محمد زاہد اقبال خان آفریدی
(محقق، شعبۂ اُردو جامعہ کراچی)
پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس
(شعبۂ اُردو جامعہ کراچی)
اعجاز رحمانی کی نعتیہ شاعری میں نقوشِ سیرت النبی ﷺ
The Biographical impression of Hazrat Muhammad (S.A.W) in the naatya poetry of Eijaz Rehmani By Muhammad Zahid Iqbal Khan Afridi, Research Scholar, Department of Urdu, University of Karachi Professor. Doctor. Tanzim-ul-Firdos, Professor. Of Urdu, University of Karachi.
Naat is not any traditional poetry but it is something that have a particular quality and inclination.
To articulate the fundamental characteristics and practices of the beloved of Allah Pak, Hazrat Muhammad (ﷺ) is the real miracle, rather it is better to say that Naat cannot be said, but Allah Pak makes us says.
There are many poets in the world of Naat who have made their different standings by their maners, style and their allusions.
Among the poets migrated to Pakistan from Undivided Sub continent INDIA the prominent name of Natiya Poet is the name of Eijaz Rehmani (1936 to 2019).
He was such a name who kept his poetry life in embrace of Naat happily till the end of his life.
Versified biography is his specialization in Naat poetry. In his Naat, he amusingly conveyed the memoir of Hazrat Muhammad (ﷺ) which is not seen anywhere else.
اعجاز ؔ رحمانی (ولادت 16/فروری 1936ء)
“اعجاز رحمانی کی تاریخِ ولادت 16/فروری 1936ء ہے”۔ (آپ کی تاریخ پیدائش میں اختلاف بھی ہے) آپ کے والد گرامی کا نام سید ایوب علی ہے۔ بارہ سال کی عمر ہوئی تو اعجاز صاحب کے سر سے والدین کا سایہ اٹھ گیا۔ دادی صاحبہ کی نگرانی میں ان کی پرورش ہوئی۔ نامساعد اور ناساز گار حالات کے سبب اعجاز رحمانی کو اپنی تعلیم جاری رکھنے میں بڑی دشواریاں پیش آئیں۔ تاہم انہوں نے اپنے طور پر ادیب اور فاضل کے امتحانات پاس کیے۔ 1979ء سے 1982ء تک بلدیہ کراچی کے کونسلر رہے۔
ذریعۂ معاش کے لیے انہوں نے پہلے ابراہیم انڈسٹریز پھر پاکستان ٹوبیکو کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ شعر و سخن کا ذوق انہیں بچپن سے تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ اعجاز رحمانی کا شمار مشہور و معروف اور مقبول شعرا میں ہوتا ہے۔
ان کی شعری مجموعے آسمانِ رحمت” پر یکم دسمبر 2006ء کو علی گڑھ (بھارت) کی جانب سے ان کو “منارۂ ادب” کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ اعجاز رحمانی کی جملہ موضوعات پر مطبوعہ کتب کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔ “چراغِ مدحت” (1996ء) ……2۔ “آسمانِ رحمت”(2005ء) …….3۔ “گلہائے سلام و منقبت” (2013ء)……4۔ “عظمتوں کے مینار” (منظوم سوانح حیات خلفائے راشدین/2014ء)……5۔ “سلامتی کا سفر” (مسدس رحمانی/منظوم تاریخِ اسلام دو حصّے مکمل) “کلیاتِ غزل” جولائی 2013ء میں شائع ہوئی جس میں آپ کے پانچ غزلوں کے مجموعے” کاغذ کے سفینے” غبارِ انا” “لہو کا آبشار” “جذبوں کی زبان” اور “لباسِ غزل” “افکار کی خوشبو” شامل ہیں۔ آپ کی کلیاتِ نعت “اعجاز ِ مصطفی سے آبشار رحمت تک” (مطبوعہ مئی 2010ء) میں درج ذیل نعتیہ مجموعے شامل ہیں۔
“اعجازِ مصطفیٰ” “پہلی کرن آخری روشنی” “چراغِ مدحت” “آسمانِ رحمت اور “آبشار رحمت”۔ گلہائے سلام و منقبت” (2013ء) “عظمتوں کے مینار” (منظوم سوانح حیات خلفائے راشدین، 2014ء) “سلامتی کا سفر” (مسدس رحمانی/ منظوم تاریخِ اسلام دو حصّے) اوج (نعت نمبر 1) کے علمی مذاکرہ میں آپ اپنے افکار کے ساتھ شامل ہیں۔
آپ کے تذکرہ نگاروں میں مہر پیلی بھیتی، رئیس احمد، سید محمد قاسم، زاہد حسین انجم، کے علاوہ
مرتب “نعت نامے بنام صبیح رحمانی” اور منظرؔ عارفی بھی ہیں۔ اعجاز رحمانی کا انتقال 26/ اکتوبر 2019ء
میں کراچی میں ہوا۔ نیو کراچی 6/ نمبر قبرستان میں تدفین ہوئی۔
نعت:
رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد و ستائش کا نام “نعت” ہے۔ یہ وہ عظیم فن اور سعادت عظمیٰ ہے جسے ابتدائے اسلام سے ہی عروج اور قدر و منزلت حاصل رہی ہے نعت کی ابتدا کے حوالے سے مشہور ہے۔ جب کفار مکہ اشاعت دین کے سلسلے میں اشعار کے ذریعہ بھی رخنہ اندازیاں کرنے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بدزبان اعدائے دین کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے شعر و شاعری کے استعمال کا مفید مشورہ دیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ماینع الذین لمر و االلہ ورسولہ باسلحتم ان ینمر وہ بالسنتھم۔
ترجمہ: جن لوگوں نے خدا اور رسول کی مدد آلات حرب کی ہے وہ اپنا لسانی تعاون کیوں نہیں کرتے؟
اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر جن شاعروں نے لبیک کہا، ان میں حسّان بن ثابت بھی تھے جنھوں نے اپنی زبان باہر نکال کر کہا تھا کہ میں اس زبان کی ساری قوت بروئے کار لائوں گا خدا کی قسم اس زبان میں وہ طاقت ہے کہ اگر پتھر پر پڑھ جائے تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کردے۔1؎
ارشاد ہوا قریش کی ہجوکس طرح کرو گے حالانکہ میں بھی انہی میں سے ہوں۔ عرض کیا کہ:
لاسلک منھم کماننل الشعرۃ من العجین۔
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نکال لوں گا جیسے آٹے میں سے بال نکالا جائے۔
فرمایا تو تم نسب ناموس میں ابو بکر سے مدد لینا کہ قریش کے نسب میں اچھی واقفیت ہے۔ 2؎
نعت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ڈاکٹر فرمان فرمان فتح پوری نے بھی کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ:
“اصولاً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدح کے متعلق نثر اور نظم کے ہر ٹکڑے کو نعت کہا جائے گا لیکن اردو فارسی میں جب نعت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے عام طور پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی منظوم (نظم کی صورت میں) مدح مراد لی جاتی ہے” 3؎
اعجاز رحمانی کی منظوم سیرت نگاری اور نعت نویسی
اعجاز رحمانی نے بھی ابتدا غزل گوئی سے کی، لیکن جلد ہی اُن کا دل روحانیت کی طرف مائل ہوگیا اور انہوں نے نعت گوئی کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنالیا۔ اعجاز رحمانی اپنے ہم عصروں میں یوں بھی ممتاز ہیں کہ ان کے یہاں آمد ہے آورد نہیں۔ روایتی بندش اور تہذیب کا تسلسل پورے اہتمام سے ان کے یہاں جلوہ افروز ہے۔ لمبی اور مشکل بحروں کی بجائے اعجاز رحمانی نے سہلِ ممتنع کو فوقیت دی ہے۔ تلمیحات اور استعارے ایسے ہیں جن سے معانی در معانی نکلتے چلے جاتے ہیں۔ نعت میں ان کا اسلوب رواں، اور آہنگ تمام تر شعریات کے ساتھ موجود ہے۔
اعجاز رحمانی کی نعت گوئی صرف عقیدت اور جذبات سے مزین نہیں بلکہ عہدِ جدید میں ابھرنے والی اشکال کے جواب، تعلیماتِ نبوی اور سیرت کے فضائل و شمائل منطقی، استدلالی طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ عصرِ حاضر میں نعت گو شعرا کا کوئی بھی تذکرہ اعجاز رحمانی کے ذکر کے بغیر ادھورا ہی رہے گا۔
پاکستان کے دبستانِ نعت گوئی میں اعجاز رحمانی کو ایک معتبر مقام حاصل ہے۔ اعجاز رحمانی نے اپنے اسلوب اور فکر کو سیرتِ پاک ﷺ کی مختلف جہتوں سے مزین کیا ہے۔ سیرتِ پاک کے نقوش کے بہت سے دلپذیر عکس، جابجا ان کے کلام میں موجود ہیں۔
اعجاز رحمانی کی ادبی و شعری اہمیت سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کثرت سے اشعار کہے، اور کم و بیش ہر موضوع پر کہے۔ نعت اور منظوم سیرت اختصاص کی حامل ہے۔ وہ اپنے دور کے حساب سے عصری تعلیم یافتہ بھی تھے۔ ذریعۂ معاش کے حوالے سخت مصروفیات کے باوجود انہوں نے کم و بیش اپنی ساری زندگی شاعری کی نذر کردی۔ وہ فن شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لیے اپنے وقت کے معروف اور مستند استاد “استاد قمر جلالوی مرحوم” کے نہ صرف شاگرد بنے بلکہ تاحیات انہوں نے اس پر فخر بھی کیا۔ انہوں نے تسلسل سے مشاعرے پڑھے۔ اپنی شاعری معروف وغیر معروف و دیگر رسائل و جرائد اور اخبارات میں چھپوائی۔ ان کی شاعر “انتخابات” اور شاعری کے “خصوصی گوشوں” میں بھی شائع ہوتی رہی۔ جب الیکٹرانک میڈیا شروع ہوا تو وہ الیکٹرانک میڈیا سے بھی بھر پور وابستہ رہے، اور اپنی شاعری کا ابلاغ کرتے رہے۔ اپنی کتابیں چھپوانے میں بھی انہوں نے وقت ضائع نہیں کیا اور انہیں وقت پر شائع کرایا تاکہ وہ زمانے سے متّصل رہیں۔ شاعری میں انہوں نے اپنی محنت لگن اور جنون سے اتنا نام کمایا کہ بیرون ملک مشاعروں میں خصوصیت کے ساتھ بلائے جانے لگے۔ کم از کم کراچی میں کوئی شعری نشست، کوئی مشاعرہ ان کی شرکت کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ نقادوں، تقریظ نگاروں، تبصرہ نویسوں، تذکرہ نگاروں نے ان کی شخصیت اور ان کی شاعری پر بے لاگ مقالے، مضامین اور ریویو لکھے، اور ہر سطح سے ان کی شاعرانہ اہمیت کو اجاگر اور متعین کرنے کی سعی، اور علم و فن کی بنیاد اور کسوٹی پر اس کا محاکمہ و محاسبہ کرنے میں کسی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔ ان کی شاعری کی اہمیت و خصوصیت کے پیش نظر پاکستان کی جامعات نے ان پر اپنے ریسرچ اسکالرز سے “ایم۔ اے کے تحقیقی مقالے بھی لکھوائے، اور یوں اُن کا مقام جامعاتی سطح پر بھی متعین کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے نہ صرف اُردو شاعری میں اپنا مقام پیدا کیا بلکہ تنقید، اور تبصرے، تجزیے اور تقاریظ بھی لکھ کر اپنے آپ کو اُردو ادیب بھی منوایا۔ بلاشبہ جب تک اُردو شعرا و ادیب پر کوئی علمی و تحقیقی کام ہورہا ہے ان کی اہمیت و خصوصیت سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔
اعجاز رحمانی کی مطبوعہ کتب کی تفصیل اور ان کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔
1۔ “چراغِ مدحت” مطبوعہ (1996ء، قومی ادبی سوسائٹی پاکستان کراچی اے 44/ سیکٹر ایم 5۔ نارتھ کراچی/ کل صفحات 240/اس کتاب پر ڈاکٹر عبدالغنی (صدر انگلش پٹنی یونیورسٹی بہار (بھارت) /ڈاکٹر سید عبدالباری شبنم سبحانی (صدر ادارۂ ادب اسلامی ہند، صدر شعبۂ اُردو اودھ یونیورسٹی سلطان پور یوپی (بھارت) کے مضامین اور “تحدیثِ نعت” کے عنوان سے اعجاز رحمانی کی تحریر ہے۔
2۔ “آسمانِ رحمت” (مجموعۂ نعت) / 2005ء/ادارہ مدحتِ رسول/ اے 44 / سیکٹر ایم 5۔ نارتھ کراچی/ کل صفحات 320/اس کتاب پر خواجہ رضی حیدر نے مضمون اور فلیپ انوار عزمی، اور “اپنی بات” اعجاز رحمانی نے تحریر کی۔
3۔ “گلہائے سلام و منقبت” (2013ء/شیخ شوکت علی اینڈ سنز کراچی/ کل صفحات 371/اس کتاب پر “مقدمہ” علامہ سید رضی جعفر نوی اور “حروفِ سپاس” اعجاز رحمانی نے تحریر کیا ہے۔
4۔ عظمتوں کے مینار” (منظوم سوانح حیات خلفائے راشدین) 2014ء/مدینۃالادب انٹر نیشنل مکان نمبر اے 44/سیکٹر ایم 5۔ نارتھ کراچی/ اس کتاب پر مولانا مزّمل مدّثر فاروقی (دارالعلوم کراچی) نے مضمون اور “کچھ اپنے بارے میں” کے عنوان سے اعجاز رحمانی کی تحریر ہے۔
5۔ “سلامتی کا سفر” (مسدس رحمانی/منظوم تاریخِ اسلام دو حصّے) مکمل / کل صفحات 849/ “اظہارِ خیال” ڈاکٹر عاصی کرنالی (ملتان ) اور الطاف حسین قریشی (مدیر اُردو ڈائجسٹ) “دیباچہ” محسن بھوپالی” اعتراف” اعجاز رحمانی اور “حرفِ آخر” ناصر زیدی (لاہور) نے تحریر کیا۔
اعجاز رحمانی کی کلیات نعت کا نام، “کلیاتِ نعت، اعجازِ مصطفیٰ سے آبشارِ رحمت تک” ہے۔ اس کلیات میں شامل کتب کے نام اور ان پر لکھنے والوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1…… پہلی کتاب “اعجازِ مصطفی” (اس میں پیش لفظ ممتاز حسین ]گورنر نیشنل بینک آف پاکستان[ نے تحریر کیا)
2……. دوسری کتاب “پہلی کرن آخری روشنی” (مضمون ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان (ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ اُردو سندھ یونیورسٹی کا تحریر کردہ ہے)
3…… تیسری کتاب “چراغِ مدحت” (مضامین: ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفی، اور ڈاکٹر بشارت علی نے تحریر کیے)
4…… چوتھی کتاب “آسمانِ رحمت” (مختصر تحریر: شاہ مصباح الدین شکیل }سیرت نگار{)
5…… پانچویں کتاب “آبشارِ رحمت” (مضامین: ڈاکٹر احسان الحق اور افسر ماہ پوری)
ڈاکٹر شہزاد احمد نے لکھا ہے کہ “افکار کی خوشبو” میں احادیث مقدسہ کو منظوم کیا گیا ہے” جبکہ منظرؔ عارفی کے خیال میں یہ درست نہیں بلکہ منظرؔ عارفی لکھتے ہیں کہ “افکار کی خوشبو” میں احادیثِ مبارکہ کے معنیٰ و مفاہیم کی شعری صورت گری کی گئی ہے۔ احادیث کو منظوم کرنا اور احادیث کے معنیٰ و مفہوم کو منظوم کرنا دو الگ الگ عمل ہیں”۔ منظر عارفی) 1؎
منظوم سیرت نگاری
نثر میں سیرت نگاری کے ساتھ ساتھ ہی منظوم سیرت نگاری کا روشن سلسلہ بھی روع ہوگیا تھا۔ اس حوالے سے اردو کی اب تک پہلی قدیم ترین اور مکمل مطبوہ کتاب “دہشت بہشت” (شاعر: ملا باقر آگاہ، مطبوعہ 1790ء) ہے۔ جو منظوم ہے۔ اس منظوم سیرت نگاری نے بھی اپنے مختلف پہلو اور اسالیب و ضع کیے۔ چنانچہ اب اردو زبان بھی منظوم سیرت نگاری کے حوالے سے کیفیت، کمیت، تنوع ہر اعتبار سے باثروت ہے۔
منظوم سیرت نگاری کے حوالے سے مراد یہ ہے کہ شاعر نے واقعات سیرت کو نظم کیا ہو۔ اس نے ہیتی طور پر جو صنف بھی اختیار کی ہو، پھر اس میں وہ تھریریں بھی شامل ہیں جن میں جزوی طور پر بعض واقعات کو نظمایا گیا ہے۔ مثلاً واقعات ولادتِ نبوی، واقعۂ معراج، یا حادثۂ وفات وغیرہ۔ اسی طرح بعض شعرائے کرام نے سراپائے نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم، شمائلِ نبوی، یا حلیۂ مبارک کو نظم بند کرنے کی سعی کی ہے۔ نیز اخلاق و عادات، غزوات، اولاد و ازدواج، یا کسی اور ایسے پہلو پر لکھی جانے والی منظوم بھی اس میں شامل ہیں۔
اردو میں منظوم سیرت نگاری کا آغاز خود اردو کی اپنی تاریک سے جڑا ہوا ہے۔ جس قدر اردو قدیم ہے اسی قدر اس میں لکھی جانے والی منظوم سیرتوں کی تاریخ بھی قدیم ہے۔ ابتدائی ترین تحریروں کے وہ جملے، جن سے اردو کی تاسیس وابستہ کی جاتی ہے سب کی سب حمد و نعت سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ ابھی اردو کا ہی امتیاز ہے کہ اس کی پیدائش ہی مذہب کی گود میں ہوئی ہے۔
ہم یہاں منظوم سیرت کی صرف ان کتب کے نام پیش کریں گے جن کے نام، تخلیق کار اور سالِ اشاعت محفوظ ہیں، تاہم ان ناموں کو بھی تمام تر نہیں کہا جاسکتا۔ بعض کتابیں ایسی بھی ہیں جن پر یا تو شعرا کے نام نہیں یا ان پر تاریخ اشاعت موجود نہیں ان کا ذکر موقوف ہے۔
“ہشت بہشت” (ملا باقر، مطبوعہ 1790ء) “عروس المجالس” (قاضی قاسم مہری، مطبوعہ 1794ء) “نور نامہ” (محمد فاضل، مطبوعہ 1842ء) “مصباح المجالس” (قاضی غلام علی مہدی، مطبوعہ 1844ء) “ہیبتِ حیدری” (سید واجد علی شاہ بادشاہ اختر، مطبوعہ 1848ء) “سراپائے رسولِ اکرم ” (محسن کا کوروی، مطبوعہ 1852ء) “اخلاقِ النبی” (مولانا عبدالحی، مطبوعہ 1857ء) “پانچ رسائل” (مولوی حکیم معصوم علی فتح پوری، مطبوعہ 1860ء) “مولود شریف بہاریہ” (محمد کفایت علی کافی مراد آبادی، مطبوعہ 1860ء) “معراج نامہ قاسم” (میر قدرت اللہ خان قاسم۔ مطبوعہ 1864ء) “مولود شریف ” (امام بخش ناسخ، مطبوعہ 1868ء) “مولد شریف” (مرزا علی بہار، مطبوعہ 1853ء)”مجموعہ (محمد عبدالغنی شاہ غنیؔ، مطبوعہ 1869ء) “حلیہ مبارک” (مولوی غلام رسول، مطبوعہ 1865ء) 4؎
منظوم سیرت نگار اعجاز رحمانی
اعجاز رحمانی کا تفصیلی تعارف سطورِ بالا میں گزرا آپ بھی نہ صرف “منظوم سیرت” کے شاعر ہیں بلکہ نعت کہنے میں بھی اپنی ایک خاص شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں میں ان کے صرف ایک نعتیہ مجموعہ “آسمانِ رحمت” جو 320 صفحات پر مشتمل ہے اور جسے ادارۂ مدحتِ رسول اے 44/ سیکٹر 5۔ ایم۔ نارتھ کراچی نے 2005ء میں شائع کیا ہے، سے وہ اشعار پیش کروں گا جس میں جزوی طور پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نقوشِ کی صورت گری کی گئی ہے۔ اس حوالے سے شاعر موصوف نے اپنی نعتوں میں عموماً انہیں باتوں کو نظم کیا ہے جو مشہور و عام اور کم و بیش روایتی ہیں تاہم وہ اعجاز رحمانی کی نعتیہ شاعری کا اٹوٹ حصّہ ہیں۔
ہمارے یہاں نعت کا ایک مشہور موضوع یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے اندھیرے دور ہوگئے اور ہر طرف اجالا ہی اجالا پھیل گیا۔ اس مضمون میں “اندھیرا ” اور “اجالا” علامت کے طور پر ہوتا ہے، حقیقی طور پر نہیں، یعنی یہ نہیں ہے کہ اب رات میں بھی اندھیرا نہیں ہے بلکہ وہ دن کی طرح روشن ہے۔ یا اس مقام پر جہاں سروج کی روشنی کا گزر نہیں یا چراغ یا بلبل نہیں جل رہا، وہاں بھی اندھیرا نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس اندھا دھند جہالت کا اندھیرا نہیں رہا جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے دنیا پر مسلط تھا۔ آپ کی تحریک پر لوگ علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہونے لگے اور علم کا اُجالا، پھیلنے لگا۔ لوگ سفاکی اور بربریت کے اندھیرے میں غوطہ زن تھے۔ آپ کی تعلیمات نے انہیں اس اندھیرے سے نکالا اور انہیں محبت اور اپنائیت کے اجالے میں لے آئے، علیٰ ھٰذا القیاس۔ اس مضمون کو اعجاز رحمانی نے کئی اشعار میں اور مختلف پیرائے میں پیش کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
آتے نہ اگر آپ اندھیرے نہیں جاتے
ہوتی نہ شبِ غم کی سحر، رحمتِ عالم! 5؎
لیکن اس شعر میں ایک نکتہ ان کی نظر سے رہ گیا اکثر شعرا اس قسم کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے، اور ان کا بہت اچھا شعر بہت اچھا نہیں رہ پاتا۔ وہ کہتے ہیں “شبِ غم کی سحر نہیں ہوتی” اس کا مطلب ہے کہ شبِ غم سحر پاکر اور عروج پر پہنچ جاتی۔ یہاں صرف “کی” اور “میں” کا مسئلہ ہے اگر مصرع یوں ہوتا ہے کہ “شب غم میں سحر نہیں ہوتی” تو بات بن جاتی۔ چراغ کمرے کے اندھیرے کی روشنی نہیں ہوتا، بلکہ چراغ سے کمرے کے اندھیرے میں روشنی ہوتی ہے۔
اسی نعت کے چند اور اشعار دیکھیے:
حیران ہے تاریخ، کہ طے کیسے کیا تھا
اِک رات میں صدیوں کا سفر، رحمتِ عالم!
یہ آپ کا صدقہ ہے جو دنیا میں ہے جاری
تہذیب و تمدن کا سفر رحمتِ عالم!
یہ علم کی دولت بھی ہمیں آپ نے دی ہے
بخشا ہمیں جینےکا ہنر رحمتِ عالم!
تخصیص نہیں کوئی جہاں شاہ و گدا کی
وہ در ہے فقط آپ کا در رحمتِ عالم!
مذکورہ تمام مضامین گو کہ سیرت نبوی کے ہیں لیکن مشہور و عام ہیں۔ بعض اغلاط بھی ثابت ہوتی ہیں، مثلا پہلے شعر میں “اک رات میں صدیوں کا سفر” محلِ گفتگو ہے۔ یہاں سفر معراج کا ذکر ہے۔ جس کے بارے میں قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے “ہم نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو سیر کرائی رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں…….” ۔ اعجاز رحمانی جیسے منظوم سیرت نگار شاعر نے اسے “ایک رات میں ” لکھا ہے۔
اسی طرح “تہذیب و تمدن” کا سفر محلِ گفتگو ہے۔ تہذیب و تمدن کا سفر تو اس وقت سے جاری ہے جب سے دنیا قائم ہوئی ہے۔ ہاں تہذیبِ جدید، اور تمدن احسن کا سفر یقیناً آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات اور ترغیب سے شروع ہوا، اور اپنی انتہاؤں پر پہنچا۔
اسی طرح کم یا مخدوش عالم میں علم یا غیر نافع علم تو پہلے بھی تھا۔ خصوصاً مذہبی طبقے کے سرکردہ لوگ بالکل نہیں چاہتے تھے کہ لوگ جدید علم کی طرف توجہ بھی دیں۔ تاریخ میں موجود ہے کہ یورپ میں ایک لڑکی کو اس وقت کے مذہبی ٹھیکے داروں نے اس لیے مار مار کر ہلاک کردیا تھا کہ اس نے کسی محفل میں ایک ادبی مقالہ پڑھ دیا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دنیا کو علمِ نافع علیٰ وجہ الکمال عطا فرمایا۔ زندگی اور موت سے تعلق رکھنےو الا کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی گفتگو، مشورے ، اور حکم نہ ملتے ہوں۔ اس شرط کے ساتھ علمِ جدید علیٰ وجہ الکمال بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہی عطا فرمایا۔ آج بھی اس کا منبع و ماخذ قرآن مجید اور احادیث و عملی سیرتِ رسول ہےجو ہمارے ہی نہیں ساری دنیا کے سامنے محفوظ ترین صورت میں موجود ہے۔
اسی طرح جی تو انسان پہلے بھی رہے تھے لیکن اپنی اپنی مرضی سے۔ نہ کوئی ضابطہ تھا نہ اصول، انسانوں کا کچھ حصّہ جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر فریفتہ تھا۔ کچھ نے کچھ طریقے اختیار کیے ہوئے تھے، کچھ نے کچھ۔ ایسے میں بہت ہی کم لوگ ایسے بھی تھے جو اس قسم کی خباثت کی آلائشوں سے اپنے آپ کو بچائے ہوئے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ والہ وسلم نے ساری دنیا کےانسانوں کو شریعتِ مطہرہ کے مطابق زندگی گزارنے کا لافانی علم دے کر زندگی گزارنے کا ایک انقلابی منشور پیش کردیا۔ جس سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم دنیا بھی مستفیض ہورہی ہے اور اس کے فوائد و برکات کا برملا اقرار بھی کر رہی ہے۔ اور اس حوالے سے رسول کی احسان مند بھی ہے۔
اسی طرح بحیثیت انسان تو یقیناً تمام انسان آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے در پر برار ہیں۔ لیکن ایمان، تقویٰ، پرہیز گاری، خدمتِ دین، خثیت الہٰی، اور محبت رسول کی بنیاد پر یقیناً تمام انسان آپ کے در پر بھی برابر نہیں ہیں۔ کیا یہ کہا جاسکتا ہے خلفائے راشدین، حسنین، کریمین، اہلِ بیت اطہار کے نفوسِ قدسیہ، امہات و بناتِ رسول، فرزندان رسول اور پھر آپ صلی اللہ ولیہ والہ وسلم کی امت کے صحابہ وعلمائے کبار، و مشائخینِ عظام علیٰ ہذا القیاس، اور ہمارے جیسے ہما و شما کیسے برابر ہوسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن ِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے “علم والے بے علم والوں کے برابر کیسے ہوسکتے ہیں”۔
اس قسم کے مضامین کو باندھنے کے لیے شعرا کا سیرت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے متعلق تمام پہلووں، ورنہ کم از کم بنیادی اور ضروری پہلوؤں سے واقف ہونا انتہائی ہے نہ واجب، نہ سنت ہے نہ نفل بلکہ مستحب بھی نہیں ہے۔ لیکن جو اس کا واقعی اہل ہو۔ جس نے یہ کام چھیڑ دیا اسے اس کا حق عظیم ادا کرنا ہی پڑے گا۔
اعجاز رحمانی کی نعت سے چند اشعار اور ملاحظے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔
اُن کو بھی اماں دی ہے جو تھے خون کے پیاسے
رحمت ہی برستی رہی رحمت کی گھٹا سے 6؎
آمدِ سرورِ عالم کی بدولت جاگی
وہ جو صدیوں سے تھی سوئی ہوئی قسمت جاگی
زہن تبدیل ہوئے آپ کی سیرت کے طفیل
آگ نفرت کی بجھی، دل میں محبت جاگی
آپ نے زندہ کیا مردہ ضمیروں کو حضور!
آپ کے دور میں انسان کی غیرت جاگی
آپ نے توڑ دی زنجیرِ غلامی آقا!
وہ جو آزاد تھی انسان کی فطرت جگی 7؎
“رحمت کی گھٹا” حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات سے ہمیشہ رحمت ہی برسی، اور کیوں نہ برستی آپ کے رب نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ کسی معمولی سی بھی زحمت کا یہان تصور بھی کرنا ظلم عظیم ہے۔ لیکن آپ کی سیرت کا روشن پہلو یہ ہے، کہ آپ نے صرف اپنے ان دشمنوں کو امان دی جنہوں نے آپ پر وار کیے۔ آپ کو ایذا دی۔ اللہ کے دشمنوِ دین کے دشمنوں، عزت کے دشمنوں کے حوالے سے آپ کے فیصلے دوسرے تھے۔ اسلامی لشکر جس میں آپ بذاتِ خود موجود ہوتے۔ ان سے لڑنے اور جنگ کرنے والی عسکری قوتوں کو آپ نے مکمل نہیں بلکہ مشروط امان سے نوازا۔ اور یہی علیٰ وجہ الکمال رحمتہ اللعالمینی کا مقام ہے۔ ڈھیٹ، بے مغر، نہ سمجھنے والوں کے لیے قانونی کاروائی ضروری ہوتی ہے اس کو نہ ظلم سمجھا جاتا ہے۔ نہ یہ رحمت ورافت و شفقت کے خلاف ہے۔ انسانی جسم میں اگرکوئی عضو پورے انسانی جسم کو نقصان پہنچا رہا ہو، اور سارے جسم کی تکلیف کا باعث بن رہا ہو، اور کسی بھی علاج سے اس کا صحت مند ہونا ناممکن ہوجائے تو ڈاکٹر اسے کاٹ کے جسم سے اس لیے علیحدہ کردیتا ہے کہ بقیہ جسم اس کی تاخت و تاراجی سے محفوظ ہوجائے۔ دہشت گرد عضو کے لیے ڈاکٹر کا یہ بے رحمانہ فیصلہ سارے پُر امن جسم کے لیے انتہائی رحیمانہ ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اگر غلیظ عناصر کے خلاف ایسی کاروائیاں نہ فرماتے تو ایک تو فطرت کے خلاف تھا دوسرے اس سے رحمت اللعالمینی کے مجلّا آئینے پر ایسے داغ لگتے جن کا صاف کرنا ممکن نہ ہوتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دی ہوئی جزا ہو یا سزا دونوں رحمت اللعالمینی کا آئینہ ہیں۔
اعجاز رحمانی کے چند اور نعتیہ شعر دیکھیے:
آپ نے محنت کی عظمت کا لوگوں کو احساس دیا
آپ سے پہلے دنیا میں خوش حال کوئی مزدور نہ تھا
پیار سے پتھر دل والوں کو آپ نے ہی تسخیر کیا
آپ کے خُلق سے وار کسی تلوار کا بھی بھر پور نہ تھا 8؎
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے زیادہ تر لوگ بھیک مانگنے، چھیننے جھپٹنے اور انتہائی مفت خوری کی عادی تھے۔ اس حوالے سے انہیں نہ اپنی عزت کا احساس تھا نہ اس بات کا خیال کہ وہ دوسروں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے معاشرے کے ایسے افراد کو اوّل تو ایسے کاموں پر لگایا جس کے وہ اہل تھے۔ یا جن کو کچھ نہیں آتا تھا ان کو مزدوری کی راہ دکھائی۔ اور اپنے اقوال سے قیامت تک کے لوگوں کو اس بات کا درس دیا کہ اچھا پیشہ اگرچہ کتنا ہی چھوٹا ہو اور کتنی ہی ارزاں جگہ پر ہو، ہر گز برا نہیں۔ بلکہ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس عظیم حکمت نے ایک انقلاب برپا کردیا۔ لوگوں کو اپنی عزت کا اور دوسروں کی حفاظت کا احساس ہوا چوری چماری، بھیک مانگنا، اور مفت خوری کرنا انہوں نے چھوڑ دیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے مدینے شریف اور تمام جگہوں پر جہاں تک اس وقت آپ کی تعلیمات پہنچی لوگ عزت سے اپنی روزی کمانے لگے بلکہ دوسروں بہت سوں کے لیے بھی حلال اور محنت کی روزی کا سہارا بن گئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہجرت کے بعد جلد ہی وہ وقت آگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کوششوں سے مدینے کے لوگ اپنی پچھلی زندگی کے مقابلے میں خاصے خوش حال ہوگئے تھے۔
صدیوں سے ایک مخدوش تہذیب کے عادی ایسے لوگ بھی تھے جو اگرچہ صاحبِ دولت ہوگئے تھے، ان کے پاس خاصا مال وزر تھا تاہم وہ اپنی پرانی تہذیب کے باوصف اپنے ظاہر کو ویسے ہی پھٹے حال رکھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کو یا ان جیسے ہی لوگوں کو فرمایا”جب اللہ تعالیٰ تمہیں مال و دولت عطا فرمائے تو اس کا اظہار اپنے ظاہر سے بھی کرو” (اوکما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس زمانے میں مبعوث ہوئے۔ وہ ہر طرح سے بڑا عجیب زمانہ تھا، اس زمانے میں بڑے عجیب عجیب لوگ تھے۔ سخت دلی اور بے رحمی تو اتنی عام تھی جس کا بیان بھی مشکل ہے۔ کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں تھا یہاں تک کہ لوگ اپنے جسم و جاں پر بھی ظلم کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کا ایک اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کا بھی شافی علاج کیا۔ انہیں بے رحمی اور پتھر دلی سے نجات عطا فرمائی۔ مسلسل ان کی تربیت کی۔ یہاں زبانِ نبوت اور چشمانِ نبوت دونوں کام کر رہی تھیں، اور معاشرہ تیزی سے سدھار کی طرف گامزن ہورہا تھا، اور یہ کام، اور اتنا بڑا کام آپ نے کسی سختی سے نہیں کیا، کسی کو کوڑوں کی سزا نہیں دی۔ کسی جو جیل میں بند نہیں کیا۔ اس حوالے سے کسی کا سوشل بائیکاٹ بھی نہیں کیا۔ بلکہ اپنے اُس حسنِ اخلاق کو استعمال فرمایا جس کے بارے میں خود آپ کا فرمان تھا، کہ “میں تو تمہارے ادھورے اخلاق کو مکمل کرنے آیا ہوں”۔ اسی اخلاق کی تلوار سے آپ نے معاشرے سے بے رحمی اور پتھر دلی کے دیو کا قلعہ قمع کردیا۔ لوگ نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ اپنے لیے بھی نرم دل، اور رحیم و کریم ہوگئے۔ جو کسی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے، اب ان کے لیے جان دینے لگے۔ آنسو بہانے لگے۔ کچھ عرصہ پہلے کا معاشرہ، گواہی دینے لگا کہ یہی معاشرہ اب ایک جدید ترین معاشرہ ہے جسے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اخلاقِ کریمانہ کی تلوار دو دم سے سنوارا ہے، جو نہ کسی کا خون بہاتی ہےنہ کسی کو گھاؤ لگاتی ہے۔
لوہے کی تلوار کا وار اگر اوچھا پڑ جائے تو جس پر وار کیا گیا ہے وہ بچ جاتا ہے، لیکن بچ کر مزید خطرناک ہوجاتا ہے، اور اگر یہ وار کامیاب پڑ جائے تو مقتول کا سارا خاندان، اور اگر وہ قبیلہ بھی رکھتا ہے تو سارا قبیلہ بھی تلوار مارنے والے کا جانی دشمن بن جاتا ہے۔ تانکہ اس کو قبر میں پہنچا کر ہی دم لیتا ہے۔ لیکن اخلاق ایک ایسی تلوار ہے جس کا وار اگر پورا پورا کامیاب پڑ گیا تو آدمی ایسا انسان بن جاتا ہے جس کو فرشتے سلام کرتے ہیں اور اگر اوچھا پڑ جائے، تو اس ے لگنے والے ہلکے سے زخم، ہلکے سے چیرے، ہلکی سی خراش سے ایسی لذّت آگیں کسکیں اُٹھتیں ہیں، کہ مضروب بے چین ہوجاتا ہے، اور بھاگتا ہے اخلاق کی تلوار مارنے والے کی طرف تاکہ اخلاق کی تلوار مارنے والے کی پوری کامیاب تلوار کھا کر شہیدِ ناز بن جائے۔ اور وہ ساری لذتیں آن کی آن میں حاصل کرلے جس کا ہلکا سا مزا اُسے تڑپا رہا ہے، اور بے چین کیے ہوئے ہے۔
اسی حوالے سے اعجاز رحمانی کے کئی اشعار ان کے مذکورہ مجموعۂ نعت میں ملتے ہیں جیسے:
یہ جو اخلاق کی انساں کے بدن پر ہے قبا
سب سے پہلے مِرے سرکار نے پہنائی ہے -9؎
اعجاز رحمانی کی نعت کے چند اور اشعار ملاحظہ کیجیے:
آپ کے قدموں سے وابستہ آج بھی منزل عظمت کی
آج بھی انسانوں کی رہبر صرف شریعت آپ کی ہے
اب تک تو نازل ہو جاتا اس دنیا پر رب کا عذاب
روکے ہوئے اس بربادی کو آقا رحمت آپ کی ہے 10؎
پہلے شعر کے مضمون پر کسی کو کیا شک، لاریب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ہی وہ عظمت و رفعت عطا فرمائی ہے کہ تمام عظمتوں منزلتوں کی عظمت آپ ہی کے قدموں سے وابستہ۔ جسے دنیا اور آخرت کی عظمتوں کی تلاش ہے اُسے صرف ایک مقام پر پہنچنے کا حکم ربانی ہے کہ “ہمارے رسول ہمارے محبوب مکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے قدموں میں پہنچو، اور طلب کرو ان سے عظمتِ دارین وہ تمہیں عطا فرمائیں گے۔ کیونکہ وہ خالی ہاتھ نہیں ہیں، ہم نے انہیں زمین اور آسمانوں کے خزانوں کی کنجیاں عطا کردی ہیں۔ انہیں اپنے خزانوں کا مالک بنادیا ہے”۔ اُن سے مانگو، اُن سے لو، کیا چیز تمہیں اُن سے نہیں ملے گی۔
اور دوسرا شعر قرآن ِ مجید کی اُس عظیم الشان آیت کی شعری تصویر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دشمنوں اور ایذا رسانوں کے بارے میں آپ کو دلاسا دیتے ہوئے فرمایا:
“اے حبیبِ! ان پر کوئی بڑا عذاب، کوئی اجتماعی ہلاکت ہم اس لیے نازل نہیں کر رہے کیونکہ اے حبیب! آپ اِن میں موجود ہیں” (آپ ان میں موجود نہ ہوتے تو ان کی نافرمانیوں اور سرکشیوں کے باعث ہم کب کے ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا چکے ہوتے) (اوکما قال اللہ تعالیٰ عزو جل)
اعجاز رحمانی کی نعت کے چند اور اشعار دیکھیے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کتنے گوشے انہوں نے اپنی نعتیہ شاعری میں منظوم کیے ہیں۔ اگرچہ سب مشہور و عام ہیں تاہم کثیر اردو نعت نگاروں کے ہجوم میں یہ روشن گوشے اعجاز رحمانی کو بہر حال منفرد بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں:
جہانِ تیرگی میں روشنی کا انقلاب آیا
بشکلِ مصطفیٰ علم و عمل کا آفتاب آیا
قدم جب رحمتہ اللعالمیں کے آئے دنیا میں
اُسی دن جبر و استبداد کا یومِ حساب آیا
ستم کی دھوپ میں پھیلا دیے سائے محبت کے
یہ کون آیا جو لے کر ساتھ رحمت کا سحاب آیا 11؎
پہلے شعر میں “جہانِ تیرگی” کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا جہان اندھیری رات کی طرح اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہر معاملے میں، ہر مسئلے میں اتنی پستی، اتنا نکما اور ادھورا پن تھا جو اندھیرے کی مصداق تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت ہوئی تو ہر معاملے اور ہر مسئلے میں بلندی، قابلیت و تکمیلیت کی روشنی کا انقلاب آگیا۔ اور دوسرے مصرعے کا مضمون ثابت ہوگیا۔
ویسے علمی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے مصرعے میں “آفتاب” اور دوسرے مصرعے میں “انقلاب ” نظم کیا جاتا۔ اندھیرے میں روشنی ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ روشنی کا سروج طلوع ہوگیا، اور “بشکلِ مصطفیٰ علم و عمل کا” جملہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے “انقلاب” کہا جائے۔ کیونکہ انقلاب بہرحال آفتاب سے بہر جہت فزوں تر ہے۔ زبان بھی یہی ہے کہ اگر سوکھی کھیتیاں اچانک ہری سر سبز اعجاز رحمانی کا ایک اور شعر دیکھیے۔ اس مضمون کو کم و بیش ہر نعت نگار شاعر نے اپنی نعت میں موضوعِ سخن بنایا ہے۔
آج بھی رہنمائی ہماری
آپﷺ کے نقشِ پا کر رہے ہیں 12؎
اس شعر میں یا اس قسم کے اشعار میں “نقشِ پا” مطلب یہ نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم زمین پر چل رہے تھے اور آپ ﷺ کے پاؤں شریف کے نشان زمین پر بنتے جارہے تھے۔ چنانچہ یہی نشان آج تک رہنما بنے ہوئے ہیں کہ لوگ ان کو دیکھتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ جائیں۔
بلکہ یہاں نقشِ پا کا مطلب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات، مشورے، احکامِ اوامرونہی، سیرت، اقوال، افعال وغیرہ ہیں جو قیامت تک کے لیے بنی نوعِ انسان کی منزل تک پہنچنے کے لیے رہنما بنے ہوئے ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت کے بعد ممکن ہی نہیں رہا کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا شخص حضور کی سیرت مطہرہ کی پیروی کیے بغیر، آپ ﷺ کے اقوال و افعال کی مشعلوں کو روشن کیے بغیر، آپ کی تعلیمات، مشوروں، اور احکامِ امرونواہی سے صرفِ نظر کر کے دنیا و آخرت کی کوئی بھی منزل پالے۔ یہ منزلیں دنیاوی حوالوں سے خواہ سماجی ہوں، سیاسی ہوں، معاشی ہوں، عمرانی ہوں، اقتصادی ہوں، تجارتی ہوں، صنعتی ہوں، آقائی ہوں، مولائی ہوں، ان کا تعلق فردِ واحد کی ذات سے ہو، گھر اور خاندان سے ہو، محلّہ یا ٹاؤن سے ہو، ضلع یا شہر سے ہو، ملک یا دنیا بھر سے ہو۔
اور اُخروی حوالوں سے قضا کی ہوں، قبر کی ہوں، برزخ کی ہوں، حشر کے دن دوبارہ جی کر اُٹھنے کی ہوں، حشر کے ان ایام کی ہوں، جن ک ایاک دن پچاس ہزار برس کا ہوگا۔ پلِ صراط سے گزرنے کی ہوں، میزان پر جانے کی ہوں، حساب و کتاب کی ہوں۔ حوضِ کوثر پر جا کر سیراب ہونے کی ہوں، شفاعت کبریٰ و صغرا کی ہوں، جنت کا مکین ہونے کی ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس مضمون کے کئی اشعار اعجاز رحمانی کے نعتیہ مجموعے میں موجود ہیں مثلا ایک شعر اور دیکھیے:
راستے خلد کے سب شاہِ اُمم آپ کے ہیں
رہنمائی کے لیے نقشِ قدم آپ کے ہیں 13؎
اعجاز رحمانی کا مذکورہ نعتیہ مجموعہ “آسمانِ رحمت” ضخیم مجموعہ ہے جس میں بلاشبہ کئی سو اشعار ہیں۔ جن میں کئی درجن اشعار ایسے ہیں جن میں سیرتِ نبوی علیٰ صاحبہا کے آئینے جگر جگر کر رہے ہیں۔ تمام اشعار پر گفتگو کی بھی نہیں جاسکتی اگرچہ یہ ان اشعار کا حق ہے کہ ان پر سیرتِ نبوی کے تناظر میں گفتگو کی جائے، میں بلاگفتگو اور اشعار پیش کر کے ان دو نعتوں کو بھی پیش کروں گا جن میں زیادہ تر اشعار سیرتِ نبوی علیٰ صاحبہا سے ضوفشاں ہیں ورنہ ان کی نعتوں میں ایک، دو یا زیادہ سے زیادہ تین اشعار ہی سیرتِ نبوی علیٰ صاحبہا کے حوالے سے ملتے ہیں وہ بھی تمام نعتوں میں نہیں۔ اشعار ملاحظہ کیجیے:
جسمِ انسانیت کو شاہِ اُمم
آپ نے زندگی عطا کی ہے
جبر سہ کر نبی نے طائف میں
قیمتِ دینِ حق ادا کی ہے
ایک اُمی رسول نے اعجازؔ!
روشنی فکر کو عطا کی ہے 14؎
پیرویِ رسول کے صدقے
موت رحمت ہے، زندگی رحمت 15؎
دنیائے رنگ و بو میں سیرت نے مصطفی کی
آداب زندگی کے ہم کو سکھا دیئے ہیں 16؎
اعجاز رحمانی کا تقدیسی اندازِ سخن ملاحظہ کیجیے:
آدمی کو غم و آلام سے فرصت دے دی
آپ نے علم کی عرفان کی دولت دے دی
خشک مزدور کے ماتھے کا پسینہ نہ ہوا
اِس سے پہلے مِرے سرکار نے اُجرت دے دی
آپ نے روک دیا مشغلۂ جور و ستم
آپ نے دھوپ میں سائے کی ضمانت دے دی
آپ نے عقل کے اندھوں کو عطا کی آنکھیں
نور آنکھوں کو دیا دل کو بصیرت دے دی
دور ذہنوں سے کیا آپ نے سرکار! ابہام
حشر تک کے لیے قرآن سی نعمت دے دی
جاہلوں کو دیا تہذیب و تمدن کا لباس
آپ نے اپنے غلاموں کو حکومت دے دی
آپ نے صحرا نوردوں پہ کیا خاص کرم
جتنے بے گھر تھے اُنہیں آپ نے جنت دے دی
تنگ دستوں کو غنی آپ کی نسبت نے کیا
کوئی صورت نہ تھی جن کی انہیں صورت دے دی
علم کی کنجی سے ذہنوں کے دریچے کھولے
گوگنے بہروں کو بھی گویائی کی طاقت دے دی 17؎
ایک اور نعت ملاحظہ کیجیے اور سیرتِ نبوی علیٰ صاحبہا کے مضامین کے مطالعے سے اپنے ایمان کو منور فرمائیے۔
خیر کے گُل، علم کے گوہر دیے
مصطفیٰ نے سب کے دامن بھر دیے
روشنی ذہنوں کو بخشی آپ نے
جل رہے ہیں علم کے گھر گھر دیے
پیاس کے مارے ہوؤں کو آپ نے
کوثر و تسنیم کے ساغر دیے
سوچ کے دھارے بدل کر آپ نے
فکر کے طائر کو بال و پر دیے
منفرد قول و عمل سے آپ نے
فلسفے باطل کے سب رد کردیے
کر دیا سرکار نے اُن کو معاف
رنج جن لوگون نے تھے اکثر دیے
آپ نے اصحاب کی صورت حضور!
کیسے کیسے نور کے پیکر دیے
آپ کی عظمت کے روشن ہیں چراغ
بجھ گئے ہیں کتنے جل جل کر دیے
علم کی شمعیں جلا کر آپ نے
زندگی کے مسئلے حل کردیے
یہ بھی ہے اعجاز، اعجازِ رسول
آدمی کو خُلق کے جوہر دیے 18؎
جس طرح مشہور ہے کہ چاول کہ ایک دانہ چند دانے پوری دیگ کا احوال بتا دیتے ہیں کہ “دیگ کیسی ہوگی” بلاشبہ اسی مثال سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اعجاز رحمانی کے یہ چند اشعار ان کی پوری نعتیہ اور “سیرت رسول اکرم” (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے متعلق شاعری کا احوال بتادیتے ہیں کہ کم و بیش وہ کیسی ہوگی۔ سیرتِ رسول ایک بہت طویل ترین موضوع ہے۔ لیکن یہ بات ثابت ہے کہ اعجاز رحمانی نے جتنا سیرت نبوی کا مطالعہ کیا اس مطالعے کی روشنی میں سیرتِ نبوی کو منظوم بھی کیا۔ شاعری میں اکثر اقات خصوصاً جب کہ موضوعاتی شاعری لکھی جارہی ہو بہت سی پریشانیاں اور مجبوریاں دامن گیر ہوتی ہیں۔ مضمون کا لحاظ کرتے ہوئے کبھی قافیہ نہیں ملتا۔ کبھی ردیف معطل ہونے لگتی ہے۔ کبھی مترادف الفاظ نہیں ملتے۔ کبھی کسی لفظ سے سامنے کے معنیٰ لینے سے پرہیز کر کے اشاراتی معنی لینے ناگزیز ہوجاتے ہیں، اور بھی بہت سے مسائل ہیں جنہیں اہلِ فن نے واضح کیا ہے۔ لیکن زیرک شاعر عموماً ان سے عہدہ برا ہوجاتے ہیں، لیکن اگر نہ ہوسکیں تو اسے ان کی مجبوری، یا بے بسی نہیں کہا جاتا۔ اعجاز رحمانی نے بھی اپنی نعتوں اور منظوم سیرت میں کوشش کی ہے کہ وہ کہیں مجبور یا بے بس ظاہر نہ ہوں، اکا دکا جگہ پر سہو کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، جبکہ دوسری جگہ وہ درست بھی ملے۔ اعجاز رحمانی قادر الکلام شاعر ہیں۔ لُغت بھی جانتے ہیں۔ زبان و بیان کی نزاکتوں اور اصولوں سے واقف ہیں۔ تغزل کو وہ کہیں بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اگرچہ “تجاہلِ عارفانہ” ان کی شخصیت کا اٹوٹ حصّہ ہے لیکن وہ شعوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کی نعتیہ اور منظوم سیرت نگاری میں شعر کہتے وقت ان کا “تجاہلِ عارفانہ” ان پر بادشاہ نہ بن جائے۔ لیکن فطرت سے لڑنا اور اس پر کامیابی حاصل کرنا عام لوگوں میں ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اگر ان کی اس “خصوصیت” سے صرفِ نظر کرلیا جائے، اور بہت بڑے کام میں کرنا پڑتا ہے، تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اعجاز رحمانی نعت اور منظوم سیرت کے حوالے سے بلاشہ ایک قابل ذکر شاعر ہیں، اور ایک تاریخ کے تخلیق کار ہیں۔ ہزاروں شعرا کے جمِ غفیر میں سے وہ ایک شمعِ رودشن کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان سے اختلاف کم اور اتفاق زیادہ کیا جاتا ہے۔ ان کے فن پر تو تنقیدی گفتگو کی جاسکتی ہے۔ لیکن موضوع اور مواد پر، ان کے ماخذات کی بنیاد پر حرف نہیں اٹھایا جاسکتا۔ ان کی منظوم سیرت نگاری پر مختلف پہلوؤں سے تحقیقی اور تخریجی کام کیے جاسکتے ہیں۔ اور غالباً یہ ان کا حق بھی ہے۔ مرحوم بزرگ شاعر اعجاز رحمانی کو اجرِ عظیم تو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا۔ دنیا میں ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا سب سے خوبصورت ذریعہ یہ ہے کہ انہیں نہ صرف نام سے یاد رکھا جائے بلکہ ان کی تخلیقی سرمائے کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے، اور اسے وقت کی دھول میں دفن ہونے سے بچانے کی بھی کوشش کی جائے۔ ان کی نعتیہ نگارشات تقدیسی ادب کا اختصاص رکھتی ہیں۔
حوالے اور حواشی
1۔ کلیاتِ سودا، جلد دوم، 1932ء، مطبع نو لکھنؤ(بھارت) ،صفحہ 60۔
2۔ اردو شاعری میں نعت (ابتدا سے محسن تک) ، جلد اوّل، ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری، 1992ء، مطبع: نعت ریسرچ سینٹر کراچی، صفحہ 23۔
3۔ اردو کی نعتیہ شاعری، فرمان فتح پوری ڈاکٹر، 1998ء، حلقہ نیاز و نگار کراچی، صفحہ 56۔
4۔ عزیز الرحمٰن سید، اردو میں منظوم سیرت نگاری ایک تعارفی جائزہ، کراچی، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز اے 4/18، ناظم آباد 4، اشاعت: دسمبر 2020ء
5۔ رحمانی، اعجاز، “آسمانِ رحمت” (مجموعۂ نعت)، ادارۂ مدحتِ رسول ، اے 44، سیکٹر 5، ایم نارتھ کراچی، 2005ء، ص 45۔
6۔ ایضاً ص 49۔
7۔ ایضاً ، ص 51۔
8۔ ایضاً، ص 59۔
9۔ ایضاً، ص 65۔
10۔ ایضاً، ص 67۔
11۔ ایضاً، ص 68۔
12۔ ایضاً، ص 107۔
13۔ ایضاً، ص 117۔
14۔ ایضاً، ص 127۔
15۔ ایضاً، ص 138۔
16۔ ایضاً، ص 171۔
17۔ ایضاً، ص 213۔
18۔ ایضاً، ص 253۔
***