You are currently viewing اردوادب کا متحرک محقق:ڈاکٹرسیّد تقی عابدی

اردوادب کا متحرک محقق:ڈاکٹرسیّد تقی عابدی

ڈاکٹرذکیہ رانی

استاد ومشیرِ امورِ طلباء،شعبۂ اردو،جامعہ کراچی

اردوادب کا متحرک محقق:ڈاکٹرسیّد تقی عابدی

علامہ شبلی نعمانی نے حسرت موہانی کے متعلق کہا تھاکہ ’’صحافی بھی ہو،شاعر بھی ،بنیے بھی ہو سماجی کارکن بھی  اوراب سیاست دان بھی ہوگئے ۔۔۔تم آدمی ہو یا جن!‘‘

آج جس شخصیت کے بارے میں یہ مضمون لکھ رہی ہوں وہ صحافی نہیں ،سیاست دان نہیں اورنہ ہی بنیے ! لیکن شاعر ہیں،ادیب ہیں،محقق ہیں ، پیتھولاجسٹ ہیں اورفزیشن بھی اس حوالے سے اگر علامہ شبلی کے قول میں ترمیم کی جائے تو آج ہمارے درمیان ایک ایسی ہی شخصیت ہیں کہ ان کے کارہائے نمایاں انھیں ’جن ‘ کہنے پر مجبورکررہے ہیں!

طب کی دنیا کا ماہر فزیزشن سینے میں حساس دل لیے ہوئے عقل وخرد کی گھتیاں سلجھاتے ،ادبی تحقیق کا شہ سوار کہ جس نے اردوادب میں اپنی کثیرتصانیف کی بدولت اپنی نمایاں شناخت بنائی ہے۔ان کاشوق انھیں پردےسے باہر لایا ہے!اوروہ بڑے شوق سے اردوادب کے خزینوں میں دلائل وبراہین کے ساتھ اپنی تحقیقی سرگرمیوں کی بدولت اضافہ کرتے جارہے ہیں۔

ان کاخانوادہ امروہہ کی سادات بستی نوگانواں سے تعلق رکھتاہے جب کہ سلسلہ نسب حضرت محبوبِ الٰہی نظام الدین اولیا  ؒ سے جاملتا ہے۔اسی نسبت سے خواجہ حسن ثانی نظامی انھیں اپنا رشتہ دارکہا کرتےتھے۔ان کے اجداد نے علم وفضل سے ہمیشہ رشتہ استواررکھا،ان کے جد نے تقریباًڈھائی سوبرس قبل ’حق الیقین ‘ کے نام سے کتاب تحریر کی جو آج بھی ان کے ذخیرۂ مخطوطات میں محفوظ ہے۔(۱)

ان کے والد سیّد سبطِ نبی دہلی میں جج کے عہدے پر فائزتھے۔یکم مارچ ۱۹۵۲ء میں سیّد تقی عابدی دہلی میں پیدا ہوئے،بعدازاں والدکا تبادلہ حیدرآبادہوگیا اورتعلیمی سلسلہ حیدرآباد میں ایم۔بی ۔بی ایس پر منتج ہوا۔بعدازاں برطانیہ  کی گلاسگو یونیورسٹی سے ایم۔ایس،سی ،امریکہ سے ایف۔سی۔اے پی کیا یعنی فیلو آف کالج آف امریکن پیتھالوجسٹ بھی ہیں۔کینیڈاسے ایف۔ آر۔ سی پی کی سندپائی اورفیلو آف رائل کالجز آف فزیشینس ہوئے۔امریکہ کےبورڈ آف پیتھالوجی کے ڈپلومیٹ بھی ہیں۔

آج کل اونٹاریو کینیڈا کے ایس کاربرواسپتال سے بحیثیت فزیشن وابستہ ہیں۔وہیں قیام رکھتے ہیں البتہ کچھ عرصہ ایران میں بھی بحیثیت ڈاکٹر خدمات انجام دیں اورفارسی زبان سے آشنا ہوئے ۔اس آشنائی نے فارسی زبان وادب کے مطالعہ کی جانب متوجہ کیا اسی عرصہ میں ایرانی خانم ان کے خانۂ دل میں مقیم ہوئیںاوران کی ہمسفر بنیں،آج بھی ان کی علمی وادبی اورطبی ذمہ داریوں میں معاونت کرتی ہیں۔

سیّدتقی عابدی نے علمی وادبی روایت کی آغوش میں پرورش پائی ہے۔والد جج تو تھے ہی شاعری کاذوق بھی عمدہ رکھتے تھے۔والد کا ذوق ان میں بھی منتقل ہوا۔انھیں اسکول کے زمانے ہی سےمطالعہ اور شعروسخن کاشوق ہوا،شعرگوئی کی جانب راغب ہوئے،مشاعرے،بیت بازی کے مقابلے اس دورکی اہم سرگرمیاں رہیں۔بعدازاں حیدرآباد کےمعروف اردوروزنامہ  سیاست  میںان کے مضامین شائع ہونے لگے۔مضمون نویسی نے تحقیق کی راہ دکھائی اورانھوں نے اس میدان میں بھی اپنے منفرد اندازکو منوایا۔

تقی عابدی تقریباً 70 کتابوں کی ترتیب وتدوین، تصنیف وتالیف اورتراجم کرچکے ہیں۔ علم ِ کلام،علمِ بیان وبدیع،علمِ عروض سمیت اردوادب کے ناپرسیدہ یا وہ ادباء جوکسی وجہ سے ناقدری وناشناسی کے سبب گوشۂ گمنامی میں چلے گئے انھیں تلاش کرکے ان کے ادبی وفنی محاسن اوران کی ادبی قدرومنزلت کو متعارف کروانا ان کی تحقیقی سرگرمی  یا مشغلہ ہےیعنی موصوف تحقیق کی دنیا کے ایسے حکیم ہیں جو گمنام ادیبوں کے معالج کہے جاسکتے ہیںکہ اپنی تحقیقی جراحی سے ان کاعلاج کرتے ہیں۔

ان کی متعدد کتابیںشہید(ایرنی فلسفی ،مقررشہید مرتضی مطہری کی تقریر )،جوشِ مودّت ،گلشنِ رویا،اقبال کے عرفانی زاویے، انشاءاللہ انشاء ،رموزِ شاعری،عروسِ سخن،تجزیہ یادگارِ انیس،اظہارِ حق،مجتہدِ نظم مرزادبیر،طالعِ مہر،سلکِ سلامِ دبیر،مثنویاتِ دبیر، ابواب المصائب،مصحفِ فارسی دبیر،ذکردُرباران،کائنات ِ نجم،روپ کنوارکماری،دُرِ دریائے نجف،فکرِ مطمئنہ،خوشۂ انجم،دُربارِ رسالتﷺ، تاثیرِ ماتم،نجمی مایا،روشِ انقلاب،ھوالنجم،مصحفِ تغزل،تعشق لکھنوی،ادبی معجزہ،غالب دیوانِ نعت ومنقبت،دیوانِ رباعیاتِ انیس،سبدِ سخن، چوں مرگ آید،دیوانِ غالب دہلوی (فارسی)کلیاتِ غالب فارسی(دوجلد،اردو)فیض فہمی،مطالعہ دبیر کی روایت ،اردوکی دوشاہکار نظمیں، انتخاب مراثی دبیر،رباعیاتِ رشید لکھنوی،فیض شناسی،مسدسِ حالی،حالی فہمی،بچوں کے حالی،حالی کی نظمیں،حالی کی نعتیہ شاعری،دیوانِ سلام وکلامِ انیس،کلیاتِ سعیدشہیدی،امجد فہمی،گلزارکی تخلیقی صنف تروینی(تشریخ وتجزیہ)باقیاتِ ونادرات فیض احمدفیض،بُرج شرف،منشی بال مکندبے صبرؔ،مطالعۂ رباعیاتِ فراق گورکھپوری،گلستانِ ہند،تعمیرِ بقا،نندلال نیرنگ سرحدی (شخصیت وفن)،سیّدتقی عابدی کے مقالات کابن،مولاعلیؓ کابغیرالف کاخطبہ، مسعود اختر جمال اور سعید احمد ناطق لکھنوی کی ’اردو کی مکمل اور جامع منظوم تاریخ ‘’اردو زباں ہماری ،نظم اردو،اورکلیاتِ فراق گورکھپوری اس امر پر دال ہیں۔

مذکورہ تصانیف کی تعداد ایک طرف اورسیّدتقی عابدی کامنفرداسلوب ادب کی ان مایہ نازہستیوں کی شاعری،فکراورادبی محاسن کے مطالعے کے نئے امکانات کوپیش کرتی ہیں۔ تقی عابدی کی جستجو اور تحقیق نےمذکورہ اہلِ فن کی ان خوبیوں کو واضح کیا جو اَب تک کسی وجہ سے اہل ذوق و بصیرت کی نظروں سے اوجھل رہے۔ان کی نظر ادیبوں اور شعرا کی ان قلمی خدمات، خوبیوں اور کمالات کاسراغ لگاتی ہے جو کم ہی کسی کونظرآتے ہیں۔بطورنمونہ مشتے خروارے دوکتابو ں کا حوالہ دینا چاہوں گی۔

مرزا دیبر پرسیّد تقی عابدی نے سات کتابیں تصنیف و تدوین کی ہیں۔ تقی عابدی کا تحقیق کے بعد یہ دعویٰ ہے کہ مرزا دبیر ایسا واحد شاعر ہے جس نے سب سے زیادہ اشعار، سب سے زیادہ رباعیات نظم کی ہیں اور دبیر نے ہی سب سے زیادہ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ دبیر کا ذکرہوتو میرانیس کی فنی عظمت ذہن کے دروازے پر دستک دیتی محسوس ہوتی ہے،سیّدتقی عابدی نے اپنی کتاب ’تجزیہ یاد گار مرثیہ ‘ میں میر انیس کے صرف ایک مرثیہ ’جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے ‘ کا اس کے محاسن کی بنیاد پر تجزیہ کیا تو یہ حیرت انگیز نتیجہ برآمد کیا کہ انیس کے صرف ایک مرثیہ میں کلام کی خوبیوں اور صنعتوں کی مجموعی تعداد 2129 ہے۔ جب میرانیس  کے ایک مرثیہ کی خوبیوں کا یہ حساب ہے تو ان کے دو سو مراثی، سینکڑوں سلاموں، رباعیات، قطعات اور قصائد کی لسانی خوبیوں کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا۔ تقی عابدی کا یہ کارنامہ بلا شبہ بڑے منفرد انداز کا ہے۔ اسی طرح انشا اللہ خاں انشا کو معرکوں اورچشمکوں کی آڑ میں نظراندازکیا گیا تواس ملال کامداوا انھوں نے انشاء اللہ انشا کی حیات وخدمات پر مبسوط تصنیف میں کیا ۔

سیّدعابدی کی شخصیت فن اور ادبی خدمات پر ہندوستان اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم آٹھ اردو اسکالرز تحقیقی مقالے تحریر کرچکے ہیں۔پاکستان وہندوستان کے معروف جرائ چہار سو،شاعر،حکیم الامت سیّدتقی عابدی فن شخصیت پر خاص شمارے شائع کرچکے ہیں۔ جب کہ ۲۰۰۷ ءمیں تقی عابدی کے ادبی قلمی کارناموں کو منظوم انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پروفیسرعبدالمنان طرزی نے’فنکارحق شعار‘ کے عنوان سے کتاب تصنیف کی۔اس میں تقی عابدی کی سولہ کتابوں پر منظوم تبصرہ کیا گیا ہے۔(۲)

اکتوبر۲۰۲۳ء میں ان کی جستجو نے’باقیاتِ اقبال‘ کی صورت دنیائے ادب کو اقبال شناسی کے حوالے سے مستندماخذات سے مزّین کتاب کا تحفہ دیا ہے۔’باقیاتِ اقبال‘ ڈاکٹرتقی عابدی کی تحقیقی تدوین ہےجسےبک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے ۔جس میں حکیم الامت،شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی فنی وشعری جہات کے گم شدہ موتیوں کوپرویاگیا ہے، یہ مالا (کتاب) تسوید کرنے میں سات برس صرف ہوئے،جو یقیناً اقبال شناسی میں ایک اہم اضافہ ہے۔

علامہ اقبال کی ادبی وفکری ستائش ان کی زندگی ہی میںمارچ ۱۹۳۲ء میں لاہورمیں یومِ اقبال کی صورت کی گئی بعدازاں ماہنامہ نیرنگ کا اقبال نمبر بھی اقبال کی شخصیت وشاعری کے مطالعے کی ابتدائی روایت کا سرخیل بنا۔۱۹۳۲ء تا ۲۰۲۳ء ،۹۱ برس کا منظرنامہ علامہ اقبال کی شخصیت اورشاعری پر لاتعدادتحقیقی وتنقیدی مقالات،کتب ورسائل نمبر ہمیں ملتے ہیں۔علامہ اقبال خود کہہ گئے  ہیں :

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے!

اس ضمن میں ۷۱۸صفحات پر مشتمل’’باقیاتِ اقبال‘‘کی فہرست پر نگاہ ڈالی جائے تو ’چندلفظ‘۔’باقیاتِ اقبال کی اہمیت اور افادیت‘ ۔ ’باقیاتِ اقبال کے ماخذات‘۔’جدول‘ کے بعد جلّی حروف میں ’باقیاتِ اقبال‘ کی سرخی ہے جس میں ذیلی عنوانات کچھ یوں ہیں۔مکمل متروک غزلیں۔غزلوں کے جزوی متروک اشعار،مکمل متروک نظمیں،نظموں کے جزوی متروک اشعار،مکمل متروک قطعات ورباعیات،متروک فردیات/بدیہہ گوئی،متروک قطعات تاریخی،متروک فارسی کلام،تحقیق طلب کام،الحاقی کلام،کتابیات۔کے عنوان سے شامل ابواب اس بارِ گراں مایہ کی وقعت واہمیت پر دال ہیں۔مذکورہ طویل فہرست ِ کتب میں ممکن ہے کسی کتاب کااندراج نہ ہوسکا ہو البتہ ان کتابوں کی تحقیقی اہمیت کے ساتھ ان کی اشاعت کااہتمام بھی نہایت خوبیوں سے مزین ہوتا ہے جو سیّد تقی عابدی کے ذوقِ جمال کی ترجمانی کرتاہے۔

’باقیاتِ اقبال‘علامہ اقبال کا چالیس سے بیالیس فیصد کلام جو مروجہ کلیات میں شامل نہیں ،ان میں بعض متروک کلام بھی شامل ہے۔ جب کہ اقبال کے فارسی کلام کا اردوروزمرہ میں ترجمہ بھی اس کتاب کی اہمیت کودوچند کرتاہے۔یقیناً ’باقیاتِ اقبال‘‘ علامہ اقبال کے فکری وفنی مطالعہ کی ایک نئی جہت متعارف کرواتی ہے۔

راقمہ کوجب اس کتاب ’باقیات ِ اقبال‘ کی اشاعت کامژدہ ملا توذہن میں پہلا سوال یہی تھا کہ آخراس کی ضرورت کیاہے؟ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی شاعری،فکراورفلسفہ پر بے شمارمقالات،مضامین وکتب شائع ہوچکیں ہیں اوراس کثرت میں شاعرکی شخصیت اورفن کی اکائی جہاں بازیافت ہوئی وہیں اسے زک بھی پہنچی ہے۔’اقبال شناسی‘ باقاعدہ شخصی مطالعہ کاشعبہ قرارپایا اورجامعات میں اقبالیات پر سندی اسناد بھی جاری کی گئیں ہیں۔پھراس کی کیا ضرورت ہے؟تواس کا جوا ب ان معروضات سے ملا جو کتاب سے پہلے شامل ہیں۔

’’چندلفظ‘‘ کےعنوان سے تحریرکردہ دیباچہ میں فاضل محقق لکھتے ہیں:

’’فن کار کی شخصیت اوراس کے فن کوسمجھنے کے لیے فن اورشخصیت دونوں کوایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے ۔علامہ اقبال کی شخصیت پربہت کچھ لکھا جاچکاہے کہ اس کومزید مستحکم کرنے کے لیے ان کے کلام سے ہی مدد لیناضروری ہےچناں چہ ضرورت اس امرکی ہے کہ اُن کاسارامستندکلام خواہ وہ متداول شکل میں ہویا متروکہ،باقیات کی شکل میں اقبال شناسوں کے سامنے پیش ہو،تاکہ اقبال کے فن کا پوری طرح سے جائزہ لے کراقبال کی فن کاری کامقام متعین کیا جاسکے۔گزشتہ ستّر(۷۰)سالوں میں تقریباً نودس باقیات کے مجموعے اسی لیے زیورِ طباعت سے مُجہز ہوکرمقبول بھی ہوئے۔یہ ہمارافرض ہے کہ حکیم الامّت کےہرمصرعے کی حفاظت کی جائے ۔اقبال کاتقریباً چالیس بیالیس فی صد اُردوکلام ان کے متداول کلام میں شامل نہ ہوسکا،اگرچہ اس متروکہ کلام میں وہ اشعاربھی ہیں جوزبان زدِ عام ہوگئے تھے۔ہم نے یہاں باقیاتِ اقبال کی اہمیت اورافادیت کومستند حوالوں سے اقبال شناسی کے لیے ضروری ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘(۳)

بلاشبہ علامہ اقبال بیسویں صدی کے نابغہ تھے۔ان کی شاعری ان کے عہدکے لامتناہی تغیرات کا عکس لیے ہوئے ہے جب کہ ان کی فکراورفلسفیانہ افکارفردااوردیروزکی چشم کشاحقیقتوں کا منبع ہیں۔ان حوالوں سے بہت کچھ لکھا گیا اوربہت کچھ لکھاجائے گا۔ڈاکٹر تقی عابدی نے’باقیات کی اہمیت اورافادیت‘ میں حیاتِ اقبال سے متعلق سوالات کے جوابات بھی دیے ہیں۔مثلاً اقبال کی باقاعدہ شاعری کاآغاز ۱۸۹۱ءاور۱۸۹۳ءکے درمیان میں ہوا،اس کتاب میں جملہ ماخذات سے استناد کرکے نتائج اخذکیے گئے ہیں۔نیز اقبال نے کس استاد سےباقاعدہ تلمذکیا۔اورکن اساتذہ نے ان کے کلام کی نوک پلک سنواری!ڈاکٹرتقی عابدی نے اس طرح کےکئی سوالات کو ازخود مرتب کرکے تشفی بخش جوابات بھی دیے ہیں۔(۴)وہ لکھتے ہیں:

’’اقبال شناسوں اوراقبالیات کے عامی اورعالم کے ذہن میں درجنوں سوالات پیداہوسکتے ہیں اسی لیے ہم نے یہ مناسب ،مستنداورمفیدراستہ ڈھونڈاکہ تمام تراہم نکات اورحوالوں کوسوالات کے جوابات میں پیش کریں۔

’’باقیاتِ اقبال‘‘ کب شروع ہوئی ،یہ باقیاتِ اقبال کامل کن کن خصوصیات کی حامل ہے۔

ا۔باقیات کی جمع آوری لوگوں نے کب سے کی ہمیں نہیں معلوم کیوں کہ اقبالؔ کی شاعری کے پرستار ان کے ابتدائی کلام کواپنی بیاضوںمیں جمع کرنے میں منہمک تھے۔

ب۔’’باقیاتِ اقبال‘‘کے اب تک کم ازکم آٹھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔سب سے پہلا’’باقیاتِ اقبال‘‘کا مجموعہ مرتبہ انورحارث’’رختِ سفر‘‘ ۱۹۵۲ء میں شائع ہوا۔(ہم نے اسی کتاب میں ماخذات کے تحت باقیات کے مطبوعہ مجموعوں کی تفصیل دی ہے۔)

ج۔ہمارے’’باقیاتِ اقبال کامل‘‘ کے علاوہ موجودکوئی مجموعہ بھی کامل نہیں ہے۔ہم نے باقیاتِ اقبال میں اقبال کا فارسی کلام بھی شائع کیا ہے۔باقیات کامل پہلا مجموعہ ہے جس میں اقبال کے شامل فارسی کلام کاسلیس اردوترجمہ بھی کیا گیا۔ہرایک غزل،رباعی،قطعہ،مثنوی اورفردیات کامستندحوالہ دیاگیا ہے۔

د۔اقبالیات کے طالب علموں ،سکالرزاورمحققین کی سہولت کوپیشِ نظررکھتے ہوئے غیرضروری حوالوں کوجوناقص طورپر دوسرے مجموعوں میں شامل تھے نظراندازکرکے مستندحوالوں کے جدول شامل کیے گئے ہیں۔

ہ۔یہ باقیات اُردوکلام کاکامل نسخہ ہے۔ہم نے فارسی کلام جتنا بھی ہمیں مل سکااس کو ترجمے کے ساتھ شامل کیا۔اگرہمیں اقبالؔ میوزم یااقبالؔ اکیڈمی کی بیاضوں کی فوٹوکاپیاں دستیاب ہوجاتیں تو وہ موجود فارسی کلام بھی کامل طورپر اس مجموعے کاحصّہ ہوجاتا،ہم نے کوشش کی مگرافسوس کہ ہمیں بیاضوں کی کاپیاں نہ مل سکیں۔‘‘(۵)

اقبال کے متروک کلام کی’’باقیاتِ اقبال‘‘ میں اشاعت کیوں ضروری ہے جب کہ اقبال نے اپنے متداول کلام میں اسے شامل نہیںکیا۔اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مدّون نے شعر کوشاعرکی ملکیت تسلیم کیا ہے جب کہ تخلیق کے مشتہر ہونے کے بعدصاحبِ ذوق کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اس سے مستفید ہو،مرزاغالب کے متداول کلام اورمتروکات کی اشاعتوں کوبھی بطورروایت بیان کیاگیا ہے جب کہ غالب نے تاکید کہ اُن کاکلام کہیں سے مل جائے تواسے شامل نہ کیا جائے۔ڈاکٹرتقی عابدی لکھتے ہیں:

’’ اقبال کی ایسی کوئی تحریر نہیں ملتی لیکن ان کے متداول کلام کو جب ان کے باقیات سے مقایسہ کرتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ اقبال نے بیالیس(۴۲) فی صدکلام اُردومیں شامل نہیں کیا۔،۔۔ ۔۔۔۔۔پس معلوم ہوا اقبال نے تحریری طورپرکوئی ممانعت نہیں کی البتہ اپنی زندگی میں متعدد باراس روش کوروکاکہ ان سے بغیرپوچھے ان کے اشعارشائع جائیں اورجیساکہ ہم نے پہلے بھی لکھّا ہے کہ قانونی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ہم اقبال کے اس کلام کومتداول کلام کاحصّہ نہیں بنارہے ہیں بلکہ اس کوباقیات کے مجموعے میں پیش کررہے ہیں۔

د  :باقیات کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبالؔ کی نظروں سے کچھ کلام چُھپا رہا ورنہ اس کو اقبال ضرور شامل کرتے۔یہ کلام معیاری اورکسی سقم کے بغیر شائع یا بیاضوں میں محفوظ ہوچکا تھا۔شاید یہ کلام نظرانداز ہونے کی وجہ سے شائع نہ ہوا۔‘‘(۶)

’’باقیاتِ اقبال‘‘ میں متروک کلام کی شمولیت سائنٹفک اندازسے کی گئی ہے۔اس ضمن میں باقیاتِ اقبال کے دیگرشائع شدہ نسخوں جن میں رختِ سفرمؤلف انورحارث،۱۹۵۲ء،باقیاتِ اقبال مؤلف سیّد عبدالواحد معینی،۱۹۵۳ء،تبرکاتِ اقبال مؤلف محمد بشیر الحق دیسنوی، ۱۹۵۹ء،سرودِ رفتہ مؤلفین غلام رسول مہر،صادق علی دلاوری،۱۹۵۹ء،نوادرِاقبال مؤلف عبدالغفار شکیل، ۱۹۶۲ء، ابتدائی کلامِ اقبال مؤلف گیان چندجین،۱۹۸۸ءاورباقیاتِ شعرِ اقبال مؤلف صابرکلوروی ۱۹۹۰ء سے باقاعدہ جدول ترتیب دے کر متروکات کی شمولیت ،اشتراک اوراختلاف کی نشاندہی کی ہے۔نیزباقیاتِ اقبال کے ماخذات کے ضمن میںمذکورہ باقیات سمیت اولین ماخذات،متفرق ماخذات اورجدید باقیاتی دریافتوں سے بھی استناد کیاگیا ہے۔(۷)اس ضمن میں ڈاکٹرتقی عابدی لکھتے ہیں:

’’ہم نے ’’باقیاتِ اقبال‘‘ میں متروک اشعارکی معیاری،عروضی،موضوعی،سماجی،مذہبی،ادبی اورعلمی وجوہات کی اپنی طرف سے دوسرے باقیات کے مرتبوں کی طرح اس لیے نشان دہی نہیں کی کہ ایک بڑے ذہن کوسمجھنے کے لیے پڑھنے والے کاذہن صاف رہنا چاہیے تاکہ کلامِ اقبال کافنّی ارتقا،موضوعی رحجان اورابتدائی ،تدریجی اورتکمیلی ادوارکانقشہ فکر پر نقش ہوسکے۔‘‘(۸)

’’باقیاتِ اقبال‘‘ کی اشاعتوں کاسلسلہ ۱۹۵۲ء سے شروع ہوا انورحارث تا صابرکلوروی آٹھ باقیاتِ اقبال منظرعام پرآئیں اور’’باقیاتِ اقبال‘‘ مدوّنہ ڈاکٹرتقی عابدی اس سلسلہ کی نویں کتاب ہے۔ان سلاسل کاسبب بھی ڈاکٹرتقی عابدی نے رقم کررکھا ہے ،وہ لکھتے ہیں:

’’اقبال اشعاراخبارات اوررسائل میں اشاعت کے لیے بھیج دیتے تھے اوراس کی نقل شاید اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔انہی اخبارات اوررسائل میں شائع شدہ کلام کوجمع کرکے ’’باقیاتِ اقبال‘‘کے تمام ترقدیم مجموعے شائع کیے گئے جن میں ’’رختِ سفر‘‘،’’باقیاتِ اقبال‘‘،’’تبرکاتِ اقبال‘‘،’’سرودِ رفتہ‘‘اور’’نوادرِ اقبال‘‘ قابل ذکرہیں۔اقبال کا وہ ابتدائی کلام جواخبارات اوررسائل میں شائع ہوا،وہ سارا ان کے متداول کلام میں شامل نہیں کیاگیا اوراقبالؔ نے بڑی حد تک اس کوخارج کردیا۔ان منظومات کے حوالے اب تقابل کے لیے مشکل سے ملتے ہیں کیوں کہ اغلب یہ اخبارات اوررسالے اب کمیاب اورنایاب ہوگئے ہیں۔‘‘(۹)

اس کتاب میں صفحہ نمبر ۷۱۲ پہ ’تحقیق طلب کام’ کے عنوان میں نظم ’پیغامِ عمل‘ منقول ہے جس کامطالعہ اقبال کے فکری میلانات کی ترجمانی کرتا ہے اوراس کی جانب سیّدتقی عابدی کا متوجہ کروانا محققین کو اس نظم کے زمانہ ٔ تصنیف کی تلاش کی دعوت دیتا ہے۔ متروک کلام کے ساتھ ساتھ وہ اشعارجو علامہ اقبال کی نسبت سے مشہورہیں ان کا مع حوالہ اندراج بھی اس کتا ب کی وقعت کوبڑھاتاہے۔

اردو شعرو ادب اور درس و تدرس کی دنیا میں لاکھوں ایسے افراد ہیں جو کسی نہ کسی نوعیت سے اردو کی کمائی پر گزارہ کرتے ہیں۔ لیکن تقی عابدی شاید واحد ایسے اردو ادیب اور شاعر ہیں جو ‘طب کی کمائی کو ‘اردو ادب پر لٹاتے ہیں۔(۱۰)

 ٹورنٹو،کینیڈا میں تقی عابدی کی لائبریری کیا ہے اردو ادب کا عجائب خانہ ہے جہاں ہزاروں قیمتی اور نادر و نایاب مخطوطے اور قلمی نسخے محفوظ ہیان قلمی نسخوں اور مخطوطوں کو تقی عابدی نے کثیر رقم خرچ کرکے حاصل کیا ہے۔ اگر تقی عابدی کو معلوم ہو جائے کہ دنیا کے کسی گوشے میں اردو ادب کا کوئی سرمایہ قلمی نسخے مخطوطے یا اور کسی شکل میں موجود ہے تو اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑ کر وہ ادبی سرمایہ حاصل کرنے کے لئے نکل پڑتے ہیںاور اسے طلب کردہ قیمت سے زیادہ ادا کرکے حاصل کرہی لیتے ہیں۔ تقی عابدی کے ادبی عجائب خانے میں ہزاروں مخطوطے جمع ہیں جن کی مالیت کروڑوں میں ہے۔(۱۱)

ڈاکٹرتقی عابدی حاذق ڈاکٹر ہیں لیکن ان کی رگوں میں ادب خون کی مانند گردش کرتا ہے اوروہ گردشِ لیل و نہار میں جہاں اپنے مریضوں کی دوا تجویز کرتے ہیں وہیں اردوادب کے زخموں پر مرہم تحقیق بھی لگاتے جاتے ہیں۔

سیّد تقی عابدی سائنسی فکر کے حامل ہیں اس لیے جو لکھتے ہیں وہ باون تولہ پاؤ رتی کے مصداق مستند ماخذات سے منقول ہوتاہے۔سیّدتقی عابدی دن کے چوبیس گھنٹے،ہفتے کے سات دن اورسال کے تین سوپینسٹھ دنوں میں تقسیم زندگی کے متنوع معمولات میں طبی ذمہ داریوںکے ساتھ ساتھ علم وادب کی تحقیقی دنیا سے بھی تعلق کو نبھانے کا ہنرجانتے ہیں، ہرنیادن ان کے عزم اورحوصلہ کو مزید مستحکم کرتا ہے اوروہ مستقبل کے محققین کے لیے امکانات کے درواکرکے دعوتِ تحقیق دیتے دکھائی دیتے ہیں۔قحط الرجال کی اس صدی میں کہ کتاب پر ڈیجیٹل کتاب کوسبقت،انسان کی فکروتخلیق پر مصنوعی ذہانت کا جن قابو پانے کی سعی میں مصروفِ عمل ہے ایسے میں درویش صفت،سیلانی محقق اور’جن‘ کے اوصاف لیے ڈاکٹرسیّڈ تقی عابدی کا دم غنیمت ہے۔بقول علامہ اقبال

ہمیں تو حق و باطل کو جدا کرکے دکھانا ہے

   حواشی:

(۱) جمال عباس فہمی ،ڈاکٹر تقی عابدی، اردو کا نابغہ روزگارعاشق تقی عابدی کی شخصیت، فن اور ادبی خدمات،شائع شدہ:

www.qaumiawaz.com/amp/story/national/doctor-taqi-abdi-is-a-great-literar..

(۲)جمال عباس فہمی،محولہ بالا۔

(۳)تقی عابدی،سیّد،ڈاکٹر،چند لفظ ،مشمولہ،باقیاتِ اقبال،جہلم،بک کارنر،اکتوبر۲۰۲۳ء،ص:۹۔۱۰

(۴)تقی عابدی،سیّد،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص:۳۳۔۳۵

(۵)تقی عابدی،سیّد،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص:۳۵۔۳۶

(۶)تقی عابدی،سیّد،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص:۴۰۔۴۱

(۷)تقی عابدی،سیّد،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص:۵۲۔۵۳

(۸)تقی عابدی،سیّد،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص:۴۴

(۹)تقی عابدی،سیّد،ڈاکٹر،محولہ بالا،ص:۵۳۔۵۴

(۱۰)جمال عباس فہمی،محولہ بالا۔

(۱۱)جمال عباس فہمی،محولہ بالا۔

***

Leave a Reply