محمد شہباز رضا
ریسرچ اسکالر
ہندستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
اسکینڈی نیویا میں اردوزبان و ادب
اسکینڈی نیویا کے اہم ممالک ناروے، ڈنمارک اور سویڈن میں تارکینِ وطن اردو ادبا کو بسے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے۔ان کے ماضی اور حال میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ اس لیے نہ تو وہ ابھی اپنے ماضی سے دور ہوسکے ہیں اور نہ پوری طرح اپنے نئے سماج کی معیاری اقدار کو اپنے اندر سمو پائے ہیں۔ اس کے باوجود وہ برطانیہ میں بسے مہاجر اردو ادیبوں سے ذہنی طور پر زیادہ آزاد اور اپنے نئے معاشرے سے نسبتاً زیادہ مانوس معلوم ہوتے ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ مقامی لوگوں سے ان کے روابط بڑھتے جارہے ہیں۔ اسکینڈی نیویا کے نو آباد ایشیا کے باشندوں کو ایسے لوگوں کے بیچ رہنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہےجو زندگی اور مذ ہب کی نہج پر انگریزی اشراف سے زیادہ آزاد خیال ہو چکے ہیں۔ جن کے روحانی رجحانات سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ وہاں بیشتر لوگ کلیسا کا طواف کم ہی کرتے ہیں اور اپنے نئے معاشرے میں انہیں شادی بیاہ کی رسوم کی پابندی نہیں کرنی پڑتی۔ ان کا ازدواجی اور گھریلو نظام روایتی جکڑ بندی کا شکار نہیں ہے۔ ان کا سیاسی ،اقتصادی اورسماجی نظام طرح طرح کے دباؤ سے آزاد ہے اور ان کو ترقی پذیر ممالک کی طرح احتجاجی حالات سے نہیں گذرنا پڑتا۔ اسی لیے ان کےادب کا رنگ اور ہی ہے۔ اور اردو ادیب نیز اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اسکینڈی نیویائی قومیں محنتی اور جفاکش ہیں۔ برفباری کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ بعض علاقوں میں سردی کا عرصہ بہت طویل ہوتا ہے اور مہینوں سورج چہرہ نہیں دکھاتا۔ چنانچہ وہاں کے لوگ لمبے اندھیروں کو بھی جھیلتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ آٹومیشن کے سبب لیبر کی قلت ہو گئی ہے۔ اور انہوں نےتیسری دنیا کے کار آمد افراد کو اپنے سماج میں قبول کرنا شروع کر دیا۔ ہندستان کی آزادی کے بعد 1960ء سے ہی سیاسی پناہ گزینوں کو شہریت دینے کےقوانین نرم تھے البتہ اب ان میں سختی آگئی ہے۔ اس پس منظر میں ہند وپاک سے ہجرت کر کے وہاں بسنے والوں کے تجربات اور احساسات اچھوتے ہیں۔ جنہیں وہاں کے اردو شعراو ادبا کی تحریروں میں پڑھا جا سکتا ہے۔ مگر اب آہستہ آہستہ ادیبوں نے ہجرت زدگی اور ناسٹلجیا (NOSTALGIA) یا غریب الوطنی کے احساس سے پیچھا چھڑانا شروع کر دیا ہے۔ وہ اس خول سے باہر نکل کر خوب صورت خطے کی خوشگوار آب و ہوا، دلنواز موسم ودلکش مناظر، انسانی وجود کا احترام کرنے والے قوانین اور وہاں کی مستند سماجی روِش کو نگاہ پسندیدگی سے دیکھنے اور اپنے ادب پاروں میں کہیں کہیں ان کو جگہ دینے لگے ہیں۔
ادب پوری سوسائٹی کی تفہیم کا وسیلہ ہوتا ہے۔ اب اسیکنڈی نیویا کی اہم مقامی زبانوں یعنی نارویجین،ڈینش، سویڈاور فنش(FINNISH) کے ساتھ اردو کے تال میل کے اچھے نتائج بر آمد ہورہے ہیں۔ اردو تخلیق کاروں کے ذہنوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو اور شمالی یورپ کی زبانوں کے مابین مفاہمت کا رویہ جنم لینے لگا ہے۔ اور معاشرے میں جداگانہ سمِتوں میں چلتے رہنے کے باوجود اجنبیت کی جو دیوار یا بیگانگی کی دھند لوگوں کے مابین نمودار ہوئی تھی وہ اب گہری نہیں رہ گئی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ اردو ادبا نے کمال ہوشیاری سے مقامی زبان کے ادیبوں سے بہترمراسم قائم کرلیے ہیں۔ اور ان کی زبانوں سے بھی تھوڑی بہت واقفیت حاصل کرلی ہے۔ بیشتر تارکینِ وطن اردو اور پنجابی میں لکھتے ہیں لیکن ان میں سے کئی ادیب وہاں کے جدید ادب کو اردو میں اور اپنے منتخب اردو لٹریچر کو مقامی زبانوں میں منتقل کرنے لگے ہیں۔ اس کی مثال کسی اور جگہ مشکل سے ملے گی کہ ایشیائی تارکینِ وطن اگر چہ مقامی فلسفہ حیات اور طرز معاشرت کے متوازی چل رہے ہوں لیکن ادب میں متوازیت کی جگہ مفاہمت نے جنم لے لیا ہو ۔ اس خیال کے تحت اسکنڈی نیویاکے اصل اردو ادب کے علاوہ ان ملکوں کی قدیم اور عصری تحقیقات کے تراجم کے لیے بھی عمدہ کام ہورہا ہے۔اسکینڈی نیویائی ادب کے معیاری رجحانات کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہو رہی ہے۔ اس کوشش میں شمال مغربی یورپ کے کئی سماجی پہلو مصنفین کی تحریروں اور تجزیوں کی شکل میں اجاگر ہوئے ہیں۔ ایک بڑے اور نئے موضوع پر کام کرنے کے لیے سائنسی طرز فکر اور غیر متعصب ذہن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے کافی تلاش اور تحقیق کے بعد ایسے مطبوعہ، مضامین اور افسانے تک رسائی ہو پاتی ہے جن کے بارے میں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ وہ مقصد کے عین مطابق ہیں۔ ممکن ہے کہ ہماری یہ کو شش آنے والوں کے لیے نت نئی راہیں ہموار کریں گی۔
مجموعی طور پر اسیکنڈی نیویا کا اردو ادب اور اصل ادب علامات و استعارات سے آزاد نظر آتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس معاشرے کا یہ ادب ہے وہ آزاد ہے اور جدت پسندی، بے باکی اور جرات اظہار ان ملکوں کے ادیبوں کا وطیرہ ہے۔ چناں چہ علامتیں تراشنے کی کم سے کم کوئی سیاسی مجبوری ان کی دامن گیر نہیں ہے۔ ہاں امیجری ،رنگ آمیزی، تہ داری اور معنوی وسعت کے لیے علامات کا استعمال جابجا موجود ہے اور اس کے نمونے نثر پاروں سے زیادہ منظومات میں ملتے ہیں۔ بعض علامات ہماری علامات کے بر خلاف معنی رکھتی ہیں۔ مثلاً ہمارے یہاں ملاح اور کشتی کا تصور کچھ اور ہے تو ان کے ہاں کچھ اور ہے۔ ہمارے یہاں ملاح سے مراد سیاسی قائدیا رہنما کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے یہاں ملاح کشتی بان ہے۔ ناخدا اور لیڈر نہیں ہے۔اس کی توجیہہ شاید اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ناروے اور ڈنمارک میں جہاں کشتی بانی اور جہاز سازی ایک کلیدی اورقدیم صنعت ہے تیرا کی اسکاینگ (SKIING) لوگوں کے عام پیشے ،عادات اور تفریحی مشاغل میں شامل رہی ہیں اس لیے وہاں ملاح یا مانجھی کی وہ معنویت نہیں رہ جاتی جو ہندستان، پاکستان یا بنگلہ دیش کے ادب میں ہے۔ چوں کہ ہمارے یہاں ہر شخص تیراک نہیں ہے اور نہ کشتی چلانا جانتا ہے اس لیے ندی پار کرنے کے لیے لازماً ایک ملاح کی ضرورت پیش آتی ہے اوراس ملاح یا ما نجھی کو مسافروں کی کڑی تنقید سہنا پڑتی ہے جنہیں اپنے کھیون ہار سے خطرہ لگا رہتا ہے۔ اسی طرح باغبان کا تصور بھی ہمارے اور ان کے لیے جداگانہ نوعیت کا ہے۔اس مثال سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسکینڈیا نیویائی ممالک میں ادب اور زبان کے معانی و مطالب کی اہمیت کس قدر واضح ہے۔اسکینڈی نیویائی ممالک میں اردو زبان و ادب کے سرمائے وافر مقدار میں موجود ہیں۔سویڈش اور اردو کے مابین اختلاط سے مستقبل میں بہت بامعانی ادب تخلیق ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔
ماخذ و مراجع:
- عطش درانی ، ڈاکٹر ،اردو زبان اور یورپی اہل قلم، سنگ ِ میل، لاہور1967
- افتخار حسین، آغا، یورپ میں تحقیقی مطالعے، مجلس ترقی ادب ، لاہور1967
- اعجاز، ف۔سین، اسکینڈی نیویائی ادب نمبر، انشا پبلی کیشنز، کلکتہ1999
- معین الدین عقیل، ڈاکٹر، مشمولہ، ایشیاٹک سوسائٹی بنگال، ماہنامہ افکار(برطانیہ میں اردو نمبر) کراچی،1981