You are currently viewing امیر خسروؔ اور علماے اُردو

امیر خسروؔ اور علماے اُردو

ندیم احمد انصاری

شعبۂ اردو، الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن

امیر خسروؔ اور علماے اُردو

وسیع المشرب، ہندو مسلم اتحاد کے عظیم عَلم بردار، صاحبِ دل، برِ اعظم کے ولیِ کامل، دینی بزرگ اور زبان و بیان کے مسلّم الثبوت استاد امیر خسروؔ اردو کے بنیاد گزار ہیں۔ آپ نے اپنی اختراعی صلاحیتوں سے ایک ایسی زبان کو وجود بخشا جسے ریختہ، ہندوی، ہندی یا اردو کہا جاتا ہے۔ ان کے کارنامے ہمہ جہت اور متنوع ہیں۔شعر و سخن سے آپ کو فطری لگاو اور تصوف سے خصوصی شغف تھا۔ آپ نے عام تہذیبی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔ آپ کے کلام میں ہندستانیت جھلکتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ آپ کی طرف منسوب اکثر کلام صحت کے اعتبار سے مشکوک ہے۔ان کے نام سے ریختے کی درجِ ذیل ایک غزل بہت مشہور ہے؎

زحالِ مسکیں مکن تغافل دوراے نیناں بنائے بتیاں

کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں دراز چو زلک دروزِ وصلش چو عمر کوتاہ

سکھی پیا کوں جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری چھتیاں

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریم بیرو تسکیں

کسے پڑی ہے جو سناوے پیارے پی کو جاری بتیاں

فارسی و ہندی آمیزمزید ایک شعر ملاحظہ ہو:

گوری سووے سیج پر مُکھ پر ڈالے کیس

چل خسرو گھر آپنے رین بھئی سب دیس

لیکن باباے اردو مولوی عبد الحق صاحب نے لکھا ہے:

’’انھوں نے ہندی میں نظمیں اور دوہے لکھے، افسوس ان کا ہندی کلام اب تک دست یاب نہیں ہوا۔ تذکروں میں کہیں کہیں بعض چیزیں مل جاتی ہیں۔۔۔اس کے علاوہ پہیلیاں، انملیاں اور کہہ مکرنیاں وغیرہ ان کے نام سے مشہور ہیں، جن کی صحت کا اس وقت کوئی معتبر ذریعہ نہیں۔‘‘[1]

اس کے باوجود خسروؔ کا نام اردو زبان و ادب میں نہایت احترام سے لیا جاتا ہے۔کیوں نہ ہواردو زبان کی اصل بنا آپ ہی نے ڈالی۔ ہندی بھاشا کو فارسی و عربی کی چاشنی سے مزے دار مُربَّابنایا۔کبھی ہندی کے الفاظ فارسی میں لے گئے کبھی فارسی کے الفاظ کو ہندی میں لے آئے اور اس ترکیب سے ایک خوش گوار مصالحہ تیار کیا۔قصہ مختصر ہندی اور فارسی کو شیر و شکر کرنے والے اس میں نئے نئے انداز اور چوچلے پیدا کرنے والے سب سے پہلے آپ ہی بزرگ وار ہیں۔ آپ کی فارسی ہندی پُر معنی غزلوں سے جو وجد ہوتا ہے، اسے صاحبِ حال اور صاحبِ مذاق ہی خوب جانتا ہے۔ درحقیقت آپ شہرستانِ سخن کے باد شاہ، مملکتِ عرفان کے طاؤسِ خوش خرام تھے۔[2]

 اس موقع پر ہم دس معروف محققین، ناقدین اور مؤرخین کے اقتباسات کے ذریعے خسرو اور ان کی خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔

خسروؔ کا اصل نام ابو الحسن یمین الدین تھا۔ خسرو 651ھ،1253ء میں پٹیالی (مومن آباد، اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیف الدین ترکی کے قبیلے ہزارہ لاچین سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ سلطان شمس الدین التمش کے عہدِ حکومت میں برِ صغیر آئے اور فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔ خسرو کی والدہ عارض ممالک عماد الملک کی بیٹی تھیں۔آٹھ سال کی عمر میں خسرو کے والد کا انتقال ہوجانے پر آپ کی کفالت کی ذمّے داری آپ کے نانا نے قبول کی۔خسروؔ نے صغر سنی سے ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ ابتدا میں سلطانیؔ تخلص اختیار کیا اور بعد میں خسروؔ۔ نانا کے انتقال کے بعد آپ نے سلطان بلبن کے بھتیجے علاء الدین کشلو خان کی ملازمت اختیار کی۔ آپ نے بہت سے سلطانوں کو دیکھا۔ آخر عمر میں سلطان الاولیا حضرت نظام الدین اولیا کے مرید ہو گئے، اور سلطان محمد بن تغلق کے زمانۂ حکومت 725ھ،1325میں انتقال فرما کر اپنے پیر و مرشد کے مزار کے پائیتی میں مدفون ہوئے۔ فارسی و اردو نظم و نثر میں آپ کی طرف کثیر تصانیف منسوب ہیں۔

(۱)مولانا محمد حسین آزادؔ رقم طراز ہیں:

’’امیر خسرو نے کہ جن کی طبیعت، اختراع میں اعلیٰ درجہ صنعت و ایجاد کا رکھتی تھی، ملکِ سخن میں برج بھاشا کی ترکیب سے ایک طلسمِ خانہ انشا پردازی کا کھولا۔‘‘[3]

اس پر اکثر علماے محققین کا اتفاق ہے کہ اپنے خیالات و اظہار کے ابلاغ و ترسیل کے لیے خسرو نے ہی اول اول اُردو زبان کا انتخاب کیا اور آج سے تقریباً آٹھ سو سال قبل اُردو زبان ایجاد کی۔

(۲)صاحبِ خم خانۂ جاوید لالہ سری رام تحریر فرماتے ہیں:

’’اردو زبان میں جس شخص کو سب سے پہلے کسی مستقل تصنیف اور فکر کا موقع ملا اور شہرت بھی حاصل ہوئی، وہ حضرت امیر خسرو ہیں۔ پہلا دیوانِ اردو یا ریختہ میں چاہے کسی کا ترتیب دیا گیا ہو، لیکن اس میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا کہ پہلا شعر اردو کا، پہلی تصنیف اردو کی، امیر خسرو کی عالی دماغی کا مولود ہے۔ انھوں نے آیندہ اردو کے عنصر انتخاب کیے، مسالہ جمع کیا، ارکان مہیّا کیے اور ایک ڈھانچہ بنا کے دکھایا۔‘‘[4]

خسروؔ کی اہمیت صرف زبان و بیان کی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ مبدا فیض نے ان کے اندر ایسے اوصاف ودیعت کیے تھے جن کے حاملین خال خال ہی ہوتے ہیں۔

(۳)مولانا شبلی نعمانی ان کی توصیف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہندوستان میں چھے سو برس سے آج تک اس درجے کا جامع کمالات نہیں پیدا ہوا اور سچ پوچھو تو اس قدر مختلف اور گو ناں گوں اوصاف کے جامع ایران و روم کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دو چار ہی پیدا کیے ہوں گے۔ صرف ایک شاعری کو لو تو ان کی جامعیت پر حیرت ہوتی ہے۔ فردوسی، سعدی، انوری، حافظ، نظیری بے شبہ اقلیمِ سخن کے جم و کے ہیں مگر ان کی حدود و حکومت ایک اقلیم سے آگے نہیں بڑھتیں۔ حافظ، عرفی، نظیری غزل کے دایرے سے باہر نہیں نکل سکتے اور انوری غزل کو چھو نہیں سکتا،لیکن خسرو کی جہاں گیری میں غزل، مثنوی، قصیدہ، رباعی سب کچھ چھوٹے چھوٹے خط ہاے سخن یعنی تضمین، مستزاد اور صنائع و بدائع کا شمار نہیں۔‘‘[5]

خسروؔ کو اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت میں بھی دست رس حاصل تھی۔ اردو میں تو ان کی حیثیت اردو کی ادبی دنیا میں ماہتاب کی سی ہے، جس میں ان کی ہم سری کا کوئی دعوے دار نظر نہیں آتا۔

(۴)حافظ محمود شیرانی کا کہنا بہ جا ہے:

’’خسرو ادبی دنیا کے لیے آفتابِ عالَم تاب ہیں اور خاکِ ہند اب تک ان جیسے اوصاف و کمالات کی حامل کوئی اور شخصیت پیدا نہیں کر سکی۔ وہ ایک طرف فارسی کے زبردست شاعر و ادیب ہیں تو دوسری طرف عربی اور سنسکرت میں دست گاہِ کامل رکھتے ہیں۔ جہاں فارسی پر ان کے احسانات ہیں، وہاں ہندی بھی ان کے چشمۂ فیض سے سیراب ہوئی ہے۔‘‘[6]

زبانِ اردو کو ادبی اغراض و مقاصد کے تحت برتنے والے بلکہ اس کے موجد و مخترع ہونے کا سہرا بھی خسروؔ کے سر باندھا گیا ہے۔

(۵) ڈاکٹر رام بابو سکسینا کا بیان ہے:

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے پہلا شاعر زبانِ اردو کا اس دھندلکے میں جو صاف طور پر نمایاں نظر آتا ہے، وہ حضرت امیر خسرو دہلوی ہیں، جن کی شہرت بحیثیت ایک فارسی شاعر کے کسی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں۔ انھوں نے سب سے پہلے اردو الفاظ ادبی اغراض سے استعمال کیے اور سب سے پہلے اردو میں شعر کہا۔ سب سے پہلی غزلِ اردو بھی امیر خسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔۔۔امیر خسرو کی شہرت زبانِ اردو کے شاعر یا ادیب ہی کی حیثیت سے نہیں ہے، بلکہ وہ اس کے موجد و مخترع بھی کہے جا سکتے ہیں۔‘‘[7]

کھڑی بولی کو زبان کا روپ دینے میں خسرو کا نمایاں کردار رہا۔ برج بھاشا اور کھڑی بولی کے اشتراک سے انھوں نے جو گل کاریاں کیں، اس سے ہر اردو خواندہ کے کندھے پر ان کا احسان ہے۔

(۶) ڈاکٹر گیان چند جین تحریر فرماتے ہیں:

’’ہندی کلام کی جو چیزیں ایسی ہیں جن کا ان کی تصنیف ہونے کا ایک گو نہ امکان ہے، اس میں برج بھاشا سے زیادہ کھڑی بولی کا رنگ ہے۔ خسرو کے عہد کی زبان برج اور کھڑی کی مشترک مورثِ اعلیٰ تھی۔ خسرو نے پہلی بار اس میں شعر کہہ کر کھڑی بولی کے ارتقا میں بڑی مدد دی۔ ان سے پہلے جو سدھ جوگیوں، ویر گاتھا کے راسو اور ناتھ پنتھیوں کا کلام ملتا ہے، اس میں کھڑی بولی اس طرح نکھر کر سامنے نہیں آتی جیسی خسرو کے قلم سے ٹپکتی ہے۔‘‘[8]

مصیبت یہ ہے کہ خسروؔ کی نگارشات ہمارے سامنے کم آئی ہیں، اس کے باوجود ان کا کمال یہ ہے کہ ان کے نام سے منسوب جو کچھ دست یاب ہے، وہ انھیں دہلوی ہندوی کا نقاشِ اول ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

(۷) ڈاکٹر گوپی چند نارنگ رقم طراز ہیں:

’’ضرورت ہے کہ شاہانِ اودھ کے کتب خانوں میں جو قلمی نسخے تھے اور جن کا ذکر اشپرنگر نے کیا ہے، انھیں تلاش کیا جائے یا ان سے پہلے کا کوئی قلمی نسخہ مل جائے تو امیر خسرو کے ہندوی کلام کی از سرِ نو تدوین کی جائے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ ایسی کسی دستاویز کی غیر موجودگی میں بھی امیر خسرو کی فارسی تصانیف میں اور ان سے منسوب ہندوی کلام کے بعض حصوں میں ایسی مضبوط تاریخی اور لسانی شہادتیں موجود ہیں کہ ان کی بنا پر امیر خسرو کو دہلوی ہندوی کا نقاشِ اول کہا جا سکتا ہے۔‘‘[9]

خسروؔ مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔ شعر و سخن کے ساتھ ساتھ موسیقی میں بھی درک، بلکہ مہارت رکھتے تھے۔

(۸) ڈاکٹر سید ظہیر الدین مدنی رقم طراز ہیں:

’’خسرو علوم و فنون میں مہارتِ تامّہ رکھتے تھے۔ ہندستانی اور ایرانی موسیقی میں تو آپ اپنی نظیر تھے۔ یہ جتنے بلند درجہ شاعر مانے جاتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ بلند درجہ ماہرِ موسیقی تھے۔موسیقی میں انھیں زبردست موجد و مجتہد کا درجہ حاصل ہے۔‘‘[10]

یہ درست ہے کہ خسروؔ کی زبان میں فارسی کی آمیزش ہے، لیکن اس میں بلا کی تاثیر ہے، جس نے بڑے دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔

(۹) ڈاکٹر انور سدید نے بہ جا لکھا ہے:

’’خسرو کی کاوش سے ہندی اور فارسی کو باہم شیر و شکر کرنے کا رواج چل نکلا، محمد تغلق کے ساتھ مشائخ کے جو قافلے دولت آباد گئے، وہ اپنے ساتھ شعر گوئی کی یہ روایت بھی لے گئے۔‘‘[11]

خسروؔ نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ انھیں نغمہ و سرور سے دل چسپی تھی۔ غزل کو ان کی خصوصی توجہ حاصل رہی۔ ان کے کلام میں رعنائی، معرفت اور دل سوزی کا عنصر غالب ہے۔

(۱۰) ڈاکٹر انوار الحسن کا کہنا بہ جاہے:

’’امیر خسرو ایک جامع کمالات شخصیت کے حامل تھے۔ وہ فنِ شاعری میں یگانۂ روز گار، علم و فضل میں باکمال، موسیقی کے مجدّد و موجد، نثر نگاری میں ماہر اور دوسرے متعدد فنونِ لطیفہ کے مسلم الثبوت استاد تھے۔۔۔خسرو نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ غزل ان کا خاص میدان تھا۔ قصیدہ گوئی میں بھی ان کی مہارت مسلّم ہے، لیکن فطری طور پر وہ مدح سرائی کو پسند نہیں کرتے تھے۔۔۔قطعہ، رباعی، مثنوی وغیرہ اصنافِ سخن میں انھوں نے ہزاروں اشعار لکھے اور ان میں بیش تر نہایت بلند پایہ ہیں۔ ان کا نعتیہ کلام نہایت دل کش، روح افزا اور ایمان پرور ہے۔‘‘[12]

مختصر یہ کہ خسروؔکے کلام کی جمع و ترتیب کی ابتدا پانچ سو سال قبل ہرات میں ہو چکی تھی، لیکن اس وقت صرف ایک چوتھائی حصہ ہی جمع ہو سکا۔ظاہر ہے مرورِ زمانہ نے اس کام کو مزید دشوار بنا دیا ہے۔بہ ایں وجہ آج بھی مطالعۂ خسرو تشنگی کا شکار ہے۔اس کے باوجود مذکورہ بالا اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ علماے اردو کے نزدیک خسروؔ اور ان کی خدمات نہایت قابلِ قدر ہیں اور یہی ثابت کرنا اس مقالے کا مقصد ہے۔

***

حوالہ جات

[1]اردو کے نشو و نما میں صوفیاے کرام کا کام،ص:16

[2]فرہنگِ آصفیہ، جلد:2، ص:198، ملخصاً

[3]آبِ حیات،ص:62

[4] امیر خسرو اور ان کی ہندی شاعری،ص:84

[5]شعر العجم، جلد:2، ص:106

[6]پنجاب میں اردو،ص:153

[7]تاریخِ ادب اردو، ص:11-12

[8]خسرو شناسی ، ص:230

[9]خسرو شناسی ، ص:264

[10]اردو غزل ولی تک ،ص:15

[11]اردو کی مختصر تاریخ، ص:71

[12]دیکھیے مقدمہ دیوانِ امیر خسرو،مرتبہ ڈاکٹر انوار الحسن

Leave a Reply