You are currently viewing کشمیری اور اُردو زبان کا لسانی و ادبی رشتہ

کشمیری اور اُردو زبان کا لسانی و ادبی رشتہ

ڈاکٹر فیض قا ضی آبادی

  ہندواڑہ کشمیر

کشمیری اور اُردو زبان کا لسانی و ادبی رشتہ

         خطہ کشمیر دنیا بھر میں جہاں صناعِ قُدرت کی کاری گری کا بہترین نمونہ ہے کہ اس کے منا ظر فطرت کا حسن محتاج بیاں نہیں۔ کسی نے اسے جنت ِثا نی کہا ہے۔

                                    اگر فردوس بر وے زمیں است

                                    ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

اور کسی نے یہاں کی آب و ہوا کی یوں تعریف کر کے

سوختہ جاں بکشمیر در آید

” گر مرغ کباب است کہ بال وپر آید ”

اس کے سامنے ساری دنیا کو ہیچ بتایا ہے۔

       وہیں یہ خطہ مردم خیز بھی واقع ہوا ہے۔ رانی جیشومتی جس کا زمانہ تین ہزار سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے بقولِ محمد دین فوق ساری دنیا میں پہلی عورت ہے جس نے شاہی تاج پہن کر اپنی قابلیت اور لیا قت کا  مظا ہرہ کیا۔ کلہن تو مور خین کا ابو ا لآ باء کہلاتا ہے اور اگر زبانوں کی بات کریں تو دنیا کی جدید زبانوں میں کشمیری زبان کی تاریخ پُرانی ہونے کے ساتھ ساتھ شاندار بھی ہے۔

         ایک مغر بی محقق بہلر نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ انہوں نے لا ہور کے ایک عجا عب گھر  میں پتھر کا ایک کتبہ دیکھا تھا جو کشمیری زبان میں لکھا ہوا تھا اور یہ کتبہ دیدرانی حکمران کشمیر کے عہد حکومت ( ۹۸۰ء  ۱۰۰۴ء) میں لکھا گیا تھا۔ اس پر ملکہ کا فر مان کندہ تھا ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری زبان اُس زمانے میں مکمل تحریر ی زبان تھی۔ کلہن کی راج تر نگنی ‘جو سنسکرت زبان میں ۱۲۵۲ء میں لکھی گئی ہے بھی کئی الفاظ اور جملے ایسے ملتے ہیں جو فقط کشمیری ہیں مثلاـ”سرانہ پٹ تہ چُھ نا”     ” ہر ش دیو ہیُو” وغیرہ۔

         کشمیر زبان کو سنسکرتی گر وہ کی زبان بتا یا جا تا ہے اس سلسلے میں کئی بنیا دیں پیش کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وادی کشمیر میں سنسکرت بہت قدیم زمانے سے رہی ہے اور یہاں اس زبان میں عر صئہ دراز تک علم و ادب کے بلند یا یہ کا رنامے لکھے جا تے رہیں ہیں پھر مثا لوںسے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے مثلا کشمیری لفظ گژھ بمعنی جاؤ سنسکرت لفظ گچھتہ سے نکلا ہے،لفظ رنُن بمعنی پکا نا سنسکرت لفظ ”رندن” سے نکلا ہے، لفظ وُتھن بمعنی اُٹھنا سنسکرت لفظ ”اُتتھا ن” سے نکلا ہے وغیرہ

     کچھ لو گوں کا کہنا ہے کہ کشمیری زبان سر یانی اور عبرانی سے نکلی ہیـــ۔ ـ کہا جاتا ہے کہ بالکل قدیم زمانے میں اس ملک میں یہودی قوم آباد ہوئی اس کی زبان عبر انی تھی وہی بعد کو بگڑ کر کشمیری زبان کی شکل اختیار کر گئی۔ چنانچہ مو جو دہ کشمیری زبان کے بہت سے الفاظ عبرانی سے ملتے ہیں۔ مثلا

         عبرانی            کشمیری           معنیٰ

         اتہ                یتئہ               آنا

         بنہ               بنئہ               بن جائے گا

         لول              لول              محبت

         اــزن            وزن             تولنا

         مالون             مالین             میکے کا نام  وغیرہ

لیکن جدید کشمیری زبان جس زبان سے زیادہ متاثر ہوئی ہے وہ فارسی اور اُردو ہے۔

       اس بات سے شاید کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ ملک کی جو سرکاری زبان ہوتی ہے وہ  مقامی زبانوں کو ضرور متاثر کرتی ہے۔

مغل دور حکومت میں کشمیر میں ایرانی تہذیب کے اثرات اتنے گہرے ہوگئے تھے ا ور فارسی میں لکھنے والوں کی اتنی کثرت تھی کہ اہل ایران کشمیر کو”ایران صغیر” کہنے لگے تھے۔ اسی دروازے سے اُردو کو کشمیر میں داخل ہونے کا موقہ مل گیا۔چنانچہ محمد یوسف ٹینگ” کشمیر میں اُردو ”از  عبدالقادر سروری کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں :-

         ”واقعہ یہ ہے کہ فارسی کشمیر میں عوامی زبان اور کشمیر کی تہذیبی اور ادبی تواریخ فارسی زبان کی آغوش میں ہی موجود ہے۔

اس کے رسوخ کا نتیجہ یہ ہوا کی کشمیری زبان کی شکل و شما ئل پر فارسی کا گہرا رنگ چڑھ گیا اس کی پارینہ لفظیات کا سارا خزانہ دگر گوں ہو گیا اور اُس پر فارسی نے اپنے جھنڈے گاڑدئیے یہ بات کشمیرمیں اُردو کے فروغ کے لیے غالب کے الفاظ میں ”خدا ساز”ثابت ہوئی”۔

         لیکن جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی اور فارسی آہستہ آہستہ میدان سے ہٹنے لگی تو اُردو نے اس کی جگہ لے لی اور پھر مہا راجہ رنبیر سنگھ کے عہد میں اُردو کو با ضابطہ سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ اس طرح ۱۸۸۹ کے بعد اُردو عوامی زبان سے اُٹھ کر تعلیمی اداروں ،سرکاری محکموں اور عدالتوں کی زبان مان لی گئی۔

           کشمیری زبان اپنی سرشت اور گرا ئمر میں اُردو سے بہت دور ہے یہی وجہ ہے کہ اُردو بولنے والے لوگوں کو کشمیری سیکھنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص اُسی طرح جس طرح انگریزوں کو اُردو سیکھنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ اس کا ثبوت اس رپوٹ سے بھی ملتا ہے جو خواجہ غلام ا لسیدین کی صدارت میں ایک کمیٹی نے دیا تھا۔ واقعہ یہ ہوا کہ جب ہندوستان میں ہندی اور اُردو کامسلہ شدت پکڑ تا گیا تو اس کے اثرات کشمیر پر بھی پڑنے لگے۔ ہندی کے دوستوں نے حکومت پر اثر انداز ہو کر پر جا سبھا میں ہندی کے حق میں قواعد بنوانے کی کوششیں کیں لیکن عوامی نمائندوں نے اُردو کی پاسداری کی۔ اس وقت اُردو زبان کو ہی ذریعہ تعلیم بتانے کی ہمواری کی گئی وہ یہ ہے کی یہ زبان ڈوگری، پنجابی ،پہا ڑی اور گوجری سے ملتی جلتی ہے۔ یہاں پر کشمیری زبان کا نام نہیں لیا گیا۔ رپوٹ کا یہ حصہ ملا حضہ فر مائیے:-

         ”وہ زبان جو تواریخی اور تعلیمی اسباب کی بناء پر ریاست کی عام زبان ہے وہ اُردو ہے جو ریاست میں پہلے درجے سے لے کراُوپر تک کے لیے ذریعہ بھی ہے اس میں شک نہیں کہ اُردو ریاست میں رہنے والوں کی اکثریت کی مادری زبان نہیں ہے لیکن یہ ڈوگری اور پنجابی سے بہت قریب ہے اور ایک حد تک پہاڑی اور گوجری سے بھی ملتی جلتی ہے لہٰذا ان لڑکوں کے لیے جو یہ زبان جانتے ہیں اُردو کا ذریعہ تعلیم ہونا کوئی دشواری کا سبب نہیں ”.

         لیکن جب کشمیر کی سر زمین ،ایشیاء کی سب سے مشہور تفریح گاہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر باشذ گان ہندوستان کے لیے مر کز توجہ رہی اور وہ سیاحت اور کچھ اپنی تجارت کے سلسلے میں یہاں آگئے تو اُردو زبان کو اپنے پر پھیلانے اور اپنی خوشبو بکھیر نے کا موقہ مل گیا۔

         اس اُردو نے نہ صرف یہاں کے ادیبوں، شاعروں یا عام انسان کے دل میں جگہ کرلی بلکہ اس نے وادی کے چوٹی کے سیا ست دانوں کے دلوں میں بھی جگہ پکڑی اور ان کی وسادت سے ریاست کی اسمبلی میں بھی اُردو کا غلغلہ سُنائی دینے لگا۔ میری اس بات کی تصد یق ڈاکٹر عبدا لحق کی اُس تقریر کے ایک حصیّ سے ہوجاتی ہے جو اُنہوں نے کل ہند اُردو کا نفرس کی ایک تقریب میں کی تھی چنانچہ فرماتے ہیں:-

         ”شاید ہندوستان کے کسی صوبے میں اُردو اس قدر مقبول اور رائج نہیں جس قدر کشمیر میں ہے میں نے وہاں کی اسمبلی کے اجلاس کو جاکر دیکھا ہے سب ممبر بلا اِ ستثناء اُردو میں بلا تکلف تقریریں کرتے تھے۔ یہ سن کر آپ کو تعجب ہوگا کہ پنجاب اسمبلی میں ا یسی اچھی اُردو کی تقریریں نہیں ہوتیں”

          اس سے ایک طرف اُردو کو کشمیر میں پھیلنے پھولنے کی راہ تو مل گئی لیکن دوسری طرف اس زبان نے کشمیری زبان کو اس حد تک متاثر کیا کہ آج کی کشمیری اُردو کشمیری کا معجون لگتی ہے۔

       کشمیری زبان میں سنسکرت، عبر انی اور فارسی الفاظ کی بھر مار تو تھی ہی لیکن بعد میں اُردو الفاظ بھی اس زبان میں اس قدر گھل مل گئے کہ یہ اب خاص طور پر کشمیریکی روح  اور کشمیری زبان کے جُز و لا نیفک ہیں ۔ اگر ان الفاظ کو کشمیری زبان سے خارج کیا جائے گا تو اس کی کیا کائنات باقی رہے گی۔ اگر آپ کشمیری کی کسی بھی صنف کی شاعری کا کوئی بھی ایک مجموعہ اُٹھائیں گے تو اس قسم کے الفاظ آپ کی نظر کو ضرور خیرہ کریں گے:-

         معشوق، دلبر، حُور، بے وفا، حسین، پاک دامن، سروقد ،عاشق، شیدا، فدا، مجنون، بے تاب، بے حجاب، بے صبر، عذاب، نقاب، شراب، ساز، راز، ناساز، مخمور، مجبور، بُلبل، گل،قد، تاج، زیور، جوش، خمار، جنگل، کوہ وغیرہ وغیرہ۔

ّّ              أے قلم میانہ دلکوی حال لیکھک نا للّلہ

                           جان و دِل چُھوم مئیہ وزان نارہ فراقہ باللہ (مقّبول کرالہ واری)

                  میون لوّ کہ چار ؤکوء اُوس دیودار

                           لبِ دریا چھاوان تازہ سبزہ زار                   ( مہجّور)

         اس طرح کے اُردو الفاظ آپ ہر کشمیری شاعر کے کشمیری کلام میں آسانی سے دیکھ سکیں گے۔

         آپ یہ جان کر شاید چونک جائیں گے کہ کشمیری زبان اور شاعری پر ا ب تک جو مستند کتاب لکھی گئی وہ اُردو میں ہی ”عبدل احد آزاد” کے ہاتھوں منظر عام آگئی۔ اس کتاب کی دوسری جلد کے مقدمہ میں علی جو اذ زیدی رقمطراز ہیں:۔

         ”فی ا لحقیقی کشمیری زبان کا اُردو سے اور اُردوکا کشمیری زبان سے گہرا ربط ہے کشمیر کی سرکاری زبان ہونے کے علاوہ اُردو کشمیر میں بین علاقائی مقاصد کے لیے بھی ثقافتی رابطہ کا کام دیتی ہے۔ اُردو کی وساطت سے نہ صرف ریاست کے تمام خطے کشمیری زبان و شاعری کے قریب تر آجاتے ہیں بلکہ تمام اُردو داں جو اطراف و اکنافِ ہند ہی میں نہیںبلکہ ماورائے ہند بھی پھیلے ہوئے ہیں، کشمیری زبان کی حلا وتوںاور لطافتوں سے کسی نہ کسی حد تک محظوظ ہو سکتے ہیں۔”

       کشمیری زبان کے لیجینڈ شاعروں کا کلام پہلے اُردو میں ترجمہ کیا گیا اور بعد میں دوسری زبانوں میں ۔لل دید،شیخ ا لعالم

، صمد میراور مہجور کا کلام کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے اور پھر ان شاعروں کی حیات پر بھی جو کتابیںلکھی گئی ہیں وہ زیاہ تر اُردو میں ہی لکھی گئی ہیں ۔ اُردو نے ہی ان شاعروں کو عالمی شعر و ادب کی منڈی میں ایک نام دیا ہے ۔ پروفسر جیالال کول نے لل دید پر اُردو میں ایک کتاب مرتب کی ہے اور پروفیسر نندلال طالب نے لل دید کے واکھوں کا اُردو میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔ مثال کے طورپر   ؎                                            (۴)

                  گورس پر ژ ھوم سا سہِ لٹے۔ یَس نہ کیہنہ وناں تس کیاہ ناو

                  پر ژ ھاں پر ژھاں تچھس تہ لوسس۔ کیہنہ نس نشہ کیہ تانی دارو

         مرشد سے بات پوچھی یہ میں نے ہزار بار۔ جس کا بیاں محال ہے اس کا ہے نام کیا

         میں تھک گئی مِلانہ مگر آج تک جواب۔ کچھ ہے جو سب کی اصل ہے اس میںکلام کیا

مقبول شاہ کرالہ واری کی مثنوی ”گُل ریز”کا تر جمہ بھی کئی زبانوں میں ہو چُکا ہے۔ اس کے اُردو ترجمے نے ہی مقبول کرالہ واری کو وادی سے باہر بھی ایک نام دیا ہے اس مثنوی کے متعلق عبدل احد آزادفر ما تے ہیں کہ:-

         ”شہرت اور مقبولیت کے لحاظ سے کشمیری ادب میں مثنوی ”گلر یز” کا وہی درجہ ہے جو فارسی شاعری میں جا می کی ”یوسف زلیخا”اور نظا می کی” شیریں فرہاد خسرو” کو حاصل ہے ۔ــــ”

         شیخ العالم کو کشمیر کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ شاید کشمیر کا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہوگا جسے شیخ العالم کا کچھ نہ کچھ کلام یاد نہ ہو لیکن کشمیر سے باہر اُردو نے ہی ان کو ایک نام اور مقام دیاہے۔

         مہجور دورِ جدید کے سربر آور وہ شاعر ہیں ۔اُ ن کو بھی کشمیر کا ہر چھوٹا بڑازن و مرد بحثیت ایک انقلابی شاعر جانتا ہے اور آج بھی

                  ولوہا باغوانو نو بہارک شان پیدا کر

             پھلن گُل گتھ کرن بُلبل تتھی سامان پیداکر

         وادی کشمیر کے اسکولوں میں مارنگ اسمبلی کے دوران ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ لیکن وادی سے باہر اُردو ہی ان کی شہرت کا وسیلہ بنی۔ ان کی حیات و شاعری پر اُردو میں کتا بیں لکھی گئی ۔اس طرح ان کی شہرت دوردور تک پہنچ گئی۔ حالانکہ انہوں  نے فارسی اور اُردو میں بھی اشعار کہے ہیں ۔

       اور کشمیر سے باہر اُردو مشاعروں میں اپنی غزلیں بھی سنائیں ہیں داد بھی حا صل کی ہے جس کی وجہ سے وہ اُردو سے کنارہ کش نہ ہو سکے۔لیکن اسکے باوجود ان کا اُردو ترجمہ کیا ہوا کشمیری کلام ہی ان کی شہرت کا ذریعہ بن گئی۔

         میرے نزدیک اُردو اور کشمیری زبان کے رشتے کو مضبوط کرنے یا دونوں کے بولنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں جتناہاتھ فوّق  ؔ اور اقبال  ؔ کا ہے اُتنا کسی دوسرے کا نہیںہے۔

         محمدالد ین فوقّ کشمیر کی ادبی اور صحا فتی تاریخ میں ایک اہم نام ہے۔ ان کا خانداں کشمیر سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کی تعلیم لاہور میں ہوئی ۔ فوقّ ایک ہی وقت میں صحا فی، تاریخ نویس، ادیب اور شاعر تھے۔ انہوںنے ستر کے آس پاس کتا بیں تصنیف کی ہیں جن میں تاریخ کشمیر ، تاریخ اقوامِ کشمیر، کشمیر کی رانیاں ، خواتین کشمیر، سیا ست کشمیر ، غنی کا شمیری، لل عارفہ، شباب کشمیر، رہنمائے کشمیر،سرگذشت فوق وغیرہ خاص طور پر مشہور ہیں ۔ انہوںنے کئی اخبارات کی ادارت سنبھالی۔ ان کے اخبارات میں خا ص طور پر ما ہنا مہ” کشمیری میگز ین”میں کشمیر اور کشمیر کے لوگوں سے جُڑے مسائل کی خبریں شا ئع ہو تی تھیں۔اپنی بعض تصا نیف کی اشا عت کے لیے کشمیر کے رئیسوں اور عہدہ داروں سے مالی معا ونت حاصل کرنے کے لیے انہیں ان سے تعلقات بڑھا نے پڑے اور ان تعلقات سے بعض رئیس و عہدہ داران شعر گوئی اور افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوگئے ۔ چنانچہ عبدا لقادر سروری اپنی کتاب” کشمیر میں اُردو” کے حصہ دوم میں اس سلسلے میں فرماتے ہیں :-

       ”راجہ بشیر علی خان بسّمل کشمیر کے رئیسوں میں سے تھے ان کے اور فوق ؔکے گہرے مراسم تھے اسی تعلق نے غالبــاََ ان میں بھی شعر و سخن کا مذاق پیدا کیا۔”

         اسی طرح راجہ بلند اقبال خان پونچھی، راجہ محمد افضل، مرزا مبارک ہیرانند، کاوش رجوری، شیخ غلام حیدر چستی وغیرہ میں فوق  ؔکی صحبتوں نے ہی اُردو شعر و ادب کا ذوق پیدا کیا۔

         کشمیر کے لوگوں کو کئی ہسیتوںسے علامہ اقبال کے ساتھ لگاو ہے۔ لیکن یہاں کے لوگوں کے دلوں میں جو علامہ کی عظمت بیٹھ گئی اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ علامہ نے کشمیر یوں کی غلامی پر واویلا کیا۔ انہوں نے کشمیریوں کو غلامی سے نجات حاصل کرنے کے  لیے اُردو میں ہی سب سے پہلے اپنی آوازبلند کی ـ  ؎

                       ۱       پنجئہ ظلم و جہالت نے بُرا حال کیا

                                    بن کے مقراض ہمیں بے پر و بال کیا

                                    توڑ اُس دستِ جفا کیش کو یا رب جس نے

                                    روح آزادئی کشمیر کو پامال کیا

                           ۲        سوتدبیر کی اے قوم یہی ہے تد بیر

                                    چشمِ اغیار میں ملتی ہے اسی سے تو قیر

                                    دُر مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں

                                    مل کے دنیا میں رہو مثلِ حروفِ کشمیر

         اس ما بعد ا لجد یدیت دور میں کشمیر کے شاعرو ادیب جہاں اپنی مادری زبان کشمیری کا حق ادا کرتے رہتے ہیں وہیں ان کی کا وشوں کے چرچے کشمیر سے باہر ساری اُردو دنیا میں سنائی دے رہی ہے میر غلام رسول ناز کی جیسا اُردو سخن سبخ کو کون نہیں جانتا جو اپنے بارے میں اس طنطنے سے بولتا ہے  ؎

                           کشمیر کا رہنے والا ہوں اُردو ئے معلی لکھتا ہوں

                           اس دیس میں مجھ سا کوئی بھی اُردو کا سخن و رہو نہ سکا

         حامدی کشمیری، محمد زمان آزردہ، مرحوم ڈاکٹر اکبر حیدری، حکیم منظور، محمد یوسف ٹینگ، غلام نبی خیال اور ان جیسے بیسوں کہنہ مشق شعراء و ادباء محققین و نقاد کو تو اُردو دنیا کا طفلِ مکتب بھی بخوبی جانتا ہے۔ یہ ہمارے شمیم احمد ہی تو ہیں جنہیں ہندوستان گیر سطح پر آلِ احمد سرور، خلیلُ لر حمان اعظمی اور سردار جعفری جیسے نقادوں نے اُردو کے اول درجے کے صحا فیوں میں شمار کیا ہے۔

         کشمیر میں جہاں اُردو زبان کے فروع کے لیے اُردو ا کادمی محو عمل ہے وہیں کشمیری زبان کے فروع کے لیے ” ادبی مرکز کمراز” پچھلے تیس سال سے کام کر رہی ہے۔ یہاں لسانی عِناد بھی نہیں، ایک ہی منچ پر اور ایک ہی محفل میں جہاں اُردو زبان کے احیاء کے لیے قرار دادیں پاس کی جاتی ہیں وہیں کشمیری زبان کو اپنا جائز مقام دلانے کے لیے لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے۔ بھلا جس ریاست میں اس خلوص اور بھائی چارے سے کام ہو رہا ہو وہاںدونوں زبانوں کو پھلنے پھولنے کے روشن امکا نات اظہر من ا لشمس ہیں۔ اُردو اور کشمیری زبان کا رشتہ ماں بیٹی یا بہن بہن کا رشتہ اگر چہ نہیں ہے لیکن رشتہ ہمسائیہ گی تو ضرور ہے اور شریعت اسلامیہ میں جو اس رشتے اور بند ھن کے حقوق بتا ئے گئے ہیں کشمیر کے لوگ ان کو پورا کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ۔

     ***

Leave a Reply