You are currently viewing اردو میں ترجمہ نگاری : ایک فنی جائزہ

اردو میں ترجمہ نگاری : ایک فنی جائزہ

سہيم الدین خلیل(اورنگ آباد دکن)

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو،

سوامی رمانند تیرتھ مہاودیالیہ، امبہ جوگائی

 (مومن آباد) ضلع بیڑ، مہاراشٹر

اردو میں ترجمہ نگاری : ایک فنی جائزہ

موجودہ دور سائنس و تکنالوجی کا دور کہلاتا ہے اس دور نے نہ صرف سائنس و تکنالوجی کو فروغ دیا بلکہ علم ریاضی، فلسفہ،فنون لطیفہ اور مختلف زبان و بیان کو بھی فروغ دینے میں نمایاں رول ادا کیا۔ اسی زبان کے فروغ نے اردو ادب کے دائرے کو بھی وسعت بخشی اس ادب کے دائرے کو وسعت بخشنے والے چند ایک نمایاں عوامل میں فن ترجمہ نگاری خصوصی اہمیت کی حامل ہے لہٰذا کوئی بھی فن آسانی سے نہیں آتا ترجمہ کا فن بھی کچھ ایسا ہی فن ہے جس کیلئے مترجم کو کڑی جدوجہد كرنی پڑتی ہے تب جاکہ کہیں یہ فن ہاتھ آتا ہے۔

فن ترجمہ نگاری ایک ایسا قدیم فن ہے جو انسان کے ساتھ قدیم عہد سے لے کر جدید دور تک رواں دواں ہے۔ الغرض اس کرہ ارض پر جب سے انسان کا وجود عمل میں آیا جب سے ہی انسان نے ایک دوسرے کہ ساتھ تہذیب و تمدن سے ملنا شروع کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ ہی تجارت و جنگ کا آغاز کیا تو اب یقینا اسے ایک دوسرے کی زبان سے آشنائی کےلئے کسی نہ کسی مترجم کی ضرورت پیش آئی اور اسی ضرورت کے ضمن میں یہ فن رفتہ رفتہ پروان چڑھنے لگا۔اس فن کے قدیم ہونے اور ترجمے کی ابتداء کے تعلق سے خلیق انجم یوں لکھتے ہیں کہ:

“ترجمے کا فن اتنا ہی قدیم ہے جیتنا کہ انسان کی سماجی زندگی۔ جب ایک سماجی گروہ کا دوسرے گروہ سے سماجی رشتہ قائم ہونے پر ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے ترجمہ کا سہارا لینا پڑا ہوگا۔تو ترجمہ کچھ آوازوں اور کچھ اشاروں پر مبنی ہوگا۔”

(فن ترجمہ نگاری، خلیق انجم، ص 09، انجمن ترقی اردو ہند اُردو گھر نئی دہلی، جِلد سوم ستمبر 1996)

مذکوہ بالا اقتباس یہ بات ثابت تو نہیں ہوتی کہ ترجمے کی ابتداء کب ہوئی لیکن یہ قیاس ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ ترجمہ نگاری کا فن کافی قدیم فن ہے۔ لیکن ہم یہاں دعویٰ کہ ساتھ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جب خط کی ایجاد ہوئی اور لوگ لکھنے پڑھنے سے واقف ہوئے تو انسان نے ایک دوسرے کے علوم کو اپنے اندر جذب کرنا شروع کردیا تھا۔ اور یہی اُردو ترجمے کی ابتدائی بنیاد تھی۔ ترجمے کی سب سے بڑی مثال ہمیں اس وقت ملتی ہے جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا اقتدار قائم ہوا تو مغلیہ دور میں خصوصاً اکبر کے عہد میں باقاعدہ طور پر بذریعہ دارالترجمہ کا قیام عمل میں آنے کے بعد اس فن ترجمہ نگاری پر خصوصی توجہ دی گئی اگرچہ اسلامک حکومتوں میں یہ کام بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ اکبر کے عہد میں انتہائی وسیع پیمانے پر ترجمے کا کام ہوا جس میں سنگھاسن بتیسی، عیار دانش، رامائن، مہابھارت جیسی بڑی بڑی‌ مذہبی کتابیں اور سرکاری و غیر سرکاری دستاویزات کے ترجمے ہوئیں جس کے تعلق سے خلیق انجم لکھتے ہیں۔

“مغلوں کے عہد‌ میں سرکاری ضرورتوں مختلف زبانوں سے فارسی میں اور فارسی سے ان زبانوں میں لازمی طور پر ترجمے ہوتے ہوں گے۔ لیکن مغل بادشاہوں نے ہندوستانی ادب کی طرف توجہ کی۔عہدِ اکبری میں ایسے ہندؤوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو فارسی سے بخوبی واقف تھے۔ اکبر کو سنسکرت سے بہت لگاؤ تھا۔ اس نے سنسکرت سے شاعری،فلسفہ،ریاضی، الجبرا وغیرہ کی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرایا۔” (ایضا ص 09)

مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ترجمہ نگاری کی طرف سب سے پہلے مغلیہ عہد نے اپنی توجہ مرکوز کی۔

بعد ازاں عیسائیوں نے تاجروں کی حیثیت سے ہندوستان میں قدم رکھا تو ان کے مبلغین نے اپنی مذہبی کتابوں کے ترجمے کیے۔ بعد ازاں جدید عہد کی ابتداء ہوئی تو اس عہد میں اردو زبان میں ترجمے کا کام وسیع پیمانے پر ہوا جس میں سب سے اہم رول ادا کرنے والا کالج فورٹ ولیم کالج کلکتہ تھا۔ فورٹ ولیم کالج کی بنیاد انگریزی حکومت نے سن 1800 میں ڈالی جس کا مقصد انگریزوں کو ہندوستانی زبان یعنی اردو سیکھانا تھا بقلم خلیق انجم :

“فورٹ ولیم کالج میں انگریزوں کو اردو پڑھانے کے لئے ترجمے کرائے گئے۔” (ایضاً ص 14)

اسی غرض و غایت کے سبب پروفیسر جان گلکرسٹ نے اپنی سرپرستی میں عربی،فارسی و سنسکرت کتابوں کے اردو میں ترجمےکروائے۔ فورٹ ولیم کالج میں جن ادیبوں اُردو ترجمے کیے ان میں بالخصوص عبداللہ مسکین،کاظم علی جوان، بہادرعلی حسینی، میر امن دہلوی، شیر علی افسوس، حیدر بخش حیدری، خلیل علی خاں اشک، مظہر علی خاں ولا، کندن لال، میر ابوالقاسم، طوطا رام، نہال چند لاہوری، محمد بخش اور شاکر علی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

فورٹ ولیم کالج کے بعد اُردو ترجمہ نگاری کو فروع دینے میں جس ادارے کو تاریخی درجہ حاصل وہ کوئی اور نہیں بلکہ دہلی کالج ہے جس کی بنیاد 1825 میں رکھی گئی اور جے ایچ ٹیلر کو بطور پرنسپل منتخب کیا گیا جہاں فورٹ ولیم کالج میں انگریزوں کو اردو پڑھانے کے لئے تراجم کیے گئے دھلی کالج میں اس کے بر عکس ہندوستانیوں کو مغربی تعلیم دینے کی غرض سے بڑے پیمانے پر الجبرا، جیومیٹری، ریاضی، سائنس، جغرافیہ، تاریخ، سیاست،فلاسفی وغیرہ کےاُردو میں ترجمے کیے گئے۔ دھلی کالج کے اساتذہ و مصنفین میں ڈاکٹر اے اسپرنگر، پروفیسر ایلس، مولوی مملوک علی، امام بخش صہبائی، مولوی سبحان بخش، ماسٹر وزیر اعلی، ماسٹر رام چندر، مولوی ذکاءاللہ، پنڈت رام کشن، میر ناصر علی اور مدن گوپال وغیرہ خصوصی اہمیت حامل ہیں۔ جن کے زیر اثر اردو ترجمہ نگاری کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ اردو کے مختلف تحریکات و رجحانات نے اردو ترجمہ نگاری کو فروع دینے میں اہم رول ادا کیا جن میں علی گڑھ تحریک، ترقی پسند تحرک، حلقہ اربابِ ذوق اور جدیدت و ما بعد جدیدیت کی تحریکوں کے ذریعہ اُردو ترجمہ نگاری نے ادب میں جو رتبہ مرتبہ حاصل کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔

جہاں تک ترجمہ نگاری کی بات کی جائے تو اسے اہل ذوق حضرات نے حسب ضرورت چار اقسام بتائے ہیں جن میں با محاورہ ترجمہ، لفظی ترجمہ، منظوم ترجمہ اور آزاد ترجمہ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ البتہ عہدِ حاضر میں ترجمہ نگاری اردو زبان و ادب میں وہ درجہ رکھتی جو صحافت میں ایک صحافی کا ہوتا ہے۔ لہٰذا صحافت ہو یا پھر عوامی زندگی ہو ہر مقام پر اردو ترجمہ نگاری خاص اہمیت رکھتی ہے .کہنے کا لب ولباب یہ ہے کہ عصر حاضر میں ترجمہ نگاری نے ہندوستانی صحافت، سائنسی تجربات، ادب و معاشرے میں وہ مقام حاصل کیا ہے جو شاید ہی کسی اور صنف کو حاصل ہے۔

Dr. Sahimoddin Khaliloddin Siddiqui

Asst. Prof. Dept. of Urdu

Swami Ramanand Teerth Mahavidyalaya Ambajogai Maharashtra

431517

***

Leave a Reply