ایس معشوق احمد
‘کیسا ہے یہ جنون’ _ ایک مطالعہ
کشمیر میں اردو افسانہ کا ذکر آتی ہی جن بلند قامت افسانہ نگاروں کے نام ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں ان میں نور شاہ بھی شامل ہیں۔اگرچہ نور شاہ سے قبل معتدد افسانہ نگاروں نے افسانے لکھے ہیں اور اپنے افسانوں میں ایک طرف کشمیر کے حسین اور دلفریب نظاروں کو موضوع بنایا ہے وہیں دوسری جانب یہاں کے کرب ناک حالات کے بھی عکاس بنے ہیں۔ انہوں نے جنبش قلم سے کشمیر کے جنت نما رخ کے ساتھ ساتھ جہنم نما تصویر بھی قارئین کو دکھائی ہے۔ نور شاہ اس لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے عوام کی زندگی ،ان کے جذبات ،رنج و الم ،پریشانیاں اور مسائل ،پرتناؤ حالات، افراتفری، کشمیر کا کلچر ،ثقافت ، قوم کی شعوری، جذباتی ،سماجی اور معاشرتی پہلوؤں کی عکاسی اور آس پاس رونما ہونے والے واقعات کو ہی اپنے افسانوں کا موضوع نہیں بنایا ہے بلکہ رومان پرور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔نور شاہ صرف افسانہ نگار نہیں ہیں بلکہ انہوں نے ناول ، خاکے ،ڈرامے ،ریڈیائی ڈرامے، افسانچے ، تراجم اور فلمی فیچر بھی لکھے ہیں۔
نور شاہ کی ڈیڑھ درجن کے قریب کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ان کی ” کیسا ہے یہ جنون” نامی کتاب 2015 ء میں منصہ شہود پر آئی ہے۔ اس کتاب کو الفجر پرنٹرس نے چھاپا ہے۔ 258 صحفات پر مشتمل یہ کتاب مختلف اصناف کا گلدستہ ہے۔اس گلدستے میں میں افسانے اور افسانچے کے پھول سجائے گئے ہیں جن کی مہک سے قاری کا ذہن معطر ہوتا ہے اور ریڈیو ڈرامے، فلمی فیچر اور تراجم کی موجودگی گلدستے کے نقش ونگار میں اضافہ کرتے ہیں۔اس کتاب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلے حصے میں چار مضامین شامل کئے گئے ہیں اور” اپنی بات” کے عنوان سے مصنف نے پچاس برس کے افسانوی ادب سے تعلق، برصغیر کے رسائل و جرائد میں چھپنے کا ذکر ، ریڈیو ڈرامے لکھنے کا تذکرہ، اپنی تین کتابوں بند کمرے کی کھڑکی (2007)ء ( یہ کتاب ڈائری کے اوراق پر مشتمل ہے۔ یہ ریاست میں گذشتہ نصف صدی کے اہم ادبی کارناموں، واقعات اور ادیبوں کے شب و روز کی گواہ ہے)، کہاں گئے یہ لوگ (2008)ء ( اس میں مقبول ومعروف قلمکاروں کی ادبی زندگی اور کارناموں کا ذکر کیا گیا ہے ) اور جموں و کشمیر کے اردو افسانہ نگار (2011) ء ( اس کتاب میں جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے ساٹھ سے زائد قلمکاروں کے احوال و کوائف اور کارنامے درج ہیں) کا تذکرہ کیا ہے۔اس کے علاوہ’ کیسا ہے یہ جنون’ کی ابواب کی ترتیب بھی درج کی گئی ہے۔اس حصے کا پہلا مضمون پروفیسر قدوس جاوید کا ” نورشاہ : کشمیر ،کرب ،کہانی” ہے۔اس مضمون میں نور شاہ کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔نور شاہ کی ابتدائی کہانیوں کو پروفیسر قدوس جاوید نے ” مشق سخن ” کے خانے میں رکھا ہے اور بعد کی کہانیوں کو کشمیر کی روح عصر کے موثر ترجمان مانا ہے۔اس مضمون میں نور شاہ کے خاص دو رحجانات زیر بحث آئے ہیں، ایک رومانوی، حسن پرستی ، فطرت پسندی ،جمالیاتی اور جنسیت کا رحجان اور دوسرا حقیقت پسندانہ۔نور شاہ کے افسانوں میں کشمیر کے حالات ، یہاں کی ویرانیوں ،جہلم اور ولر کے پانی کا سرخ ہونا، سیب کی خوشبو سے معطر وادی میں باردو کی بو پھیل جانا اور یہاں کے لوگوں کا ذہنی انتشار میں مبتلا ہونا جیسے موضوعات در آنا بھی زیر بحث آئے ہیں۔پروفیسر قدوس جاوید نور شاہ کی افسانہ نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ __
” رومانیت اور تصوریت کے دلدادہ نور شاہ کا فن بھی گرینڈ دھماکوں، قتل و خون ،آبروریزی اور عدم تحفظ کے زائیدہ کشمیر کے نئے ڈسکورس کے حوالے سے بیانیہ ( Narration) کے ایک نئے سانچے میں ڈھل گیا اسے حقیقت پسندانہ سماجی و ثقافتی بیانیہ (Realistic socio_cultural narration ) کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود نور شاہ کے ایسے افسانے صحافتی رپورٹنگ یا بے روح مرقعے نہیں ہیں۔ان میں وہ فنی وجمالیاتی عناصر موجود ہیں جو افسانہ کو افسانہ بناتے ہیں البتہ انہیں اگر “ٹریجڈی کی جمالیات ” کا نام دیا جائے تب بھی نور شاہ کے افسانویت پر حرف نہیں آئے گا۔”
نور شاہ: کشمیر ،کرب ،کہانی _ صحفہ 10
اس حصے کا دوسرا مضمون ” نور شاہ کی کہانیاں ” از ڈاکٹر شمع افروز زیدی ہے۔اس میں نورشاہ کی کہانیاں پڑھ کر اس کا غائبانہ تعارف ، 1981 ء میں ان سے پہلی ملاقات جو بیسوی صدی کے دفتر میں ہوئی تھی جب وہ نیر صاحب سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے، کشمیر کے چپے چپے سے نورشاہ کی واقفیت ، یہاں کی خوبصورتی اور حسن کو صحفہ قرطاس پر بکھیرنا اور ان کے افسانوں میں کشمیر کی عکاسی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔کشمیر نے جب جنت بے نظیر کا رتبہ کھو دیا اور حالات دگرگوں ہونے کی وجہ سے یہ دہکتا جہنم بن گیا تو نورشاہ کی کہانیوں میں بھی تبدیلیاں آئیں،اس طرف بھی ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے توجہ دلائی ہے۔ساتھ ہی اس رائے کا بھی اظہار کیا ہے کہ__
” نور شاہ کی کہانیوں کو جستہ جستہ پڑھیے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ورائٹی اور تنوع ہے۔وہ اپنی کہانیوں میں زندگی کے تلخ حقائق ،نفسیاتی کشمکش ، حالات اور ماحول کا المیہ اس خوبی سے سموتے ہیں کہ قاری کے ذہن و دل پر کاری ضرب لگتی ہے۔لیکن اس کاری ضرب کو سنبھالنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں۔اس لیے قاری کو لطیف رومانی ماحول بھی فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور حسن کا ذکر اس دلکش پیرائے میں کرتے ہیں کہ قاری کے ذہن سے دکھوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور یہی خوبی انہیں امتیاز بخشتی ہے۔”
نور شاہ کی کہانیاں _ صحفہ 14
نور شاہ کی افسانہ نگاری کے علاوہ اس مضمون میں کہاں گئے یہ لوگ ، بند کمرے کی کھڑکی اور جموں و کشمیر کے اردو افسانہ نگار نامی کتابوں پر بھی تاثرات قلمبند کئے گئے ہیں۔تیسرا مضمون ” نور شاہ کا تخلیقی سفر _ رومانیت سے حقیقت نگاری تک ” دیپک بدکی کا لکھا ہوا ہے۔اس میں دیپک بدکی نے نور شاہ کو سجاد حیدر یلدرم سکول کا پیروکار قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ نور شاہ نے خود بھی رومان پرور طبیعت پائی ہے۔اس مضمون میں نور شاہ کی پیدائش ، پیشے ، بچپن سے افسانہ نگاری کا شوق ، 1958 ء سے لکھنے کی شروعات ، شاہدہ شیریں کے فرضی نام سے لکھنے کا ذکر ، پہلی کہانی ‘ گلاب کے پھول’ ماہنامہ بیسویں صدی اور پہلا ڈراما ‘ دل کی روشنی ‘ ریڈیو کشمیر سرینگر سے نشر ہونے کا ذکر ، نور شاہ کی کتابوں کی تفصیل ، ساٹھ سے زائد ریڈیو ڈرامے جو ریڈیو کشمیر اور جموں سے نشر ہوئے اور ٹیلی ویڑن سریل جیسے درد کا رشتہ ، گل و بلبل ، تلخیاں اور سفر زندگی کا ذکر کیا ہے۔انہوں نے اس مضموں میں عبد القادر سروری ، ڈاکٹر برج پریمی ، پروفیسر مجید مضمر ، ڈاکٹر شمع افروز زیدی ،اعجاز صدیقی کی آراء سے اپنی بات کو مستند کرنے کی بھی سعی کی ہے اورساتھ ہی بند کمرے کی کھڑکی ، کہاں گئے وہ لوگ اور تین ناولٹ آدھی رات کا سورج ، آؤ سو جائیں اور لمحے اور زنجیریں (جنہیں روف خیر نے 2009 ء میں دوبارہ مرتب کیا ہے) جیسی کتابوں پر تاثرات پیش کئے ہیں۔اس حصے کا آخری مضمون ” نور شاہ – میری نظر میں” ڈاکٹر اشرف آثاری کے قلم سے نکلا ہے۔اس مضمون میں نور شاہ کی افسانہ نگاری ، افسانوں کی خصوصیات، زندگی کے بارے میں ان کا نظریہ، ان کی کہانیوں کے کردار ، ان کے اندر کہانی تخلیق کرنے کا جنون جیسے نکات زیر بحث لائے ہیں اور ڈاکٹر اشرف آثاری نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ __
” نور شاہ کی اکثر کہانیوں کو پڑھ کر اس بات کا بخوبی احساس ہوجاتا ہے کہ نور شاہ فکری و جذباتی اعتبار سے کبھی کبھی ایک باغی کی طرح ظلم و بربریت کے خلاف ایک ہاتھ میں پرچم اور دوسرے ہاتھ میں قندیل لیے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اس جوش و جذبے کی فراوانی و جدت کے باوجود انہیں روایات سے پاسداری کا احساس اور خیال جابجا رہتا ہے۔نور شاہ کی نثر نگاری میں ایک خوبصورت آہنگ بھی ہے ،ایک دلفریب ترنم بھی ہے ،ایک انقلابی جوش بھی ہے ،ایک صوفی یا مجذوب کی پر معنویت و ابہام اور گہرائی و گیرائی بھی ہے ، ایک شاعر کا آہنگ بھی ہے اور ایک مغنی کا ترنم بھی ہے۔ان کی تحریروں میں توانائی بھی ہے کہ مردہ دلوں میں پھر سے ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کر دے اور قوت استدلال اتنا توانا ہے کہ افلاطون کو بھی بے بس و لاچار کردے “
نور شاہ میری نظر میں _ صحفہ 36
‘کیسا ہے یہ جنوں’ کے دوسرے حصے میں کل گیارہ افسانے شامل کئے گئے ہیں۔پہلا افسانہ ‘ کیسا ہے یہ جنون ‘ بارہ برس کے عامر کی کشمکش اور اس کے والد کا سچائی پر قربان ہونے کی داستان کو بیان کرتا ہوا ایک بہترین افسانہ ہے۔سچائی پر قربان ہونے والے لوگ جنون و جذبہ رکھتے ہیں۔اس کی خاطر وہ دار پر ہنستے ہوئے چڑھ جاتے ہیں۔اس افسانے میں عامر اپنی کہانی سنارہا ہے کہ میں بارہ برس کا ہوں۔یہ عمر کھیلنے کودنے ،ہنسنے ہنسانے اور گلی ڈنڈا کھیلنے کی ہوتی ہے لیکن جب میٹھاس کی جگہ تلخیاں اور خوشی کی جگہ پریشانی لے تو زندگی میں سوال ابھرتے ہیں۔اس کے ذہن میں بھی سوال ہوتے ہیں جیسے میں کون ہوں؟ ، کس کا بیٹا ہوں اور میرے ابو کہاں ہیں۔پھر ان سوالوں کے جواب وہ خود دیتا ہے کہ میرے ابو تنہا اور اکیلے ہیں۔اس۔ افسانے کے آخر میں سچائی کو دار پر چڑھایا جاتا ہے۔”سفر زندگی کا”میں دروان سفر پیش آنے والے حادثے کو موضوع بنایا گیا ہے جو نمرتا کے ذہن پر گہرا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ نمرتا اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد دہلی سے گھر لوٹ رہی تھی۔ٹرین میں اس کی ملاقات سیما سے ہوتی ہے جس کا پتی جہاز حادثے میں ہلاک ہوا تھا۔ وہ اب ایک سال کے بیٹے کو دیکھ کر جی رہی تھی جس پر ٹرین میں ٹرنک گر جاتا ہے۔آگے جب ٹرین کو حادثہ پیش آتا ہے تو انبالے والی عورت جس کا ٹرنک سنجے پر گر جاتا ہے کے بیٹے کو سیما بچا لیتی ہے اور اسی کو اپنی بیٹا مان لیتی ہے۔” درندے ” میں مادوی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اپنے دوست کو آئرپورٹ پر رسیو کرنے جاتی ہے لیکن راستے میں درندے اس کی آبرو لوٹ لیتے ہیں اور اسے برہنہ حالت میں ویران سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔افسانہ ” لکیر ” ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو لکیر کو پار کر لیتا ہے اور حیران رہ جاتا ہے کہ وہاں کا موسم ،تہذیب و تمدن ، بول چال ، در و دیوار ،دن رات ، جینا اور مرنا یکسان ہے۔وہاں بھی ہمارے طرح لوگ قید خانے کو آباد کرتے ہیں،تیس برس وہاں رہنے کے بعد اس پار لوٹ آتا ہے اور دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ سب کچھ ویسا ہی ہے لیکن لکیر اپنی جگہ قائم و دائم ہے اور اس لکیر کی تہہ میں ان گنت قبریں ہیں۔افسانہ ” ساتھ ہے مہربان میرا” میں ایک خوبصورت عورت رات کو ڈاکٹر کے پاس آتی ہے اور اسے اپنے پتی کی جان بچانے کے لیے ساتھ لے جاتی ہے۔مریض کی حالت جب بہتر ہوتی ہے اور وہ ڈاکٹر سے پوچھتا ہے کہ میں کہاں ہوں تو ڈاکٹر اسے جواب دیتا ہے کہ تم اپنے گھر میں ہی ہو اور شکریہ ادا کرو اپنی پتنی کا جس نے تمہاری جان بچائی۔مریض حیران ہوتا ہے اور ڈاکٹر سے گویا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے اسے مرے ہوئے تو پانچ سال ہوچکے ہیں۔” روشنی اور سائے ” عالیہ کی کہانی ہے جس کو مالکن خانم گھر سے اس لیے نکال باہر کرتی ہے کہ وہ اسے ایک روز اچانک اپنے شوہر کے ساتھ دیکھ لیتی ہے جب اس نے اپنے پرانے کپڑوں کے بجائے مالکن کا قیمتی جوڑا زیب تن کیا تھا۔خانم اور احمد کلیم کی شادی کو سات سال ہوئے تھے لیکن اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ایک دن اچانک خانم کی ملاقات سنگر مال کمپلکس میں عالیہ سے ہوجاتی ہے جو وہاں شاپنگ کرنے آئی تھی۔ عالیہ کے ٹھاٹ دیکھ کر خانم حیران ہوجاتی ہے اور اسے اس وضع کا سبب پوچھ لیتی ہے۔عالیہ اسے یہ راز بتاتی ہے کہ میں تمہارے شوہر کی دوسری پتنی ہوں۔” یہ خلش اگر نہ ہوتی ” رضیہ کی کہانی ہے جو اپنے شوہر سے اس بات پر لڑتی ہے کہ اس کا شوہر اسے کم خرچہ کرنے کی نصحیت کرتا ہے۔رضیہ کے یہاں مہمان روز ہی آتے ہیں اور عارف اسے سمجھاتا ہے کہ اس کی تنخواہ قلیل ہے اس لیے فضول خرچی سے بچنا چاہیے۔رضیہ اس بات پر روٹھ کر صبح میکے چلی جاتی ہے جہاں وہ عارف کی وکالت کرتی ہے اور شام کو واپس گھر آکر عارف کے گلے لگ کر روتی ہے۔” اجنبی چہرے ” میں اس شخص کی روداد بیان کی گئی ہے جس کے پاس شہرت ،فن، نام سب کچھ ہے لیکن پھر بھی وہ تنہا ہے۔ارشید کی ماں سید انکل کے ساتھ نکل جاتی ہے اور باپ خودکشی کرتا ہے۔ارشد کے پاس نام اور فن تو ہے پر کوٹھی نہیں ہے اس لیے ڈاکٹر تاج اس سے دور چلی جاتی ہے۔اب اس کے پاس اپنی کوٹھی ہوتی ہے جس کا نام روپ بھون ہے لیکن اس کے باوجود روپ اسے چھوڑ کر جاتی ہے کیونکہ روپ کے بابا اپنی بیٹی کو کہتے ہیں کہ ارشید کے باپ نے خودکشی کی تھی اور والدہ بھاگ۔۔۔افسانہ ” رشتے ” میں سیٹھ جی کی کہانی بیان کی گئی ہے جس کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا لیکن وہ بچپن میں ہی یتیم ہوگیا۔ اس کے چاچا کا بھی انتقال بچپن میں ہی ہوا جس نے دس ہزار روپیے چھوڑے تھے۔یہ روپیہ لے کر وہ ممبئی چلا جاتا ہے جہاں چائے کی دوکان کھول لیتا ہے۔دھیرے دھیرے اس نے ٹھیکداری شروع کی اور دو تین فلمیں بنا کر اب اس کے پاس دولت ، شہرت اور نام تھا۔اس نے سنتوش سے شادی کرلی جو نہایت خوبصورت تھی۔اس نے پھول جیسی بچی راج کو جنم تھا اور خود فلمی دنیا میں چلی گئی۔سیٹھ نے انتقام کی ٹھان لی اور ہر اس لڑکی کو برباد کرتا تھا جس کو فلموں میں آنے کا شوق ہو۔ ہوٹل کے کمرہ نمبر 101 میں روز ارمانوں کو کچلا جاتا ،شراب کی بوتلیں بہائی جاتی اور یہ کمرہ بھی نئی نئی لڑکی کے لیے بے تاب رہتا۔ نشہ رشتوں کی لکیر کو مٹا دیتا ہے۔راج بھی اس کمرے کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے لیکن سیٹھ پر جیسے سکتہ طاری ہوا اور اسے لگا جیسے اسے زندہ دفنایا گیا ہو۔افسانہ ” پھتر پھتر آئینہ ” میں آٹھ نمبر مریض بلی کی بچوں سے جدائی کا درد برداشت نہیں کر پاتا اور مرجاتا ہے۔جس وارڑ میں مریض زیر علاج تھے اس میں ایک بلی بھی تھی۔بلی نے تین بچوں کو جنم دیا اور ان تینوں بچوں کو چار نمبر مریض نے کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔بلی اپنے بچوں کو دیوانہ وار ڈھونڈتی رہی لیکن اسے کچھ نہ ملا۔بلی کی بے قراری آٹھ نمبر سے نہیں دیکھی گئی اور وہ پورے اسپتال میں ان بچوں کو تلاش کرتا ہے۔شام کو خالی ہاتھ مایوس واپس لوٹ آتا ہے۔صبح چھ نمبر جب آٹھ نمبر کے چہرے سے ڈرتے ڈرتے چادر ہٹا لیتا ہے اور چیخ اٹھتا ہے کہ یہ تو مرچکا ہے۔ اس حصے کا آخری افسانہ ” رشتوں کا درد ” ہے۔اس میں پیار کرنے والے دلوں میں جدائی کا سبب دولت بنتی ہے۔
نور شاہ فن افسانہ نگاری پر ماہرانہ نگاہ رکھتے ہیں۔اس بات کا اندازہ ان افسانوں کو پڑھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ان افسانوں میں زندگی کے متنوع روپ دیکھے جاسکتے ہیں۔ان افسانوں میں فنی اور تکنیکی پہلوؤں پر خاص توجہ دی گئی ہے اور زبان وبیان کا لطیف اور منفرد انداز ، احساسات و جذبات کی مکمل عکاسی ، رومانوی فضا ، علامتی اظہار ، رشتوں کی نفیسات پر گہری گرفت ، پلاٹ سازی ، بیانیہ کی کئی شکلیں ، دکھوں اور انسانی محرومیوں کا بیان اور موضوعات کا تنوع ان افسانوں کی خوبیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
کتاب کا تیسرا حصہ تین ریڈیو ڈراموں ‘میرے دکھ کی دوا کرے کوئی’، ‘ امراؤ جان’ اور ‘ میرا جی ‘ پر مشتمل ہے۔ریڈیو ڈراما سماعتی فن کی پابند کرتا ہے۔اس میں ادائیگی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ریڈیو ڈراما شاعر یا کسی ادیب پر لکھنا آسان نہیں کہ اس میں مکالمے ادبی زبان میں ہونے لازمی ہے۔ادبی زبان کا ان ڈراموں میں خیال رکھا گیا ہے اور اشعار کا بھی برمحل استعمال کیا گیا ہے۔مرزا غالب پر لکھے ریڈیو ڈرامے میں غالب ، امراؤ بیگم ، ضیاء الدین اور کلو میاں جیسے کرداروں کے ذریعے غالب کی ازدواجی زندگی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔میرا جی پر لکھے گئے ریڈیو ڈرامے میں منٹو کا کردار بھی شامل کیا گیا ہے جو میرا جی سے میرا سین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔تینوں ڈراموں میں اشعار کا حسب حال استعمال کیا گیا ہے۔ چوتھے حصے میں انتیس افسانچوں کو شامل کیا گیا ہے۔اس حصے میں ” پھر کیا ؟ ” جیسا افسانچہ بھی شامل ہے جس میں ایک حسین و جمیل لڑکی کو نوکری اسی لیے دی جاتی ہے تاکہ اس کا استعمال بند پڑے کاموں کو نکالنے کے لیے کیا جائے۔ ” کیا روپ کیا سروپ ” افسانچے میں ایک بے ضمیر بیٹا والد کی میت پر آتا ہے تو لوگوں سمجھتے ہیں کہ والد کو کاندھا دے گا لیکن وہ موبائل فون نکال کر میت کی تصویریں لینا شروع کرتا ہے تاکہ ودیش میں بیٹھے بچے دادا کی میت کو دیکھ کر خوش ہوجائے۔” نصحیت ” میں خالد کو جب شہر میں نوکر ملی تو والد نے خوشی کا اظہار کیا اور دعاؤں کے ساتھ خط میں یہ نصحیت لکھی کہ بیٹا گھر کے دروازے پر ایسا چوکیدار نہ رکھنا جس سے ڈر کر ہمیں تم سے بنا ملے گاؤں واپس لوٹ آنا پڑے۔” واپسی ” میں شنیو کے پاپا دس برس بعد گھر واپس آرہے ہیں۔ان کا استقبال اس صورت کیا جارہا ہے کہ سارے گھر کو پینٹ کیا جا رہا ہے ،لان کو پھولوں سے سجایا جا رہا ہے تاکہ اسے سب نیا نیا لگے۔اسے ایک سرپرائز کمار انکل کے روپ میں دیا جاتا ہے جو دو سال سے اس گھر میں شنیو کی مما کے دوسرے ہسبنڈ کے روپ میں رہ رہے ہیں۔”انوکھے کھیل” میں گورو جی جس بچے کے بارے میں پیشن گوئی کرتے ہیں کہ یہ بچہ بہت خوش نصیب ہے اعلی تعلیم ، نام اور لمبی عمر پائے گا اس کے ہاتھ کی لکیر میں لمبی عمر لکھا ہے وہی آٹھویں برس حادثے کا شکار ہوجاتا ہے۔”فرض شناسی ” میں ریلیف کمیٹی کا صدر گھی ، آٹے کی بوری اور نئے نئے کمبل گھر تو لاتا ہے لیکن بیٹی کے لیے گڈیا لانا بھول جاتا ہے۔”وارث ” میں کلثوم ایک خاندان کو وارث نہیں دے پاتی۔” آج اور کل ” میں والد اپنے بیٹے کو نصحیت کرتا ہے کہ فوٹو اور ایڈریس پرس میں رکھا کرو اور اپنی مثال دیتا ہے کہ جب میرا ایکسینڈنٹ ہوا تھا تو لوگوں نے مجھے بحفاظت گھر لایا تھا۔بیٹا جوابا کہتا ہے کہ پاپا آج سب سے پہلے لوگ پرس ہی غائب کردیتے ہیں۔ یہ افسانچے قاری کو چونکاتے ہیں اور ان میں اختصار کے ساتھ ساتھ معاشرے اور انسان پر طنز کے تیر بھی چلائے گئے ہیں۔ یہ افسانچے متنوع موضوعات کے عکاس ہیں اور ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ کتاب کا پانچواں حصہ تراجم پر مشتمل ہے۔اس حصے میں پانچ کشمیری زبان کے پانچ مصنفین ہرکرشن کول ، صوفی غلام محمد ، امین کامل ،اختر محی الدین اور محی الدین رشی کی لکھی کہانیوں کو ارود کا روپ دیا گیا ہے۔کتاب کا چھٹے حصے میں شکیل بدایونی ، کیفی اعظمی اور ملکہ ترنم نور جہاں پر لکھے گئے فلمی فیچر شامل کئے گئے ہیں۔ کتاب کا ساتواں حصہ بچوں کی دنیا میں بچوں کے لیے دو سبق آموز کہانیاں نیکی اور بدی اور ماں شامل کی گئی ہیں۔کتاب کے آخری حصے میں پانچ سیلاب کی کہانیوں کو شامل کیا گیا ہے۔اس میں سیلاب کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال کو موضوع بنایا گیا ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو “کیسا ہے یہ جنون ” میں متفرقہ اصناف کو شامل کرکے قاری کی تفریحی اور دلچسپی کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔ادب کے شیدائی یقینا اس دلکش کتاب کے مطالعے سے محظوظ ہوں گے۔
***