جاوید اقبال علیمی
ریسرچ اسکالر شعبہ ٔاردو IGNOUدہلی
اردو میں لوک گیت اور شاعری
اردو شاعری میں گیت ہی وہ بیج ہے جس سے مختلف شعری اصناف کی کونپلیں پھوٹیں اور وقت کے ساتھ زبان وبیان میں تغیر وتبدل کے مرحلوں سے گزر کر الگ الگ اصناف کے سانچوں میں ڈھلتی چلی گئیں۔لوک گیت (Folk Song) کا رشتہ طبقۂ نسواں کے جذبات ومحسوسات کے اظہار وبیان سے جوڑا جاتا ہے ۔پروفیسر کلیم الدین احمد فوک سانگ کی اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ عوامی گیت ۔روایتی گیت اور آہنگ جو عام لوگوں میں مروّج ہوتے ہیں اور جن کے مصنفین کا عموما نام نہیں ملتا ‘‘۔( ۱)۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ گیت عام لوگوں میں مروج وہ گیت ہوتے ہیں جن کے پس منظر میں ایک طویل مدت کی روایت ہوتی ہے لیکن عام طور پر ان کے لکھنے والوں کا نام معلوم نہیں ہوتا ۔عام طور پر لوک گیت کی کوئی بندھی ٹکی اور مستقل تعریف نہیں ملتی البتہ لوک ادب پر تحقیق کرنے والوں نے لوک گیت کی بعض ایسی خصوصیات اور امتیازات کا ذکر کیا ہے جن سے لوک گیت کی حقیقت وماہیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ پروفیسر قمررئیس نے لوک گیت کے درج ذیل مابہ الامتیاز اوصاف گنوائے ہیں :
’’ یہ کہ ان ( لوک گیت ) کا مصنف گمنام ہوتا ہے ۔یہ گیت زیادہ تر اجتماعی اور کم تر انفرادی جذبات کی ترجمانی
کرتے ہیں ۔اکثر یہ گیت محنت کش عوام کی اجتماعی تخلیقی محنت کے عمل میں خلق ہوتے اور گائے جاتے ہیں ،ان
کا آہنگ کسی عروضی قاعدے کے بجائے ،عوام کے احساس موسیقی کا تابع ہوتا ہے ‘‘۔(۲)
انسان پڑھ لکھ کر مہذب بن جائے یا ان پڑھ اور غیر مہذب رہے ،وہ بچپن کی معصومانہ ادائیں رکھتا ہو یا عہد شباب کی شوخیاں ،جسم نازنین کی مالک اور حسن کائنات میں رنگ بھرنے والی ہستی عورت ہویا فطری طور پر نسبتا مضبوط اعصاب کا مالک مرد ۔فطرت نے ہر ایک کے اندر مصائب وآلام پر رنجیدہ ہونے اور انعام واکرام پر خوشی سے کھل اٹھنے کے جذبات ودیعت کررکھے ہیں ۔جس طرح شہروں کی رنگین فضاؤں میں داد عیش دینے والے طبقات کے دلوں میں جذبات کے سمندر موجزن ہوتے ہیں اسی طرح شہروں سے دور گاؤں ،دیہات میں بسنے والے افراد کے خانۂ دل میں بھی رنج وغم اور خوشی ومسرت کے جذبات کی فراوانی ہوتی ہے جس کاا ظہار لوک گیتوں کی صورت میں ہوتا ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول : ’’ گیت ،مزاجانسوانیت کے غنائی اظہار کی ایک صورت ہے‘‘۔(۳)۔اور زیادہ تر لوک گیتوں میں نسوانی لہجہ ہی پایا جاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دیگر اصناف سخن کی طرح گیت میں بھی مرد کی طرف سے اظہار محبت کی روش ملتی ہے ۔وزیر آغا لکھتے ہیں :
’’ گیت ، محبت میں مبتلا عورت کے دل کی پکار تو ہے لیکن ہر صنف شعر کے قاعدے کے مطابق ،اس میں بھی بعض
اوقات تذکیر وتانیث سے بے اعتنائی کی روش ابھری ہے اور اس نے مرد کی طرف سے بھی اظہار محبت کی صورت
اختیار کی ہے ،تاہم اس سے گیت کا بنیادی مزاج ہر گز تبدیل نہیں ہوا کیوں کہ مرد کی طرف سے کہے گئے گیت بھی
نسوانیت کے لہجے ،محبت کے ارضی پہلو اور سراپا نگاری کے واضح میلان ہی کو سامنے لائے ہیں ‘‘۔(۴)
لوگ گیت فقط ہجر ووصال کی کیفیات کے مظہرہی نہیں ہوتے بلکہ ان میں انسانی فطرت کے تمام ترجذبات واحساسات کے بیان کی وسعت ہوتی ہے ۔گاؤں اور دیہاتوں میں حزن والم اور عیش وطرب کے موقعوں پر ،بچے کی پیدائش سے لے کر اس کے بیاہنے تک ،کسی کے ترک وطن کرکے پردیس جانے پر ،دلہن کی رخصتی اور سسرال میں اس کی گھریلو زندگی کے نشیب وفراز سے متعلق جملہ واردات قلبیہ لوک گیت میں بیان ہوئے ہیں ۔انسانی زندگی کے مذکورہ مختلف مراحل پر سماج کے رسوم رواج کے مطابق الگ الگ خطّوں کے گیتوں میں نسوانی جذبات کا اظہار دیکھنے کو ملتا ہے ۔علاقائی اختلاف کی وجہ سے زبان وبیان میں اختلاف ضرور ہے لیکن جذبات میں مماثلت ہے ۔لوک ادب کے محققین نے تلاش وجستجو کے بعد دہلی ،اتر پردیش اور بہار وغیرہ علاقوں میں گائے جانے والے ایسے گیتوں کو جمع کیا ہے جن میں عورت کی زبانی مذہبی عقیدت ،دشمنوں سے نفرت ،بچے کی ولادت، لوری ،شادی بیاہ کی رسومیات ،ساس بہو اور نند کے درمیان ہونے والے طنز وتعریض ،موسم کی بدلتی رتوں کی کیفیات ،عاشق ومعشوق کی ملاقات اور ہجر وفراق کے درد کا اظہار ہوا ہے ۔ڈاکٹر مجیب الاسلام کے مطابق پچاس سال پہلے تک دلّی میں دلہن کی رخصتی کے وقت امیر ؔخسرو کا درج ذیل گیت گایا جاتا تھا :
’’ کاہے کو بیاہی بدیس سن بابل میرے
ہم تورے بابل پھاندے کی چڑیاں
رین بسے اڑ جائیں رے
سن بابل میرے
ہم تورے بابل بیلے کی کلیاں
گھر گھر مانگی جائیں رے
سن بابل میرے
ہم تورے بابل جنگل کی گیّاں
جدھر ہانکو ہنک جائیں رے
سن بابل میرے ‘‘۔ (۵)
دوسری زبانوں میں تو لوک گیت کی روایت عہد قدیم سے چلی آرہی ہے لیکن اردو زبان میں اس کاآغاز کب ہوا ؟ یہ غور طلب ہے ۔اردو کے آغاز میں جو شاعری تخلیق ہوئی اس میں صنف غزل کے استعمال کے باوجود گیت کا مزاج دیکھنے کو ملتا ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق اردو گیت کی اولین صورت کا ۱ظہار امیرؔ خسرو کی درج ذیل مشہور زمانہ غزل میں ہوا ہے :
شبان ہجراں دراز چوں زلف وروز وصلش چو عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکا یک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببر د تسکیں
کسے پڑی ہے جو چلنا دے دے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چو شمع سوزاں چو ذرہ حیراں زمہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :
’’ امیرؔ خسرو کے ریختہ میں فارسی کے ٹکڑے بالکل الگ دکھائی دیتے ہیں لیکن اس میں جو ہندی کا حصہ ہے
،وہ اردو گیت کی اولین صورت کا مظہر ہے ۔۔۔۔اس حصے میں عورت کی زبان سے محبت کے جذبات کا کھلم
کھلّا اظہار ہوا ہے اور وہ تمام لوازم ابھر آئے ہیں جو ہندی گیت سے خاص ہیں ‘‘۔(۶)
امیرؔ خسرو کے بعد دکنی شعرا کے یہاں گیت یا ایسی غزلیں اور نظمیں ملتی ہیں جو گیت کے مزاج کی حامل ہیں ۔ان غزلوں یا عشقیہ نظموں کے بہت سے اشعار میں نسوانی لہجہ پایا جاتا ہے ۔اس طرح کے اشعار میں ہندی گیتوں اور ہندوستانی ثقافت کے اثرات نمایا ں ہیں ۔ہندوستانی سماجی رسوم ورواج اور ثقافتی اقدار کا غلبہ نظر آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سولہویں ،سترہویں صدی عیسوی میں جب کہ اردو یا دکنی اردو تشکیل کے مراحل سے گزر رہی تھی ،دکن کے اکثروبیشتر امراء اور حکمران ہندوستانی رسوم ورواج کے دل دادہ ہوچکے تھے ۔یہاں تک کہ شاہی محلوں اور حرم میں غیر مسلم خواتین کا آزادی کے ساتھ عمل دخل شروع ہو گیا تھا ۔خاص طور پر محمد قلی قطب شاہ اور علی عادل شاہ ثانی کو غیر مسلم خواتین کو اپنے حرم میں رکھنے میں کوئی تکلف نہ ہوتا تھا ۔اس دور کے شعرا نے اپنے جذبات ومحسوسات کے اظہار کے لیے غزل یا نظم کو وسیلہ ضرور بنایا لیکن یہ غزلیں یا نظمیں ہندوستانی ثقافت کی مزاج آشنا ہونے کے ساتھ گیت کے لہجے سے مملو ہیں ۔اس کا ثبوت دکنی شعراء کے درج ذیل اشعار سے ہوتا ہے :
بسنت کھیلیں عشق کی آ پیارا
تمھیں ہیں چاند میں ہوں جوں تا را
بسنت کھیلیں ہمن ہو ساجنا یوں
کہ آسماں ر نگ شفق پایا ہے سارا
پیا پگ پر ملا کہ لیائی پیاری
بسنت کھیلیں ہوا رنگ رنگ سنگارا (۷)
طاقت نہیں دوری کی اب تو ں بیگ آمل رے پیا
تجھ بن منجے جیونا بھوت ہوتا ہے مشکل رے پیا
کھانا برہ کیتی ہوں میں پانی انجھو پیتی ہوں میں
تجتے بچھڑ جیتی ہوں میں کیا سخت ہے دل رے پیا
ہر دم توں یاد آتا منجے اب عیش نئیں بھاتا منجے
برہا یوں سنتانا منجے تج باج تل تل رے پیا (۸)
یہاں بطور نمونہ بالترتیب سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی کے دو شاعروں ،قلی قطب شاہ اور ملا وجہی کے اشعار پیش کیے گئے ہیں ۔ان کے علاوہ عبد اللہ قطب شاہ ،برہان الدین جانم ،غواصی ۔علی عادل شاہ ثانی اور سید ہاشمی وغیرہ کے کلام میں بھی گیت کی واضح مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں ،دکنی شاعری میں ولیؔ کے زمانے تک گیت کی فضا قائم رہی ،خود ولی ؔ دکنی کی دلّی آمد سے پہلے کی شاعری میں ایسے بہت سے اشعار ہیں جن میں گیت کا رنگ نمایا ں طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ولی دکنی کی دلی آمد کے بعد جب اردو شاعری دہلی سے متعلق ہوئی اور سعد اللہ گلشن کے مشورے پر ولی دکنی نے اور ان کی پیروی میں شمالی ہند کے شاعروں نے فارسی تراکیب ومضامین کو اپنی شاعری میں برتنے کی روایت کے آغاز کو بنظر تحسین دیکھا ،اس کے علاوہ دلی کے بہت سے شاعروں نے اصلاح زبان کی تحریک کے زیر اثر اردو کو بھاشا کے الفاظ ،تلمیحات اور محاوروں سے پاک کرنے کی مہم شروع کی تو گیت کے فروغ کے امکانات کو نقصان پہنچا ۔یہی وجہ ہے کہ ولی کی دلی آمد کے بعد اور انیسویں صدی میں امانت لکھنوی کی اندر سبھا سے پہلے کا درمیانی عرصہ اردو گیت کے لیے سازگار نہیں رہا۔انیسویں صدی میں اندر سبھا کے ذریعے ایک مرتبہ پھر اردو گیت کے فروغ کی فضا قائم ہوئی ،بلکہ بقول ڈاکٹر وزیر آغا ’’ اس (اندر سبھا) میں اردو گیت اپنے بھر پور انداز میں غالبا پہلی بار سامنے آیا ‘‘۔( ۹)۔ اندر سبھا میں ملن اور مفارقت کی کیفیات کو ہندوستانی فضا فراہم کی گئی ہے ۔عشق ومحبت کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کے لیے ہندوستانی طرزکے گیتوں کو وسیلہ بنایا گیا ہے ۔اندر سبھا میں ایک کردار سبز پری ہے جو اپنی محبت شہزادہ گلفام کو تلاش کرنے کی خاطر جوگن کا روپ دھارکر اپنے مقصود تک رسائی حاصل کرنے کے لیے گیت اور رقص کے حربے استعمال کرتی ہے ۔اردو گیتوں کی پیش کش اندر سبھا کا خوبصورت عنصر ہے ۔ان گیتوں میں عورت کے جادوکا بیان اور وصل کے شیریں لمحات کی عکاسی ہے تو فرقت کے تلخ تجربات اور درد کا اظہار بھی ہے ۔بطور نمونہ یہ گیت ملاحظہ کریں :
موری انکھیاں پھر کن لاگیں کیا ہوا یار کدھر گئیں سکھیاں
انکھیاں پھرکن لاگیں
دینہہ پھنکت ہے جیا ترپت ہے پیت لگا کے مجا ہم چکھیاں
انکھیاں پھر کن لاگیں
نینن میں دلدار بست ہے یہ انکھیاں الماس پرکھیاں
انکھیاں پھرکن لاگیں (۱۰)
انیسوں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں اردو ڈرامے نے اردو گیت کو ارتقائی صورت بخشنے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔آغا حشر کاشمیری اس دور کے ڈرامائی ادب کا بڑا نام ہے ۔انھوں نے ایسے گیت پیش کیے جو اس زمانے کے گیت کے روایتی مزاج کے مطابق ہیں ۔ان کے بعد عظمت اللہ خاں نے گیت کو اردو کے مزاج کے قریب تر کرنے کی کوشش کی ،گیت کے روایتی اسلوب سے ہٹ کر اپنے منفرد اسلوب کے ذریعے عورت ومرد کے معاشقے کے جذباتی وجسمانی پہلوؤں کو اجاگر کیا ۔ان کے گیتوں میں منفرد لب ولہجہ کے باوجود ہندوستانی گیت کی فضا موجود ہے ۔انھوں نے ہندی عروض وبحور کااستعمال کر کے ،ہندی تشبیہات و استعارات کی مدد سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ۔عظمت اللہ خاں کا شمار بلا شبہ ان بلند رتبہ شعرا کی صف اول میں ہوتا ہے جنھوں نے فطرت کی کامیاب ترجمانی کے ذریعے اردو لوک ادب کو سرمایۂ افتخاربنادیا۔ان کے گیتوں میں مرد کی طرف سے اظہار محبت کی روش بھی ملتی ہے اور یہیں سے گیت کو عورت کے علاوہ مرد کی جانب نسبت کرنے کارجحان پیدا ہوالیکن اظہار محبت مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے بہر حال عظمت اللہ ہندو ستانی فضا کو قائم رکھتے ہیں ۔ان کے یہاں وطن سے محبت ،رومان افزا موسم کی دل آویزی،حسن محبوب کی تعریف وتحسین اور اس کی سراپا نگاری ،موسم برسات کی منظر کشی ،قدیم ہندی معاشرت کی تصویر کشی میں نہایت جدت طرازی سے کام لیا گیا ہے ۔گیت کے رنگ میں ڈھلی ان کی یہ نظم دیکھیں جس میں عورت کے لیے مرد کے جذبات کے اظہار کے ساتھ ساتھ عورت کے جسمانی پہلوؤں کا بیان بھی ہے اور ہندی گیت کی روایت کا پرتو بھی :
ہائے وہ صورت پیاری پیاری
بڑی بڑی آنکھیں کالی
چکنے چکنے بال بھی کالے
ہونٹ رسیلے ،امرت والے
وہ تندرستی کی لالی
گال گلابی ، روئی کے گالے
اٹھتا جوبن ، گدرا گدرا
آپ ہی من میں کھب جائے
لوچ بدن میں پھولوں کی ڈالی
ایک گھلاوٹ یکسر چھائی
بے ساختہ جی للچائے
موہنی مورت ،موہنے والی
ستھری ستھری ، میٹھی میٹھی
بانسری کی سی آواز
نفیس چڑھاؤ ، نفیس اتار
سندر صورت ،دل میں سمائے
دل کو لبھائے ، دل آئے
تجھ بن جگ ہو خالی خالی
موہنی مورت ، موہنے والی ‘‘ (۱۱)
عظمت اللہ خاں نے گیت کو اردو کا ہم مزاج بنانے کی جس کاوش کا آغاز کیا تھا ،اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری نے اسے عروج تک پہنچایا ،انھوں نے گیت کے اصل مزاج کو قائم رکھتے ہوئے ،اس کے موضوعات میں کشادگی پیداکی ۔میراں جی سے اردو گیت ایک نئی دنیا سے آشنا ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ان کے زمانے میں اردو گیت کو نئے امکانات سے روشناس کرانے کی ایک تحریک چل پڑی جس کے عملی حصے داروں میں میراں جی کے علاوہ ،اندر جیت شرما،آرزو لکھنوی ،قیوم نظر ،حفیظ ہوشیار پوری اور مجروح سلطان پوری وغیر ہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔اس دور کے اکثر گیت کاروں کے گیتوں میں مٹھاس اور نکھار ہے ۔میراں جی نے اپنے گیتوں میں ہندوستانی مظاہر کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ان کے گیت ہندوستانی دھرتی اور تہذیب میں ڈھلے ہوئے ہیں ۔ہندوستانی عورت کے جذبات کی ترجمانی ہندوستانی رنگ میں کی ہے ۔اپنے پیا کے فراق کی ماری ہندوستانی عورت جس نے اپنے پیا کے بغیرشاید کہ صرف ہجر کی تلخی ہی نہیں سہی ہے بلکہ اکیلے ہی سارے دکھوں سے لڑ گئی ہے ،اپنے پیا کے گھر لوٹ آنے پر اس کے دل میں اٹھنے والی جذباتی لہرکی ترجمانی میراں جی نے اپنے ایک گیت میں اس طرح کی ہے :
’’ آج بسنت سہائے سکھی رے موہے آج بسنت سہائے
آج پیا گھر لوٹ کے آئے سکھ کا سدیسہ بھی لائے
جنم جنم کے قول بھی نبھائے
من سنگیت سنائے سکھی رے موہے آج بسنت سہائے
اب تک رو رو رین گنوائی دن میں بھی سکھ کی سانس نہ آئی
بول تھکی میں رام دہائی
پل پل چھن چھن ہائے سکھی رے موہے آج بسنت سہائے
بھول گئی جو دل پہ سہی ہے پریم نے کان میں بات کہی ہے
کس کے جی کی جی میں رہی ہے
اس کو جانیں پرائے سکھی رے موہے آج بسنت سہائے ‘‘ (۱۲)
اردو لوک گیت کو دکن اور شمال کے مختلف علاقوں کی مختلف زبانوں کے زیر اثر فروغ حاصل ہوا ،ان گیتوں پر مقامی زبانوں ،بولیوں اور وہاں کی تہذیب وثقافت کی گہری چھاپ ہے ۔بطور خاص اردو اور ہندی بولنے والوں کی آبادی ایک دوسرے کے قریب ہونے کی وجہ سے لوک گیت بھی اردو اور ہندی کا آمیزہ ہیں ۔لہذا پروفیسر قمر رئیس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ:
’’اردو اور ہندی کے لوک گیتوں ،لوک قصّوں اور لوک کہاوتوں کا بہت بڑا سرمایہ مشترک ہے‘‘۔ (۱۳)۔
لوک گیت پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال بھی سر اٹھاتا ہے کہ آیا لوک گیت پر شعر کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں ؟سادہ لفظوں میں یہ کہ لوک گیت شعری روایت کا حصہ ہے یا نہیں ؟اگر یہ دیکھا جائے کہ لوک گیت وزن وقافیہ اور ردیف کی پابندیوں سے آزاد گاؤں دیہات کے باشندوں کے احساس موسیقی کا تابع فطری بول ہوتا ہے تو ظاہر نظر میں یہ کسی بھی شعری روایت کا حصہ نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس پر شعر کا اطلاق درست ہوگا لیکن اگر شعر کے متعلق علامہ شبلی نعمانی کا یہ خیال کوئی معنی رکھتا ہے کہ:
’’جو کلام انسانی جذبات کو برانگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے ‘‘
یا ان کے پیش کردہ یورپین مصنف کے اس قول کی کوئی اہمیت ہے کہ:
’ ’ہر چیز جو دل پر استعجاب یا حیرت یا جوش یا اور کسی قسم کا اثر پیدا کرتی ہے ،شعر ہے ‘‘۔ (۱۴)۔
تو پھر یقینًا لوک گیت پر شعر کا اطلاق درست ہوگا کیوں کہ جس طرح شاعری سے دل پر حسب مواقع حزن وغم اور کیف وسرورکے اثرات مرتب ہوتے ہیں ،اسی طرح لوک گیت میں بھی انسانی فطرت کے تمام تر جذبات کی ترجمانی ملتی ہے ۔انھیں پڑھ یا سن کر بھی انسانی جذبات مچل جاتے ہیں ،خوشی کا احساس ،غم کی کیفیات ،جوش کے لمحات ،سب دل پر گزر جاتے ہیں ۔فرق یہ ہے کی شاعری وزن وقافیہ وردیف ،تصنع الفاظ ،تشبیہات واستعارات کی جکڑ بندیوں اور فلسفیانہ موشگافیوں کا مظہر ہے جب کہ گیت سیدھے سادے الفاظ اور فطری لہجے میں انسانی محسوسات کا اظہار ہے۔جس طرح شاعری میں نعمتوں کے حصول پر مسرت اور ان سے محرومی پر حسرت کا بیان ہوا ہے اسی طرح گیت میں بھی دیہاتی شاعرانہ انداز میں ان جذبات کی پیش کش ہوئی ہے ۔اور ان میں بھی وہی درد وکرب ظاہر ہوا ہے جو شاعری میں مذکورہ موضوعات سے پیدا ہوا ہے ۔اظہر علی فاروقی ،داکٹر میمونہ دلوی ،پروفیسر بسم اللہ بیگم وغیرہ نے لوک گیت کا جو سرمایہ جمع کیا ہے اس کے مطالعہ سے یہ بات پوری طرح ثابت ہوتی ہے کہ احساسات کی ترجمانی اور جذبات کی برانگیختگی میں لوک گیت کسی طرح شاعری سے کم درجہ نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ لوک گیتوں کو سننے سے دل کے اندر جو جوش ووارفتگی پیدا ہوتی ہے وہ شاعری کی طرح پڑھنے سے نہیں ہوتی ۔خلاصہ یہ کی لوک گیت ہمارے ادب کا گراں قدر حصہ ہیں ۔ماضی کی طرح اب ان سے چشم پوشی کرنا مفید نہیں ہے ۔مابعد جدید دور میں جبکہ مقامی تہذیب وثقافت اور علاقائی بولیوں کے مطالعہ کو اہمیت دی جارہی ہو تو لوک گیتوں کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔اس پہلو سے مزید کام کرنے کی گنجائش باقی ہے ۔
مآخذ ومراجع۔
۱۔ فرہنگ ادبی اصطلاحات ،صفحہ نمبر ۸۹۔
۲۔ اردو میں لوک ادب ،صفحہ نمبر ۷،مرتبہ پروفیسر قمررئیس۔
۳۔ اردو شاعری کا مزاج ،صفحہ نمبر ۱۴۷۔
۴۔ ایضًا،صفحہ نمبر ۱۵۰۔
۵۔ دلّی کے لوک گیت ،مشمولہ ۔اردو میں لوک ادب ۔مرتبہ پروفیسر قمر رئیس۔
۶۔ اردو شاعری کا مزاج ،صفحہ نمبر ۱۵۷۔
۷۔ کلیات قلی قطب شاہ ،صفحہ نمبر ۱۳۵،مرتبہ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ،ریختہ
۸۔ قطب مشتری ،صفحہ نمبر ۸۴،مرتبہ مولوی عبد الحق ،ریختہ ۔
۹۔ اردو شاعری کا مزاج ،صفحہ نمبر ۱۶۷۔
۱۰۔ اندر سبھا ،صفحہ نمبر ۴۳،ریختہ۔
۱۱۔ سریلے بول ،صفحہ نمبر۹۱،۹۲،ریختہ
۱۲۔ میراں جی کے گیت ،صفحہ نمبر ۱۳،۱۴،ریختہ
۱۳۔ اردو میں لوک ادب ،صفحہ نمبر ۶،مرتبہ پروفیسر قمر رئیس ۔
۱۴۔ شعر العجم ،جلد ۴،صفحہ نمبر ۴۔