You are currently viewing ہندوستان کی آزادی میں مولانا ابو  الکلام آزاد کا حصّہ

ہندوستان کی آزادی میں مولانا ابو  الکلام آزاد کا حصّہ

عارف  این

ایچ ۔ایس۔ ٹی،

جی  ایچ ایس  ایس،پُتو پرمب،ملاپرم،کیرلا

ہندوستان کی آزادی میں مولانا ابوالکلام آزاد کا حصّہ

          جدوجہد آزادی میں اردو ادب نے آزادی کی تحریکات کو آگے بڑھانے میں نمایاں کرداراداکیا ہے۔ اردو  ادیبوں‘شعرا اور صحافیوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اردو ہی وہ واحد زبان تھی جس نے تحریک آزادی کی روح کو ابتداء سے آخر تک غذا پہونچائی۔ اس وقت کے شعرا نے اپنی جذباتی شاعری سے‘صحافیوں نے اپنے زور قلم سے اورادیبوں نے اپنی تخلیقات سے اور قائدین نے اردو زبان کی بے مثال اظہار قوت سے تحریک آزادی مین جان ڈالی۔پروفیسر شارب ردولوی نے لکھا ہے ’’ہندوستان کی جنگ آزادی دو ہتھیاروں سے لڑی گئی۔ایک اہنسا اور دوسرا اردو زبان  ہے۔” اردو زبان ہی نے ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ دیا اور محبان وطن کو اسی زبان نے یہ ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ عطا کیا۔حسرت موہانی،ابو الکلام آزاد،رام پرساد  بسمل،چک بست وغیرہ اردو ادیبوں اپنے قلم سے ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑے۔اس مقالہ میں مولانا  آزاد کی خدمات بحث کریں۔

         محی الدین احمد  ابو الکلام آزاد  محب وطن،فلسفی و مکفر،صحافی،صدر کانگریس،مترجم،انشا پرداز،عالم دین اور روشن خیال مقرر ہندوستان کی اں عظیم ہستیوں میں سے ایک تھے۔ادب ،مذہب اور سیاست میں آزاد نے قابل رشک مقام حاصل کیا۔

         مولانا ابو الکلام آزاد کی ولادت ۱۱/نومبر ۱۸۸۸ء کو مکہ معظمہ میں ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ مولانا کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کے والد مولانا خیر الدین ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد ہجرت کرکے کئی سال تک عرب ممالک میں رہے۔ان کی شادی عالیہ بیگم سے ہوئی جن کا  تعلق ایک بنگالی  خاندان سے تھا جو مدینہ میں مقیم تھا۔ مولانا نے چودہ برس تک  ابتدائی مشرقی علوم اپنے والد محترم مولانا محمد خیر الدین سے حاصل کی۔ مولانا کے والد  ۱۸۹۸ء  میں بغرض علاج ہجرت کرکے مکہ معظمہ سے واپس ہندوستان آئے اور کلکتہ شہر میں مستقل سکونت اختیار کی۔

                   مادری زبان عربی ہونے کے باوجود بھی مولانا ابو الکلام آزاد اردو میں مہارت رکھتے تھے۔وہ  کافی ذہین اور بے پناہ فطری صلاحیتوں کے مالک تھے۔ جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں اپنے علمی و سیاسی سفر کا آغاز کیا اور ماہانہ جریدہ ” لسان الصدق” جاری کیا۔ پھر مولانا نے ۱۹۱۴ء میں “الہلال” جریدہ نکالا یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا جس کو برطانوی حکومت نے پریس ایکٹ کے تحت بند کر دیا تھا۔ یہ اخبار ترقی پسند سیاسی بصیرت اور انسانی عقل پر کھرا اترنے والی مذہبی عکاس کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔ مولانا بیک وقت سنجیدہ شاعرانہ مزاج، مفکر اسلام، بلند پایہ مقرر، مثالی صحافی اور ایک بہترین مفسر قرآن بھی تھے گویا کہ مولانا اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔   مولانا آزاد کی شخصیت میں تمام تر قائدانہ صلاحیت موجود تھی۔مولانا آزاد کی کم عمری میں علمی معرکہ آرائیوں کے حوالہ سے سروجنی نائڈو نے کہاتھا  کہ پیدائش کے وقت ان کی عمر پچاس  سال تھی۔

         مولانانے ملک کی آزادی کی جد وجہد میں بہت اہم رول ادا کیا۔مولانا آزاد کا بنیادی مقصد ملک کو برطانوی حکومت سے آزاد دلانا تھا ،۱۹۰۵ء سے ۱۹۲۰ء تک وہ برطانوی استعمار کی مخالفت کرنے والی  اندرون ملک،بیرون ملک کی مختلف  تحریکوں سے  وابستہ رہے۔۱۹۰۶ء میں وہ ڈھاکہ میں مسلم لیگ کے پہلے اجلاس میں شرکت کی  لیکن لیگ کی برٹش راج سے وفاداری کی پالیسی ان کے نقطئہ نظر سے یکسر مخالفت  تھی۔چنانچہ انہوں نے بنگال کے ایک تشدد پسند انقلابی گروہ میں شرکت اختیار کی۔اس انقلابی گروہ میں مولانا آزاد ایک ہی مسلمان تھے اس لئے دوسرے اراکین ان کی کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن مولانا  کی عملی شرکت سے ممبئی اور شمال ہند کے کئی شہروں میں حفیہ انجمنوں کا قیام عمل میں آیا تو پھر ان پر پورا بھروسہ کیا جانے لگا۔شیام سندر چکرورتی،آروبندھ گھوش کا تعلق اس گروہ سے تھا اس لیے آزاد  سے ان کا ربط رہا۔ہندوستان کی  انقلابی تحریکوں سے ربط کے بعد  عربی زبان پر عبور رکھنے کی بناء پر ترک اور عرب  انقلابی تحریکوں سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے مصر ،ترکی،عراق،فرانس کا سفر کیا اور جمالالدین افغانی جیسے انقلابیوں سے ملاقاتیں کیں۔

         آزاد کے تیزی سے ایسے سیاسی افکار ہوئے جن کو اْس دور کے زیادہ تر مسلمانوں نے کٹر جانا۔ وہ جلد ہی پوری طرح ایک ہندوستانی صحافی بن گئے۔ انھوں نے برطانوی راج کو نسلی امتیاز برتنے اور سارے ہندوستان میں عام آدمی کی ضرورتوں کو نظرانداز کرنے پر شدید تنقیدوں کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے مسلم سیاستدانوں پر بھی تنقید کی، جو قومی مفاد کے مقابل فرقہ وارانہ مسائل پر توجہ مرکوز کررہے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ علحدگی پسندی کو مسترد کردیا۔ اپنے وقت کی عام مسلم رائے کے برخلاف آزاد نے 1905ء  میں تقسیم بنگال کی مخالفت کی اور انقلابی سرگرمیوں میں تیزی سے سرگرم ہوئے، جس پر انھیں نامور ہندو انقلابیوں آروبندو گھوش اور شیام سندر چکرورتی سے متعارف کرایا گیا۔

          آزاد کی تعلیم اس طرز کی رہی کہ وہ عالم بنیں، لیکن اْن کی باغیانہ فطرت اور سیاست سے لگاؤ نے انھیں صحافت کی طرف لے گئے۔ آزاد نے ۱۹۱۲ء میں اردو ہفتہ وار ’الہلال‘ شروع کیا، اور کھلے طور پر برطانوی پالیسیوں کو لتھاڑا جبکہ عام آدمی کو درپیش چیلنجوں کو کھوجنے کی کوشش بھی کی، لیکن اس پر ۱۹۱۴ء میں امتناع عائد کردیا گیا۔ ہندوستانی قوم پرستی کے نظریات کو اپناتے ہوئے آزاد کی اشاعتوں کا مقصد نوجوان مسلمانوں کو آزادی اور ہندو۔ مسلم اتحاد کیلئے لڑائی کی حوصلہ افزائی کرنا رہا۔ آزاد نے ’الہلال‘ پر امتناع کے بعد نیا جریدہ ’البلاغ‘ شروع کیا، جس نے قومی کازوں اور فرقہ وارانہ اتحاد کیلئے اپنی سرگرم تائید و حمایت میں اضافہ کیا۔ اس دور میں آزاد خلافت ایجی ٹیشن کیلئے اپنی حمایت میں بھی سرگرم ہوئے تاکہ سلطنت عثمانیہ ترکی کے موقف کا تحفظ کیا جاسکے، جسے دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے خلیفہ کا درجہ حاصل تھا۔ ہندوستان بھر میں آزاد کی مقبولیت میں اضافے پر برطانوی حکومت نے اْن کی دوسری اشاعت کو بھی ممنوع قرار دیتے ہوئے انھیں گرفتار کرلیا۔ کئی صوبوں کی حکومتوں نے اپنے پاس ان کو داخلے سے منع کردیا اور آخرکار آزاد کو رانچی کی ایک جیل کو منتقل کیا گیا جہاں وہ یکم جنوری ۱۹۲۰ء تک مقید رہے۔

         مولانا آزاد اپنی رہائی پر دوبارہ سیاسی ماحول میں واپس ہوگئے اور اس بار برطانوی راج کے خلاف غصہ اور بغاوت کے احساسات سے پْر تھے۔ ۱۳ اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر کے جلیان والا باغ میں غیرمسلح ہندوستانیوں پر انگریزوں کی فائرنگ کے ذریعے ہلاکت پر سارے ہندوستان میں جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ ہندوستان کی بڑی سیاسی پارٹی ’انڈین نیشنل کانگریس‘ گاندھی جی کی قیادت میں آئی، جنھوں نے سارے ہندوستان میں جوش و خروش پیدا کیا تھا جب انھوں نے چمپارن اور کھیڈا کے کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے ۱۹۱۸ء میں برطانوی حکام کے خلاف کامیاب بغاوت کی تھی۔ گاندھی جی نے خطہ کے عوام کو منظم کیا اور ستیہ گرہ کا اختراعی طریقہ پیش کیا جس میں مکمل عدم تشدد اور خوداکتفائی کے ساتھ اجتماعی سیول نافرمانی کو جوڑا گیا۔

         کانگریس کا جائزہ لینے کے بعد گاندھی جی نے خلافت جدوجہد کی حمایت بھی چاہی تاکہ ہندو۔ مسلم سیاسی تفرقہ کو ختم کرنے میں مدد ملے۔ مولانا آزاد اور علی برادران (مولانا محمد علی اور شوکت علی) نے کانگریس حمایت کا پْرجوش خیرمقدم کیا اور عدم تعاون کے پروگرام پر مل جل کر کام کرنے لگے۔ مولانا آزاد کانگریس میں شامل ہوگئے۔ یہ دور مولانا آزاد کی اپنی زندگی میں نمایاں تبدیلی والا رہا۔ ساتھی خلافت قائدین ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خان اور دیگر کے ساتھ مولانا آزاد شخصی طور پر گاندھی جی اور اْن کے فلسفہ کے قریب ہوئے۔ تینوں نے مل کر جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کی بنیاد ڈالی، جو اعلیٰ تعلیم کا ادارہ رہا، جس کا انتظام برطانوی مدد یا کنٹرول کے بغیر پوری طرح ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں تھا۔ مولانا آزاد اور گاندھی جی دونوں مذہب کے تئیں گہرا جذبہ رکھتے تھے اور آزاد نے اْن کے ساتھ گہری دوستی استوار کرلی۔ کرتے ہوئے چرخہ پر بْننے لگے اور گاندھی جی کے زیرانتظام آشرم بھی جانے لگے۔ ذاتی طور پر عدم تشدد پر گہرے ایقان کے ساتھ آزاد ہم عصر قوم پرستوں جیسے جواہر لعل نہرو، چترنجن داس اور سبھاش چند ربوس کے بھی قریب ہوگئے۔

         ۱۹۲۳ء میں مولانا آزاد سب سے کم عمر صدر کانگریس منتخب کئے گئے۔ انھوں نے ناگپور میں فلیگ ستیہ گرہ کے اہتمام کی کوششوں کی قیادت کی۔ وہ ۱۹۲۴ء  یونیٹی کانفرنس، دہلی کے صدر رہے۔ آزاد نے ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کرتے ہوئے گاندھی جی کے ویڑن، تعلیم اور سماجی اصلاحات کو فروغ دینے کیلئے سرگرمی سے کام کیا۔ جلد ہی آزاد شعبہ سیاست میں حوصلہ بخش شخصیت بن گئے۔ وہ اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے کانگریس ورکنگ کمیٹی کا حصہ بنے اور کئی مرتبہ جنرل سکریٹری اور صدر کے عہدوں پر فائز رہے۔ لکھنو میں ۱۹۳۶ء کے کانگریس سیشن میں آزاد کا سردار پٹیل، ڈاکٹر راجیندر پرساد اور سی راج گوپال چاری کے ساتھ سوشلزم کو کانگریس کے مقصد کے طور پر اپنانے کے تعلق سے اختلاف رائے ہوا۔ آزاد نے صدر کانگریس کی حیثیت سے نہرو کے انتخاب کی حمایت کی، اور سوشلزم کی توثیق کرنے والی قرارداد کی تائید کی۔ اس عمل میں وہ نہرو، بوس، جئے پرکاش نرائن کے قریب ہوگئے۔ آزاد نے ۱۹۳۷ء میں نہرو کے دوبارہ انتخاب کی بھی حمایت کی۔ آزاد نے جناح اور مسلم لیگ کے ساتھ ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۷ء کے درمیان کانگریس۔ لیگ اتحاد اور وسیع تر سیاسی تعاون پر بات چیت کی حمایت کی تھی۔ ۱۹۳۸ء  میں آزاد نے صدر کانگریس سبھاش بوس زیرقیادت کانگریس گروہ اور ان کے حامیوں کے درمیان ثالث کا رول ادا کیا۔ بوس کو گاندھی جی پر سخت اعتراض تھا کہ وہ انگریزوں کے خلاف ایک اور بغاوت شروع نہیں کررہے ہیں، اور انھوں نے کانگریس کو گاندھی جی کی قیادت سے دور کرنا چاہا۔

         آزاد، نہرو، گاندھی جی اور پٹیل کے درمیان پْرجوش اور جذباتی مذاکرات کے بعد آخرکار 9 اگست ۱۹۴۲ء  کو گاندھی جی نے انگریزوں کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک کا اعلان کیا۔ اس کی تائید میں آزاد ملک بھر میں ہزاروں لوگوں کو جمع کرکے ان کی ذہن سازی کرنے لگے۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد برطانیہ والوں نے اقتدار کو ہندوستانی ہاتھوں میں منتقل کرنے سے اتفاق کیا۔ تمام سیاسی قیدیوں کو ۱۹۴۶ء میں رہا کردیا گیا اور آزاد نے نئے دستورساز اسمبلی ہند کیلئے انتخابات میں کانگریس کی قیادت کی، جس نے ہندوستان کا دستور مدون کیا۔

         ہندوستان کی تقسیم اور ۱۵  اگست ۱۹۴۷ء کو آزادی پر پنجاب، بہار، بنگال، دہلی اور ملک کے کئی دیگر حصوں میں تشدد کی لعنت ساتھ آئی۔ بے شمار جانیں تلف ہورہی تھیں۔ مولانا آزاد نے ہندوستان میں مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر متاثرہ علاقوں کے دورے کئے۔ انھوں نے بڑے ہجوموں سے خطاب کرتے ہوئے امن و سکون برقرار رکھنے کا حوصلہ بڑھایا۔ بعد میں مولانا آزاد وزیراعظم نہرو کے قریبی بااعتماد، حامی اور مشیر بنے رہے، اور قومی پالیسیاں وضع میں اہم رول ادا کیا۔ انھوں نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے اسکول اور کالج کی تعمیر اور آفاقی ابتدائی تعلیم کو فروغ دینے کیلئے بچوں اور نوجوان دلتوں کی اسکولوں میں بھرتی کے قومی پروگرام بنانے میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کیلئے دو مرتبہ ۱۹۵۲ء (حلقہ رامپور، یوپی) اور ۱۹۵۷ء(حلقہ گرگاؤں، موجودہ ہریانہ) میں منتخب مولانا آزاد نے نہرو کی سماجی معاشی اور صنعتی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ سماجی حقوق اور معاشی مواقع کو خواتین اور نادار ہندوستانیوں تک پہنچانے کی بھی حمایت کی۔ ’بھارت رتن‘ مولانا آزاد نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں اپنی کتاب INDIA WINS FREEDOMلکھنے پر توجہ دی، جو حرکت قلب پر حملہ کے سبب اْن کے انتقال کے بعد شائع ہوئی۔

         ان کے تحریروں بھی ایک بڑا جہاد تھا۔۱۹۱۲ء میں وہ ایک شاندار رسالہ ـــ   ’الہلال‘نکالا۔اس کا پہلا شمارہ   ۳ جولائی  ۱۹۱۲ء کو کلکتہ  سے شائع ہوا تھا۔یہ رسالہ جلد از جلد ملک بھر میں مقبولیت حاصل کر لی۔ اس کا اہم مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد قائم کرنا تھا۔ الہلال مسلمانوں کی ملی غیرت، ایمانی حرارت اور مذہبی حمیت کا بڑا محاذ بن گیا۔ الہلال میں ادبی، علمی، سیاسی اور تاریخی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ سماجی، تہذیبی مسائل پر اظہار خیال ہوا کرتا تھا۔ مختصراً طور پر کہا جاسکتا ہے کہ الہلال نے اردو صحافت کو ایک نیا رستہ دکھایا۔ الہلال ہندوستان کا پہلا اخبار تھا جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے سیاسی اور غیر سیاسی مقاصد کی تکمیل اور اپنے اعمال میں اتباع شریعت کی تلقین کے ساتھ ساتھ ادبی، سماجی، علمی، سیاسی اور تاریخی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس اخبار کے ذریعہ انگریزی حکومت کے خلاف بھی بہت سی باتیں تحریر کی جاتی ہیں۔ دھیرے دھیرے انگریزی حکومت اس سے بیزار ہوتے گئے اور الہلال پریس کو بند کردیا۔

         ’’الہلال‘‘ کے بند ہوجانے کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’البلاغ‘‘ نام کا دوسرا اخبار جاری کیا۔ اس اخبار کا نام بدل دیا گیا تھا لیکن دونوں کا مقصد ایک ہی تھا۔ اس میں ادب، تاریخ، مذہب اور معاشرت کے مسائل بیان کئے جاتے تھے۔ البلاغ کو مذہبی تبلیغ کا ذریعہ بھی بنایا گیا۔ جنگ آزادی کی طویل جدوجہد میں جو شعلہ بیان مقرر پیدا ہوئے ان میں مولانا آزاد کا نام سرفہرست ہے۔ مولانا ایک بے باک مقرر تھے۔ وہ کسی موضوع پر بات کرتے تو ان کا ایک ایک حرف پروقار اور پرجلال ہوا کرتا تھا۔

         نظریہ پاکستان کے مولانا جتنے مخالف تھے اتنے ہی متحدہ قومیت کے حامی تھے۔ ان کی نظر آزادی وطن کے حصول اور اس کی بقا کے لئے ہندومسلم اتحاد ہی نسخہ کیمیا تھا۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کی شدید مخالفت کی اور ہندو مسلم دونوں ہی کو ہندوستان میں شیر و شکر بن کر رہنے کی تاکید کی۔ انہیں اخوت و محبت اور بھائی چارگی کا درس دیا۔

         محمد علی جناح کی قیادت والی مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعوی تھا۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ لیگ کا حامی تھا دوسری طرف کانگریس ہندؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ نمائندہ جماعت تھی۔ وہ متحدہ قومیت یا ہندو مسلم اتحاد کے نقطہ نظر کو مسلمانوں کے حق میں نامناسب سمجھتی تھی۔ مسلم لیگ کا ماننا تھا کہ ہندو اکثریت والے ملک میں مسلمانوں کی ذاتی تشخص باقی نہیں رہے گی اور مسلمان اس بھیڑ میں کھو کر رہ جائیں گے۔ اس لئے پاکستان کے قیام کی ضرورت ہے۔ لیکن مولانا آزاد اس خیال کے سخت مخالف تھے۔

         ہندو مسلم اتحاد کے سلسلے میں مولانا نے اپنے تئیں کوششیں جاری رکھیں، انہوں نے ہر موقع پر قرآن کریم اور اسلامی اقدار اور روایات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستان اور مسلمانوں کے تقدیر اور ان کا روشن مستقبل ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی میں مضمر ہے۔ 1923ءکے انڈین نیشنل کانگریس کے دہلی میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں یہی حقیقت واضح کی تھی کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر آزادی بھی نہیں مل سکتی ہے۔ ہندو مسلم اتحاد کے سلسلے میں مولانا نے اپنے تئیں کوششیں جاری رکھیں، انہوں نے ہر موقع پر قرآن کریم اور اسلامی اقدار اور روایات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستان اور مسلمانوں کے تقدیر اور ان کا روشن مستقبل ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی میں مضمر ہے۔ 1923ء کے انڈین نیشنل کانگریس کے دہلی میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں یہی حقیقت واضح کی تھی کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر آزادی بھی نہیں مل سکتی ہے۔

         ملک کی آزادی ان کی زندگی کی اہم مقصد تھا۔چنانچہ  تحریک آزاد ی سے وابستہ ہو جب انگریز ہندوستان پر قابض تھے، تب مولانا نے الہلال نکالاگئے۔ الہلال، البلاغ جیسے جریدوں کے ذریعے عوام کے اندر آزادی کیلئے قربانیوں کو پیش کرنے کا شعور بیدار کیا۔ عوام کے اندر اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی تڑپ پیدا کرنے کیلئے اپنی تحریروں کا بھر پور استعمال کیا۔  لیکن جب انگریز اس بات سے واقف ہو چکے تھے کہ مولانا کے رسالے ان کی سازشوں کا پردہ فاش کر رہے ہیں تو انگریزوں نے الہلال، البلاغ پر پابندی لگا دی۔ لیکن مولانا نے اپنا عزم سفر جاری رکھا کبھی اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے بلکہ اس نئی صبح کا وہ انتظار کر رہے تھے کہ ہندوستان ایک آزاد مملکت میں تبدیل ہو جائے۔ بالآخر وہ سورج طلوع ہو ہی گیا اور انگریز ہندوستان چھوڑ کر واپس چلے گئے لیکن یہ گوری رنگت کے انگریزوں نے گنگا جمنی تہذیب کو مٹانے کیلئے جاتے جاتے اکثریت اور اقلیت کا مذہبی فرق بتا کر ہندو مسلم میں دراڑ ڈال دی جس کا پیش خیمہ ملک کی تقسیم ثابت ہوا۔ حالانکہ مولانا نے تقسیم ہند کے وقت بڑی بے باکی اور جرات سے اس بڑھتی کشیدگی کو ختم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔

         تقسیم ہند کے بعد ۱۵/اگست ۱۹۴۷کو ہندوستان دنیا کے نقشہ پر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اور دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک نمودار ہوا۔ اسی آزاد ہند کا پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد کو بنایا گیا۔ مولانا نے ۱۹۴۷ تا ۱۹۵۸ گیارہ سال تک وزارت تعلیم میں اپنی خدمات انجام دیں۔ ان گیارہ برسوں کے دوران مولانا نے تعلیمی اداروں میں اپنی گوناگوں صلاحیتوں سے تعلیم کو پروان چڑھایا۔ مولانا آزاد کے ملک کے پہلے وزیر تعلیم ہونے کے ناتے ان کے یومِ پیدائش پر ملک بھر میں یومِ تعلیم کا انتہائی تزک و احتشام سے جشن منایا جاتا ہے۔

         ا نہوں نے زندگی کے آخری لمحات تک ملک و قوم کی خدمت کیے۔۱۹۵۸ء میں وفات پائی۔دہلی کی جامع مسجد اور لال قلعے کے  درمیانی میدان میں سپرد خاک ہوئے۔

٭٭٭٭٭

کتابیات:

۱        تاریخ ادب اردو                               سیدہ جعفرہ

۲        ابوالکالام آزاد                                 عرش ملسیانی

۳       مولانا ابوالکلام آزاد اور ہندوستانی قومی  تحریک      ڈاکٹراجے انوپم

***

Leave a Reply