محمد یوسف
پی ایچ ڈی اسکالر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد
ڈاکٹر سائرہ بتول
اسسٹنٹ پروفیسر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد
کرشن چندر کے فکشن میں کشمیر ی ثقافت کے رنگ
کرشن چندر کے فکشن میں کشمیری تہذیب وثقافت کا رنگ انفرادی شان سے موجود ہے۔کشمیر کا جادوئی حسن،عوامی فطرت،اوہام پرستی،طبقاتی کشمکش اورسماجی زندگی کا عکس کرشن کا انفراد ہے۔کرشن کا بچپن کشمیر میں بسر ہوا جہاں کشمیری کسانوں کے ہاں اس کا قیام،جوانی کی حسین یادیں اور شاعرانہ پیار ایک فنی حسن کے ساتھ کشمیر کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔کرشن کا سماجی شعور اور فنی پختگی کشمیر ی زندگی کا عطیہ ہے۔کشمیرکا ملکوتی حسن کرشن کے فکشن میں پوری آب و تاب اور فنی گہرائی سے اظہار کی راہ پاتا ہے۔کرشن چندر کا ایک شہکار کشمیر کی کہانیاں کے نام سے منظر عام پر آیا،جس میں بارہ تخلیقاتی نمونے کشمیریات کا منفرد بیان ہیں۔ان کہانیوں میں فطری نظارے،کشمیر کے پیشے،پیداوار،کشمیرلباس،کھیل،ساز،خوراک،پرندے،شکار،زیورات اورطرز تعمیر کا ایک جہان آباد ہے۔
کشمیر قدرتی وسائل سے لبریز ایک جادوئی دھرتی ہے جہاں قدرت کی ان گنت فیضیاں اور عطیہ سماوی کے نمونے جا بجا بکھرئے ہوئے ہیں۔کشمیری کے فلک بوس پہاڑ،گرتے آبشار،لہلاتے زعفرانی کھیت،صنوبری خوشبوئیں اور رومان و عشق کے قصے اپنی مثال آپ ہیں۔اس کا ایک نمونہ کرشن کی زبانی ملاحظہ ہو۔
اس نے پھر نگاہ اٹھا کر دور آسمان میں تیرتے ہوئے بادلوں کا دیکھا،سپید
،براق،چمکتے ہوئے لاکھوں تاج محل تھے اور چاروں طرف جمنا کا نیلا پانی
پھیلا ہوا تھا۔اس نے سوچا،ان مرمریں محلوں کوکس شاہجہان نے بنایا
ہے؟اور کس محبوب کی یاد میں؟مسافر اسی طرح اپنے دل سے باتیں کرتا
ہوا بہت دور نکل گیا،اب ہوا میں خنکی سی آگی تھی اور سورج مغرب کی طرف
جا رہا تھا۔سامنے پہاڑوں پر صنوبروں کے خاموش جنگل کھڑے تھے،جن
کا گہرا سبز رنگ ڈوبتے ہوئے سورج کی شاعوں میں ہلکا ارغوانی سا ہو گیا
تھا۔یہ رنگ آخر ہے کیا؟نیلا،پیلا،سبز،ارغوانی اور پھر ایک ہی قوس
قزح میں ساتوں رنگ،یا شبنم کے ایک قطرے میں پوری قوس قزح(1)
اس طرح کی منظر نگاری کرشن کا کشمیری لگاو ہے جہاں کشمیر کا حسن لازوال بن جاتا ہے۔اسی ماحول میں کشمیری لوگ اپنے شب وروز بسر کرتے ہیں۔کشمیر کے لوگ کھیتی باڑی،محنت مزدوری،ملازمت،گلہ بانی اور ریشم و قالین سازی جیسے پیشے اختیار کیے ہوئے ہیں۔کرشن کے ہاں کشمیری پیشوں کا ذکر فنکارانہ شان سے موجود ہے۔کشمیری چراہ گاہوں کا اپنا ایک حسن ہے جہاں سے ڈھلتی شام میں جانوروں کی واپسی کا ذکر کرشن یوں کرتے ہیں۔
مغربی موڑ سے بھیڑوں،بکریوں،گایوں،بھینسوں،مینڈوں کا ایک ریوڑ نکل رہا تھا
مسافر راستہ چھوڑ کر ایک طرف اونچے سے ٹیلے پر کھڑا ہو گیا۔ہاہش،بلی،ہاہا،ہش،
ہاہا،نیلی،ہاہا،بلی،ہی ہی،۔نیلی اور بھلی دو خوبصورت بچھڑیاں واپس گھر جا نے کی
خوشی میں ہرن کی طرح ،قلانچیں بھر رہیں تھیں۔(2)
کشمیر میں مال مویشی پالنے کا پیشہ قدیمی حیثیت رکھتا ہے۔گھر میں محدود پیمانے کے علاوہ تجارتی حیثیت سے بھی جانور پالے جاتے ہیں۔دودھ،اون،چمڑے اور گوشت کی تجارت روزگار کا منفرد ذریعہ ہے۔اسی طرح کشمیر میں کھیتی باڑی کا رجحان بھی زیادہ ہے۔کشمیر کی زمین اپنی قدرتی زرخیزی کی وجہ سے دنیامیں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔کرشن کہتے ہیں۔
برسات کے آخری دنوں میں مکی کی فصل پک گئی،سارو گاوں والوں نے منو کے
درخت سے اس پاس بڑے کھلیان لگائے۔مکئی کے کھلیان اور پیلی پیلی گھاس کے
ذخیرے منو کے قریب ہی تین چار جگہوں پرپتلی سی چھوٹی خود رو گھاس کو چھیل
کرگول گول قطعے تیار کئے۔انھیں گوبر سے لیپ دیا،پھر ان پر کھرپا پھیر دی۔اب
ان میں مکئی کے بھٹوں کے انبار جمع کیے اور ان پر بیلوں کو چکر دے دے کر چلایا۔(3)
اس میں نہ صرف کھیتی باڑی کا ذکر ہے بل کہ قدیم ثقافت کی جھلک بھی موجود ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کشمیر میں جانوروں سے بار برداری اور انسانی مشقت کا ذکر بھی موجود ہے۔کشمیر کا عہد اور پل پل بدلتی انسانی ترقی کے ارتقاء کا بیان کرشن کا دلچسپ رنگ ہے۔وہ اس کا بھی منفرد اظہار کرتے ہیں۔کشمیر کے قدیمی پیشے دریائے جہلم کی روانی سے وابستہ تھے۔ان میں کشتی،مچھلی اور لکڑی پکڑنے کا رواج موجود تھا۔ہوس بوٹ کی تزین و ارائش جہاں کشمیری آرٹ کا رنگ ہیں وہاں روز گار کا ذریعہ بھی ہے۔کشمیر میں سیاحت کا درومدار قدرتی حسن اور انسانی ذوق سے عبارت ہے۔جہلم میں ڈونگے کا بیان کرشن یوں کرتے ہیں۔
شکارے خوب صورت اور بد صورت مخلوق سے لدے ہوئے تھے،لیکن ان میں
زندگی کی حرکت ،بے چینی،اضطراب سب کچھ موجود تھا،وہ پانی کی سطح پر
بھاگتے جا رہے تھے۔لال لال پردے ہلتے ہوئے دکھائی دیتے ،بھدی شکلیں
حسین تصویروں میں تبدیل ہو جاتیں،قہقے اور ہانجیوں کے گیت ایک ہی نغمہ
بن جاتے اور وہ شکارے دوبارہ ہال کے باہر اس کے سفید سفید ستونوں کے قریب
پہنچ کر شہر وینس کا نظارہ پیش کرتے۔(4)
کشمیر دنیا کازرخیز ترین خطہ ہے جہاں انواع و اقسام کی پھل اوردیگر اجناس کی پیداوار مقامی آبادی کا ذریعہ معاش بھی ہے۔ کشمیر کے پھلوں کو کرشن کے ہاں دلچسپی سے دیکھا گیا ہے جن کے ذائقے اور مٹھاس کا منفرد اظہار کشمیری مقامیت کا عکس ہے۔اس کا ایک عکس ان کے افسانے پورے چاند کی رات میں محسوس کیا کا سکتا ہے۔کرشن اپنے افسانے آنگی میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔
مسافر کو ساور گاوں بہت پسند آیا،بس کو ئی بیس پچیس کچے گھر تھے،سفید مٹی سے
لپے ہوئے،ناشپاتیوں،کیلوں اور سیب کے درختوں سے گھرے ہوئے،سیب کے
درختوں میں پھول آئے ہوئے تھے،کچی سبز چھوٹی چھوٹی ناشپاتیاں لٹک رہی تھیں
اور کھیت مکی کے پودوں سےہری مخمل بنے ہوئے تھے،کیلوں کے ایک بڑے
جھنڈ کی آغوش میں گنگناتا ہوا نیلا جھرنا تھا(5)
اس کے علاوہ کشمیرکے دیگر مقامی پھلوں میں آلوچا،بادام،اخروٹ،املوک،ہاڑی خوبانی،بگو گوشے اور دیگر پھلوں کی شیرینی اور فطری رنگت کرشن کے فن کا ٖحسن ہے۔اس کے علاوہ کشمیری فصلوں،کھانوں اور تہواروں کا بیان منفرد پہچان رکھتا ہے۔کشمیری پھلوں اور جڑی بوٹیوں کا اپنا ایک حسن ہے۔کشمیر میں مقامی طور پر علاج کے لیے چرائتے اور جوشاندے کے ساتھ ساتھ سنبل کی جڑوں کا ستعمال عام ہے۔سنبل کی جڑوں کے چھلکے اور سفوف مختلف امراض کا شافی علاج آج بھی موجود ہے۔بقول کرشن
آج پھر تو نے کھٹے آلوچے کھائے ہیں،ٹھہر تو سہی۔۔۔ اور پھر وہ میرا گلا دبوچ کر
مجھے اپنی رانوں پر لٹا کر،میرا منہ کھول کر اس میں جوشاندہ ٹپکاتیں،جو اس گھاٹی
میں اگے ہوئے بنفشے،سبز چرائتے،سنبلوں کی جڑوں اور نہ جانے کس کس بلا
بنتر سےتیار کیا گیا تھا۔(6)
کشمیر کی خوراک اور پکوانوں کا اپنا ایک رنگ ہے۔اس میں شب دیگ،گوشتبا کے علاوہ سادے چاول چٹنی،سالن ،دالیں اور زعفرانی مہک سے معطر پکوان اپنی الگ شناخت اور ثقافت کا آئینہ دار ہیں۔کشمیری دیہاتوں میں گھروں کے کچے آنگن،ماوں کی لازوال محبت،بہنوں کی قہقے اورافراد خانہ کی نوک جھوک کا رنگ متنوع ہے۔کشمیر میں دن کا کھانا قدرے سادہ ہوتا ہے جس میں سادگی اور اپنائیت کا امتزاج دیدنی ہے۔شام اور صبح کے اوقات مٹی اور گارے کی لپائی سے مزین چولہوں کے قریب بسر ہوتے ہیں،جن کے قریب ہی پڑی چارپائیں تھکاوٹ اور مقامی سیاست وخبر گیری کا نمونہ ہوتی ہیں۔
چولہے کے قریب بالی کی ماں روٹی پکا رہی تھی۔آنگن میں بچھی ہوئی ایک کھاٹ
پر بالی اور کرم داد دونوں ایک ہی رکابی میں کھانا کھا رہے تھے۔مکئی کی روٹی اور
باتھو کا ساگ۔تھوڑا سا مکھن اور لسئی کا چھنا۔۔۔وہ دونوں چشمے کے کنارے
لیٹ گئے اور جانوروں کی طرح پانی پینے لگے پانی پی کر اٹھ بیٹھے اور پوٹلیاں
کھول کر کھانا کھانے لگے،بیچ بیچ میں جب زبان کا لعاب بھی باجرے کی روٹی
کوحلق سے اتارنے میں ناکام رہتا تو بڑھ کر چشمے سے ایک گھونٹ پانی پی لیتے
اور پھر روٹی کھانے میں مصروف ہو جاتے۔(7)
مکئی کی روٹی تھی اور گنھبار کاساگ،ہر گھر سے گھنبار کا سالن آیا تھا۔دوسرے ایک
گھر وں سے یہ سالن بھی نہ آیا تھا۔صرف مکئی کی روٹی تھی اور پسی ہوئی سرخ مرچ
اور نمک،پارو کے گھر سے پیاز کی تین گٹھلیاں بھی آئی تھیں اور پارو نے انھیں جلدی
سے پتھر کی ایک بڑی سی سل پر رکھ کر پیس ڈالا اور نمک،مرچ اور وہیں سے جنگلی
پودینہ توڑ کر چٹنی بنا ڈالی(8)
کشمیر کا لباس ان گنت رنگوں سے سجے ایک گلدستے کی مانند ہے۔کشمیر میں شلوار قمیص،دھوتی کرتے،پھیرن،پتلون شرٹ اور قدیم و جدید لباس زیب تن کیے جاتے ہیں۔شہری و دیہاتی آبادی اپنی مقامی ضروریات کے مطابق لباس کا انتخاب کرتی ہے۔کرشن چند ر کے ہاں کشمیری لباس اپنی انفرادیت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔کرشن کی کشمیر کہانیوں میں اس قبیل کے نمونے موجود ہیں۔
لڑکی پیٹھ موڑے،دریا کی طرف منہ کئے بیٹھی تھی۔اس نے ایک گہرے رنگ کی سبز
ساڑھی پہن رکھی تھی،جس کا کنارہ سنہری تھا لڑکا میری طرف دیکھ رہا تھا۔اس نے
بھورے رنگ کا کوٹ اور خاکی نکر پہن رکھا تھی،گلے میں ایک خوش رنگ ٹائی
بھی تھی۔(9)
ان دنوں گاؤں بھر میں ،میں ہی اپنے ڈھنگ کا ایک سجیلا جوان تھا۔اور بھر انٹر پاس
اور سفید لٹھے کی شلوار پہنے والا،گیارہ روپے تنخواہ تھی ،کلاہ پر طرے دار لنگی،
پاوں میں کامدار جوتی اور چہرے پر مونچھیں،سائیکل کے ہینڈل کی طرح مڑی ہوئی(10)
کشمیر ی ثقافت کا اپنا ایک منفرد رنگ ، لباس،خوراک،تعمیرات،تہوار،کھیل،زیورات،اوزار اور ساز وسنگیت ہیں۔کرشن چندر کے فکشن میں کشمیر پوری رعنائی سے جلوہ افروز ہے۔کشمیری کھیلوں میں مقامی رنگ اپنا خاص مزاج رکھتا ہے۔کشمیر کے علاقائی کھیلوں میں کبڈی،آنکھ مچولی،کشتی اور چیتو سمیت مچھی جلا شامل ہیں۔کشمیری سازوں کا تعلق زیادہ تر مقامی تہواروں سے ہے۔شادی اور دیگر تقاریب کی رونق ڈھول باجے ہیں۔مقامی درباروں پر دھمال اور بانسری کا شوق بھی خاصے کی چیز ہے۔کرشن کے مطابق
بھولے بھالے کسان ،الھڑ چرواہیاں،ننھے ننھے بچے اس کے گرد جمع ہو جاتےمسافر اپنی تاروں والی بانسری سناؤ،مسافر اپنی تاروں والی بانسری سناؤ،آنگی اس کے شانے پر اپنی
بانہہ ٹیک دیتی اور دوسری بانہہ سے اس کی انگلیوں میں مضراب پکڑا کر کہتی لو بجاؤ(11)
کشمیری زیورات کا عکس بھی کرشن کے فن میں موجود ہے۔مقامی طور پر ہا تھوں ،پاؤں اور گلے کے زیوارت کا رواج ہے۔کرشن نے کشمیر میں پستی زندگی اورجاگیر دارانہ ستم کو کمال ہنر مندی سے بے نقاب کیا۔کشمیر میں مہاراجائی عہد کی طبقاتی ناہمواریاں اور سماجی استحصال کا تسلسل آج بھی بدلتے رنگوں کے ساتھ موجود ہے جس کی وجہ سے کشمیر کا فطری حسن انسانی لاچاریوں اور بے بسی کی بدولت پورے نکھار سے عاجز ہے۔کشمیری عوام پر مقامی جاگیردوراں اور استحصالی قوتوں کا جبر تاریخ کی ان مٹ حقیقت ہے۔ کشمیرمیں ریاستی افراتفری اور طبقاتی کشمکش پوری شدو مد سے اپنی کارستیانوں میں مصروف رہی ہے جن کے سامنے کشمیری عصمتوں کی قربانیاں تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔ کشمیرکا طبقاتی سماجی ڈھانچہ اس ظلم کا نقطہ آغاز ہے۔کرشن کا فن اس طبقاتی جبر کے خلاف ایک توانا آواز ہے۔کرشن کی کہانی پنڈارے اس کا بہترین اظہار ہے۔
ساگرہ کشمیری برہمنوں کا ایک گاؤں ہے جہاں ایک دیومالائی حسینہ جمنا بھی رہتی ہے۔اونچی چوٹی پر واقع اس گاؤں میں مکئی کے کھیت،کڑم اور مرچوں کے پودے اور دھان کی فصل تھی۔خزاں میں ساگرہ کے برہمن پردیس میں نوکری کے لیے چلے جاتے تو مقامی خواتین سوت اور کپڑا بنتیں۔ساگرہ گاؤں کی آبادی سو گھروں پر مشتمل تھی جہاں ایک بوڑھا برہمن نمبردار تھا۔جمنا کا خاوند کھیتی باڑی کرتا تھا اور اپنی دکان سے گاؤں کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ایک دن پہاڑی نالے کو عبور کرتے ہوئے ساگرہ کا خاوند زندگی کی بازی ہار گیا اور ساری ذمہ داری ساگرہ پر آگئی۔اس نے دکان خود سنبھال لی اور زمین کا کام ایک بوڑھے برہمن کے سپرد کر دیا۔وہ مرد بن کر جینے کی خواہش مند تھی۔اسی گاؤں میں ایک دن تحصیل دار آیا۔جو سب کے لیے حیرت کی بات تھی۔ اس نے چیڑھوں کے ایک جنڈ تلے اپنا دربار سجایا۔وہ ایک بید کی کرسی پر براجمان ہوا۔خدمت کے لیے گرداور،قانون گو،منشی اور مصدی جمع ہوئے۔تحصیل دار کیا آمد کا نقشہ ملاحظہ فرمائیے۔
تحصیلدار ایک گھٹیلا،سجیلا،خوب رو جوان تھا،چوڑی چھاتی ،مضبوط تھوڑی
اور چھوٹی چھوٹی خوبصورت مونچھیں۔جب جمنا نے اسے اپنی دکان کے سامنے
سےگھوڑے پر سوار گزرتے ہوئے دیکھا تو وہ دنگ رہ گئی۔ساگرہ کے برہمن اس
کے سامنے بالکل مریل ٹٹو سے دکھائی دیتے تھے۔۔۔جب اس نے نگاہ پھیر
کر جمنا کی طرف دیکھا تو جمنا کا رواں رواں کانپنے لگا۔(12)
اس طرح گاؤں میں دن بھر قانونی کام چلتے اور مقامی آبادی کے پرانے کھاتے کھول جاتے۔پوری آبادی اہلکاروں کی خدمت اور ستم سے عاجز آ چکی تھی۔تحصیل دار صاحب نے مقامی آبادی کا مالیا،جنگلات کی پرانی فائلیں نکال لیں اور سزاوں کا لا متناہی سلسلہ چل نکلا۔آخر کار گاؤں کے پرانے براہمن جمع ہوئے اور تین نوخیز لڑکیوں رام دیتی،دلاری اور کھیتری کو پیش کیا ۔تحصیل دار صاحب زمین واپس لینے کے در پے تھے اور مکین ہر قیمت پر زمین اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔اب سارے برہمن جمنا کے پاس آئے اور اپنی خدمت پیش کرنے کی سماجت کی۔
غریب کسانوں کی زندگی کا دارومدار چاہے وہ برہمن ہی کیوں نہ ہو،یہی زمین ہے
جسے کاشت کر کے وہ اپنا پیٹ پالتے تھے اور جب یہ زمین ہی قرق ہو گی یا مالکوں
اپنی زمین واپس لے لی توپھر وہ غریب لوگ کیا کر سکتے ہیں،پیٹ کی مجبوری سب
کچھ کرا دیتی ہے،لیکن جمنا کے دل میں نہ جانے کس نے پتھر کے ٹکڑے بھر
دئے تھے کہ وہ کمبخت ایک ہی ہٹ پر قائم تھی کہ وہ بھوکی مر جائے گی چاہے
اس کی زمین قرق ہو جائے ،چاہے اس کی دکان ضبط کر لی جائے ،لیکن وہ
تحصیل دار کے پاس نہ جائے گئ کبھی نہ جائے گی اسے اپنے مرنے والے
خاوند کی سوگند،اپنی ننھے بیٹے کی قسم(13)
جمنا دوہری مصیبت میں گرفتار تھی۔ایک طرف پورے گاوں کی بقا کا سوال تھا جس کے لیے براہمن اپنی کتابوں سے اس فعل کو جائز قرار دے رہے تھے تو دوسری طرف اپنی عصمت تھی۔گاوں والے ہر پل تحصیل کی بڑھتی ہوئی سختیوں کی بدولت پریشان تھے۔بوڑھے بزرگ رو رو کر استدعا کر ہے تھے۔آخر جمنا نے گاؤں کی خاظر اپنی قربانئ کو قبول کر لیا۔
دوسرے دن تحصیلدار صاحب ساگرہ سے رخصت ہو گے۔وہ بوڑھے نمبردار سے
نہایت ملاطفت آمیز انداز سے پیش آئے اور انہوں نے وعدہ کر لیا کہ نہ تو لگان
بڑ ھائیں گے اورنہ ہی کسی کو جیل کی ہوا کھلائیں گے بلکہ بوڑھے نمبردار کے لیے
ذیلداری کی سفارش کریں گے۔یکایک انہیں احساس ہوا اس گاوں کے لوگ
بہت شریف الطبع،مہمان نواز اور سرکار کے وفادار تھے اور وہ حکام بالا کی
توجہ اس طرف مبذول کرائیں گے۔(14 )
یوں کرشن کا فن کشمیری زندگی کی پوری تاریخ ہے جہاں سماجی زندگی اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔کشمیری زندگی کا حسن اور سماجی زندگی کے نمونے کرشن چندر کے فکشن کو نیا رخ مہیا کرتے ہیں۔
حوالہ جات۔
1۔آنگی،مشمولہ،کشمیر کی کہانیاں، مرتبہ ،عفرا ء بخاری ،عفراء پبلی کیشنز،لاہور،ص15
2۔آنگی ص16
3۔آنگی،ص21
4۔جنت اور جہنم،ص85
5۔آنگی،ص18
6۔آتا ہے یاد مجھ کو،ص55
7۔کرم چند اور کرم داد،ص119
8۔ایضا ص 120
9۔جہلم میں ناؤ پر،ص 30
10۔ویکسی نیٹر،ص 72
11۔آنگی۔ص23
12۔پنڈارے،ص102
13۔ایضا،ص 104
14پنڈارے،ص108
***