قیصر الحق
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی۱۹۰۰۰۶
یوسف ناظم جہانِ طنز و مزاح کا لاثانی ناظم
یوسف ناظم کا اصل نام سید محمد یوسف تھا اور تخلص ناظمؔ ۔ادبی کائنات میں یوسف ناظم کے قلمی نام سے مشہور ہیں۔ آبائی وطن جالنہ (حیدر آباد) جوکہ اب ریاست مہاراشٹرا کا ایک ضلع ہے۔ انکی ولادت ۱۸ نومبر۱۹۱۸ء کو اسی مقام (جالنہ)پر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اورنگ آباد اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعہ عثمانیہ حیدر آباد چلے گئے۔ نوکری کے سلسلے میں مہارشٹرا کے لیبر آفیسر تعینات ہوئے اور ۱۹۷۶ء میں بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر آف لیبر وظیفے پر سبکدوش ہوئے۔ انکی وفات ۲۳ جولائی ۲۰۰۹ء کو مہاراشٹرا میں ہی ہوئی۔ ظفر احمد نظامی کے توصیفی الفاظ یوسف ناظم کے لئے :
’’میانہ قد، نمایاں خدوخال ،کتابی چہرہ، آنکھوں پر پہرا، ذہانت کی کہانی، آنکھیں پُر نور، علمیت سے مخمور، جھولتے ہوئے ریشمی بال، صاحب ظرافت، پیکرو مجسمہ شرافت، ماہر فن جملہ سازی ،استاد مکتب فقرہ بازی، اُردو کے بھرتری ہری، اُردو ادب کے کھل جاسم سم یعنی سید محمد یوسف ناظم‘‘۔(۱)
صورت آرائی کے تناظر میں خورشید نعمانی کے الفاظ :
’’درمیانہ قد، گندمی رنگ، چیچک رو، آنکھوں پر دبیز شیشہ کی عینک اور ان میں چھوٹی چھوٹی گول آنکھیں جن سے ذہانت و فطانت جھانکتی ہو، خموش رہے تو سنجیدگی و متانت کا مجسمہ، محوگفتگو ہو تو گل افشانی گفتار دیدنی‘‘۔(۲)
یوسف ناظم نے مزاح نگاری کی شروعات ۱۹۴۴ء میں کی ۔ مزاحیہ تحریر کو پڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے تقریباً خالی الذہن ہو کر شروع کیجئے اور بے جھجک تحریر کی شاہراہ گاپرمزان ہوجائیے۔ یوسف ناظم اپنے مزاح کا خمیر تو زندگی ہی سے اُٹھاتے ہیں لیکن اسے کسی بین رجحان کی طرف نہیں موڑتے ۔ان کے لئے خیال یا زندگی کا ہر وہ واقعہ ہدف ہے۔جس سے مزاح پیدا ہوسکے۔ مولوی سے لے کر موت تک وہ ہر شئے پر مسکراتیہیں، مگر یہ مسکراہٹ کسی دل آزار طنز میں تبدیل نہیں ہوتی۔ یوسف ناظم کے مزاح کی شائستگی بنیادی طور پر دلآزاری کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ ظرافت میں وہ پست ہمتی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ زندہ اور جاں بخش فضا قائم کرتے ہیں۔ کامل نظم و نسق سے یوسف ناظم زندگی کی تلخ حکایتوں اور حقیقتوں کی طرف ہلکے ہلکے خیال افروز اشارے کر کے قاری کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یوسف ناظم شریفانہ مزاح کے قائل نظر آتے ہیں۔ مثال ملاحظہ کیجئے:
’’اگر یہ بات مان لی گئی ہے کہ آدمی حیوان ظریف ہے تو یہ بھی تسلیم کر لینا چاہئے کہ دنیا کی تخلیق ظرافت کی خاطر ہوئی ہے…….. علاوہ ازیں اس کتاب کا نام میں نے ’’فی الفور‘‘ یہ سوچ کر رکھا تھا کہ یہ جلد شائع ہوگی۔ ہمارے یہاں ہر وہ کام جو دو سال کی تاخیر سے انجام پائے ’’فوری‘‘ ہی سمجھا جاتاہے۔‘‘(۳)
یوسف ناظم وہ طنز و مزاح نگار ہیں جنہوں نے زود نویسی کے باوجود تحریروں میںاپنے معیار کو زیادہ تر برقرار رکھا ہے۔ ان کے ہاں مشاہدہ کی تیزی بھی ہے اور گہرائی بھی۔ بظاہر وہ دنیا سے بے نیاز معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کی تحریروں میں زندگی کی رنگارنگی، تگ ودو، کشمکش ،نشیب و فراز اور خوب و خراب کی تمام تر عکاسی ملتی ہے۔ یوسف ناظم لگتا ہے جتنا وقت لکھنے پر صرف کرتے ہیں، اس سے زیادہ وقت کیا لکھیں اور کیسے لکھیں پر صرف کرتے ہیں۔یہ فقط طنز و مزاح کا کمال نہیں بلکہ موضوعات اور مسائل کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے اور ان کو ایک خاص زاویہ سے دیکھنے کی دلیل بھی ہے۔ یہاں تذکرہ شادی کے دعوت ناموں کا ،نامی گرامی پر یس کی بیمار مشین کا اور اُردو کے رسائل کی تاخیر سے چھپنے پر تیکھا وار نظر آتا ہے۔ مثلاً یہ اقتباس:
’’کوئی نامی گرامی پریس اسے چھاپنے کے لئے رضامند نہیں ہوتا کیونکہ انکی مشین اکثر بیمار رہتی ہے۔ بہت اصرار کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ کارڈ تو ہم چھاپ دیں گے لیکن یہ کام شادی کی تاریخ گزرنے کے بعد ہی پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ چاق و چوبند رکن خاندان پریس کے منیجر کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ بھائی صاحب شادی کا دعوت نامہ ہے اُردو کا کوئی رسالہ نہیں ہے کہ جب چاہے چھاپ دیا جائے۔‘‘(۴)
یوسف ناظم کی وطن دوستی ،استحصال کے خلاف احتجاج ، معاشی بدحالی ،کساد بازاری، معاشرتی انتشار، اقدار کی زوال پذیری ،برسر اقتدار طبقہ کی بے راہ روی اور سیاستدانوں کی خرمستیوں پر ان کے بے لوث اور مخلصانہ ردعمل نے ان کی تحریروں میں جاذبیت پیدا کردی ہے۔ یوسف ناظم کو اپنے قلم کی نمائش منظور نہیں، وہ ہنسنے ہنسانے کا سامان قاری کو فراہم تو کرتا ہے لیکن اس سے ماورا معاشرتی صلاح و فلاح کا مقصد ان کے مضامین سے مترشح ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں انسانی فطرت کے ایک پہلو پر بے حد بلیغ اور دوٹوک طنز ملاحظہ ہو:
’’ اب ایسی مشینیں بن گئی ہیں جو یہ بتاسکتی ہیں کہ آدمی سچ بول رہا ہے یا جھوٹ لیکن یہ بات سمجھ میں
نہیں آئی کہ آخر یہ تجربہ کس اُمید پر کیا جارہا ہے۔ کیا اب بھی کوئی ایسا بدنصیب ہے جو سچ بولے۔‘‘(۵)
یوسف ناظم کا مزاح انکی شوخی طبیعت اور زبان کی شگفتگی و شیرینی کے توازن سے تخلیق پاتا ہے۔ فکرو خیال اور الفاظ و امثال کی ہم آہنگی سے بڑا لطف پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کی تشبیہات میں بلاکی ندرت ہے جس سے حسِ مزاح کو تحریک ملتی ہے۔ ان کی کم و بیش ہر تحریر میں ظرافت و شگفتگی ،بذلہ سنجی و برجستگی ،سادگی و سلاست، مدھم لہجہ اور فکر انگیز خیالات کے دل نشین جلوئے نظر آتے ہیں۔ سبک خرامی یوسف ناظم کی تحریر کا ایک اہم وصف ہے۔ اگر آپ انکی تحریروں میں دریائوں کی روانی کو محسوس کرنا چاہیں تو شاید آپ کو مایوسی ہوگی۔ کیونکہ یوسفناظم رُک رُک کر لکھنے کے عادی اور تھم تھم کر بہنے کے قائل ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ آنسو اگر اصلی ہوں تو نمکین ضرور ہوں گے۔لکھتے ہیں:
’’ آدمی کے آنسو ذائقے میں نمکین ہوتے ہیں، شرط یہ ہے کہ آنسو اصلی ہوں…… آنسوئوں کے نمکین ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی جب بھی اپنے منہ کا مزہ بدلنا چاہتا ہے، اپنے آنسو پی لیتا ہے۔(آدمی کتنا خود مکتفی ہے)(۶)
مندرجہ بالا اقتباس کا آخری جملہ قوسین یعنی Brackets میں ہے۔ غور کیجئے کہ اس جملے میں کیسی زبردست چوٹ کر گیے ہیں۔ اس طرح کے قوسینی جملے یوسف ناظم کی اہم خصوصیت ہے۔ وہ اپنے تقریباً ہر اہم نثر پارے کے اختتام پر ایک چھوٹا سا جملہ قوسین میںلکھتے ہیں ۔یوسف ناظم کے قوسینی جملوں کے چرچے جہانِ ادب میں ہر سو پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک مزاح نگار مسیح انجم نے انہیں ’’یوسفِ قوسین‘‘ کا خطاب بھی دیا۔ یوسف ناظم کی مزاحیہ خاکہ نویسی میں فن اور شخصیت کا سنگم نظر آتا ہے۔ وہ شخصیت پر لکھتے ہیں تو فن کی پر تیں کھلنے لگتی ہیں اور فن پر لکھتے ہیں تو شخصیت ابھرنے لگتی ہے۔ زمانے کی تلخی اگر زبان کی تلخی میں بدل جائے تو یہ مزاح نہیں مذاق ہے لیکن اگر زمانے کی تلخیوں کو گھول کراس میں ظرافت کی شیرینی پیداکی جائے تو یہ مزاح ہے جو فن کارکے باطن سے پھوٹتا ہے۔ یوسف ناظم کی نگارشات سطحی تمسخر نہیں بلکہ گہرائی ہے کیونکہ طنزو مزاح ان کے درون سے پھوٹ رہا ہے۔ ان کے فنی کمالات میں عالمانہ شان اور ان کے مختصر جملوں میں شاعرانہ آن بان محسوس ہوتی ہے۔ وہ ظریفانہ واقعات، عملی مذاق اور تمسخر سے مزاح پیدا نہیں کرتے بلکہ فضابندی، ماحول آفرینی ،مرقع نگاری اوراسلوب کے ذریعہ مزاح کی محفلیں سجاتے ہیں۔ طولِ کلام سے اجتناب کی رعایت ،محاروں کا برجستہ برتائو وغیرہ اُنکے اہم تخلیقی اوصاف تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ زندگی کے معمولی واقعہ یا عام مشاہدے کو بھی تلازمات ،تعبیروں اور منفرد تاویلوں کے طفیل لطف انگیز بناتے ہیں۔ ان کے ہاں نہ شکوہ و شکایت ہے نہ نصیحت و فہمائش، ان کی تمام تر جستجو فرد اور اجتماعیت کی قباحتوں کو دیکھنے اوردکھانے کی آرزو سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔
یوسف ناظم کے طنز و مزاح کا قوی موضوع معاشرہ ہے۔ وہ جس معاشرے میں مقیم ہیں، اسکے خدوخال کی مختلف شکلوں کو انہوں نے اپنی تحریروں میں خوبصورتی کے ساتھ جگہ دی ہے۔ سماج میں طویل مدت سے رہائش پذیر خاندانوں کی منفرد طرزِ حیات کے متنوع گوشے اور میل جول کی روایتی وابستگی کا احساس یوسف ناظم کے فن پاروں میں نظر آتا ہے۔ وہ کسی بھی شخص کی ذات کو طنز کا نشانہ نہیں بناتا بلکہ خوشگوار انداز میں شخصیت کی آبرو اور وقار کا لحاظ رکھتا ہے۔ طنز کی اعلیٰ قسم وہی ہے جو شخص کے ذاتی معاملات اور نجی جذبات کی نشتر زنی سے پر ہیز کر کے اسکے ظاہر و باطن پر یکساں اور فلاحی سوچ رکھتا ہو۔ خیال رہے کہ مزاح مذاق نہ بن جائے اور طنز تشدد کا روپ نہ اختیار کرے۔ یوسف ناظم ان نازک مراحل کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ طے کرتے ہیں۔ اس تعلق سے آفاق صدیقی لکھتے ہیں:
’’یوسف ناظم کا طنز ان کی خود کی ذات کی الجھنوں اور ذاتی معاملات کی تلخیوں کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے طنز و مزاح کی اساس ذاتی اغراض و مقاصد پر مبنی ہے، بلکہ اپنی تحریروں میں انہوں نے اپنے عہد کے مختلف النوع معاملات اور گوناگوں ناہمواریوں اور عام زندگی کے بے ڈھنگے پن کو طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا معاشرے ان کے طنز و مزاح کا موضوع ہے اور اسی معاشرے سے انہوں نے طنز و مزاح کا مواد حاصل کیا ہے۔‘‘ (۷)
پیشۂ وکالت کے معاملے میں یوسف ناظم نے نظام عدلیہ پر دندان شکن طنز کسا ہے۔ قاضی کو کرہِ ارض پر مسلم الثبوت منصب عطا کیا گیا ہے۔ لیکن زمانہ حاضر کی حقیقت یہ ہے کہ نظام عدلیہ اثرو رسوخ کے ہاتھوں یرغمال ہوچکا ہے اور انصاف کی وادی میں دُور دُور تک تاریکی اور سناٹا چھایا ہوا ہے۔ مسند اقتدار کے کارندوں نے عدلیہ کی روح اور آبرو کو تار تار کیا ہے۔ مفلس طبقے کے آہ و فغاں کی داستانیں نہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ نظام عدلیہ میں انصاف کے حصول کی خاطر ابن آدم کی پوری عمر کم پڑنے لگی ہے اور اکثر فیصلوں کا اعلان بعد از مرگ کیا جاتا ہے۔ زمانہ جدید میں انصاف بھی نہایت قیمتی اثاثہ بن گیا ہے۔ جواب عام فرد یا خاندان کی بساط سے باہر ہے۔ مطلع کتنا ہی صاف کیوں نہ ہو، عدالت کے احاطے میں ناانصافی کی سیاہ گھٹائیں چھائی رہتی ہیں اور حادثاتی طور کبھی انصاف کا سورج بڑی مشکل سے نمودار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں یوسف ناظم کا معنی خیز طنز ملا حظہ ہو:
’’کڑی سے کڑی جرح اور بڑی سے بڑی بحث، یہی وہ دو شمشیریں ہیں جو پیشۂ وکالت میں وکیلوں کے کام آتی ہیں۔ جس طرح ایک سرجن کے لیے ہاتھ کی صفائی ضروری ہے، اسی طرح ایک وکیل کے لیے ذہن کی چالاکی ضروری ہے۔ وکیل کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ باعزت بری کروائے اور ایک بے گناہ کو اگر وہ شاعر ہے ہے تو ’’زندان نامہ‘‘ لکھنے کا موقع فراہم کریں‘‘۔(۸)
یوسف ناظم کے فنِ طنز و مزاح کو جو عناصر نکھارتے اور سنوارتے ہیں، ان میں انشا پردازی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان کو بات کہنے ہی کا نہیں بلکہ بات سے بات نکالنے کا ہنر بھی خوب آتا ہے۔ اسلئے ان کے ہاں موضوعات کا وافر ذخیرہ دستیاب ہوتا ہے۔ انکے اسلوب میں متنوع رنگ جھلکتے ہیں اور لوچ و لچک ایسی کہ جس موضوع پر قلم آرائی کرتے ہیں، وہ اپنے اسلوب سے ہم آہنگ نظر آتا ہے، گویا یہ اسلوب اسی موضوع کا متقاضی ہے۔ زبان و بیان پر قدرت ہو تو طنز ومزاح نگار کے نقش و نگار اُبھر آتے ہیں۔ یوسف ناظم نے اپنے مضمون ’’انگریز ہندوستان میں ۔تاریخ جدید‘‘ میں برطانوی عہد کی تاریخ کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ واقعات میں بنیادی طور پرکسی تبدیلی کے باوجود برطانوی سامراج کے ظلم و ستم ، مالی استحصال ،چیرہ دستی ،درندگی، سفاکیت اور مردم آزاری تمام وکمال اُجاگر ہوجاتی ہے۔ ایسے مضامین میں اُن کا فن بامِ عروج پر ہوتا ہے۔ وہ کچھ نہیں کرتے ،صرف اپنے اسلوب سے کام لیتے ہیں۔ الفاظ کا اُلٹ پھیر ،دھیما اور مدھم لہجہ بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ گورنر جنرل لارڈ کارنوالس کے حوالے سے ملاحظہ ہو، برطانوی سامراج پل پرلطیف اور بھرپور طنز:
’’ کارنوالس پہلا انگریز تھا جس نے ہندوستان جیسے ملک میں مرنا قبول کیا۔ تاہم یہ بات یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ جس وقت کارنوالس ہندوستان میں مرا، ہندوستان انگریزوں کے لئے ’’دیارِغیر‘‘ نہیں بلکہ ان کا اپنا ہی وطن تھا‘‘۔(۹)
اسلوب سے طنز و مزاح پیدا کرنا اس فن کی اعلیٰ سطح ہے۔ یوسف ناظم کے ہاں اسکی خوبصورت مثالیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ انہوں نے اکثر و بیشتر مراحل پر طنز نگار کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ وہ اپنے طنز کو مزاح کے شیریں کیپسول میں پیش کرتے ہیں۔ طنز کے بغیر مزاح پھکڑپن اور سرکس بازی کے مسخروں کی حرکتیں بن جاتا ہے۔ مزاح کے بغیر طنز بھی واعظ خشک کی نصیحتیں ،تلخ و ترش اور زہرناکی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یوسف ناظم کے ہاں طنز کا پلڑا بھاری ہونے کے باوجود مزاح کی آمیزش کچھ یوں ہوتی ہے کہ دونوں کو علیحدہ کرنا مشکل کام معلوم ہوتا ہے۔ عمومی طنز اور تیر بہ ہدف طنز یونہی معرضِ وجود میں نہیں آتا بلکہ اسکے لئے غورفکر کی عمیق ضرورت ہوتی ہے۔ طنزو مزاح کی فنی پختگی کا راز یہی ہے کہ قلمکار کو من جملہ زندگی کے تمام نشیب و فراز سے علم و آگہی حاصل ہونی چاہیے، تب جاکر ادب عالیہ کے اہم فن پارے وجود میں آتے ہیں۔
یوسف ناظم کا شمار بے شک اُردوطنز و مزاح کے بسیار نویسوں میں ہوتا ہے لیکن یہ تحریریں محض مٹی کا پہاڑ نہیں ہیں بلکہ جستجو کرنے والے کو اس میں جابجا آثارِ ظرافت دکھائی دیتے ہیں۔ کائنات کا مشاہدہ دنیا کے ہر ادیب کی شخصیت کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ مزاح نگار کا مشاہدہ نسبتاً زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف اشیا کے اندر جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اپنا زاویۂ نظر تھوڑا سا تبدیل کر کے اشیا کی بالکل انوکھی تصویریں بھی بناتا ہے، جو قارئین کے لیے ہنسی کا سبب بنتی ہیں۔ یوسف ناظم کی تحریروں کے نمایاں اوصاف اُنکی برجستگی اور موضوعاتی تنوع ہے۔ معاشی اور سماجی مسائل پر وہ عمیق نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ معاشرے کے سفاک نقاد نہیں ہیں بلکہ ہمدردانہ رویہ رکھتے ہوئے اپنی بات کہتے ہیں۔ انہیں بات کرنے کا ہی نہیں بلکہ بات سے بات پیدا کرنے کا فن بھی آتا ہے۔ یوسف ناظم کی اسی خصوصیت کو طاہر مسعود اپنے انداز میں یوں نمایاں کرتے نظر آتے ہیں:
’’بات کہنے اور بات سے بات نکالنے کا طریقہ ان کا پنا وضع کردہ ہے۔ اسی لیے ان کے مزاح کا ذائقہ منفرد بھی ہے زیر لب تبسم اور شگفتگی بھی ہے جو اُن ہی کے مزاحیہ فن کا خاصا ہے۔ ان مضامین کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ زندگی تکلیف دہ ہوتے ہوئے بھی بہت مزیدار ہے‘‘۔ (۱۰)
طنز و مزاح نگاری میں یوسف ناظم کا منفرد اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ اُردو زبان کی باریکیوں پر انہیں خلاقانہ دسترس حاصل ہے۔ الفاظ اور محاوروں کو نئی معنوی جہات دے کر مزاح اور طنز کے نت نئے پہلو تراشنے میں وہ حقیقی فنکار معلوم ہوتے ہیں۔ یوسف ناظم ادب کے علاوہ ہمعصر عالمی صورتحال، سیاست، معیشت اور کلچر کے باہمی رشتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں پختہ سماجی شعور اور ادبی بصیرت کے گوناگوں رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کا مزاح جہاں بادِ نشاط پلاتا ہے وہیں زخم پنہاں کا بھی پتہ دیتا ہے۔ مزاح کی شوخی گفتار میں دانش و بینش کی ایک دنیا آباد ہے۔ انہوں نے اپنی شگفتہ تحریروں سے دُکھی دلوں کی مسیحائی کی اور زندگی کے ستائے انسانوں کو زندگی کی ناہموار یوں پر ماتم کرنے کے بجائے زندہ دلی سے مسکرانے کا سلیقہ سکھایا۔ یوسف ناظم اپنے فن کے ذریعۂ پوری دیانت داری، خلوص اور انہماک کے ساتھ اس کا رِ خیر میں مصروف رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے فن کا رشتہ عام انسانوں اور انسانی فطرت کے مشترکہ عناصر سے جوڑے رکھا۔
***
حواشی:
۱۔ مضمون’’یوسف ناظم‘‘ ظفر احمد نظامی۔ مشمولہ ماہنامہ رسالہ’’شگوفہ‘‘حیدرآباد،یوسف ناظم نمبر۲۰۰۴ء ،ص:۴۰
۲۔ مضمون ’’عصر حاضر کا ممتاز مزاح نگار‘‘ خورشید نعمانی……….. ایضاً………. ص:۵۵
۳۔ فی الفور، یوسف ناظم،ص:۳۔۴
۴۔ فی الحقیقت، یوسف ناظم،ص:۳۷
۵۔ بالکلیات، یوسف ناظم،ص:۴۷
۶۔ فی الحال،یوسف ناظم،ص:۱۵
۷۔ مضمون ’’طنز و مزاح اور یوسف ناظم‘‘،آفاق حسین صدیقی، ماہنامہ ’’شاعر‘‘ فروری ۱۹۸۰ء ،ص:۲۲
۸۔ فی زمانہ،یوسف ناظم،ص:۴۹
۹۔ دامنِ یوسف، عنایت علی، ص:۲۹
۱۰۔ اُردو نثر میں طنز و مزاح ،اشفاق احمد ورک،ص:۱۶۸
***