ڈاکٹر ریاض توحیدیؔ کشمیری
عیدمبارک
’’اتحاد میں طاقت ہے۔‘‘
وہ زندگی میںپہلی بارفلسفۂ اتحاد کی معنی خیز کہاوت کے عملی مشاہدے سے اتنا متاثر ہواکہ احساس کی ابھرتی ڈوبتی لہریں دل ودماغ میں دیر تک فکری ارتعاش پیداکرتی رہیں۔ مشاہدہ ہی ایسا حیرت انگیز تھا کہ زندگی بھرکے فلسفۂ اتحادسے متعلق سنی سنائی منبر و محراب اور سیاسی گلیاروں کی شعلہ بار تقریریں راکھ کا ڈھیر محسوس ہوئیں ‘کیونکہ ہر تقریر اتحاد اتحاد کے راگ سے شروع ہوکر بکھراؤ کے زیروبم کی شکارہوجاتی ۔۔۔۔وجہ۔۔۔۔ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔
وہ جب نیند سے بیدار ہوا تواس کی طبیعت ایک خوش گوار احساس سے سرشار ہوئی کیونکہ وہ دن نہ صرف ا س کے لئے بلکہ پوری قوم کے لئے خوشی کا دن ہوتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ یہ تہوارہی ایثار وقربانی کے عملی پیام کا تہوار ہے۔اسی مہینے میں سنت ابراہیمی کے پیش نظرحج و قربانی کے احکامات پر عمل کیا جاتا ہے اورعالمی سطح پر عید کی خوشیاں منائی جاتی ہیں۔اس نے بھی جب نہا دھوکر سفید لباس زیب تن کرکے خوشبو سے خود کو آراستہ کیا اور عید گاہ کی جانب چلنے کی تیاری کرنے لگا تو اس کے دو معصوم بچے کھل کھلاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور عیدی عیدی کہتے ہوئے کمرے میں جھومنے لگے۔ وہ تھوڑی دیرتک دونوں کی اچھل کودسے لطف اندوز ہوتا رہااور پھر دونوں کو عیدی دیکر تکبیر تشریق کاورد کرتے ہوئے عید گاہ کی جانب نکل پڑا۔ہر طرف خوشی کا ماحول تھا ۔کہیں پر بچے کھیل کود میں مست تھے اور کہیں سے بانسری بجانے کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔لوگ ایک ددسرے کو گلے لگاتے ہوئے عید مبارک دینے میں مصروف تھے۔وہ بھی عید مبارک کی رسم نبھاتے ہوئے عید گاہ میں جا پہنچا۔ عید گاہ میں خوشگوار سماں بندھا ہوا تھا۔ بیشتر لوگ سفید لباس میں ملبوس نظر آرہے تھے۔ہر طرف تکبیر تشریق کا ورد ہورہا تھااور مولوی صاحب کے خطاب کے ساتھ ہی سب لوگ خاموش ہوگئے۔ مولوی صاحب نے نفس موضوع کے پیش نظر قرآن شریف کی چند آیات تلاوت کیںاورپھربڑے دلنشیں انداز سے عید کے مسائل وفضائل اور اہمیت پرروشنی ڈالنے لگے۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی بڑے سکون سے وعظ ونصیحت سے محظوظ ہورہا تھا۔خطاب کے دوران جونہی مولوی صاحب نے نار نمرود اور خانہ کعبہ کی تعمیر کے تعلق سے حضرت ابراہیم ؑ کے صبرواستقامت اور پیام توحیدکاملت اسلامیہ کی موجودہ المناک صورت حال سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایاکہ:
’’ یہ حضرت ابراہیم ؑکے ایمانی قوت کاعملی ثبوت تھا کہ سپرپاور نمرود کی خدائی کا چیلنج کرنے
کے باوجود نمردوی آگ کے شعلے انہیں پیام توحید کا اظہار کرنے سے نہ روک سکے اورانہوں
نے بیت اللہ کی تعمیر کرکے یہ پیغام سنایاکہ مسلمان صرف خدا کا بندہ ہوتا ہے نہ کہ کسی نمرود یافرعون کا غلام ‘اس لئے ہمیں اتحاد کا مظاہرہ کرکے دشمنوں کے خلاف متحد ہوکر کھڑا ہونا چاہئے ۔‘‘
اتحاد کا نام سنتے ہی اس کے بدن میں آگ سی لگ گئی۔وہ سوچنے لگا کہ ہم لوگ ہر وقت صرف لفظوں کے تیر چلاتے چلاتے جذبات کے بم ہی پھوڑتے رہتے ہیں اور آخر پر اتحاد اتحاد کا رونا روتے روتے پھر انتشار کی کھائیوں میں گرجاتے ہیں۔ہم لوگوں نے اسلام کے نام پر کئی اسلام بنا ئے رکھے ہیں۔ کہیں پر مسلک پرستی کااسلام نظر آرہا ہے اور کہیں پر عربی عجمی کی رسہ کشی پھیلی ہوئی ہے لیکن جب دور جدید کے نمرودفرعون متحد ہوکر آسمان سے آگ کے شعلے برساتے ہیں تو وہ شعلے بلا تفریق عربی عجمی ہرکسی کوایک ساتھ ختم کرجاتے ہیں‘کیونکہ ان کے نزدیک سارے مسلمانوں کاوجود ایک جیسا ہے۔
مولوی صاحب کا خطاب جاری تھا۔ اس نے عید گاہ میں موجود مجموعے پر نظر ڈالی۔ہر کوئی غنودگی کی سی حالت میں دکھائی دے رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ لفظوں کے تیر کھاکھاکرشاید مسلمانوں کادماغ اتنا زخمی ہوچکا ہے کہ وہ عید کے روز سفید لباس میں زندہ لاشیں دکھائی دے رہے ہیں۔
مولوی صاحب کی شعلہ بیانی جاری تھی۔وہ مسلمانوں کی بربادی کاذمہ دار غیر مسلموں کو ٹھہرا تے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ لوگ متحد ہوکر مسلمانوں کو عراق وافغانستان ‘مصروشام ‘کشمیر وبرما میں بھیڑبکریوں کی طرح ذبح کررہے ہیں۔شعلہ بیانی سے پھر اندر ونی اضطراب کی آگ سلگ اٹھی اور اس کے سامنے سرزمین توحید کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا کہ کس طرح کعبہ شریف کے کلید بردار آج آزر کے روپ میںنئے نئے لات ومنات کے قدموں میں سرجھکاکراقتدار کی بھیک مانگتے ہیںاوراگر کوئی مردحر الملک للہ والحکم للہ کی تکبیر بلند کرتا ہے تو یہی کلید بردار نمردری آگ بن کرخوداسے بھسم کر دیتے ہیں۔صرف دھوکہ ہی دھوکہ۔
وہ ابھی ان ہی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ نماز کے لئے صف بندی ہوگئی۔نماز ادا کرنے کے بعد وہ دوست احباب کے ساتھ علیک سلیک کرنے لگا اور پھر گھر کی جانب چل پڑا۔لیکن راہ چلتے چلتے وہ یہی سوچتا رہا کہ ہم لوگوں نے پیام عید کا مطلب صرف عید مبارک تک ہی محدود رکھا ہے۔فلسفۂ عید کے سمجھنے سے عاری اس قوم کا دماغ شاید سوچکا ہے۔اسے محسوس ہوا کہ عمر بھر وہ قوموں کے عروج وزوال کی داستانیں پڑھتا اور پڑھاتا رہا۔ تواریخ عالم کے مطالعہ سے وہ یہ راز جان چکا تھاکہ:
’’ جب کسی قوم کا دماغ سو جاتا ہے تواس کی زندگی کی رات شروع ہوجاتی ہے‘چاہئے وہ کتنی
ہی رسومات و عبادات کا اہتمام ہی کیوں نہ کرتی ہو‘لیکن اس کے مسقبل کی لگام بیدار ذہن
قوموں کے ہاتھوں میں آہی جاتی ہے اور وہ جس طرح سے چاہئے ان کے وجود کو تماشا بنا سکتی ہے۔‘‘
گھر پہنچ کروہ نجی کتب خانے میں جا بیٹھااورلیپ ٹاپ پرآن لائن نیوز پڑھنے لگا۔کئی اخبارات میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کا جائزہ پیش ہوا تھا۔ کئی مضامین کا مطالعہ کرتے کرتے اسے رات کا خواب یاد آیا۔وہ کسی وادی کے ایک سرسبز وشاداب چمنستان میں موجود ہے ۔چمنستان میں ایک بڑا تالاب بھی ہے جس میں بہت سارے ہنس پُرسکون ماحول میںقطار در قطارتیر رہے ہیں۔اسے یہ نظارہ خوش کن لگا ۔وہ ابھی اس خوش کن نظارے سے لطف اندوز ہی ہورہا تھا کہ اچانکہ کرگسوں کی پروازشروع ہوگئی ۔ چند کرگس تالاب کے کنارے پراتر آئے اور ہنسوں کو اپنی طرف بلانے لگے۔کئی ہنس توکرگسوں کے بلانے پرحاضر ہوئے لیکن کئی الگ الگ سمتوں کی جانب چلے گئے۔کرگس انہیں جو کچھ سمجھا رہے تھے وہ گردن جھکا کر وفاداری کا اعتراف کررہے تھے ۔تھوڑی دیر بعدوہ جب دوبارہ تالاب کے درمیان پہنچے تو آہستہ آہستہ ہنسوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے تالاب کا نیلا پانی سرخ مائل ہوتا چلا گیااور گرسوں کی فتح آفریں پرواز شروع ہوگئی ۔وہ یہ تباہی دیکھ کر ہنسوں کی بیوقوفی پر افسوس کرنے لگا۔
وہ ابھی خواب کے منظر میںہی کھویا ہواتھاکہ کھڑکی سے باہر کوؤں کی کائیں کائیں کا زوردار شور سنائی دیا۔شورسن کر اس نے کھڑکی کھولی اور باہر کا جائزہ لینے لگا۔وہاں اخروٹ کے پیڑپر کوؤں کا ایک غول نظر آیا۔کوؤں نے شور سے آسمان سر پر اٹھائے رکھا تھا۔شور سن کر دوسرے کوے بھی غول میں شامل ہورہے تھے۔وہ یہ نظارہ دیکھ کر سوچنے لگا کہ آج تک تو یہاں پر کبھی بھی کوؤں کا اتنا بڑا غول کائیں کائیں کرتے نظر نہیں آیا‘آخر مسئلہ کیا ہے ؟وہ بغور کوؤں کے غول کا مشاہدہ کرنے لگا۔چند کوئے کائیں کائیں کرتے کرتے زمین کی طرف اترآئے اورچند دوسرے بھی ان کے پیچھے دائرے کی صورت میں شور مچاتے ہوئے پرواز کرنے لگے۔یہ ہنگامہ خیز ماحول دیکھتے ہی اس کی نظر ایک کتے پر پڑی ۔کتے نے ایک کوئے کو پنجوں تلے دبائے رکھا تھا۔کوا زخمی حالت میں پھڑپھڑا رہا تھا۔اب اس کی سمجھ میں سب ماجرہ آگیا۔کتا کوؤں کا شور سن کر تھوڑا ساپریشان ہوا اور جب چند کوؤں نے اس پر زوردار حملہ کرکے اپنی چونچ سے وار کرنا بھی شروع کردیئے تو طاقت ور کتا کمزور پرندوں کے احتجاج اور حملے کی تاب نہ لاکر اپنے شکار کو چھوڑ کربھاگنے پر مجبور ہوگیا۔یہ حیران کن صورتحال دیکھ اسے کوؤں کے اتحاد اور احتجاج کا کامیاب تجربہ سمجھ میں آیا۔
زندگی میں پہلی بار اتحاد واحتجاج کا یہ مثالی مشاہدہ دیکھ کر وہ حیرت زدہ ہوکر سوچنے لگا کہ طاقت ور کتے کے مقابلے میں کمزور کوے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرکے اپنے ہم جنس کو بچانے میں کامیاب رہے‘ویسے بھی کوئے تو بڑے محسن ہیں کیونکہ انہوں نے ہابیل اور قابیل کے زمانے سے ہی انسانوں کی رہنمائی کی ہے ۔اس نے پھر کوؤں کے غول کی طرف دیکھاجو زخمی کوئے کے اردگرد چکر لگاتے لگاتے جیسے طنز کررہے تھے کہ:
’’عیدمبار ک کے تہوار پرمسلمان کم از کم ہم کوؤں سے ہی اتحاد کاسبق سیکھ لیتے۔‘‘
***