You are currently viewing آزاد ی کے بعد اردو افسا نہ اور نا ول :ایک اجمالی جائزہ

آزاد ی کے بعد اردو افسا نہ اور نا ول :ایک اجمالی جائزہ

ڈاکٹر ثریّا بیگم محمود خان

اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو

شیواجی کالج ہنگولی

آزاد ی کے بعد اردو افسا نہ اور نا ول :ایک اجمالی جائزہ

         آزاد ی کے فوراًبعد ہند وستا ن اور پا کستا ن میں فسا دا ت پھو ٹ پڑ ے تھے اس لیے اس دور کے ادیبو ں نے ان ہی واقعات کو اپنا مو ضوع بنا یا اور انسا نیت سو ز واقعا ت کی اس طر ح عکا سی کی کہ ہم حیو انیت کے دا ئر ے سے نکل آ ئیں اور افسا نے ’’سیا ہ حا شیے‘‘ بے حد فکر انگر یز ثا بت ہو ئے ۔انھو ں نے چھو ٹے چھوٹے وا قعات کو لے کر ان غیر انسا نی وا قعات پر گہرا طنز کیا ہے ۔آ زاد ی کے بعد نئے لکھنے والے آ ہستہ آہستہ ابھر ے۔لیکن ا یسے افسا نہ نگا ر جنھو ں نے آ زاد ی سے پہلے اپنا مقا م بنا لیا تھا وہی مد تو ں تک ادب پر چھا ئے ر ہے اور ان میں یہ لو گ جد ید اْردو افسا نے کے معما رو ں میں سے ہیں ۔جیسے کر شن چند ر ،راجند ر سنگھ بید ی،سعا د ت حسن منٹو ،احمد ند یم قا سمی ،خو اجہ احمد عبا س، احمد علی یہ ہیں ۔اوپند ر نا تھ اشک ،دیو یند ر سیتا رتھی۔مر زا ادیب ،سلیم چھتا ر ی ان تما م افسا نہ نگا رو ں کے بہتر ین افسا نے ۱۹۴۷ءآزاد ی کے بعد ہی لکھئے گئے ۔

         ۱۹۴۷ءکے زما نے میں نما یا ں مقا م حاصل کر نیوالے ان افسا نہ نگا رو ں میں سے اکثر آ زاد ی کے بعد جو مسا ئل پیش آ ئے ان کی عکا سی کی، عو ام کی بد حا لی ،امیر طبقے اور غر یب طبقے میں جو ما لی اور معا شی اعتبا ر سے فر ق تھا ۔  اس کو بھی نما یا ں کیا گیا ۔ان میں سے بعض افسا نہ نگا ر ما ضی کے حا لا ت کو خا ص اند از میں پیش کرتے ر ہے۔ قرۃ العین حیدر کے افسا نو ں میں یہ با ت خاص طو ر پر ملتی ہے کہ وہ تقسیم ملک کی مشتر کہ تہذ یبی زند گی کو پیش کرتی ہے ۔انتظار حسین نے علا متی افسا نے لکھنے میں خاص شہر ت حاصل کی ہے ۔اس طر ح مذ ہبی قصے اور واقعات ملتے ہیں ۔

         آزاد ی کے بعد اْردو افسا نہ میں ایک اور ر جحا ن نما یا ں طو ر پر ملتا ہے ۔مختلف افسا نہ نگا ر و ں نے اپنے علا قے کی تہذ یب اور زبا ن کو ا پنے افسا نو ں میں خاص طور پر جگہ دی ہے ۔ان افسا نو ں کی و جہ سے اس علاقے کی تہذ یبی ز ند گی اور زبا ن نما یا ں ہو تی ہے۔قرۃالعین حیدر ،انتظار حسین ،مسیح الحسن ر ضو ی نے اترپردیش کی تہذ یبی ز ند گی اور زبا ن کو پیش کیا ہے ۔جیلا نی با نو اور واجد ہ تبسم کے افسا نو ں میں د کن کی تہذیب اور زبا ن ملتی ہے ۔

         اْردو افسا نے میں جہا ں تہذ یبی ،سیاسی واقعات کو پیش کیا گیا وہیں روزمر ہ کی زند گی کے بار ے میں بھی بے حد پر اثر

افسا نے لکھئے  گئے۔بید ی نے کچھ افسا نے ایسے قلمبندکئے جن میں میا ں بیو ی کی گھر یلو ں زند گی کے نشیب و فراز کو سا منے ر کھ کر افسا نہ ’’اپنے دْکھ مجھے دے دو‘‘ لکھا ۔یہ افسا نہ ایک بہو کی ز ند گی کو پیش کر تا ہے ۔

         کر شن چند ر ۱۹۳۱ تا ۱۹۷۷ نے آ زاد ی کے بعد جو افسا نے لکھئے ہیں ان میں بھی محنت کش طبقے کی حالت زار بتا ئی ہے ان کے افسا نو ں میں عا م طور پر یہی با ت ملتی ہے ۔ہما ر ی نئی حکو مت بھی غر یبو ں کے بنیادی مسا ئل کو حل کر نے سے قا صر ر ہی ہے ۔ان کے افسا نے ’’مہا لکشمی کے پل‘‘میں لکھتے ہیں کہ کس طر ح غر یب کا م کر نے والیا ں آج بھی ا نتہا ئی مفلسی کا شکار ہیں۔انتہا ئی شد ید محنت کر نے کے روٹی ،کپڑا اور مکان ا نھیں میسر نہیں ہے ۔کر شن چندر کے افسا نو ں کے مجمو عے کئی ہیں۔لیکن ان میں خاص طور پر قا بل ذکر ہے ’’زند گی کے موڑ پر‘‘،’’ٹوٹے ہو ئے تا رے ‘‘،’’نعمنے کی مو ت‘‘،’’میں انتظا ر کر و ں گا‘‘۔

         عصمت چغتا ئی ۱۹۱۵  متو سط طبقے کی گھر یلو ز ند گی کے مختلف پہلو ئو ں کو بڑ ی فن کار ی کے سا تھ پیش کر تی ہے وہ ا پنے کر دارو ں کی ذ ہنی اور نفسیا تی حا لت کو بے با کی کے سا تھ بیا ن کر تی ہے ۔ان کاافسا نہ ’’چوتھی کا جوڑا‘‘اْردو اد ب میں بے حد مقبو ل اورمشہو ر ہے ۔عصمت چغتا ئی نے اپنے افسا نو ں میں جہیز نہ دینے کی و جہ سے جس طر ح لڑ کیو ں کی عمر گز ر تی جا تی ہے اور اس کی و جہ سے ما ں با پ کے لیے طر ح طر ح کے مسا ئل  پیدا ہو تے ہے ۔اور کس طر ح گھر تبا ہ ہو جا تے ہے ۔اس کو بے حد خو بصو ر تی سے پیش کیا ہے ۔

         سعا د ت حسین منٹو ۱۹۱۲  ۔  ۱۹۵۵ء منٹو نے آ زاد ی کے بعد کے مسا ئل پر ایک لا جوا ب افسا نہ  ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ لکھا۔اس افسا نے کا مو ضو ع و طن سے ایک پا گل کو جو بھی تعلق خا طر ہو تا ہے ۔اسے انتہا ئی فنکارا نہ کما ل کے سا تھ بیا ن کیا ہے۔خوا جہ ا حمد عباس ۱۹۱۴ء نے بھی بہت سے افسا نے لکھئے ہیں۔وہ آزاد ی سے پہلے افسا نہ نگار کی حیثیت سے مشہو ر ہو چکے ہیں ۔وہ ترقی پسند افسا نہ نگار ہیں اس لیے ان کے موضوعات بھی دو لت کی غیر مساو ی تقسیم کے اطراف گھو متے ہیں ۔ان کے افسا نے ’’میں کو ن ہو ں‘‘ ،’’گہیو ں اور گلاب ‘‘اور ’’نیلی سا ر ی ‘‘ہے

         حیا ت اللہ انصار ی ۱۹۱۲ء ا بتدا ء میں تر قی پسند تحر یک سے متا ثر ر ہے ۔بعد میں اس سے الگ ہو گئے آزاد ی کے بعد ان کا ایک افسا نو ی مجموعہ ’’شکستہ کنگو ر ے‘‘ شا ئع ہوا ۔ ان کا افسا نہ ’’آخر ی کو شش بے حد مشہور ہوا ۔اْردو کے بہت ا چھے افسا نو ں میں شمار ہو تا ہے ۔آزاد ی کے بعد جو افسا نہ نگار ابھر ے ہیں ان کی فہرست بہت طو یل سے جیسے ر ضیہ ،جمیلہ ہا شمی ،ابر ا ہیم جلیس،کشمیر ی لا ل ذ کر ،جیلا نی با نو ،با نو قد سیہ ،قا ضی عبدالستا ر ، اقبا ل ، متین ،عو ض ،سعید یہ افسا نہ نگا ر ہے اور بھی کئی افسا نہ نگا ر ہے جنھو ں نے اْردو افسا نے تر قی میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصّہ لیا ہے ۔

         افسا نو ی صنف میں اْردو اد ب میں تر قی اور اس صنف آ زما ئی ۔ بہت سے افسا نہ نگارگزر ے ہیں اس کے بر خلاف ناو ل

نے ا تنی تر قی نہیں کی اْردو میں سیکڑو ں ناو ل لکھئے گئے ہیں اور ا ن میں چند ہی ا یسے ہیں جو مشہو ر، سنجید ہ اور اہم ہیں ۔۱۹۴۷ء کے بعد اْردو میں کئی اعلیٰ در جے کے ناو ل لکھئے گئے ان میں سے بعض ناول نگار ا یسے ہیں۔ جنھو ں نے آزاد ی سے پہلے ہی اد ب میں ا پنا مقا م بنا لیا تھا اور جن کے ناو ل اد بی دنیا میں وسعت حاصل کر چکے تھے ۔

         عزیز احمد ،عصمت چغتا ئی اور کر شن چندر قا بل طور پر قا بل ذکر ہیں ۔عز یز احمد ۱۹۱۴ء تا ۱۹۸۱ء نے ا پنا شا ہکار ناو ل ’’ایسی بلند ی ایسی پستی ‘‘ آزاد ی کے بعد لکھا ۔اس ناو ل میں حیدر آ باد کے جا گیر دار انہ سما ج کی زند گی کو پیش کیا گیا ہے ۔ان کا دوسر ا ناو ل ’’شبنم‘‘ ۱۹۴۹ء میں شا ئع ہوا اس میں بھی مسلم سما ج میں جب لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر نے لے لیے کا لجو ں میں گیں اور ا نھیں پہلی بار آزاد ی حاصل ہو ئی اس سے جو مسائل پیدا ہو ئے ۔اْسے انھو ں نے اس ناو ل میں پیش کیا ہے ۔

         عصمت کے اہم ناول آزاد ی سے پہلے لکھئے جا چکے تھے ۔ان کا سب سے بڑا اور اہم ناو ل ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ آزاد ی سے پہلے لکھا گیا ۔ ان کا ایک مختصر ناو ل عجیب آ د می خاص طور پر ا ہمیت ر کھتا ہے ۔کر شن چندر آزاد ی سے پہلے ناو ل ،شکست لکھ کر ناو ل نگار ی کے میدا ن میں ا پنا مقا م بنا لیا ’’با ون پتے‘‘ اْن کا اہم ناو ل ہے جس میں ممبئی کی فلمی د نیا کے پس منظر کو پیش کیا گیا ہے ۔

         قرۃ العین حید ر اْردو کی ممتاز ناو ل نگار ہیں ان کے تما م ناو ل آزاد ی کے بعد لکھئے گئے ۔آزاد ی کے بعد ملک کی تقسیم نے تہذ یبی بحرا ن پیدا کیا اور ایک مشتر کہ تہذ یب جو صدیو ں کی پر وردہ تھی ۔ ان کے ناو ل ’’سفینہ غم دل‘‘ ۱۹۵۱ء اور ’’میر ے بھی صنم خا نے‘‘ ان کے مشہور ناو ل ہے ۔ان کا سب سے اہم شا ہکار ناول ’’آگ کا در یا ‘‘۱۹۵۹ء میں لکھا ۔اس ناو ل میں ا نھو ں نے ہند وستا ن کی ہزارو ں سا ل کی تار یخ کو علا متی انداز سے چند سو صفحا ت میں ایسر کیا ۔ہر تا ریخی دور میں ہند وستا ن کی تہذ یبی زند گی میں جو بنیا د ی تبد یلیا ں پیدا ہو ئیں ان کو پیش کر نے میں قر ۃ العین حید ر کی ناو ل نگار ی کا نقطہ عر وج نظر آ تا ہے ۔مختلف تحر یکیں چل رہی تھی انھیں پیش کر تے ہو ئے خاص طور پر ان لو گو ں کو پیش کیا گیا جو تشد د کے ذریعہ آزاد ی حاصل کر نا چاہتے تھے ۔قرۃالعین حیدر نے کئی مختصر ناو ل لکھے جو کا فی اہمیت ر کھتے ہیں ۔

***

Leave a Reply