You are currently viewing کہانی تہ خانہ: قانونی جبر اور اقلیتوں کا المیہ

کہانی تہ خانہ: قانونی جبر اور اقلیتوں کا المیہ

ڈاکٹرمحمدرکن الدین

شعبۂ اردو، ستیہ وتی کالج، دہلی یونیورسٹی، دہلی

کہانی تہ خانہ: قانونی جبر اور اقلیتوں کا المیہ

افسانہ’’تہ خانہ‘‘ایک سائنس کے طالب علم اسرارالحق جیلانی کی ابتدائی کوشش ہونے کے لحاظ سے بہت  اہم ہے۔مختصر افسانہ کے نام پرآج کل بس ایک اخباری رپورٹ کی طرح قلم کار لکھتے چلے جارہے ہیں۔مجھے نہیں پتہ ان کہانی کاروں نے افسانے کے اصول وضوابط کو کیوں نظرانداز کیا لیکن جدید لکھاریوں کی کہانیوں سے  بہت مایوسی ہوتی ہے۔افسانہ اخباری رپورٹ نہیں ہے ۔اس کے کچھ قواعد وضوابط متعین کیے گیے ہیں۔اسراالحق جیلانی کا افسانہ بھی ان خامیوں سے خالی نہیں ہے۔موصوف نے اس کہانی میں  موضوع سے انصاف تو کیا ہے البتہ کہانی میں  تہہ داری نہیں ہے۔اکیسویں صدی کا سب سے تکلیف دہ اوردل خراش موضوع دہشت گردی ہے۔آج پوری دنیا دہشت گردی سے پریشان ہے۔یہ بات  سبھی جانتے ہیں  کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب اوردین دھرم نہیں ہوتا۔بلکہ یہ مفاد پرست اور انسانیت کش ذہن کی پیداوارہے جس سے  پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہے۔دہشت کو فروغ دینے میں دو ذہنیت کار فرما ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اپنا رعب ودبدبہ قائم کرنے اور دوسرے ممالک کو ترقی سے روکنے کے لیے اس طر ح کے ذہن وفکر کی نشو و نما میں ہمہ تن مصروف ہیں۔دوسرے ستم رسیدہ اور  بے راہ روی کے شکار افراد اس گروہ میں شریک ہوتے چلے جارہے ہیں۔حالاں کہ تشددکسی مسئلے کا حل نہیں۔ آج پوری دنیا جانتی ہے کہ ترقی کے نام پر چند ممالک کتنے گھنونے کام انجام دے  رہے ہیں۔نائن الیون کے بعد ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک خاص طبقے  کو نشانہ بنا کر پوری دنیا میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اس  سے تعلق رکھنے والے لوگ دہشت گرد ہوتے ہیں۔اس حملے  کے بعد مسلم قوم نے پوری دنیا میں ظلم وتشدد کوبرداشت کیا اورہنوزیہ سلسلہ جاری ہے۔نائن الیون کا حملہ اوراس سے ہونے والی تباہیوں کو دیکھتے ہوئے چند ضمیر فروش اور انسان دشمن عناصرنے اس ہنگامے کا خوب ناجائز فایدہ اٹھایا۔ جہاں بھی اس طرح کے واقعات درپیش ہوئے بغیر کسی تحقیق و  تفتیش کے ایک خاص کمیونیٹی کے نام سے وہ حادثے/دھماکے منسوب کردیےگیے۔

’تہ خانہ ‘اسی پس منظر میں لکھا گیا ایک افسانہ ہے۔اس کہانی کو افسانچہ بھی کہہ سکتے ہیں۔اس  میں مختصر کردارکے ساتھ مختصر مکالمے بھی ہیں۔جنید نامی شخص دہشت گردی کے الزام میں گرفتارکرلیاجاتاہے۔الزام ایسا کہ کبھی ثابت ہی نہ ہوسکے۔خفیہ ایجنسیاں کس قدرتشدداوربربریت سے کام لیتی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنید کو کسی دوسرے مشن کے لیے تیارکیاجاتاہے۔حالاں کہ وہ بے گناہ ہے۔اس کو جھوٹی تسلی دی جاتی ہے۔شب وروز عجیب وغریب مصائب سے گزرکر جنید آخر کاراپنا وجود ہی کھودیتا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:

’’جنید کو ایک بند کمرے میں پڑے ٹیبل کے ایک طرف پڑی  کرسی پر بیٹھا دیا گیا جس کے ٹھیک اوپر  ایک بلب اپنی آنکھیں کھول کر لٹک رہا تھا۔کرسی کی دوسری طرف وہی شخص  جس نے کئی بار ایک ہی طرح کے  سوالات پوچھ کر سامنے پڑے لپ ٹوپ میں کچھ لکھتا پھر  ایک بٹن دباتا ‘ کچھ ہی لمحے میں کمرے کی دیوار سے دو شخص نمودار ہوتے اور جنید کو لے کر پراسرار طریقے سے ایک خفیہ جگہ چھوڑ آتے –  پچھلے دو سال سے اس کے  ساتھ ہر  دو مہینے میں  تقریباً  یہی ہوتا  آ رہا تھا ہاں کبھی کبھی  اس کا  بلڈ سمپل لیا جاتا تو کبھی  ہیلتھ چیک اپ بھی کر لیا جاتا ‘‘۔

اس جسمانی تشدد کی وجہ سے جنید جیسے کہ خود کو بھول چکاہو۔اسے ایسی جگہ قید کرکے رکھا گیا تھا جہاں دن ورات وہ مشین کی نگرانی میں اپنا ذہنی توازن کھوتارہتاہے۔اس تشددنے جنید کو ایک ایسا شخص بنادیاتھا جس سے خفیہ ایجنسی اپنا کام بہترطورسے نکال سکتی تھی۔ایک دوسرا اقتباس دیکھیے:

’’آج جب اس کے  چہرے سے  نقاب ہٹایا گیا توآنکھیں کھولتے ہی ایسا لگا جیسے آنکھیں  روشنی میں جل جائیں گی،فورا ًاس نے آنکھیں بند کر لی – کچھ دیر بعد جب  اس نے آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کی تو تین رنگ کا ہندوستانی جھنڈا دو رنگوں میں  ہی دکھ رہا تھا سفید اور سیاہ ۔  وہ  شخص جس کے نام سے جنید واقف نہیں تھا اسے غور سے دیکھنے کے بعد اس سے پوچھا –

’’ کیا  نام  ہے تمہارا  ؟  ‘‘

’’جنید ‘‘

’’باپ  کا  نام بتاؤ ؟ ‘‘

’’ سورج  پرتاپ سنگھ ‘‘

’’ اور کیا جانتے ہو اپنے بارے میں ؟‘‘’’میں گجرات کے اونا  ضلع سے ہوں’ بنارس ہندو یونیورسٹی سے پڑھائی کی ہے ‘‘

’’ ماں کا نام بتاؤ ؟‘‘

’’نہیں یاد ہے ‘‘

’’ تمہیں   پتا ہے تم کہاں ہو ؟‘‘

’’ نہیں  پتا ‘‘

’’تم  کیسے  یہاں  پہونچے یہ یاد ہے ؟‘‘

’’نہیں ‘‘

’’تو پھر کیا  یاد ہے ؟ آخری  یادداشت بتاؤ ‘‘

’’شاید میں  تم کو  کئی بار  بتا چکا ہوں ‘‘، ’’پھر  سے بتاؤ ؟‘‘

’’ میرے  کچھ  دوست میرے کمرے  پہ   آئے اور مجھے  کسی مولانا  سے ملانے کے لیے لے  گئے۔  میں نے جانے سے انکار کیا لیکن ان میں سے کسی نے میری بات نہیں سنی اور پھر اس میں سے کسی نے مجھے مارا بھی ۔آخر کار  دوستی  کا حوالہ  دے کر مجھے  ایک  مولانا سے ملانے لے گئے ۔‘‘

’’تم مولانا سے ملے ؟‘‘

’’پتا  نہیں . . . .  شاید ہاں لیکن پوری طرح  سے یاد نہیں ہے ‘‘

کہانی کا یہ حصہ اس کا نچوڑ ہے۔انسان پر حیوانی درندگی کا اعلیٰ  نمونہ جیل میں قید وبند مجرم کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔دراصل ہوتایہ ہے کہ اپنے مقاصد کے لیے چند ایجنسیاں بذات خود تشدداور مشینی مددسے ایسے افراد کو تیارکرتے ہیں جو ضرورت پڑنے پر اس کے اشاروں پر کام کرسکے۔ان کے ظلم وتشددکی تاب لانا بس سے باہر کاکام ہوتا ہے۔جنید اسی چال بازی کا ایک حصہ بنا اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا۔ذہن ودماغ کی تبدیلی سے متعلق ایک اوراقتباس دیکھیے:

’’اس آخری جواب کے بعد جنید اپنے تہ خانے میں تھا اور  وہ شخص دوسرے کمرے میں کسی سے بات کر  رہا تھا ‘‘

ویل ڈن  مسٹر شکلا ویل ڈن ۔ ماں کا نام فیڈ کرو’ نام ابھی آدھا بھولا ہے ‘ ٹاسک نمبر  3جاری رہنے دو اور اب ٹاسک نمبر  4 پہ کام شروع کرو  اور ہاں تہ خانے کی  روشنی بڑھا دو بلیک اینڈ وائٹ دکھنے لگا ہے ۔اچّھا کیس نمبر الفا ١٨   کا کیا چل رہا ہے ؟‘‘

’’سوری سر  آئیکسپریمنٹ  واز رونگ ‘ ہی  ڈایڈ ‘‘

’’ رپورٹ بھیجئے اینڈ  نیکسٹ ٹارگٹ  پہ کام کیجئے ‘‘

کہانی کا یہ اقتباس جیل کے سسٹم کو دنیا کے سامنے پیش کرتاہے کہ کیسے انسان کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت استعمال کیا جاتاہے۔کیسے کیسے تجربے کیے جاتے ہیں ۔افسانہ نویس کی زبان میں اگر اس سسٹم  کو دیکھا جائے تو یہ سفاکیت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔جہاں انسان خود سزاکے لیے وقت گزاررہاہے وہاں سے ان کو کسی اورکام کے لیے تیارکیاجاتاہے۔ افسانہ نویس کے الفاظ میں:

’’یہ خبر الفا ٥٣  کو دوسرے طریقے سے پہونچی کہ یا تو الفا ٥٣ کل تک اپنے مقصد کو پورا کرے یا پھر  لوکیشن پہ واپس جاۓ۔الفا ٥٣ کا جواب مقصد کی تکمیل میں تھا ۔دوسرے روز  الفا ٥٣ بم بلاسٹ کے کیس میں پکڑا گیا جس میں  ١٠٠  لوگوں سے زیادہ کی جانیں گئی اور  میڈیا میں  یہ خبر عام ہوئی کہ ایک  آتنک وادی جو ایک خاص مذہب سے تعلق رکھتا ہے  اپنا نام بدل کر دوسرے مذہب کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور دلیل کے طور پر انگلیوں اور آنکھوں کے مدد سے آدھار کارڈ میں درج نام کو دیکھایا جا رہا تھا. . .  جنید احمد  ۔ یہ بھی بتایا گیا کی تین سال پہلے یہ شخص سیریا (شام)بھاگ گیا تھا اور آج نام بدل کر دہشت پھیلا رہا ہے ۔

  چند  روز  پولیس کی حراست میں رہنے کے بعد ایک دن  الفا ٥٣  جب نیند سے جاگتا  ہے تو خود  کو اسی تہ خانے میں پاتا ہے ۔‘‘

آج کل پوری دنیا میں یہی سب ہورہا ہے۔جس طرف دیکھیے یہی منظرنامہ نظروں کے سامنے گردش کررہا ہے۔جنیدایک فردکا نام نہیں  بلکہ ایک کمیونٹی کا نام ہے۔اس نام سے منسلک کمیونٹی کے بارے میں عالمی سطح پر انسانی نظریات دن بدن بد ل رہے ہیں۔اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ انسانیت جیسے ناموں کی محتاج ہوگئی ہو۔موجودہ وقت میں انسانیت جیسے فنا ہوچکی ہو۔انسانیت  اور اس جیسے الفاظ صرف حسن سماعت کے لیے رہ گیے ہوں۔سماجی ومذہبی ہم آہنگی جیسے راستے بھٹک گیے ہوں۔عالمی سطح پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت  سارازورایک خاص طبقے کی بربادی اوربدنامی پر صرف کیاجارہاہے۔انسانیت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔تاہم اطمینان بخش اورمعتدبہ تعدادکے ساتھ انصاف پسند لوگ ایسے لوگوں کی ذہنیت کو پرکھ کر سماجی ،مذہبی اورانسانی ہم آہنگی کے لیےبہتر کام کررہے ہیں ۔جسے ہم اورآپ مستقبل کے لیے نیک فال کہہ سکتے ہیں۔جنید کے ذریعےاس کہانی میں موجودہ عہد کےاسی سنگین مسئلے کو  موضوع بنایا گیا ہے۔نام کی تبدیلی کا انداز درج ذیل اقتباس میں دیکھ سکتے ہیں:

’’وہ دہلی پہونچ چکا تھا اور اپنے مقصد کی تکمیل میں لگ گیا تھا –  ایک دن جب الفا ٥٣  دھلی کے ابولفضل  میٹرو سٹیشن سے اتر کر ہری کوٹھی کی طرف بڑھ رہا تھا تو کسی نے پیچھے سے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ  کر کہا ’’ جنید ہے ؟‘‘

جنید پیچھے مڑ  کر دیکھا تو ایک پچاس سال کی عورت اس سے گلے لگاکر رونے لگی  ’’ ہاے رے میرا بیٹا …….. کون لے گیا تھا تم کو . . . . کیسے غائب ہو  گیا تھا جنید . .  .‘‘

جنید اپنے آپ کو اس عورت کے گلے سے ہٹاتا ہوا  بولا ’’ماتا جی آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میرا نام اشیش ہے اشیش پرتاپ سنگھ  اور میں کسی جنید کو نہیں جانتا ‘‘

درندگی کا کھلا مظاہرہ اس کہانی کا اختتامیہ ہے۔ذہنی زیادتی کا یہ عالم ہے کہ شب ورو ز ایک خاص مشین کی نگرانی میں یاداشت بھی ختم کردی گئی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے جنید اپنی ماں کو بھی نہیں پہچان پارہاہے ۔ماں جب کہتی ہے کہ بیٹا جنید۔توجنید کہتاہے کہ  میرا نام اشیش ہے۔اور جب بم بلاسٹ ہوتا ہے تو جنید کا شناختی کارڈ عوام کے سامنے پیش کردیا جاتاہے کہ یہ دہشت گردہے۔

کہانی کے بارے میں  ایک عام تصوریہ ہے کہ وہی کہانی زیاد ہ قابل التفات ہے جس میں تہہ داری ہو۔بہترین تخلیق  وہی ہے جس میں تہہ داری کا پہلو غالب ہو۔تہہ داری سےدوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔تخلیقات میں مطالب ڈھکے چھپے ہوتے ہیں ۔باتیں اشاروں میں کی جاتی ہیں۔قارئین بڑی مشکل سے کہانی کی تہہ  تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔لیکن اس کہانی میں  ہم تہہ داری جیسے خصوصیت سے محروم ہیں۔مناسب ہوتا اگرکہانی کارتہہ داری کاپہلو ملحوظ نظر رکھتے ۔ممکن ہے ان کے سامنے کہانی کا یہ پہلو غالب رہا رہاہومگر مطالب تک قاری کی رسائی تخلیق کار کو غذا فراہم کرتے ہیں۔اس کہانی میں اسرار صاحب نے واضح اور صاف طور پر سب کچھ بتادیا ہے ،قاری کے لیے بہت زیادہ  مواد نہیں ہے۔ مواد کے نام پر صرف ایک عام تصور جو مسلمانوں کے بارے میں میڈیا نے پوری دنیا میں پھیلا یا ہے، وہی ہے۔ افسانہ نگار اگر اس جانب توجہ دیں گے تو مستقبل میں کچھ بہتر کہانیوں کی امید کی جا سکتی ہے۔

کہانی کا بیانیہ  شائستہ ہے اورزبان وبیان بھی صاف  ہے۔کہانی میں Readability ہے۔اس بہتر کہانی کے لیے اسرارالحق کو میں مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اردودادب کے طالب علم  نہ ہونے کے باوجودزبان وبیان پر گہری پکڑ ہے۔بیانیہ اور اسلوب میں شائستگی ہے۔امید ہے کہ اسرارالحق جیلانی کا یہ افسانوی سفر جاری رہے گا ۔

Dr. Md Ruknuddin

Assistant Professor

Department of Urdu

Satyawati College, University of Delhi, Delhi

Leave a Reply