You are currently viewing “مشاہدات”_ ایک تنقیدی مطالعہ

“مشاہدات”_ ایک تنقیدی مطالعہ

ڈاکٹر رابعہ سرفراز/فریحہ انور

فیصل آباد ، پاکستان

“مشاہدات”_ ایک تنقیدی مطالعہ

         سفر روزِ ازل سے ہی انسان کی تقدیر ہے۔ دربارِ الٰہی سے جنت الفردوس اور جنت الفردوس سے کرہ ارض کے سفر نے واضح کر دیا سفر ہی زندگی ہے۔ سفر ہی وسیلہ ظفر ہے۔ سفر ہی میں رازِ حقیقت کی جھلک ہے۔ اقبال نے حرکت کو زندگی اور جمود کو موت اسی لیے قرار دیا کہ انسان سفر ہی سے ارتقا کی منزلیں طے کرتاہے۔ سفر انسانی زندگی کی بقا کا ضامن، انسانی تہذیب و معاشرت کے استحکام کا ذریعہ معاشروں کے باہم ربط کا وسیلہ ہے۔ سیاح جب نئی سرزمینوں پر قدم رکھتا ہے تو اُس پر طلسم شش جہات کے راز وا ہوتے ہیں وہ زمینوں، خطوں، ملکوں اور شہروں کے رنگا رنگ تہذیبی، معاشرتی، معاشی اور جغرافیائی منظرنامے سے آگا ہ ہوتا ہے۔ نئی دنیاؤں سے آگاہی ہی اُسے اپنے سفر کی روداد سنانے پر اُکساتی ہے۔ اور یہیں سے سفرنامے کا آغاز ہوتا ہے۔

         سفر کے معانی کوچ کرنا اور روانہ ہونا کے ہیں۔ نامہ تحریر شدہ عبارت، خط اور فرمان کے معنی رکھتا ہے۔ ان دونوں کو ملا کر اُردو ادب میں سفرنامہ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ سفرنامہ اُردو ادب کی مقبول ترین اصناف میں سے ہے کیونکہ سفرنامے میں داستانوں کی جولانی فکر، اور مہم جوئی بھی ہے اور ناولوں جیسا کہانی پن بھی اس میں افسانوی سرزمینوں کے قصے بھی ہیں اور شعر جیسی دلآویزی بھی۔ ڈاکٹر خالد مقبول کے بقول:

“سفرنامہ نگار دورانِ سفر یا سفر سے واپسی پر اپنے ذاتی تجربات’مشاہدات’تاثرات و اھساسات کو ترتیب دے کر جو تحریر رقم کرتا ہے وہ سفرنامہ ہے۔”(1)

سفرنامہ نگار نئی نئی دنیاؤں میں پرواز کرتا ہے تو تحیر اور تجسس اُس کے ہم رکاب ہوتے ہیں۔ وہ تکالیف سفر بھی سہتا ہے اور مہم جوئی کے تجربے سے بھی گزرتا ہے۔ اور جب وہ اپنے احساسات، تاثرات اور مشاہدات کو یکجا کر کے زینتِ قرطاس بناتا ہے تو داستانِ سفر قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ ایک کامیاب سفرنامہ نگار اپنے لفظوں سے حقیقی تصویریں تخلیق کرتا ہے۔ اور اپنے حرف حر ف میں مٹی کے رنگ، گلوں کی خوشبو اور لوگوں کی شبیہیں ملا کر قاری کو گھر بیٹھے سات سمندر یار کی سیر کرا دیتا ہے۔

فرہنگِ آصفیہ میں سفرنامہ کا مفہوم درج ذیل ہے:

“سفرنامہ(ع+ف)اسم مذکر سیاحت نامہ ‘سفر کی کیفیت’روزنامچہ’سفر کے حالات و سرگزشت کے ہیں”(2)

         ایک ہی منظر، ایک ہی واقعہ، ایک ہی مقام ، ہر دیکھنے والے آنکھ پر اپنے رنگوں کو مختلف انداز میں واضح کرتا ہے اسی لیے ایک ہی مقام کے ہزاروں سفرنامے لکھے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ ہر شخص کی قلبی واردات، اُس کا اندازِ بیان اور اُس کے خیالات مختلف اور منفرد ہوتے ہیں۔ ایک عالم اور فاضل شخص کا سفرنامہ ایک عام سیاح اور معمولی ذہانت کے شخص مختلف ہوگا ایک سرمایہ دار اور کاروباری شخص کا احوال سفر ایک شاعر اور ادیب کے سفری معاملات سے یکسر الگ ہوگا اور یہی اندازِ بیان سفرنامے کو ایک نئی جدت اور طرزِ ادا بخشتا ہے۔

         خواجہ محمدا کرام الدین کا اولین تعارف ایک اُستاد اور معلم کا ہے۔و ہ سنٹر آف انڈین لینگوئجز،  سکول آف لینگوئج، لٹریچراینڈکلچرل اسٹڈیزجو اہر لعل نہر و یونیورسٹی نئی دہلی سے وابستہ ہیں اور شعبہ ِاُردو میں بطور پروفیسر تعینات ہیں۔خواجہ محمد اکرام الدین ایک بہترین اُستا د ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تحقیقی سکالر ،کالم  نگا ر،سفرنامہ نگار بہت سی کتابوں کے مصنف،مدو ن اور مرتب ہیں۔

مذہب سے لگاؤ،اِنسان دوستی،اُردو زبان سے محبت اور علمی جستجو ان کی شخصیت کے نمایاں اصاف ہیں۔وہ مذہبی رجحان اور عصری شعور رکھنے والے ایک معتد ل فکر مسلمان ہیں ہندوستان کی نامور درس گاہ کے اُستاد اور آزادانہ ماحول کے باسی ہونے کے باوجود اسلام سے والہانہ لگاوامت کی محبت اور قوم کے روشن مستقبل کی خواہش اُن کے دل میں فروزاں ہے۔

         ’’مشاہدات‘‘خواجہ اکرام الدین کے سفر ناموں کا مجموعہ ہے۔اس مجموعے میں پاکستان،ایران،افغانستان،امریکہ،یورپ،جاپان،مصر، اور ازبکستان کے سفر  نامے شامل ہیں۔

’’مشاہدات‘‘ کے پیش لفظ میں ڈاکٹر خواجہ اکرام ا لدین ان اسفار کی غرض و غایت اور سفر ناموں کے تحریر کے پیش پردہ مقاصد پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:

’’میرے سفر نامے بھی ایک خاص زاویہ نگاہ سے لکھے گئےہیں۔یہ سفر نامے بعض ممالک کی تہذیبی زندگی کو پیش کرتےہیں۔تو کچھ سفر نامے دیارغیر میں اردو زبان و ادب کی ترویج و تدریس پر روشنی ڈالتے ہیں۔‘‘(3)

خواجہ محمد اکرام الدین اُردو کی تدریس سے وابستہ ہیں۔اسی زبان کے وسیلے سے اُنہیں ممالک کی سیرکا موقع ملا۔اس لیے اُن کے سفر ناموں میں ان اسفار کی مقصدیت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔اردو زبان کی ترقی و ترویج کے حوالےسے وہ جس قدر ہر عزم اور مستعد ہیں۔ان سفر ناموں میں یہ مقصد جا بجا دکھائی دیتا ہےلکھتے ہیں۔

’’یہ ہم اردو والوں کے لیے نیک فال ہے۔کہ اُردو کی تعلیم و تدریس ،دنیا کے کئی ممالک میں ہورہی ہے۔کچھ ممالک ایسے ہیں جن کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں۔وہاں کے احباب کی برصغیر میں آمد ورفت کم ہے۔اس لیے بہت سے لوگوں کو ہم جانتے تک نہیں۔حالانکہ اْن کی خدمت ایسے ہیںکہ اُن کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔‘‘(4)

خواجہ اکرام الدین ان اسفار کے دوران اُردو زبان سیکھنے اور سیکھانے والوں سے ملے اور اُن ممالک میں اُردو زبان و ادب سے محبت کرنے والوں کے ساتھ دوستی کے روبط استوار کیےاور ان روابط کو قائم رکھنے کے لیے’’ورلڈ اردو ایسوسی ایشن‘‘ آن لائن ادبی فورم کی بنیاد ڈالی۔خواجہ اکرام الدین آن لائن ادبی فورم کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’ان ممالک کے احباب سے مل کر اندازہ ہوا کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے۔جس کے ذریعے ہم ایک دوسرے کو جان سکیں اور علمی تعاون پیش کر سکیں۔اسی مقصد سےاپنے اسکالر س کے ساتھ مل کر ورلڈ اردو ایسوی ایشن نامی تنظیم بنائیتاکہ دور دارز ممالک میں بیٹھے احباب جو اُردو کی خدمت کررہے ہیں۔ان سے باہمی تعاون ممکن ہوسکے۔‘‘(5)

مشاہدات میں کل گیارہ سفر نامے شامل ہیں۔اوّلین سفر نامہ’’پاکستان کتنا دور کتنا پاس ‘‘ان کے دو دفعہ پاکستان آمد کا احوال ہے۔پاکستان اُن کے خوابوں کا ملک ہے۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان موجودہ جذباتی،ثقافتی ،تہذیبی اور اقتصادی روابط کی وجہ سے ان کے دل میں پاکستان کے لیے ایک نرم گوشہ موجودہے۔اُردو زبان اور پاکستانی اہل علم وایں قلم افراد سے اُن کا محبت کا رشتہ پاکستان کی محبت کو اور بھی مضبوط بنا تاہے۔اگرچہ سیاسی طور پر جن سائل کا سامنا دونوں ہمسایہ ممالک کو رہتاہے۔ان کے نتیجے میں دونوں ممالک میں آنے جانے والے ہندوستان اور پاکستانی مسافروں کو جو مشکلات پیش آئی ہے وہ اُن پر شکوہ کناں ہیں۔

’’دنیا میں دو ہی ممالک ایسے ہیں کہ جو فطری اعتبار سے ایک دوسرے سے قریب تر ہیں ارو رسیاسی روابط کے اعتبار سے بہت دور شاید دنیا میں یہ ایسے ممالک ہیں۔جن کاویزا حاصل کر نا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے لیے سب سے مشکل ہےاور اگر مل بھی گیا تو مخصو ص مقامات کے لیے۔اس پر طرہ یہ کہ آپ جہاں جائیں پولیس تھانے میں رپورٹ درج کرائیں۔یہ سلوک دونوں طر ف ہوتاہے۔لیکن انہی ممالک میں اگر ہندوستانی اور پاکستانی کے علاوہ کسی اور ملک کا شہری آتاہے۔تونہ اسے رپورٹ کی زحمت اٹھا نا پڑتی ہےاور نہ کسی خاص مقام یا شہر کی پابندی اس پر عائد ہوتی ہے۔‘‘(6)

ویزا کے مسائل سے قطع نظروہ پاکستانی احباب کی محبتوں کے انتہائی مداح پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے معترف اور یہاں کے لوگوں کے خلوص سے متاثر نظر آتے ہیں۔واپسی کے اندر روز ایک پرُتکلف دعوت سیر اپنے دلی جذبات کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’اس بار بھی پُر تکلف کھانے کا اہتمام تھا۔دیکھ کر سوچنے لگاکہ ہم لوگ اِتنا نہیں کر سکتے جتنا یہ پاکستانی احباب کرتے ہیں۔یہ بات صرف میں نہیں کہہ رہاہوں۔جن لوگوں کو بھی پاکستان جانے کا موقع ملا ہے۔وہ ان کی مہان نوازی کے قائل ہو کر لوٹے ہیں۔‘‘(7)

اگلا سفر نامہ ’’قسطنطنیہ کی حسین وا دیاں‘‘ہے اس میں وہ ترکی کی عظیم الشان روایات و تاریخ بیان کرتے نظر آئے ہیں۔حضرت ایوب انصاری ،مولانااکرم کا مزار اُن کے لیے خاص کشش رکھتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جدید تر کی کی مغربی اور اسلامی تہذیب کی جھلکیاں بھی دکھاتے ہیں۔ترکی میں بڑھتا ہوا مذہبی رجحان بھی اُن کے ہاں زیر بحث آتا ہے۔ ترکوں کی خوش اخلاقی کے قائل اور اُْن کی صفائی پسندی سے متاثر نظر آتے ہیں۔ترکی میں اُردو زبان کی تدریس کے حوالے سے بھی تفصیلات فراہم کرتے ہیں لکھتے ہیں:

’’ترکی میں اُردو کی تدریس بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔یہاں مختلف اصنافِ نظْم ونثر پر سو سے زائدپی۔ایچ۔ڈی کے مقالے لکھے جا چکے ہیں۔کچھ مقالےآہستہ آہستہ شائع بھی ہوئےہیں۔جن سے کم از کم ترکی جاننے والے مستفید ضرور ہوئے ہیں۔ان تمام یونیورسٹیز سے حکومت پاکستان کے گہرے روابط ہیں۔ہندوستان کو بھی ان سے روابط پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘(8)

’’جاپان کا یاد گار سفر‘‘ہمیں جاپان کی تہذیب و ثقافت سے روشناس کرواتا ہے۔جاپانی اپنی صنعتی ترقی اور مضبوط معیشت کی وجہ سے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔لیکن اپنی تہذیب و ثقاتف میں شاید پوری دنیا سے مختلف اور منفرد ہے۔

         خواجہ اکرام الدین کا سفر جاپان اگرچہ علمی ادبی مقاصد سے منسلیک تھا۔مگرِاُن کی گہری نگاہ ہر ایک منظرسے معنی اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔جاپان میں رہنے والے پاکستانی احباب کی ترقی کا ذکر بڑی محبت سے کرتے ہیں۔جاپان میں رہنے والی پاکستانیوں کی اپنے مذہب سے لگن اور باہمی محبت کے ساتھ ساتھ اُردو زبان کا فروغ اس سفر نامے کا مرکزی موضوع ہے۔لکھتے ہیں:

’’اس سفر میں جو سب سے اچھی چیز ہمیں لگی۔وہ یہ کہ اپنے ملک سے دور پاکستانی احباب جو بڑی تعداد میں جاپانی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔وہ اسلام اور اسلامی تہذیب سے بڑی مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔جاپان میں آج کی تاریخ میں ایک سو مسجدیں اور ساٹھ مصلے موجود ہیں۔ان تمام مساجد میں نمازی بھی موجود ہوتے ہیں۔یہ لوگ اسلام کے حوالے سے آپس میں متحد ہیں۔‘‘(9)

جاپانی تہذیب میں محنت،مساوات اور دیانتداری  کی جو عظیم الشان روایات موجود ہیں۔جاپان کے سفر میں قد م قدم پر اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔جو مسافر کو متحیر بھی کرتی ہے اور مرعو ب بھی۔

’’امریکہ نامہ‘‘امریکہ کی سیر اور واقعات ِسفر پر مشتمل سفر نامہ ہے۔امریکہ اپنی سیاسی بالا دستی اور ذہنی بر تری کے خبط  میں مبتلا ہو کر باقی ممالک کے شہریوں کے ساتھ جو نارواسلوک رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے مصنف اور اُن کے ساتھیوں کو خائف کر رکھا تھا۔مگر یہ سفر خوشگوار رہا لیکن قد م قدم پر مصنف کو امریکیوں کی ذہنی بر تری اور دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی کا احساس ستا تاہے۔امریکہ کی علمی وسائنسی ترقی مرعوب کن ہے۔امریکہ کی ترقی سیاحتی مقامات کی پر کشش سہولیتں آرام دہ سفری سہولتیں سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔

’’حافظ و سعدی کے ملک میں‘‘ہند وستان اور ایران کے مابین موجود تہذیبی و ثقافتی رشتے خواجہ اکرام الدین کے لیے باعث کشش ہیں۔وہ ایران کا ذکر بہت محبت سے کرتے ہیں۔ایران حافظ،سعدی ،رومی و جامی کا ملک کی سر زمین ہے۔اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے ناموں کا تعلق ایران سے ہے۔یہ ملک غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی کا مولد ہے۔خواجہ اکرام الدین چشتہ سہرور دیہ خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔یہ روحانی نسبتیں اُنہیں بہت عز یز ہیں۔ایران کے لوگوں کی مہمان نوازی متاثر کن ہے۔اس مہمان نوازی کے حوالے سے خواجہ اکرام الدین لکھتے ہیں:

’’مندنا خانم کی خوشی ان کے چہر ے سے جھلک رہی تھی۔ہم اُن کی گاڑی میں سوار ہوئے اور مند نا خانم کے گھر پہنچ گئے۔گھر کے سارے افراد پلکیں بچھائے جیسے انتظار کر رہے ہوں۔سب کے سب سراپا  منتظر تھے۔انھوں نے ہمارا استقبال کیا اور خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔انتہائی پُر تکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔‘‘(10)

ایرانی تاریخ اور تمد ن کے حوالے سے بہت سی اہم تفاصیل اس سفر نامے میں موجود ہیں۔

’’اگلا سفر نامہ یورپ کے اسفار کی ناقابل فراموش یادیں‘‘ کے عنوان سے ہے اس سفر نامے میںفن لینڈ کے شہر ہیلنکی سوئزرلینڈ کے شہر زیوریح،جرمنی کے شہر فر ینکفرٹ ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن،اسپین کے شہر میڈرڈ اور قرطبہ ،فرانس کے شہر پیرس،جرمنی کے شہر آخن برلن،میونخ،اسٹو ٹ گارڈ،ہائیڈ برگ اور فر ینکفرٹ کے سفر کا تفصیلی احوال ہے۔یورپی تہذیب کے ان بڑے مراکزکی سیر مصنف کو یورپی تہذیب کے بہت سے پہلوؤں سے روشناس کر واتی ہے۔ایک ہندوستانی مسلم اُستاد ہونے کے ناطے اور ایک مشرقیت پسند انسان کے لیے اس تہذیب میں بہت کچھ حیرت ناک اور ناگوار پہلو موجود ہیں۔جن کا تذکرہ مصنف نے بڑی خوبصورتی سے کہا ہے۔یورپ کی ترقی،اصول پسندی ،صفائی،وقت کی پابندی کی تحسین کے ساتھ ساتھ فاضل مصنف یورپ کی مادرپدر آزادی رشتوں کے تقدس سے ناواقفیت بے باکی اور بے حجابی سے نالاں نظر آتے ہیں۔اپنے ایک یورپی دوست کا احوال بیان کرتےہیں جو بغیر شادی کے ایک خاتون دوست کے ساتھ زندگی گزار ہے ہیں لکھتے ہیں:

’’اس پر مستز اد یہ کہ خود اپنتی کی بہن نے بھی شادی نہیں کی ہے۔جبکہ اس کے دو بچے ہیں۔وہ بھی آپسی سمجھتے کے تحت ساتھ ساتھ رہ ہے ہیں۔ان کے بچوں کو بھی تمام تفصیلات معلوم ہیں۔ہماری تہذیب میں یہ حیرت انگیز بھی ہے اور معیوب بھی۔‘‘(11)

’’مصر سر زمین انبیاء و اولیا‘‘ یہ سفر نامہ مصر کے عظیم شہر قاہرہ کی سیر کرواتا ہے۔قاہر ہ جو مسلم دنیا میں اپنی علمی شناخت رکھتا ہے۔اُردو زبان کے حوالے سے بھیعظیم خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ارض ِ مصر الہامی مذاہب اور فراعین مصر کے حوالے سے اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہے۔اس سر زمین  کے اسرار ہرسیاح کو اپنی جانب کھنچتے ہیں۔مصنف نے بڑی تفصیل اور خوبی سے فراعنہ مصر سے لے کر بعد از اسلام کی نامور اسلامی شخصیات کے تذکرے سے سفر نامے کو دل چسپ بنا دیا ہے۔بلاد مصر میں اُردوزبان کے حوالے سے بہت سے نمایا ں کا م ہور ہے ہیں مصنف لکھتے ہیں:

’’عربی زبان کا ملک ہونے کے باوصف  اس ملک نے بہت سی مشرقی زبانوں کے ساتھ ساتھ اُردو کی آبیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کالج سے یونیورسٹی کی سطح تک اور اسکی تدریس اور ریسرچ کے حوالے سے مصر میں اُردو کا بڑا کام ہے۔‘‘(12)

جامعۃ ازہر۔ کلیۃ النبات جامعۃ الازہر ،مدینۃ المبعوث، اسکندریہ یورنیورسٹی ،طنطایونیورسٹی اور قاہرہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات سے ملاقات کا تفصیلی احوال رقم کیا ہے۔مصر کےتاریخی مقامات کی تفصیل ان کی تاریخی معلومات پر بھی سیر حاصل مواد موجود ہے۔

رودادِ یورپ میں سفر برطانیہ اور وہاں منعقد ہونے والی ادبی تقریبات کا احوال درج ہے۔برطانیہ میں اُردو بولنے والوں کی ایک کثیر تعدا د موجود ہےاور یہاں کے اہل علم واہل قلم بہت سی ادبی سر گرمیوں کو جاری و ساری رکھتےہیں۔

خواجہ اکرام الدین ابتدا میں یہ بتا تے ہیں:

’’میرے تما م اسفار میں یہ سفر تجربات و مشاہدات کے حوالے سے بالکل منفرد رہا اس کی وجہ یہ ہے کہ ادبی قافلہ واقعی صرف ادبی ہی رہا۔اور ایسا رہا کہ ہردن سیمینار ،مذاکرہ اور مشاعرہ کی محفل میں شریک ہونے کا موقع ملا۔‘‘(13)

’’برات شہر اولیا‘‘ میں افغانستان کا سفر اور اُس میں پیش آنے والے واقعات کا بیان ہے۔افغانستان کی سیاسی اور جنگی صورتحال کے تناظر میں یہ سفر نامہ ایک خاص دل چسپی کا مظہر ہے۔افغانستان اولیا کی سر زمین خصوصاً خانوادچشت کے بزرگان کو یہاں سے نسبت ہے۔یہ عناصر مصنف نے بڑی خوبی سے بیا ن کیے ہیں۔

’’امام بخاری کے ملک میں چند روز‘‘ اس مجموعے کا آخری سفر نامہ ہے۔ازبکستان کا یہ سفر نامہ اپنے اندر علمی ادبی،تہذیبی و ثقافتی،عناصر رکھتا ہے۔امام بخاری کی ذات سے الفت وموانست قاری کے لیے بھی پُرکشش ہے۔ازبکستان کے خوبصورت رسوم و رواج بھی قاری کے لیے دل چسپی کا سامان ہے۔اس سفر نامہ کا از بک زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے جو ڈاکٹر کیاعبدالرحمانوا نے کیا ہے۔

ان تمام سفر ناموں کی نمایاں خصوصیات مصنف کا خلوص ،علمی بصیرت ،مشاہدے کی گہرائی ہے۔اس کے ساتھ تحر یر میں سلاست وروانی ،روز مرہ، محاورہ  اور اشعار کا خوبصورت استعمال منظر نگاری ،غیرضروری  تفاصیل سے اجتناب، حقائق تک رسائی ’’مشاہدات ‘‘ کو ایک معتبر اور دِل چسپ سفر نامہ بنا دیتی ہے۔

حوالہ جات

1۔ڈاکٹرخالد محمود’اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ’نئی دہلی:مکتبہ جامعہ’1995’ص22

2۔مولوی سید احمد دہلوی’فرہنگ آصفیہ(جلد سوم’چہارم)’لاہور:اردو سائنس بورڈ’1987،ص213

3۔ اکرام الدین، خواجہ، ڈاکٹر، مشاہدات، نئی دہلی: براؤن پبلی کیشنز، ۲۰۲۰ء، ص۷

4۔ ایضاً، ص۸

5۔ایضاً، ص۸

6۔ایضاً، ص۲۳۔۲۴

7۔ایضاً، ص۳۹

8۔ایضاً، ص۶۴۔۶۵

9۔ایضاً، ص۷۲

10۔ایضاً، ص۱۰۱

11۔ایضاً، ص۱۲۷

12۔ایضاً، ص۱۶۴

13۔ایضاً، ص۱۹۳

***

Leave a Reply