You are currently viewing کوئی مشکل فکر کامل کے لئے مشکل نہیں

کوئی مشکل فکر کامل کے لئے مشکل نہیں

پروفیسر زیبا محمود

صدر شعبہ اردو

گنپت سہائے پی جی کالج،سلطانپور،یوپی

کوئی مشکل فکر کامل کے لئے مشکل نہیں

         بیسویں صدی کے اوائل نے ہندوستان میں فکر و خیال کے بہت سے دھندلے گوشے اجاگر کر دئے تھے،شعرو ادب کی دنیا میں بھی نئے نئے رجحانات پیدا ہوئے ،جس سے فکر وآہنگ کا مسئلہ خصوصیت کے ساتھ اہم تھا۔روایتی تصورات نے فنی التزامات کو بنیادی اہمیت دے رکھی تھی۔غزل کی روایت فکر و خیال کا متعین محور بن چکی تھی۔اس کو بڑی حد تک تہذیبی محور کی  حیثیت حاصل تھی، لیکن غزل کے فکری اور جذباتی تار وپو میں اب وہ تازگی نہیں تھی۔ اسے نئے رنگ و بو کی ضرورت تھی ۔ایسی حالت میں شعرا کے لئے نئی تربیت لازم رہی تو دوسری طرف وہ طبقہ بھی تھا جو نئے فکرو احساس کو سمونے کے لئے فنی پابندیوں کو نظر انداز کر دینے کا حامی تھا۔

         یدو راج بلی عیش ؔکا تعلق اسی مکتب فکر سے ہے جو نہ تو نئے اسالیب اور فکر وخیال سے گریز کرتے ہیں اور نہ نہ ہی فنی رچاؤ سے بے پروا رہتے ہیں،انکی داخلیت نہ تو ماحول سے بے نیاز رہتی ہے اور نہ احساس داخلیت سے بے نیاز ہو پاتا ہے۔عیش زمانے کے ساھ ساتھ چلتے ہیں لیکن مشعل راہ تو ان کی ہی انفرادیت ہوتی ہے جن کی منتہاتک انسان کی رسائی ہو ہو نہ ہو لیکن یدوراج بلی عیش کی کیفیتوں تک اس رسائی ضرو ر ہو جاتی ہے، اسی لئے حسن کے اس عکس کے مقابل نے انسانی شخصیت کو اہم بنا دیا۔انسان کے احساسات کا عشق کے ساتھ ذاتی اور براہ راست تعلق ہے۔وہ اس کی کسک کو محسوس کرتا ہے۔اس لئے نغمۂ عشق کے کیف سے سرشار ہو تا ہے۔

کسی ٹوٹے ہوئے دل کا مداوا کس طرح ہوگا

نہ ہ یہ چارہ گراں سمجھے ،نہ یہ شیشہ گراں سمجھے

         وفا پر مبنی اشعار:۔

جفا کوشی کو ان کی عشق کاہم امتحاں سمجھے

وفاکی زندگی کو حاصل عمر رواں سمجھے

سمجھنا چاہئے سچ مچ اسے لیکن کہاں سمجھے

مری رودادغم کو آپ فرضی داستاں سمجھے

وفا  و عشق کے عالم میں یہ عالم رہا اپنا

معمہ زندگی کو موت کو خواب گراں سمجھے

         کسی فن کار کی شخصیت اس کے فن سے الگ نہیں ہوتی ،اس کی انفرادیت اس کی تخلیق میں بعض اوقات اس قدر واضح ہوتی ہے کہ فنکار کی شخصیت کا امتیاز مختلف طرز ادا اور رنگوں کی آمیزش پر منحصر ہوجاتا ہے،اس لئے فنکار کی انفرادیت کے لئے اس کی تخلیق میں اس کی قدرتی جوہر کی جلوہ باری ہونا نہایت ضروری ہے۔اس کا طرز خیال، مشاہدات اور اس کے اندر غور و فکر کی ندرت و جدت طرازی کے ساتھ اچھوتااگر نہیں ہوا تو اس کی تخلیق میں اس کی اپنی شخصیت واضح نہیں ہو ہائے گی۔کیونکہ تخلیقی صلاحیتوں اور خوبیوں کا سماجی ،نفسیاتی  و نظریاتی تجزیہ اشد ضروری ہے جس سے اس کے فن پاروں کو ملکی و بین الاقوامی معیار فن پر پرکھنے کے بعد خلاق کا ایک مقام و معیار متعین کیا جا سکے۔

         دنیائے ادب میں یدو راج بلی عیشؔ کی شخص اظہر من الشمس ہے۔اکثر ادیب اپنی شخصیت اور تصورات کے لئے اصناف ادب میں سے ایک یا دو صنفوں کا انتخاب کر لیتے ہیں،بعض ادیبوں کی قوت تخلیق اظہار کے مختلف راہوں سے ایک ہی منزل کی طرف جانا چاہتی ہے،چنانچہ یہ بات مجھے عیش کی ذات میں نظر آتی ہے۔ان سب میں انھوں نے گہرے نقوش چھوڑے لیکن عیش صاحب کے ذہنی عمل میں شاعری ایک ہی مرکزی خیال کی طرف جاتی ہوئی نظر آتی ہے جسے حسن خیر اورحقیقت کی جستجوؤں کا سنگم کہہ سکتے ہیں؛َ

                  غالب کے کمالات کہاں سے لائیں                        اک بات میں سو بات کہاں سے لائیں

                  ہم کوئی داغ نہیں نوح نہیں ہیں اے عیشؔ                  طوفان غزلیات کہاں سے لائیں

                  خالی نہیں جاتی کبھی مظلوم کی آواز                         کہتے ہیں جسے غیب کی آواز یہی ہے

         انھوں نے مختلف مقامات پر اپنی شاعری کے اصولوں اور نظریوں کی وضاحت اس طرح کر دی ہے کہ ان کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں کچھ زیادہ دشواری نہیں پیداہوتی۔جس سے ان کی باطنی ساخت اور بنیادی مسائل سے بحث کی گئی ہے۔بلکہ اظہار خیال نے عقیدے کی شکل اختیار کر لی ہے۔جگہ جگہ ان کے خطیبانہ جوش کی جھلک ملتی ہے جو اپنے نقطہ نظر پر یقین اور اعتماد کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے۔

شعر بزم شعر میں پڑھنا پڑھانا چاہئے

قوت فکر سخن کو آزمانا چاہئے

نا خدا ہیںنوح  تو اے عیش کیا خوف و خطر

ہر زمیں ہر بحر میں طوفان اٹھانا چاہئے

بحر و بر میں مرا اے عیش ہے سکہ جاری

پیروِ داغ ہوں ،شاگرد ہوں طوفانی کا

حضر ت نوح سے آ پ کی عقیدت کا اعتراف:۔

اے عیش تجھے ہے ہم رنگی نوح کامل سے بس اتنی

وہ عرش نشینِ محفل ہیں تو فر ش  نشینِ محفل ہے

         عیش کے مختلف وقتوں میں لکھے ہوئے اشعار کے مطالعے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان کے مزاج کی  لطافت اورذہن کی قوت تخلیق حقائق کا احساس کرنے کے بعد ایک عالم ِمثال کی جستجو میں نکل پڑی ہے جہاں حسن کے بکھرے ہوئے جلووں کو ایسے منظم اندز میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جوحسن کو بقائے دوام عطا کردے:

آفاق کی ہر شے میں ہے موجود وہ جلوہ

خلقت کی نگاہوں سے تو پوشیدہ مگر ہے

جاتا کشاں کشاں ہو ں الہی کدھر کہاں

رہبر کہاں ہے اور کوئی ہمسفر کہاں

پیش نظر ہے جلوہ مگر سوجھتا نہیں

پردہ سرائے حسن میں دیوار و در کہاں

         عیش کے خیال میں ذوق حسن عطیہ فطرت ہے اگر چہ حسن ِمطلق تک انسان کی رسائی نہیں ہو سکتی لیکن اس کا ذوق جمال اسے حسن کے گیت گانے کو مجبور کرتا ہے۔

شامل تھی آتش غم تعمیرِ آب و گل میں

یہ آگ لگ چکی تھی دل کی لگی سے پہلے

         عیش  نے اپنے فن پاروں میں اپنا نظریہ شعربڑی گہری اور فلسفیانہ بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے وہ شاعری کو محض ایک ذوقی چی سمجھتے ہیں،یہ جبلتیں اور قدریں ادب اور نفسیات ،تخلیق وتنقید ،ادب و فن کی بنیادی قدریں فن اور ماحول  ادب میں روایات اور تبدیلیاں اور ترقی پسند ادب کو ایک ہی قالب میں سمونے کی وہ کوشش ہے جس سے ان کے فن پاروں کی آفاقیت کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔

تمہارے قول کو آیا کبھی قرار کہاں

تمہارے قول کو آیا کبھی قرار نہیں

زلفِ سیاہ عارض روشن پہ ڈال کر

یہ کس نے صبح و شام کو یکساں بنا دیا

         کہیں کہیں عیش نے اپنے خیالات جذباتی انداز میں ظاہر کئے ہیں۔لیکن ان کے پس پردہ ان کی گہری علمی بصیرت اور زبردست مطالعہ سیے پیدا ہونے والاشعور ہے، جس میں تناسب بھی ہے اور توازن بھی۔

         عیش ادب میں نصب العین کے قائل ہیں اور یہ نصب العین ان کے نقطہ نظر سے اخلاقی اجتماعی روح کو پیش کرتا ہے جو اپنے ذاتی جمالیاتی تجزیوں کو ایسے فنی قالب میں ڈھالتا ہے جو صرف اور صرف تاثیر سے لبریز ہے:۔

دونوں کی حدیں ملتی ہیں بہم، دھند ھلا سا ہی خط فاصل ہے

ہے ہستیِ الفت گر دریا،تو مرگ محبت ساحل ہے

جوشِ گردابِ حوادث موجِ غم طوفانِ اشک

بحر الفت میںیہ سب کچھ ہے مگر ساحل نہیں

چھالے ہمارے پاؤں کے روئے جو اشک خوں

صحرا میں گل کھلا کے گلستاں بنا دیا

ہنسو تم میرے رونے پر تو کیا اچھا تماشا ہو

ادھر بجلی چمکتی ہو،ادھر پانی برستا ہو

         بیسویں صدی کے اوائل میں اتر پردیش کی سرخی افق پر سے ایک ایسا ستارہ طلوع ہوا جس نے اپنی تابناکی سے نہ صرف اپنے سلطانپور کو چمکایا بلکہ اپنے شعری فن پاروں سے اس کی ادبیت میں چار چاند لگا دئے۔اردو زبان و ادب کا مؤرخ اس سرزمین کو نظر انداز نہیں کر سکتا، جسے عیشؔ کی جنم بھومی ہونے کا شرف حاصل ہے،جو محفلِ ادب میںگنگا جمنی رنگ بکھیرتی رہی ہے۔ اس دانش کدے کی ادبی فضا کا اثر سمجھئے یا سلیقۂ انجمن آرائی کہ اس بزمِ کہکشاں کی مسند پر عیش ذہنوں کو بالیدگی بخشتا ہے اور نوجوان دماغوں میں توانا ادب کی تخم ریزی کرتا ہے۔

مسرور سب ہیں کار نمایاں لئے ہوئے

ہم درد مند ہیں غم پنہاں لئے ہوئے

فرد عمل ہے دفتر عصیاں لئے ہوئے

ہم اشک انفعال کا طوفان لئے ہوئے

ہم کو خزاں سے کام ہے صحرائے شوق میں

بیٹھی رہے بہار، گلستاں لئے ہوئے

خزاں کے آتے ہی یہ رنگ بدلا بزم ساقی کا

نہ فکر میکدہ لب پر ، نہ ذکر جام آتا ہے

         یدو راج بلی عیشؔ شخصیت کے اعتبارسے ایک بلند قامت وجیہ اور جامہ زیب انسان تھے جن کی گویاآنکھیں،شکست رنگ رخ کی منکر نظر آتیں ،لیکن طبیعت کے لحاظ سے باغ و بہار آدمی اور ایک مخلص دوست تھے جو مزاجا شگفتہ اورجن کی خوش گفتاری موقع  ومحل کے اعتبار سے لطیف طنز و مزاح کا ہلکا اثر رکھتی تھیں۔کبھی لہجہ کی یہ سرور آفرینی حالات کی بنیادپر صہبائے تند کی تلخیوں میں بھی بدل جاتی تھی،لیکن یہ باتیں ناگوار سہی کبھی دیر پا نہیں ہوتی تھیں،احساسات کی مہمیز سے پیدا ہونے والا یہ خار جی تغیر ایک فطری عمل ہے کیونکہ ذہنی طور پر مفکر اورخوش فکر شاعر ہیں:۔

توبہ کا در کھلا ہے در میکدہ ہے بند

اب جس کو دیکھئے وہی پرہیزگار ہے

نہ التزام فصاحت نہ قافیہ نہ ردیف

اثر کے رنگ میں ڈوبی وہ شاعری نہ رہی

         شاعر قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے بارے میں نہایت صاف گوئی اورربے باکی کے ساتھ اپنا فیصلہ سناتا ہے کہ کہ اگر وطن پر مر مٹنے کا جذبہ کسی شخص کے اندرر نہیں ہے تو اس کی زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں ہے۔اورکمال یہ ہیے کہ اس میں صرف بھارت یا ہندوستان کی بات نہین کی گئی ہے بلکہ صرف وطن کی بات کی گئی ہے اس طرح ان کے اس نہایت سادہ سے شعر میںآفاقیت پیدا ہو گئی ہے ۔کوئی بھی شخص خواہ کہیں کا ہنے والا ہو اس کے اندر اپنے وطن پر فدا ہونے کا جذبہ ہونا چاہئے۔

اس کا جینا بھی کوئی جینا ہے

جو وطن پر فدا نہ ہو جائے

یاان کی نظم ’’محاذ جنگ‘‘ سے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

پھر پاک کے انداز کہن دیکھ رہا ہوں

پھر بغض و عداوت کا چلن دیکھ رہا ہوں

نظریں طرف گنگ و جمن دیکھ رہا وں

کشمیر کے ماتھے پہ شکن دیکھ رہا ہوں

ٰؑ     عیشؔ درد تہ جام کی خلش ہی پر بات ختم نہیں کرتے ،درد تہ جام کی جمودی کیفیت سے نہیں اکتاتے ،ان کا انداز فکر متحرک ہے۔اس شعلۂ زود گزار کے عکس میں ایک دوسری ہی تصویر نظر آتی ہے،جوتازہ بہاروں کی طرح شاداب وفرحناک ہے۔ حیرت ہے کہ جمالیات کا پرستا رشاعر جنت سے انکار کی جرات کیسے کرسکتا ہے،اس کا سبب پر لطف زبان سے سنئے:۔

تڑپے وہ اب کہ نوچے قفس کو کہ جان دے

بلبل کے اختیار سے باہر بہار ہے

خاصان میکدہ ہوئے مسرورِ جام عیش

بیٹھے ہیں عیش ہم غم دوراں لئے ہوئے

وہ میں، وہ جام وہ ساقی وہ چاندنی وہ باغ

گلوں کے قہقہے قل قل کی وہ ہنسی نہ رہی

                  عیش ؔکیا کہنا چاہتے ہیں کس طرح کہتے ہیں،ان کا نظریہ حیات کیا ہے وہ کس طرح کہہ لیتے ہیں،اس کا احاطہ تو مذاق سلیم پرمنحصر ہے۔نظریہ حیات کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب ہم اس نشتر کے الفاظ پر غور کرتے ہیں،صرف عیش کوشی شاعر کا مذاق سخن نہیں،جام نوشی کا وہ طلبگار نہیں،حور کی مہربانی کا وہ متمنی نہیں۔قلب مطمئنہ کی حاجت نہیں،بے کیف تسلسل کا خریدا رنہیںاسے توعزم چاہئے ،کاہش فرہاد چاہئے،اسے نیش کی خلش چاہئے۔دل ناشاد کی کسک چاہئے اور وہ خطروں میں پڑنے کا عادی نہیں لیکن وہ جہد مسلسل کا  مدعی شاعر ہے کیونکہ:۔

شمع ادب کی محفل میں عیش ہے خوشی ہے

علم و ہنرکے جلوے ہیںدوہری روشنی ہے

کیونکرنہ ہو چراغاں اس دوہری روشنی سے

اک مشعل ہدایت اک شمع زندگی ہے

   تقدیر پر شاکی:

ہم فرش نشیں اور وہ ہیں عرش نشیں

تقدیر مساوات کہاں سے لائیں

         رنگوں کے تناسب اور ان کی حسین آمیزش سے کسی داخلی کیفیا ت کا اظہار بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کیفیت کو نطق خاموشی عطا کرنا ایک دشوار ترین امر ہے یہ کام ایک با شعوراور باکمال مصور کا ہے۔اسی طرح عیش صاحب اپنے لطیف احساسات الفاظ کے قالب  میں ڈھال دیے ہیں۔بعض اوقات ان داخلی احساسات کو اپنے تاثرات کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔اس کیلئے مناسب تشبیہوں اور استعاروں کا سہارا لیتے ہیں۔ان سے خاطر خواہ کام لینافنی مہار ت اور زبان و بیان پر قدرت کے بغیر ممکن نہیںلیکن عیش کے موئے قلم سے ایک داخلی کیفیت کا دل آویز شاعری کا اقتباس پیش نظر ہے:۔

زاہد تری ہر بات کہاں سے لائیں

وہ دل وہ خیالات کہاں سے لائیں

واعظ کی زبان اور دفاع زنداں

اے قبلۂ حاجات کہاں سے لائیں

         اگرچہ اس شعری اقتباس کا تعلق ایک خاص موضوع اور ایک خاص ہنگامی صورت حال سے ہے ،اس کا لہجہ بھی بادۂ شبانہ کی سرمستیوں ،یاس،آداب خودی اور لذت خواب سحر کی آغوش سے نکال کر اپنے وجود اور سالمیت کے لئے زندگی کی رزم گاہ میں بے خطر کود پڑنے کی دعوت دیتا ہے۔

قصۂ قیس ِحزیں کہتی ہے دنیا جس کو

ہے وہ عنواں مرے بھولے ہوئے افسانے کا

بند زاہد نے کیا کھول دیا ساقی  نے

د رجو کعبہ کا تھا اب در ہے وہ میخانے کا

عیش پر لطف تھی کس درجہ کہانی غم کی

شوخ عنوان رہا سادہ سے افسانے کا

وادی عشق کی جس دل نے ہوا کھائی ہو

کیوں نہ مجنوں ہووہ دیوانہ ہو، سودائی ہو

کیا تعجب ہے اگر کیف وفا کی تاثیر

بن کے ہستی مری،ہستی پہ تری چھائی ہو

اس خزاں دیدہ شمن میں ہے نشیمن میرا

جا کے پھر جس میں دوبارہ نہ بہا رآئی ہو

                  عیش کی شاعری دل کی بھی ہے اور دماغ کی بھی ہے،ان کے شعری افکارکے خرمن میں حسن ستم کیش کی بجلیاں ہیں،اور عشق ِوارفتہ مزاج کی والہانہ شیفتگی بھی،جنوں کی چاکدامنی بھی ہے اورمناظر فطرت کی مصوری بھی اور داخلی جذبات کی عکاسی بھی،عظمت انسان کی قصیدہ گوئی بھی ہے اور حب وطن کا بیدار شعور بھی۔ماضی کی روایات سے وابستگی بھی ہے اور نظام نو کا سنہرا خواب بھی۔غرض یہ کہ وہ سب کچھ ہے جو زندہ و پائندہ ادب کی جان ہے۔عیش کے کلام میں ایک بات اور بھی ہے جسے میں نے محسوس کیا کہ ان کا مفکر دماغ تشکیک کی بھول بھلیوں میں پڑ کر سامع کو ذہنی قلابازیوں میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ ایک قول فیصل کی طرح پیش کردیتا ہے۔لیکن ان کی منزل یہیں پر آکرختم نہیں ہو جاتی ،ان کی نظر فن پر بھی ہے اور اس لحاظ سے ان کا نظریہ شادؔ کے اس نظرئے سے مختلف نہیں:

شستگی ِزباں عبث ،دل میں بھرے ہیں خار و خس

چھوڑ ابھی برون در فکر دروں خانہ گرد

         یہی فکر دروں خانہ عیش کی بھی تدبیر منزل ہے،غرض ان کی شاعری ان نظریوں کی بھر پور تائید کرتی ہے،کلام عیش کے متفرق شعر:

رفتہ رفتہ ہو گیا دل عشق میں ایذا پسند

اے مسیحا اب نہ درد دل کا درماں کیجئے

ساز دل کو چھیڑ کر کہتی ہے چشم فتنہ ساز

انکشاف راز ہائے درد پنہاں کیجئے

وہ عبرت خیز عالم ہے دل ناکام الفت کا

کہ جس نے اک نظر دیکھا وہی تصویر حیرت ہے

یہ  کیا نیرنگ اے نیرنگ ساز حسن فطرت ہے

کہ تصویر مجازی ہے بھرا رنگ حقییقت ہے

کالی گھٹا نے آ کے شب ہجر میں مجھے

محو خیال زلف پریشاں بنا دیا

ساقی کے فیض عام نے رندوں کی بزم میں

عشرت کا دور ،عیش کا ساماں بنا دیا

   سادہ اور سلیس اندز بیان،لیکن پر فریب:۔

میرے آنسو کو غور سے دیکھو

کہ یہ قطرہ بھی  ہے گہر بھی ہے

                  انسان کی شخصیت کی یہ ہمہ گیری حسن کی ماورائیت تک اس کی نارسائی کاخوش گوار نام تھا۔عیش کی شاعری میں اسی انسان کی تمنائیں مچلتی ہیں۔انھوں نے وہ محبت کی ہے جو حاسیہ سے ابھر کر ذہن وجدان کی دنیا پر چھا جاتی ہییہ محبت ذہن و وجدان کی وہ سنبھلی ہوئی کیفیت ہوی ہے جس کی تیز لہریں محبت کرنے والے کی شخصیت کو بہا نہیں لے جاتی بلکہ محبت پاش نگاہوں کا جلوہ قابل فخر ہے،یہ خود بے قابو ہو جانے کے بجائے واقعات و حالات پرقابو رکھتی ہیں،اسی طرح عیش صاحب کا تصور حسن و عشق محدود نہیں بلکہ آفاقی ہو جاتا ہے۔عیش حسن و عشق کے شاعر نہیں اورنہ ان کی شاعری معاش و معیشت کی شاعری ہے۔وہ حیقت کی بنیادوں پر رومان کی خواب آگیں دنیا تعمیر کرتے ہیں۔وہ مشرقی اقدار کا احترام کرتے ہوئے بھی نئے تکنیکی تجربات سے گریز یا نفرت نہیں کرتے۔عیش کی اعتدال پسند شاعری  متوازن عوامل کی ضامن بن جاتی ہے۔ایک سنبھلی ہوئی ہموارر کیفیت ہے جو فکر،جذبہ یا ہیئت کے اعتبار سے نے راو رروہ اختیار نہیں کرتی ہے:۔

شراب عشق پی پی کر بہکنا عین لغزش ہے

ہم اس لغزش کو عیشؔ آداب میخانہ نہیں کہتے

نفس کی آمد و شد پر ہے زندگی کا مدار

جو تازیانہ چلے تو یہ راہوار چلے

جفا کے نقش باطل ہوں،نقوش حسن کامل ہوں

جو پیغام وفا لے کر حسینوںکا شباب آئے

وہ عالم ہو کہ فاضل ہو مگر انساں نہیں ہوگا

جسے تہذیب غم ،تعلیم روحانی نہیں ملتی

                  شاعر کو جذباتی کشاکش سے بھی گذرنا پرا ہے لیکن نفسیاتی الجھنوں کے اثرات دیر پا ثابت نہیں ہوئے،حزن و ملال شاعر کے نقطہ نظر میںگھل مل جاتا ہے۔

یوں تو ہر آدمی مکمل ہے

آدمیت ہے ناتمام بہت

انسان ابھی تو پورا انسان تک نہیں ہے

کیونکربنے فرشتہ وہ آدمی سے پہلے

ہمارا راز غم اے عیش سب پر کھلنے والا ہے

کہ رس رس کر لہو آنے لگا ہے زخم پنہاں سے

                  یدو راج بلی عیش’ کے شعری مجموعہ’’طوفان ِغزلیات‘‘ کا مطالعہ ہمیںاس نتیجہ پر پہونچاتا ہے کہ پرورش لوح و قلم کے سلسلہ میں ان کی شاعری کے متعلق واقف کاروں کا حلقہ نسبتا محدود ہے۔طوفان غزلیات کی شاعری میں عیشؔ کی افتاد طبع کا اظہار ابھی مدھم سروں میں ہے۔زیر و بم کی آویزش ان کے نغموں کو بلند بانگ نہیں ہونے دیتی لیکن جامعیت کے نشانات قاری کو مسحور ضرور کرتے ہیں،کیونکہ عیش کے لئے شاعری’’یہی آخر کوٹھہرافن ہمارا‘‘ کے مصداق ہے،ان کی شاعری میں مستقبل کے مثبت امکانات موجود ہیں،ان کی آواز عام آواز نہیں ہے ۔اس میں انفرادیت ہے،کشش ہے،زندہ احساس ہے،فکر و فن کے اعتبار سے ان کی خلاقی کا زمانی تجزیہ ہماری امیدوں میں اعتما داوریقین بھر دیتا ہے۔ان کی شاعری کا مطالعہ اس نتیجہ پر بھی پہونچاتا ہے کہ انھیں موضوعات کا انتخاب اور ان کے لئے مناسب اسالیب اظہار میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کیونکہ’’کوئی مشکل فکر کامل کے لئے مشکل نہیں‘‘

***

Leave a Reply