ڈاکٹرشاہ جہاں بیگم گوہرؔ کرنولی
گیسٹ لیکچرر، ڈاکٹر عبدالحق اردو یونی ورسٹی، کرنول، آندھراپردیش،انڈیا۔
اردو زبان میں بچوں کے رسائل آزادی سے پہلے
جب زبان عام ہوجاتی ہے تب اس زبان میں اس کا ادب بھی شامل ہوجاتا ہے۔ ادب برائے زندگی ہوتا ہے ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے۔ حکومتوں کے عروج و زوال تاریخ میں محفوظ ہوتے ہیں۔ تو انسانی زندگی میں آنے والے جذباتی پہلو اور ان کے مختلف احساسات ادب میں محفوظ ہوتے ہیں۔ اردو زبان جو خود قومی یکجہتی کی پیداوار ہے اور اس کی آغوش میں اس نے پرورش پائی، پھر اس زبان کا ادب کیسے کسی ایک صنف یا کسی ایک کا ادب کہلائے گا۔
اردو زبان نے ہر صنف پر طبع آزمائی کی ہر عمر کے لوگوں کے لیے تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات کا خزانہ اور زندگی کا سلیقہ بن گئی اردو زبان میل محبت و اتحاد کی علامت بن گئی وہ زبان جس نے کئی فرقوں کو ایک لسانی دھاگے میں پیرا دیا اس کے ادب نے بھی کئی نایاب تخلیقات کو اپنے اندر سمولیا جس طرح مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو کر اس نے کثرت میں وحدت وحدت میں کثرت کی مثال پیش کی۔ اسی طرح کی موضوع اور اصناف کو اپنے دامن میں جگہ دے کر اپنے نام کی طرح ہندوستان بن گئی۔ شاعری داستانیں، ناول، افسانوں کے علاوہ اس زبان کے ادبی خزانے قوم اطفال کی دلچسپیوں سے پر ہیں۔ اردو زبان کا نثر ہو ہو یا نظم دونوں میں دیگر تصانیف کے علاوہ مختصر ہی ہیں مگر ادب اطفال کا بھی ایک جہاں آباد ہے۔
اکثر لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ اردو میں بچوں کا ادب نہیں کہ برابر ہے جو ہے وہ غیر معیاری ہے نیز بچوں کے ادب کا ہمیشہ فقدان رہا ہے بچوں کے ادب کو ادب میں کوئی مقام حاصل نہیں ادب اطفال کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا۔
کسی بھی بڑے ادیب نے بچوں کے لیے لکھی ہوئی کہانی نظموں اور ڈراموں کا ذکر اپنے یہاں نہیں کیا وہ ایسی نگارشات کو اپنے کلیات میں شامل ہی نہیں کرتے انہوں نے نے خود اپنی ایسے تخلیقاتے کو بچکانہ ادب تصور کرلیا ہے خود محمد حسین آزاد اور حالیؔ نے اپنے تنقیدی اور تاریخی مضامین میں ادب اطفال کا ذکر تک نہیں کیا۔ شبلی نعمانی، رام بابو سکسینہ اعجاز حسین اور جمیل جالبی کے یہاں بھی بچوں کے ادب کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اس کام کو سر انجام دینے کا سہرا ڈاکٹر خوش حال زیدی کے سر بندھتا ہے۔ جنہوں نے پہلی بار ادب اطفال کی مکمل مفصل اور مدلل تاریخی تنقیدی اور تحقیق اردو میں بچوں کے ادب کی شکل میں پیش کیا وہ تصنیف اردو ادب اطفال کے معمار کے نام سے منظر عام آکر مقبول خاص ہوچکی ہے۔
بچوں کی ذہنی ترقی اخلاقی تربیت اور جمالیاتی حس کی تسکین بچوں کے ادب کا بنیادی مقصد ہیں۔ پال ہارڈ بچوں کی کتابوں کے بارے میں لکھتا ہے۔
’’بچوں کے لیے وہ کتابیں اچھی ہیں جو بچوں کی روحوں میں اپنے جذبات اور تاثرات پیدا کرسکیں جو ان کی زندگی میں مستقل اثرات چھوڑ جائیں جو ان کے کھیلوں اور مہماتی کارناموں میں بچوں کی ہمت افزائی کرسکیں۔ بچوں کی کتابوں میں سنجیدہ اخلاقی باتیں ہوتی ہیں ،جو بچوں میں سچائی اور انصاف کا جذبہ جگاتی ہیں۔ بچوں کے لیے کتابیں لکھنا بہت نازک کام ہے۔ بچوں کی کتابوں میں اخلاقی قدریں، روحانیت اور زبان واسلوب کی لطیف آمیزش ہونا چاہتے ۔‘‘
(اردو ادب اطفال کے معمار24 ص، ڈاکٹر خوش حال زیدی 1993)
پال ہارڈے بچوں کی کتب کی جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے وہ آج کے ادب میں خال خال ہی نظر آتی ہیں ہمارے ادب میںایسی کتابوں کا فقدان ہے جو بچے کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوں اور اگر ایسی کتابیں ہیں بھی تو بچوں کے ہاتھوں تک نہیں پہنچ پائیں۔
ایسے دور میں اردو میں بچوں کے ادب کو فروغ دینے میں بچوں کے رسائل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آزادی سے قبل ’’پھول‘‘ نامی رسالہ لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ جس میں بڑے بڑے ادیبوں کی تخلیقات شائع ہوئی تھیں۔ لکھنؤ سے کلیان، نامی اور پھلواری جیسے رسائل شائع ہوئے۔ بجنور سے غنچہ، پٹنہ سے مسرت اور مراد آباد سے چاند کچھ عرصے شائع ہوا اور پھر بند ہوگیا۔ حکومت ہند کے اشاعتی ادارے بچوں کے لیے ’’نونہال‘‘ کچھ عرصے پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ مکتبہ جامعہ دہلی نے آزادی سے قبل پیام تعلیم کا اجرأ کیا تھا۔ آج بھی یہ رسالہ جاری ہے اور پہلے سے زیادہ آب و تاب کے ساتھ شائع ہوتا ہے اس رسالے نے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انہی کی تخلیقات پر مشتمل کئی خصوصی نمبر شائع کیے ہیں۔ شمع بک ڈپو دہلی نے اگر چہ بچوں کے لیے کتابیں شائع کرنا بند کردیا ہے لیکن بچوں کا رسالہ کھلونا اسی شان و شوکت سے جاری ہے۔
اصطلاح میں رسالہ جریدہ کو کہتے ہیں، جس میں مختلف موضوعات پر قلم کاروں کی نگارشات شائع ہوتی ہے۔ جس سے قلم کار کی شخصیت اور اس کی فکر و فن کو سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ رسائل کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ فروغِ علم کے علاوہ تعلیم کا شوق بھی پیدا کرتے ہیں یہ اپنے عہد کی تفسیر ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعہ اس دور کی دینی و فکری تاریخ اور معاشرے کی باطنی زندگی کا ادراک ہوتا ہے۔ وقفہ اشاعت مزاج اور موضوعات کے اعتبار سے رسالوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ مثلاً ہفتہ وار، پندرہ روزہ، ماہنامہ، سہ ماہی، ششماہی اور سالنامہ وغیرہ یعنی رسائل ادبی ہوتے ہیں۔ بعض تفریحی بعض علمی سائنسی تحقیقی رسالے ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ رسالے انسانی سماج کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور افراد کی ذہنی تعمیر کے ذرائع بھی ۔ اردو میں بچوں کے ادب کے فروغ کے سلسلہ میں بچوں کے رسائل سے سب سے نمایاں اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1902ء سے زمانے حال تک ہندوستان کے مختلف شہروں سے بچوں کے لیے کئی کامیاب رسائل جاری ہوئے ہیں۔
1۔ بچوں کا اخبار
اردو میں یہ بچوں کا پہلا رسالہ ہے جو ’’بچوں کا اخبار‘‘ کے نام سے جاری ہوا۔ یہ ماہنامہ 1902ء کو لاہور سے ظہور پذیر ہوا، جو 48 صفحات پر مشتمل تھا۔ منشی محبوب عالم ایڈیٹر منشی عبدالعزیز پرنٹر تھے۔ کارخانہ پیسہ اخبار سے شائع ہونا شروع ہوا۔ سالانہ چندہ مع محصول ڈاک دو روپے چھ آنے اور قیمت فی پرچہ تین آنے تھی۔ خادم العلم ایٹم پریس لاہور میں چھپتا تھا اس رسالہ کا اشتہار بھی شائع ہوتا تھا۔ منشی محبوب عالم کو اس رسالے کے اجرأ پر انعام بھی ملا تھا۔ یہ 1912ء تک مسلسل ہر ماہ شائع ہوتا رہا۔ اس زمانے میں اس کی اشاعت ایک ہزار کے قریب تھی۔ اخبار میں بچوں کے لیے مفید اور معلوماتی مضامین چھپتے تھے۔ بچوں کی مجلس کا کالم بھی ہوتا تھا۔چنانچہ منشی محبوب عالم کو بچوں کے رسائل کا باوا آدم کہا گیا ہے۔ انہوں نے اردو میں پہلی بار بچوں کی دلچسپی اور ان کی تعلیم و تربیت اور اخلاق و آداب کی تعلیم دینے کی غرض سے یہ اخبار جاری کیا۔ اس کے بعد بے شمار بچوں کے رسائل و جرائد ملک کے مختلف مقامات سے بچوں کے لیے جاری ہوئے۔
2۔ رہنمائے تعلیم
یہ رسالہ اگست 1905ء میں زیر سرپرستی ابوالفصاحت حضرت جوش ملیانی دریا گنج دہلی سے جاری ہوا۔ اس رسالے کے بانی فدائے علم و ادب سردار صاحب ماسٹر جگت سنگھ تھے۔ محکمہ تعلیم کے رہنمایانہ خطوط کی پاسداری میں تعلیم کی اشاعت اور فروغ اس رسالے کی بنیادی پالیسی رہی بعد کے دور میں اس رسالہ کے مدیر اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر تسخیر فہمی رہے اور معاونین اعزازی میں جناب امر ناتھ طیش، سردار ٹیک سنگھ بنسل، جناب رتن پنڈوردی جناب قمر سنبھلی جناب جگن ناتھ پربھاکر شامل تھے۔ اس رسالے کی ضخامت عموماً 40صفحات ہوتی تھی۔ اس کا سالانہ چندہ آٹھ روپے پچاس پیسے اور ششماہی پانچ روپے پچاس پیسے اور پرچہ ایک روپیہ تھا۔ یہ رسالہ سردار بھجن سنگھ تھا پر پرنٹر پبلیشر لیتھو صفحات لاہور پریس اردو بازار جامع مسجد، دہلی کے مطبع سے طبع کروائے اور اس کا سرورق سن پراسس چٹوارہ دہلی میں طبع ہوتا۔ پھاٹک مفتی دالان دریا گنج دہلی سے شائع کرتے تھے۔ چند صفحات نونہالوں کے لیے مختص ہوتے تھے جسے ’’گلدستۂ اطفال‘‘ کا نام دیا جاتا تھا۔
3۔ پھول
بچوں کا ایک قدیم ہفتہ وار رسالہ ’’پھول‘‘ ہے جو لاہور سے شائع ہوتا تھا جو غالباً 7/ مئی 1908ء ء سے مسلسل چالیس برس شائع ہوتا رہا۔ یہ رسالہ 1/16 سائز کے چوبیس صفحات پر محیط ہوتا تھا۔ اردو کے قدیم دہلی اردو اخبار کی طرح ٹائٹل کے صفحہ ہی سے مضامین شائع ہوتے۔ ٹائٹل کے ذیل میں فہرست مضامین ایک کالم میں درج ہوتی اور مختصر کہانی رسالے کا اہم جز ہوتی جو بچوں کے لیے سبق ؔآموز ہوا کرتی۔ لطیفے بھی شامل ہوتے۔
4۔ ادیب الاطفال
حیدرآباد سے بچوں کے لیے شائع ہونے والا سب سے قدیم رسالہ ’’ادیب الاطفال‘‘ ہے اور یہ رسالہ مرزا احمد اللہ بیگ آفاقی ابوالعلائی کی ادارت میں ’’ادیب الاطفال‘‘ کے نام سے افضل گنج حیدرآباد دکن سے ماہ اگست 1911ء میں جاری ہوا۔ اس کا سالانہ چندہ ایک روپیہ چودہ آنے تھا۔ یہ 25صفحات پر مشتمل شائع ہوتا تھا۔ رسالہ کے انتظامیہ کی جانب سے اچھا مضمون لکھنے پر بچوں کے لیے انعام کا اعلان بھی کیا جاتا تھا۔ یہ رسالہ کافی عرصے تک کامیابی کے ساتھ نکلتا رہا۔
5۔ اتالیق
حیدرآباد دکن سے بچوں کا دوسرا ماہنامہ ’’اتالیق‘‘ کے نام سے فروری 1918ء میں نظامت تعلیمات سرکار عالی کی سرپرستی میں شاہ علی بنڈہ حیدرآباد سے جاری ہوا۔ مولوی عبدالرب کوکبؔ مولوی فاضلؔ کی ادارت میں شائع ہونے والے اس رسالے کی ضخامت عموماً 32صفحات ہوا کرتی تھی۔ اس رسالے کا سالانہ چندہ دو روپے تھا۔ یہ رسالہ 1923ء تک حیدرآباد سے کامیابی سے شائع ہوتا رہا۔ بعد میں اورنگ آباد سے اس کی اشاعت عمل میں آنے لگی۔
6۔ اسکول/کالج میگزین
کئی اسکولوں اور کالجوں سے سالانہ میگزین نکلتے تھے۔ جن میں طلبہ اپنی تخلیقات پیش کرتے۔ زنانہ ہائی اسکول نامپلی 1922ء میگزین کی مدیرہ حسن النساء تھیں۔
7۔ سعادت
یہ ایک پندرہ روزہ رسالہ ’’سعادت‘‘ جو ابوالاثر حفیظ جالندھری کی سرپرستی میں شائع ہوتا رہا۔ اس کے ایڈیٹر لطیف فاروقی تھے۔ جب کہ مدیران کے تحت لطیف فاروقی کے علاوہ خدا بخش کا نام بھی شائع ہوتا رہا۔ یہ رسالہ غالباً یکم فروری 1919ء کو لاہور سے جاری ہوا یہ رسالہ محکمہ تعلیم پنجاب کا منظور شدہ ایک باتصویر رسالہ تھا۔
ابتدأ میں اس کا سالانہ چندہ چار روپے تھا۔ ’’سعادت‘‘ کے کچھ شماروں میں بچوں سے آزمائشی سوالات بھی پوچھے جاتے تھے تاکہ بچوں کی ذہانت اور حاضر جوابی نکھر سکے۔
8۔ نونہال
یہ رسالہ محمد مرعوب الدین بی اے (علیگ) کی ادارت میں خواجہ محمد معاون ایڈیٹر کی زیر نگرانی 1920ء کے آس پاس شائع ہوا کرتا تھا۔ عماد پریس حیدرآباد سے 1931ء تک شائع ہونے والے اس رسالے کے صفحات 25 تا 30 ہوا کرتے تھے۔ اس کا سالانہ چندہ دو روپے آٹھ آنے تھا۔
9۔ غنچہ
بچوں کا ایک اور ہفتہ وار رسالہ بجنور سے ’’غنچہ‘‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ اس رسالے کا اجرأ یکم جنوری 1921ء کو عمل میں آیا تھا۔ اور تقریباً پچاس برس تک اس رسالے کا مالک محمد مجید حسن تھے اور ایڈیٹر ملک نصر اللہ خان عزیز اور سب ایڈیٹر حمید بجنوری ہوا کرتے تھے۔
10۔ العلم
1923ء میں ایک رسالہ ’’العلم‘‘ حیدرآباد سے جاری ہوا تھا۔ جسے عظمت اللہ بیگ نے جاری کیا تھا۔ ابتدأ میں یہ رسالہ سر رشتہ تعلیمات کی زیر نگرانی نکالا جاتا تھا۔ پھر یہ ٹریننگ کالج سے نکلنے لگا۔
11۔ پیام تعلیم
جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بچوں کے لیے ایک دلچسپ رسالہ ’’پیام تعلیم‘‘ جاری کیا یہ رسالہ پندرہ روزہ تھا۔ قیمت فی پرچہ دو آنے تھی جب کہ سالانہ چندہ ڈھائی روپے تھا۔ اور اس رسالہ کا اجرا یکم/ ڈسمبر 1931ء کے شمارے پر جلد 11 اور نمبر 3درج ہے۔ اس حساب سے یہ پندرہ روز یکم نومبر 1921ء کو جاری ہوا ہوگا اور اس کے ایڈیٹر سعید انصاری تھے بعد میں محمد حسین خان ایڈیٹر بنے 1933ء کے شماروں میں سعید انصاری کا نام درج ہے۔ 1964ء میں پندرہ روزہ ’’پیام تعلیم‘‘ ماہنامہ میں تبدیل ہوا۔ اب رسالے کے ناشر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بجائے مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی اور اس کے ایڈیٹر محمد حسین ندوی تھے۔ فی شمارہ پچاس پیسے اور سالانہ چندہ پانچ روپے تھا۔ مختلف صوری و معنوی تبدیلیوں کے ساتھ ماہنامہ پیام تعلیم آج بھی جاری ہے۔
12۔ متعلم
1928ء میں حیدرآباد سے رسالہ ’’متعلم ‘‘ جاری ہوا کرتا تھا جو 78صفحات پر مشتمل تھا۔ یہ رسالہ کافی عرصے تک چلتا رہا۔
13۔ ہونہار
دہلی سے شائع ہونے والے اس ماہنامے کا اجرأ جنوری 1930ء میں عمل میں آیا تھا۔ ایڈیٹر فیاض حسین نسیم جامعی تھے۔ بااہتمام فیاض حسین نسیم پرنٹر و پبلی کیشن جید پریس دہلی میں طبع ہو کر دفتر رسالہ ہونہار صدر بازار دہلی سے شائع ہوتا تھا یہ باتصویر رسالہ تھا اور 75 صفحات پر محیط اس کا سالانہ چندہ تین روپے چالیس پیسے تھا۔
14۔ گورنمنٹ ہائی اسکول میگزین
ستمبر 1930ء میں ایک رسالہ گورنمنٹ ہائی اسکول میگزین حیدرآباد (تاج پریس سے شائع ہوا کرتا تھا۔ اور اس کے مدیر محمد عبدالوہاب مسلم اور شریک معتمد محمد عبدالکریم تھے۔
15۔ ہزار داستان
اکتوبر 1930ء میں چھتہ بازار حیدرآباد سے ایک رسالہ ’’ہزار داستان‘‘ جاری ہوا۔ اس کے ایڈیٹر ابوالمعانی وصف تھے۔ یہ رسالہ ابتدأ میں تاج پریس سے شائع ہوتا تھا۔ بعد میں دوسرے مطبع سے طبع ہونے لگا۔ اور یہ 32 صفحات پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ جس کا سالانہ چندہ دو روپے دو آنے تھا یہ بچوں کا مشہور رسالہ تھا چند برس تک جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا۔
16۔ بچوں کی دنیا
دی انڈین پریس لمیٹیڈ (The Indian Press Limited) الہ آباد سے شائع ہونے والا بچوں کا ماہنامہ ’’بچوں کی دنیا‘‘ اپنے وقت کا ایک اہم اور دلچسپ رسالہ تھا اس رسالے کا اجرأ جنوری 1931ء میں ہوا۔ یہ زمانہ ہندوستان میں بڑا شور انگیز زمانہ رہا ہے۔ آزادی کی تحریک عروج پر تھی۔ خدا بخش لائبریری میں ایک دو شمارے A/c No 93513 کے تحت محفوظ ہیں۔
17۔ تلمذ
1937ء میں مدرسہ فوقانیہ نامپلی کا ترجمان رسالہ تلمیذ جاری ہوا۔ یہ رسالہ مولوی سید مجتبیٰ حسین صاحب نقوی کی زیر سرپرستی مولوی فیض محمد صاحب اور مولوی محمد سلطان صاحب کی زیر نگرانی اور طالب علم عبدالعزیز رضوی جماعت دہم کی ادارت میں شائع ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک ساماہی رسالہ تھا جو اعظم ایٹم پریس چار مینار حیدرآباد دکن میں طبع ہوتا اور پابندی سے شائع ہوتا تھا اور یہ اشاعت کا سلسلہ عرصے دراز تک جاری رہا۔
18۔ سب رس (بچوں کا)
’’سب رس‘‘ (بچوں کا) وہ واحد رسالہ ہے جو کامیابی کے ساتھ طویل عرصے تک پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ جنوری 1938ء میں ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد دکن کے ترجمان ماہنامہ ’’سب رس‘‘ کے ایک حصہ کے طور پر رسالہ ’’سب رس بچوں کا‘‘ ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کی نگرانی میں خیرت آباد حیدرآباد سے جاری ہوا۔ شروع میں ادارت کی ذمہ داری صاحب زادے میر محمد علی سنبھالا کرتے تھے۔ بعد میں 1939ء سے یہ معین الدین احمد کی ادارت میں سکینہ بیگم اور خواجہ حمید الدین شاہد بھی شامل تھے۔ اور یہ 16 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کا سالانہ چندہ ایک روپیہ تھا۔ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد میں اس رسالہ کے 1950تک کے ایڈیشن موجود ہیں۔ غرض حیدرآباد میں بچوں کے لیے شائع ہونے والے اردو رسائل میں بچوں کا سب رس ایک اہم رسالے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اصل ’’سب رس‘‘ آج بھی جاری ہے لیکن بچوں کا سب رس آزادی کے بعد ایک عرصہ تک جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا۔
19۔ نوا
1938ء میں بچوں کے لیے ایک پندرہ روزہ رسالہ ’’نوا‘‘ کے نام سے حیدرآباد سے شائع ہوا کرتا تھا۔ اور یہ دکن ریڈیو والوں سے متعلق تھا اور یاور منزل خیرت آبادسے شائع ہوا کرتا تھا۔ ’’نوائید‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا جاتا تھا جس میں ریڈیو پر نشر ہونے والے مہینے بھر کے پروگرام کی تفصیل ہوا کرتی تھی۔
20۔ نونہال
’’نونہال‘‘ یہ رسالہ 1940ء کے لگ بھگ شائع ہوا اور مسلسل شائع ہوتا رہا۔ اس کی سالانہ قیمت آٹھ آنے ہوا کرتی تھی اور یہ رسالہ 62 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس رسالے کے مدیر جوشؔ ملیح آبادی تھے۔ نہایت تدبر کے ساتھ اس رسالے کی ادارت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی نگرانی کے دوران اس رسالے کے معیار کو کافی بلندی پر پہنچایا۔ ان کی مدد کے لیے نائب مدیران میں بلونت سنگھ، عرش ملتیانی اور جگن ناتھ آزاد تھے۔ یہ رسالہ دلی سے شائع ہوتا تھا۔
21۔ بچوں کی دنیا
اپریل 1941ء میں کلکتہ سے ’’بچوں کی دنیا‘‘ جاری ہوا۔ جو مغربی بنگال سے پہلا بچوں کا رسالہ ہے۔ اس کے مدیر عنایت اللہ صاحب تھے۔ یہ طویل عرصے تک پابندی سے شائع ہوتا رہا۔
22۔ جیت
رسالہ ’’جیت‘‘ اگست 1942ء میں حیدرآباد سے شروع ہوا، جو مرزا عظمت اللہ بیگ کی ادارت میں خیرت آباد سے شائع ہوا تھا۔ اس رسالے کے کچھ شمارے کتب خانہ اردو ہال، حمایت نگر ، حیدرآباد میں موجود ہیں۔
23۔ حریم ادب (تحفہ)
انجمن حریم ادب نے اپنی انجمن کی رپورٹنگ اور پروپگنڈہ کے لیے ایک کتابچہ ’’حریم ادب‘‘ جاری کیا جس کو ترتیب دینے والے محمد اقبال اور عبدالباسط نعیم تھے۔ یہ چھرہ لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ سالانہ چندہ صرف دو روپے تھا مارچ / اپریل 1947 کے شمارے میں کتابچہ نمبر 19اور 10 تحریر ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’’حریم ادب‘‘ کا پہلا شمارہ جولائی 1947ء میں شائع ہوا۔
24۔ بزم ادب
1946/43ء میں حیدرآباد سے بچوں کا رسالہ ’’بزم ادب‘‘ جاری ہوا۔ یہ رسالہ رائے جے رام پرشاد صاحب، صدر مدرس، دھرم ونت کالج کی زیر سرپرستی کوٹلہ عالی جاہ حیدرآباد دکن سے شائع ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک ماہنامہ تھا، جس کی ادارت وشوا ناتھ مدرس دھرم ونت کالج کیا کرتے تھے۔ چھتہ بازار پریس سے طبع ہوتا تھا۔ اور اس کے صفحات کی تعداد 64 ہوا کرتی تھی۔ سالانہ چندہ ایک روپیہ چار آنے تھا۔ یہ رسالہ تین سال تک جاری رہا اس کے بعد بند ہوگیا۔
25۔ نونہال
یہ رسالہ نومبر 1943 میں دہلی سے شائع ہوتا تھا۔ اس کی مدیرہ مسرت جہاں بیگم تیموری تھیں۔ اس کا سالانہ چندہ دو روپے چار آنے اور یہ کل اٹھارہ صفحات پر مشتمل ہو تا تھا۔ یونیٹیڈ پبلی کیشنز دہلی سے شائع ہوتا تھا۔
26۔ مسلم
1944ء میں محمد صدیق جمال کی ادارت میں بچوں کے لیے ایک ماہانہ رسالہ ’’مسلم‘‘ کے نام سے جاری کیا گیا۔یہ رسالہ شیام سندر پریس، حیدرآباد سے عموماً بیس یا تیس صفحات پر طبع ہوتا تھا۔ اس کا سالانہ چندہ تین روپے ہوا کرتا تھا۔
27۔ بچوں کی دنیا
1945ء میں نواب سیدعابد علی خان کے زیر سرپرستی اور مشہور ڈرامہ نگار اظہر افسر کی ادارت میں
رسالہ بچوں کی دنیا شائع ہوا جو منڈی میر عالم حیدرآباد دکن سے چھپا کرتا تھا۔ یہ ایک ہفتہ واری اخبار تھا جو رسالہ کی شکل میں پابندی سے کئی برسوں تک چھپتا رہا۔
28۔ آج کل
آزادی سے قبل وقار عظیم اس کے مدیر تھے۔ 1946-1952ء میں اردو کے شاعر انقلاب جوشؔ ملی آبادی کو اس رسالے کا ایڈیٹر نامزد کیا گیا معاون مدیران بال مکنہ عرش ملیسانی اور جگن ناتھ آزاد مقرر ہوئے یہ 60 صفحات پر محیط پبلی کیشنز ڈویژن دہلی سے شائع ہوتا تھا۔
29۔ کلیان
دسمبر 1946ء میں نصیر افسر کی ادارت میں ایک ہفتہ وار ’’کلیان‘‘ جاری ہوا یہ رسالہ چار مینار پریس حیدرآباد سے طبع ہو کر دفتر ’’کلیان‘‘ پونم بلڈنگ گلزار حوض سے شائع ہوا کرتا تھا۔
30۔ کھلونا
ماہنامہ ’’کھلونا‘‘ ادارہ شمع سے 1947ء مارچ میں جاری ہوا۔ اس کے نگران یوسف دہلوی تھے مجلس ادارت میں یونس دہلوی اور الیاس دہلوی شامل تھے۔ اس کا سالانہ چندہ چار روپیہ تھا۔ 1954ء فروری میں یہ رسالہ شمع کے صدر دفتر واقع آصف علی روڈ اجمیری گیٹ نئی دہلی سے شائع ہوتا تھا۔ اور انڈین پرنٹنگ ورکس نئی دہلی میں طبع ہوتا تھا۔ اچھا ساتھی (کراچی) ، رتن (جموں) سے شائع ہوا کرتے تھے۔
اردو میں بچوں کے رسائل کا یہ جائزہ ابتدأ سے 1947ء رہا ہے۔ اس دور کے بچوں کے رسائل کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر رسائل کسی بڑے ادارے کے زیر اہتمام شائع نہیں ہوئے۔ یہ رسائل کسی بڑے ادیب یا شاعر کے زیر سرپرستی یا کسی انجمن کے زیر اثر شائع ہوئے۔بچوں کے ان رسائل میں زیادہ تر یہ کوشش کی گئی کہ سبق آموز کہانیوں کے ذریعہ بچوں کے اخلاق و کردار کی تربیت کی جاسکے۔ سائنسی مضامین کی کمی اور قومیت کے جذبہ کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ غرض آزادی سے قبل کے اس دور میں ہندوستان میں بچوں کے لیے جتنے رسائل جاری ہوتے تھے سب نے اپنے اپنے دائرے میں اور وسائل کی حصول یابی کے مطابق قابل قدر خدمات انجام دی ہیں اور یہ سلسلہ آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔ آخر میں شوکت پردیسی کا شعر ملاحظہ ہو:
کوشش نئے چراغ جلاتی ضرور ہے
تارکیوں کو دور ہٹاتی ضرور ہے
کتابیات
1۔
اکبر رحمانی پروفیسر،اردو ادب اطفال ایک جائزہ
2۔خوش حال زیدی،اردو میں بچوں کا ادب ،1989ء مارچ دہلی
3۔انور الدین محمد ڈاکٹر،حیدرآباد دکن کے علمی و ادبی رسائل، حیدرآباد۔1997
4۔مرزا احمد اللہ،ادیب الاطفال، حیدرآباد۔1911
5۔ہندوستان میں بچوں کے رسائل،ڈاکٹر نثار احمد تروپتی،2012ء
6۔مختلف رسائل کے شمارے (العلم، پیام، تعلیم، نونہال، غنچہ وغیرہ)
***