You are currently viewing احساسات کی شاعرہ : نجمہ شاہین کھوسہ

احساسات کی شاعرہ : نجمہ شاہین کھوسہ

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

ہندستانی زبانوں  کا مرکز ، جواہر لعل  نہرو ینویورسٹی ، نئی دہلی

 

احساسات کی شاعرہ : نجمہ شاہین کھوسہ

         اردو زبان و ادب کے ارتقا اور تاریخی تسلسل  کو دیکھیں تو کئی دلچسپ  حقیقتیں  سامنے آتی ہیں ۔ اس زبان کو پروان چڑھانے اور اس کو عروج بخشنے والوں میں  اکثر نام  ایسے  ہیں جن کا تعلق براہ  راست اردو زبان کی تدریس  سے نہیں رہا ہے اور نہ وہ پیشہ ورانہ طور پر براہ راست اس زبا ن وادب  سے منسلک رہے  لیکن ان کے کارہائے  نمایاں ایسے ہیں جو    زبان  کی ارتقائی  تاریخ میں یا تخلیقی  تاریخ و تسلسل میں  ہمیشہ احترام اور وقعت کی نگاہ سے دیکھے  جاتے ہیں ۔  اہل زبان ایسے  اسمائے گرامی سےبخوبی واقف ہیں ۔  نجمہ شاہین  کا نام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ پیشے کے لحاظ سے   وہ ایک  طبیبہ ہیں   اور اپنے پیشے میں مہارت کی وجہ سے  شہرت کی حامل بھی ہیں ۔  ان کی شخصیت کا خوش آئند پہلو  اردو زبان و ادب سے ان کی خاص دلچسپی  ہے۔شعری تخلیق کےباوصف  وہ  دیگر أصناف میں بھی طبع آزمائی کرتی ہیں لیکن شاعری کی جولانگاہ  ان کا خاص میدان  ہے ۔ اردو کے بعض ایسے الفاظ  ہیں جن کا  اطلاق ہر شخصیت  پر  بخوبی نہیں ہوتا ، ان میں ایک لفظ ’’ہمہ جہت شخصیت ‘‘ کا بھی ہے ۔ نجمہ شاہین پر اس  لفظ کا  بخوبی اطلاق ہوتا ہے ۔ انتہائی نفیس اور منکسر المزاج  ، ملنسار اور خدمت خلق کے جذبے سے بھر پور، ادبی  ذوق اور شعور ان کی شخصیت کا خاصہ ہیں ۔اکثر سوچتا ہوں کہ وہ اپنے پیشے میں اس قدر مصروف  رہتی ہیں پھر تخلیق کے لیے کیسے وقت نکال پاتی ہیں کیونکہ تخلیق کے لیے یکسوئی  درکار ہوتی ہے ۔ نجمہ شاہین مسلسل لکھتی ر ہی ہیں  اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اس حوالے سے میرا ہمیشہ تجسس رہا ہے اسی لیے ان کی تحریروں سے ان کے تخلیقی  تجربے کو جاننے کی کوشش کی تو  اس  سلسلے میں خود ان کی تحریر  نے رہنمائی کی   ۔  ’’اور شام ٹھہر گئی ‘‘کےپیش لفظ میں وہ لکھتی ہیں :

“پھول سے بچھڑی خوشبو ‘‘ اور ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں ‘‘کے بعد سوچا تھا کہ شاید سفر کٹ گیا۔ مگر یہ دکھ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ تنہائیوں، محرومیوں، محبتوں اور جدائیوں کے دکھ ، کہیں انت ہی نہیں ٹھہرتاان کا۔کبھی گھٹن بن کر دل کو مٹھی میں کر لیتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انت ہو گیا اور کبھی دور پرے کھڑے مسکراتے اُسی گھٹن کو کم کرتے ہیں ، روشنی بنتے ہیں اور اپنی ذات کی تلاش پھر سے شروع ہو جاتی ہے ۔اِک چاک مل جاتا ہے جس پر ہم گھومتے ہیں اور اِک محور مل جاتا ہے جو ہمیں اپنے گرد دائرہ در دائرہ گھماتا ہے۔ ہم اپنی جستجو میں ہوتے ہیں مگر بھلا دائرے میں بھی کوئی جستجو مکمل ہو ئی ؟ دائرہ بن کے گھومنا تو بس گھومنا ہے جب رُک گئے تو دائرے میں گھومنے والا ہر ذرہ صرف اپنی جگہ سمٹ کر رُک جائے گا وہ اُس خلا کو پُر نہیں کر سکے گا جو اُسے ذات کے اندر قطار در قطار کھڑے

دُکھوں ، گرد بنتی ہواؤں اور پس منظر میں سمٹتی ، جدائیاں بانٹتی رفاقتوں نے عطا کیا۔‘‘

ذات کی تلاش میں  خود کو سرگرداں رکھنا تخلیقی عمل کا وہ سوتا ہے جو کبھی خشک  نہیں ہوتا ۔ نجمہ شاہین کی تخلیقی کا یہ بنیادی محور ہے اور اسی محور کے گرد کائنات کی رنگا رنگی کو سمجھنے کی کوشش کا نام  نجمہ کی شاعری ہے ۔اس اقتباس میں  اپنے تخلیقی محرکات کے لیے جس طرح  کا نثری بیانیہ اختیار کیا ہے وہ بھی   شاعری کے طرح تہہ دار جملے ہیں ۔’’ اِک چاک مل جاتا ہے جس پر ہم گھومتے ہیں اور اِک محور مل جاتا ہے جو ہمیں اپنے گرد دائرہ در دائرہ گھماتا ہے۔‘‘ یہ کوئی معمولی جملہ نہیں ہے بلکہ اس  جملے میں چاک اور محور کی مدد سے  نجمہ نے حیات و کائنات یا گردش ایام کی بات بہت ہی خوبصورتی سے کی  ہے ۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی ان کا ذہن مسلسل  چاک کی طرح گھومتا رہتا ہے اور ہر دائرے میں   گردش کرنے والی شئی کو وہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں ۔موضوعات ومسائل اور رازہائے سربستہ کو سمجھنے یا اسے شاعری میں  پیش کر سکنے کا بھی انھیں خیال آتا ہے تو وہ  لکھتی ہیں :

’’مگر کیا شاعری سب بولتی ہے ۔ کیاشاعری وہ سب کہہ سکتی ہے جو کہا جانا چاہئے ؟ اِن سنگلاخ درد کے پہاڑوں سے گزرتی، اپنی ناتواں جاں پر تندو تیز ہواؤں کے طوفان برداشت کرتی ،کرب کی اِن مسلسل راتوں کی کہانی ، بے یقنی اور مایوسی کی دُھول سے اٹی ہوئی بے خواب راتوں کی کہانی ، یہ رتجگوں کے عذاب اندھی راتوں میں اِک امید سحر باندھے مسلسل جاگتی ،بینائی کھوتی اُن آنکھوں کی کہانی ، کیا یہ شاعری کہہ سکے گی مگر کہاں ؟‘‘                          (اور شام ٹھہر گئی۔ نجمہ شاہین کھوسہ )

یقیناً آج کا عہد  ایسا ہے جس میں مسائل و موضوعات کا انبار ہے ۔کس کس کو دیکھا جائے ، کس کس  پر  آنسو بہایا جائے یا کس  کس  کرب و انتشار  کی بات کی جائے ؟ یہ اہم سوال تو ہے ۔ ان سوالات  پر  غور کرنے والا ہی ان سوالات پر بات کرسکتا ہے یا کر سکتی ہے ۔نجمہ شاہین  صرف  غور ہی نہیں کرتیں بلکہ ان کو اپنی شاعری کا موضوع بناتی ہیں ۔ پیش لفظ میں جو انھوں نے لکھا وہ ان کے  عجز  بیان  کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ  وسعت بیان کا غماز ہے ۔نجمہ کی شاعری کے کچھ  خاص موضوعات بھی ہیں ان میں ایک اہم موضوع ’تلاش ذات کا تصور‘  بھی ہے  بلکہ یہ بہت گہرا ہے۔ آج کے اس مردم بے زار اور انتشار سے بھری دنیا میں انسان کہیں غائب ہوگیا ہے۔حالانکہ وہ اپنے مطب میں ہر روز  سینکڑوں    انسانوں کو دیکھتی ہیں ، لیکن وہ  مرض سے نجات کی تلاش میں  آتے ہیں ، جن کے چہرے اور جسم سے صرف  بے بسی اور لاچاری جھلکتی ہے ، وہ چلتے بھرتے انسان تو ہیں مگر صرف ایک خواہش   رکھتے  ہیں  کہ دکھ سے نجات مل جائے  ۔اس کے علاوہ معاشرے میں جن انسانوں سے سابقہ پڑتا ہے  ان میں انسان کو تلاش کر  نے کا عمل ایک انسان ہی کر سکتا ہے ۔نجمہ کویہ کرب اکثر ستاتا ہے  تب ہی  یہ کہتی ہیں :

جو کھو چکے ہیں وہ منظر تلاش کرتی ہوں                 بکھر گئے ہیں جو پیکر تلاش کرتی ہوں

کبھی تلاش جو کرنا ہو اپنا آپ مجھے                      تو اس کی ذات کے اندر تلاش کرتی ہوں

کبھی جو حد سے گزر جائے دکھ تو ہنستی ہوں              خوشی نہیں جو میسر تلاش کرتی ہوں

قریب رہ کے بھی کرتی رہی تھی قرب تلاش            میں چاہتوں کے ہی زیور تلاش کرتی ہوں

یہ آرزو ہے صنم کو قریب تر دیکھوں                    سو ریگزار میں پتھر تلاش کرتی ہوں

کروں گی اس کا طواف عمر بھر میں بس شاہیںؔ            اب اپنا مرکز و محور تلاش کرتی ہوں

 تلاش و جستجو ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو انکشاف اور ایجاد کی منزل تک لے  جاتاہے ۔ نجمہ اسی کے سہارے  انکشاف ذات تک  پہنچتی ہیں اور کبھی کھبی یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ انکشاف ادراک کی منزلوں کی سیر کراتا ہے ان  کے  یہ اشعار  دیکھیں :

رت جگے ، آنسو ، دعائے بے اثر ہے اور میں

عشق لا حاصل ہے ، اک اندھا سفر ہے اور میں

چھوڑ کر آئی ہوں ہر منزل کو میں جانے کہاں

یہ دلِ سودائی اب تک بے خبر ہے اور میں

اب تلک رستے وہی اور عکس آنکھوں میں وہی

اور خود کو ڈھونڈتی میری نظر ہے اورمیں

ان اشعار  میں ’’ میں ‘‘ یعنی متکلم  صرف  نجمہ نہیں ہیں  بلکہ ہر وہ حساس انسان  ہے جو آج کے  پُر  فتن او ر پُر آشوب  دور میں جی رہا ہے جہاں خود کو

خود کی خبر نہیں ہے ۔اسی   طرح کے موضوعات کو ا نھوں نے   کئی مسلسل  غزلوں میں  بہت سلیقے سے  پیش کیا ہے ۔کئی نظموں میں بھی  یہ لَے

موجود ہے ۔ ان کی ایک مشہور نظم  کو دیکھیں  :

نظم ’محبتوں کا یہ طور سینا‘

سنو مسافر

یہ دل صحیفہ سہی مگر اس پہ چاہتوں کی

کوئی کہانی رقم نہ ہوگی

کہ چاہتوں کی ہر اک کہانی اداس آنکھوں سے جھانکتی ہے

اداس چہروں پہ ہی رقم ہے

سو میری مانو تو دل صحیفے کو گزرے وقتوں کی داستانوں سے ہی سجاؤ

یہ دل کی زرخیز جو زمیں ہے

تم اس پہ خوشیوں کے رنگ کاڑھو

اسے گلابوں سے ہی سجاؤ

سنو مسافر

محبتوں کا یہ طور سینا

بھٹکتے رہنے کا راستہ ہے

بہت بلندی پہ جانے والوں کو منزلوں کی خبر نہیں ہے

کئی مسافر بھٹک چکے ہیں

کہ ان کو رستے جھٹک چکے ہیں

ہر اک مسافر کے راستے میں نہ کوئی جنت نہ کوئی دوزخ

اگر ملا بھی کسی کو کچھ تو

ملا ہے بس ہجر کا ہی برزخ

ہاں کچھ مسافر جو طور سینا کی عشق منزل پہ جا کے ٹھہرے

انہیں بھی مایوسیاں ملی تھیں

انہیں تجلی نہیں ملی تھی

کوئی تسلی نہیں ملی تھی

سو وہ محبت کی آیتوں کے بغیر لوٹے

عنایتوں کے بغیر لوٹے

سو اے مسافر

مری جو مانو تو لوٹ آؤ

یہ دل صحیفہ سہی مگر

اس پہ چاہتوں کی کوئی کہانی رقم نہ ہوگی

یقیناً ان کو رقم کرنا ممکن نہیں لیکن  کیا بھی جاسکتا ہے جیساکہ اس نظم میں بیان ہوا ہے ۔ اس کی توجیح  خود نجمہ کے اس شعر میں موجود ہے :

زمانے بھر کی یہ تلخیاں ہیں جو میرے لہجے میں آ بسی ہیں

میں اپنے شعروں میں دھیرے دھیرے یہ زہر مایہ اگل رہی ہوں

اس غزل کے تمام اشعار  حصارذات اور تلاش ذات  کے ترجمان ہیں ، اسی غزل کے دو شعر اور دیکھیں :

یہ ہجر کا راستہ ہے جس پر میں تنہا تنہا سی چل رہی ہوں

بس اس کی یادوں کی دھوپ ہے اور میں قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوں

شکستہ خوابوں کی کرچیاں ہیں جو میری آنکھوں میں چبھ رہی ہیں

میں خار زاروں میں چل رہی ہوں میں گرتے گرتے سنبھل رہی ہوں

کروں گی کیا بال و پر کو اپنے قفس میں جینا جو لازمی ہے

کہاں ہے شاہینؔ شادمانی دکھوں کی دنیا میں پل رہی ہوں

نجمہ کی شاعری کے   کئی رنگ ہیں  ان میں  ایک رنگ عشق  اور  ہجر و وصال کی کیفیت اور لذت کا بھی ہے ۔ یو ں تو اردو غزل کا یہ عمومی رنگ ہے مگر ہر شاعر نے اسے اپنے رنگ میں پیش کر کے اپنی انفرادیت قائم  کی ہے ۔ نجمہ کا یہ رنگ ملاحظہ ہو جس میں ان کی الگ  شناخت نظر آتی ہے :

عشق کو آنکھ میں جلتے دیکھا

پھول کو آگ میں کھلتے دیکھا

عشق کے راز نہ پوچھو صاحب

عشق کو دار پہ چڑھتے دیکھا

عشق کے دام بھی لگ جاتے ہیں

مصر میں اس کو بھی بکتے دیکھا

عشق وہ باغ ہے جس کو ہم نے

ہجر کی رت میں مہکتے دیکھا

غم کیا ہجر و وصال کا اس کو

عشق میں جس کو بھٹکتےدیکھا

ہجر میں بھی یہ مری سانس اگر باقی ہے

اس کا مطلب ہے محبت میں اثر باقی ہے

چھوڑ یہ بات ملے زخم کہاں سے تجھ کو

زندگی اتنا بتا کتنا سفر باقی ہے

تم ستم گر ہو نہ گھبراؤ مری حالت پر

زخم سہنے کا ابھی مجھ میں ہنر باقی ہے

ان اشعار  میں عشق   اور ہجر ووصال کو جس انداز سے  پیش کیا ہے وہ نجمہ کا اپنا مخصوص انداز ہے اور اس کو  پیش کرنے کے لیے انھو ں نے جو اسلوب اختیار  کیا ہے وہ ا ن کی شناخت  ہے ۔

نجمہ شاہین   کوزبان و بیان پر قدرت حاصل ہے وہ  نئے نئے انداز میں مضامین کو  پیش  کرتی ہیں ۔ کبھی  مختصر  بحروں   کی غزل لکھتی ہیں تو  کبھی طویل  بحروں  کے استعمال سے  نغمیت  پیدا کرتی ہیں ۔ غزل  کے بجائے میں حمد کے کچھ اشعار  مثال میں   پیش کرتا ہو ں  :

اے میرے مولااے میرے آقا،بس اپنے رستے پہ ڈا ل دے توُ

یہ فانی دنیاکے غم ہیں جتنے ، یہ میرے دل سے نکا ل دے توُ

ہو نام تیرا ہی دل کے اندر، ہو ذکر تیرا مرے لبوں پر

ہو اتنی سچی یہ میری چاہت، کہ عشق بھی بے مثال دے توُ

کسی کو رنگ اور نور دے دے، کسی کو عقل اور شعوردے دے

تُو جس کو جو کچھ بھی دے اے مولا،مجھے اک اپنا وصال دے توُ

غزل کے علاوہ  نظموں میں  بھی  نجمہ شاہین نے  اپنا    ہنر دکھایا ہے اور  نئے خیالات و مضامین  کو  پیش کیا  ہے ان کی ایک  نثری نظم کی مثال  لیں  جس کا عنوان ہے ’’ بکتے دیکھا جہاں‘‘ :

جب چھوٹے تھے ہم

ماں ہم کو پیسے دیتی اور کہتی تھی

جاؤ فلاں دوکان سے جا کر چیزیں لاؤ

ہم معصومیت سے ماں سے سوال کرتے

ماں کیا پیسوں سے ہر شے مل جاتی ہے

ماں مسکرا دیتی

اور کبھی ایسا بھی ہوتا

ایسے ہی کسی چبھتے سوال پر

جب ماں مسکراتی تو یوں لگتا

جیسے اُس کی داہنی آنکھ کا کونہ بھیگ گیا ہے

تب ذہن الجھتا

ماں کے اس طرح مسکرانے پہ

اور یوں اس کی آنکھ کا کونہ بھیگ جانے پہ

پھر یوں ہوا

وقت نے پیرہن بدلا

 اٹکھیلیاں کرتا بچپن

جوبن کے رنگ و روپ بدلتے

ذہن و دل کے دریچے بھی وا کرتا گیا

باہر نکلے تو دیکھا

ہر چیز پیسوں سے مل رہی ہے

وفا بھی بِک رہی ہے

اور مروت کے بھی خریدار ہیں بہت

پھر ہم نے سوچا

محبت تو بے مول ہے

یہ تو نہیں بِک سکتی

مگر ظالم وقت کے پیرہن نے

سوچ کا یہ دریچہ بھی بدل ڈالا

عشق کے بھی دام لگتے ہیں یہاں

شاید خرید و فروخت کے لئے بنا ہے یہ جہاں

اس نظم کا آخری مصرعہ  اس دنیا کی حقیقت کو ظاہر کردیتا ہے ۔بات  بچپن کی کہانی شروع ہوتی ہے تو اس دنیا کی  حقیقت تک پہنتی ہے  انسانی ذہنیت کی بدلتی   ہوئی  یہی وہ تصویر ہے  جہاں  اقدار و روایات کی جگہ مادیت  نے لے لی ہے اسی لیے ا ب  انسان اور معاشرے کو دیکھنے کا نظریہ  بدل گیاہے۔ یہی وہ آج کا سب سے بڑا کرب ہے اسی کرب کو نجمہ نے اپنی شاعری میں جا بجا  پیش کیا ہے ۔

مختصر  یہ کہ نجمہ شاہین کی شاعری میں موضوعات و اسالیب کی رنگا رنگی  بھی ہے اور خیالات و افکار کی جلوہ سامانیاں  بھی ہیں ۔انھوں نے حمد ، نعت ، منقبت ، گیت  اور مختلف اصناف سخن پر طبع  آزمائی کی ہے اور ہر  صنف میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیا ب ہوئی  ہیں ۔

***

Leave a Reply