بلال احمد بھٹ
( مرازی گنڈ۔ بارہ مولہ ،جموں وکشمیر)
ریسرچ اسکالر شعبۂ اُردو۔فارسی،گجرات یونیورسٹی،احمد آباد۔گجرات
ہندوستانی تہذیب تاریخ کے آئینے میں
تہذیب کے لغوی معنی ہیں ۔کانٹ چھانٹ کرنا،پاک صاف کرنا ،سنوارنا اور اصلاح کرنا،آراستہ و پیراستہ کرنا، شائستہ بنانا، عیوب کو دور کرنا وغیرہ ۔اصلاح میں تہذیب سے مراد ہے خاص ذہنی ساخت جس سے افرادِ ملت کے سیرت وکردار کی تشکیل ہوتی ہے ۔آج کل لفظ ’’ تہذیب‘‘ کسی قوم کی زندگی کے خدوخال ،رسم ورواج ،اصول و ضوابط اور طرز بودوباش کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا ایک قوم کے خد وخال جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کریں تہذیب کہلاتی ہیں۔
لفظ ’’تہذیب ‘‘ کا تعلق زبان مراٹھی کے لفظ ’’سنسکرتی‘‘سے مربوط ہے۔ معنی کے اعتبار سے لفظ ’’ تہذیب‘‘ کے مختلف پہلوؤں پر معنی اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ دراصل لفظ ’’تہذیب‘‘ ایک وسیع مفہوم والی اصطلاح ہے۔ ڈاکٹر کامل قریشی نے اپنی کتاب’’ اُ ردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب ‘‘ میں ایک سرسری انداز کے مطابق تہذیب کو ان لفظوں میں بیان کیا ہیں:
’’ تہذیب سے مراد انسانی زندگی کا گذر بسرکرنے کا طریقہ ہے چوں کہ تہذیب کا تعلق حقیقتًاانفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔اسی طرح یہ ہماری زندگی کی ناقابل تقسیم اکائی ہے۔ زندگی گزارتے ہوئے ہم اپنی روایات کے ساتھ جیتے ہیں۔اسی دائمی طور پر رونما ہونے والی نت نئی تبدیلوں کو قبول کرتے ہیں۔اس دوران دوسری تہذیبوں سے ہمارا واسط پڑتا ہے اور ہماری زندگی پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری اپنی زندگی کی اپنی تہذیب میں بھی کچھ تبدیلیاں ہو جاتی ہے۔‘ ‘ ؎۱
تہذیب کو انگریزی کے لفظ’’Culture ‘‘ کے منظم معنی میں استعمال کیا جاتا ہے ۔کلچر تہذیب کی طرح ایک وسیع معنی و مفاہیم کا حامل ہے جو زندگی کے ہر شعبے کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔اس میںاخلاق، عادات، معاشرت ، سیاست، مصنو عات، قانون ، لباس ،خوراک،آرٹ،موسیقی،ادب فلسفہ،مذہب ،سائنس وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ تہذیب کو اور زیادہ وسیع تر مفہوم میں سمجھنے کے لیے تمدن کے ساتھ اس کاتقابلی جائزہ لینا ناگزیر ہے ۔تمدن سے مراد وہ باتیں ہیں جو Civilisationمیںشمار ہوتی ہیں۔مثلاشا ئشتہ ،بودوباش میں’’شہری زندگی گزارنا‘‘یا ’’اپنانا‘‘ وغیرہ ۔تمدن حقیقت میں ضروریات زندگی کی پیداوار ہے ۔ انسان کی ضروریات رفتہ رفتہ تمدن کو جنم دیتی ہے ۔یہ بات بھی واضح ہے ،کہ تمدن کا تہذیب کے ساتھ کافی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ تہذیب کا تعلق نظریات سے ہوتا ہے جب کہ تمدن کا تعلق اعمال سے ہوتا ہے ۔ تمدن کسی خاص تہذیب کی عملی صورت کا نام ہے ۔اس حوالے سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہے کہ تہذیب ایک بنیادی چیز کا نام ہے جب کہ تمدن اس سے نکلنے والی شاخ ہے ۔تہذیب اور تمدن کا تعلق جسم اور روح جیسا ہے ۔تہذیب روح ہے اور تمدن اس کا جسم یا ان دونوںمیںبیج اور درخت کا تعلق ہے ۔دوسرے لفظوں میں تہذیب بیج ہے اور تمدن اس سے پیدا ہونے والا درخت ہے ۔
تہذیب کے اصطلاحی معنی کو سمجھنے کے بعد اس کے تاریخی پہلوؤں پر روشنی ڈالنی نہایت ہی اشد ضرورت ہے۔تاکہ اس لفظ کے اصلی جڑوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ ہندوستان چوں کہ مشترکہ تہذیب و تمدن کا سماج شروع سے ہی رہا ہے ۔یہاں مسلمانوں میں سب سے عرب حملہ آوروں کی حیثیت ۷۱۲ء میں ہندوستان میں داخل ہوئے ۔اور اُنھوںنے سندھ اور ملتان میں اپنی حکومت قائم کی۔جنوبی ہند میں ان کے آنے کا سلسلہ غالباًاس سے پہلے تاجروں کی حیثیت سے شروع ہو چکا تھا۔ ۱۷ ویں صدی کے بعد وہ سمندر کے کنارے سے گجرات اور جنوبی ہند والے علاقوں میں آباد ہونے لگے۔ایک قیاس آرائی کے مطابق ہندوستان میں اسلامی تہذیب اور ہندو تہذیب کا سابقہ اور باہمی تاثیر و تاثر کا سلسلہ اسی و قت سے شروع ہوا۔ اس کی ایک زندہ مثال سندھی ،گجراتی اور دراوڈی زبانوں میں عربی الفاظ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ زبانوں کے علاوہ معاشرت ، رسم ورواج اور معاشیت جیسے معملات میں عرب مسلمانوں اور سندھ سے مدراس تک کے ساحلی علاقے کے ہندوؤں نے ایک دوسرے پر کافی اثرات قبول کیے ہیں۔
دراصل ہندوستان کی تہذیب کو سمجھنے کے لیے ہمیں ہندوستان میں صدیوں سے آباد ہندومسلم کی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے ۔ جس طرح ہندو مسلم کے ثقافتی وتہذیبی میل ملاپ زبان و ادب کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اسی طرح دونوں قوموں کی زندگی کے طور طریقے ،فکر و نظر ،دین ومذہب ،آداب و اخلاق، رہن سہن، رسم ورواج اور علمی و ادبی و سماجی ذوق وشوق کے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہونے ،سمجھنے اور شیر وشکر ہوجانے سے جن ملی جلی قدروں نے جنم لیا ہے وہ مشترکہ طور پر ہندوستانی تہذیب کہلاتی ہے۔ مشترکہ تہذیب قدیم دور سے مغلوں کے دور تک آتے آتے عروج تک پہنچ گئی۔ اسی مشترکہ تہذیب کو پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے اپنے الفاظوں میں اس طرح بیان کیا ہیں:کہ
ــ’’ مغلوں کے زمانے میں جو نخل ہندی اور پیوندکاری کے تجربات سے گزرچکے تھے۔یہ تہذیبی نقش اور زیادہ حسین ہوگیا۔ اُنھوں نے ترکوں کو سخت کوشی ،فرخ دلی اور خوداری میں ایرانیوں کی لطافت اور شائستگی اور مساوات اور اخلاقی ضبط کی قلم لگا کر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی اس طرح آبیاری کی کہ وہ ایک تناوردرخت بن گئی اور اس کی جڑیں جمالیاتی شعور اور تصوف کی انسان دوستی تک پہنچ گئیں ۔اس زمانے کی عمارتیں ،تصویریں ،تصوف کی تحریکیں اور شعر و شاعری کے کارنامے سب اس امتزاج اور اتحاد پسندی کے آئینہ دار ہیں۔‘‘ ؎۲
ہندوستانی تہذیب کی ایک اور انوکھی خصوصیات یہ بھی ہے کہ اس کی کثرت میںوحدت اور وحدت میں کثرت کا جلوہ نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہے ۔چاہیے، ہندؤوں اور مسلمانوں کی راہیں کتنی ہی الگ کیوں نہ ہو ۔لیکن منزل ہمیشہ ایک ہی جگہ پر مل جاتی ہے۔یہاں کے صوفیوں ، سنتوںاور سادھوؤں کے نغمے اور گیت چاہے کتنے ہی ایک دوسرے سے الگ کیوں نہ ہوں لیکن ان کی لے ایک ہی ہے۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے معاملے میں ہندو مسلمان ایک ہی دائرے کے ارد گرد گھومتے ہے۔ مسلمان اگرچہ اپنے عقائد اور رسم و رواج کے طور پر کتنے ہی اسلامی کیوں نہ ہو ں۔اسی طرح اگرچہ ہندؤوں کی اپنی ریتیں،رسمیں خواہ کتنی ہی ہندؤ مذہب کے مطابق ہوں۔لیکن آخر پر دونوں سے ایک تیسری چیز وجود میں آتی ہے جو کہ’’ مشترکہ ہندو مسلم تہذیب‘‘ کہلاتی ہے جس میں صرف ہندوستانیت نمایاں طور پر جلوہ گر ہوتی ہے اور جو اپنی انفرادی خصوصیات کی وجہ سے ملک کے باہمی اتحاد ،وطن پرستی ،انسان دوستی اور قومی یکجہتی کا روشن نشان بن کر اُبھرتی ہے۔
تہذیب کو اور زیادہ وسیع معنی میںسمجھنے کے لیے اس کا تقابلی جائزہ ثقافت سے لینا ناگزیر ہے ۔تہذیب و ثقافت یعنی وہ رسم ورواج اور طور طریقے جو ہماری زندگی پر حکم کرتی ہے ۔تہذیب وثقافت یعنی ایمان وعقیدہ اور وہ اہتمام عقائد ونظریات جو ہماری انفرادی اور اجتمائی زندگی میں شامل ہے ۔بنیادی طور پر ہم تہذیب و ثقافت کو انسانی سماجی زندگی کا ایک اہم اصول قرار دیتے ہے ۔ثقافت یعنی ایک معاشرے اور ایک قوم کی اپنی خصوصیات اور عادات و اطوار ،اس کاطرز فکر ،اس کا مذہبی نظریہ،اس کے اہداف ومقاصد اور یہی چیزیں کسی بھی ملک یا قوم کی تہذیب کی بنیاد بنتی ہیں ۔دراصل تہذیب وثقافت قوموں کے تشخص کا اصلی سرچشمہ ہے ۔قوم کی ثقافت اسے ترقی یافتہ ،باوقار ،قوی وتوانا،عالم و دانشور ،فنکار وہنر منداور عالمی سطح پر معزّز بنادیتی ہے۔اگر کسی قوم کی ثقافت زوال کا شکار ہوجائے، تو وہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوگا اور وہ قوم اپنے قومی مفادات کو تحفظ بھی فراہم نہیں کرسکتا ہے۔ بنیادی طور پر ثقافت کے دو حصے ہیں ایک حصہ ان امور اور معاملات سے تعلق رکھتا ہے جو ظاہری شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔ ان امور کا قوم کے مستقبل میںبڑا رول حاصل ہوتا ہے ۔ یہ امور قوم کی اہم منصوبہ بندیوں میں موثر ہوتے ہیں۔جیسے لباس ،رہن سہن وغیرہ ۔یہ سب معاشرے کی ظاہری ثقافت کا نمودار قرار دی جاسکتی ہے۔ثقافت کا دوسرا حصہ یا پہلو وہ ہوتا ہے جو پہلے حصے کی مانند کسی قوم کی تقدیر طے کرنے میںمعاون ثابت ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات اور نتائج جلدی سامنے آتے ہیں اور بہ آسانی محسوس بھی کیا جاسکتا ہے یعنی یہ وہ ثقافتی امور ہوتے ہے جو خود تو ظاہر نہیں ہوتے ہیں لیکن ان کے اثرات کسی قوم کی ترقی کے معاملے میں بہت نمایاں ثابت ہوتی ہے ۔ ان میں سب سے اہم رول اخلاقیات کا ہوتا ہے۔ یعنی کسی بھی سوسائٹی کے افراد کی نجی اور اجتماعی زندگی کا طور طریقہ کیسا ہے۔
مندرجہ بالا تاثرات کی روشنی میں ہم یہ کہ سکتے ہے کہ کسی بھی معاشرے میں ثقافت اور تہذیب اور جان کا مقام رکھتی ہے۔یہ ایک بہت پُرانا طریقہ ہے کہ کوئی قوم دوسرے قوم پر اپنا غلبہ یا تسلط قائم رکھنے کے لیے اس قوم کی تہذیب و ثقافت کو ختم کردینے کی کوشش کرتا ہے ۔ دنیا کی تمام بیدار قومیں اس بات پر متفق ہے کہ اگر کسی ملک یا قوم نے اپنی تہذیب و ثقافت کو کسی دوسرے ملک کی تہذیب و ثقافت کا شکار ہونے دیا تو اس قوم کا زوال ممکن ہے ۔غلبہ یا ترقی اس قوم کوحاصل ہوتی ہے جس کی تہذیب و ثقافت غالب رہتی ہے ۔ ثقافتی تسلط ،اقتصادی ،سیاسی اور فوجی تسلط سے بھی کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔کیوں کہ اگر کوئی قوم دوسرے قوم کے ثقافتی وتہذیبی غلبہ کرنے میں کامیاب ہوا۔تو یقینا اس قوم کے تشخص پر سوالیہ نشان لگ جانے کے بعد اس کا خاتمہ ہوجانا کمزوری بنتا ہے ۔اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ ،تہذیب وثقافت ،تشخص ،علمی ،مذہبی اور ادبی افتخارات سے الگ کردیاجائے تو وہ قوم اعتبار کی مرضی کے مطابق ڈھل جانے کے لیے تیارہوجاتی ہے اور وہ قوم مردہ قوم کی حیثیت جانی جاتی ہے۔
ہندوستان کی پرانی تاریخ پر اگر نظر دہرائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بڑے پیمانے پر ہندؤوں اور مسلمانوں کی تہذیب کا یکجا ہونا ہے ۔جسے حقیقت میں ہندو مسلم تہذیب کہا جاتا ہے ۔گیارھویں صدی عیسوی میں غزنویوں کے پنجاب اور ملتان پر قبضہ کرنے سے شروع ہوگیا تھا۔اسی دوران سلطنت دہلی کا قیام بھی اس حوالے سے نہایت ہی اہم رول ادا کرتا ہے۔دراصل ہندوستان میں مسلمانوں کے حملے کا بنیادی مقصد اسلامی ریاست اور شریعت اورقرآن محمدﷺ کے مطابق ایک اسلامی معاشرے کی تعمیر کرتاہے ۔لیکن بہت ساری وجوہات کی بنا پر ان کی یہ کوشش مکمل نہیں ہوئی ۔نتیجے کے طور پر مسلمان ہندوستان کی مجموعی زندگی میں وحدت اور استحکام پیدا کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ۔حالات نے رفتہ رفتہ دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور متاثر ہونے پر مجبور کیا ہے اورچند صدی کے بعد ہندوستان کی پوری سیاسی وتہذیبی حالات تبدیل ہوںگے۔اس حوالے سے مسلمانوں کی خود مختار حکومتیں جو ملک کو مختلف مقام میں قائم تھیں نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ خاص کر بہمنی سلطنت اور اس کی جانشین دکنی ریاستیں اور اس کے علاوہ بنگال اور کشمیر کی بادشاہتیںجو مرکز سے دور تھیں وہ اپنی پالسیوں کی وجہ سے ہندؤوں میں زیادہ مقبول ہوئیں ۔اگرچہ ہندو سلطنت دہلی سے کتنے ہی بد دل کیوں نہ ہوں عام مسلمانوں سے ان کے تعلقات خاصے خوشگوار ہوگئے ۔ہندؤوںاور مسلمانوںکے باہمی تعلقات کو مزید وسعت دینے کے لیے خود مختار مسلمان سلطنتوں کے علاوہ مسلمان صوفیوں نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔
ہندوستان میں ہندؤوں اور مسلمانوں کی مشترکہ تہذیب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مختلف تحریکوں اور رحجانات نے بھی اہم رول ادا کیا ہے جس میں بھگتی تحریک کا نام خصوصیات کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔ اس تحریک کا عقیدہ ادیار اور الوار شاعروں کے کلام میں نشونما پاتا رہا ۔یہاں تک کہ گیارھویںصدی میں راما ئین نے اسے فلسفے کی بنیاد پر استوار کردیا۔رفتہ رفتہ اس کے اثرات شمالی ہند میں نظر آنے لگے۔ بعد میں تیرھویںصدی کے شروع میں مسلمانوں کی سلطنت قائم ہونے کے بعد شمالی ہند میں بھگتی کے لیے اور بھی سازگار ماحول پیدا ہوگیا۔جس کی وجہ سے راجپوت ریاستوںمیں ویشنومت کو بھی اور زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔اسی دوران کبیر نے بھی مشترکہ عام ہندؤوں اور مسلمانوں کے گہرے روحانی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ان کے یہاں عاشقیہ ذوق و شوق، سوز وساز،تسلیم و رضاکے ساتھ ساتھ مخلصانہ جذبات پائے جاتے ہے۔ کبیر اسلام اور ہندویت دونوں کی روحانی بنیاد کو ایک ہی سمجھتے ہیں۔ دونوں کے تصورات واصطلاحات سے یکساں کام لیتے ہیں۔ذات پات اور رنگ ونسل کے امتیازات کے وہ سختی سے مخالف ہیںاورسبھی مذاہب کے انسانوں کو برابر سمجھتے ہیں۔کبیر نے اپنے خیالات ، جذبات واحساسات کو متفرق گیتوں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ غرض کبیر ایک ایسی شخصیت ہے جن کا دور ہندوستانی تہذیب و تمدن میں نمایاں ہے۔
ہندوستان میں تہذیب کے معنی و مفاہیم اور تاریخی پہلو کا اجمالی جائزہ لینے کے بعد مختصر طور پر دیکھیں کہ کس طرح ہندوستان میںہندؤ مسلم کی مشترکہ تہذیب وجود میں آنے کے بعد یہاں کی عام زندگی اور سیاسی و معاشرتی زندگی پراثرات مرتب کیے تاکہ ہندوستان میں تہذیب کے اصلی رنگ ورُوپ کو سمجھنے میں اور آسانی ہوگی۔
(۱)۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد جب ہندوستان کی بحری حالت کافی خوشگوار ہوئے تو اس کے نتیجے میں ہندوستان کے تعلقات باہر کے ممالک سے کافی جاندار ہونے لگے۔
(۲) ۔ مسلمانوں کے آنے سے پورے ہندوستان میںایک قسم کی حکومت قائم ہونے کے نتیجے میں سیاسی بحران کسی حد تک ختم ہوا اور ملک میں ایک سیاسی وحدت اور یکسانیت کی صورت پیدا ہوئی۔ نیز مغلوں کے دور ِ حکومت میں سب سے پہلی مرتبہ ملک کو ایک جھنڈے کے نیچے آنے کا موقع فراہم ہوا۔
(۳) ۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے زیر اثر مقامی اور دیسی بولیوں نے بڑی ترقی کی اور ہر علاقے میں ایک ’’ دیسی ادب‘‘ وجود میں آیا ۔ جو یکسر مسلمان فرمانبرداروں کا فیض تھا۔ بنگال کے مسلمان پٹھان بادشاہوں کی ادبی سرپرستی اور ہندؤ بنگالی شاعروں پر انعامات کی بارش کے قصے زبان زدِ خاص و عام ہیں۔بادشاہوں نے سنسکرت کتابوں کو فارسی اور اُردو میں تراجم کرائے۔
مطلب یہ کہ ،ہندوستان میں تہذیب اس چیز کا نام ہے جو صدیوں سے ہندؤ مسلم اتحاد و مشترکہ رہن سہن سے وجود میں آئی ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثرکیا ہے اور اپنی ایک الگ پہچان قائم کی ۔
انسان جب دنیا میں آتا ہے تو سماجی و معاشرتی آداب اپنے ساتھ نہیں لاتا ۔بلکہ ایک دوسرے کے طرزِ عمل سے تہذیبی عناصر کی تشکیل کو وجود میں لاتا ہے ۔ یہ عناصر انسان کو خوبصورت زندگی کی تعمیر میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور یہ عناصر انسان کا حواسِ حمسنہ کے ذریعے ادراک ،خواہشات ،احساسات ،ضروریات اور خیالات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔چناچہ انسان پتھر کے بُت تراشتا ہے اور اپنے اعمال سے طرح طرح کے رسم ورواج کے ذریعے زندگی کے معیارات کو قائم کرتا ہے اور اپنے مخصوص کردار کی تشکیل کرتا ہے جیسے بھوک مٹانے کے لیے صرف کھانا کھانے پر اتفاق نہیں کر تا،بلکہ خوردونوش کی اشیاء میں تنوع پید اکرکے اپنے ذوق کو بھی تسکین فراہم کرتا ہے اسی طرح اپنے جذبات و احساسات کو اظہار کرنے کے لیے الفاظ تراشتا ہے اور دلکش تصویر یں بنا لیتا ہے ۔اخلاق و فلسفہ ،معشیت و سیاست اور عقائد وآداب کے گھرتعمیر کرتا ہے۔یہ سارا طرز عمل اس تخلیقیت کی وجہ سے اُبھرکر سامنے آتا ہے جو دوسرے جانوروں میں موجود نہیں ہوتا ہے ۔ دراصل طرززندگی کے اسی عمل کومختلف نام دیا جاتا ہے جیسے تہذیبی اخلاق ،ثقافت اور کلچر وغیرہ ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہندوستانی سماج میں مشترکہ تہذیب و ثقافت کا ایک خاص رول رہا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندو اور مسلمانوںکے اپنے اپنے علمی ،تاریخی ،مذہبی ،تہذیبی اور ثقافتی خیالات و رحجانات آپس میں کافی مماثلت رکھتے ہے ۔جس کی وجہ سے ان کے آپسی رشتوں میں کافی گہرائیاں اور وسعت پیدا ہوئی ہے ۔ یہی مضبوطی آگے چل کردونوں قوموں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئی ہے ۔دوسری جانب ان کے درمیان جو اختلافات تھے وہ رفتہ رفتہ ختم ہوتے گئے ۔کیوں کہ دونوں مذاہب کے لوگوں نے ایک دوسرے کے رسم ورواج اور رہن سہن کو اپنایا ہے۔ ہندوستانی سماج میں جہاں تک تہذیب و تمدن کا تعلق ہے اس میں مسلمانوں کے اپنے مذہبی اور معاشری اُصول و ضوابط قرآن کریم میں موجود ہے جس سے استفادہ حاصل کر کے مسلمان اپنی زندگی گزار رہے ہے ۔دوسری جانب ہندوتہذیب میں جو مذہبی و معاشرتی اُصول و ضوابط قائم ہے اس میں وید ، اپ نشد اور گیتا جیسی مذہبی کتابوں کو خاص مقام حاصل ہے ۔ مجموعی طور پر دونوں مذاہب کے کتابوں میں جو باتیں مشترکہ پائی جاتی ہیں اس میں محبت اور بھائی چارے کا درس ہر جگہ موجود ہے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہندوستان جیسے وسیع ترین ملک میں ہندو اور مسلمان الگ الگ مذاہب کو ماننے کے باوجود آپس میں بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہے ۔ حواشی:۔
۱؎ ڈاکٹر کامل قریشی : اُردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب ص ؎۲۵
۲؎ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی : اُردو ادب اور قومی یکجہتی ص ؎ ۴۲