محمد زاہد اقبال خان آفریدی
(محقق شعبۂ اُردو جامعہ کراچی)
پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس
(شعبۂ اُردو جامعہ کراچی)
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حضور
ہندو اورسکھ شعرا کا نذرانۂ عقیدت
ABSTRACT
The composition of Naat is that genre of poetry that requires the purity of heart and chasety of soul. It is the miracle of eternal truthfulness of Islam and the Prophet’s (peace be upon him) life that the Non-Muslims couldn’t help recognizing the superiority and praiseworthiness’ of the Prophet (peace be upon Him). The poets in their Naats have mentioned every part of His (peace be upon him) life He passed day and night. How the Hindu and Sikh poets have presented the Prophet (peace be upon him) rationally and spiritually in their Naats is a proof of the universality of Islam. The Ascension of the Prophet (peace be upon him) is a miracle which has not only paved way to explore the universe but science has also sparked new debates.
It is a commendable presentation of the inception of Urdu Naat composition, its evolution, literal meaning, historical background, its effect on the Muslim society and Urdu literature. Besides, the study of Naat composed by non-Muslim poets with a special regard to the Ascent of the Prophet (peace be upon him) has been presented in a way that proves the Ascension of the Prophet (peace be upon him) rationally and spiritually. The meticulous study and analysis of Urdu Naat compositions of the Hindu and Sikh poets brings forth, explicitly and impartially, that all Naat compositions are a result of the harmony of the purity of heart and magnanimous bent of mind.
نعتیہ شاعری کے فکری اوردینی محرکات
’’نعت‘‘سرورِکائنات ،فخرِموجودات ،سید عرب و عجم،خاتم الانبیا، سید المرسلین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے شمائل و محاسن کاذکرِ جمیل ، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ ،اوراسوۂ حسنہ کامنظوم بیان ، اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے عقیدت ومحبت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔
’’نعتِ رسول‘‘(صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم )مذہبی شاعری کے مقدمات میں شامل ہے ۔جس کا تعلق دینی احساس، صدق ،اخلاص ، اور حبِّ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نعتیہ شاعری نے اسلامی ادب کے لیے ایک نہایت جلیل القدر اور مہتم بالشان باب فراہم کیاہے۔ ۱؎
نعت کی اساس اوربنیادی محرک ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عقیدت و محبت اورآپ سے عشق و تعلق ہے۔ چنانچہ اسلام میں’’رسالت‘‘نام ہے امام الانبیا، خاتم النبین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو اللہ کا رسولِ برحق تسلیم کرنے کا۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت ، اورحیاتِ طیبہ کی پیروی کا، اورپیروی سے بھی پہلے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذات و صفات سے اس والہانہ عقیدت و محبت کا جس کے بغیر توحید کا عقیدہ ،اور تصور، اسلام میں بے معنیٰ ہوجاتا ہے ۔ ۲؎
شاعرِمشرق علامہ محمد اقبال اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خوب کہتے ہیں:
بمصطفیٰ برساں خویش را ، کہ دیں ہمہ اوست
اگر با و رسیدی تمام بو لہبی ست ۳؎
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے مسلمانوں کے عشق و محبت کے چند محرکات ہیں۔،محبوبِ دوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ گرامی میں عقیدت ومحبت کے دونوں اصول موجود ہیں ، کمالِ خُلق ، جس میں جمال کی ساری صورتیں پائی جاتی ہیں۔پھر وہ کمالِ احسان جو دلوں کو موہ لیتا اور میلانِ طبع کو زیادہ بڑھاتاہے۔ یہ دونوں اوصاف بہ تمام وکمال آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات میںموجود ہیں ۔جب حقیقت اور حق شناسی کا شعور اس حد تک بیدار ہوجاتا ہے ،کہ ایک مومن اس احسان کو ہر سانس کے ساتھ محسوس کرنے لگتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے عقیدت ومحبت ، اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عشق و تعلق اس کے رگ و پے میںسماجاتاہے ۔ اس صورت میں اس محبت کا ماں باپ، آل واولاد، اور اپنی جان ومال کی محبت پرغالب آجانا ایک فطری امر ہے۔ ۴؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے اس والہانہ شغف و محبت نے مسلمانوں کی زندگی کے ہرشعبے کو متاثر کیا۔ظاہر ہے ،کہ ان کے فنونِ لطیفہ خصوصاً شعر و ادب پر اس کا گہرا اثر مرتب ہوا۔اس اثر کے نتیجے میں نعت گوئی جس کا اصل مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے اظہارِ محبت تھا، ان کے فکر و فن کا مستقل محور بن گئی۔ چنانچہ عربی، فارسی ،اردو، اوردیگر زبانوں کاشاید ہی کوئی مسلمان شاعر ہو ،جس نے نعت کی شکل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے اپنی عقیدت و محبت کااظہاراورانسانی زندگی پر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے احسانات کااعتراف نہ کیاہو۔یہ الگ بات ہے ،کہ جتنا بڑا ،اورقیمتی ذخیرہ عربی، فارسی، اور اردو میںموجود ہے، کسی دوسری زبان میں نظر نہیں آتا۔ ۵؎
نعت کے مضامین اور موضوعات:
اس میں کوئی کلام نہیں،کہ ’’مدحِ رسول‘‘صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ’’نعت‘‘کا اہم اور بنیادی موضوع ہے ۔صنفِ نعت کے آغازہی سے اسے ایک مرکزی عنصر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے وابستہ شعرا نے کفّار کے رد میں ،اورآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مدح ، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حسب ونسب ،اعلیٰ اوصاف و کردار وتوصیف وستائش میں ،جو مدحیہ منظومات لکھیں، انہیں عربی نعت کے اوّلین نمونوں میں شمار کیاجاتاہے ۔
عربی کے اس ابتدائی سرمایۂ نعت کے مطالعے سے اس موضوع کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔چنانچہ دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے وابستہ شعرا کی نعتوں میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی صفت و ثنا ،جمالِ ظاہری ،شجاعت،وسخاوت، دیانت و امانت، صداقت وعدالت ، اور باطنی حُسن و جمال کی تعریف ، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے خُلق و عادات کابیان ، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے آباواجداد ، اورصحابہ و آل کی مدح ، دوسرے پیغمبروں کے مقابلے میں ،آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی فضیلت کا بیان اس کے ساتھ ساتھ اسلامی عقائد اور اسلامی تحریک کاتذکرہ ، اورتبلیغ ِدین میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مساعیِ جلیلہ کاذکر ملتا ہے۔
نعتیہ شاعری یوںتو مدحِ رسول (صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم )کے ساتھ اسلام اورسیرت رسول (صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم )کے لامحدود پہلوؤں کاتذکار ہے ۔یہ نعت کے موضوعات میںشامل ہوتے گئے ،بعد ازاں فارسی کی نعتیہ شاعری میںاپنے احساسات بھی نعت کے مضامین میںشامل ہو نے لگے ۔اب نعتوں میںمدینے سے دوری کااحساس ،بادِ صباکے ذریعے روضۂ رسول (صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم )تک پیغام کی رسائی ،درپیش مسائل ومصائب میںآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے فریاد ،اوردادرسی کی خواہش کے مضامین بھی نعت میں داخل ہو تے گئے ۔یوں ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی مسائل بھی نعت میں قلم بند ہونے لگے ، اورنعت کادائرہ ’’مدح‘‘ سے پھیل کر مسلمانوں کے قومی وملی محسوسات کو محیط ہوگیا۔ ۶؎
زمان و مکان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میںجب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کے نئے نئے پہلو،اورامکانات ظاہر ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حوالے سے تہذیبی ، اور سماجی ،تمدنی،اورمعاشرتی ،معاشی اوراقتصادی ، سیاسی اورتاریخی ان گنت مضامین ، اورموضوعات کی یہ بو قلمونی ، اوررنگا رنگی بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ ۷؎
’’نعت‘‘نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مدح و توصیف کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ طیبہ ، غزوات و معجزات ، صفات و تعلیمات ، احسانات ،عادات و معمولات کے تذکار ،شخصی اوصاف ، معمولات وکیفیّات کے بیان ، قومی وملّی مسائل کے ذکر اورانسانی و آفاقی تصورات ونظریات کے مختلف پہلوؤں کوایک قرینے ،اورسلیقے سے اپنے اندر سمولیا۔ ۸؎
اردو اور فارسی کے نعت نگاروںاورنعت گو شعرا نے جن مضامین ،اورموضوعات کو اپنی نعتیہ شاعری میں بکثرت استعمال کیا ہے ، ان کا احاطہ کرتے ہوئے معروف محقق ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:
’’جہاں تک نعت کے موضوع کی وسعت کا تعلق ہے ،اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت ، اورحیاتِ طیبہ کے توسط سے انسانی زندگی کے تمام ثقافتی وتہذیبی پہلو ، اورسماجی وسیاسی مباحث درآئے ہیں۔یہ الگ بات ہے ،کہ اردو اورفارسی کے بیشترشعرا نے عموماً رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حلیۂ اقدس، وا قعۂ معراج اور معجزاتِ نبوی ہی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایاہے۔لیکن نعت کے موضوع کا دائرہ اس سے بہت وسیع ہے۔اس میں بے شمار فضائل کے ساتھ ساتھ معمولاتِ نبوی(صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم )غزواتِ نبوی، عباداتِ نبوی ، آدابِ مجلس نبوی،پیغاماتِ نبوی ،اوراخلاقِ نبوی کے بے شمار پہلو شامل ہیں۔
حسنِ عمل حسنِ سلوک ، حسن ِخیال ، حسنِ بیان اور حسنِ معاملہ سے لے کر عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و احسان ،سادگی وبے تکلفی ، شرم و حیا ، شجاعت و دیانت ،عزم و استقلال ، مساوات وتواضع ،مہمان نوازی وایفائے عہد، زہد وقناعت، عفو حلم ، رحم و مروت ، شفقت و محبت، عیادت وتعزیت ، رقیق القلبی وجاں گدازی، رحمت و مکرمت، ،لطفِ طبع و لطفِ سخن، اورانسانی ہمدردی و غم خواری تک ،تمدنی زندگی کاکون سا پہلو اور کون سا رُخ ہے ،جس کی ترغیب و ترویج ، تزئین و تطہیرکاسامان نعت کے موضوعات کے اندر موجودنہیں ہے۔
حق بات یہ ہے ،کہ عظمتِ انسانی کے جتنے گن آج تک گائے گئے ہیں،اورایک عظیم انسان کے بارے میں جتنے تصورات آج تک قائم کیے گئے ہیں،وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی رحمۃ اللعالمینی کے ایک ادنیٰ جزوکی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۹؎
ہندوؤ ،اور سکھوںکی نعتیہ شاعری کے اسباب ومحرکات:
رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عقیدت و محبت کے اس سفر میں برصغیر میںاہلِ ایمان کے ساتھ ساتھ منصف مزاج اورحق شناس غیر مسلم ہندو اورسکھ شعرا بھی وافرحصّہ رکھتے ہیں۔یہ عقیدت و محبت کے اس لافانی سفرمیں کسی سے پیچھے نہیں ،بلکہ انہوںنے بھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حضور نعت کے گل ہائے عقیدت انتہائی محبت کے جذبے سے پیش کیے ہیں۔
ڈاکٹرریاض مجید کی تحقیق یہ ہے ،کہ:
’’برصغیر میں غیر مسلم شعرا کی نعت گوئی کی روایت کا آغاز جنوبی ہند سے ہوا۔مسلمان شاعروںکی طرح ہندو اورسکھ شعرا نے عقید ت و محبت کے اظہار میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت ونعت کوبھی اپنی تخلیقات کاموضوع بنایا۔لچھمی نرائن شفیق کا’’معراج نامہ‘‘ اور راج مکھن لال مکھن کانعتیہ کلام اس اظہارِ عقیدت کے ابتدائی نمونے ہیں ۔ شفیق نے مثنوی کی ہیئت میں معراج کے واقعات شاعرانہ انداز میںرقم کیے ہیں۔شعری التزام اوربرجستگی ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔جب کہ راجہ مکھن لال نے اپنی نعتوںمیں عربی کلام اورقرآن و حدیث کے حوالے بھی دیے ہیں۔ خلوصِ عقیدت اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نجات و شفاعت طلبی کے مضامین ان کے ہاں عام ہیں‘‘۔ ۱۰؎
ڈاکٹر ریاض مجید مزید لکھتے ہیں ،کہ:
’’ہندو شعرا کی نعت گوئی کے حقیقی دور (کاآغاز)۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی کے بعد ہوا۔عصرِجدید میںہمیں متعدد ایسے غیر مسلم شعرا ملتے ہیں جنہوںنے آزادی ،اورمعیار ،ہر اعتبار سے اس روایت کو آگے بڑھایا۔ اس کے بہت سے سیاسی ومعاشرتی عوامل ہیں۔ایک بڑی وجہ وہ رواداری کی فضا ہے جو جنگِ آزادی کے بعد ہندو مسلم اقوام میںپہلے کی نسبت کچھ نمایاں ہوگئی تھی۔انگریز کے خلاف جہادِآزادی میں اگر چہ مسلمانوں نے مرکزی کردار ادا کیا،مگر بعض جگہ ہندو بھی مسلمانوںکے شانہ بشانہ نظر آئے۔اس کے بعد جدجہدِ آزادی کی جنگ میںمقصد ومنزل کی ہم آہنگی بھی دونوں میں قدرِمشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔مخلوط معاشرت میںاگرچہ ہندو مسلم تعلقات میں ایک کشیدگی ہمیشہ رہی ،اوردونوںقوموںمیں تہذیب وتمدن کے حوالے سے واضح اختلاف رہا۔ اس کے باوجود اہلِ فکرو قلم کے حلقوں میں ایک رواداری کی فضاملتی ہے۔جدید علوم اوربرصغیر کی بدلتی ہوئی معاشرت کے نتیجے میںمذہبی عصبیتوں کے جوش اورشدّت میں ذراکمی ہوئی تو اس کے نتیجے میں رواداری میں اضافہ ہوا۔علامہ اقبال کی ‘‘نیاشوالہ‘‘’’نانک‘‘’’رام‘‘اور’’سوامی تیرتھ‘‘ پر لکھی ہوئی نظمیں اسی رواداری کی علامت ہیں‘‘۔ ۱۱؎
ڈاکٹر ریاض مجید مزید رقمطراز ہیں کہ:
’’اسی طرح ہندو شعرا کے ہاں نسبِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اوربزرگانِ دین کی شفقت کے نمونے ملتے ہیں۔رواداری اوریگانگت کے جذبات کے فروغ کے لیے ادبی وسیاسی اورمذہبی وثقافتی اجتماعات میں ایک دوسرے کے مشاہیرکو خراجِ عقیدت پیش کرنے کارواج ہوا۔ ہندو شعرا کے ہاںنعت گوئی کے ذوق کو اسی ماحول میں جلا ملی۔ ان معاشرتی وسیاسی عوامل میں سب سے بڑھ کر رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ جن کی سیرت و کردار اورپیغام نے اہلِ فکرکو خاص طور پر متاثر کیا،اورانہوںنے اپنے تاثرات کو قلم بند کر کے اس روایت کو مستحکم کیا۔ ۱۲؎
محمد ایک فرقے کے نہیں ہیں
محمد سب کے ہیں ، اور بالیقیں ہیں
ادبؔ لائے نہ کیوں ایمان اُن پر
محمد رحمۃ اللعالمیں ہیں۱۳؎
نبیِ مکرم شہنشاہِ عالی
بہ اوصافِ ذاتی و شانِ کمالی
جمالِ دو عالم تِری ذاتِ عالی
دو عالم کی رونق تِری خوش جمالی
خدا کا جو نائب ہوا ہے یہ انساں
یہ سب کچھ ہے تیری ستودہ خصالی
میں جلوے کا طالب ہوں اے جانِ عالم!
دِکھا دے دِکھا دے وہ شانِ جمالی۱۴؎
ڈاکٹر ریاض مجید دادِ تحقیق دیتے ہوئے رقم طراز ہیں ،کہ:
’’علاوہ ازیں شاعرانہ مسلک کے حامل اذہان کے ہاں ایک دوسرے کے لیے احترام کی فضا ہمیشہ موجود رہی ۔ برصغیر پاک و ہندمیں غیر مسلم شعرا کی نعت گوئی کے محرکات میں احترام کایہ عنصر خصوصی اہمیت کاحامل ہے۔آج بھی ہندوستان کے نعتیہ مشاعروں میں غیر مسلموں کی نعت گوئی اسی احترام ورواداری کاثبوت ہے۔اس رسمی اورمعاشرتی سبب کے علاوہ غیر مسلموں میںنعت گوئی کی حقیقی وجہ اسلام اورپیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کی صداقت ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ہمہ جہت انقلاب آفرین شخصیت ،تاریخ ساز پیغام ، اورآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے مطالعے سے غیر مسلم بھی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عظمت ،اوراعلیٰ سیرت و کردارکے قائل اور معترف نظر آتے ہیں۔چنانچہ اس خطّے میںتحریر کی گئی غیر مسلموں بالخصوص ہندو اورسکھوں کی سیرتِ طیبہ پر بے شمار کتب اورہزاروں نعتیں اسی جذبۂ عقیدت ومحبت اورشکر واحسان کی ترجمان ہیں۔۱۵؎
ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں:
اس حقیقت کی ترجمانی مولانا عبد الماجد دریاآبادی کے اس تاثر میںبخوبی نظر آتی ہے ،کہ:
’’جو مسلمان گیارہ سو سال تک عزت و اقتدار کے رُتبے پر فائز رہے ،ناممکن تھا ،کہ اس طویل یک جائی اور ہمسائیگی میں غیر مسلم اسلام سے متاثرنہ ہوتے۔ یہ تاثر مختلف صورتوںمیں نظر آیا۔لاکھوں خوش نصیب آغوشِ اسلام میں آگئے۔ لاکھوں کے عقائد وافکار میں بنیادی تغیر پیدا ہوااورخود ان کے اندر زبردست اصلاحی تحریکیں جاری ہوگئیں۔ بے شماراصحاب ایسے بھی تھے جواپنے مسلک پرقائم رہتے ہوئے بھی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بارے میںویسے ہی محبت افروز جذبات کو لباسِ شعرپہناتے رہے جیسے جذبات مسلمانوں کے سینوں میں موجز ن رہے ‘‘۔
مولانا دریاآبادی مزید لکھتے ہیں :
’’اگر یہ نعتیں ناموں کی تصریح کے بغیر شائع کر دی جائیں تو کسی کو تمیز نہ ہوسکے ،کہ یہ غیرمسلموں کی ہی کہی ہوئی نعتیںہیں‘‘۔ ۱۶؎
غیرمسلم شعرا کے عالمی تذکرے اورنعتیہ کلام کے مرتب ومحقق اورغیر مسلموں کی نعتیہ شاعری کے سب سے بڑے منفرد ، سب سے جامع ، اور سب سے نمایاںادیب اورشاعر(وہ شاعر نہیں تھے)ہمارے کرم فرما اورعلم دوست شخصیت جناب نور احمدمیرٹھی ’’بہر زماں بہرزباں‘‘ میں’’غیر مسلموں کی نعتیہ شاعری تاریخ و تجزیہ ‘‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:
’’نعت اپنے موضوع کی عظمت کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے عقیدت وایمان کا مظہر اورغیر مسلموںکے لیے بین المذاہب یکجہتی کی علامت ہے‘‘۔
پروفیسر شفقت رضوی نے ’’نورِ سخن‘‘میںشامل اپنی رائے میںلکھاہے ،کہ:
’’غیرمسلم شعرا کی نعتوںمیں دو خیالات و جذبات ملتے ہیں۔ایک بڑ اگروہ ایسا ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو پیغمبرِ برحق ہی نہیںبلکہ پیغمبرِ آخر الزماں تسلیم کر کے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حضورگل ہائے عقیدت پیش کیے ہیں۔اس حوالے سے آپ کی تمام صفات عالیہ اور آپ کے اسوۂ حسنہ کا ذکر بلیغ انداز میںملتا ہے،تو بعض نے صرف عظیم انسان کے طور پر آپ کو پرکھا ہے اوراس یقین کا اعلان کیا ہے ،کہ خدمتِ انسانی کا کامل نمونہ اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ گرامی قدرکو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔بلکہ تمام عالمِ انسانیت کو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے استفادہ کرنا چاہیے۔پہلے نقطۂ نظر میں عقیدت ہے تو دوسرے میںتفکر ، اور یہ دونوں باہم مل جائیںتو نعت گوئی کی معراج بن جاتے ہیں۔اس اعتبار سے غیر مسلم شعرا اوران کا کلام نہ صرف قابلِ داد ہے بلکہ دعوتِ فکر کا سبب بھی ’’۔ ۱۷؎
نور احمد میرٹھی غیرمسلموںکی نعتیہ شاعری کی تاریخ وتجزیہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر محمد اکرم رضا کے حوالے سے لکھتے ہیں،کہ:
پروفیسر اکرم رضا نے اپنے ایک جامع مضمون میں غیر مسلم شعرا کی نعتیہ شاعری کے محرکات کے ساتھ ساتھ چند دوسرے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے جس سے صرفِ نظر نہیںکیاجاسکتا۔ وہ کہتے ہیں:
’’ایک سوال ابھرتا ہے کہ غیر مسلم شعرااس کثرت اور تیزی کے ساتھ نعت گوئی کی طرف کیوںمائل ہوئے؟۔اس ضمن میں پہلا حوالہ خود سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔جن کے کردار کی بلندیوں نے اپنوںکے ساتھ ساتھ اغیار کو بھی اس شدت کے ساتھ متاثر کیاکہ تاریخِ انسانیت کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہے ۔جب غیر مسلم دانش وراورمحققین تعصب سے پاک ہو کر پیغمبرِ اسلام کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس معاملے میں انہیں کوئی اور شخصیت آپ کے برابر کھڑی نظر نہیں آتی۔ان کے ذہن و ضمیر بے ساختہ اس حقیقت کااعتراف کرتے نظر آتے ہیںکہ اسوۂ محمد ہی وہ مینارۂ نو رہے جس سے پھوٹنے والی روشنی اقوامِ عالم کو ابد تک متاثر کرتی رہے گی۔ علاوہ ازیں صوفیائے کرام کی رواداری ،انسان دوستی، ،اورامن واخوت کا پیغام بھی ان کے پیشِ نظرتھا۔جس نے انہیں بے حد متاثر کیا ۔اور وہ اعترافِ حقیقت پر مجبور نظر آئے‘‘۔ ۱۸؎
ہندوؤں اورسکھوں کے نعتیہ مجموعے:
نور احمد میرٹھی نے ہندوؤں اورسکھوںکے نعتیہ مجموعوں کا بڑی حد تک احاطہ کیا ہے چنانچہ موصوف لکھتے ہیں،کہ:
’’یہ غیرمسلموں بالخصوص ہندوؤں اورسکھوں کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عقیدت و محبت ہی ہے ،کہ متعدد شاعروں کی نعتیں ان کے شعری مجموعوںمیںبھی ملتی ہیں۔مگر یہ بات ہر اعتبار سے اہم ہے ،کہ بعض غیر مسلم شعرا کانعتیہ ذخیرہ اتنامقبول ہوا ،کہ ان کے مجموعے منظرعام پرآئے۔اس سلسلے میں کوثری دلو رام کانعتیہ مجموعہ ’’گلبنِ نعت کوثری‘‘،مہاراجہ سرکشن پرشاد کامجموعہ’’ہدیۂ شاد‘‘،بالمکند عرش ملسیانی کا مجموعۂ نعت’’آہنگِ حجاز‘‘،الن جون مخلص بدایونی کا مجموعہ ’’گُل دستۂ نعت‘‘،آرزو سہارن پوری کا ’’ظہورِقدسی‘‘ادیب لکھنوی کامجموعۂ نعت’’نذرانۂ عقیدت ‘‘،کالی داس گپتارضا کا ’’اُجالے‘‘،چرن سنگھ ناز مانک پوری کا مجموعہ ’’رہبرِاعظم ‘‘شائع ہوچکے ہیں‘‘۔ ۱۹؎
جبکہ امرچند قیس جالندھری اورمشہور ماہرِ اقبالیات پروفیسر جگن ناتھ آزاد کاذخیرۂ نعت بھی کم نہیںتاہم تا حال کتابی شکل میںمنظرعام پر نہیں آیا‘‘۔۲۰؎
ہندوؤں اورسکھوں کی نعتیہ شاعری پر باقاعدہ کتب:
غیرمسلموں بالخصوص ہندوؤں اورسکھوں کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے جن کتابوں کو خاص شہرت حاصل ہوئی ،ان میں اوّل الذکر فانی مرادآبادی کامرتب کردہ انتخاب ’’ہندو شعرا کا نعتیہ کلام‘‘مطبوعہ عارف پبلی شنگ ہاؤس لائل پور ۱۹۶۳ء۔محمد محفوظ الرحمن کامرتبہ مجموعہ ’’ہندو شعرا دربارِ رسول (صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم )میں‘‘۔مطبوعہ گلشنِ ابراہیمی پریس لکھنؤ ۔محمد الدین فوق کامرتبہ انتخاب’’اذانِ بت کدہ‘‘،مطبوعہ ۱۹۳۴ء ۔عبد المجیدخان سوہدری کامرتبہ انتخاب’’ہندو شعرا کانعتیہ کلام‘‘ اورہمارے علم دوست ،بزرگ ادیب اورمحقق نوراحمدمیرٹھی کامرتب کردہ مجموعہ’’نورِسخن‘‘مطبوعہ ادارۂ فکر نو کراچی ،اس میں دیڑھ سو ہندو اورسکھ شعرا کانعتیہ کلام شامل ہے۔
بعد ازاں فاضل محقق نے اس سلسلے کی نعتوں کے مزید انتخاب اورنعت گو شعرا کے حالاتِ زندگی اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کرنے کااہتمام کیا ہے اوراسے’’ بہر زماںبہر زباں ‘‘ کے عنوان سے ادارہ فکرِنو کراچی سے ۱۹۹۷ء میںشائع کیا۔یہ اس سلسلے کی انتہائی علمی اورتحقیقی کاوش ہے جسے غیر مسلم نعت گو شعرا کا عالمی تذکرہ ونعتیہ کلام سے تعبیر کیاگیاہے۔
اس حقیقت میںکوئی شبہ نہیں،کہ محترم نوراحمد میرٹھی نے غیر مسلم نعت گو شعرا کے تذکرے اورنعتیہ کلام کی ترتیب و تدوین میں تحقیقی اسلوب اختیار کرتے ہوئے اس سلسلے کا جامع ترین انتخابِ نعت مدون کیاہے۔فاضل مؤلف کی برسوں پر مشتمل اس تحقیق نے اس حوالے سے پوری تاریخ مدون کر دی ہے۔بلاشبہ یہ غیر مسلموںکی نعتیہ شاعری کا سب سے معتبر اور سب سے مستند ارمغان ہے ، جس میں تحقیق کے اسالیب کو پورے طور پر پیشِ نظر رکھاگیاہے۔
’’بہر زماں بہر زباں‘‘کا دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن ادارہ فکرِنو کراچی ہی سے ۲۰۰۶ء میں اشاعت پزیر ہوا ۔یہ زیورِطباعت کی تمام ندرتوں اورجدتوں کامرقع ہے ۔انتہائی اعلیٰ معیار اورذوق طباعت کا شاہکار یہ مجموعہ گویا غیر مسلموںکی نعتیہ شاعری ،نعت گو شعرا کے تذکرے ،اور نعتیہ انتخاب کے حوالے سے’’دائرۂ معارفِ نعت‘‘ یابہ الفاظ ِدیگر’’غیر مسلموں کی نعت کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ہے۔ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل یہ تحقیقی کاوش اس حوالے سے معلومات کا خزینہ اورعلم و دانش کا سفینہ ہے۔ حروفِ تہجی کی ترتیب پرمشتمل اس کتاب میںپہلے نعت گو شعرا کے مختصرحالات زندگی اوربعد ازاں ہر ایک کی منتخب نعت یانعتوں کے ذکر کا مربوط اہتمام ا ورالتزام کیا گیا ہے ۔
نور احمد میرٹھی کا مدو ن کردہ یہی وہ گراں بہا نعتیہ مجموعۂ نعت ہے جس کے متعلق بجا طور پر اہلِ علم و دانش نے اعترافِ حقیقت کے طور پر کہا ہے کہ فاضل مؤلف و محقق کو اس اعلیٰ تحقیقی کاوش پر ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی جانی چاہیے۔اس میںکوئی شبہ نہیں،کہ فاضل محقق کی یہ علمی اورتحقیقی کاوش علمی اورفنی تمام محاسن کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔یہ کتاب ۳۹۱ غیر مسلم نعت گو شعرا کے تذکرے اوران کی نعتوں کے انتخاب پر مشتمل ہے ۔
’’بہرزماں بہرزباں‘‘میں دنیا کی مشہور تیرہ زبانوں کے کئی شعرا شامل ہیں۔جن کے نعتیہ کلام کے نمونوں کے ساتھ ان کے ترجمے بھی دیے گئے ہیں۔
’’اُرود میں نعتیہ شاعری ‘‘کے مولف پروفیسرڈاکٹر رفیع الدین اشفاق اپنے تبصرے میںرقمطراز ہیں ،کہ:
’’(غیرمسلموں کی نعتیہ شاعری کی تدوین کے حوالے سے )جو کام نور احمدمیرٹھی نے انجام دیاہے ،اس کے لیے نعت سے شغف اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ دلی وابستگی کے علاوہ وسعتِ مطالعہ ،گہری علمی قابلیت ،خدادادذہانت وذکاوت،عزم و استقلال ،صبر و تحمل سب ہی درکار ہیں۔بحمدللہ !موصوف ان تمام صعوبتوں اورمشکل مراحل سے کامیاب گزرگئے۔ان کا یہ تحقیقی کارنامہ ان کی اعلیٰ علمی قابلیت ، بلند تحقیقی مزاق ،دینی تڑپ ،نعت سے گہری دلچسپی ،درک و بصیرت اورالوالعزمی کا ثبوت ہے‘‘۔ ۲۱؎
غیرمسلموں کی نعتیہ شاعری کے انتخاب اورتدوین میں ماہنامہ ’’نعت‘‘لاہور کے ایڈیٹر اورنعتیہ ادب کے فروغ میں نمایاں کردار کے حامل جناب راجا رشید محمود کانام اورکام بھی کسی سے کم نہیں۔چنانچہ موصوف نے انتہائی محنت و کاوش سے ماہنامہ’’نعت‘‘لاہور کا خاص شمارہ ’’غیر مسلموں کی نعت گوئی‘‘نومبر۱۹۹۵ء میں شائع کیا۔۴۱۵ صفحات پر مشتمل اس تاریخی نعت نمبر میںکم و بیش ۲۱۵ نعتیں شامل ہیں جس میں نعت گو شعرا کے حالاتِ زندگی بھی مختصر طور پر پورے اہتمام سے بیان کیے گئے ہیں۔آغاز میں ’’غیرمسلموں کی نعت گوئی کی تاریخ‘‘کابھی جامع اور مدلل انداز میں احاطہ کیاگیاہے ۔۲۲؎
علاوہ ازیں غیر مسلموں کی نعت گوئی کی وجوہ اوراس کے اسباب ومحرکات پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔۲۳؎
ہندواورسکھ شعرا کی نعتیہ شاعری کے چند مظاہر:
رحمۃ اللعالمین ، محسنِ انسانیت، سرورِکائنات ،پیغمبرِ آخر الزماں،محسنِ دنیائے امکاں،روحِ جہانِ بیکراں، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات چودہ سو برس سے محققین،مؤرخین،سیرت نگاروں، دانش وروں،اورشاعروں کامحبوب موضوع رہی ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلم شعرا کے عقیدت مندانہ نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ اس خطے پر غیر مسلم ہندو اورسکھ شعرا نے بھی خاتم الانبیا ، حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت و کردار سے متاثر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان میں نعتیہ کلام کے ذریعے عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے،اوربلاامتیاز مذہب ،سرکارِدوجہاں صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حضورخراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
چنانچہ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کہتے ہیں:
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں۲۴؎
شیش چندر سکسینہ کہتے ہیں:
یہ ذاتِ مقدس تو ہر انساں کو ہے محبوب
مسلم ہی نہیں وابستۂ دامانِ محمد۲۵؎
روہندرویندرجین کہتے ہیں:
آپ کے ماننے والوں میں ضروری تو نہیں
صرف شامل ہوں مسلمان رسولِ اکرم۲۶؎
سرداری لعل نشتر کہتے ہیں:
فقط ایک نشترؔ ہی کیا مدح خواں ہے
ثنا خواں محمد کا سارا جہاں ہے۲۷؎
ستیہ پال رضوانی پیغمبرِ اسلام سے عقیدت و محبت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
از خاکِ عرب تا بہ عجم مانتے ہیں
ہاں ! صاحبِ الطاف و کرم مانتے ہیں
ہم دیر نشیں بھی ہیں تِرے مدح سرا
رہبر جو تجھے اہلِ حرم مانتے ہیں۲۸؎
کرشن موہن نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:
کر رہے ہیں اُس کی عظمت کے سبب
برہمن بھی احترامِ مصطفی۲۹؎
چودھری دلورام کوثری کاشمار ارو کے ممتاز نعت گو شعرا میں ہوتا ہے انہوںنے ایک غیر منقوط نعتیہ دیوان بھی مرتب کیا ہے موصوف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے والہانہ عقیدت کااعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کچھ عشقِ پیمبر میں نہیں شرطِ مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلب گارِ محمد۳۰؎
اردو شاعری میں غیر مسلم شعرا کانعتیہ کلام قابلِ ذکر حیثیت کاحامل ہے۔ ان غیر مسلم شعرابالخصوص ہندواورسکھ شعرا نے باعثِ تخلیقِ
کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مختلف گوشوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔چنانچہ انہوںنے حیاتِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر گلہائے عقیدت پیش کیے ہیں۔اس کی مختصر سی جھلک ہندو شاعر امر چند قیس جالندھری کے مندرجہ ذیل اشعار میںدیکھی جا سکتی ہے:
وہ ابرِ فیضِ نعیم بھی ہے ،نسیمِ رحمت شمیم بھی ہے
شفیق بھی ہے خلیق بھی ہے رحیم بھی ہے ،کریم بھی ہے
وہ حسنِ سیرت کا ہے مرقع ، جمالِ حق ہے جمال اس کا
وہ پیکرِ فطرتِ معلیٰ ، شبیہِ خُلقِ عظیم بھی ہے
وہ معنیِ حسن آفرینش ، نظر نوازِ ہر اہلِ بینش
حبیبِ ربِ جلیل بھی ہے ، جمیل بھی ہے ، سلیم بھی ہے
وہ علم و عرفاں کا ہے مدینہ ، خزینۂ راز اُس کا سینہ
وہ پیکرِ نورِ سرمدی ہے ، وہ حسنِ خُلقِ عظیم بھی ہے
وہ حامل و صاحبِ شریعت ، وہ مرشد و ہادیِ طریقت
معلمِ معرفت بھی ہے اور ، رموزِ حق کا علیم بھی ہے
خلیل کی وہ دُعا کا ثمرہ ، کلیم نے اُس کی دی بشارت
وہ خاتمِ نعمتِ نبوت ، ظہورِ لطفِ عظیم بھی ہے
کوئی یہ اُس کا وقار دیکھے ، پھر اُس پہ یہ انکسار دیکھے
سرِمبارک پہ تاجِ اظہر ہے دوش پر اِک شمیم بھی ہے
اُٹھائیں جن سے اذیتیں پھر انہیں کے حق میں دعائیں مانگیں
کسی میں یہ شانِ حلم بھی ہے ، اورایساکوئی حلیم بھی ہے؟
وہ بقعۂ نور وہ مدینہ ، حضور خلوت نشیں ہیں جس میں
نعیمِ خلد بریں بھی اُس میں ، وہ رشکِ خلدِنعیم بھی ہے
ہوا جو یثرب سے آ رہی ہے ، ہر اِک کلی کو کھلا رہی ہے
یہی ہوا ہے نسیمِ رحمت ، یہ لطافت شمیم بھی ہے
جنابِ موسیٰ کلیم تھے ، میں بھی مانتا ہوں کلیم اُن کو
مِرے پیمبر کا ہے یہ رُتبہ ، جلیل بھی ہے کلیم بھی ہے
یہ آپ کے قیسؔ کا ہے ایماں ، حضور ہیں رہنمائے انساں
حضور کا جو نہیں ہے قائل ، شقی بھی ہے وہ لئیم بھی ہے۳۱؎
’’نورِ سخن‘‘کے مؤلف نوراحمدمیرٹھی غیر مسلم شعرا کے نعتیہ کلام پر اظہار رائے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’غیرمسلم نعت گو شاعروں نے نہ صرف نبی ِبرحق سے انتہائی خلوص وعقیدت کاظہار کیاہے بلکہ اکثر شعرا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دامنِ رحمت میں پناہ مانگی ہے۔ تمام شاعروں نے ادب و احترام کوملحوظ رکھا ہے ،بعض شعراکے ہاں زبان و بیان کی گل افشانیاںبھی ہیں۔ اوراضطرابی کیفیات بھی۔ جذبات کی حدت بھی ہے اورمحسوسات کی شدت بھی،فکری لہروںکی روانی بھی ہے اور تاریخ کی ورق گردانی بھی ۔ جس سے پتاچلتا ہے ،کہ ان شعرا نے تعلیمات اسلامی اور سیر ت النبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کابغور مطالعہ کیا ہے ۔ اسی لیے بعض شعرا نے پیغمبرِ اسلام سے اپنے تعلق کاواضح اظہار کیا ہے ،ایسے اشعار پاکیزگیِ جذبات کا بہترین نمونہ ہیں‘‘۔۳۲؎
غیر مسلم شعرا کی ایک بڑی تعداد نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعریف وتوصیف میںمجموعہ ہائے کلام مرتب کیے ہیں۔ جن میں بعض غیر مسلم شعرا کے نعتیہ مجموعے دستیاب بھی ہیں۔بعض زیورِ طباعت سے آراستہ بھی ہوچکے ہیں۔اوربعض تاحال غیر مطبوعہ ہیں۔ جن میں مہاراجہ سرکشن پرشاد متوفیٰ ۱۹۴۰ء کامجموعہ ’’ہدیۂ شاد‘‘جسے ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق نے ’’ہدیۂ شاد‘‘ہی کے نام سے موسوم کیاہے۔۳۳؎ یہ پہلی مرتبہ ۱۳۲۶ھ میں طبع ہوا۔جب کہ ’’تاریخِ ادب اردو‘‘میں بابو رام سکسینہ نے سرکشن پرشاد کے نعتیہ مجموعے کلام کانام’’خم کدۂ رحمت‘‘ تحریرکیاہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں ہی الگ الگ مجموعے ہوں۔
’’ہدیۂ شاد‘‘میں ایک قصیدہ ،اورسات مخمس ہیں۔ اورپانچ سلام ،ان کا نعتیہ کلام ۱۹۱ صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۔جملہ اشعار ۱۳۳۱ ہیں۔ دیوان کے آخری حصے میںدیگر قطعات تاریخ کے ساتھ لطیف احمد اختر مینائی کی تقریظ بھی شامل ہے۔جس میں کشن پرشاد کی نعت گوئی پر اظہارِخیال کیا گیاہے۔۳۴؎
شادؔ کے کلام میں بڑی خصوصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عقیدت و محبت کا اظہار ہے،اوراس جذب و شوق میں توحید کی طرب انگیزی بھی پائی جاتی ہے۔وہ کہتے ہیں:
ساز گار اپنا زمانہ ہو گیا
ہند سے طیبہ کو جانا ہو گیا
دفن یثرب میں مِرا لاشہ ہوا
اب مسافر کا ٹھکانہ ہو گیا
جب سے وحدت کا ہوا دل کو خیال
تھا جو بیگانہ ، یگانہ ہو گیا
پھر پلٹ آئی گلستاں میں بہار
اپنا آباد آشیانہ ہو گیا
کفر چھوڑا پی کے مے توحید کی
رنگ شادؔ ! اب عاشقانہ ہوگیا۳۵؎
’’رسولِ عربی‘‘(صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم)کے زیرِ عنوان اپنی ایک نعت میں وہ دربارِ رسالت میں گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
آپ کا خواںِ کرم سارے جہاں میں ہے بچھا
یار و اغیار ہیں مہمانِ رسولِ عربی
آپ کی دید کی خواہش ہے دلِ مضطر کو
مضطرب رکھتے ہیں ارمانِ رسولِ عربی
انبیا جتنے ہیںآپ اُن کے بھی شافع ہوں گے
سب کے سب مانیں گے احسانِ رسولِ عربی
باغِ احمد کے ہیں دو پھول حسن اور حسین
یہی دو ہیں گُل و ریحانِ رسولِ عربی
بخشوائیں نہ اگر آپ مجھے محشر میں
ہوگا بس ہاتھ میں دامانِ رسولِ عربی
عشق سے بڑھ کے کوئی چیز نہیں پاس مِرے
کہ یہی ہدیہ ہے شایانِ رسولِ عربی
مئے توحید پلا کر مجھے کردیں سرشار
ہوگا سر پر مِرے احسانِ رسولِ عربی
کیوںنہ تعریف کریں لوگ سخن کی اے شادؔ!
دل و جاں سے ہوں ثنا خوانِ رسولِ عربی۳۶؎
چودھری دلو رام کوثری (متوفیٰ۱۹۴۵ء)کا ’’مجموعہ کوثری‘‘اورغیر منقوط نعتیہ دیوان ہیں۔
’’اردو کی نعتیہ شاعری ‘‘کے مصنف ڈاکٹر فرمان فتح پوری کوثری کی نعتیہ شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں،کہ:
’’کوثری کے نعتیہ کلام کی سب سے بڑی خصوصیت زبان کی سادگی اورجذبات کی پاکیزگی ہے ۔ان کا کلام ظاہر کرتا ہے ،کہ نعت گوئی ان کی ذہنی کاوش یا محض محنت کا نتیجہ نہیںبلکہ ان کے دل کی آواز اوران کی طبعِ شاعرانہ کی فطری جولان گاہ تھی‘‘۔۳۷؎
چودھری دلو رام کوثری اپنے نعتیہ اشعار میں کہتے ہیں:
درجہ ہے سب رسولوں سے بڑھ کر رسول کا
ثانی نہیں کوئی پسِ داور رسول کا
کہتے ہیں جس کو عرشِ بریں جملہ قدسیاں
اپنی نگاہ میں ہے وہ منبر رسول کا
اُمی لقب اگرچہ تھا اُس شاہ کا ، مگر
تھا صدرِ علم ، صدرِ منور رسول کا
مصر و عرب میں ، روم میں ، ایراں میں ، ہند میں
پھیلا جہاں میں علم سراسر رسول کا
کیوں کوثریؔ ! مجھے ہو طلب عزّ و جاہ کی
کیا کم ہے یہ شرف ، ہوں ثنا گر رسول کا۳۸؎
چودھری دلو رام کوثری انتہائی فخریہ انداز میںکہتے ہیں:
کوثریؔ ! تنہا نہیں ہے مصطفی کے ساتھ ہے
جو نبی کے ساتھ ہے وہ کبریا کے ساتھ ہے
کس لیے پھر در پئے آزار ہیں اشرارِ قوم
اُس کا کیا کرلیں گے جو خیر الوریٰ کے ساتھ ہے ۳۹؎
چودھری دل ورام کوثری کا ایک اورمجموعہ نعت ’’آبِ کوثر‘‘(۱۹۲۹ء) اوراس کے علاوہ ’’اسرارِ اردو‘‘ہیں۔پنڈت بالمکند عرش ملسیانی کا نعتیہ مجموعہ’’آہنگِ حجاز‘‘کے نام سے ۱۹۵۳ء میں زیوارِ طباعت سے آراستہ ہو کر سامنے آیا۔عرش ملسیانی نعت گو شعرا میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔
حضرت داغ دہلوی کے جانشین،مشہور شاعرو ادیب لبھو رام ہوش ملسیانی کے فرزند بال مکند عرش ملسیانی نے اپنی نعتیہ شاعری میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے اپنی نیاز مندانہ وابستگی کا اظہار کیا ہے ۔ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق نے عرش ملسیانی کی نعتیہ شاعری کی خوبیوںکا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے ،کہ:
’’عرش کی نعت گوئی پُر خلوص،پُر اثر اور پُر مغز شعردل آویزیوں سے مالا مال ہے ۔وہ اپنے کلام کو باطنی کیفیت سے جاندار بناکر روح کی تازگی کاسامان کرتے ہیں‘‘۔۴۰؎
اُن کی نعت ملاحظہ فرمائیے:
حاملِ جلوۂ ازل ، پیکرِ نورِ ذات تُو
شانِ پیمبری سے ہے سرورِ کائنات تُو
فیضِ عمیم سے تِرے ، قلب و نظر میں وسعتیں
مومنِ حق پرست کا ، حوصلۂ نجات تُو
تیرے عمل کے درس سے ، گرم ہے خونِ ہر بشر
حسنِ نمودِ زندگی ، رنگِ رُخِ حیات تُو
عقدۂ کشائے ایں و آں ، نورِ فزائے ہر مکاں
قبلۂ اہلِ دل ہے تو ، رونقِ شش جہات تُو
شانِ بشر کا مُنتہا ، خالقِ دہر کا حبیب
مردِ خدا پرست کا ، آئینۂ حیات تُو
موردِ التفات ہم ، تیری نوازشات سے
ذاتِ خدائے پاک سے ، وقفِ نوازشات تُو
قلب و نظر کے راز سب ، دہر پہ منکشف ہوئے
روحِ جہانِ راز تو ، جانِ مکاشفات تُو
مدح سرائے مصطفی ، ہے تو عمل بھی چاہیے
عرشؔ جو ہوسکے تو ہو ، عزم میں پُر ثبات تُو۴۱؎
وہ اپنی ایک اور نعت میںسرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عقیدت و محبت کے اظہارمیں گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا خوب کہتے ہیں:
طوفانِ زندگی کا سہارا تمہی تو ہو
دریائے معرفت کا کنارا تمہی تو ہو
ہاں ہاں تمہی تو ہو دلِ عالم کے دل نواز
دل دار و دل نشین و دل آرا تمہی تو ہو
دنیا کے غم ربا ہو ، زمانے کے درد مند
اُمت کے دل کے زخم کا چارا تمہی تو ہو
لطفِ خدائے پاک شفاعت کے بھیس میں
فیضِ عمیم کا بھی اشارا تمہی تو ہو
ملتی ہے تم سے اُن کی نگاہوں کو روشنی
دنیا و دیں کی آنکھ کا تارا تمہی تو ہو
تم پر ہمیشہ مطلعِ عالم کو ناز ہے
رہتا ہے اوج پر جو ستارا تمہی تو ہو
جاتی ہے عرش تک یہ تمہارے ہی فیض سے
میری دعائے دل کا سہارا تمہی تو ہو۴۲؎
لچھمی نرائن شفیق کا مجموعۂ کلام’’معراج نامہ‘‘، چرن سرن ناز مانک پوری کا مجموعہ’’رہبرِ اعظم‘‘علاوہ ازیںمکھن لال مکھن اورمنشی شنکر لال کے نعتیہ مجموعے اردو میںملتے ہیں۔ جب کہ غیر مسلم شعرا کے نعتیہ مجموعے ہندی،پنجابی ،اورمیواتی میں بھی ملتے ہیں۔
ہندی میںودیا نند کا مجموعہ’’پیغمبرِاسلام‘‘رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی منظوم سوانح حیات ہے۔یہ کتاب ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ہے ۔اوراسے ۱۹۸۳ء میں لتک پرکاش پٹنہ نے شائع کیا۔اسی طرح ایک تامل شاعر ولاٹول نے بھی تامل زبان میںمنظوم سوانح حیات لکھ کر پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حضور گل ہائے عقیدت پیش کیے ہیں۔
غیر مسلم شعرا کی ایک بڑی تعدادنے رحمۃ اللعالمین،شفیع المذنبین ، صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حضورنعتیہ کلام کے ذریعے گل ہائے عقیدت اورخراجِ تحسین پیش کرکے ارشادِ خدا وندی ’’ورفعنالک ذکرک‘‘پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔
ہندو شاعر منوہر لال دلؔ کی نعت ملاحظہ کیجیے، وہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عقیدت و محبت کے اظہار اورآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عظمت و رفعت کے حوالے سے کہتا ہے :
آقا جو محمد ہے عرب اور عجم کا
بے مثل نمونہ ہے مروت کا کرم کا
حاصل ہے جنہیں تیرے غلاموں کی غلامی
لیتے نہیں وہ نام کبھی قیصر و جم کا
کہتے ہیں جسے اہلِ جہاں احمد مرسل
دریا ہے وہ اُلفت کا ، وہ منبع ہے کرم کا
جلوے سے تِرے تیرگیِ دہر ہوئی گُم
دنیا کا عجب اخترِ تقدیر ہے چمکا
جس قوم کی جانب ہے تِری چشمِ عنایت
اُس کو نہیں ارماں ذرا دینار و درم کا
فردوسِ نظر ہے تِرے مسکن کی زیارت
روضہ تِرا دنیا بدل باغِ ارم کا
کیا دلؔ سے بیاں ہو تِرے اخلاق کی توصیف
عالم ہوا مدّاح تِرے لطف و کرم کا۴۳؎
(منوہر لال دلؔ کی یہ نعت ماہنامہ ’’کیلاش‘‘ہوشیار پور ،۲۴؍اگست ۱۹۴۰ء میں بھی شائع ہوئی تھی)
پیارے لال رونق دہلوی کی مندجہ ذیل نعت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم سے ان کی عقیدت و محبت کامظہر ہے:
حاصل شرف ہے کس کو خدا کی جناب کا
ہم سر ہے کون شانِ رسالت مآب کا
چمکا جو نور حسنِ رسالت مآب کا
روشن ہوا چراغ جہانِ خراب کا
عاشق ہوں اُس جنابِ رسالت مآب کا
کونین ایک ذرّہ ہے جس کی جناب کا
پردہ حضور نے جو اُٹھایا حجاب کا
آنکھوں میں نور دے گیا گوشہ نقاب کا
دَم میں براق پر سرِ عرشِ بریں گئے
تھا معجزہ یہ آپ کے پائے رکاب کا
لے کر سیاہی نورِ رُخِ آفتاب سے
لکھنا ہے وصف حسنِ رسالت مآب کا
رونقؔ ! سخن کو میرے نہ حاصل ہو کیوں شرف
مدّاح ہوں جنابِ رسالت مآب کا۴۴؎
ہندو شاعر ماہر بلگرامی کملایت سہائے کی نعت ملاحظہ فرمائیے۔وہ سرکارِدوعالم ،حضرتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حضورگلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتا ہے :
چل گیا اسمِ محمد کا وہ جادو دل میں
پا لیا جس نے ہر اِک جذبے پہ قابو دل میں
نامِ احمد کا جو چرچا ہوا ہر سو دل میں
دردِ دل بیٹھ گیا اُٹھ کے دو زانو دل میں
آج اوصافِ نبی اس کو جو کرنے ہیں رقم
خود جھکا جاتا ہے تعظیم میں رہ رہ کے قلم
صرف اسلام ہی کا تو نہیں تو پیغمبر
تیرا احسان ہے ہر قوم پہ ، ہر ملت پر
بخدا تو نے رہِ راست دکھائی اُٹھ کر
تیرا ممنون ہے دنیا کا ہر اِک فردِ بشر
کیوںنہ دنیا ہو ثنا خواں تری اے پاک رسول
پاک دل ، پاک نفس ،پاک روش، پاک اصول۴۵؎
منشی شنکر لال ساقیؔ ،فارسی زبان و ادب پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔انہوںنے اپنے دور کے ممتاز شعرا ، غالب،مومن،ذوق اوربہادر شاہ ظفر وغیرہ کے ساتھ مشاعرے پڑھے، ان کی دوکتابیںایک ’’کریما‘‘(شیخ سعدی)کاترجمہ بھاشا نظم میں ،اوردوسری انتخاب کلیات شائع ہوچکی ہیں۔انہوںنے فارسی اوراُردو دونوںزبانوںمیں نعت کہی ہے۔شنکر لال ساقی کی مندجہ ذیل فارسی نعت فصاحت و بلاغت کی آئینہ دار اوررسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے ان کے تعلق خاطر اورعقیدت ومحبت کا مظہر ہے ۔وہ کہتے ہیں:
روشن دلم زِ جلوۂ روئے محمد است
جانم فدائے نامِ نکوئے محمد است
یادِ خداست ہم دمِ روحِ لطیف من
دل در خیالِ مدحتِ خوئے محمد است
ایں بوئے خوش ، کہ مشکِ ختن یافت در جہاں
بے شبہ از عطیۂ موئے محمد است
در دیر ہم قبول تواں شد نماز من
گر روئے دل زِ صدق بسوئے محمد است
ساقیؔ ! اگر چہ جامۂ ہند است بر تنم
خاکم ، مگر زِ یثرب و کوئے محمد است۴۶؎
سکھ دھرم کے بانی بابا گرونانک کی سترہویں(۱۷)پشت کے مشہور شاعراورنامور ادیب کنور مہندرسنگھ بیدی سحرکانام کسی تعارف کامحتاج نہیں ۔ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’طلوعِ سحر‘‘۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔بیدی سحر کی کئی نعتیںفانی مرادآبادی نے ’’ہندوشعرا کا نعتیہ کلام‘‘اور’’نورِسخن‘‘کے مولف نور احمدمیرٹھی کی ’’بہر زماںبہر زباں’’، اورماہنامہ ’’نعت‘‘لاہورکے’’غیر مسلموںکی نعت گوئی‘‘نومبر ۱۹۹۵ء کے خاص شمارے میںملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
معروف ہندو نعت گو شاعرجگن ناتھ آزاد کے ’’سلام‘‘کی طرح کنور سنگھ بیدی سحر کا ’’سلام‘‘بھی عقیدت ومحبت کا پورا رنگ لیے ہوئے ہے سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے اپنی عقید ت و محبت اورتعلق خاطر کااظہار انتہائی عقیدت مندانہ اسلوب میںکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تصور بے پناہی میں ہو یکتا
تخیّل ہو سراسر عرش پیما
صدائیں نکلیں سازِ تار جاں سے
زمینِ شعر اُترے آسماں سے
پھر اپنی روح سے کاغذ بناؤں
قلم طوبیٰ کی شاخوں سے منگاؤں
مدد لوں علم کی ضوپاشیوں سے
سجاؤں نو بہ نو نقاشیوں سے
وفورِ شوق میں پھر والہانہ
کروں عرض اِک سلامِ عاشقانہ
سلام اے رہبرِ عالم پنا ہے
بہ دنیا و بہ عقبیٰ بادشا ہے
سلام اے مظہرِ انوارِ ایزد
سلام اے خلقتِ عالم کے مقصد
سلام اے ناخدائے کشتیِ دیں
سلام اے عشق را قانون و آئیں
سلام اے رہبرِ گُم کردہ راہاں
سلام اے ماحیِ عیب و گناہاں
سلام اے معرفت کی مے کی ساقی
سلام اے جلوۂ انوارِ باقی
سلام اے دل کے اندر بسنے والے
سلام اے سب حسینوں سے نرالے
سلام اے درد پیدا کرنے والے
سلام اے سب کو اپنا کرنے والے
سلام اے مونس اپنے غمزدوں کے
سلام اے مالک اچھوں کے بدوں کے
سلام اے جنتِ طیبہ کے باشی
سلام اے غمزہ ہائے جلوہ پاشی
سلام اے صاحبِ جود و عطایا
سلام اے سب کے مولا سب کے آقا
سلام اے کہنے والے فقر و فخری
سلام اے بے کسوں کے یار و حامی
ملے عزِّ قبولیت ، کہ مولا !
یہ نذرانہ ہے اِک عاجز سحرؔ کا۴۷؎
برصغیر پاک و ہند کے ممتاز شعرا میں سے عقیدت کے اس اظہار میںسادھو رام آرزو سہارنپوری ،جگن ناتھ آزاد، پنڈت جگن ناتھ پرشاد، پنڈت رام پرتاب ، رانا بھگوان داس، بیدل رام پوری، پنڈت ہرکشن لال،پنڈت رگھوناتھ ،چندر پرکاش، کنورمہندرسنگھ بیدی سحر، پنڈت امر ناتھ، پنڈت بہاری لال،دلو رام کوثری ، لالاہ رام جی لال گوندھر،پنڈت دیاشنکر نسیم، عزت سنگھ دیش دہلوی، سندرملسیانی ، پنڈت برج موہن ، پربھودیال مسر،درگاسہائے سرور،راجندربہادر، موج فتح گڑھی ،بسمل اٰلہ آبادی ،ہری چند اختر، ستیہ پال، اختررضوانی، اندرجیت تفنہ،برج ناتھ پرشاد،پنڈت آہن موہن،راجا مکھن لال،پنڈت ہری کشورشرما، لالہ دھرم پال، شکیل امرتسری ، تارا چند تارالاہوری، ہرگوپال تفنہ، پیارے لال رونق دہلوی،ساحر ہوشیار پوری ، پربھو دیال ، عاشق لکھنوی ، عرش صہبائی، لال لال چند فلک ،امر چند قیس جالندھری، اودھے ناتھ نشتر لکھنوی، کالکا پرشاد،ہیرانند سوز،فرق گورکھ پوری ، گوپی ناتھ امن، سادھو رام، منشی شیو پرشاد ، عرش ملسیانی بالمکند،اور مہاراجہ سرکشن پرشاد کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔
مذکورہ شعرا کادربارِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم میں اظہارِ عقیدت اور گلہائے نعت فانی مرداآبادی کی کتاب ’’ہندو شعرا کانعتیہ کلام‘‘ ،نور احمد میرٹھی کی ’’نورِ سخن‘‘ اور ’’بہر زماں بہر زباں‘‘اورراجا رشید محمود کے ماہنامہ’’نعت‘‘لاہور کے خاص نمبر ’’غیر مسلموں کی نعت گوئی‘‘نومبر ۱۹۹۵ء میں دیکھے جاسکتے ہیں۔جب کہ ان شعرا میں سے مشاہیر کا کلام ’’تجلیاتِ سیرت‘‘مطبوعہ فضلی سنزکراچی میںشامل کیاگیاہے۔
ہم اپنے اس مقالے کا اختتام نعت گو ہندو شاعر،ماہرِاقبالیات،معروف محقق اورادیب جگن ناتھ آزاد کے اس سلام پر کرتے ہیںجو ختمی مرتبت محسنِ اعظمِ انسانیت رہبرِآدمیت ، خاتم النبین ، سید المرسلین، حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حضور عقیدت و محبت کا وہ مرقع ہے جو غیر مسلموں کی نعتیہ شاعری میںخاص حوالہ رکھتا ہے ۔
جگن ناتھ آزاد کی نعتوںکا ترجمہ معروف محقق اورسیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم نے اردو سے فرانسیسی زباں میں ’’Hommage A Mahomet‘‘ کے نام سے کیا اوراسے فرانس کے مشہور اشاعتی ادارے ’’Editions Tougui‘‘ پیرس سے شائع کیا۔ غیرمسلموںکی نعتیہ شاعری میں آزاد کے اس سلام کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔
جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں:
سلام اُس ذاتِ اقدس پر سلام اُس فخرِ دوراں پر
ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاںپر
سلام اُس پر جو آیا رحمت اللعالمیں بن کر
پیامِ دوست بن کر صادق الوعد و امیں بن کر
سلام اُس پر جلائی شمعِ عرفاں جس نے سینوںمیں
کیا حق کے لیے بے تاب سجدوں کو جبینوںمیں
سلام اُس پر بنایا جس نے دیوانوںکو فرزانہ
مئے حکمت کا چھلکایا جہاں میںجس نے پیمانہ
بڑے چھوٹے میں جس نے اِک اخوت کی بنا ڈالی
زمانے سے تمیزِ بندۂ و آقا مٹا ڈالی
سلام اُس پر فقیری میں نہاں تھی جس کی سلطانی
رہا زیرِ قدم جس کے شکوہ و شانِ خاقانی
سلام اُس پر جو ہے آسودہ زیرِگنبدِ خضرا
زمانہ آج بھی ہے جس کے در پر ناصیہ فرسا
مدد گار و معاون بے بسوںکا زیرِ دستوں کا
ضعیفوں کا سہارا اور محسن حق پرستوں کا
سلام اُس پر ، کہ جس کے نور سے پُر نور ہے دنیا
سلام اُس پر ، کہ جس کے نطق سے مسحور ہے دنیا
سلام اُس ذاتِ اقدس پر حیاتِ جاودانی کا
سلام آزادؔ کا آزاد کی رنگیں بیانی کا۴۸؎
حوالے
۱…اشفاق ،سید رفیع الدین اشفاق ،ڈاکٹر ،ارود میں نعتیہ شاعری ،کراچی، اردو اکیڈمی ، ۱۹۷۶ء ،صفحہ ۵۶۔
۲…فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر ،اردو کی نعتیہ شاعری ، کراچی ، حلقہ نیاز ونگار، ۱۹۹۸ء ، صفحہ ۲۰۔
۳…محمد اقبال ، ڈاکٹر ،ارمغانِ حجاز،(کلیات اقبال اردو)لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز ،صفحہ ۶۹۱۔
۴…اشفاق ،سید رفیع الدین اشفاق ،ڈاکٹر ،ارود میں نعتیہ شاعری ،کراچی، اردو اکیڈمی ، ۱۹۷۶ء ،صفحہ ۵۸۔
۵…فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر،اردو کی نعتیہ شاعری ، کراچی ، حلقہ نیاز ونگار، ۱۹۹۸ء ، صفحہ ۲۱۔
۶…ریاض مجید ،ڈاکٹر،اردو میں نعت گوئی، لاہور، اقبال اکادمی ،۱۹۹۰ء ،صفحہ ۱۳۔
۷…ایضاً،صفحہ ۱۳۔
۸…ریاض مجید ،ڈاکٹر،اردو میں نعت گوئی، لاہور، اقبال اکادمی ،۱۹۹۰ء ،صفحہ ۱۳۔
۹…فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر،اردو کی نعتیہ شاعری ، کراچی ، حلقہ نیاز ونگار، ۱۹۹۸ء ، صفحہ۲۲۔
۱۰…ریاض مجید ،ڈاکٹر،اردو میں نعت گوئی، لاہور، اقبال اکادمی ،۱۹۹۰ء ،صفحہ۵۶۷۔
۱۱…ایضاًصفحہ ۵۶۷۔
۱۲…ایضاً صفحہ ۵۱۸۔
۱۳…میرٹھی،نور احمد ،نورِسخن، کراچی ، ادارہ فکرِنو ، صفحہ ۴۵۔
۱۴…ایضاً،صفحہ ۵۵۔۵۶۔
۱۵…ریاض مجید ،ڈاکٹر،اردو میں نعت گوئی، لاہور، اقبال اکادمی ،۱۹۹۰ء ،صفحہ۵۷۵۔
۱۶…عرش ملسیانی،آہنگِ حجاز،ص ۷۔دیباچہ مولانا عبد الماجد دریا آبادی ،نیز دیکھیے:ریاض مجید ،ڈاکٹر،اردو میں نعت گوئی، لاہور، اقبال اکادمی ،۱۹۹۰ء ، صفحہ۵۷۵۔
۱۷…نور احمد میرٹھی،نورِ سخن، کراچی ،ادارہ فکرِنو ،صفحہ ۲۱…مزید دیکھیے:بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو ۱۹۹۶ء ، صفحہ ۴۷
۱۸…نوراحمد میرٹھی،بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو ۱۹۹۶ء ، صفحہ۵۳۔
۱۹…ایضاً،صفحہ ۷۰۔
۲۰…ایضاً،صفحہ ۷۲۔
۲۱…ایضاً،صفحہ ۹۳۔
۲۲…راجا رشید محمود،ماہنامہ نعت لاہور ، نومبر ۱۹۹۵ء ،صفحہ۱۸تا۲۱۔
۲۳…ایضاً، ۲۱۔۲۸۔
۲۴…نور احمد میرٹھی،نورِ سخن، کراچی ،ادارہ فکرِنو ،صفحہ۲۸۔
۲۵…محمود راجا رشید،ماہنامہ’’نعت‘‘لاہور کا خاص شمارہ ’’غیر مسلموں کی نعت گوئی‘‘نومبر۱۹۹۵ء،صفحہ ۲۱۳۔
۲۶…نور احمد میرٹھی،نورِ سخن، کراچی ،ادارہ فکرِنو ،صفحہ۱۰۴۔
۲۷…ایضاً،صفحہ ۲۸۔
۲۸…ایضاً،صفحہ ۲۸۔
۲۹…ایضاً،صفحہ ۲۸۔
۳۰…فانی مرادآبادی ،ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ،لائل پور ،عارف پبلی شنگ ہاؤس،صفحہ ۱۲۵۔
۳۱…فانی مرادآبادی ،ہندوشعرا کانعتیہ کلام ،صفحہ ۳۵۔
۳۲…نور احمد میرٹھی،نورِ سخن، کراچی ،ادارہ فکرِنو ،صفحہ۲۹۔
۳۳…اشفاق ،سید رفیع الدین اشفاق ،ڈاکٹر،ارود میں نعتیہ شاعری ،کراچی، اردو اکیڈمی ، ۱۹۷۶ء ،صفحہ ۴۹۱۔
۳۴…ایضاً/صفحہ ۴۹۱۔
۳۵…شاد ،کرشن پرشاد ،ہدیۂ شاد،مطبوعہ ۱۳۲۶ھ ،صفحہ ۱۹۵۔مزید دیکھیے :اشفاق ،سید رفیع الدین اشفاق ،ڈاکٹر،ارود میں نعتیہ شاعری ،کراچی، اردو اکیڈمی ۱۹۷۶ء ،صفحہ ۴۹۳۔
۳۶…فانی مرادآبادی ،ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ،لائل پور ،عارف پبلی شنگ ہاؤس،صفحہ۱۲۶۔
۳۷…فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر،اردو کی نعتیہ شاعری ، کراچی ، حلقہ نیاز ونگار، ۱۹۹۸ء ، صفحہ ۹۱۔
۳۸…فانی مرادآبادی ،ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ،لائل پور ،عارف پبلی شنگ ہاؤس،صفحہ۱۳۲۔،میرٹھی، نور احمد،بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو ۱۹۹۶ء ، صفحہ۷۳۴۔
۳۹…فانی مرادآبادی ،ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ،لائل پور ،عارف پبلی شنگ ہاؤس،صفحہ۱۴۳،میرٹھی، نور احمد،بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو ۱۹۹۶ء ، صفحہ۷۳۵۔
۴۰…میرٹھی، نور احمد،بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو،صفحہ ۶۶۰۔
۴۱…فانی مرادآبادی ،ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ،لائل پور ،عارف پبلی شنگ ہاؤس،صفحہ۲۲،میرٹھی، نور احمد،بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو ۱۹۹۶ء ، صفحہ۶۶۱۔
۴۲…نوراحمد میرٹھی،بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو ۱۹۹۶ء ، صفحہ۶۶۵۔
۴۳…نوراحمد میرٹھی،بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو ۱۹۹۶ء ، صفحہ۳۹۵۔
۴۴…میرٹھی،نور احمد ،نورِسخن، کراچی ، ادارہ فکرِنو ، صفحہ ۱۰۳۔،محمود راجا رشید،ماہنامہ’’نعت‘‘لاہور کا خاص شمارہ ’’غیر مسلموں کی نعت گوئی‘‘نومبر۱۹۹۵ء، صفحہ ۱۳۵۔
۴۵…محمود راجا رشید،ماہنامہ’’نعت‘‘لاہور کا خاص شمارہ ’’غیر مسلموں کی نعت گوئی‘‘نومبر۱۹۹۵ء، صفحہ ۲۷۹۔،نوراحمد میرٹھی،بہرزماں بہر زباں/کراچی ،ادارۂ فکرِنو ۱۹۹۶ء ، صفحہ۷۶۶۔
۴۶…نوراحمد میرٹھی،بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو ۱۹۹۶ء ، صفحہ۴۸۹،نور احمد میرٹھی،نورِ سخن، کراچی ،ادارہ فکرِنو ،صفحہ۱۱۷۔
۴۷…فانی مرادآبادی ،ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ،لائل پور ،عارف پبلی شنگ ہاؤس،صفحہ۲۳،میرٹھی، نور احمد،بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو ۱۹۹۶ء ، صفحہ۴۹۔
۴۸…فانی مرادآبادی ،ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ،لائل پور ،عارف پبلی شنگ ہاؤس،صفحہ۲۷،نور احمد میرٹھی،نورِ سخن، کراچی ،ادارہ فکرِنو ،صفحہ۳۸۔۳۹۔
٭٭٭