سہیم الدین خلیل الدین صدّیقی
(اورنگ آباد، دکن)
ابھی وقت باقی ہے!
وہ اپنے خودی میں مگن رات کے اندھیرے میں سُن سان سڑک پر تنہاہ چل رہا ہے،ہر سمت سے ۔ اِس س سن اَسس۔!! جیسی سَن سنناہٹ کی آوازیں اس کے کانوں پر پڑھ رہی ہیں، وہ بار بار چونک جاتا ،وہ اپنی گردن کو کبھی دائیں کبھی بائیںکبھی آگے تو کبھی پیچھے گُھماکر دیکھتا ، اور بعض مرتبہ تو وہ اپناسایہ دیکھ کر بھی ڈر جاتاتو کبھی جانوروں اورپرندوںکے آوازویں سن کر بھی لرز جاتا۔ ساری سڑکیں دھمی بارش کے برسنے سے بھیگ چُکی تھی،کہیں کہیں گھڑھوں میںپانی اب بھی جمع دیکھائی دیتاتھا،جس سے اُسے اپنے شہر کے سڑکوںکی حالات کااچھی طرح سے اندازہ لگ گیا ، سلیم اب بھی اپنی نظروں کو جھُکا ئے ہوئے چل رہا ہے،وہ سوچ رہا تھاکہ:
یہ ہمارے شہر کی کیا حالت ہو گئی ہے۔۔!!
ہماری حکومت کس خو اب غفلت میں سوئی ہوئی ہے، اس بات کا علم میرے ہمعصرشہریوں کواب تک کیوں نہیں ہوا؟کیا وہ اپنے ملک کے جوہر،باپواور آزاد وغیرہ کی تعلیمات کو بھو ل چکے ہیں؟
افسوس۔۔! صد افسوس۔۔!
ابھی وقت باقی ہے!
مجھے یقین ہے ،میرے ملک کے لوگ ایک دن ضروربیدار ہونگے۔
وہ ابھی اسی سو چ میں تھا کہ اس کے پیر کو یکایک ایک جھٹکا محسوس ہوا،اُس کا ایک پیر سڑک پرجمع ہوئے پانی کے ایک چھوٹے سے گھڑھے میں چلا گیا،اُس نے کسی طرح سے اپنا پیر اُس گھڑھے سے باہر نکالا۔پھر اپنے کپڑے صاف کیے اور اپنے سر کو جھُکا ئے چلنے لگا،سلیم کی نگاہ اب پانی کے بڑے گڑھے پر پڑی ،اس نے دیکھا کہ آسمان اب بادلوں سے صاف ہوچُکا ہے،اور اُس پانی کے بڑے سے منبہ میں اُسے اُفق کے چانداور ستارے دیکھائی دے رہے ہیں، وہ تاروں کے خوبصورت جھُرمٹ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا، اُن تاروں کے درمیان سے ایک چودھوی کا چاند مسکرانے لگا،جسے ہم کبھی ماہ توکبھی مہتاب کہتے ہیں۔
سلیم یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا،وہ پھر سوچنے لگا کہ اب تک تو میرے ساتھ میرا سایہ اِس اَندھیری رات میں چل رہاہے ،لیکن کبھی کبھی وہ بھی میرے ساتھ بیوفائی کر تا ہے،کیونکہ بعض وقت وہ بھی میرے ساتھ آنکھ میں چولی کھیلتا ہے ، اس لئے میں اس سے بھی ڈر تارہتا ہوں،وہ کب میرا ساتھ چھوڑ دے گااور مجھے تنہاہ کردے بتانا مشکل ہے ،لیکن اب مجھے کسی کا ڈر نہیںہے،خدا مجھ پر مہربان ہے،اُسے مجھ پر بہت رحم آیا ہے ،اسی لئے اُس نے مجھے ایک دوست چاند کی شکل میں دے دیا،میرا راستہ آسان اور سفر خوشگوارہوگیا،میں خوش ہوں ۔۔! بیحد خوش ہوں۔۔!
سلیم نے اب چاند سے گفتگوشروع کرتے ہوئے کہا۔۔۔! ۔۔۔ ائے ماہ کامل۔۔۔ !۔۔۔ ائے دوجہاں کہ جمیل وجلال۔ خُدا تیرا نگاہ بان۔۔۔ ! رات کی پہچان ۔۔ میرے نورِجہان ۔۔جنت میں ہے تیرا مقام!
۔۔۔۔لے لے میرا سلام ! ۔۔۔ ائے دوست۔۔!! ۔۔ذرامیرا تو لے لے ذرا سلام۔!
چاند کی روشنی نے سرگوشی سے جواب دیا: ’’وعلیکم اسلام۔‘‘ خیریت ۔!
سلیم نے کہا ’’الحمداللہ‘‘پھر مسکرانے لگا،دونوں میں گفتگوکا سلسلہ جاری و ساری ہوگیا۔ سلیم کہتا ہے کہ؛ ’’ ائے چاند! چاندِجہان! ائے سرتاجِ آسمان ،خدا کی قسم تو دنیا کی سب سے انمول شئے ہے،تیری دوستی قسمت والوں کو ملتی ہے،تو ہر دلفگار کا عاشق ہے،تجھے حاصل کرنے کی تمنا ہر عقلِ سلیم کو ہے،تو میرا محبوب ،تو میرا عزیز، تو ہی میرا ہمدم ہے، ایک تجھ سے وفا کی اُمید ہے،میں نے کئی اشخاص سے کئی ٹھوکریں کھائی ہیں،اب تجھ سے یہ امید لگائی ہے کہ تو مجھے مایوس نہیں کرے گا، میری ہنسی نہ اڑائے گا ۔‘‘یہ سُن کر چاند نے اپنی روشنی مزیدتیزکی اور یہ جواب دیاکہ:
’’ابھی وقت باقی ہے۔ !ائے دوست ۔! ائے میرے عزیز دوست ۔
تیری ہر بات سر آنکھوں پرمیں تجھ کو یقین دلاتا ہوںتجھے ہر سچائی کی راہ دیکھائو ں گا،میں تیرا محسین بنوں گا،تو پاسبانِ عقل ہے تو میں میوہ جنت میں سے ہوں، تجھ کو دو عالم کا سکون دوں گا،اور تمام عمر تیرے ساتھ رہوں گا،اپنے کرنوں کی روشنی سے تجھے خوش کرتا رہوں گا۔‘‘
اتنا کہنا تھا کہ چاندبادلوں کے پیچھے چھُپ گیا،اب سلیم اُس راستے پرپھر تنہا ہ تھا،سن سناہٹ کی آواز یںاب بھی جاری تھی ،درختوں کے پتّے زمین پر گیرتے ہوئے دیکھائی دے رہے تھے،وہ اب بھی چل رہاہے،اتنے میں ایک ٹھنڈی ہو ا کا جھونکا اُس کے چہرہ پرتھپیڑے کی طرح لگا، وہ چونک گیا،پھر یہ دل میں سوچنے لگا ،جس کو میں نے اپنا دوست سمجھا اس نے بھی مجھ سے کنارہ کشی اختیار کردی اور داغ دے گیا۔
اتنے میں سلیم کو اُس کی طرف کسی کے آنے کی آوازسنائی دی ،وہ پھر چونک گیا!
گھبرا کرکہنے لگا۔کوکو۔ن ۔کون؟ کون ہے؟ اُس نے فوراََ پیچھے مُڑکر دیکھا،کو ئی اُس کا ہم عصر لڑکا جس کا سن کچھ بیس بائیس کا ہوگا ،اُس سے مخاطب ہے،وہ اُس سے کہے رہا ہے کہ انکل کیا وقت ہورہاہے؟سلیم نے اُسے سر تا پااور پھر پا تاسربغور دیکھا،وہ کچھ دیر تعجب سے اُسے دیکھتا رہا،وہ اسے انکل کہے رہا ہے،یہ سنتے ہی اُس کا چہرہ غصّے سے سُرخ ہو گیا، ماتھے پر بل آگئے ،آنکھیں بڑی بڑی ہو گئی،باچھے کھل گئی ،اُس نے دوبارہ بغیر اُسے کچھ کہے سر تا پا دیکھا، ابھی اس پر سے سلیم کی نگاہ ہٹی بھی نہ تھی کہ اُس کے کانوں میں ایک زور دار قہقہے کی آواز سنائی دی،سلیم نے پہلے دائیں پھر بائیں دیکھا، سوائے اندھیرے کے اسے کچھ دیکھائی نہ دیا،اُس نے جب آسمان کی طرف نگاہ دوڑائی تو اُس کا وہی دوست دیکھائی دیا جس نے کچھ دیر پہلے کئی وعدے کیے تھے،وہ ا ب بادلوں کے پیچھے سے عیاں ہوگیا تھا اور اب بھی سلیم کی بے حسّی پر بے تحاشہ ہنس رہا تھا،سلیم آگ بگولہ ہوگیا ، اور یہ کہنے لگا؛ ’’ائے رفیق ماہ!تجھ کومیں نے وفادار سمجھاتو بھی اوروں کی طرح بیوفا نکلا،اب تجھ سے بھی کوئی وفا کی اُمید نہیں رہی،تیری یہ روشنی اب میرے آنکھوں میں نیزے چُبھارہی ہیں،کبھی تیر کبھی تلوار میرے سینے میں پیوست کر رہی ہے،کاش!تیرا مُنھ بھی اندھیرے کی طرح کا لا ہوجاتا کوئی آج مجھ پر ہنسنے والا نہ ہوتااور یہ ادنا لڑکا مُجھے انکل کہنے کی جُرت نہ کرتا،اور میرادوست آفتا ب اُس کو جلا کر خاک کردیتا۔‘‘
اتنا کہنا تھا کہ چاند نے ایک زور دار لمبا قہقہہ لگایا اور سلیم کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھا:
؎نگاہیں ملا کر بدل جانے والے مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے یہ دنیابڑی سنگ دل ہے یہاںکسی کو کسی سے محبت نہیں ہے
وہ لڑکا سمجھ گیا کہ سلیم اب ناراض ہوگیا ہے،اور اُس نے پشیمانی کی نگاہ سے تکتے ہوئے کہاکہ’’سر‘‘ اِس وقت کتنے بجے ہیں؟ سلیم نے جھنجھلاکر کہاکہ’’ رات کے ۰۰:۱۲ بجے ہیں۔!کیوں۔؟ وہ خاموش ہوگیا۔ پھر دل ہی دل میں وہ لڑکا بڑبڑاتا ہواجانے لگا۔
’’ ابھی وقت باقی ہے۔!ا بھی وقت باقی ہے۔!‘‘
ابھی بہت وقت ۔ہاں!بہت وقت باقی ہے۔!
سلیم نے اُس کے بڑبڑانے کو نظر انداز کردیااور اپنے عمرسے متعلق سوچننے لگا کہ کیا میں اتنا بوڑھا ہوچکاہوں ؟کیا میری عمر ڈھل چکی ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا ،بالکل نہیں ہوسکتا۔!
وہ اسی سوچ میںدوڑتے ہوئے اپنے گھر پہنچااور آئینے کے سامنے کھڑاہوگیا۔اپنے ہاتھوںکو اپنے بالوں پرباریک بینی سے پھیرتے ہوئے دیکھنے لگا ،اُسے اپنے سر میں ایک بال بھی بوڑھا نہ دیکھائی دیا ،وہ خوشی کے مارے اُچھلنے کودنے لگا فلموں کے گانے گُنگُنانے لگا۔پھر یکایک رُکااور کہنے لگا۔
’’ابھی وقت باقی ہے !‘‘وہ لڑکا ،لاعلم تھا،صرف لاعلم۔۔۔۔!اور کچھ بھی نہیں۔
وہ بیوقف ،بے غیرت ،ناسمجھ تھا،بے چارہ تیرویں کے چاند کو پندرہ ویں تاریخ کاچاند سمجھ بیٹھا ۔ابھی میری نوجوانی کا دور ختم نہیں ہوا، نہیں، بالکل نہیں۔۔۔ہوا۔’’ ابھی وقت باقی ہے۔!‘‘باقی ہے ۔۔۔!۔۔۔بہت وقت باقی ہے۔
کچھ ضروری کا م باقی ہے،عبادت کے لیے دن،بہت دن باقی ہے۔میں خوش ہوں۔۔بہت خوش ہوں۔نوجوان ہوں۔
اسی بے خودی میں سلیم مکمل چاند کی رات گنواہ بیٹھا ۔اب چاند کے ڈھلنے کے دن قریب آنے لگے تو اُس نے اپنی نگاہ ڈھلتے ہوئے چاند کی طرف اُٹھائی تو بڑی حیرت میں پڑھ گیاکیونکہ اب ماہِ کامل ڈھلنے لگاتھا،لیکن،اُسے اِس بات کا احساس تک نہیں ہوا،اُس کی عمر بھی اب ڈھلنے لگی۔ لیکن ،وہ اب بھی اتنا بے چین نہیں ہوا،اور دل ہی دل میںیہ سوچنے لگا۔۔۔!ابھی بہت سے کام باقی ہیںاور بہت سا وقت بھی،وہ دولت دُنیا کمانے لگا،عیش و عشرت کا سامان دن بدن مہیا کرنے لگا،اچھے اچھے پکوانوں کا مزااپنے بیوی بچوں کے ساتھ چکنے لگا،دین کی عبادت سے اُس کا رشتہ کب منقطع ہوگیا،اُسے اس کا کوئی علم نہ تھا،وہ بھول گیاتھا کہ مادّی دنیا کے علاوہ بھی ایک اور دنیا ہے،جسے ہم اور آپ آخرت کی دنیا کہتے ہیں، اسی بے خودی کے عالم میں اُس نے چاند کی پندرہ ویں سے پچیسویںتاریخ تک کا بڑاعظیم دور گنوادیا۔
سلیم کو جب ہوش آیا تویہ احساس ہو اکہ آج ۲۶ویں ماہ کی شب ہے،وہ فوراََ اپنے کمرے میں گیا اور آئینہ میں اپنا عکس دیکھا،اُس کے سر کے اوراُس کے چہرہ کے بال اب پوری طرح سفید ہوگئے تھے ،اُس کے رخسار اور جبیں پر جھُریاں آگئی تھیں،یہ اُس کے عمر کاآخری آیّام تھے،وہ بوڑھا ہوچُکاتھا،اُس کے دونوں بچّے لڑکی سیما اور لڑکانوشاد اب جوان ہو چُکے تھے،بیوی حنابوڑھی ہوچکی تھی،وہ اپنے تاریکی کمرے میں تنہاہ بیٹھا کچھ سوچ رہا تھاکہ میری ساری زندگی میں اب اندھیرا چھاگیاہے،معاََ اسے دورایک ذرّہ برابرروشنی دیکھائی دی،وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے قریب جاکر باہر جھانکنے لگا ،اُسے ہر سمت اندھیرا ہی اندھیرا دیکھائی دیااس نے اسمان کی طرف اپنی نگاہ دوڑ ائی تو اوپراُفق پرچاندباریک تار کی مانند دیکھائی دیا جیسے گویا وہ اب ڈوب جانے والا ہو،پھروہ واپس آکر اپنی آرام کُرسی پر بیٹھ گیا،پھرایک لمبی سانس لے کر اپنی آنکھیں بندکردی اور اپنے ماضی کے بارے میں سوچنے لگا۔
اُف !وہ بھی کیادن تھے؟
سورج اپنی کرنیں سِمٹ چکاتھا،رات اپنے سفر کے لیے تیارتھی،میرے والدین بہت خوش تھے،چاند کی پہلی تاریخ تھی جس روز میری ولادت ہوئی تھی،بابانے میرے کانوں میںاذان دی تھی،میرے کانوںمیں وہ اذان کی آواز آج بھی گنجتی ہے،نا جانے اس پہلی اذان کی نماز کب اور کہاں پڑھی جائے گی؟اس کاعلم مجھے آج تک نہیں ہوا اور شاید آگے بھی نہیں ہوگا، خیرساری مخلوقِ خداوندی خوش تھی ، میری ماں، بابا، دادا، دادی، چچا،چاچی اور میرے رشتہ دار حتٰی کے سب کہ سب۔۔۔!میٹھائیاں باٹی گئیں، تمام فقیروں و ضرورت مندوں کو لنگر کھلایا گیا، سب نے دُعائیں دی۔ وقت گزرتا گیا میںبڑاہوتا گیا،اور اپنی تُوتلاتی زبان میںکلمہ طیبہ پڑھنے لگا،میرے والدین وسرپرست خوش ہونے لگے،پھر میں اپنے والدین کی اُنگلی پکڑ کر راہِ راست پر چلنے لگا۔جب میں پختگی کے عالم میں پہنچاتومیرانکاح کردیا گیا وہ پورے چاند کی رات تھی ، پھر ماں بابا نے مجھے نہیںبلکہ ساری دنیاکو الوداع کہے دیا۔اب مجھے عبادت کرنے کے لئے کہنے والا کوئی نہ تھا ،جب دل میرا مجھ سے عبادت کرنے کے لئے کہتا تو میں اپنے دل کویہ کہہ کر تسّلی دیتا تھاکہ ’’ابھی وقت باقی ہے!‘‘افسوس صد افسوس۔! سلیم ابھی سوچ ہی رہا تھاکہ وقت سحر نے آواز لگائی ، اور جیسے ہی گھڑی کی آواز اس کے کانوں پر پڑی ،سلیم کو یکایک ہوش آیا،اُس نے اپنی گردن پہلے دائیں پھر بائیں ہلا ئی۔ اور کہنے لگا،’’آہ وہ بھی کیا دن تھے اور آج کیا دن ہے؟ لیکن وہ دور الگ تھا یہ دور الگ ہے،میں اب بوڑھا ہوچکا ہوںمیرے ہاتھ پیر کانپ رہے ہیں ،دانت گرچکے ہیں، چہرہ جھریوںسے بھر گیا ہے، بال سفید ہوگئے ہیں،کمر کمان بن گئی ہے اور آنکھیں کمزور ہوگئیںہیں۔‘‘یہ سوچ کروہ اپنی آرام کرسی سے اُٹھا اور یہ شعر بڑبڑانے لگا:
؎ رنگ دکھلاتی ہے کیاکیا عمر کی رفتاربھی بال چاندی ہوگئے سونا ہوئے رخسار بھی
سلیم نے وضو کر کے مسجد کا رخ کیا اوردرُود شریف کا ورد کرتے ہوئے اپنی لاٹھی زمین پر ٹکاتے ٹکاتے چلنے لگا،اس نے نماز فجر ادا کیں، اورلوٹتے ہوئے مناظر قدرت کا باریک بینی سے مشاہدہ کیاوہ دیکھنے لگا کہ ہریالی پر شبنم گیری ہوئیں ہیں،ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے چل رہے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو اُسے محسوس ہو رہی ہے،چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں اُسے عجیب سی مسّرتیں بخش رہیںہیں،سورج اپنی روشن کرنوں کو دوسروں کے لئے پھیلا رہا ہے ،وہ مسکراتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچّوں کو اسکول جاتے ہوئے دیکھ رہاہے ،اور دل ہی دل میں خوش ہورہاہے، اسے ایسا لگ رہا ہے جیساکہ آج ہی صبح ہوئی ہے،وہ افسوس کا اظہار کرتے ہو کہتا ہے کہ ’’کاش! میں نے یہ منظر کو پہلے دیکھا ہوتا ،میں اب اِسے ہر روز دیکھنا چاہتا ہوںاسے ہر روز محسوس کرنا چاہتا ہوو۔۔و۔۔و۔۔ں۔۔۔۔!
‘معاََ اسے ٹھوکر لگ جاتی ہے وہ گرجاتا ہے ،کچھ لوگ اُسے زمین سے اٹھاتے ہیں،اس کی بوڑھی ہتیلی اور گھوٹنے زخمی ہو جاتے ہیں،وہ اللہ اکبر پڑھتا ہے، اور خاموشی سے دھیرے دھیرے چلتے ہوئے بڑبڑ انے لگتا ہے کہ؛ ’’افسوس اس بات کا ہے کہ اب وقت گزر گیا ہے، میں بوڑھا ہو گیا ہوں،اب وقت باقی نہیں ہے۔‘‘وہ کسی طرح اپنے گھر پہنچتا ہے اوردروازے کے قریب ایک نیم کے پیڑ کے نیچے چبوترے پر بیٹھتے ہوئے اپنی بیوی کو آواز دیتا ہے ۔ حِ۔ح۔ن۔نا۔! حنا !
اری او حنا!کمبخت کہا چلی گئی ہو،سنتی ہوذرا جلدی آؤ۔بوڑھی حنا دالان میں جھاڑو دے رہی ہے وہ اپنے شو ہر کی آواز سن کر فوراََ اُٹھ کھڑی ہوتی ہے، اس کے پہنچنے تک سلیم کی کانپتی ہوئی زبان اور دو چار آواز لگا دیتی ہیں،حنا دوسرے ہی پل اپنے خاوند کے سامنے پہنچ جاتی ہے اور سلیم کا خون سے لت پت پائجامہ دیکھ کر کہتی للہ یہ کیا ہوگیا ہے آپ کو سلیم کہتا ہے کہ کچھ نہیں حِنومیں راستے میں ۔۔۔۔۔لیکن حنا کب پوری بات سُنتی اپنے لڑکے کوزور دار آواز لگا دیتی ہے،نوشاد! نوشاد! نوشاد اپنی ڈرائینگ روم سے دوڑتے ہوئے آجاتا ہے،اس کے پیچھے اس کی بہن سیماجو کہ اپنے سسرال دو دن پہلے اپنے والدین سے ملنے کے لئے آئی تھی دوڑی چلی آتی ہے اور اس کے پیچھے اسکی بھابی سائمہ بھی آجاتی ہیں،جو کہ کیچن میں اپنی نندکے ساتھ بیٹھی چائے بنارہی تھی۔سلیم اپنی پوری بات مکمل کرتے ہوئے کہتا اتنا ہنگامہ کرنے کی کیاضررت ہے میں مسجد سے لوٹتے ہو ئے گر گیا معمو لی چوٹ آئی ہیں اور کچھ بھی نہیں۔نوشاد اپنے والد کو پکڑ کرڈرائینگ روم میں لے آتا ہے سیماسلیم کے زخموں پرمرہم لگاتی ہے،اور اپنے بابا کو ہدایتیں بھی دینے لگتی ہیں جیسے باباذرا دھیرے چلا کرو ،سا تھ میں نوشاد کو لے جایا کرو وغیرہ ،تب تک سائمہ چائے تیار کر کے لے آتی ہے،سب مل کر چائے نوش کرتے ہیں،اور پھر اپنے کام میں لگ جاتے ہیںدن گزر جاتا ہے شام ہوتی ہے نوشاد بھی اپنے دفتر سے لوٹ آیا ہے ،سلیم بیڈ پر آرام کر رہا ہے، حنا اپنے ننھے نواسے کو لے کر صوفے پر بیٹھی ہے،سلیم کو یکایک کچھ یاد آیا ،اس نے اپنے بیوی سے دریافت کیا کہ آج چاند کی کیا تاریخ ہے،حنا نے جواب دیا ۲۷ ِویں تاریخ ہے،وہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا گویا اس پر سکتے کا عالم تاری ہو، اس نے اپنے بیوی سے مخاطب ہو کر کہا کہ حنوں ذرا تم مجھے اُس کھڑکی تک لے چلوگی کیا؟اس نے بغیر کوئی وجہ پوچھے اپنے ننھے نواسے کو جو اب تک سوگیا تھااُسے صوفے پر سلایا اور اپنے شوہر کا حکم بجا لائی،اور فوراََسلیم کے بازو کو تھام لیا وہ لنگڑتے ہوئے اپنے بیوی کے سہارے چلنے لگا اور کچھ دیر بعد اس سلا ئیڈنگ ونڈو تک پہنچ گیاجس کے طرف اس نے کچھ دیر پہلے اشارہ کیا تھا۔وہ اب آسمان کو بغور تک رہا تھااور ستاروںکے درمیان کسی کوڈھونڈ رہا تھاشاید وہ کسی عاشق کی طرح اپنے بہت پرانے ماشعوق کو تلاش کر رہا ہو، جس کی ایک جھلک پر وہ ساری کائنات کو نثار کردیتا تھا،لیکن آج وہ خود کو قربان کرنے آیا تھا،حنانے اپنے شوہر کی اس مضطربی ٹکٹکی دیکھ کر اس سے دریافت کیاکہ آپ آسمان میں آج اس طرح کیا دیکھ رہے ہیں، اسے اس بات کی کوئی خبر نہ تھی کہ کون اس سے کیا پوچھ رہا ہے اُس نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنی اُسی تلاش ماہ میں محو رہابادل آج بھی چھائے ہوئے تھے،اسکی بیوی نے اس کے بازو کو چھوا اور مزید دریافت کیا کے کیا دیکھ رہے ہو؟اس نے فجائیہ مسکراہٹ میں جواب دیاکہ چاند دیکھ رہا ہوں،وہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئی ،پھر اپنی بوڑھی آواز میں کہا آج آماوس (شب تاریکی)کی رات ہے آج چاند نظر نہیں آئیگا،سلیم نے جواب دیا اماوس چاند کی ستائیسویں تاریخ کو ہوتی ہے اس مہینے میں ایک دن قبل کیسے ہو سکتی ہے؟اتنا ہی کہنا تھا کے چاند کی شرارت آمیز کرن اس کے نواسے اور بیوی حناکے جھریوں بھرے چہرے پر پڑھی،سلیم نے اپنارُخ آسمان کی طرف پھیراچاند اپنے کرنے سمیٹ چکاتھااوراسکی آخری کرن اُسے معصومیت سے الوداع کہے رہی تھی اس نے اپنادائیں ہاتھ سینے پر رکھااور زمین پر بیٹھتے ہوئے کہاکہ؛ کاش!ایسا ہوتا۔ابھی وقت باقی ہوتا۔!میرے ان ہاتھوں میں میرا پوتا ہوتا ۔میں اس سے کیاکچھ کہ۔ت۔ا۔کہتا۔اتنا کہنا تھا کہ وہ خاموش ہوگیا ،یہ تمام باتیں سیما دروازے کے کونے سے سن رہی تھی ،فوراََ نوشاد کو بلا لائی ،ان کو آتا دیکھ کر یک لخطے سلیم نے اپنی کانپتی ہوئی آوازمیں جیسے ہی کلمہ طیبہ پڑھا،ایک لمحے کے لئے سارے گھرمیں سناٹاچھا گیاجیسے کسی طوفان کے آنے سے قبل چھاتا ہے ، اورہ دوسرے ہی پل ابدی نیند سوگیا ،پھراس کے گھر میں ایک طوفان برپاہوگیاجیسے کوئی غدر کا دن ہو۔۔۔۔۔!
Dr. Sahimoddin Khaliloddin Siddiqui
Asst. Prof. Dept. Urdu
Shivaji College Hingoli (Ms). 431513.
٭٭٭