You are currently viewing ہیئت اور ناول نگاری : ایک جائزہ

ہیئت اور ناول نگاری : ایک جائزہ

ڈاکٹر محمد نورالحق

شعبۂ اردو

بریلی کالج، بریلی

 

ہیئت اور ناول نگاری : ایک جائزہ

 

عموما فن زندگی کا نقشہ ایک خاص طریقے اور خاص شکل میں پیش کرتا ہے۔ کیوں کہ بغیرکسی مخصوص شکل یاطریقے  کے زندگی کا نقشہ کھینچا ہی  نہیں جاسکتا۔ ناول کا فن بھی زندگی کی پیشکش سے عبارت ہے اس لیے اس کی بھی کوئی شکل یا کسی نہ کسی طرح کی ہیئت ہوتی ہے۔ مگر ناول کی ہیئت کے اصول اس طرح نمایاں نہیں ہیں جس طرح کے دوسرے فنون لطيفہ مثلاً شاعری، مصوری اور بت  تراشی وغیرہ میں ہوتے ہیں ۔ اس لیے ناول کے باب میں لفظ ہیئت کچھ مختلف معنی رکھتا ہے۔

ناول میں ہیئت سے مراد وہ شکل ہے جو ناولوں کا مواد اختیار کر لیتا ہے۔ ناول نگار اپنے مواد کے ہر حصے (فقرے، جملے، مناظر، واقعات وغیرہ) کوایک خاص ترتیب کے ذریعے پیش کرتا ہے تاکہ یہ سب مل جل کر اس متحدہ اثر کو قائم کر سکیں جو وہ اپنے ناول کے ذریعے قائم کرنا چاہتا ہے۔یہ ناول نگار کا اہم خیال ہوتاہے جو اس ناول کی ہیئت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ ناول متعدد خیالات کا ایک سلسلہ پیش کرتا ہے جن میں تخیلی افراد واقعات سے اثر پذیر ہوتے ہوئے یا واقعات کو متاثر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ وہ شکل ہیں جو ناول کے ادائے خیال کا فر یہ ہوتا ہے۔ ناول نگار اسے اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ اس کا خاص خیال آسانی سے ادا ہو جائے ۔ اس کی ساری جدوجہد اس بات کی طرف زیادہ ہوتی ہے کہ قصہ کی بناوٹ میں ان ہی جگہوں اور افراد پر زیادہ روشنی پڑے جو اس کے مجموعی خیال میں زیادہ سے زیادہ مددے سکیں۔ اس کے موضوع کا یہی فکری اورفنی تانابانا، ان کی ہم آہنگی اور ارتباط اس کے ناول کی ہیئت کاتعین کرتے ہیں۔

لیکن نہ دنتال کی ہیئت کی کوئی جامع تعریف ہی ممکن ہے اور نہ ہی ناول کی ہیئت کے اصول یا تکنیک کی کوئی حد بندی کی جاسکی ہے۔ حالاں کہ بعض لوگوں نے ڈرامائی تکنیک کومدنظر رکھتے ہوئے ناول کی ہیئت کی تکنیک کی بھی تعریف کی ہے مگر وہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناول دوسرے فنوں کے مقابلے میں زندگی سے اس قدر زیادہ قریب ہے کہ تکنیک کی خرابی کا خیال نہ تو ناول نگار کو اور نہ ہی ناول وہ پڑھنے والوں کو پریشان کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تکنیکی خرابی کے باوجود اکثر ناول بڑے اعلی پائے کے سمجھے جاتے ہیں ۔ ایک غلط بھی ہوئی تصویر کو آنکھ فورا جھینپ جاتی ہے مگر ساخت کی خرابی کے باوجود اعلىٰ ناول کو نگاہ سے گرانے کے لیے ہم تیارنہیں ہوتے۔

 باوجود اس کے کہ ہم ناول کی ہیئت کی جامع تعریف نہ کرسکیں یا اس کے اصول متعین نہیں کیے جاسکتے تاہم ناول میں چیزوں کاواقع ہونا لازمی ہے اوریہ کسی مخصوص ترتیب میں ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔تشکیل یا بناوٹ کی صفائی اور ستھرے پن کونظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بناوٹ کی شستگی اور صفائی کسی ناول کو بڑا ناول نہیں بناتی ۔ جس طرح کہ بہترین لباس سے مزین کوئی ضروری نہیں ہے کہ بڑی شخصیت کا بھی مالک ہو۔ اسی طرح کسی بڑےناول کے لیےبہترین ساخت یا شستہ بناوٹ کاہونا ضروری نہیں ہے۔ بہت سارے ناول جنہیں بہترین ساخت یا اچھی بناوٹ کے صفات عطا کیے گئے ہیں غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ کمز ور تخلیل اور مجہول اذہان کے پید اور ہیں ۔ اس لیے بھی نہیں کہا جاسکتا کہ بڑا ناول نگار ہی اچھی ہیئت کا ناول تخلیق کر سکتا ہے۔ ناول کی تشکیل میں صاف ستھرے پن کے مذاق نے ناول میں ہیئت کی تحریک چلا دی۔ یوروپ میں انیسویں صدی کی آخری دہائی میں اس نے ناول کو پورے طور پر اپنے حصار میں لے لیا ۔ یہ تحر یک ۱۸۵۸ء میں مختصر افسانے میں شروع ہوئی تھی لیکن بہت جلد اس نے ناول کو اپنے چپیٹ میں لے لیا اور تحریک اچھی ساخت کے ناول پیدا کرنے پر نازاں بھی ہے۔

ہیئت  اور ناول نگاری پر بحث کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ناول کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے ۔ ناول کی ابتدا پر غور کرنے سے معلوم ہوتا  ہے کہ شروع میں ناول کی ہیئت داستانوں کے قریب تھی۔ لیکن سروانٹس (CERVANTES) کا ’ڈان کوٹکرونٹ (Don Quixot) جسے دنیا کا پہلا ناول کہلانے کا فخر حاصل ہے سترہویں صدی  کی ابتدا میں ۱۶۰۵ء  کے لگ بھگ ایسانمو نہ پیش کرتا ہے جو ناول  کے فن پر پورا اترتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ناول کے فن کا جولائحہ عمل ہے وہ اسی ناول سے تیار کیا گیا ہے جس کو تکمیلیت بخشنے کا  سہرا فیلڈنگ(Fielding) کے سر جاتا ہے۔ جس نے تقریباً ایک صدی کے بعد سروانٹس کے طرز کی پیروی کرتے ہوئے اپنا ناول ’ٹام جونز‘ (Tom Johns) پیش کیا جس میں قصہ کی ہیئت کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے۔ فیلڈنگ نے اپنے فن کی ایک جامع تعریف بھی پیش کی ۔اسی نے ناول کو ’نثر میں ایک طربناک رزمیہ‘‘ بھی کہا۔ میرے خیال میں ناول کا فن اپنے عناصر ترکیبی جسے ظاہری ہیئت کہہ سکتے ہیں کہ لحاظ سے فیلڈنگ کے یہاں مکمل شکل اختیار کر چکا تھا۔ اسی نے ناول نگاری کا وہ ہیولیٰ دیا جس پر روس، فرانس، اور انگلینڈ نے اپنے کمال کی جوہری ملمع کاری کے ذریعے اس فن کو انیسویں صدی میں کمال تک پہنچایا۔

انیسویں صدی میں ناول کی ہیئت میں تنوع بھی نظر آتا ہے۔ انگلینڈ، روس، اور فرانس کے ساتھ امریکی ناول نگار بھی ناول کی ہیئت کی طرف متوجہ ہوئے انگلینڈ میں اس زمانے کے اہم ناول نگاروں میں جین آسٹین ، ڈکنس تھیکرے، میربڈتھ  اور ہارڈ ی وغیرہ نے ناول کی ہیئت کو خاص طور پر متاثر کیا۔ آسٹین نے ناول کی ڈرامائی ہیئت پیش کی تو ڈکنس نے کرداری ہیئت کو اپنایا۔ ٹھیکرے نے واقعاتی ہیئت کی خصوصیات سے کام لیا تو میریڈتھ نے ’Story tells itself‘ کے ذریعے ایک نیا فارمولا ایجاد کیا۔ لیکن ان میں ہارڈی کو کہا سب سے نمایاں حیثیت اس لیے حاصل ہے کہ اس نے ناول کی ہیئت میں تو اضافہ کیا ہی ساتھ ہی ساتھ اس کے حصہ میں یہ مقولہ بھی جا تا ہے کہ  اس نے ناول کو ’طربیہ رزمیہ سے‘ مکمل رزمیہ بنادیا۔ جوزف دارن بیچ  (Joseph warren Beach) نے لکھا ہے کہ

“There has never been a novelist so sensitive to impressions of sight and hearing, one who renders them with so much precision and at the sametime with such regard for the total esthetic of the scene or object rendered, its harmonious relation to the emotions involved….. and such a combination. So rare, if not unique in fiction is what gives hardy his superiority over many a novelist with greater endowments in other directions.” (1 Page – 141 The twentiith century Novel)

ناول کی ہیئت کو فرانسیسی ناول نگاروں نے بھی اپنے طور پر بہتر  فن کاری کی مثال قائم کی۔ ان میں ڈوما، ہیوگو، اسٹنڈل، بالزاک، فلابیئر – زولا اور موپاساں کو کافی اہمیت حاصل ہے فن کاری کے سلسلے میں فرانسیسی ناول نگاروں نے انگریزی ناول نگاروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ’’ہیئت کا فرانسیسی مفہوم (French sense of Form) آج بھی لوگوں کو چونکا دیتا ہے۔ بالزاک کرداری ناول کی  ہیئت د میں ڈکنس سے  آگے بڑھا ہوا ہے تو پوپاسا ں کو اسلوب نگاری کے ذریعے ڈرامائیت پیدا کر کے ہیئت میں جدت لانے والا کہا جا تا ہے۔ زولا کو انسانی دستاویز پیش کرنے کی طرف متوجہ بتایا جاتا ہے تو فلا بیئر کو سائنسی حقیقت نگاری کی ذریعے ہیئت کا ایک ریاضیاتی فارمولا پیش کرنے والا غرض  فرانسیسی ناول نگاروں کی ہیئت کی نیرنگی نے ناول کو اعلی فن کاری کے معاملے میں ایک قدم اور آگے بڑھایا۔

روسیوں نے بھی ہیئت کے نقطہ نظر سے فن ناول نگاری کو بہت کچھ دیا۔ بلکہ  اس زمانے کا دنیا کا سب سے بڑا ناول نگارٹالسٹائی  وہیں پیدا ہوا۔ جس کے ناول کو بے ہیئت تو کہا گیا لیکن اس کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں واقع ہوئی ہے۔ اس  کے ساتھ ہی گوگول، ترگنیف اور دستوسکی کو بھی کای  اہمیت حاصل ہے۔ دستووسکی کو دنیا کے بڑے ڈرامائی  ہیئت کے ناول نگاروں میں مقام دیا جا تا ہے اس نے اپنے ناول ’کرائیم اینڈ پنشمنٹ‘ “Crime and Punishment”میں ڈرامائی ہیئت کو تمام خوبیوں کے ساتھ برتا ہے۔ جوزف وارن بیچ نے لکھاہے کہ

“No serious novelist has gone so far to meet the conditins of dramatic fiction as Dostoevsky and among the many reasonse for his effectiveness this is one of the most important”. (1Page 163 i bed)

انیسویں صدی میں ہندوستان میں خاص طور سے ہمارے ادب میں ناول نگاری کی ابتدا ہوئی ۔ وہ بھی آخری نصف حصے میں جب کہ  ناول نگاری کا فن ڈھائی سو سال کا ایک طویل عرص مکمل کر چکا تھا۔ لیکن بہت قلیل مدت میں ہی ہمارے ادب نے اس مخصوص صنف کےاصول و تکنیک کے ذر یعے ناول کی ہیئت کا فن کارانہ نمونہ پیش کر دیا۔ ظاہر ہے ابتدا میں داستانوں کی ہیئت سے متاثر ناول ہی ملتے ہیں ۔ جنہیں بعض حضرات ناول تو کیا  ناول کا پیش رو کہنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ادب میں یہ فن اس زمانے میں آیا جب ہمارے تہذیبی اقدار کے ساتھ ساتھ ادبی قدر یں بھی بدل رہی تھیں ۔ ادبی اور تہذیبی اقدار میں جو گہری ہم آہنگی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر غور کیا جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آیا نذیر احمد انگریزی ناول کے فن سے پوری طرح واقف بھی ہوتے تو اس فن کو پوری پوری طرح سے برتنے سے عاجز رہتے کیوں کہ  اس قوت کا مزاج اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ بہر حال شرراور سرشار نے اس فن کو  کافی حد تک آگے بڑھایا۔  انیسویں صدی کے آخری وقفے میں رسوا نے اپنے شاہ کار ’امراؤ جان ادا‘ کے ذر یعے اردو ناول کی ہیئت کو  وہاں پہنچا دیا جہاں عالمی ادب میں ناول کی ہیئت اپنے ارتقا کی دوسری منزل میں قدم رکھ رہی تھی۔

ہیئت کے لحاظ سے ناول نگاری کی اس منزل کو سب سے زیادہ اہم مانا جاتا ہے کیوں کہ اس منزل میں ناول کو بھی دوسرے فنون لطیفے کی طرح بہترین فن کاری کا نمونہ بنانے کی ہرممکن کوشش ہوئی۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت ہنری جیمس کو حاصل ہے جس نے موجودہ ہیئتوں میں ردوبدل ہی نہیں کی بلکہ عملی طور پر اپنے ناولوں میں ان کا تجزیہ  بھی کیا۔ ہنری جیمس کے خطوط کے مرتب نے لکھا ہے کہ

“Henry james thinks of his fiction as a series of experiments of fórm.

1P 193 HJL ( Henry James Letter)

جیمس کے پیروکار جنہیں مقلدین کہنا چاہیے اتنے ہوئے کہ انہیں Jamsion School کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ جنہوں نے ناول کی ہیئت کے اصول و تکنیک کو اپنا کرناول کی ساخت کو بہترین شکل عطا کیا۔ ہنری جیمس نے ناول کی ہیئت کی اپنے طور پر تو جیہ بھی کی یہاں اس بات کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ ہنری جیمس خودبھی فرانسیسی ناول نگار پراؤسٹ سے بہت متاثر تھا۔ چناں چہ اس کی ہیئت میں پراؤسٹ کی جھلکیاں ہی نہیں ملتیں بلکہ پراؤسٹ کی تکنیک نے مل کر بیس کے ناولوں کی ہیئت کو سنوارا۔ اسی طرح ہنری جیمس کی ہیئت کا اثر انگلینڈ کے جوائس وغیرہ پر بھی کافی ہوا۔

ہنری جیمس کے ساتھ ہی Verginia Woolf, DOS Passos, Dorothy Richardson, J. Joyce, D.H.Lawrence, Joseph Conrad وغیرہ نے بھی ہیئت کے تکنیک اور اصول کے ساتھ ساتھ خود ہیئت کے تجربے بھی کیے۔ جوزف وارن بیچ نے لکھا ہے کہ

They have taken their start at the point where james left off, and they have carried the process further.

(Page 7 The twentieth century novel)

اس عہد میں بہت سارے تجرباتی نوعیت کے ناول لکھے گئے جس میں سے کچھ تو Jamsian School کے پیرو کار کی حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ اس کے مخالفین میں سے ۔ بیسویں صدی کی دوسری  بلکہ تیسری دہائی کی ابتدا سے ہی جیمس  سے مختلف ناول نگاری کی ابتدا ہوئی جس طرح جیمس کی ناول نگاری کی تھیگرے اور ڈکنس سے مختلف تھی۔ غرض تکنیک و اصول کامل وقت کے ساتھ چلتا ہے اور وقت کی تبدیلی کے ساتھ نیک اور اصول ہیئت کو تبد یل کرتے رہتے ہیں۔

وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نئے تکنیکی آلات کی کھوج ہوتی ہے اور ان کا تجربہ بھی ہوتا ہے۔ بعد میں آنے والوں کے لیے ایک سہولت یہ ہوتی ہے کہ اسلاف کے نمونے ان کے لیے رہبری کا کام کرتے ہیں ۔ یہ نئے فن کاروں کے اوپر ہے کہ اسلاف کی کامیابی اور ناکامی سے وہ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ ان کے سامنے بہت سارے فن کارانہ طریقہ ٔکار ہوتے ہیں اور جو ان کی ضرورت کیے لیے موزوں ہوتا ہے اسےنئے فن کار چن لیتے ہیں ۔ وہ رجحان جس نے انیسویں صدی کے آخری مرحلے میں اور بیسویں صدی کے اوائل میں بہترین ہیئت کا ناول  پیدا کیا اور پھر ۱۹۲۰ء سے ہی ان بہترین ہیئتو کی مخالفت شروع ہوئی اس کی وجہ ہم تبھی جان سکتے ہیں جب ہم فن کاروں کے نقطۂ نظر سے واقفیت حاصل کر لیں ۔ ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ آخر اسلاف کے کارناموں میں وہ کیا ہیں جو نئے فن کاروں کو مطمئن نہیں کرتے۔ اور جو تبدیلیاں وہ لانا چا ہتے ہیں وہ کیا ہیں ۔ وہ کون سی ترقیاں ہیں جن کی بہتری کے لیے وہ کوشاں تھے۔

ناول کی ہیئت کا انحصار ناول نگار کے ایپروچ(Approach) پر ہے۔ بہت سے ناول نگار اپنے فلسفہ سے مطلب رکھتے ہیں اور اس کی تبلیغ ہی ان کا مقصد ہے۔ وہ کہا نیت یا افسانویت کی طرف سے لا پرواہ ہوتے ہیں ۔ قارئین کی دیوی کو ضرور وہ مدنظر رکھتے ہیں لیکن چوں کہ ناول کو دہ صرف استعمال ہی اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی ساری معنویت کے فلسفہ کولوگ نگل سکیں تو وہ فن کاری کے راستے سے بھلتے ہی نہیں بلکہ ان کی ناول نگاری کچھ اور معلوم ہونے لگتی ہے ۔ حالاں کہ  ناول نگار کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ ناول کے ذر یعے جو بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں کر سکتے ہیں لیکن اس کی تھوڑی سی لغزش فن اور فلسفه کی تفریق کو نمایاں کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے اور ان کا ناول پرو پیگنڈا کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ یہاں ناول نگار فلسفہ اور فن دونوں کے مقصد (End) کو شعوری یا لاشعوری طور پر اگر نظر انداز کر دیتا ہے تو گڈمڈ ہوجاتی ہے ۔ فسانے کا بنیادی مقصد انسانی فطرت کا ایک مضبوط مطالعہ (A concrete study of human natus) بتایا جاتا ہے اور شاید اس پہلو سے کسی ماہر ادب کو انکار نہیں ۔ فسانے کا یہ مقصد ہر طرح کی ناول نگاری میں ہوتا ہے۔ چاہے ناول حقیقت پسند ہو، رومانیت سے بھر پور ہو، عینی نظریات پینی ناول ہو یا پھر اسٹر کے لفظوں میں انتظامی اور پرویسی کے نقطہ نظر پر مبنی ہو۔

جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کفن میں زندگی کا نقشہ ایک خاص طریقہ اور خاص شکل میں ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ فسانے کی تشکیل میں بھی کچھ مخصوص طریقۂ کار اختیار کیے جاتے ہیں ان طریقۂ کار سے منسلک مختلف طرح کے تاثرات بھی ہوتے ہیں۔ جنہیں تکنیک و اصول کہنا چاہیے ان تکنیک سے مناظر کی تصویر کشی کی جاسکتی ہے اور ہم یہ کہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ طرح طرح کے فن کارانہ رجحان سے کن کن  طریقۂ کار کا استعمال کر کے کیا کیا حال کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے بھی ہم کو فلسفیانہ پس منظر کودکھا نا ہوگا تو کبھی  زمانے کے مزاج کو کیوں کہ اس کا تعلق جذ بہ یا مقصد (Intention) سے ہے اور مقصد ہی تکنیک کو تعین کرتے ہیں ۔ کیوں کہ جو ائس کی تخلیق میں مختلف طرح کی نفسیات کا استعمال ہوتا ہے تو ایڈتھ کے یہاں کچھ اور ۔ اسی طرح جارج ایلیٹ اور ڈوس پسوس اور مختلف سماجی کجرویوں Slant)) کا  استعمال کرتے ہیں۔

ماضی میں ایسے ناول نگاروں کی بہتات ہے جنہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ انسانی فطرت کی صرف ڈرامائی تصویر نہیں کھینچی ہے بلکہ ناول کو زندگی کے فلسفے کی تبلیغ کا  ذریعہ بنانے کے لیے مجبور ہوئے ان میں وکٹوریو گو رو مین رولاں اور ا پچ جی ویلس وغیرہ کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ اٹھارہویں صدی میں ناول نگاروں پر فلسفہ کا بھوت سوار تھا۔ اس زمانے میں فلسفیانہ ناول بہت لکھے گئے ۔ ناول اپنے آپ کو فلسفہ سے الگ کرنے میں ناکام رہا لیکن فلسفی ناول نویسی میں بہترین قشہ نویسی کی خصوصیت نے مصنف اور قاری دونوں کو مغالطے میں رکھ چھوڑا تھا اور ناول نگاروں نے اپنا ساراز در سادگی ، اقتصادی اور سیا کا نقطہ نظر کی پیشکش پر ہی صرف کیا ۔ اس سے ہرگز اندازہ نہیں کیا جا سکتا کفن میں فلسفہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ یہاں بھی تو فلسفہ ہی ناول کو اعلی درجہ پر پہنچا دیتا ہے جس کی مثالیں بھری پڑی ہیں ۔ پھربھی فلسفہ کی پیشکش کے لیے کہانی کو صناعی سے (Artificially) تشکیل دیا اور فلسفہ کوزبردستی ٹھونسنا یا اس کے لیے کردار وضع کرنا ناول اور ناول نگار دونوں کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ فسانے میں تاریخی اور فلسفیانہ مواد سے فسٹانوی فن کی پیچیدگی میں رخنے پیدا ہو جاتے ہیں ۔ حالاں کہ اس طرح کے ناول سے بہت سارے دلچسپ واقعات اور معلومات کی فراہمی ہوتی ہے پھر بھی انہیں ناول نگاری کے بجائے کچھ اور ہی کہنا چاہیے۔

فن کار کا جو تصور عام طور پر ہمارے ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ فن کار ایک ایسا شخص ہے جو دوسروں کو متوجہ کرنے کے لیے چیزوں کو بناتا ہے۔ جن کاتعلق پڑھنے سننے، دیکھنے یا اسی طرح کی کسی اور بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس فن سے دوسرے مقاصد کو بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔ ایک ناول نگار بھی ایسی تخلیق پیش کر سکتا ہے جس میں اس کا مقصد دل کی بھڑاس نکالنا ہو، ساتھیوں کی مخالفت پر طنز کرنا ہو اپنے بینک اکاؤنٹ کا حساب کرنا ہو یا پھر اپنی روح کی تفتیش کرنا بھی اس کا مقصد ہوسکتا ہے ۔ لیکن یہ ساری چیز یں حادثاتی ہوتی ہیں فن کا مقصد نہیں۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ تخلیل نفسی یا نفسیاتی تجزیہ اور ذاتی تجزیہ نہیں ہے جب کہ یہ دونوں چیزیں فن کو ضرور چھوسکتی ہیں اس طرح فن نہ فلسفہ ہے اور نہ ہی انجینئرنگ جب کہ یہ دونوں بھی فن کو چھو سکتے ہیں اور بہت قریب سے چھو سکتے ہیں لیکن ایک ناول نگار سے ہم کوزه گری کی توقع نہیں کر سکتے۔

فن کاری میں جب چیزوں کے سطحی بیانات سے الگ معروضی گہرائی (Detail) کے ذر یعے کسی منظر یا کردار کی انفرادیت کا اظہار ہوتا ہے اوران کی ترجمانی بالواسطہ طور پر اپنے روحانی اقدار تک بن جاتی ہے تب فن فن ہوتا ہے۔ یہ بہت کم ناول نگاروں کو میسر ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی جزئیات کی گہرائی میں جاکر اپنا وقت صرف کریں لیکن جو فن کار معروضی گہرائی و گیرائی (Detail) اور موضوعی تفاوق (Descrimination) کو مضبوط بناتے ہیں وہ سائنس داں اور فلسفی دونوں کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی حیثیت گہرے انسانی تخلیق پیش کرنے والوں کی ہو جاتی ہے کیوں کہ وہ ظاہری طور پر نظر آنے والی انسانی خصوصیات کے پیچھے جومخالف اور متضاد عوامل عمل پیرا ہوتے ہیں ان کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اور انسانوں کی اس تفریق کو جو اسے پروٹو پلازم کا مجموعہ بنا تا ہے اس سے آگے نکل جاتے ہیں۔

ناول نگاری کے فن میں ہیئت کی شستگی کی تحریک کا ذکر آ چکا ہے۔ اس تحریک کے ایک طرف ناول کو تاریخی واقعہ نویسی  اور فلسفیانہ مضامین کے طریقۂ کار سے الگ کر کے ایک ممتاز ادبی صنف بنانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی عہد وکٹوریہ نے جو اس صنف کوشش نفرت کا ذریعہ بنادیا تھا اس سے مختلف بھی کیا۔ اب ناول نگاروں کا مطمح نظر یہ بنا کہ ایک مخصوص موضوع، جس کی تجسیم ڈرامائی حالت میں ہوجس کا بغیر کسی رکاوٹ بامداخلت کے منطقی ارتقا ہو اور جو اختتام تک لازمی طورپر پہنچ جائے ۔ جوزف وارن کے لفظوں میں

“A single subject embodied in a dramatic situation, developed logically, without interference, to its inevitable conclusion – this was their idea of a novel. And in pursuance of this idea, great gains were made in the art of novel writing.”

(1 Page 307.The twentieth Century Novel)

فن ناول نگاری میں یہ نقطۂ نظر جو ائس کی یولی سس (Ulysses) کی اشاعت کے ساتھ ہی زور پکڑ لیتا ہے۔

دوسری طرف ناول سے مزاح ، بذلہ سنجی  اور ہمدوری (Geniality) کوختم کرنے کا رجحان عام ہوا تا کہ ناول کو ہیئتی طور پر بہترین بنایا جا سکے۔ کیوں کہ اس زمانے کا ذہن بلکہ جسے روح کہنا چاہیے عام طور پر متحیر و پریشاں (Bewilderment) اورطلسم وسحرکو توڑ دینے والی(Disillusioned) ہو چکی تھی ۔ مزاح و فلسفہ اور ہمدردی وملنساری کے لیے ظاہر ہے کہ ان میں کچھ مفروضات قائم کرنے پڑتے تھے اور ان مفروضات کو یہ تسلیم کرنے کے لیے کچھ خاص اصول بھی بنانے پڑتے تھے جب کہ قدیم مفروضوں پر سے یقین اٹھتا چلا جارہا تھا تو پھر ایسے حالات میں مفروضے قائم نہیں کیے جاسکتے تھے۔ لہذا ناول سے ایسے تمام عناصر کو نکال پھینکنے کی ترغیب دی جائے گی جو بذات خود اچھے تو تھے لیکن جن کا خصوص مسئلے میں کوئی خاص مقام نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک عام رجحان پیدا ہو گیا کہ اسپنج (ناول) کو نچوڑ ڈالو اور اسے سوکھنے کے لیے چھوڑ دو، (پچھر نے طرح سے استعمال کرو) اب ایسے ناول نگاروں کو سراہا جانے لگا جنہوں نے مزاحیہ عناصر اور ہمدردان فلسفہ کی عدم موجودگی میں ناول کی ہیئت میں شستگی کا خیال رکھا۔

ناول کی ہیئت میں شستگی ورنگی کی جڑیں انیسویں صدی میں ہی مضبوط ہو چکی تھیں بیسویں صدی میں اور آگے بڑھنے کی کوشش ہوئی۔ اب ناول نگاری میں ہیئت کا مسئلہ نہیں بلکہ ’ہیئت‘ شاید اس لفظ کا استعمال اس طرح نہیں ہوتا لیکن میری مجبوری ہے کہ مجھے لفظ (Formalization) کے لیے یہی بہتر لگا یعنی ہیئت کی تشکیل کے مسئلہ نے بہت زیادہ پریشانی میں مبتلا کیا ۔ کیوں کہ اب ناول میں بالکل محدود اور کسا ہوا پلاٹ کا چلن ہوا۔ ہر اس چیز کو جو موضوع (Theme) سے بالواسطہ تعلق نہیں رکھتی تھی اس سے۔ پرہیز لازمی ہو گیا۔ موضوع کی قدیم عینی تعریف و تشریح سے گریز کرنا تھا۔ قصہ و کہانی کی عدم موجودگی دوسری پریشانی تھی۔اب سب کچھ محض کردار اور اس کے عادات و خصائل پر منحصر ہوا۔ اس کی روح میں ہی دلچسپی کی بنیاد فراہم کی جانے لگی اور اسی کی روح کے ذر یعے کہانی کے عمل کا تعین کیا اندر جانے لگا۔ روح کی توضیح تشریح  کے سلسلے میں جوزف وارن یہ لکھتے ہیں کہ

“Souls is crystallized like particles of some chemical along the slender threads of the sharply defined dramatic situation.”

(1page 319 The twentieth century novel)

اس تصور کو ناول کے ہیئتی تصورات کی کلاسیکی روح سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

( Clsssical spirit of the formal conception of the novel )

کلاسیکی معنی (Spirit) میں وضاحت ، سہل پسندی اور تعریف وتشریح کا نمایاں طور پر جھکاؤ نظر آتا ہے۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ساخت کے اعتبار سے اچھے ناولوں میں روح کی تشریحات کے لیے تعقلی او منطقی شعبہ ہی عمل پیرا ہوتا ہے ۔ کرداروں کی روحانی صورت حال کا بیان علمی اصطلاحات میں منظم (Conduct) کی جاتی ہیں اور جذباتی اصطلاحات ,Formalized) (intellectutalized کے نظریے میں کرداروں کی تعریف وتشرت کی جاتی ہے اس کلاسیکی اسپرٹ (Spirit) نے بہت سے اچھے ناول مثلاً  Mrs, Dallowy, Pilgrimage, women in love, Ulysses وغیرہ تو ضرور دیے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہیئت کی شستگی کے خلاف ردعمل کا بیج  بھی بوڈالا۔ کیوں کہ ناول کی ہیئت میں شستگی و صفائی کے لیے انہوں نے روح کی تشریح کئی طرح سے کی ۔ اور اس عمل میں خودروح کے بہت سے حصے الگ ہو گئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ تشریح وتعریف کا خطاب حدود قائم کرنا ہوتا ہے۔ اور اگر حدود کو زیادہ دور تک لے جایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے کمزور اور غریب کیا جارہا ہے اور اس کے رنگ وروغن، جوہر میں تخفیف کی جارہی ہے اور زندگی کی رنگینی کو ختم کیا جارہا ہے۔ بہترین ہیئت کے خلاف ریمل کے پس پردہ ہی محرکات (Motives گل پیرا تھے۔

ناول کی ہیئت میں بہتری کے مخالف یا جسے ریمل کہنا چاہیے نے انتہائی حقیقت پسندی کے رجحانات کوجنم دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں اس کا زیادہ بول بالا رہا جہاں سے ہیئت کی بہتری کی تحریک چلی ۔ در اصل امریکہ میں بہترین ہیئت والے ناولوں میں لازمی طور پر زیادہ تر اوقات انسانیت کا اچھے شریفانہ ذوق کے نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جاتا رہا۔ اور زیادہ تر ناول اچھے ان کے حدود میں ہی رہے۔ جب کہ دوسری طرف دیہاتی زندگی کی رسم و رواج کی عکاسی میں زیادہ تاز یا انسانی تجربات کی وسعتوں کی جھلکیاں ناول پیش کرتا ہے۔ شعوری طور پر وہاں دیہاتیوں کی زندگی کو اس طرح دکھایا جانے لگا تھا کہ وہ کئی پشتوں اور خاندانوں کی قسمت اور حاصل کی ہوئی دولت پر قائم ہیں ۔ اور شرفا کی زندگی کی عکاسی کرنے والے ناولوں میں دولت اور سماجی حیثیت کی حقیقت ہی تسلیم نہیں کی جاتی تھی بلکہ دولت اور حیثیت سے ہی کہانی کی ابتدا بھی ہوتی تھی ۔ دولت و ثروت اور سماجی حیثیت کے سہارے مخصوص کمیت کی نفاست وشائستگی کا تصور ، باترتیب سماجی اور ایک متعین شخصی اور ذاتی سلوک کا درجہ بھی ناول میں جگہ بنا چکا تھا۔اس کی زبردست مخالفت ڈریزر (Dreiser) نے کی۔ اس نے امریکی ناول نگاروں کی پیروی کرنے کے بجائے اپنے ناول کے نمونے کےلیے بالزاک اور بعد کے فرانسیسی فطرت نگاروں کو چنا۔اس نے ٹولی اور جتھے کے نقطۂ نظر سے سماج کا مشاہدہ کے بجائے ایک وسیع اور مضبوط سماجی اکائی کا سائنسی اور پارکھی نظروں سے مطالعہ کیا۔  ڈریزرنے انسانی خصوصیات کو عام طور پر ایک جاندار کی خصوصیات(Animal behaviour) کے طور پر پیش کیا۔ جسے وہ اکثر واقع ہونے والی اصطلاح میں کیمیائی مظہر کہتا ہے۔

ہیئت کے نقطہ نظر سے ناول نگاری کے فن میں ایک اور تبدیلی والے ناول نگار (Transitional novelies) کا وقفہ آتا ہے۔ جس میں جوزف کانراڈ، ڈورتھی رچرڈسن اور لارنس کا نام اہم ہے۔ کا نراڈ کو سب سے بڑا تجرباتی مانا جاتا ہے۔ اس نے پہلے سے متعینہ کہانی کے طریقہ کو رد کیا، کرداروں کی تشریح و تجزیہ کے مروج طریقۂ کار سے مخالفت کی اس نے افسانوی دنیا کی کہی ہوئی مشین کے سارے پرزے ڈھیلے کر ڈالے ۔ ان تینوں ناول نگاروں پر جدید نفسیا ت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ جدید نفسیات کو روح کےایسی  چیز  نہیں سمجھتی جسے تشفی  بخش طریقے سے ایک واحد ڈرامائی عمل میں بہت زیادہ عام مسائل کے مفہوم میں تر جمانی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ روح کی کوئی ایک شکل نہیں ہے بلکہ بہت ساری شکلیں ہیں جو بہت سے مراکز میں جمع ہوتی ہیں ۔ اور اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوتی ہیں یا پھر غیرمختلف اور ایک دوسرے سے انجان ہوتی ہیں۔ ہمارا شعور جو کہ ہماری روح کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ منطقی یا مربوط ڈھنگ سے آگے نہیں بڑھتا سوائے مخصوص اوقات کے اور وہ بھی مخصوص وقفے کے لیے۔ جب ہم کسی فوری عملی ضرورت کے دباؤ میں ہوتے ہیں۔ زیادہ تر اوقات میں خیالات کا ایک ہجوم اس کے ساتھ ہوتا ہے جو با و جو دفطری ہونے کے اتنے عجیب الخلقت ہوتے ہیں کہ ان کے ارتقا کی تفصیل نہیں تیار کی جاسکتی کیوں کہ یہ لگا تار اس طرح سے متحرک ہوتے ہیں کہ اگر ہم کسی نمایاں دلچسپی کے تعلق سے فیصلہ کریں تو بالکل غیرضروری معلوم  ہوتے ہیں ۔ روح ماضی،مستقبل اور دورو نزدیک  میں بھی کوئی تفریق نہیں کرتی۔

نئے ناول نگار زندگی کے تجربے پر روشنی ڈالنے کے لیے روح سے زیادہ جد یدنفسیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ نئے ناول نگار اپنے جدید نفساتی تصورات کے ذریعے اس چھوٹے طریقۂ کار جس کی مدد سے قدیم نفسیاتی ناول نگاروں نے اس مختلف طرح کی مخلوق پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی اور ان تمام قسم کی چیزوں سے جو انسانی شخصیت کو بنانے میں کام آتی ہیں روگردانی کے میلان کو ظاہر کیا۔ نئے تخلیق کاروں نے قدیم رسمی آہنگ کو توڑ کر نئے تکنیکی آلات کی تلاش کی ۔ ان کے لیے بھی بہت حیران کن اور عجیب وغریب چیزیں نہیں بلکہ انہیں بالکل تعجب نہیں کرتی لیکن ان کے اصول روایتی نہیں رہے۔ ان کے تکنیک کی نئی خصوصیت نئے  رومانی کیفیات کا اظہار ہے۔ یہ لوگ پلاٹ سے متعین نہیں ہوتے اور نہ ہی عام طور پراس عام ڈرامائی مسئلہ سے جو ہیئت کی شستگی والے ناولوں کے پلاٹ کے ذریعے حاصل کی ہوئی ہیئت ہے۔ اس طرح یہ اپنے اسلاف کی ہیئتوں کے ضدی پن (Risidity) سے اختلاف کرتے ہوئے Deformalization (غیر ہیئت ) کی طرف بڑھ گئے ۔ اور بجائے یکسانیت وسہل پسندی کے پیچیدگی اور نیرنگی کی طرف متوجہ ہوئے۔ حادثاتی رکاوٹوں، عجائب وغرائب ، اوقات و حالات سے قطع نظر عمل میں تسلسل کے بجائے عدم تسلسل کو پیش کرنے کا رجحان عام ہوتا گیا۔

انہوں نے محسوس کیا کہ زندگی کے احساس کی بہترین پیش کش واقعات کے ایک مجموعے (Series) سے اچانک گزر جانے، کرداروں کے ایک ہجوم سے دوسرے ہجوم تک پھلانگنے اور شعور کے ایک مرکز سے دوسرے مرکز تک گزر جانے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ نئے ناول نگار اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتے کہ کسی عمل کو صفائی کے ساتھ اس طرح سے انجام دیا جائے جس میں پردہ کرنے کا انتظار کیا جا تا ہے۔ یہ ڈرامائی تاثیر کے بجائے کچھ ایسی چیز کی طرف جانا چاہتے ہیں جسےLyric کہا جاسکتا ہے۔ انہیں حسیت کے تاثرات پر زیادہ بھروسہ ہوتا ہے نفسیاتی تو ضیح کے لیے یہ  حسیت کے بعد (Succession) پرمنحصر ہوتے ہیں ان کا طریقہ کار حقیقی فکری عمل کے مطابق ہوتا ہے جومنطقی دلیلوں کی کڑیوں سے متعلق ہونے کے بجائے حسیت کے شقوں سے بنا ہوتا ہے۔

***

Leave a Reply