ظہور احمد
ریسرچ اسکالر، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
کناڈا کی ایک منفرد نسوانی آواز ’’ روبینہ فیصل‘‘
مہجری ادب کے تناظر میں بے شمار خواتین قلم کاروں نے وطن عزیز سے دور رہ کر اپنی زبان اور ادب نیز اپنی تہذیب و ثقافت کے افق کو وسیع کرنے کے لیے اہم خدمات انجام دیں ہیں ۔ اردو کی نئی بستیوں میں جہاں یورپ، امریکہ، جنوبی افریقہ اور خلیجی ممالک میں کئی نسوانی آوازیں بلند ہوئی ہیں، وہیں کناڈا کی سر زمین اس معاملے میں زیادہ زرخیز نظر آتی ہے۔ سر زمین کناڈا میں ڈاکٹر ساجدہ علوی، عقیلہ کیانی، نسیم سید، اختر جمال، شکیلہ رفیق، روبینہ فیصل، فرزانہ حسین، شازیہ قریشی، عرفانہ عزیز، رفعت نور وغیرہ جیسی کئی دیگر خواتین نے اردو ادب کو ترویج دینے میں اہم کردار ادا کیے ہیں- اور بالخصوص اردو ادب کا مستقبل بہتر بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ تا کہ نئی نسل اپنی مادری اور تہذیبی زبان و ادب سے اپنا رشتہ اسی جذبے کے ساتھ قائم رکھ سکے۔ کناڈا کی ان خاتون قلم کاروں میں سے ایک ہیں “روبینہ فیصل” جنہوں نے اپنے قلیل سے ادبی سفر میں ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ وہ اپنے واضح، غیر پیچیدہ اور احتجاجی لب و لہجہ کے لیے کافی مشہور ہیں۔
روبینہ فیصل مہجری اردو ادب میں بالعموم اور کالم نگاری میں بالخصوص غیر معمولی شہرت کی مالک ہیں۔ وہ ایک ایسی خاتون قلم کار ہیں جو اپنی تحریروں کو جرأت مندی، حقیقت نگاری اور بے باک انداز میں پیش کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔ اور اسی وجہ سے انہوں نے مہجری اردو ادب میں اپنی الگ پہچان بنا رکھی ہے۔ روبینہ فیصل کی شخصیت میں خاصا تنوع ہے۔ وہ ایک بہترین کالم نویس، افسانہ نگار اور ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ٹی۔وی۔ اسکرپٹ لکھنے میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں ہر فرد مصروف عمل ہے، ایسے دور میں معاشرے کی اصلاح کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ روبینہ فیصل کی تحریریں سماجی اصلاح کا کام کرتی ہیں۔ وہ اپنے ٹی۔وی۔ٹاک شو اور کالم نگاری کے ذریعے یہ کام دو دہائیوں سے زائد عرصے سے انجام دے رہی ہیں۔ ان کی اکثر تحریروں میں قلم کی کاٹ ایسی ہے کہ سیدھے سماج کے رویوں پر وار کرتی ہے۔ ڈاکٹر عصمت حیات علوی لکھتی ہیں کہ :
” یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دلیر اور نڈر افراد ہی کسی قوم اور ملت کا سرمایہ ہوا کرتے ہیں ۔ چاہے امن ہو یا جنگ ایسے افراد اپنی قوم کو نہ صرف دشمنوں اور درندوں سے محفوظ و مامون رکھتے ہیں بلکہ آگے بڑھ کر حملہ آور پر ایسی ضرب لگاتے ہیں کہ دشمن نیست و نابود ہو جاتا ہے ۔ اس وقت ہماری قوم اور ملت جن برے حالات سے گزر رہی ہے ، ایسے حالات میں روبینہ فیصل جیسی ان گنت دلیر و نڈر لڑکیوں اور عورتوں کی اشد ضرورت ہے ۔”1
روبینہ فیصل پاکستان کے شہر فیصل آباد میں 20 جولائی 1982 میں پیدا ہوئیں۔ روبینہ کا گھرانہ اہل علم کا گھرانہ تھا، والدین شعبہ تدریس سے وابستہ تھے۔ اسی ماحول میں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کوہ نور گرائمر ہائی اسکول فیصل آباد سے حاصل کرنے کے بعد جب خاندان لاہور منتقل ہو گیا تو ایف۔ایس۔سی۔ گورنمنٹ گرلز کالج لاہور سے کیا۔ پھر ہیلی کالج آف کامرس سے بی۔کام۔ اور پنجاب یونیورسٹی سے بی۔اے جرنلزم، پنجابی اور فارسی میں کیا۔ ایم۔اے۔انگلش ایف سی کالج لاہور سے کیا۔ ایم۔اے کے دوران ہی پنجاب بنک میں ملازمت حاصل کی جہاں چار سال تک گریڈ 2 آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ساتھ ہی بنکنگ کا ڈپلومہ(ڈی۔آئی۔پی۔پی۔) بھی کر لیا۔ اس دوران ان کی شادی فیصل محمود سے ہو گئی جو اسی بنک میں نوکری کرتے تھے۔ کچھ ہی عرصہ بعد یعنی سن 2000 میں کینیڈا کی امیگریشن ہو گئی اور ان کا خاندان مستقل طور پر کینیڈائی شہریت اختیار کر کے وہیں آباد ہو گیا۔ فی الوقت روبینہ فیصل کناڈا کے شہر ٹورنٹو (مسی ساگا) میں اپنے خاوند اور چار بچوں، جن میں تین بیٹے اور ایک بیٹی(ہادی، عبداللہ، احمد اور علینہ) کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریری زندگی کا باقاعدہ آغاز ہفتہ وار کالم لکھنے سے کیا۔ انہوں نے روزنامہ “نوائے وقت” میں شامل ہو کر سماج میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات و حادثات کو اپنا موضوع بنایا ، ایشیا اور کینیڈا کے لوگوں کی بکھری ہوئی کہانیاں بیان کیں۔ اس طرح نئے اور انوکھے خیالات کے ذریعے وہ قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ ان کے تحریری سفر کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا اور ایک مشن کے تحت انہوں نے یک بعد دیگرے اپنے تحریری منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ سن 2010 میں شائع شدہ کالموں کا مجموعہ “روٹی کھاتی مورتیاں” کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر کے ادبی دنیا میں داد وصول کی۔
کناڈا کے مہجری اردو ادب کو وقیع اور متمول بنانے میں پچھلی ڈھائی دہائیوں سے روبینہ فیصل کا بھی اہم حصہ رہا ہے۔ ان کی تصانیف میں کالموں کا مجموعہ”روٹی کھاتی مورتیاں”2010, افسانوی مجموعہ “خواب سے لپٹی کہانیاں”2016, نثری نظموں کا مجموعہ “ایسا ضروری تو نہیں”2018 دوسرا افسانوی مجموعہ “گمشدہ ساۓ”2019، ناول “نارسائی”2022, ڈرامے”کہانی تیری میری” اور “کوا چلا ہنس کی چال” کے علاوہ کئی دیگر شامل ہیں۔ انہوں نے چند تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں جن میں ڈاکٹر بلند اقبال، جازب قریشی، فیصل فارانی، محترمہ شکیلہ رفیق اور ڈاکٹر خالد سہیل وغیرہ کی شخصیتوں کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ علاوہ ازیں مختلف رسائل و جرائد اور ویب سائٹز کے ذریعے متعدد تبصرے، ترجمے اور خاکے شائع ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ جو ان کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں لیکن یہ کہنا درست ہوگا کہ جتنا مواد کتابی صورت میں شائع چکا ہے معیار و مقدار دونوں اعتبار سے بلند و بالا ہے۔ روبینہ فیصل نے جہاں 300 سے زائد کالم روزنامہ ” نوائے وقت” کی زینت بنائے ہیں، وہیں تقریباً 250 سے زائد ٹی۔وی۔ٹاک۔شوز “دستک” کے نام (راول TV کناڈا) سے نشر کیے ہیں۔ روبینہ فیصل کی تحریروں اور ٹاک شوز کے موضوعات جنوبی ایشیا کے مہاجرین کے تاریخی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کا انداز تحریر اچھوتا اور دلچسپ ہے، سیدھے سادھے انداز میں گہری باتیں لکھنا ان کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ جس بے باکی کے ساتھ سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں جملہ معاصر مسائل پر بھی اسی روانی سے ان کا قلم چلتا ہے۔ ان کے کالموں میں بھی افسانویت بھرپور نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر نگہت نسیم یوں لکھتی ہیں:
“ میں خود افسانہ نگار اور شاعرہ ہونے کے ناطے یہ بھی سوچتی ہوں کہ روبینہ کے نوے فیصد سے زائد کالم ایسے ہیں جن کو بہت آسانی سے ایک مکمل اور کامیاب افسانہ بنایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان کے اکثر کالموں میں افسانے کی کہانی اور ڈرامے کا پلاٹ موجود ہے۔” 2
سچ تو یہ ہے کہ ایک کالم نگار پوری قوم کا امین ہوتا ہے اس لیے اس کی زبان شستہ اور عام فہم ہونی چاہیے۔ تاکہ کسی بھی موضوع پر اپنی رائے پیش کر کے اپنے نقطہءنظر کو عمدہ طریقے سے ثابت کر سکے۔ اور قارئین کو اسے قبول کرنے پر ابھار سکے، جو کہ نہایت ہی ہنرمندانہ کام ہے۔ روبینہ فیصل کے کالموں میں یہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ان کے کالموں کے موضوعات قاری کو متن پڑھنے اور پڑھ کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ روبینہ فیصل نے اپنے افسانوں اور نظموں کے موضوعات گرد و پیش پھیلی ہوئی زندگی سے حاصل کیے ہیں۔ خواہ وہ پاکستان کا یا کینیڈا کا ہی معاشرہ ہو، جس دیدہ دلیری سے انہوں نے خواتین کے مسائل کی تصویر کشی کی ہے شاید ہی کسی اور کی تحریروں میں دیکھنے کو مل سکے۔ انہوں نے سماج میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات و حالات کو موضوع بنایا ہے۔ ان کی نثر اور نظم دونوں میں انسانوں کے خواب ہیں، بے وفائی اور جدائی کا درد ہے، وقت اور حالات کی ستم ظریفی ہے، وطن سے دور ہونے کا غم اور بے بسی ہے، موت کا خوف ہے، معاشرے میں منافقت کا زہر اور زہر پھیلانے والے ان منافقوں کے چہرے بے نقاب کرنے کی کوششیں ملتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر مقصود جعفری :
“روبینہ فیصل ہر فن مولا شخصیت ہیں۔ تصورات کے دھارے روبینہ کی تحریر سے پھوٹتے ہیں وہ دل اور دماغ کا خوبصورت امتزاج ہیں۔ انہوں نے جزبات کے اظہار کے لیے کئی راستے چن رکھے ہیں، کبھی وہ نظم لکھتی ہیں، اور کبھی افسانہ کبھی کالم اور کبھی ڈرامہ۔ ان کی تحریروں میں محبت کا درس ہے۔ وہ دنیا میں آزادی اور امن لانے پر زور دیتی ہیں۔ روبینہ کے کالموں میں چھپے پیغامات ایک دلنشین انداز میں دل کے اندر بغیر کسی بوریت کے اتر جاتے ہیں۔ روبینہ کے ہاتھ میں ایک چابک ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی مگر جب وہ پیٹھ پر پڑتی ہے تو سب سمجھا جاتی ہے۔” 3
روبینہ فیصل کے افسانوں میں عورتوں کے غموں اور دکھوں کو بہت سی جہتوں سے دیکھا جا سکتاہے۔ جیسے مشرقی اور مغربی عورتیں، محبت کی ماری، مذہب کی ستائی ہوئی اور سیاست کی پروردہ عورتیں، عورتوں کے آپسی تعلقات نیز مردوں سے ان کے رشتوں کی نوعیت کا بھی ایک دائرہ ملتا ہے۔ ان کی کہانیوں میں عورت ایسی قید میں نظر آتی ہے جہاں سے آزاد ہو کر وہ کائنات کی کھلی فضاؤں میں تحلیل ہونے کا خواب دیکھتی ہے۔ ان کی تحریروں میں خاتون کی بے حرمتی کا جزبہ پنہاں ہونے سے سماجی اور تہذیبی روایات پر بھر پور طنز ملتا ہے۔ ان کی کئی کہانیاں مرد و عورت کے تصور مساوات اور حقوق آزادی کے چلتے جنسی تفریق اور تعصب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ غرض کہ ان کے افسانوں میں جنسی، نفسیاتی، معاشی مسائل اور تہذیبی تصادم کی کشمکش ملتی ہے۔ اس سلسلے میں محمد فاروق عزمی لکھتے ہیں کہ:
“روبینہ کے افسانوں کے کردار ہمارے ہی معاشرے کے زندہ اور جیتے جاگتے کردار ہیں۔ جن میں زندگی سانس لیتی ہے، دکھ، دکھ کی طرح ہی محسوس ہوتے ہیں، تنہائیاں، اداسیاں اور رفاقتیں بولتی ہیں۔ محبتیں اور نفرتیں زندگی کا دامن تھامے کبھی جینے کا حوصلہ بنتی ہیں اور کبھی موت کی تمنا کرتی نظر آتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا قلم نشر اور ہاتھ ایک ماہر جراح کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ جو معاشرے کے جسم سے لپٹے گلے سڑے سماجی رسم ورواج ، خوف نا انصافی اور بے وفائیوں کے ناسوروں کا آپریشن کرتے ہوئے کوئی رعایت نہیں برتتی۔ وہ مرد و زن کی تفریق کیے بغیر صنف نازک کو بھی اسی بے رحمی سے لیکن سچی آنکھ سے دیکھتی ہیں۔” 4
مختصراً یہ کہنا ہر گز غلط نہیں ہوگا کہ مسبوق الذکر تمام نگارشات محترمہ روبینہ فیصل کی ایک منفرد شناخت اور تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ اور با آسانی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ آج کے اس مفاد پرست دور میں بھی ایسے قلم کار موجود ہیں جو دیار غیر میں رہ کر کسی لالچ اور طمع کے بغیر اردو ادب کو وسعت دینے اور اس کا مستقبل روشن کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ روبینہ فیصل مہجری اردو ادب میں کافی اضافہ کر رہی ہیں اور اردو کے قارئین کو اپنی شگفتہ تحریروں سے محفوظ کر رہی ہیں۔فی الوقت انہیں کناڈا کے مہجری ادب میں ایک بلند پایہ کالم نویس، اعلیٰ پایہ افسانہ نگار، بہترین ناول نگار اور ممتاز اینکر تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کا شمار کینیڈائی اردو ادب کی ان عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے وطن عزیز سے دور رہ کر اپنے عہد کو اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ اور دیار غیر میں وہ نمایاں خدمات انجام دیں ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
حواشی:
1۔علوی، ڈاکٹر عصمت حیات ، دلیر لڑکی ،ہانگ کانگ، چین (روٹی کھاتی مورتیاں، روبینہ فیصل)2010،ص نمبر 15
2۔ نگہت نسیم ، ڈاکٹر ، روبینہ کا قلم کسی مصلحت کا شکار نہیں،سڈنی، آسٹریلیا، (روٹی کھاتی مورتیاں، روبینہ فیصل) 2010، ص نمبر14
3۔ جعفری، ڈاکٹر مقصود ، روبینہ فیصل ایک دل اور دماغ، نیویارک،(روٹی کھاتی مورتیاں، روبینہ فیصل)2010، ص نمبر 22,23
4۔عزمی، محمد فاروق ، گمشدہ سائے میں کھڑی روبینہ فیصل ، (گمشدہ ساۓ، روبینہ فیصل)قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل ، لاہور ،2019, ص نمبر 17