You are currently viewing فنِ تلمیح:اجمالی جائزہ

فنِ تلمیح:اجمالی جائزہ

 محسن خالد محسنؔ

لیکچرار،شعبہ اُردو(گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور)
mohsinkhalid53@gmail.com
Mohsin Khalid  Mohsin
Lecturer,Department of Urdu
Govt.Shah Hussain Associate College Lahore

فنِ تلمیح:اجمالی جائزہ

   The Art of Allusion: An Overview
ABSTRACT
Allusion is a well-known sub-genre of innovation, i.e., sante, which classical poets equated with their poetry. The reason for the interest in this sante is its meaning and depath, which bring a comprehensiveness of brevity and wonder to the word. By means of talmeeh, long events are described in short, i.e., one or two words, by which the whole event comes to the mind of the reader and also creates a sense of breadth and meaning transmission in prose and poetry. In this paper, the introduction and meaning of talmeeh, types of talmeeh, sources, history, and tradition have been discussed, which will help in understanding the art of talmeeh.
Key words: Allusion, Urdu poetic tradition, Qur’anic stories, Mythological concepts,religious concepts, Iranian literature, classical ghazals, human behaviour, fictional thoughts
خلاصہ:تلمیح علم بدیع کی معروف ذیلی قسم یعنی صنعت ہے جسے کلاسیکی شعرا نے اپنے کلام میں برابر برتا ہے۔ اس صنعت سے دلچسپی کی وجہ اس کی معنویت اور وسعت ہے جس سے کلام میں اختصار و اعجاز کی جامعیت در آتی ہے۔ تلمیح کے ذریعے طول طویل واقعات کو مختصر یعنی ایک دو الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے جس سے پورا واقعہ قاری کے ذہن میں آجاتا ہے اور کلام ِ نثر و نظم میں وسعت اور معانی کی ترسیل کا سلیقہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اس مقالہ میں تلمیح کا تعارف و مفہوم، تلمیح کی اقسام،ماخذات، تاریخ اور روایت سمیت جملہ مباحث کو زیر بحث لایا گیا ہے جس سے تلمیح کے فن کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
کلیدی الفاظ: تلمیح، علم بدیع، روایت،قرآنی قصص ،ایرانی ادب،کلاسیکی غزل،شعری روایت،مذہبی توہمات،مشرقی تصورات،اساطیری  واقعات
تخلیق کی خواہش انسان کی سرشت میں ودیعت کی گئی ہے اور یہ ایک ذاتی ضرورت کے پیش نظر  افعال ِزیست میں مملو ہے۔ فن کی ایک معتبر خوبی یہ ہے کہ یہ صرف فنکار تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ اپنے اظہار کے لیے فنکار کو بطور وسیلے کے استعمال کرتا ہے۔ فنکار تب تک اپنی تخلیق سے مطمئن نہیں ہوتا جب تک اس فن کو لوگوں کے سامنے نہ لے آئے۔یہ بات فنکار کے پیش نظر ہمیشہ رہی ہے کہ لوگوں کی فن کے متعلق کیا رائے ہے اور لوگ فن کے کس اظہار کو کب کب زیادہ سراہتے اور اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
لوگ اپنے ذہن و قلب میں فن سے متعلقہ جو رائے رکھتے ہیں وہ عام طور سے مخفی رہتی ہے۔ان مخفی جذبات و آرا کو ایک فنکار مصوری اور تخلیق کاری کے ذریعے ان لوگوں کے سامنے لانا اپنا کارِ شوق اور فرض واجبی سمجھتا ہے۔فنکار اگر ان کے جذبات و احساسات کو فن کے ذریعے لوگوں پر آشکار نہ کرے تو فن اور فنکار کا جواز اور اس کے اسباب ِ بنیاد زائل ہو جاتے ہیں۔
احساس کو تخیل پر تقدم حاصل ہے۔ جب تک کسی انسان میں جذبہ ء احساس پیدا نہ ہو وہ تخیل کے جمود کو متحرک نہیں کر سکتا۔ جذبہ تحریک کی صورت تخیل کو تحریک دیتا ہے جس سے تخیل کی پرواز میں فنکاری کے جوہر کھلتے ہیں اور جذبات و احساسات مجسم و منقش صورت لیے نمودار ہوجاتے ہیں۔ فنکار اپنے فن کے توسط سے ذاتی اور قُرب وجوار کے احساساتِ مجموعی کا اظہار کرتا ہے۔
فنون ِ لطیفہ کی کوئی شکل ہو،موسیقی،خطاطی،رقص و گلوکاری؛ہر ایک فن کی اپنی جداگانہ زبان اور گفتگو کا اُسلوب ہوتا ہے۔ احساس دل سے نکلتا ہے اور زبان سے ہوتا ہوا دل میں گھر کرجاتا ہے۔ عابد علی عابد لکھتے ہیں:
”فطرت، آرٹ کے خام مواد کی طرح ہے۔انسان اس خام مواد کو اپنے تخیل سے خوبصورت پیکر میں ڈھال کر فنونِ لطیفہ کے نمونے پیش کرتا ہے۔۔۔فنون ِلطیفہ میں ضروری ہے کہ وہ انسان کے شعورِ حُسن،حسِ جمال کو اُکسائیں۔ یہ احساس قرار و سکون کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ “[1]
فنونِ لطیفہ میں ادب کو ایک معتبر اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہ مسلمہ بات ہے کہ ادب میں شاعری کو نثر پر فضیلت ہے اور یہ تقدم لائق توجہ ہے۔ شاعری میں جذبے کا عنصر فراواں ہوتا ہے جبکہ نثر میں اُسلوب کا قرینہ جذبات و احساست کی ترسیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ شاعری ایک فن ہے جسے خدا سے منسوب ایک الہامی کیفیت سمجھا جاتا ہے۔اس میں جذبات و احساسات اور تخیل کی کارفرمائی فن کی نسبت زیادہ جاندار اورصحت مند اُسلوب کی حامل ہوتی ہے۔ احساسِ زیست کا بیان ایک شاعرنثار کی نسبت زیادہ موزوں اور زیادہ واضح انداز میں کرتا ہے۔ شاعر واقعات کو جزئیات کی مرقع تصویر کشی سے بیان کرتا ہے ۔تخیل کو جذبات سے مہمیز کر کے پیش کرتا ہے۔
ادب کو نظم و نثر کی کسی صورت میں تخلیق کیا جائے؛ ہر ایک میں قدرِ مشترک لفظ ہوتا ہے۔ الفاظ کی جلوہ گری جذبات و احساسات اور خیالات کو ترسیل و تفہیم کے لائق بناتی ہے۔عامی اور قاری الفاظ کے ذریعے اپنے ماضی الضمیر کا اظہار کرتے ہیں۔ الفاظ کی تفہیم اور بول چال کا انداز اعلیٰ،ادنیٰ اور سطحی ہو سکتا ہے لیکن الفاظ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ الفاظ کی اعلیٰ سطح اور سنجیدہ انتخاب ایک شاعر اور نثار کو عا می سے خاص اور خاص سے ممتاز بناتا ہے۔بقول عابد علی عابد:
”اصل میں شاعری کا فن،اعلیٰ خیالات کا بیان اور الفاظ کے ذریعے حُسن کی تخلیق کا نام ہے“۔ [2]
الفاظ دراصل شاعر کے جذبات و احساسات اور طبیعت کے موزوں ہونے کامظہر ہوتے ہیں۔ یہی الفاظ شاعری کی معلومات اور قوت مشاہدہ کا ثبوت ہوتے ہیں۔ شاعر کے پاس ذخیرہ الفاظ اس کی قوتِ ادراک اور مطالعہ کی وسعت کا غماز ہوتے ہیں۔ شاعر کے پاس الفاظ کا تموج ہو گا تو وہ اپنے من پسند موضوع سے لگا کھاتے سہل،رواں اور سشتہ الفاظ کا استعمال کرے گا ۔ یوں موضوع کو نگینے کی طرح موتی میں جڑ دے گا جس کی چمک اور ضوفشانی دیدنی ہو گی۔اس کے برعکس بیان میں انتہائی سطحیت درآئے گی۔ الفاظ کو موضوع کی مناسبت سے استعمال کرنے کا ہنر ایک فنکار کے فن کا عملی مظہر ہوتا ہے۔ یوسف حسین خاں لکھتے ہیں:
”زبان جذبات کے اُکسانے کا زبر دست ذریعہ ہے۔ہر لفظ یاخیالی تصویر میں یہ قوت موجود ہے کہ وہ ہمارے جذبات بر انگیختہ کر سکے۔لفظ مجسمے کی طرح بے جان،بے حس اور بے جذبہ نہیں ہوتے۔ان کی تہ میں جذب و حرکت کی قوتیں کارفرما ہوتی ہیں جن کی تلازماتی ترتیب جادو کا اثر رکھتی ہے۔شاعرلفظوں کے موزوں استعمال سے سماجی مقاصد کی خدمات انجام دیتا ہے۔لفظوں کا جوہر دوسرے لفظوں کے ساتھ ملنے ہی سے کُھلتا ہے جس طرح فرد کی صلاحیت جماعت میں نکھرتی ہے۔ “[3]
الفاظ کی اہمیت اتنی ہے کہ ان سے کسی قوم کی تاریخ کو سمجھنا اور جاننا ممکن ہے۔ الفاظ اپنے اندر تہذیب و ثقافت کے سوتے پنہاں کیے ہوتے ہیں۔ الفاظ کے دروبست سے انسانی تاریخ کے رویوں اور سوچ کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ الفاظ کی حیثیت ایک کرنٹ اور تار کے باہمی ربط جیسی ہے۔ دونوں کا عملی کام باہمی روابط کے بغیر ممکن نہیں۔اسی طرح شاعر اور قاری کے درمیان باہمی تعلق کی بنیادی الفاظ ہی ہیں۔
یہ الفاظ شاعر اور قاری کے درمیان باہمی خلا کو کم کرنے میں کلیدی کردا ادا کرتے ہیں۔ شاعر جو کچھ سوچتا، سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔الفاظ کے ذریعے انشا کے قالب میں ڈھال کرقاری کے سامنے لے آتا ہے۔
یوسف حسین خان الفاظ تخلیق کار اور قاری کے درمیان الفاظ کے ابلاغی تعلق کواس طرح واضح کرتے ہیں:
”شاعر الفاظ کو اس لیے استعمال کرتا ہے کیونکہ وہ دلچسپیاں جو کہ اس صورت حال سے پیدا ہوتی ہیں مل کر ان الفاظ کو بالکل اسی شکل میں اس کے شعور میں داخل کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے سارے تجربات کو منظم ومستحکم کر کے اپنے قبضے میں لا سکے۔الفاظ بذاتِ خود مخصوص تصورات یا افکار کی ترجمانی نہیں کرتے بلکہ وہ تو اسی تجربے کی ترجمانی کرتے ہیں۔جس تجربے سے شاعر اور قارسی یکساں گرزتا ہے۔ “[4]
نثر و نظم اگرچہ دونوں کا قالب لفظ کی جادو گری اور بُنت کاری سے نمو پاتا ہے۔شاعری میں لفظ کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ شاعری میں احساس کو مختصر الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ منتخب الفاظ میں بڑے موضوع کو سمیٹ لینا گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے جیسا عمل ہے۔ ہر لفظ کو نگینے کی طرح شعر کے قالب میں جڑنا ہوتا ہے۔ہر لفظ کا برمحل احساس،جذبہ اور کسی بیتے اَن بیتے تجربے کا اظہار ہوتا ہے۔ الفاظ کے دروبست اور بر محل استعمال کا سلیقہ ایک شاعر کو آمد و آورد کی آوارانہ  ہنر کاری سے میسر آتا ہے ۔ الفاظ کے اسی ہنرمندانہ استعمال سے بحور و اوزان،صنائع بدائع،موسیقی و ترنم اور معانی و افہام کا خزانہ نکلتا ہے۔نظم کی ممتاز صفات الفاظ سے ہی وابستہ ہیں۔ الفاظ کی الہامیانہ کرامت سے شاعری کی رستا خیز خوبیاں جنم لیتی ہیں۔
نظم کے بر عکس غزل ایک آسماں ہے جس پر الفاظ ستاروں کی طرح چمکتے ہیں۔ ان کی ضوفشانی ستاروں کی روشنی سے کہیں زیادہ فروزاں ہے۔ ہر لفظ اپنی ایک شناخت رکھتا ہے۔ ہر لفظ اپنا ایک انفرادی قالب رکھتا ہے جس میں معنی کا ایک جہان آباد ہوتا ہے۔الفاظ دراصل شعر و نثر میں اختراعی مرقعے خلق کرنے میں خام مسالہ کا کام کرتے ہیں۔الفاظ اور معانی کا باہمی رشتہ لازم وملزوم ہے۔
 الفاظ کے ظاہری و باطنی مفہوم تک رسائی حاصل کیے بغیر خیالات و افکار کے ملبس اتہام کا فہم کارِ زیاں بن جاتا ہے۔اکثر نقادوں نے الفاظ کی نوعیت اور برمحل استعمال پر تاکید کی ہے تا کہ الفاظ کےباطن میں پہناں مفہوم تک رسائی آسان ٹھہرے۔تیز اور شدید صوت والے الفاظ سے احتراز کرنے کو کہا گیا ہے۔ ناموزوں الفاظ کی بجائے موزوں،بر محل اورسادہ الفاظ کے استعمال کی تاکید کی گئی ہے۔
الفاظ کے حُسن ِابلاغ پر توجہ دراصل ابلاغ کے عمل کو متحرک اور رواں رکھنے کا عمل ہے۔ الفاظ کی تفہیم اس کی سجاوٹ سے نہیں بلکہ اس کے بر محل اور موزوں استعمال سے ہوتی ہے۔ یہ الفاظ نظم و نثر میں تلمیح، کہیں تشبیہ، استعارہ،مراتہ النظیر اور کہیں مجاز مرسل ، کنایہ کی صورت بیان و بدیع کی رمزیات کو آشکار کرتے ہیں۔
بیان اور بدیع میں تلمیحات کا دائرہ خاصاوسیع نظر آتا ہے۔ ان صنائع میں “تلمیح” کی اہمیت زیادہ ہے۔ ان صنائع کے استعمال کا مقصد شعر میں خوبی اور ابلاغ کی سہولت کا پیدا کرنا ہے۔ تلمیح کے ذریعےمعنی کی  ترسیل و ابلاغ کا مقصد زیادہ موزوں اور سہل انداز میں انجام دیا جاتا ہے۔
تلمیح اگرچہ بظاہر ایک لفظ ہے؛لیکن اس کی تہ میں معنی کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے۔ تلمیح کا پس منظر ایک پوری کہانی، واقعہ اور حکایت پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کہانی،واقعہ اور حکایت کو جانے بغیر اس کے نثری متون کی غرض و غائیت کو سمجھنا مشکل ہے۔عابد علی عابد اس حوالے سے لکھتے ہیں:
”تلمیح کے استعمال سے ہمارے ذہن میں تصورات و افکار کا ایک وسیع سلسلہ پیدا ہو جاتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ بَہ امتدادِ زمانہ بعض الفاظ وکلمات میں ایسی دلالتیں پیدا ہو جاتی ہیں یا ان سے ایسی کیفیات وابستہ ہو جاتی ہیں کہ تلمیح اشارے سے متعلقہ کوائف و افکار کے تمام پہلو ہماری نظروں کے سامنے اس طرح اُبھرآتے ہیں کہ رمز و ایما اور اختصار کا وصف ان میں در آتا ہے جو شعر کی اور بالخصوص غزل کی جان ہے۔ “[5]
دُنیا میں ادب کے حوالے سے بیشتر کتابوں میں لفظ تلمیح کی تعریف مختلف الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ ماہرین ِ لسانیات، محققین اور نقاد حضرات نے تلمیح کی تعریف کو  مختلف اور جداگانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ کسی نے اس کو کسی واقعہ کا اشارہ قرار دیا ہے اور کسی نے محض تاریخی واقعات سے منسوب کیا ہے۔ کوئی تلمیح کو فقط مشہوراتِ قصص ِعوام تک محدود کرتا ہے اور کوئی تلمیح کی تعریف میں علمی اصطلاحات و روایات کو بھی شامل کیے ہوئے ہے۔ کسی نے اپنے تجربے کی رو سے ضرب الامثال،محاورات،آیاتِ قرآنی اور احادیث کو بھی تلمیح کے دائرے میں شامل کیا۔مختصر یہ کہ تلمیح کی تا حال کوئی جامع اور مفصل تعریف نہیں ملتی۔
تلمیح کی تعریف میں یہ اختلاف دراصل یوں پیدا ہوا کہ شعراء نے پہلے پہل صرف تاریخی واقعات کو شاعرانہ معنویت کے لیے استعمال کیا۔اس تصرف سے تلمیح میں تاریخی عنصر شامل ہو گیا۔بعد ازاں علم موسیقی،طب و سائنس کی اصطلاحات کو بھی معانی کی ادائیگی کے لیےمحض استعمالات کی غرض سے تلمیح کی ذیل میں شامل کر لیا گیا۔ مرورِ وقت کے ساتھ تلمیح کی تعریف تغیر و تبدل کے عمل سے گزرتی رہی۔حذف و اٖاجہ کا یہ عمل تلمیح کی تعریف میں تعارض و اختلاف شدید اختلاف کی صورت اختیار کرتا گیا جس سے تلمیح کی قطعی تعریف کا تعین ایک مسلئہ بن گیا۔
اُردو زبان و ادب کا عبوری دور گزر چکا ۔شعرا کا کلام بھی معیار فصاحت کے اعتبار سے سند نہیں رہا۔ اس کے باوجود ہمارے پاس آٹھ سو سال پر محیط اُردو شاعری کا سرمایہ محفوظ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب تلمیح کی تعریف کو متعین کیا جائے جس سے شعرا کے تمام استعمالات کا احاطہ و استقسا کیا جا سکے اور ان کے مشمولات ِ شعری کو تلمیحی اشارات سے منسوب کر کے ان کے فنی محاسن کا احاطہ کیا جا سکے۔
ماہرین لغات و لسانیات نے تلمیح کے سلسلے میں کچھ اس انداز سے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔
٭۔فیروز اللغات:
”تلمیح،علم بیان کی اصطلاح میں کسی قصہ وغیرہ کا کلام میں اشارہ کرنا۔ “[6]
٭۔غیاث اللغات:
”لغوی معنی بحائے مہملہ نگاہ سبک کردن بسوئے چیزے از منتخب و یا اصطلاح اہل معنی اشارت کردن در کلام بقصہ یا آوردن اصطلاحات نجوم و موسیقی وغیرہم یا در کلام آوردن آیات قرآن مجیدیا احادیث۔ “[7]
٭۔نور اللغات:
” کلام میں کسی قصہ کی طرف اشاہ کرنا[8]
٭۔فرہنگ عامرہ:
”کلام میں کسی قصہ کی طرف اشارہ،اچٹتی نگاہ ڈالنا،اپنے کلام میں احادیث یا آیات لانا۔ “[9]
٭۔فرہنگ تلفظ:
”کلام یا بیان میں کسی معروف واقعے یا متن یا شخص کی طرف اشارہ،مضمر یا اجمالی حوالہ۔ “[10]
٭۔مہذب اللغات:
”تلمیح،کسی چیز کی طرف اشارہ کرنا۔علم بیان کی اصطلاح میں ایک صنعت کا نام ہے جس میں شاعر اپنے کلام میں کسی مشہور مسئلہ یا کسی قصہ یا مشہور مَثل یا اصطلاح نجوم وغیرہ کسی ایسی بات کی طرف اشارہ کرےجس کے معلوم ہوئے اور بے سمجھے اس کلام کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں نہ آئے۔ “[11]
٭۔جامع اللغات:
”کسی چیز کی طرف سبک نگاہ سے دیکھنا اور اپنے کلام کو آیات و احادیث سے ثابت کرنا۔ “[12]
تلمیح کی تعریف کے سلسلہ میں یہاں تک صرف اہل لغت کا جائزہ تھا۔ ان لغت نویسوں نے تلمیح کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ  کے حوالے سے تلمیح کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے
کچھ مزید تعریفات ملاحظہ کیجے:
٭۔معیار البلاغتہ:
”ایں صنعت چناں است کہ کلام شعر باشد بر واقعہ از وقائع مشہور یا اشارت نمایند بر چیزے کہ در کتب متداولہ مذکور و در باب صنعتے مشہور باشد۔ “[13]
٭۔رسالہ بدیع البدائع:
”اللتمیح اس طرح ہے کہ شاعر شعر میں کسی قصہ یا روایت کا اشارہ کرے کہ وہ مشہور یا کتب میں مذکور ہو کہ معنی شعر کے اوپر دریافت اس قصہ کے منحصر ہوں۔ “[14]
٭۔بحر الفصاحت:
”صنعت تلمیح جس کو تملیح بھی کہتے ہیں۔۔۔کسی چیز کی طرف نظر کرنے کو کہتے ہیں۔یہ صنعت اس طرح ہے کہ شاعر اپنے کلام میں کسی مسئلہ مشہورہ یا کسی قصہ یا مَثل یا اصطلاح نجوم وغیرہ کسی ایسی بات کی طرف اشارہ کرے جس کے بغیر معلوم ہوئے اور بے سمجھے کلام کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں نہ آئے۔ “[15]
(Allusion) ” سے یہ مطلب ہے کہ کسی شعر میں تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کیا جائے۔نگریزی میں علاوہ واقعات تاریخی کے رومی و یونانی صنمیات کی طرف بھی اشارہ کیا جاتا ہے اور اس کی متعدد مثالیں انگریزی میں موجود ہیں۔ “[416]
٭۔افادات سلیم:
”زبان کے ابتدائی دور میں چھوٹے چھوٹے سادہ خیالات اور معمولی چیزوں کے بتانے کے لیے الفاظ بنائے گئے ہیں۔رفتہ رفتہ انسان نے ترقی کا قدم آگے بڑھایا۔لمبے لمبے قصوں اور واقعات کی طرف خاص لفظوں کے ذریعہ سے اشارے ہونے لگے جہاں وہ لفظ زبان پر آئے فوراً قصے یا واقعے آنکھوں کے سامنے آگئے جن کی طرف وہ اشارہ کرتے ہیں ایسے تمام اشارے تلمیح کہلاتے ہیں۔ “[17]
٭۔ساحر لکھنوی:
” کسی چیز کی طرف سرسری نگاہ ڈالنا لیکن علم بیان کی اصلاح میں کسی قصے،کسی مشہور مسئلے،آیت یا حدیث یا کسی علم کی اصطلاح وغیرہ کی طرف کلام میں اشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔ “[18]
مذکورہ بالا عربی،فارسی اور اُردو زبان کی تعریفات کا ذکر کرنے کے ساتھ ہندی،سنسکرت،انگریزی زبان میں تلمیح کی تعریف کو بیان کرنا ضروری ہے تاکہ تلمیح کی جامع اور مانع تعریف کا تعین کرتے وقت ان زبانوں کے رموز و علائم بھی پیش ِ نظر رہے۔تلمیح کی مختلف تعریفیں ہیں۔سب تعریفوں میں ایک بات مشترک ہے۔وہ یہ کہ” تلمیحی شعر میں ایک منفرد لفظ ہوتا ہے۔شعر پر ایک نظر ڈالنے سے اس لفظ کی چمک آنکھوں کو خِیرہ کرتی ہے۔”
تلمیح کو ہندی میں کئی ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ ہندی میں تلمیح کے مترادف کے طور پر متعدد الفاظ مستعمل ہیں۔ بعض نے تلمیح کے لیے “انتر کھتا”  بعض نے” سندربھ”  اور  “سنکیت”  کا لفظ استعمال کیا ہے۔
٭۔محمد سجاد عثمانی تلمیح کی تعریف اپنی کتاب “ہندی شبد کوش” میں اس کرتے ہیں:
”نظم یا نثر میں کسی قصے کی طرف اشارہ،کسی کی طرف اُچٹتی ہوئی نگاہ ڈالنا،سبک نگاہ۔ “[19]
٭۔اُردو کلایسکل ہندی اور انگریزی ڈکشنری میں تلمیح کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
”اپنے مضمون میں کسی قدیم واقعے کا ذکر کرنا۔ [20]
٭۔سنسکرت ہندی لغت میں تلمیح کی اس طرح تعریف ملتی ہے:
”تلمیحی انداز میں کہی گئی بات کے اندر پوشیدہ مطلب۔“[21]
٭۔انگریزی زبان میں تلمیح کو(Allusion)کہتے ہیں۔انگریزی لغت میں اس کی تعریف اس طرح ہے:
“Allusion, usually an implicit reference perhaps to another work of literature or art, to person or an event.It is often a kind of appeal to a reader to share some experience with the writer.An allusion may enrich the work by association and give it depth.When using allusion a writer tends to assume an established with an audience to pick up the reference.The following kind-may be reoghly distinguished (a) a reference of events and people. (b) Reference to facts about the author himself. (c) An imititative allusion-22” [22].
     Oxford Advanced Learners Dictionary
“Allusion: something that is said or written that refers to or mentions another person or subject in an indirect way.[23]”
درج بالا قدیم و جدید اہل لغت اور علماء بلاغت کی مذکورہ تعریفات کا جائزہ لیں تو تلمیح کی تعریف میں جو قدرِ مشترک مفہوم نظر آتا ہے۔وہ کچھ اس طرح سے ہے:
 اشارہ کرنا، بعض اس کے لیے سبک انداز کی قید لگاتے ہیں۔
 مشہور و معروف ہونا۔
 علمی مسئلہ،ضرب الاامثال،اصطلاح،آیات،احادیث،واقعات و قصص کا ہونا۔
 لفظ تلمیح کا عربی ہونا۔
عربی،فارسی،سنسکرت،ہندی،انگریزی زبانوں کی فرہنگوں اور لغات میں شامل تعریفات اور ان میں قدرِ مشترکہ کا جائزہ لینے سے تلمیح کی جامع تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے:
تلمیح وہ صنعت معنوی ہے جس میں شاعر اپنے کلام میں کسی مسئلہ مشہور  قصہ ،قول یا مَثل ، اصطلاح نجوم یا موسیقی وغیرہ کی طرف اشارہ کرے جس کے معلوم ہوئے اور بے سمجھے کلام کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں نہ آوے۔آیت قرآن پاک کا لانا،کسی معجزہ کا ذکر کرنا،کسی حدیث کو نظم کرنا،کسی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کرنا تلمیح کی تعریف سے خارج از بحث نہ سمجھنا چاہیے بلکہ ان کو بھی تلمیح کی تعریف کا ایک ضروری جُز تصور کرنا چاہیے۔
 تلمیح کی جس مذکور تعریف کا تعین کیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ تعریف تلمیح کے  سیاق و سباق، پس و پیش منظر صناعی ومعنوی فصاحت و بلاغت کے اہم تقاضوں سے متصف ہے۔اس تعریف سے تلمیح کے جملہ اُوصاف نہ صرف ظاہر ہو جاتے ہیں بلکہ تلمیح کی غرض و غائیت اور اس کی اہمیت و افادیت کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔
تلمیح میں ایک بات لائقِ توجہ ہے۔یہ احساس ایک زمانے سے رائج چلا آرہا ہے۔اس احساس کا عام لوگوں میں بھی رجحان ملتا ہے۔ تلمیحات ایسے واقعات کا بیان ہے جو ماضی میں ہو چکے ہیں۔ہر واقعے میں کوئی نہ کوئی  کہانی پوشیدہ ضرورہوتی ہے جسے شاعر مخصوص انداز میں انشا کے قالب میں ڈھالنے کے لیے بیان و بدیع فنی التزام سے مدد لیتا ہے۔
اس بات کو قائمؔ کے اس شعر سے واضح کیا جاتا ہے:
؎  پیام آتے ہیں مجھ سے مورِ بے پر کی طرف ہر دم/  سلیماں ؒ بات ہے پیارے تری تو باد کے آگے (قائم)
مذکورہ شعر میں “مور” اور ” سیلمانؒ”دو ایسے الفاظ ہیں جو ہمیں حضرت سیلمان ؒ کے قرآنی قصص کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ کہانی قرآنی قصص سے اخذ کی گئی ہے۔اس واقعے کو قاری نے اگر پڑھ رکھا ہے تو وہ آسانی سے اس شعر کے پس منظر میں بیان کیے گئے واقعے کو سمجھ کر اس کا استنباط مذکورہ شعر کے صنائع لفظی یعنی تلمیح سے کر سکتا ہے۔ شاعر نے تلمیح میں ایک مشترک وصف کا تلازمہ یعنی سلیمانؒ کا استعمال کر کے پورے واقعہ کو نہ صرف سمجھا دیا ہے بلکہ شعر کے فنی حُسن کو بھی لائقِ نظیر تابانی عطا کر دی ہے۔
تلمیح ایک لفظ پر مشتمل ہو خواہ اس سے زائد۔ان میں کوئی تاریخی ، جغرافیائی ، معاشرتی،تہذیبی اور ثقافتی ایمائیت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے۔ محترمہ شمسیا تلمیحات کی وسعت و جامعیت کے حوالے لکھتی ہیں:
”تلمیحات ایرانی یا سامی یا ان کے علاوہ یعنی یونانی و ہندی ہیں۔جن میں ہر ایک کی غنائی اورحماسی کے اعتبار سے تقسیم ہو سکتی ہے۔ سامی تلمیحات اور عربی تلمیحات پر ہیں۔ اسلامی تلمیحات اسلام کے رجال سے متعلق ہیں۔یونانی اور ہندی تلمیحات بھی علم کے رجال سے تعلق رکھتی ہیں۔ “[24]
تلمیحات ایرانی ہوں یا سامی یا غیر؛بیشتر روایات سے متعلق ہوتی ہیں۔ہر قوم میں ان کی پرم پراہ کے مطابق کہانیاں اور روایتی قصص کے بہتے دھارے زبان ِ زد عوام و خواص ہوتے ہیں۔ ان تلمیحات کو سمجھنے کے لیے قوم کے مجموعی چال چلن اور تہذیب و اقدار کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔
ہر قوم کی پہچان اس کی روایات اور تہذیبی اقدار پر رکھی گئی ہے۔ عید،شادی و برات، اموات و تدفین اور توہمات و عقائد انھیں روایات و اقدار کا سر سبز اظہار ہیں۔ تاریخی تلمیحات میں اگرچہ صداقت کم اور مبالغہ زیادہ پایا جاتا ہے۔اس کے باوجود ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔اسی طرح اکثر کہانیاں داستانوں،تمثیلوں اور رسائیوں کی صورت میں بھی ہوتی ہیں۔ اس قسم کی کہانیوں کا تانا بانا زیادہ تر فرضی قصص سے بُنا جاتا ہے۔اس طرح کی کہانیوں اور قصص کے بارے میں رائے دینا مشکل ہوتا ہے۔شخصیات و واقعات پر مشتمل تلمیحات مذہب، تاریخ،روایت اور عمومی رجحان سے مملو؛نیکی و بدی کے مجسمے ہوتے ہیں جن کی مثال “اسطورہ  اور اساطیر” کے عنوان سے موسوم ہوتی ہے۔
ہر قوم کے پاس اسطورہ یا اساطیر کا کثیر سرمایہ محفوظ ہوتا ہے۔ ہیر رانجھا، سوہنی مینہوال،سیتا روان،اصحاب فیل، رستم و سہراب،شیریں فرہاد اور وامق و عذرا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ شاعر اپنی قوم سے متعلقہ تلمیحات کو روایتی اور اساطیری انداز میں بیان کرتا ہے۔مقصد اس کا ان شخصیات اور تمثیلی کرداروں سے یہ ہوتا ہے کہ اپنی قوم کی روایات و اقدار اور تہذیب و تمدن کے مجموعی چال چلن اور رویے کو اساطیری انداز میں مختلف کرداروں اور شخصیات کے ذریعے تلمیحی انداز میں پیش کیا جائے تاکہ اس قوم سے متعلقہ تہذیبی و سماجی عناصر کا رمز و ایمایت سے دوسری اقوام و ملل اور تہذیب و اقدار سے موازانہ و تقابل ہوسکے۔بطور نمونہ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
؎خسرو کے ساتھ شیریں تو محفوظ رہ ولے/یہ کہہ کہ تیرے ہجر میں فرہاد کیا کرے؟ (قائم)
؎ گِرا جو ہاتھ سے فرہاد کے کہیں تیشہ /درون کوہ سے نکلی صدائے واویلا  (انشاؔ)
؎ یک سلسلہ ہے قیس کا،فرہاد کا /جوں حلقہ زنجیر گرفتار ہیں سب ہم  (میرؔ)
قائم چاند پوری کے مذکورہ شعر میں ” داستان خسرو” اور “شیریں فرہاد “کی طرف اشارہ ہے۔ شاعر شیریں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور اس کے ساتھ ہجر کی کیفیت کا اظہار بھی کرتا ہے۔ قائم شیریں کی طرح اپنے محبوب کو شیریں کے پیکر میں دیکھ کر اس کو مذمت کا نشانہ بناتا ہے۔ اسی طرح انشا ء” کوہ کن فرہاد” کی طرف اشارہ کرتا ہے اور میرؔ اپنے مصائب و آلام کو اساطیری داستان سے مطابقت دے کر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ عشق کے مصائب میں مبتلا ہونا ایک فطری (لازم و ملزوم) امر ہے۔
          مختصر یہ کہ شاعر اساطیر سے جتنا مضبوط رشتہ اُستوار کرے گا اتنا ہی وہ اپنی فنی مہارت کا ثبوت دے گا۔
تلمیح کی اقسام اور اس کا حدود اربعہ
تلمیح کا دامن اپنی وسعت و جامعیت کے اعتبار سے خاصا وسیع اوروقیع ہے۔ تلمیح کے اظہار کا اصل میدان شاعری ہے۔شاعری کے علاوہ نثری اصناف میں بھی تلمیح نے خود کو اظہار کا معتبر ذریعہ منوایا ہے۔ شعری اصناف کی نسبت نثری اصناف میں تلمیحی پیرائیہ خاصا دلچسپ اور لطیف و دل نشیں ہوتا ہے۔ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے تلمیح کو منفرد مقام حاصل ہے۔تلمیح کی قلمرو میں اُردو زبان و ادب کی جملہ اصناف کو دخل ہے۔
فنی اعتبار سے تلمیح کے دائرہ میں علم بیان و بدیع کے جملہ مباحث زیر بحث آتے ہیں۔معنوی اعتبار سے بھی تلمیح کو ادبی و علمی و تاریخی مقام کے علاوہ تخیلاتی،واقعاتی اور اصطلاحی اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ تلمیح کا مختصر لفظ اپنے دامن میں قلزم جیسی وسعت اور معانی کا ایک بحرِ بیکراں لیے ہے جہاں شعر و ادب کی اقلیم ہفت محفوظ ہو جاتی ہے۔
تلمیح کی اقسام کا تعین معانی کے لحاظ سے ملتا ہے۔فنی اعتبار سے تلمیح کی اقسام نہیں ملتیں۔ وحید الدین سلیم اپنی معروف کتاب  “افادات سلیم”  میں تلمیح کی صرف دو اقسام کا ذکر کرتے ہیں۔
(۱)۔ادبی تلمیحات:وہ تلمیحات جو اُردو نظم و نثر میں مستعمل ہیں۔
(۲)۔عام تلمیحات:وہ تلمیحات جو عام بول چال میں داخل ہیں۔
پروفیسر وحید الدین کے علاوہ شمیم انہونوی تلمیح کی اقسام کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار محمود نیازی کی کتاب  “تلمیحات”  کے دیباچے میں اس طرح کرتے ہیں:
”مجتہدین علم کلام نے تلمیح کی بڑی بڑی دو قسمیں قرار دی ہیں۔تاریخ و قصص اور معتقدات :(۱) تاریخ و قصص اسماء و علام سے متعلق خاص خاص واقعات اور مخصوص تاریخی باتیں اوراشیا مراد ہیں۔(۲)معتقدات میں وہ باتیں شامل ہیں جن کو مذہبی عقیدے کے طور پر مانا جاتا ہے۔ “[25]
تاریخ و قصص اور معتقدات دونوں کو تلمیح کی اقسام میں شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ تلمیح کے مآخذ ہیں؛البتہ ان مآخذات کو معنوی اعتبار سے تلمیح کی ذیلی اقسام میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
معنوی اعتبار سے تلمیح کی معروف اقسام کا مختصر جائزہ ذیل میں پیش خدمت ہے۔
تاریخی تلمیحات
تایخی تلمیحات سے مرادوہ تلمیحات ہیں جو تاریخی حقائق اور واقعات پر دلالت کرتی ہیں۔ جب شاعر اپنے کلام میں کسی مشہور تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرے یا کسی تاریخی شخصیت کا ذکر کرے تو اسے تاریخی تلمیح کہتے ہیں۔ مثلاً نادر شاہی،تانا شاہی، رام راج، ایازی، جہانگیری وغیرہ۔
یہ تلمیحات تاریخ سے اخذ کی گئی ہیں جو واقعات و اصلیت پر مبنی ہیں نہ کہ من گھڑت۔ ان کے پس منظر میں تاریخی شہادتیں ہیں اور ان شہادتوں کا وجود تاریخی ہے۔ان تلمیحات کے ساتھ جو کہانیاں منسوب کی جاتی ہیں۔ان کو محض کہانیاں یا فرضی افسانہ کہنا مناسب نہیں۔یہ حقیقی اور اصلی تاریخی مرقعے ہیں جنھوں نے تاریخ کے جلو میں ابدیت حاصل کی ہے۔مثلاً:
؂ گنج میں تجھ عشق کے جن نے کیا ہے مقام/اس کو ٹوٹا بوریا تخت سلیماں ہوا
؂ نہ ہے قبرِ دارا نہ گورِ سکندر/مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اسلامی تلمیحات
وہ تلمیحات ہیں جو عام طور سے مذہبی عقائد اور خیالات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔جیسے انا الحق،پنجتن پاک،یوم الست، یدِ بیضا،دمِ عیسیٰ،صبر ِ ایوب وغیرہ۔مذہبی تلمیح کے پیچھے صوفیا کرام کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور ادب اپنی بقا اور خوشحالی کے لیے ان ہی کا مرہون منت ہے۔ صوفیا کرام نے صفائی قلب کے لیے اُردو ادب کو مالا مال کیا۔ تصور کے بڑے پیچیدہ اور مبہم اسرار کو تلمیحات کے پردہ میں سمجھادیا۔ باریک سے باریک نکتے اور گھتی کو تلمیح کے پیرائے میں اس انداز سے برتا  کہ پڑھنے، سننے والے پر اس کا فہم  وا  ہو گیا۔ مثلاً:
؂ جدھر جاتے ہو ہر گھر میں سے یہ آواز آتی ہے /مسیحا ہو جو بیماروں کا دم بھر دیکھتے جاؤ
؂ در پے خون ِ میر ؔ کے نہ رہو/آدم ابوالبشر ہیں یہ خیر البشر نہیں
فلسفیانہ تلمیحات
وہ تلمیحات جن میں فلسفیانہ موشگافیوں کا بیان ہو،جب شاعر اپنے کلام میں کسی مشہور فلسفی یا اس کے کسی خاص فلسفے کی طرف اشارہ کرے تو اسے فلسفیانہ تلمیحات کہتے ہیں۔مثلاً:
؂ فلاطوں ہوں زمانے کا سجن جب مجھ گلی آوے/نہ بوجھوں طفل مکتب کو اگر وہاں بو علی آوے
؂ ہر مخبط بھی خیال اپنے ہی افلاطون ہے /عقل پر ہوگی اُسے، وہ جو ترا مجنوں ہے
رسمی تلمیحات
وہ تلمیحات ہیں جو خاص خاص رسموں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔جیسے: سوئمبر،آرسی مصحف،خدائی رات،بسم اللہ وغیرہ۔یہ تلمیحات رسوم کی انجام دہی کے لیے استعمال ہو تی ہیں۔ اس قسم کی تلمیحات کو رسوم تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان میں شادی و بیاہ،تہوار،سفر سے آنے اور جانے،بیماری سے شفا پانے اور خوشی و غمی کے بیشتر مواقع پر مختلف انداز و اطوارسے ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔رسموں اور تہواروں کو منانے کی روایت بہت پرانی ہیں۔ان کو منانے والے ان کے ساتھ کئی اوہام و شگون وابستہ کیے ہوتے ہیں۔رسمی تلمیحات کا ایک وسیع ذخیرہ اُردو ادب میں موجود ہیں۔یہ تلمیحات نظم و نثر میں یکساں مستعمل  ہیں۔مثلاً:
؂ وہ چاند کے نزدیک وہ حسیں کہکشاں /سنجوگتا کے ہاتھ میں جیسے جے
؂ شور یہ عورتوں کا چار طرف/جلد دِکھلاو آرسی مصحف  (میر انیس)
سیاسی تلمیحات
وہ تلمیحات جن میں سیاسی شخصیات و واقعات اور حوادث کا ذکر کیا جائے۔سیاسی تلمیحات کے تحت ان امور سے بحث کی جاتی ہیں جس میں سیاسی حالات و واقعات،سیاسی انقلابات اور سیاست دانوں کا ذکر مذکور ہو۔ سیاسی تلمیحات میں قدیم و جدید دور کے سبھی نظریات و افکار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ شاعر سیاسی واقعات کے پس پردہ موجود حالات کی صوت کو تلمیحی پیرائے میں بیان کرتا ہے۔مثلاً:
؂ انقلاب آیا، نئی دُنیا، نیا ہنگامہ ہے/شاہ نامہ ہو چکا، اب دور ِ گاندھی نامہ ہے
؂ رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم/عصا  نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
تخیلی/فرضی/تلمیحات
وہ تلمیحات ہیں جن کی بنیاد فرضی یا تخیلی قصوں پر رکھی جاتی ہے۔ ان کا تعلق تخیل کی کارفرمائیوں سے مملو ہوتا ہے۔ جیسے:ہما،سیمرغ،شیخ چلی،جان بُل وغیرہ۔ان تلمیحات کا وجود محض فرضی قصوں،تصوراتی کہانیوں اور توہمات پر رکھا گیا ہے۔فرضی افراد، تخیلات،رمزیات اور کہانیاں دُنیائے ادب میں خیالات کے اظہار کے لیے اعلیٰ سانچے رکھتے ہیں۔ان تلمیحات کا تعلق مقامی حوادث و واقعات اور بیرونی اثرات سے مملو ہوتا ہے۔مثلاً:
؂ جانور جو تیرے صدقے میں رہا ہوتا ہے/اے شاہ حسن وہ چھٹتے ہی ہُما ہوتا ہے (میر انیس)
اساطیری تلمیحات
وہ تلمیحات ہیں جن میں مافوق الفطرت عناصر کا ذکر کیا جائے۔ شاعر اپنے کلام میں کسی مشہور جن،دیو، پری، دیوتاؤں کے فرضی قصے اور کہانیوں کا ذکر کرے جن کے جھوٹے اور سچے ہونے کا تعین نہ کیا جا سکے ایسے مافوق الفطرت قصص اور واقعات کو اساطیرکہا جاتا ہے۔اساطیری عناصر کو تلمیح کے پیرائے میں بیان کرنے کو مائتھالوجی کہتے ہیں۔ یہ قصے کہانیاں دراصل انسانی سِرشت میں کارفرما مافوق الفطرت خواہش کے حصول کی تسکین کا سامان ہوتے ہیں۔مثلاً :
؂ لیلیٰ جدھر تھی، وادی ِ مجنوں اُدھر گئی/شیریں کی ایک میں نہ کہوں، ورنہ بارہا (سوداؔ)
؂ رات دن رام کہانی سی کہا کرتے ہیں /فرصتِ خواب نہیں ذکرِ بتاں میں ہم کو (میرؔ)
علمی یا اصطلاحی تلمیحات
وہ تلمیحات ہیں جو علمی اصطلاحات یا دیگر مصطلحات پر مبنی ہوں۔جیسے: قفل ابجد،دیپک راگ،صغرٰی کبٰری،تثلیث،جنم پترا،پوتھی،پرجھک،جنم کنڈلی وغیرہ۔یہ تلمیحات جیسا کہ نام سے ظاہر ہے علم سے تعلق رکھتی ہیں۔ علم، بحرِ بے کنار ہے۔ اس نوعیت کی علمی و اصطلاحی تلمیحات بکثرت اُردو ادب میں موجود ہیں جنھیں ہر دور کے شاعر اور نثر نگاروں نے اپنے ماضی الضمیرکے اظہار کے لیے استعمال کیا ہے۔مثلاً:
؂ ہوا ہے مدرسہ بھی درس گاہ عیش و نشاط/کہ شمس بازغہ کی جا پڑھے ہیں بدرمنیر(میر حسنؔ)
؂ اگر پیالہ ہے صغرٰی تو ہے سبو کبرٰی/نتیجہ یہ ہے کہ سرمست ہیں صغیر وکبیر(ذوقؔ)
جغرافیائی تلمیحات
وہ تلمیحات جو ملک کی جغرافیائی حالات اور قوم کی تہذیب اور معاشرت کی آئینہ دار ہوں۔ جیسے: سیحون،لعل یمن،وادی ایمن بازارِ مصر، برج کا میدان،مشک ختن وغیرہ۔جغرافیائی تلمیحات کا تانا بانا یہاں کی مقامی معاشرت سے بُنا گیاہے جس کا اندازہ ان تلمیحات کے دیر پا مستعمل ہونے سے لگایا جا سکتا ہے۔یہ ایک تمدنی اُصول ہے۔کسی ملک کی قوم کی زبان اس کے جغرافیائی حالات کی تصویر اور اس قوم کی تہذیب و معاشرت کا آئینہ ہوتی ہے۔ جغرافیائی تلمیحات کا ذخیرہ اُردو ادب میں علمی یا ادبی تلمیحات کے مقابلہ میں کم نہیں ہے۔ ان تلمیحات پر مقامی معاشرت کی گہری چھاپ ہوتی ہے۔مثلاً:
؂ ابر کے کاندھے پر لائی ہے صبا گنگا جل/سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل (آتشؔ)
؂ جمنا تیری سہیلی گو، ساتھ کی ہے کھیلی /اس میں مگر کہاں ہے تیری سی جانفزائی (سرور جہاں آبادی)
ادبی تلمیحات
وہ تلمیحات ہیں جن میں خالص ایرانی اثر پایا جاتا ہے۔ جن پر ایران کی ادبی اثر کی چھاپ لگتی ہے۔مثلاً: جمشید،ضحاک،سہراب،رستم،مانی،بہزاد،شداد وغیرہ۔ ایران سے چل کر ہندوستان آئیں۔ہندوستان کی آب و ہوا ایسی سازگار ہے کہ باہر سے آنے والوں کے دل مُوہ لیتی ہے۔ اجنبیت کا پردہ اُٹھ جاتا ہے اور غربت کی مسافرت کا احساس رفع ہو جاتا ہے۔ ایرانی اثر سے ماخوذ تلمیحات اُردو ادب کا مستقل حصہ بن گئیں ہیں۔ان تلمیحات کے بہت سے چربے اُتارے گئے مگر یہ اپنی اَصالت کو کھوٹا نہ کر سکیں۔ان کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ ہر دور میں ان تلمیحات کو شاعروں اور نثر نگاروں نے شعر و نثر میں برابر استعمال کیا ہے۔مثلاً:
؂ بناوے کوئی عمارت تو کس توقع پر/پڑا ہے قصرِ فریدوں بِن آدمی سُونا (ولیؔ)
؂ ہوتا ہے زرد سُن کے جو نامرد مدعی /رستم کی داستاں ہے اپنا فسانہ کیا(آتش)
عوامی تلمیحات
وہ تلمیحات ہیں جو عام بول چال میں مستعمل ہیں۔ ایسی مثلوں کو تلمیحی مثل کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ جیسے: کہاں راجہ بھوج کہاں گنگوا تیلی۔نہ نو سو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی،پانچوں سوراوں میں شامل ہونا،لہولگا کر شہیدوں میں نام لکھوانا، ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا وغیرہ۔عوامی تلمیحات عام سے دو، دو حیثیتوں سے پائی جاتی ہیں۔ان میں سے بعض وہ ہیں جو تلمیحی محاوروں کی شکل میں ہیں اور بعض مثلوں کی شکل میں ہے۔ محاروات اور مثلوں کا گہرا تعلق عوام سے ہے۔اسی بنا پر ان کو عوامی تلمیحات کی صف میں رکھتے ہیں۔محاورے اور مثلیں ہمارے ادب کی زیبائش اور آرائش کی تراش خراش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مثلاً:
؂ خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال/آگ لینے کو جائیں، پیغمبری مل جائے (غالبؔ)
؂ قل ھو واللہ لگیں پڑھنے ہماری آنتیں/فاقہ جس روز ہوا یادِ خدا بھی آئی
درج بالا اقسام کے مطالعہ یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ تلمیحات کو ایک اقسام تک محدود نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان کو اُصولِ ریاضی کے تحت قطعیت سے متعین کیا جا سکتا ہے۔اقسامِ تلمیحات کے مطالعہ سے اس امر کا انکشاف ہوا کہ یہ تلمیحات جوق جوق،قریہ قریہ، نگر نگر اورملکوں ملکوں سفر کرکے ہمارے یہاں رواج پا گئی ہیں۔ ان کے باطن میں مقامی اور غیر مقامی،دیسی و بدیسی،قومی و بین الااقوامی،رسموں، تہذیبوں، تہواروں اورزبانوں کی آمیزیش کا رس شامل ہے جس کی مٹھاس نے اُردو ادب کے دہن کومزید شیریں کر دیا ہے۔
تلمیح کی اہمیت و افادیت
کائنات ِ شعر و ادب میں تلمیح کی حیثیت ایک صنعت کی ہے۔ علم ِ بدیع کی ایک اہم صنعت کی حیثیت سے اس کا مقام نہایت بلند ہے۔ لغوی اور اصطلاحی معنوں میں تلمیح سے مراد کلام میں کسی قصے یا تاریخی واقعے یا کردار کا جزوی و کُلّی اظہار اور اس کی طرف واضح اور ناگزیر اشارہ کرنا ہے۔ تلمیح کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مطالب کی ادائیگی کے فرائض انجام دیتی ہے۔ تلمیحی الفاظ کے استعمال سے پس ِپشت طول طویل قصے اور دیگر تفصیلات ازخود قارئین کے سامنے آجاتی ہیں۔ اس طرح کلام میں ایجاز و اختصار اور بلاغت کی خصوصیات در آتی ہیں۔
عہدِ قدیم کی شاعری میں تلمیحات کا استعمال شاعر کی قادر الکلامی،تاریخی و تہذیبی بصیرت اور روایتی شعور پر یکتائی قدرت کا ثبوت تھا۔ مذہبی،نیم مذہبی،سیاسی،سماجی، دیومالائی تلمیحات کے ذریعے شعرائے کرام کلام میں تشبیہ و استعارے کا حُسن ہی پیدا نہیں کرتے تھے بلکہ مضمون آفرینی اور جِدت پسندی کا ثبوت بھی فراہم کرتے ہوئے شعر کی معنیاتی دُنیا کو وُسعت سے بھی ہمکنار کرتے تھے۔تلمیح استعارہ،تشبیہ اور علامت کا پیکر اختیار کر لیتی تھی اور اشاروں اشاروں میں دل کی بات بیان کر دی جاتی تھی۔مشرقی تہذیب میں کہانی کی روایت روزِ ازل سے موجود ہے۔
مشرقی معاشرے میں قصے کہانیوں کے ذریعے اپنے دُکھ درد،خوشی و مسرت کی کیفیات کا بیان مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے مشرق میں تلمیحات کی اہمیت اور بھی دو چند ہو جاتی ہے۔عشقِ مجازی کی واردات ہو یا عشق ِ حقیقی کی بلند پروازی،محبوب کی اداؤں اور جفاؤں کا بیان ہو یا عاشق کی بیچارگی،غمِ روزگار ہو یا غمِ زندگی،تصوّف اورفلسفے کی نیرنگیاں ہوں یا رندی و سرشاری؛الغرض اُردوادب میں تلمیحات کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جسے بر وقت بروئے کار لا کر شاعر مافی الضمیر کی ترجمانی میں قدرے سہولت محسوس کرتا ہے۔
اُردو شاعری میں تلمیحات کا استعمال مقتدمین نے خوب کیا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ سے لے کر مرزا داغؔ تک کون سا ایسا شاعر ہے جس کے یہاں مذہبی،عشقیہ،اساطیری اور دیومالائی تلمیحات اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نہیں ہیں۔ شعرائے متوسطین نے بھی بزرگوں کے چراغ سے چراغ جلایا اور حسب ِ منشا تلمیحات سے اپنی شاعری میں بلاغت و ایجاز کی خوبیاں پیداکیں۔فانیؔ،حسرتؔ،جگرؔ،جوش،فراقؔ اور(خصوصاً) علامہ اقبالؔ نے سب سے زیادہ تلمیحات استعمال کا ستعمال کیا۔شعرائے متاخرین میں تلمیحات کے استعمال کا سلسلہ رفتہ رفتہ کم سے کم تر ہوتا گیا اور عصرِ حاضر میں تو بہت موقوف ہو کر رہ گیا ہے۔اس کے باجود جدید اُردو شاعری میں جہاں جہاں تلمیحات کا استعمال ہوتا ہے وہ عصرِ ِ حاضر کے مسائل و مصائب کے پس پردہ بیان کی ایک خاص ادبی چاشنی لیے ہوئے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اُردو شاعری کا دامن تلمیحات کے معاملے میں دوسری زبانوں سے زیادہ وسیع ہے کہ اُردو نے ایک سے زیادہ روایتوں، تہذیبوں اور دیومالائی قصص کے پیچ در پیچ متنوع موضوعات سے فیض اُٹھایا ہے۔تلمیحات کے استعمال نے اظہار کے وسائل کو موثر اور عہد بَہ عہد کے تجربات کی رودادکو جدت پسندی سے ہم آہنگ کر کے لائق تحسین بنا دیا ہے۔
دُنیا کی ہر چھوٹی بڑی زبان میں رسم و رواج،عقائد و اوہام، مذہب و ملت،تاریخ و سیاحت،عشق محبت،جنگ و جدل،مشاغل و تفریحات وغیرہ سے وابستہ ان گنت قصے کہانیاں،داستانیں،حکاتیں اور واقعات وغیرہ موجود ہیں۔ان کو جاننے سے ہمیں معاشرتی،تمدنی،سماجی اور مذہبی سرگرمیوں کا پتہ چلتا ہے۔ ان میں جو تبدیلیاں اور اصلاحات ہوئی ہیں۔ان کا علم حاصل ہوتا ہے اور پچھلے لوگوں کے تجربات سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اہل ادب نے ایسے قصہ طلب الفاظ کو برتنے اور استعمال کرنے کو ادبی ہنر قرار دیا ہے۔
 اس قسم کے الفاظ کے استعمال سے کلام میں نہ صرف حُسن اور زور پیدا ہوتا ہے بلکہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے مطالب کی ادائیگی بھی ممکن ہوجا تی ہے اور طول الطویل داستانوں اور قصوں کہانیوں کو بار بار دُہرانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ان اشاراتی یا تلمیحی الفاظ و مرکبات کے لیے یہ شرط لازمی ہے کہ ان سے متعلق قصے،کہانیاں اور مسائل عام فہم ہوں اور ان کو دائمی شہرت حاصل ہو۔اگر وہ مشہور اور عام فہم نہیں ہیں تو ان کو تلمیح نہیں کہا جا سکتا۔
تلمیح اظہار ِخیال کا ایک لطیف ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے جو طویل واقعات کو کمال اختصار کے ساتھ ادا کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے اور یہ مختصر نویسی کا کمال نہیں بلکہ ایجاز کا کرشمہ ہے۔تلمیح میں خیال کی ادائیگی عام طور سے براہ راست نہیں ہوتی بلکہ شاعر تلمیح کے ذریعہ شعر میں ایک “ایمائی”کیفیت پیدا کرتا ہے جو شعر کا حصہ ہے۔شعر میں الفاظ کے ظاہری قالب کے سہارے معانی کی ایک دُنیا آباد کی جاتی ہے ۔ جب ذہن ان معانی کا ادراک کر لیتا ہے تبھی شعر مکمل لطف دیتا ہے۔
تلمیح میں عجیب و غریب بلاغت ہوتی ہے جس سے ذہن ِانسانی متحرک ہو کر باطن کو جھنجھوڑتا اور لہو کو گرماتا ہے۔جو سننے والے کوپلک جھپکتے  سینکڑوں برس کا سفر طے کروا دیتی ہے۔ایجاز و اختصار،بلاغت اور سرعت انتقالِ ذہنی کے اسی کمال سے شاعری؛ تلمیح کی حیثیت و اہمیت متعین ہوتی ہے۔ تلمیح کا چھوٹا سا لفظ اپنے اندر معانی کی جو کائنات رکھتا ہے وہ لفظیات کی دُنیا میں گنجینہ معنی کے طلسم سے کسی صورت کم نہیں ہے۔کسی بلیغ سے بلیغ ترین لفظ میں معانی کی وہ وسعت و گیرائی نہیں پائی جاتی جو تلمیح کے چھوٹے سے چھوٹے لفظ میں پوشیدہ ہوتی ہے۔
مثلاً یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
؂ یوں ہی کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول/نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی (فیضؔ)
؂ الٰہی یہ بساطِ ررقص اور بھی بسیط ہو /صدائے تیشہ کامراں ہو کوہ کن کی جیت ہو(مخدومؔ)
فیضؔ و مخدوم ؔکے ان اشعار نے ماضی کے (سیاسی و سماجی) واقعات کو کس طرح موجودہ دور سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ عصرِ حاضرکے گھمبیر مسائل،اُلجھنوں،محرومیوں اور سماجی کشمکش کو شاعروں نے تلمیح کے پس پردہ موضوع سخن بنایا ہے اور جدید عہد کے نظامِ حیات سے اپنی بے اطمینانی اور نا آسودگی کا اظہار کیا ہے۔
اُردو شاعری کا دامن تلمیحات کے معاملے میں دوسری زبانوں سے زیادہ وسیع ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دوسری زبانوں کے برعکس اُردو زبان نے ایک ساتھ کئی روایتوں، تہذیبوں اور دیومالاؤں سے فائدہ اُٹھایاہے۔ یونانی دیومالاؤں کے کردار پرومتھیس ،ای یو زئیس،آرگس؛اسی طرح ہندوستانی دیومالا ؤں کے کردار شِیو،پاروتی، سرسوتی اور سامی تہذیب کے قصص سے منسلک مربوط کرداروں کا ذکر بھی کلاسیکی شعراء نے اپنے کلام میں ذوق و شوق سے کیا ہے۔
اگر کسی زبان میں تلمیحی اشاروں یا قصہ طلب الفاظ کا فقدان ہوگا تو اس زبان کےتخلیق کارکو خیالات کے اظہارمیں بہت وقت صرف کرنا پڑے گا اور اس طرح کے لکھے ہوئے قصے سننے پڑھنے والے کی ذوقِ طبع پر انتہائی ناگوار اثرات مرتب کریں گے۔دیگر زبانوں کی نسبت اُردو زبان میں تلمیحات کا ذخیرہ بہت وسیع ہے۔ عربی اور فارسی کے علاوہ ہندستانی ماحول و معاشرت کی تلمیحات سے اُردو کا دامن مالا مال ہے البتہ انھیں یکجا کرنے کا کام برائے نام ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تلمیحی اشاروں کو عام کیا جائے اور انھیں ترتیب دے کر عوام و خواص کے بول چال کا حصہ بنایا جائے۔
محمود نیازی اپنی کتاب “تلمیحات غالب “کے دیباچہ میں اس صورت ِاحوال پر لکھتے ہیں:
”اُردو کے مستند ادیبوں اور شاعروں نے جو عام تلمیحات استعمال کی ہیں اور وہ تلمیحات جو انھوں نے اپنی ایجاد کیں ہیں۔ان سب کوتلاش کر کے یکجا کر دیا جائے۔۔۔جس سے اُردو کا دامن مالا مال ہو سکتا ہے۔ “[26]
تلمیح کو استعمال کرنے کا اصل مقصد کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی ومطالب کی ادائیگی ہے۔ اگر ہر بات تفصیل سے کہی جائے اور طول طویل کہانیوں اور قصوں کو بار بار دُہرایا جائے تو سننے والے بھی اُکتا جاتے ہیں اور کہنے والے کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے۔ اسی بات کو اگر اشاروں میں بیان کر دیا جائے تو گفتگو میں فصاحت اور بلاغت پیدا ہوجاتی ہے ۔اس فنی التزام سے سامع کو بھی ہر بار نیا لطف محسوس ہوتا ہے۔تلمیحی الفاظ گو مختصر ہوتے ہیں لیکن اپنے اندر وسیع مطالب پنہاں رکھتے ہیں۔مثلاً یہ شعر دیکھیں:
؂ کشتیِ مسکین و جان پاک و دیوارِ یتیم /علم ِموسیٰ بھی ہے ترے سامنے حیرت فروش (
؂ نوح کا جودی پہ اور یونس کا بطنِ حوت میں/چاہ میں یوسف کا یارب پاسباں تو ہی تو تھا
؂ کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ /صبح کرنا شام کا لانا ہے جوے شیر کا
مذکورہ اشعار میں کمال خوبی کے ساتھ علامہ اقبالؔ نے حضرت خضر ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کے تفصیلی واقعات کو” کشتی مسکین،جان پاک اور دیوار یتیم” ایسے مختصر تلمیحی اشاروں میں بیان کر دیا ہے۔اگر ان واقعات کی تفصیل کو بیان کرنا مقصود ہو تو ہزاروں صفحات درکار ہیں۔اسی طرح مرزا غالبؔ نے ایرانی روایت کے حامل واقعات کو “جوئے شیر” ایسے مختصر لفظ سے بیان کر کے صنعت تلمیح کے حُسن کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
تلمیحی الفاظ کی بنیاد عام طور سے مشہورات پر ہوتی ہے۔قصہ طلب واقعات متعلقہ تلمیحی اشارات کے ذریعے فوراً سمجھ میں آجاتے ہیں۔جو قصہ جس طرح عوام میں مشہور ہے اس کو ویسا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں عقل و نقل، تنقیدو تبصرہ اور حذف و اضافہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ان تلمیحی اشارات و مرکبات سے ہمارے ادیبوں اور شعرا ء کے خیالات اور قوتِ تخیل کا اندازہ ہوتا ہے۔قصہ طلب الفاظ یا تلمیحی اشاروں کے لیے ضروری ہے کہ ان سے متعلقہ قصص و اقعات کے الفاظ مختصر ہوں جنھیں سُن یا پڑھ کر زیادہ سے زیادہ لوگ متعلقہ واقعہ یا قصہ کو سمجھ سکیں۔ ضروری نہیں کہ وہ مرکب الفاظ ہوں یا مفرد۔تلمیحی الفاظ کے رواج سے ادیب اور شعرا کو آسانی فراہم ہو تی ہے۔خیالات اور افکار کو مناسب سانچے میں ڈھال لینے پر قادر ہوجاتے ہیں۔
ادبی حیثیت سے اُن زبانوں کو مال دار سمجھا جاتا ہے جن میں تلمیحات کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔ انگریزی زبان کی مثال لیجیے۔اس میں ہر قوم، مذہب اور ملک کے ادب کی تلمیحات شامل ہیں اور ان میں آئے روز اضافہ ہوتا رہتاہے۔ اس کے بر عکس ہماری ہندستانی زبانوں پنجابی،ہندی،سنسکرت،خصوصاً اُردو کا دامن تلمیحات کے حوالے سے حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اس کی وجہ وقت کی بہتات اور مشاغل کی کمی ہے۔ہندوستان کے لوگوں کا رویہ ہے کہ یہ ہر جگہ مختصر بات کی بجائے لمبی گفتگو کے عادی ہیں۔ان کواس بات کی مطلق پروا نہیں کہ مختصر بات کو تفصیل سے بیان کرنا گویا قیمتی وقت کا ناقابل تلافی زیاں ہے۔ ضروت اس امر کی ہے کہ عصرِ حاضر کے شعراء اپنے کلام میں کلاسیکی شعراء کی تقلید میں مستعمل تلمیحات کو استعمال کریں تاکہ شاعری کے ذریعہ ان تلمیحات کو عام بول چال کا حصہ بننے میں مدد مل سکے۔
تلمیحات ادب کی جان ہیں۔خواہ نثر میں ہوں یا نظم میں۔ان معنی خیز اشاروں سے ادیب و شاعر کلام میں بلاغت کی روح پھونکتے۔تاثیر کا کمال دکھاتے اوراثر آفرینی کا جادو جگاتے ہیں۔خاص طور سے شعر میں تلمیح کا استعمال شعر کو لائقِ سماعت اور قابلِ توجہ بنادیتا ہے۔ تلمیحی معنی کی رعایت سے شعر جگمگا اُٹھتا ہے اور معنوی اعتبار سے شعر فصاحت و بلاغت کے بام عروج پر پہنچ جاتا ہے۔تلمیح جتنی سچی،حقیقی اور واقعاتی ہو گی؛شعر اُتنا ہی حسیں،خوبصورت اوردل آویز ہوگا۔
تلمیح کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ تلمیح ایک صنعت شعری ہے جسے علم معانی و بلاغت کی دیگر صنعتوں کو حسین تر اور لطیف ترین بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔نثر و نظم اور دیگر اصناف سخن پر تلمیح جس قدر غالب ہے؛کوئی اور صنعت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔تلمیح کی اس وقعت کے پیش نظر اُردو شعر و ادب میں اس کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اُردو زبان میں دیگر بدیسی زبانوں کی نسبت تلمیحات کا استعمال بہت کم ہوا ہے۔ اس زبان میں جو قدیم تلمیحات مستعمل ہیں۔اُن سے واقفیت بھی روز بَہ روز کم ہوتی جا رہی ہے۔اُردو نے جن زبانوں سے استفادہ کیا ہے۔خود ان کی مقبولیت کم ہونے سے اُردو کا دائرہ کار محدود ہو گیا ہے۔ہمارے ذہن و فکر میں عام طور سے یہ احساس غالب ہے کہ نئی تلمیحات کو قبول نہ کیا جائے اور صرف وہی تلمیحات کو اپنایا جائے جن کی تصدیق لغات میں ملتی ہیں اور سینہ بَہ سینہ ہم تک پہنچ رہی ہیں۔
تلمیحات کے فروغ کے حوالے سے معتصبانہ تنگ نظری کا یہ رویہ اس کے جواز اور وجود کے بقا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس احساس کے رواج پانے سے تلمیحات کی تدوین و ترتیب کا کام بہت کم ہوا ہے۔اُردو زبان میں مستند تلمیحات کی کوئی جامع کتاب یا فرہنگ ہنوزدستیاب نہیں ہے۔
کسی بھی زبان کو بین الاقوامی سطح تک لانے اور اُس میں فصاحت وبلاغت پیدا کرنے کے لیے تلمیحات کا بَہ کثرت استعمال ضروری ہے۔اس لیے ایک اہم کام جو کیا جانا چاہیے۔وہ یہ کہ کلاسیکی شعرا و ادباء کی جملہ  تخلیقات میں جن تلمیحات کااستعمال کیا ہے اور جو ان کی اپنی ایجاد کردہ ہیں۔ان سب کو تلاش کر کے یکجا کیا جائے تاکہ تلمیحات کاایک مستند انسائیکلو پیڈیا ترتیب دینا ممکن ہو جائے۔اس طرح اُردو کا دامن تلمیحات کے حوالے سے مالا مال اور لائقِ نظیر ہو سکتا ہے۔
تلمیح کے مآخذ و مصادر
تلمیحات کے مآخذات کا جائزہ لیتے وقت ہم اُردو زبان کی تخلیق اس کی نشونما کے ارتقائی مراحل؛ابتدائی ماحول اور تاریخ کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ اُردو کا خمیر مختلف زبانوں،مذاہب،تہذیب و تمدن اور اقوام کے اختلاط سے تشکیل پایا۔لفظی تراش خراش میں یہ تمام عناصر جزوی و کلی طور پر شریک ہیں۔وہیں اس کی معنویات میں بھی ان تمام عناصر کا عطر کشید ہو کر منکشف ہواہے۔مختلف قوموں کی سیاسیات،سماجیات،ثقافات اور مذہبیات کے پس منظر میں اُردو کی تراکیب و تلمیحات وضع ہوئیں ۔
اُردو کی تشکیل میں جہاں ہندوستان کی مقامی بولیوں برج بھاشا،پراکرت،اپ بھرنش، سنسکرت اور ان سب کی مجموعی ترقی یافتہ شکل مغربی ہندی اور دکن کے علادہ عربی،ترکی اور فارسی کا دخل ہےوہاں اقوام و ملل کے اجتماعی رویے کا دخل بھی شامل ہے۔ ہندو قوم کے مختلف طبقات ان کے علاوہ عربی،ترکی، ایرانی، افغانی،بلوچی، پنجابی، سندھی مکرانی اور دکنی ادبیات وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ ان اقوام کے مذہب، رسوم و رواج،تاریخی و جغرافیائی پس منظر،لب و لہجہ اور تہذیب و تمدن بھی رچاؤ بھی کارفرما ئی اُردو ادب کی تشکیل میں دخیل رہی ہے۔
غیر شعوری طور پرزبان کی تشکیل کے ابتدائی عمل میں صرف الفاظ کا تبادلہ شروع ہوا جو روزمرہ کی شدید ضرورت کے تحت تھا۔شروع شروع میں ان اقوام کے خیالات،جذبات،احساسات اور ثقافتی اثرات زبان کا جُز نہیں بنے بلکہ ایک طویل عرصہ تک فاتح اور مفتوح قوم کے کلچر کے درمیان حد ِفاضل قائم رہی اور بڑی حد تک فاتح قوم کا کلچر ہی غالب رہا۔
حُسنِ اتفاق سے جو قوم فاتح بن کر آئی تھی وہ اپنی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے کافی غنی اور مالدار تھی۔خاص طور سے ان کی زبانوں کا ادب خاصا زرخیز اور وسیع تھا۔ ابتداً اسے یہاں سے کچھ لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی؛ تاہم فطری تقاضوں اور حالات کے جبر کے پیشِ نظر اس نے بدیسی و غیر بدیسی زبانوں کی تقلید کی اور اس کے تہذیبی وثقافتی اقدار کو اپنے ہاں جگہ دے کر رواج دیا ۔یہ ایک غیر شعوری ردِعمل تھا۔
بہت سے مصنفین کو یہ شکوہ تھا اور اب بھی کبھی کبھار اس عمل کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ اُردو شعرا اور ادباء نے مقامی تہذیب اور کلچر کو نظر انداز کر کے اپنی لفظیات و معنویات اور تعبیرات و تشکیلات میں ایرانی،عربی  ترکی کلچر کو برتنے بلکہ تھوپنے کی کوشش کی ہے۔موجودہ دور میں یہ شکوہ کسی حد تک مبنی بر تعصب کہا جا سکتا ہے۔حیرت ہے کہ آج سے نصف صدی قبل یہی شکوہ ماہر لسانیانات پروفیسر وحید الدین سلیم نے بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
 ”اُردو زبان کے بنانے میں ہندو، مسلمان دونوں شریک ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ اس کے ادب میں صرف اسلامی ادبیات کے آثار موجود ہیں۔ہندو قوم کے ادبیات کا کوئی نشان ہماری نثر میں ہے نہ نظم ہیں۔ “[27]
حالاں کہ تحقیق کی کسوٹی پر یہ الزام کھرا نہیں اُترتا لیکن پتہ نہیں کیوں لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ زبان بَہ یک جنبش لب وجود میں نہیں آتی۔دھیرے دھیرے وقت کے ساتھ مدتوں زبان کے تخلیقی سفر کا ارتقائی عمل جاری رہتا ہے۔ صدیوں کے اختلاط کے نتیجہ میں نئی زبان کا زائچہ تیار ہوتا ہے پھر اس کی تراش خراش، تزئین و آرائش اور تحسین کا عمل شروع ہوتا ہے اور اس میں بھی ایک طویل مدت صرف ہوتی ہے۔تب کہیں جا کر زبان گفتگو اور بو ل چال کے درجہ سے آگے قدم بڑھاکر تحریر و تقریر کا مرحلہ طے کرتی ہے۔ اس کے بعد شعر و ادب اور تصنیف و تالیف کا مرحلہ آتا ہے۔ شعر و ادب کے سلسلہ کے بعد ثقافتی سرمایے کے تبادلہ کا دور شرو ع ہوتا ہے۔تلمیح کا تعلق ثقافتی لین دین کے اسی ابلاغ سے ہے۔
مسلم سلاطین اور فرمانراؤں کی وجہ سے عرصہ درازتک لین دین اور عام بول چال میں مقامی بولیوں کی نسبتاً فارسی ہی رائج رہی اوراسے علمی زبان ہونے کا شرف بھی حاصل رہا۔ علاوہ ازیں حکومتِ وقت کی سرکاری و عدالتی زبان بھی فارسی ہی تھی۔فارسی کے اس تسلط کے باوجود اُردو زبان نے اپنے پَر نکال لیے۔اُردو میں شاعری کا غلبہ نثر کی نسبت زیادہ ہموار رہا۔ فارسی کے شعرا نے زبان کا ذائقہ بدلنے اور مضمون آفرینی کے ذوق کو دوبالا کرنے کے لیے فارسی کے ساتھ نو مولود ریختہ میں بھی طبع آزمائی شرو ع کر دی۔
مرورِ وقت کے ساتھ اُردو شاعری کا چرچا ہونے لگا۔شاعروں اور نثاروں نے فارسی کی نسبت اُردو زبان کو جذبات و احساسات کے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنا لیا۔ابتدا میں اُستادشعراء نے اسے منہ نہیں لگایا۔ تاہم “ہوا ہو جدھر کی “کے پیش ِنظر؛ان شعرا نے بھی اُردو کے دامن کو اپنے خیالات اور نت نئی صناعی و بلاغی ہنرکاریوں سے مالا مال کرد یا۔اُردو تاریخ میں پہلی بار فن ِ شاعری پر اُردو میں اظہار ِنقد کیا گیا۔”آب حیات” کی تالیف نے اُردو کے علمی و ادبی وقار کو دُنیا کی دیگر زبانوں کے تقابل میں لاکھڑا کیا۔
اس طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ تلمیحات کے مآخذ ات کا جائزہ لیتے وقت اس کے مفصل پس منظر کو سامنے رکھا جائے پھر تلمیحات کے مآخذات کی تلاش کی جائے۔ اس کی غالب وجہ یہ ہے کہ اُردو مختلف زبانوں کے اختلاط؛خصوصاً عربی و فارسی اثرات سے کثرتاًزیر بارِ منت ہے۔ زبانوں کے اس تہذیبی اختلاط کو اُردو تلمیحات میں دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اُردو شاعری میں ایرانی،ترکی،عربی،ہندی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی تلمیحات کا استعمال بہت زیادہ ہوا۔کثرت ِ استعمال نے تلمیحات کو عربی و فارسی اور دیگر زبانوں کے تشکیلی پس منظر سے کاٹ کر اُردو کے سیاق و سباق میں مدغم کر دیا ۔اس طرح یہ مقامی لب و لہجے کے آہنگ سے متصف ہو کر رواج پاگئیں۔اب یہ تلمیحات خالص اُردو زبان و ادب کا سرمایہ بن گئیں ہیں۔بدیسی زبانوں کی تلمیحات کے ہمارے یہاں رواج پانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تلمیح کا لطیف و خوبصورت پیرایہ اظہار اپنے اندر انتقال پذیری کی حوصلہ افزا وسعت رکھتا ہے جس کے پیش نظر اُردوانے کا عنصر دیگر زبانوں کی نسبت اُردو میں زیادہ برتا گیا ہے۔کسی دوسری زبان کے تلازمات و اشارات اورکنایات و رمزیات کا اُردو زبان میں رواج پانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ یہ ایک طرح سے اُردو زبان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے خوش کن عمل ہے۔
اُردو زبان جب تشکیل کے عمل سے گزر رہی تھی اور ترقی کے زینے طے کر رہی تھی۔ارتقا کے اس دور میں اسے ان بدیسی سانچوں کی ضرورت تھی جو  زبان کے ارتقائی سفر میں ہمیشہ سے ایک فطری عنصر خیال کیا گیا ہے۔ اُردو زبان کی اس فطری اور طبعی ضرورت نے عربی،فارسی، ہندی،ترکی اور مقامی بھاشاؤں اور بولیوں کے رموز و علائم اور بیان وبدیع کے سرمائیے سے اپنے دامن کومزید وسعت سے ہمکنار کیا ہے۔وحید الدین سلیم تلمیحات کے مآخذ کی وضاحت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”جب اسلام نے عرب سے نکل کر گردوپیش کے ملکوں کوفتح کیا۔ہندوستان پر حکومت کا سہرا مغل خاندان کے سر ٹھہرا جن کی زبان فارسی تھی۔یہاں کے شعرا پر فارسی زبان کا اثر پڑنے سے رفتہ رفتہ اُردو زبان پیدا ہوئی۔ فارسی کو چھوڑ کریہاں کے شعرا نے اُردو زبان میں طبع آزمائی شروع کر دی۔ہندوستان کے مقامی شعرا فاتح قوم سے مغلوب و مفتوح تھے۔اس لیے لازم تھا کہ جو تلمیحات اُردو ادب میں در آئیں۔وہ ہندو ماخذوں سے نہ لی جائیں؛بلکہ عرب و ایران کے اسی مرکبات سے لی جائیں جو کو فاتح اپنے ساتھ لائے تھے۔ [28]
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ابتداً تلمیحات اُردو میں عرب و ایران کے ادب سے منتقل ہوئیں۔یہ تلمیحات اُردو زبان کے سہارے اتنی مقبول اور عام ہوئیں کہ اُردو ادب کے رگ و پے میں سماگئیں۔ ان کے عرب و ایرانی ہونے کا گمان زائل ہو گیا ہے۔ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی لکھتے ہیں:
”آج یہ فیصلہ کرنا کہ کون سی تلمیحات عربی کی ہیں؛ کون سی فارسی کی تھیں اور کون سی تلمیحات زردشتی،ساسانی اور سامانی عناصر سے آئی ہیں اور فارسی سے اُردو میں منتقل ہوئیں۔آج یہ معاملہ با آسانی حل نہیں ہو سکتا اور اس چھان بین سے کچھ فیض بھی زیادہ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ اُردو ادب کے ہاتھ تو یہ سب تلمیحات فارسی کے گراں بہا عطیات کے ساتھ دستیاب ہوئیں اور ان کی شمولیت اُردو ادب میں اب ایک خاص مرتبہ حاصل کر چکی ہیں۔ “[29]
ڈاکٹر اعجاز حسین نے اپنی محققانہ تصنیف “مذہب و شاعری”  میں فارسی زبان سے اُردو میں احذ کی جانے والی تلمیحات کے حوالے سے بہت اچھا تبصرہ کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
”فارسی وغیرہ سے تلمیحات مستعار لینے میں ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہمارے ادب میں شروع ہی سے بین الاقوامی جراثیم پیدا ہو گئے؛ جس سے اس کی روز افزوں ترقی کی صلاحیت کو ایک تقویت پہنچتی رہی۔نتیجہ یہ ہوا کہ جب ضرورت پڑی؛اس نے فارسی،عربی بھاشا کے علاوہ دوسری زبانوں سے بھی فائدہ اُٹھانے کی سعی کی اور حسب خواہش ِاپنا دامن وسیع کیا۔ “[30]
اُردو ہندوستان میں پیدا ہوئی یہیں پلی بڑھی اور جوان ہوئی پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ہندوستان کی مٹی اور ہندوستانی قوم کی خصوصیات ان کی روایات اور ان کے کلچر سے فیض نہ حاصل کرتی۔اُردو نے یہاں سے بھر پور فیض حاصل کیا۔یہاں کی روایات،کلچر اور مذہبی معتقدات کو بھی گلے لگایا۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کا کلچر،روایات و معتقدات،رسوم و رواج اور دیومالائی تصورات اُردو تلمیحات کے لیے گنج ہائے گراں مایہ ثابت ہوئے۔اُردو زبان و ادب کی تشکیل میں شامل تمام قوموں کی تہذیب و روایات اور معتقدات و ثقافات کا عکس برابر جھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
اس پس منظر میں تلمیحات کے مآخذ و مصادر کی تلاش و جستجو تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اُردو کا سرمایہ قریباً ایک ہزار برس پر پھیلا ہوا ہے۔ اس سرمایے کے مجمل مطالعہ سے جو چیدہ چیدہ مآخذ سامنے آئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
٭۔دیومالائی تصورات٭۔ مذہبی قصے کہانیاں ٭۔ مذہبی عقائد
٭۔ مذہبی واقعات ٭۔ مشہور شخصیات ٭۔ سیاسی انقلابات و تحریکات
٭۔ قومی تحریکات ٭۔ قرآنی قصص و تمثیلات ٭۔ تاریخی واقعات
٭۔ مشہور ڈرامے، ناٹک، ناولیں اور ان کے مخصوص کردار
٭۔ جادو ٹونے ٹوٹکے،تعویذ و عملیات و اصطلاحات ٭۔ احادیث نبوی و سُنن اولیاء
٭۔ رسوم و رواج اور اوہام و خرافات ٭۔ دیگر اقوام کی زبان و ادب کا اثر و توارد مذکورہ عناصر و عوامل کے علادہ مختلف معاشرتی امور اور دیگر بہت سے امور تلمیح کا حصہ ہیں۔تلمیحات کے مآخذ و مصادر کو یہاں تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔اس کی قطعیت کو تحدید میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ شاعر و ادیب اپنے مشاہدہ،مطالعہ،تجربہ اور تحقیق و تجزیہ کی گہرائی و گیرائی سے تلمیح کے دامن کو آج بھی وسیع کر رہے ہیں اور اس میں تنوع اور جدت کا عنصر بھی مقتدمین کی نسبت کچھ زیادہ نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جدید اُردوشاعری کی بعض تلمیحات ہماری کلاسیکی شاعری میں تشنہ موجد رہیں۔
تلمیحات کا میدان بہت وسیع ہے۔تلمیحات کی تلاش و جستجو اور اس کی متنوع افکار کا دروازہ ہمیشہ کُھلا رہے گا۔مذکورہ مآخذات کی نشان دہی اب تک کی شاعری کے پس منظر میں کی گئی ہے۔ یہ تلمیحات اُردو زبان و ادب کے لیے گنج ہائے گراں مایہ سے کسی صورت کم نہیں ہے۔اُمید واثق ہے کہ تلمیحات کی تلاش و جستجو اور تعیین کا سلسلہ مزید جاری و باقی رہے گا۔
تلمیح کی ضرورت(شعری اصناف کے حوالے سے)
انسانی ذہن تخلیق کا سر چشمہ ہے۔ وہ عالمِ احساسات کا مخزن ہے۔ دُنیائے کائنات کا رنگ و بو اور اس کی سراغ رسانی کا نگہبان شاعرِ شاعراں ہے۔حقیقت و مجاز کی سحر طرازیاں ہوں یا جلوہ ہائے رنگ وآہنگ کا حسین امتزاج شام کی دلفریباں،بہار کی رعنائیاں ہوں یا خزاں کی بے سروسامانیاں یہ سب اسی ذہن کی کرشمہ سازیاں ہیں جو گوناں گوں اشکال میں متشکل ہو کر زبان وبیان کے اُسلوبیاتی حُسن کو کو سنوار نے اور نکھارنے کا عمل جاری رکھتی ہیں۔ حُسن کی پری سمندر کے کف سے پیدا ہوئی ہے؛محبت اس کی فطرت ہے اور وہ لڑائی کے دیوتا کی دل و جان سے فریفتہ ہے؛جس کویہ نصیب ہو جائے، کامیابی و ہم کناری پازیب ِ زیست بن جاتی ہے۔مولانا محمد حسین آزاد لکھتے ہیں:
”مسلمانوں کے دماغ بھی اس خیال سے خالی نہ تھے،ان کی تصنیفات میں فلاسفرکا قول منقول ہے کہ ایک مور کے پر دیکھیں اور اُس کے صنائع بدائع پر نظر کریں تو عقل حیران ہوتی ہے کہ کون سا صنائع ہوگا جو ایسی دستکاری کر سکے۔ “[31]
اُردو زبان و ادب کے تقاضوں نے تلمیح کی ضرورت کو فطری طور پر محسوس کیا ۔ یہ شاعر کی فکر ِرسا میں ایک ہنگامی ضرورت بن کرسامنے آئی ۔اشیاء خورونوش،انسانی حیات کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔جس کے بغیر ذی حیات میں اس کا شمار مشکوک ہو جائے گا۔زبان و ادب کو حیاتِ ابدی اسی وقت نصیب ہو سکتی ہے جب اس کی دسترس میں تلازمات واشارات،اصطلاحات وواقعات ،روایات و رمزیات اور کنایات کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہو۔
شاعری انھیں سانچوں میں ڈھل کر طول طویل واقعات و روایات کو مختصر مگر جامع انداز میں بیان کرنے کا فن جانتی ہے۔ان سانچوں کے استعمال سے کلام میں حُسن پیدا ہوتا ہے اور معنی ومطالب کی ابلاغیانہ صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تلمیحات کی ضرورت کو ہر دور میں محسوس کیا گیا ہے ۔تلمیحات کو جملہ ادبیات کی متنفس روح قرار دیا گیا ہے۔
 وحید الدین سلیم لکھتے ہیں:
”تلمیحات کیا ہیں؟ہماری قوم کے قدموں کے نشان ہیں جن پرچلتے چلتے ہم اپنے باپ دادا کے خیالات، مزعومات،اوہام،رسم و رواج اور واقعات و حالات کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ “[32]
تلمیح کی ضرورت دراصل حضرت آدم ؑکی تخلیق سے پیدا ہو گئی تھی۔جب حضرت آدم ؑکی تخلیق ہوئی۔ملائکہ اور ذاتِ باری تعالیٰ کے درمیان مکالمہ ہوا۔ابلیس نے سجدہ سے انکار کیا اورباقی سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔ حضرت حواؑ کی تخلیق ہوئی۔ آدم و حوا دونوں کو جنت میں رہنے کا حکم ملا۔ابلیس نے دونوں کو بہلا پھسلا کر جنت سے نکلوا دیا۔حضرت آدم مع شیطانی ذریت کے دُنیا میں اُتارے گئے۔ یہ سب قرآنی قصص ہیں جو قرآنی تلمیحات کے ذیل میں آتے ہیں۔قرآن کریم نے عالم بالا کے ان واقعات کی طرف نہایت بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے۔ قرآن کریم میں تخلیق ِآدم ؑ کا پورا واقعہ موجود ہے جس کا ذکر ہر دور کے شعراء نے تلمیحی انداز میں کیا ہے۔
تلمیحات کی ضرورت ایک فطری تقاضا تھا جو اس عالم ِناسوت کے پہلے انسان یعنی حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے ساتھ شروع ہو گیا تھا۔ تلمیح چونکہ اشارہ کے ساتھ وابستہ ہے۔اس لیے اس کی تخلیق کو آفرینش سے جوڑا جاتا ہے۔ انسان اپنے ماضی الضمیر کو بیان کرنے کے لیے اشاروں کنایوں اور مختلف تلازمات و علامات کا استعمال کرتا ہے۔گمان غالب ہے کہ زبان کی قدرت سے قبل حضرت آدم ؑ بھی اپنے ماضی الضمیر کو بیان کرنے کے لیے ان اشاروں کنایوں اورتلازمات کے پس پردہ تلمیح کو بطور؛ اظہار کا وسیلہ گردانتے ہیں۔
 ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی تلمیحات کی مبادیات اور ضرورت و اہمیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”تلمیح،علمِ بیان کی نہایت اہم صنعت ہے۔ اس کی قدامت اس طرح مسلم الثبوت ہے جیسا کہ تمدن و معاشرت کی تاریخ، ابتدا آفرینش سے۔ اس صنعت کا گہرا لگاؤ انسانی تمدن سے رہا ہے۔ ارتقاء کی ہر منزل میں اس کے آثار پائے گئے ہیں۔ دُنیا کی جن قوموں میں الفاظ نہیں تھے وہ اپنے خیالات و اشیاء کو سمجھانے کے لیے ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے اشارہ کرتے تھے۔پھر تصویروں کے ذریعے دلوں کی ترجمانی ہوئی۔رفتہ رفتہ مطلب ادا کرنے کے لیے حرفوں نے جنم لیا جن کی مد د سے ہر شخص ایسے اشاروں کو سمجھنے لگا۔بعدازاں ان اشاروں اور تصویروں کی جگہ تلمیحات نے لے لی۔ تلمیح کے ایک لفظ نے بھی وہی توضیح کی جو ان اشاروں اور تصویروں سے ادا ہو سکتی تھی“۔ [33]
تلمیح اظہار کا ایک لطیف ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے جو طویل واقعات کو کمال اختصار کے ساتھ ادا کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ یہ مختصر نویسی کا کمال نہیں بلکہ ایجاز کا کرشمہ ہے۔تلمیح میں خیال کی ادائیگی عام طور پر براہ راست نہیں ہوتی بلکہ شاعر تلمیح کے ذریعے شعر میں ایک ایمائی کیفیت پیدا کرتا ہے جو شعر کا خاصہ ہے۔رمز و ایما شاعری کا حُسن قرار دیا گیا ہے۔شعر میں الفاظ کے ظاہری قالب کے سہارے معانی کی ایک دُنیا آباد کی جاتی ہے اور جب ذہن ان معانی کا ادراک کر لیتا ہے تبھی شعر مکمل لطف دیتا ہے۔وحید الدین سلیم معانی کی بلاغت و فصاحت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”بلاغت کے معنی یہ ہیں کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معنی سمجھیں جائیں۔یہ بات جس قدر تلمیح میں پائی جاتی ہے۔الفاظ کی دیگر اقسام میں نہیں پائی جاتی۔ “[34]
تلمیح کا رنگ و آہنگ معانی میں ترسیل کا عُنصر پیدا کرتا ہے۔ شعر میں تلمیحی انداز کی عکاسی شعر کے لطف کو نہ صرف بڑھا دیتی ہے بلکہ سرور و انبساط کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ سرشاری کا احساس انسان کو مفاہیم کی شناسائی سے سرافراز کرتا ہے اور پلک جھپکتے سیکڑوں برس کا سفر حصولِ زیست کا حاصل ٹھہرتا ہے۔ تلمیح کا چھوٹا سا لفظ باطن میں معانی کی جو کائنات بسائے ہوئے ہے۔اس کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔
تلمیح کی تاریخ اور روایت
دُنیا اس وقت بھی موجود تھی جب انسان کا وجود نہیں تھا۔ جب انسان پیدا ہو تو وہ ہزاروں برس تک پڑھنے لکھنے کے قابل نہ ہو سکا۔ شروع میں وہ اتنا غیر مہذب تھا کہ شہر تو کجا گاؤں میں رہنا گوارا نہ تھا۔انسان نہ تھا۔ کھیتی باڑی، تراش خراش اور بناؤ سنگار کا تصور بھی نہیں تھا۔ دشت وبیابان میں آوارہ و عُریاں پھرتا تھا۔ مکان کی جگہ غار اور مرغّن کھانے کی جگہ درختوں کے پھل اور پتے  کھاتا تھا۔ اس طرح کی صورتِ احوال میں جہاں انسان نے اپنے وجود کو محفوظ رکھنے کی پروا نہیں کی؛وہاں اپنے زمانہ کی تاریخ و تہذیب کو محفوظ رکھنے کا احساس کیسے ہو سکتا تھا۔
مرور ِوقت کے ساتھ انسان پتھر کے دور سے آگے بڑھا تو جہالت و تاریکی کا ایک طویل سفر درپیش رہا۔ اس لاحاصل سفر کے کٹ جانے کی دیر تھی کہ باشعور انسان کا جنم ہوا اور اسے علم و حکمت کی روشنی ملی جس کے بل بوتے پر اس نے تہذیب و تمدن کی بنا ڈالی۔رفتہ رفتہ علم و حکمت کے توسط سے اس نے اپنے لیے معقول زندگی گزارنے اور قرب و جوار کے ماحول سے مانوس ہونے کا سامان پیدا کر لیا۔ ناآشنائی سے شناسائی کے اس طویل سفر نے بالآخر اانسان کو مہذب اور متمدن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
آج کا جدید انسان علم و حکمت کی دولت سے متصف ہے ۔ آسمان سے دور پرے کی کائنات و سماوات پر کمندیں ڈال کر اپنی کامیابی و لائق مندی کے جھنڈے گاڑتا نظر آتا ہے۔ترقی یافتہ دور کے اس عہد میں وسیلہ اظہار کا سب سے معتبر اور منفرد ذریعہ زبان ہے۔زبان ہی ایک واحدکامیاب ذریعہ ہے جس کے ذریعہ برس ہا برس کی دوری لمحوں میں بدل گئی ۔ انسان نے لامتناہی فاصلوں کوپیمائش کے تابع کرلیا۔زبان کے ذریعے خیالات،تصورات،احساسات،مشاہدات اور تجربات کا اظہار کرنا انسان کے لیے ممکن ہو گیا ہے۔
 انسان زبان کے وصف سے محروم ہونے کی صورت میں اشاروں،کنایوں اور حرکات ِافعال سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتا تھا مگر آج کا انسان ان اشارات و صوتیات کا محتاج نہیں رہا۔زبان اظہارکا ایک ایسا ذریعہ ہے؛جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔انسان نے اپنے ماضی الضمیر کو قوت ِ گویائی عطا کی اور ذوقِ جمال کی تسکین کا سامان فراہم کیا۔مولوی عبدالحق زبان کے اس وصف کے بارے میں لکھتے ہیں:
”اوّل اوّل تو جس شے کا بیان مقصود ہوتا تھا۔ اس کی تصویر بنا دیتے تھے۔مثلاً گائے یا عورت کا بنانا مقصود ہوتا توگائے اور عورت کی تصویر کھینچ دیتے تھے۔دوسرے دور میں یہ صلاح ہوئی کہ اس شے سے اس کا فعل ظاہر کرنے گلے۔ مثلاً آنکھ سے نظر اور دو ٹانگوں سے رفتار مراد لینے لگے۔تیسرے دور میں یہ ہوا کہ شے سے اس کے ممتاز خصائل یا ظاہری علامت سے اصل شے مراد لی جانے لگی مثلاً لومڑی کی شکل مکاری،اور تخت سے سلطنت مراد لیا جاتا۔چوتھے دور میں ایک شے کے اظہار میں یہ کرنے لگے کہ اس کے بولنے سے جو آوازیں پیدا ہوئی تھی؛ان میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ تصویریں بناتے تھے۔ “[35]
عہد قدیم میں زبان کا کام اشاروں کنایوں اور مختلف حرکات سے لیا جاتا تھا۔ اجتنا،ایلوارا کے غار آج اس ضرورت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ان ہزاروں برس قدیم غاروں میں جو تصویری پیکر منقش ہیں۔وہ نہ صرف مذہبی آرزؤں کی تکمیل کرتے ہیں بلکہ انسان کے ذوقِ فن ِجمال اور ذوقِ حُسن کی تسکین کا سامان بھی فراہم کرتے ہیں۔ انسانی ذہن نے ابتداً جن افکار و خیالات کو ابلاغ کے پیرائے میں پیش کرنے سے معذوری کا اظہار کیا تھا۔بعد کے انسان نے ان جذبات و احساسات کوتصویروں کی صورت دائمی محفوظ کر لیا اور ان کے نقوش کچھ اس سلیقے سے اُبھارے کہ ہزاروں برس بیت جانے کے باوجود کُہنہ غاروں میں ان کی سحر انگیز جمالیاتی چمک دمک آج بھی دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔
اہرامِ مصر کے نقش و نگار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ نقوش کے ان حُسن نگاروں سے باہمی گفتگو اور ترسیل جذبات کا بھی کام برسوں تلک لیا جاتا رہا۔بعد ازاں جب مصوری و مرقع کاری کووسعت ملی تو  اظہار کے ان پیرائیوں کو تلمیح کی مبادیات ٹھہرایا گیا۔ثوبان سعید “فرہنگ تلمیحات “کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
”حروف کی کہانیاں بھی اپنے دامن میں تلمیحی اشارے سمیٹے ہوئے ہیں۔ مثال کے طورپر مصر میں ثور بمعنی بیل کو بارہ بروج میں اوّلیت کا شرف حاصل تھا۔ جب آفتاب برجِ ثور میں داخل ہوتا تو سالِ نو کا آغاز ہوتا؛اس رعایت سے حروفِ تہجی میں الف کو سب سے مقدم رکھا گیا۔الف کے معنی بیل کے ہوتے ہیں۔الف کی قدیم صورت بیل کے سر سے مشابہ ہوتی تھے جس میں سینگ اور کان نمایاں تھے۔۔۔اسی طرح بقیہ حروفِ تہجی کو تمثیلی انداز میں اسی طرح مصور کیا گیا۔۔۔اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تصویروں اور اشارات کے ذریعے اظہار ِ مطالب کی ترجمانی کا کام عہدِقدیم میں رائج تھا۔ اظہار ِ مطالب کے یہی مختصر اشارے اب تلمیح کے نام سے ایک صنعت کی شکل میں شعر و ادب کا زیور ہیں۔ “[36]
ثوبان سعید کے اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ تصاویر اور عمارتیں نہیں بلکہ تلمیحی سانچے ہیں۔ زبان کے آغاز سے قبل انسان مختلف حرکات و اشارات سے کام لیتا تھا۔ یہ حرکات و اشارات انسانی جذبات و احساسات کا اظہاریہ ہیں۔ترسیل کے اس عمل سے ان حرکات و اشارات کو نقش و نگار میں ڈھالا۔یہ نقش و نگار ذہن و قلب کی ترجمانی کا ذریعہ بن کر نہ صرف معاشرتی یگانت کی اساس بنے بلکہ تلمیح کے ابتدائی خدوخال وضع کرنے میں معاون ثابت ہوئے۔
مذکورہ بالا تمام نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نظریے کا وثوق سے اظہار کیا جا سکتا ہے کہ تلمیح کے ان ابتدائی سانچوں نے وقت کے ساتھ کئی رنگ اور اطوار تبدیل کیے ۔ آج یہ جس شکل میں اُردو زبان و ادب کا حصہ ہیں۔اس بنا پر تلمیح کو تمام صنعتوں میں سب سے قدیم صنعت قرار دیا جا سکتا ہے۔تلمیح چونکہ اشاروں کنایوں اور رموز و علائم کا نظام ہے جو حروف اور الفاظ کی ایجاد سے پہلے رائج تھا۔اس بنا پر تلمیح کو علم بیان کی پہلی اور قدیم صورت بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
تلمیح کی ترویج دیگر زبانوں میں کس طرح ہوئی۔تاریخ اس بارے میں قیاس کرتی نظر آتی ہے۔تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ تلمیح کا رواج دُنیا کی تقریباً سبھی زبانوں میں پایا جاتاہے۔لاطینی،مصری،یونانی،عربی،انگریزی،فارسی اور ہندی وغیرہ میں تلمیحات کاگراں بہا ذخیرہ موجود ہے۔
تلمیح کی اس وسعت اور دل پذیری سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دُنیا کی بیشتر زبانوں اور تہذب و تمدن میں قدرِ مشترک کا عُنصر بہت غالب ہے۔اس اختصاص کے پیش نظر انسانی ترقی میں تلمیح کی قدرومنزلت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ تلمیحات بزرگوں کا ترکہ ہیں اور ان کی امانتیں ہیں جنھیں ہم اپنے کندھوں پر اُستوار کیے ہوئے ہیں اور ان سے روشنی لیتے ہیں۔
یہ تلمیحا ت کا اعجاز ہے کہ جب بھی ان سے تاریخ و تہذیب کی روشنی مستعار لی جائے یہ مایوس نہیں کرتیں بلکہ ہماری راہ میں عدم واقفیت کے حائل دبیز تصورات کوشناسائی کے پیکر میں اُجال دیتی ہیں۔
حوالا جات
1۔عابد علی عابد، سید عابد علی عابد،اُسلوب،علی گڑھ بکڈپو،علی گڑھ،1976،ص:13
2۔ عابد علی عابد، سید عابد علی عابد،اُسلوب،ص:152
3۔یوسف حسین خان،اُردو غزل، دار المصنفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،2010،ص:56
4۔یوسف حسین خان،اُردو غزل،ص:58
5۔عابد علی عابد،مقالات عابد،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،1989،ص47:
6۔فیروزالدین،مولوی،فیروز اللغات،فیروز سنز،لاہور،2006،ص:80
7۔غیاث الدین،خلیفہ،غیاث اللغات،نول کشور لکھنو،1887،ص:90
8۔نورالحسن نیر،مولوی،نور اللغات،ترقی اُردو بیورو،دہلی،1998،ص:82
9۔خویشگی،عبداللہ خاں،فرہنگ آمرہ،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،2008،ص31:
10۔حقی،شان الحق،فرہنگ تلفظ،متقدرہ قومی زبان،اسلام آباد،2006،ص:16
11۔مرزا مہذب،سید لکھنوی،مہذب اللغات،جلد سوم،سرفراز قومی پریس،لکھنو،1962،ص:45
12۔عبدالحمید،خواجہ،جامع اللغات،جلد اول،اُردو سائنس بورڈ،لاہور،1989،ص:487
13۔دیبی پرشاد،منشی،معیار البلاغتۃ،مطبع منشی نول کشور،جنوری،1906،ص:21
14۔بال کمندبشیر،منشی،رسالہ بدیع البدیع،مطبع دیبر ھند،بلند شہر،1870ص:12
15۔نجم الغنی،رام پوری،بحر الفصاحت،تدوین ،ڈاکٹر کمال احمدی صدیقی،جلد اول،قومی کونسل برائے فروغ اُردو،نئی دہلی،2006ص233
16۔محمد عسکری،مرزا،آئینہ بلاغت،صدیق بکڈپو،لکھنو،1937،ص175
17۔وحید الدین سلیم،مولوی،افادات سلیم،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی،1983،ص31
18۔ساحر لکھنوی،مختصر فرہنگ تلمیحات و مصطلات،نامہ پریس،لکھنو،1986ص:13
19۔ضیا الدین صدیقی،پروفیسر،اُردو ہندی ڈکشنری،لاہوتی پریس،دہلی،2018،ص87
20۔ جان ٹی پیلس،اُردو کلاسیکل ہندی اور انگریزی ڈکشنری،اُردو اکادمی دہلی،2000،ص:231
21. The Practical Sanskrit English dictionary, 1890, P.112
22. J. A. Cuddon: The penguin dictionary of literary terms and literary theory London penguin books, 1st edtion1977, P 27
23. Oxford Advanced Learners Dictionary1st Edition, vol. I, 1982, P.40
24۔شمسیا،انواع ادبی،ص،تہران،1384ھ،ص:65
25۔ محمود نیازی،تلمیحات،مقدمہ،مشمولہ، شمیم انہونوی،نسیم بک ڈپو،لکھنو،1964،ص:12
26۔محمود نیازی،تلمیحات غالبؔ،غالبؔ اکیڈمی،نظام الدین،نئی دہلی،جون،1972،ص:13
27۔وحید الدین سلیم،مولوی،افادات سلیم،ص:181
28۔ایضاً،ص:183
29۔مصاحب علی صدیقی،ڈاکٹر،اردو ادب میں تلمیحات،نظامی پریس لکھنو،1990،ص:24
30۔اعجاز حسین،ڈاکٹر، مذہب و شاعری (مذہب کا اثر اُردو شاعری پر) ،اُردو اکیڈمی سندھی،کراچی،1955،ص:83
31۔مولانا محمد حسین آزاد،نیرنگ خیال،مجلس ترقی ادب،لاہور،2014،ص:18
32۔وحید الدین سلیم،مولوی،افادات سلیم،ص:104
33۔مصاحب علی صدیقی،ڈاکٹر،اُردو ادب میں تلمیحات،ص:32
34۔وحید الدین سلیم،مولوی،افادات سلیم،ص:106
35۔عبدالحق،مولوی،مشمولہ مضمون،اُردو قواعدرسالہ ہندوستانی،ہندوستانی اکیڈمی،الہ آباد،1933،ص:24
36۔ثوبان سعید،فرہنگ تلمیحات،ایم آر پبلی کیشنزنئی دہلی،ء2011،ص:58
CONTACT:
MUHAMMAD MOHSIN KHALID
H/NO 03,ST/NO 09,SHADAB COLONY CHUNG MT/RD LHR
mohsinkhalid53@gmail.com
+92-301-4463640

Leave a Reply