You are currently viewing حب الوطنی آزادی اور اردو شاعری

حب الوطنی آزادی اور اردو شاعری

 

ابوالبرکات،شاذ،قاسمی

تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن جگیراہاں بتیا

حب الوطنی آزادی اور اردو شاعری

شاعری حالات و حادثات سے متاثر ہو کر دل سے نکلنے والی جذبات و کیفیات کی موزوں عکاسی کا نام ہے اور حب الوطنی انسان کی فطرت جبکہ آزادی اسکا  بنیادی حق اس لیے شاعری میں حب الوطنی کے ترانے اور آزادی کے نغمات جا بجا ملتے ہیں شاعر جس سماجی پس منظر میں سانسیں لیتا ہے اس کی شاعری ٹھیک اسی سماج و معاشرہ کا عکس پیش کرتی ہے ۔

جس وقت ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی میں جکڑا ہوا تھا اورہرشخص اس غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے کے لیے اپنے بال و پر مار رہا تھا اس وقت ہماری اردو شاعری بھی حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہوکر آزادی کے لیے “انقلاب زندہ باد” کے نعرے لگا رہی تھی اردو شاعری کا تحریک آزادی میں متحرک بن کر آ جانے سے آزادی کی تحریک میں مزید تیزی آئی شاعروں نے اپنی شاعری میں حب الوطنی،آزادی،اتحاد، کی اہمیت پر زور دیا انگریزوں کے ظلم وبربریت کو مختلف انداز و اسلوب میں بیان کیا تو ہندوستانیوں کے دلوں میں وطن سے محبت کے جذبات جوش میں بدل گئےاور وطن پر نثار ہونے کے لیے سر پر کفن باندھ کر گھروں سے نکل گئے حب الوطنی کے اس قسم کے اشعار ہم یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کی تقریب کے موقع پر اکثر سنے ہوں گے ان تمام اشعار میں ایک جوش و جنون کی کیفیت،فدائیت کے جذبات اور غلام ہندستان کی مکمل آزادی کی بانگ پایی جاتی ہے آج بھی کسی بزم یا تقریب میں ترنم کے ساتھ اردو کا مشہور شعر “سرفروشی کی تمنا آج ہمارے دل میں ہے ،دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے”یا اقبال کے ترانے کا یہ شعر اے آبرود گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا یا پھر چشتی نے جس زمیں پہ پیغام حق سنایا گایا جا تا ہے تو فرط جذبات سے ایسا لگتا ہے کہ پورے مجمع پر سکون سا طاری ہو گیا ہو اور انکے چہرے اور آنکھوں سے گرم لہو باہر آنے کو بے چین ہو رہا ہو۔ یہ اردو شاعری کا کمال انفرادیت  ہے کہ اس نے وطن کی آزادی کے لیے ایک تحریک کا کام کیا۔

اردو شاعری میں انقلابی تیور اور آزادی کا تصوراقبال کے یہاں واضح طور پر ملتا ہے حالانکہ اس سے قبل بھی اردو شاعری میں حب الوطنی اور آزادی کے ترانے دیکھنے کو ملتے ہیں مگر اقبال نے اس کو جدا رنگ و آہنگ دیا اور اپنی بات کو نرالے ڈھب سے تشبیہاتی انداز میں رکھا وہ مارکسیت کے نظام سے کافی متاثر تھے جس کا اثر ان کی نظموں میں پایاجاتاہے ہے وہ کہتے ہیں۔

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو مٹا دو 

کاخ امراء کے در و دیوار کو مٹا دو 

گرماوں غلاموں کا لہو سوز یقیں سے 

گنجشاک فرومایہ کو شاہیں سے لڑادو 

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار 

انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور مات

اقبال کے علاوہ حب الوطنی ، ظلم و بربریت اور غلامی سے آزادی کا تصور ہم جوش ملیح آبادی کی شاعری میں بھی دیکھ سکتے ہیں ان کی شاعری نے نوجوان نسلوں کے قلوب میں حب الوطنی کے جوش و جذبہ کو بڑھاوا دیا تو دوسری طرف سرمایہ داروں ، انسانیت پر ظلم کرنے والوں اور آدمی کو غلام سمجھنے والوں کے خلاف احتجاج بلند کیا۔جو تحریکیں ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف ،غلامی سے آزادی حاصل کرنے  کے لیے لڑ رہی تھیں ان کی ہمت افزائی کی اور ان کے روم روم میں ایک ولولہ پیدا کیا جوش کی مشہور نظم “کیوں ہند کا زندہ کانپ رہا ہے ، گونج رہی ہیں تکبیریں کو پڑھنے اور سننے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ حب الوطنی اور ملک کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے  جوش کے دل میں کس قدر جوش و جذبہ تھا اسی طرح حب الوطنی اور آزادی کے نغمات ہم مجاز کے یہاں بھی وافر مقدار میں پاتے ہیں اردو شعراء میں مجاز کو ایک انقلابی شاعر کے طور پر جانا جاتا ہے انہوں نے نظم “انقلاب” لکھ کر اپنے انقلابی ہونے کا ثبوت عمدہ طور پر دیا ہے انقلاب نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔

آرہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے

آگ دامن کا چھپائے خون برساتے ہوئے

کوہ صحراء میں زمیں سے خون ابلے گا ابھی

رنگ کے بدلے گلوں سےخوں ٹپکے گا ابھی

سرکشی کی تیز آندھی دم بدم چڑھتی ہوئی

ہرطرف یلغار کرتی ہر طرف بڑھتی ہوئی

خون کی ہولی کی جنگل سے ہوائیں آئیں گیں

خون ہی خون ہوگا نگاہیں جس طرف بھی جائیں گیں

اس طرح ہم دیکھیں گے کہ اردو شاعروں نے اپنی شاعری میں ہر دور و ہر حالات میں وقت کی ظالم طاقتوں کے خلاف آوازیں بلند کیں خاص طور سے ہندستان میں انگریزوں کے غلامی کے خلاف انقلاب انگیز نظمیں لکھ کرمادر وطن کے ساتھ حب الوطنی کو پیش کیا ہے تحریک آزادی میں بھی اردو شاعری نے ہی قومی یک جہتی  کا نظریہ پیش کیا اور اتحاد کی اہمیت کا سب کو احساس دلایا یہ اردو شاعری ہی تھی جس نے غلامی کی زندگی گزار رہے ہندوستانیوں کو ہند و مسلم ایکتا ، اتحاد، یک جہتی مشترکہ قومی مفاد اور ظالم انگریزوں کے خلاف ایک پلیٹ فارم بناکر لڑنے کا تصور پیش کیا اور ملک کے تمام باشندوں کے رو برو ہو کر آزادی کی اہمیت کو اجاگر کیا اور انگریزوں کے ہندستان مخالف پالیسیوں کو عام کیا کبھی انقلابی نظمیں لکھیں تو کبھی اپنے بے باکی اور جرات مندی کے جرم میں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ایسے شعراء میں مولانا حسرت موہانی، اسرار الحق مجاز ،لال چند فلک، عرش ملسیانی ، الطاف حسین حالی ، فراق گورکھ پوری، ساحرلدھیانوی ،چکبست برج نرائن، نذیر بنارسی،تلوک چند محروم،معین احسن جذبی،افسر میرٹھی،میر سید نذیر حسین ناشاد، سرور جہان آبادی،ظفر علی خان، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہے جن کے نظموں میں حب الوطنی کے ساتھ ساتھ آزادی ہند کے لیے مکمل تحریک پائی جاتی ہے ۔

حبیب جالب کی نظم “ماں”  علی سردار جعفری کی نظم “اٹھوں ہند کے باغبانوں اٹھوں “جوش ملیح آبادی کی” کیوں ہند کا زندہ کانپ رہا ہے  گونج رہی ہیں تکبیریں “اسرار الحق مجاز کی نظم ” جلال آتش برق و سحاب پیدا کر ” لال چند فلک کی نظم “خوف آفت سے کہاں دل میں ریا آئے  گی ۔عرش‌ملسیانی کی نظم ” میرے وطن پیارے وطن ” جوش ملیح آبادی کی “اے وطن پاک وطن روح رواں احرار ” اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب “اور” پھر حصول آزادی کی دقتیں”یہ سب کے سب اردو شاعری کی وہ نظمیں ہیں جن میں حب الوطنی اور مادر وطن سے عقیدت و محبت کے جذبات وافر طور پر پائے جاتے ہیں اور ان نظموں کے پڑھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس طرح ان نظموں نے آزادی کے  متوالوں کے دلوں کو گرمائے رکھا ہوگا آئے ہم اردو شاعری کے چند اشعار کی سحر آفرینی سے مسحور ہوتے ہیں جن میں حب الوطنی اور آزادی کے نغمات پائے جا تے ہیں ۔

میدان میں نکل آئی  ایک برق سی لہرائی

ہر دست ستم کانپا بندوق بھی تھرائی

ہر سمت صدا گونجی

میں آئی  ہوں میں آئی

اس نے کہا خون خواروں

دولت کے پرستاروں

دھرتی ہے یہ ہم سب کی

اس دھرتی کے نادانوں

انگریز کے دربانوں

صاحب کی عطا کردہ

جاگیر تم نہ جانو

خوف آفت سے کہاں دل میں ریا آئے گی

بات سچی ہے جو وہ لب پہ صدا آئے گی

دل سے نکلے گی نا مر کر بھی وطن کی الفت

میری مٹی سے بھی خوشبو وفا آئے گی

اٹھو ہند کے باغبانوں اٹھو

اٹھو انقلابی جوانوں اٹھوں

کسانوں اٹھو کامگاروں اٹھو

نئی زندگی کی شراروں اٹھو

اے ہندو و مسلماں آپس میں ان دنوں تم نفرت گھٹائےجاؤ الفت بڑھائے جاؤ

بکرم کی راج نیتی اکبر کی پالیسی کی

سارے جہاں کے دل پہ عظمت بڑھاءی جاؤ

بے خوف گائے جاؤ “ہندستان ہمارا”

اور”وندے ماترم” کے نعرے لگائے جاؤ

پھانسی کا جیل کا ڈر دل سےفلک مٹا کر غیروں کے منھ پہ سچی باتیں سناے جاؤ

مذکورہ اشعار میں جو  حب الوطنی اور آزادی کے  جذبات سے لبریز نظموں کے ٹکڑے ہیں آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اردو شاعری نے کس قدر وطن کی عقیدت کو مؤثر بنا کر پیش کیا ہے تو وہی مادر وطن کی آزادی کی خاطر کس طرح ہندوستان والوں کو پر جوش کیا ہے ساتھ ہی آپ یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ اردو شاعری نے جس طرح حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا ہے ملک سے عقیدت و محبت کے ترانے گن گنائے ہیں اس کی‌نظیر ملنی مشکل ہے

اردو شعراء نے جیل کی سلاخوں اور انگریزوں کے مظالم سے  بے پرواہ ہو کر  انگریزوں کے مظالم کے خلاف آوازیں بلند کیں اور سب سے پہلے  مکمل آزادی کی بانگ دی۔ جس کے جرم انہیں سخت ترین سزا دی گئی جیلوں کی کڑی مشقتیں دی گئیں مگر ان کی حب الوطنی اور آزادی کی تڑپ کم نہی ہوئی  بلکہ انہوں نے جیلوں میں بھی اپنے مقا صد(آزادی و حب الوطنی)  اور اپنا مشغلہ(شاعری)کو جاری رکھا مولانا حسرت موہانی نے قید و بند کے زمانے میں ہی اپنا یہ مشہور شعر کہا تھا

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

ایک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی

بالآخر ہمارا‌ملک مسلسل قربانی اور پیہم کوششوں کے بعد “آز دی”کی حقیقت سے آشنا ہوا مگر افسوس کہ جس زبان نے اپنی

 شاعری کے ذریعہ حب الوطنی،آزادی ،انقلاب،آپسی اتحاد،کا سبق پڑھایا اسے آج نظر انداز کیا جا رہا ہے اور آزادی کے بہتر سال بعد بھی وہ اپنوں کی بے وفائی کا رونا رو رہی ہے ۔

***

Leave a Reply