عصمت رحمان
ریسرچ اسکالر سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر
ادب کی تفہیم اور تنقید کی تثلیث
آدمی کو آدمیت کے دائروں کو عبور کر کے حیوان ناطق ہونے کے اوصاف کو بروئے کار لاکر اپنی اختراعی شان کی قوت سے اشرف المخلوقات کی معراج پانا قلم اور تحریر کی بدولت ممکن ہو پایا ہے۔زبان کو نکھار سنوار کر لکھنا اور بولنا ادب کہلاتا ہے۔تخلیقیت ادب کا لازمی جزو ہے چوں کہ ادب کا مقصد موثر انداز میں اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانا ہے اسی لیے ہر تخلیقیت کو ادب کا نام نہیں دیا جا سکتا۔نئی نئی چیزیں خلق کرنا،ہر ایک چیز میں عہد حاضر کی فطرت کے مطابق جدت پیدا کرنا مثلاً فون ،ہوائی جہاز وغیرہ تخلیق کے زمرے میں آتے ہیں مگر ان میں شاید کسی بھی عمل کو ادب نہیں کہا جا سکتا۔
انسان ازل سے مختلف خواہشوں کا مظہر واقع ہوا ہے۔جہاں انسان سات سمندر و ں اورسات آسمانوں کو سر کرنا چاہتا ہے وہیں اپنی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں راحت کی کچھ گڑیاں بھی گزارنا چاہتا ہے۔تخلیق کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے، اسی جبلی خواہش سے آرٹ پیدا ہوتا ہے۔ادب آرٹ کی ایک شاخ ہے جسے فنون لطیفہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے علوم کے بہ مقابل آرٹ میں کوئی نفع مقصد نہیں ہوتا۔قدیم زمانے میں جب لوگ تھک ہار کر اپنے گھروں کو لوٹتے تھے تو دن بھر کی تھکن کو دور کرنے کے لیے داستانیں سنا کرتے تھے۔چوں کہ ادب زندگی کا آئینہ ہے اس لیے زندگی کی گوں نہ گوں تصویریں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ادب میں جلوہ گر نظر آتی ہیں۔بقول نارمن جودک:
’’ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔‘‘ ۱
انسان ازل سے خوب سے خوب تر کی جستجو میں رہا ہے قدیم انسان کی دنیا چوںکہ سادہ اور محدود تھی اسی لیے پریوں،جنوں اور دیوؤں کے وجود پر مکمل یقین رکھتا تھا۔لیکن جوں جوں دنیا میں نئی نئی ایجادات سامنے آئیںتو انسان نے بھی ہر ایک شے کے وجود میں ایک منطقی ربط ڈھونڈنے کی کوشش کی جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ادب زندگی کا آئینہ ہے اس لیے ادب میں بھی پے در پے تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس طرح تنقید کا وجود عمل میں آیا۔اب ادب مسرت کے ساتھ ساتھ بصیرت حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔بقول آل احمد سرور :
’’تنقید قدریں متعین کرتی ہے،ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے،تنقید انصاف کرتی ہے،ادنا اور اعلا ،جھوٹ اور سچ ،پست و بلندکے معیار قائم کرتی ہے،تنقید ہر دور کی ابدیت اور ابدیت کی عصریت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‘‘ ۲
تنقید کے لغوی معنی کھرے اور کھوٹے کی پرکھ کے ہیں۔تنقید کا کام فن پاروں کی قدر و قیمت کا تعین ہے۔جب فنکار کے ذہن میں کوئی فن پارہ نمو پذیر ہوتا ہے اسی وقت تنقید بھی جنم لیتی ہے ۔شاید اسی لیے ملاوجہی نے ۱۶۰۹ء میں ہی قطب مشتری میں’’در شرح شعر گوید ‘‘ کے نام سے ایک عنوان شامل کیا تھا۔جوں جوں فن پارہ تکمیل کے مراحل طے کرنے لگتا ہے تنقید کا عمل بھی تیز تر ہو جاتاہے۔سوال یہ ہے کہ کیا تنقید صرف عیب جوئی یا محض تحسین ہے ؟یہ دونوں باتیں غلط ہیں کیوں کہ تنقید کا اصل مقصد فن پارے کی جانچ اور پرکھ کے بعد اس کی قدر و قیمت کا تعین کرنا ہے۔اردو تنقید کے ایک بڑے حصے کو کلیم الدین احمد نے محبوب کی موہوم کمر سے تشبیہ دے کر مشتبہ قرار دینے کی کوشش کی تھی،لیکن کلیم الدین احمد کے نہایت سخت گیر احتساب اور اردو تنقید کی تاریخ پر پوری صدی گزر جانے کے باوجود اس نوع کی تنقیدی تحریریں خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
تنقید اصلاً آئینہ ہے مگر چند آئینہ سازوں نے اس آئینہ کو کہیں مہدف آئینہ اور کہیں بیضاوی آئینہ بنا دیا ۔یعنی وہ تنقید جسے ملاوٹ کو نکال کے خالص حقیقت کو پیش کرنا تھا ،اس نے اصول پسندی بلکہ منشور پسندی،مخالفت و مخاصمت اور طرف داری و حمایت کا زاویہ پیدا کرنے کے لیے مطلوبہ قسم کے شیشوں کی عینک کو اپنی آنکھوں کا لبادہ بنا لیا۔شاید اسی لیے نور الحسن نقوی نے لکھا ہے کہ:
’’ ادبی تنقید کے لیے بے تعصبی اور غیر جانبداری بہت ضروری ہے۔نقاد منصف مزاج نہ ہو تو وہ تنقید کا حق ادا نہیں کر سکتا۔‘‘ ۳
موجود ہ دور میں ادبی تنقید کی منطقی زبان اور معروضی طرز بیان سے کوئی مفاہمت نہ کرنا ادبی نقاد کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔کسی ایک زاویے سے ادب کا مطالعہ کرنے والے نقادوں کو یکجا کر دیا جائے تو یہ ایک دبستان کہلائے گا۔اس بات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ شروع سے لے کر اب تک تنقید کے مختلف دبستان وجود میں آئے جن میں سے چند اہم دبستانوں کا مختصر تعارف میں یہاں پیش کر رہی ہوں۔
وہ ادب جو اردو زبان میں مارکسی خیالات و نظریات کو فروغ دیتا ہے ترقی پسند ادب کہلاتا ہے بالکل اسی طرح وہ تنقید جو ادب کو مارکسی نظریات کی کسوٹی پر پرکھتی ہے ترقی پسند تنقید کہلاتی ہے۔یہ تنقید ادب کو ایک مقررہ سمت کی طرف لے جانا چاہتی تھی جہاں نہ کوئی بندہ رہتا نہ بندہ نواز،اس تنقید کے سامنے خاص مقاصد تھے جیسے ادب ایک آلہ کار،ادب ۔عوام کے لیے ،ادب جانبدار،ادب اجتماعی زندگی کا ترجمان اور پیغام زیادہ اہم ہے وغیرہ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تنقید نے یا اس تحریک نے ادب کی گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں،مگر جب ادب جانبدار اور پیغمبر بن جاتا ہے تو اسے پروپگنڈا بننے میں دیر نہیں لگتی اور جب وہ ادب جو انسان کی مسرت کا قیمتی ذریعہ ہے فن نہ رہے آرٹ نہ رہے تو اس کے مٹنے میں وقت نہیں لگتا۔مگر اس تنقید کے زیر سایہ بھی بہت سے نقادوں نے تنقید میں ایک اعتدال اور توازن قائم رکھا جن میں محمد حسن اور احتشام حسین وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔اس تنقید کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ذاتی پسند و نا پسند اور محض ہوائی باتوں کو دائرے سے خارج کیا،تنقید کے ٹھوس اصول قائم کیے اور ادب کو زندگی سے آنکھ ملانے اور زندگی کے مسائل کو حل کرنے کا حوصلہ عطا کیا۔بقول خلیل الرحمٰن اعظمی
’’ ترقی پسند ادبی تحریک کا مطالعہ اس وقت تک نامکمل رہے گا جب تک ہندوستانی سماج کی ان تاریخی تبدیلیوں کا مطالعہ نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں یہ نئی ادبی تحریک بروئے کار آئی۔‘‘ ۴
الغرض یہاں اس بات کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ اس تنقید کی خوبیاں اس کی خامیوں پر غالب ہیں۔
ترقی پسند تحریک کے زوال کے ساتھ ہی جدیدیت پورے آب وتاب کے ساتھ وجود میں آئی۔جدیدیت کے آتے ہی انسان اپنی ذات میں سمٹ کر رہ گیا۔ جدیدیت کی بھر پور عکاسی ندا فاضلی اس طرح کرتے ہیں :
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
جدیدیت کی جڑیں وجودیت کے فلسفے سے ملتی ہیں۔وجودیت کا فلسفہ انسان کی داخلیت کے ارتقاء کو پیش کرتا ہے۔جن نقادوں نے اس تحریک کو فلسفیانہ اساس فراہم کی ان میں شمس الرحمن فاروقی کا نام کسی تعارف محتاج نہیں۔بقول شمس الرحمن فاروقی:
’’ وہ نقاد جو معاصر ادب کا مطالعہ کرنے سے جی نہیں چراتا ،ہر طرح اس میں مصروف و منہمک ہوتا ہے ہماری تعریف اور احترام کا مستحق ہے۔‘‘ ۵
جدیدیت کے دوسرے اہم نقاد گوپی چند نارنگ اردو زبان کے ایک قد آور نقاد ہے۔ باشعور قاری جو شعر و ادب کو سمجھنے کی خواہش رکھتا ہو وہ نارنگ صاحب کی تحریروں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔یہاں میں یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ ترقی پسندی کی طرح جدیدیت بھی نظریاتی طور پر نوعی اور وحدانی تھی۔اس کی تعریف اور تعین آسان تھا۔اس کے برعکس مابعد جدیدیت نہ تو وحدانی تھی اور نہ یک نوعی۔بقول گوپی چند نارنگ :
’’ترقی پسندی یا جدیدیت کا بنیادی محرک وحدانی نظریہ ادب تھا۔جدیدیت کے بعد جو فلسفہ ادب سامنے آیا ہے اور ادبی تھیوری میں جو ترقی ہوئی ہے اس کی کوئی نظیر سابقہ زمانوں میں نہیں ملتی۔یعنی موجودہ زمانہ کسی ایک نظریہ ادب کانہیں نظریہ ہائے ادب کا ہے۔‘‘ ۶
آخر پر ادب کی تفہیم اور تنقید کی تثلیث کے حوالے سے اور اپنی برسوں کی دیدہ ریزی کے حاصل کے طور پر مجموعی صورت میں مجھے یہ کہہ لینے دیجئے کہ زبان،انسان،سماج،معاشرے،قوم اور عالمی بہبود بغیر مثبت تنقیدی کسوٹیوں کے ممکن نہیں لہٰذا ہمیں ادبِ عالیہ اور اس کی تنقیدی تعریف کا مطالعہ ہر طرح کی عصبیت سے پاک ہو کر کرنا چاہیے۔
حواشی
۱۔https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%AF%D8%A8
۲۔آل احمد سرور ،تنقید کیا ہے ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی ، ۲۰۱۱ء،ص،۱۵۲
۳۔پروفیسر نوالحسن نقوی ،فن تنقید اور اردو تنقید نگاری ،ایجوکیشنل ہاؤس ،علی گڑھ ،۲۰۱۹ء،ص،۱۴
۴۔خلیل الرحمٰن اعظمی ،اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک ،ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ ،۲۰۰۲ء،۱۹
۵۔پروفیسر نوالحسن نقوی ،فن تنقید اور اردو تنقید نگاری ،ایجوکیشنل ہاؤس ،علی گڑھ ،۲۰۱۹ء،ص،۱۷۸
۶۔گوپی چند نارنگ ،ترقی پسندی جدیدیت مابعد جدیدیت ،ایڈ شاٹ پبلی کیشنز ،ممبئی ،۲۰۰۴ء،ص،۵۸۶
***