔ ان کا مضمون ‘‘احساسات کی شاعرہ: نجمہ شاہین کھوسہ’’ نہ صرف پڑھے جانے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ نجمہ کی شاعری کی متنوع جہات سے بڑی تفصیلی اور معروضی بحث کرتا ہے۔ اس موقع پر ان کے مضمون سے تفصیلی بحث کرنا بوجوہ ممکن نہیں ہے۔ تاہم ان کے تجزیے کا یہ پہلو قابل غور ہے کہ نجمہ کی شاعری کا بنیادی محور ان کی اپنی ذات ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

‘‘ذات کی تلاش میں خود کو سرگرداں رکھنا تخلیقی عمل کا وہ سوتا ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔ نجمہ شاہین کی تخلیق کا یہ بنیادی محور ہے اور اسی محور کے گرد کائنات کی رنگا رنگی کو سمجھنے کی کوشش کا نام نجمہ کی شاعری ہے۔ ’’        (ایضاً،ص:68)

اپنے اس موقف کی تائید میں وہ نجمہ شاہین کھوسہ کی غزلوں سے منتخب اشعار پیش کرتے ہیں اور ان میں پائے جانے والے انکشافِ ذات کے عمل کو موضوعِ بحث بناتے ہیں ۔نجمہ شاہین کھوسہ کی زبان و اسلوب پر بھی ان کی نظر ہے۔ ان کے نزدیک :

“نجمہ شاہین کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے وہ نئے نئے انداز میں مضامین کو پیش کرتی ہیں۔ کبھی مختصر بحروں کی غزل لکھتی ہیں تو کبھی طویل بحروں کے استعما ل سے نغمگی پیدا کرتی ہیں۔ ’’         (ایضاً،ص:74)

غرض کہ پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے صرف موضوع ہی نہیں بلکہ نجمہ شاہین کھوسہ کے فن سے بھی ناقدانہ بحث کی ہے ۔ اگر چہ انھوں نے صرف غزلوں ہی کو موضوع بنایا ہے اور بقیہ اصناف مثلاً حمد و غیرہ کا محض سرسری ذکر کردیا ہے۔ تاہم میرے نزدیک پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کا مضمون نجمہ شناسی میں ہماری مدد کرتا ہے۔

خالص تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو کرامت اللہ غوری کے مضمون ‘‘نجمہ شاہین کھوسہ کا صاحب سائیں عشق کون’’ کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا۔ کرامت اللہ غوری ایک سلجھا ہوا تنقیدی ذہن رکھتے ہیں اور کسی بھی ادبی متن سے بحث کرتے وقت اس کے تمام تر ممکنات و مضمرات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ نجمہ شاہین کھوسہ کی تخلیقات اور فن کا جائزہ لیتے وقت بھی انھوں نے تنقید کے اس بنیادی اصول کو مدِ نظر رکھا ہے۔ نجمہ کے کلام کے فکری پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوئے وہ تصوف اور اس کے مختلف مسائل نیز شعری متن میں اس کے اطلاق و اثرات کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں۔پھر واقعۂ رومی و شمس تبریزی کا ذکر کرتے ہیں اور تخلیق کی سطح پر نجمہ شاہین کھوسہ نے کس حد تک اور کیونکراستفادہ کیا ہے اس پر بڑی مفصل و مدلل گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک نجمہ کی شاعری میں روحانیت کا جو عنصر ہے وہ تصوف کی روایت سے استفادہ کا نتیجہ ہے۔ نجمہ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے بعض مقامات پر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے یہاں روحانیت کی مسیحائی کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ لیکن جب ہم اس کے اسباب و محرکات پر غور کرتے ہیں تو کرامت اللہ غوری کا متذکرہ مضمون ہماری بڑی مدد کرتا ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک کرامت اللہ غوری کے تجزیے کی ایک خامی یہ ہے کہ اس میں نجمہ کی شاعری کے صرف فکری پہلوؤں کو ہی مرکز میں رکھا گیا ہے۔ ان کے فن اور تخلیقی اظہار کے جو متنوع پیرائے نجمہ کے یہاں پائے جاتے ہیں ان پر کوئی ناقدانہ گفتگو ہمیں موصوف نقاد کے مضمون میں نظر نہیں آتی۔

نجمہ شاہن کھوسہ کے ناقدین کی فہرست میں ایک نمایاں نام قمر رضا شہزاد کا ہے۔ ان کا مضمون ‘‘باطن کی سچائیوں کا اظہاریہ’’ اپنی نوعیت کا مختلف مضمون ہے اور نجمہ شاہین کے فن سے معروضی بحث کرتا ہے۔ جیسا کہ مضمون کے عنوان ہی سے ظاہر ہے نجمہ شاہین کی شاعری ان کے باطن سے پھوٹتی سچائیوں کا اظہار ہے۔ لیکن قمر رضا شہزاد نے اس سیاق میں ان کی غزلوں، نظموں اور دیگر اصناف کی روشنی میں ان کے کلام کا مطالعہ کیا ہے۔ نجمہ کے بیشتر ناقدین کے یہاں کسی مخصوص شعری صنف مثلاً غزل یا نظم اور فکر و خیال کا کوئی مخصوص پہلو ہی زیرِ بحث آسکا ہے۔ تاہم قمررضا شہزاد نے غزلوں اور نظموں کی روشنی میں ان کے فن کا مطالعہ کیا ہے اور اس ذیل میں جو نتائج اخذ کیے ہیں انھیں ہی گویا اپنے مضمون کا عنوان ‘‘باطن کی سچائیوں کا اظہاریہ’’ قرار دیا ہے۔ قمر رضا شہزاد کے نزدیک شاعرہ کے فن کا ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ وہ گرد و پیش میں پھیلی ہوئی تمام تر خوبصورتیوں نیز بدصورتیوں کے باوجود اپنے باطن میں موجود محبت کے فطری اور ازلی جذبے پر آنچ نہیں آنے دیتیں۔ گردو پیش کی سنگلاخ اور کھردری حقیقتوں سے ٹکراکر فنکار کئی مرتبہ قنوطیت کا شکار ہوجاتا ہے لیکن نجمہ شاہین کھوسہ نے مشکل سے مشکل مرحلے میں بھی تحمل اور اپنے فنی شعار کا مظاہرہ کیا ہے اور بڑی حسن و خوبی کے ساتھ اسے اپنی شاعری میں برتا ہے۔ اس ضمن میں قمر رضا شہزاد کا یہ اقتباس نقل کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے:

‘‘نجمہ شاہین کھوسہ کی غزل اور نظم ان کے باطن سے پھوٹتی سچائیوں کا اظہاریہ ہے۔ اور یہ وہ سچائیاں ہیں جو نہ صرف ان کے اپنے دکھ سکھ کا احاطہ کررہی ہیں بلکہ ارد گرد پھیلی تمام خوبصورتیوں اور بدصورتیوں کو بھی نہایت سلیقے سے بیان کررہی ہیں۔ چوں کہ محبت ان کا بنیادی مقصد ہے لہٰذا یہ معاملات محبت تک پہنچنے کے لیے ان کی شاعری میں ڈھل رہے ہیں……ان کا تخلیقی بیانیہ مروجہ موضوعات سے ہوتا ہوا، ان کے اندر کی دنیا میں موجود ایک صوفی کو دریافت کرتا ہوا ان کی شاعری میں ظہور کررہا ہے۔’’(ایضاً،ص:100)

یہ اقتباس نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں موجود فکر و فن کے مختلف پہلوؤں کو کلیت (totality)کے ساتھ دیکھنے کی کوشش ہے۔ قمررضاشہزاد کے نزدیک چوں کہ شاعرہ کا بنیادی مقصد محبت ہے اس لیے ان کے کلام کی مختلف سطحیں اسی جذبے کو آگے بڑھاتی اور اس کے اظہار کی متنوع کیفیتوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ غرض کہ اس مختصر اقتباس میں ہم نہ صرف قمر رضا شہزاد کے تنقیدی شعور کے قائل ہوجاتے ہیں بلکہ نجمہ شاہین کے فن کی تفہیم کا ایک نیا زاویہ بھی ہمارے سامنے آتا ہے۔

 یہ نجمہ شاہین کھوسہ پر لکھی گئی تنقید کا اجمالی جائزہ ہے۔ ہم نے صرف اہم اور ممتاز لکھنے والوں کے تنقیدی خیالات سے بحث کی ہے۔ ابتدا ہی میں یہ واضح کیا گیا کہ نجمہ شاہین کھوسہ کے ادب پر تنقیدی نقطۂ نظر سے غور کرنے والوں میں معروف و غیرمعروف سبھی لکھنے والے شامل ہیں۔ تاہم چند ہی نام ایسے ہیں جن کے تجزیوں و تحریروں میں نقد و تفہیم کا کوئی اہم اور قابلِ ذکر پہلو نمایاں ہے۔ اس تعلق سے ہم نے بعض اہم لکھنے والوں کے تنقیدی خیالات سے بحث کی ہے۔ چند نام اور بھی ہیں جن کے یہاں نجمہ شاہین کھوسہ کے فن سے متعلق افہام و تفہیم کا کوئی نیا زاویہ سامنے آتا ہے۔ ان میں جاوید احسن، ڈاکٹر ستیہ پال آنند، ڈاکٹر مقصود جعفری، حسنین کامران اور حسنین ساحرؔ وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس مختصر مضمون میں سب کی تحریروں سے فرداً فرداً گفتگو کرپانا مشکل ہے۔ علاوہ ازیں جو تحریریں نجمہ شاہین کھوسہ کے ادب کی تفہیم سے متعلق شائع ہوئی ہیں ان میں بیشتر ذاتی اور تاثراتی نوعیت کی ہیں۔ ان سے نجمہ شاہین کھوسہ کی ادبی حیثیت کے تعین میں کوئی خاص مدد نہیں ملتی۔ نجمہ شاہین کھوسہ کے ناقدین کی فہرست میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے مختلف یونیورسٹیوں کے زیر اہتمام تحقیقی و تنقیدی مقالات تحریر کیے ہیں۔ اس ضمن میں نجمہ کی شخصیت اور فن پر اب تک ایک درجن سے زائد تحقیقی و تنقیدی مقالات مختلف جامعات میں لکھے جاچکے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی شاعری پر دو میوزک البم بھی بن چکے ہیں۔ اس سے نجمہ کے ادب اور ان کے یہاں پائے جانے والے آرٹ کی اہمیت اور اس کی قدر و منزلت کا پتہ چلتا ہے۔

نجمہ شاہین کھوسہ پر ایک قابل قدر تحقیقی مقالہ فیڈرل یونیورسٹی، اسلام آباد میں ڈاکٹر عبدالشکور نے لکھا ہے۔ یہ مقالہ نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری اور ان کی شخصیت کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ پیش کرتا ہے۔ نواز شریف یونیورسٹی، ملتان سے کی جانے والی رضیہ انور کی تحقیق بھی نجمہ شاہین کھوسہ پر لکھے گئے تحقیقی مقالات میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے جو نجمہ کی شخصیت اور ان کے فکر وفن کی افہام و تفہیم میں مدد کرتی ہے۔ ماریہ عنبر غازی یونیورسٹی، ڈیرہ غازی خان کی ریسرچ اسکالر رہی ہیں۔ انھوں نے نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری اور ان کی دیگر تخلیقات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اپنے مطالعے میں انھوں نے بعض اہم نکات و نتائج اخذ کیے ہیں جو نجمہ شاہین کھوسہ پر لکھی جانے والی اب تک کی تنقید میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی جامعات میں نجمہ کی تخلیقات، ان کی شخصیت اور فن پر مختلف مقالات تحریر کیے گئے ہیں۔ یہ مقالات نہ صرف نجمہ شاہین کھوسہ کے ادب کی اہمت و معنویت پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں بلکہ ان پر کی جانے والی تنقید کی فہرست میں بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔

تاہم اس ذیل میں مجھے جو بات حیرت میں ڈالتی ہے وہ یہ کہ نجمہ شاہین کھوسہ کے ناقدین ان کی شاعری میں ایسا گم ہوگئے کہ انھیں اُن کے غیر تخلیقی ادب مثلاً مضامین، مقالات اور خطبات وغیرہ میں پھیلے ان کے ادبی نظریات اور ان کی غیرتخلیقی نثر کی ادبی قدرو قیمت کے تعین کا خیال ہی نہ آسکا۔ نجمہ شاہین کھوسہ کی تنقید کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت مجھے بارہا یہ محسوس ہوا کہ ان کی شعری تخلیقات پر تو خوب لکھا گیا ہے لیکن ان کے نثری ادب پر بہت کم تحریریں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ چند تحریریں اگر ہیں بھی تو مختصر اور محض تاثراتی نوعیت کی ہیں جن کے مطالعے سے نجمہ شاہین کے نثری ادب کی تفہیم میں خاص مدد نہیں ملتی۔ یہ حیرت اس وقت اور زیادہ بڑھ گئی جب مجھے اس ضمن میں کئی اہم اور ممتاز ناقدین کی طویل تجزیاتی تحریروں میں بھی نجمہ شاہین کھوسہ کے نثری ادب سے متعلق ایک طرح کی خاموشی نظر آئی۔ یہ حقیقت ہے کہ نجمہ بنیادی طور پر ایک شاعرانہ فطرت کی حامل فنکار ہیں تاہم انھوں نے فکشن کے میدان میں بھی اہم اور قابل قدرشاہکار خلق کیے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا ناول ‘‘گردِ سفر’’ فکرو فن کے لحا ظ سے ایک خاص اہمیت رکھتاہے اور اس میں انسانی نفسیات اور مختلف حالات و واقعات کا جس فنکارانہ ہنرمندی کے ساتھ تجزیہ کیا گیا ہے اس کی نظیر بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ نجمہ کاغیرتخلیقی ادب (مضامین، مقالات اور خطبات وغیرہ) بھی ان کی ادب فہمی کا واضح ثبوت فراہم کرتاہے۔ ان کے ذریعے تخلیق کردہ یہ وہ ادبی سرمایہ ہے جو ہمارے ناقدین کی توجہ سے یکسر محروم رہا ہے۔ میں نے اپنے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری پر تو خوب تنقید لکھی گئی ہے لیکن ان کے غیرشعری ادب پر نقادوں نے ایک شعور ی یا غیرشعوری تساہلی برتی ہے جسے کسی بھی طرح ایک صحت مند اور معتدل تنقیدی رویہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نجمہ شاہین کھوسہ پر کی جانے والی جامعاتی تحقیق بھی بالعموم ان کے شعری ادب کو ہی مرکز میں رکھ کر لکھی گئی ہے۔ حیرت ہے کہ متنوع فنی و تخلیقی صلاحیتوں سے لیس موجودہ عہد کی ایک قابل قدر خاتون فنکا ر کے ادب کی بھی اس طرح درجہ بندی کی گئی ہے کہ اس کا تقریباً نصف حصہ ہمارے ناقدین کی توجہ سے محروم رہ گیا جس کے نتیجے میں نجمہ شاہین کھوسہ کی صحیح اور مکمل تصویر سامنے نہیں آسکی ہے ۔ اس طرح کے ترجیحی و تعصباتی رویوں سے ادب کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ یہ نہ صرف کسی مخصوص فنکار کے ساتھ بلکہ کسی بھی ادبی متن کے ساتھ اپنایا گیا ایک ایسا رویہ ہے جسے کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امید ہے کہ نجمہ شاہین کھوسہ کے ناقدین ان کے نثری ادب کی طرف بھی توجہ مرکوز کریں گے۔

Shahida Siddiqui

Research Scholar

Jawaharlal Nehru University,

New Delhi_110067

Email: shahidasiddiquijnu@gmail.com

***

Leave a Reply